• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلم عادل حکمران کی صفات

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
مسلم عادل حکمران کی صفات


شریعت مطہرہ نے بتادیا ہے کہ عادل مسلم امیر کی اللہ کے ہاں بہت قدرومنزلت ہے اس کے لیے بہت بڑا اجر ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ ایسا امیر قیامت کے دن اللہ کے (دیئے ہوئے)سائے میں ہوگا جس دن کے کسی کو سایہ نہیں ملے گا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :سات قسم کے افراد قیامت کے دن سائے میں ہوں گے جس دن کہ صرف اللہ کے فراہم کردہ سائے کے علاوہ کہیں سایہ نہیں ہوگا۔(بخاری۔مسلم۔احمد۔نسائی)

امام عادل قیامت کے دن رحمان کے دائیں جانب نور کے منبر پر ہوگااللہ کے دونوں طرف دائیں عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:انصاف کرنے والے قیامت کے دن اللہ کے دائیں طرف ہوں گے اللہ کے دونوں طرف دائیں ہیں وہ لوگ کہ اپنی حکومت اور گھر میں عدل وانصاف کرتے تھے (مسلم ۔نسائی۔احمد) ۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :قیامت کے دن اللہ کو سب سے زیادہ نا پسند یدہ اور سخت عذاب کا مستحق ظالم امام وحکمران ہوگا(احمد۔بھیقی۔ترمذی کہا حسن غریب)۔میرے خیال میں حدیث حسن کہلائی جاسکتی ہے اس سند میں فضیل بن مرزوق الوقاصی ہے جسے ذہبی نے ضعفاء میں ذکر کیا ہے ۔ابن معین وغیرہ نے بھی اسے ضعیف کہا ہے اس روایت کے دیگر راوی بھی ہیں عطیہ العوفی کو ابن قطان اور ذہبی نے ضعیف کیا ہے ۔ابن القطان نے کہا ہے کہ حدیث صحیح نہیں ہے حسن ہے ۔طبرانی نے اسے عمرtسے مرفوعاً روایت کیا ہے جس میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے افضل مرتبے والاامام عادل رفیق ہوگااور سب سے بدترین آدمی امامِ ظالم ہوگا ۔اس سند میں ابن لہیعہ منفرد ہے اس حدیث کی طبرانی اور ابویعلیٰ میں ابوسعید سے مرفوع روایت بھی ہے جس کے الفاظ ہیں کہ قیامت میں سب سے سخت عذاب ظالم حکمران کو ہوگا۔

اگر امام تقوی کے مطابق حکومت کرتا ہے اور عدل قائم رکھتاہے تو اس کے لیے بہت بڑا اجر ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :امام ڈھال ہے جس کی آڑ میں قتال کیا جاتا ہے اور دفاع ہوتا ہے اگر وہ تقوی اور عدل سے حکومت کرتا ہے تواس کے لیے اجر ہے اور اگر اس کے مطابق حکومت نہیں کرتا تو اس کے لیے عذاب ہے ۔(بخاری۔مسلم۔ابوداؤد۔نسائی)

امام عادل کی کوئی دعا ردّ نہیں ہوتی اس لیے کہ اللہ کے ہاں اس کی قدومنزلت اور عزت ہوتی ہے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تین قسم کے افراد ہیں جن کی دعا رد نہیں ہوتی :
۱۔ امام عادل
۲۔ روزہ دار جب تک روزہ افطار نہ کرے
۳۔ مظلوم کی دعا بادلوں کے اوپر چلی جائے گی قیامت کے دن اور آسمان کے دروازے اس کے لیے کھول دیئے جائیں گے اللہ فرمائے گا مجھے میری عزت کی قسم میں تیری مدد ضرور کروں گا اگرچہ کچھ وقت کے بعد ہو(ترمذی اور اس حدیث کو حسن کہا)۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین قسم کے لوگوں کی دعا ردّ نہیں ہوتی اللہ کابہت ذکر کرنے والا۔مظلوم اور امام عادل ۔(بہیقی شعب الایمان بسند حسن)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
مسلم حکمرانوں کی ذمہ داریاں

مسلم حکمرانوں کی ذمہ داریاں

ایسے حکمران وامام پر کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں جنہیں پورا کرنا اس کے لیے لازم ہوتا ہے اس کے حقوق ہوتے ہیں جو اس کو دینے ہوتے ہیں یہ ذمہ داریاں قرآن کی متعدد آیات اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مذکور ہیں ہم اختصار کے ساتھ یہ ذمہ داریاں تحریر کررہے ہیں ۔

۱۔پہلی ذمہ داری :حق اور عدل کا قیام ، لوگوں کے تنازعات نمٹانا ،اللہ کی شریعت کو نافذ کرنا اور شرعی احکام کے مطابق حدود کا نفاذ ۔اللہ کا فرمان ہے :
اِنَّ اﷲَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَہْلِہَالا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ(نساء:۵۸)
اللہ تمہیں حکم کرتا ہے کہ امانتیں اہل کے سپرد کردو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔

یہ ہے اللہ کا حکم حکمرانوں کے لیے کہ اپنی حکومت میں وہ عدل نافذ کریں جو اس اللہ نے نازل کیا ہے ۔حدیث میں آتا ہے اللہ حاکم یا قاضی کے ساتھ ہوتا ہے جب تک کہ وہ ظلم نہ کرے جب ظلم کرلیتا ہے تو اللہ اس کو اس کے نفس کے حوالے کردیتا ہے ۔(ترمذی۔حاکم اور حسن کہا۔ابن ماجہ۔ابن حبان۔بہیقی میں لفظ ہیں قاضی کے ۔بہیقی ہی میں الفاظ جب قاضی یا حکمران ظلم کرلیتا ہے تو اللہ اس کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے اور شیطان اس کے ساتھ لگ جاتا ہے ۔ابن ماجہ میں ہے ۔جب ظلم کرتا ہے اللہ اسے اس کے نفس کے حوالے کردیتا ہے ۔حاکم میں ہے اللہ اس سے بری ہوجاتا ہے ۔ترمذی نے کہا حسن غریب ہے صرف عمران القطان کے ذریعے سے ہم اسے جانتے ہیں ۔ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں :اس راوی میں اختلاف ہے مگر یہ متروک نہیں ہے بخاری رحمہ اللہ نے اس سے استشہاد کیا ہے ۔ابن حبان اور حاکم نے بھی اس کی حدیث روایت کی ہے (تلخیص الحبیرلابن حجر عسقلانی:۴/۱۸۱)۔کسی کا قول ہے ایک دن کا عدل چالیس سال کی عبادت کے برابر ہے (ابن کثیر:۱/۷۸۲)۔اللہ کافرمان ہے:
وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَ مُہَیْمِنًا عَلَیْہِ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ وَ لاَتَتَّبِعْ اَہْوَآءَ ہُمْ۔(مائدہ:۴۸)
ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)کی طرف کتاب نازل کی ہے حق کے ساتھ جو تصدیق کرنے والی ہے اپنے سے پہلی کتابوں کی ان پر نگران ہے ان کے درمیان فیصلہ کریں اس کے مطابق جو اللہ نے نازل کیا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں ۔

ابوہریرہ اور زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہماسے روایت ہے ایک دیہاتی نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہا کہ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کریں اس کے مقابل فریق نے کہا کہ یہ صحیح کہہ رہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کتاب اللہ کے مطابق ہمارا فیصلہ کریں ۔دیہاتی نے کہا میرا بیٹا اس شخص کے گھر میں ملازم تھا اس نے اس کی بیوی سے بدکاری کرلی اب لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ تمہار بیٹا سنگسار ہوگا میں نے بیٹے کا فدیہ سو بکریاں اور ایک لونڈی دی ہیں پھر میں نے علماء سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ تمہارے بیٹے کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور اسے جلاوطن کیا جائے گا ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہارے درمیان فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کروں گا ۔لونڈی اور بکریاں تمہیں واپس مل جائیں گی تمہارے بیٹے کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور اسے جلاوطن کیاجائے گا ۔انیس(ایک آدمی تھا)تم صبح جاکر اس شخص کی بیوی سے تفتیش کرو اگر وہ اقرار کرتی ہے تو اسے رجم کردو انیس صبح گئے ،عورت نے اعتراف کرلیا اسے سنگسار کرلیا۔(بخاری ۔مسلم)

ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ مجھے کیوں کسی سرکاری کام پر نہیں لگاتے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ابوذر تم ایک کمزور آدمی ہواور یہ عہدے قیامت میں حسرت وندامت کا سبب ہوں گے سوائے اس کے جس نے اسے حق کے ساتھ لیا اور جوذمہ داریاں اس ڈالی گئی تھیں وہ اس نے ادا کردیں(مسلم ۔بیھقی۔ترغیب وترھیب)۔یہ حدیث عام نہیں بلکہ اس کے بارے میں ہے جو عہدے میں اللہ کاحق قائم نہیں کرتا عدل نہیں کرتا۔ اسی لیے امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں :یہ حدیث عہدوں سے گریز کرنے میں بنیادی حدیث ہے خاص کر اس کے لیے جو اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھاسکتا شرمندگی وندامت اس کے لیے ہوگی جو اس کا مستحق ہوگا عدل نہیں کرے گا جو عہدے کے اہل ہوگا عدل کرے گا تو اس کے لیے اجر ہے جیسا کہ دیگر احادیث سے ثابت ہے لیکن عہدہ قبول کرنے میں خطرات ہیں اسی لیے اکابر عہدوں سے گریز کرتے تھے امام شافعی رحمہ اللہ نے مامون کے کہنے کے باوجود قاضی کا عہدہ نہیں لیا۔۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے منصور کی حکومت میں یہ عہدہ قبول نہیں کیا اس طرح کے اور بھی بہت سے اکابر ہیں۔(شرح مسلم:۱۲/۲۱۱)

عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے :عہدے کا آغاز ملامت ، دوسری ندامت اورتیسرا عذابِ قیامت الا یہ کہ عدل کیا جائے ۔(طبرانی۔بزار سند صحیح ہے)

طبرانی میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے بہترین چیز عہدہ ہے جس نے حق کے ساتھ لیا اور بدترین چیز عہدہ ہے جس نے بغیر حق کے لیا اس کے لیے قیامت میں حسرت ہے۔

ابن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ جس شخص کو بندوں پر حکمران مقرر فرمادے چاہے لوگ کم ہوں یا زیادہ قیامت میں اللہ ان کے بارے میں سوال کرے گا کہ ان میں اللہ کے احکام نافذ کیے یانہیں ؟یہاں تک کہ گھر والوں کے بارے میں بھی (یہی)سوال کیا جائے گا۔(احمد)

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ ہر اس آدمی سے جسے کسی کا نگہبان وحکمران مقرر کیا ہے یہ سوال کرے گا کہ اپنے ماتحتوں کا تحفظ کیا یا نہیں ؟یہاں تک کہ آدمی سے اس کے گھر کے بارے میں سوال ہوگا۔(نسائی ۔ابن حبان)

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے دس آدمیوں پر بھی اگر کوئی امیر ہو تو اسے قیامت کے دن ہتھکڑیاں لگا کر لایاجائے گا اس کا انصاف یا تو اسے بچالے گا یااس کا ظلم اسے ہلاک کردے گا۔

ابوامامہ رضی اللہ عنہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں جوبھی آدمی دس یا ان سے زیادہ آدمیوں کاامیر بنتاہے قیامت کے دن اسے اس حال میں لایا جائے گا کہ اس کا ہاتھ اس کی گردن میں باندھا گیا ہوگایا اس کی نیکی اسے چھڑالے گی یا اس کا گناہ اس کو باندھ دے گا۔(احمد۔بہیقی۔ابویعلی۔طبرانی میں مختلف الفاط سے یہ روایت صحیح سند سے مروی ہے)

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن سب سے سخت عذاب ظالم حکمران کو ہوگا۔(طبرانی فی الاوسط۔ابونعیم فی الحلیۃ ،ابویعلی فی مسندہ)

امام ماوردی نے مسلم حکمران کی ذمہ داریاں بیان کرتے ہوئے کہا کہ: ان میں سے ایک ہے دین کا تحفظ اس کے مستقل اصولوں اور سلف کے اجماع کے مطابق کرنا۔اگر کوئی بدعتی یا شبہ میں مبتلا شخص اس سے روگردانی کرتا ہے تو اس کے سامنے دلائل واضح کرتا ہے اس کے حقوق و حدود کے مطابق اس کے ساتھ برتاؤ کرتا ہے تاکہ دین ہر قسم کے خلل سے اورامت سے گمراہی سے محفوظ رہے ۔امیر کا کام یہ بھی ہے کہ اختلاف کرنے والوں میں احکام نافذ کرے اور تنازعات کے فیصلے نمٹائے ،تاکہ انصاف کا بول بالا ہو ظلم نہ ہو اور مظلوم کمزور نہ سمجھا جائے ۔حدود نافذ کرے تاکہ اللہ کے محارم کی حفاظت کی حفاظت ہو اور بندوں کے حقوق ضائع ہونے سے محفوظ رہ سکیں ۔(احکام السلطانیۃ للماوردی:۱۵-۱۶)

ابن المبارک رحمہ اللہ کہتے ہیں :اللہ حکمران کے ذریعے ظلم ختم کرتا ہے یہ ہمارے دین ودنیا کے لیے رحمت ہے اگر خلافت نہ ہوتی تو راستے محفوظ نہ ہوتے اور طاقتور کمزوروں کو لوٹ لیتے ۔

۲۔دوسری ذمہ داری:عوام اور حکمران کے درمیان رکاوٹیں اور پردے حائل نہ ہوں بلکہ حکمران کے دروازے ہر وقت عوام کے لیے کھلے رہیں ۔عمرو بن مرہ رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں نے رسول اللہ سے صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جو بھی امام ،حکمران ضرورت مندوں اور غریبوں کے لیے بند رکھتا ہے اللہ اس کے لیے آسمانوں کے دروازے بند کردیتا ہے معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی ضروریات اور حاجات کے لیے آدمی مقرر کردیا۔(احمد۔ترمذی۔ابوداؤد۔ابویعلیٰ۔حاکم)

ابومریم ازدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ جس کو مسلمانوں کے امور کا نگہبان بنادے اور وہ ان کی ضروریات وشکایات سننے کے بجائے درمیان میں رکاوٹیں کھڑی کردے اللہ اس کے لیے رکاوٹیں پیدا کردیتا ہے ۔ایک روایت میں ہے اللہ جس کو مسلمانوں کا حاکم بنائے پھر وہ مظلوموں اورمساکین کے لیے دروازے بندکردے اللہ اس کے لیے اپنی رحمت کا دروازہ بند کردیتا ہے حالانکہ یہ اللہ کی رحمت کا زیادہ محتاج ہوتا ہے۔(ابوداؤد۔حاکم۔بیہقی۔بسند صحیح)

اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کوئی دربان نہیں ہوتا تھا جیسا کہ موجودہ دور کے حکمرانوں کے درباروں میں ہوتے ہیں ۔انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر پر بیٹھی رورہی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ سے ڈرو صبر کرو۔اس نے کہا آپ پر وہ مصیبت نہیں آئی جو مجھ پر آئی ہے اس لیے کہہ رہے ہیں اس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا نہیں تھا کسی نے اس سے کہا کہ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں وہ آپ کے دروازے پر آئی تو وہاں کوئی دربان وچوکیدار نہیں پایا اس نے کہا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا نہیں تھا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :صبر وہ ہے جوصدمہ پہنچتے ہی کیا جائے ۔(بخاری۔مسلم۔احمد۔ترمذی۔ابوداؤد۔نسائی۔ابن ماجہ۔ابویعلیٰ۔بیہقی)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت امام المسلمین عوام کے حالات کاجائزہ لیتے تھے ۔انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :رسول صلی اللہ علیہ وسلم مریضوں کی عیادت کرتے تھے جنازے میں جاتے عام لوگوں کی دعوت قبول کرتے تھے ۔(ابن ماجہ۔حاکم۔ابویعلیٰ۔ابن ابی شیبہ۔طبرانی)

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :نبی صلی اللہ علیہ وسلم کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ راستے میں تھے کہ ایک عورت نے آکر کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے آپ سے کچھ کام ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے ام فلاں کسی بھی گلی کے ایک طرف بیٹھ جا میں بات کرلیتا ہوں۔اس نے ایسا ہی کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بات کی اور جو اس کی ضرورت تھی وہ پوری کرلی ۔(احمد ۔ابوداؤد)

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:نماز کے لیے تکبیر ہوجاتی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی آدمی کے ساتھ اس کی کسی ضرورت کے لیے بات کرتے بعض دفعہ بات اتنی طویل ہوجاتی کہ بعض لوگ اکتاجاتے۔(بخاری۔احمد۔عبدالرزاق)

۳۔تیسری ذمہ داری:عوام کے فائدے کے امور سرانجام دینا ان پر نرمی وشفقت کرنا ان کی غلطیوں سے درگزرکرنا جوجس قسم کے فیصلے کا مستحق ہے عدل کے ساتھ وہ فیصلہ کرنا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سلیمان علیہ السلام سے متعلق ذکر کیا ہے :
وَ تَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَا لِیْ لَآ اَرَی الْہُدْہُدَ اَمْ کَانَ مِنَ الْغَآئِبِیْنَ(النمل:۲۰)
انہوں نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا کہ کیا ہوگیا مجھے ہدہد نظر نہیں آرہا وہ غائب ہے؟

اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ امیر کو اپنے عوام کی حالت سے باخبر رہنا چاہیے جب سلیمان علیہ السلام کی نظروں سے ہدہد کا مسئلہ اوجھل نہیں تھا تو بڑے معاملات کیسے اوجھل ہوسکتے تھے؟عمررضی اللہ عنہ نے فرمایاہے:اگر ایک فرات کے کنارے کوئی بھیڑیا کسی ہرن کے بچے کو پکڑلے تو عمر سے اس کا سوال ہوگا۔ایسے حکمرانوں کے بارے میں کیا کہاجائے گا جن کے ہاتھوں ملک کے ملک برباد ہوگئے مگر ان سے کوئی پوچھنے والا کوئی نہیں ۔انّاللہ وانّاالیہ راجعون۔(تفسیرالقرطبی:۱۳/۱۸۸)

یہ بات اس حدیث میں بھی مذکور ہے جسے ابن عمررضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اپنی ذمہ داری کے لیے جوابدہ ہے ۔امام اپنے عوام کے لیے ،آدمی اپنے گھر کے لیے ،نوکر مالک کے مال کے لیے جوابدہ ہے میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایاتھا کہ آدمی اپنے باپ کے مال کا ذمہ دار ہے اوراس کے لیے جوابدہ ہے ۔(بخاری۔مسلم)

سیار بن سلامہ ابی المنہال کہتے ہیں :میں اپنے باپ کے ساتھ ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کے ہاں گیا اس وقت میرے کانوں میں بالیاں تھیں اس وقت میں لڑکا تھا انہوں نے کہا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:امراء قریش میں سے ہوں گے تین مرتبہ یہ کہااور کہا کہ جب تک وہ تین کام کریں جب فیصلہ کریں تو عدل کریں ،جب ان رحم کی اپیل کی جائے تو یہ رحم کریں ۔ معاہدہ کریں تو پورا کریں جس نے ان میں سے ایسانہ کیا اس پر اللہ کی ،فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے ۔(احمد۔ابویعلیٰ ۔طبرانی ۔بزارالبتہ اس میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حکمرانی قریش میں رہے گی)

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرا قریش پر اور قریش کا تم لوگوں پرحق ہے کہ جب تک حکومت کریں عدل کریں ،جب امانت ان کے حوالے کی جائے دیانت سے کام لیں اور جب رحم کی اپیل کی جائے تو یہ رحم کریں ۔(احمد۔طبرانی رجالہ ثقات)

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے ارادہ کیا کہ میں ایندھن جمع کرنے کا حکم دوں اور ایندھن جمع ہوجائے پھر میں نماز کاحکم کروں ایک آدمی کو امامت کے لیے کھڑا کردوں اور پھر کچھ لوگوں کے پاس جاکر ان کے گھر جلادوں اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر ان میں سے کسی کو یہ معلوم ہوجائے کہ دووبوٹیاں یا پائے ملیں گے تو یہ لوگ عشاء میں ضرور آئیں گے۔(بخاری۔مالک۔نسائی ۔احمد۔ابن حبان۔بیہقی)

عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دعاکرتے تھے ۔اے اللہ جو شخص میری امت میں سے کسی معاملے کا نگہبان بنے اور وہ امت پر سختی کرے تو بھی اس پر سختی کر اور جو حکمران نرمی کرے اللہ توبھی اس نرمی کر۔(مسلم۔احمد)

عائذ بن عمرورضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بدترین حکمران وہ ہے جو ظالم اور سختی کرنے والا ہو۔(بخاری۔مالک)

زید بن اسلم رحمہ اللہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں عمر tنے اپنے ایک آزاد کردہ غلام ہنی کو ایک جگہ کا عامل بنایا اسے تاکید کردی کہ لوگوں پرظلم کرنے سے اپنا ہاتھ روکے رکھو،مظلوم کی بددعا سے ڈرو ،مظلوم کی بددعا قبول ہوتی ہے ۔بھیڑ بکریوں کو آنے دو ۔مجھے ابن عوف اور عثمان کے چوپایوں سے بچاؤ اگر ان کے مویشی ہلاک ہوگئے تو وہ مدینہ کھیتی اور کھجوروں کی طرف آجائیں گے اور کہیں گے امیر المومنین کیاہم انہیں چھوڑ دیں ؟گھاس اور پانی میری نزدیک سونے چاندی سے زیادہ قیمتی ہیں یہ لوگ دیکھتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ ان کا پانی اور شہر ہے اور میں نے زبردستی لیا ہے اس پر یہ جاہلیت میں جنگیں کرتے رہے ہیں اور اسلام آنے کے بعد اسی پر صلح کرچکے ہیں اللہ کی قسم اگر وہ مال نہ ہوتا جو اللہ کی راہ میں (ان پر)خرچ کرتاہوں میں ان کے شہروں کے ایک بالشت برابر حصے کی بھی حفاظت نہیں کرسکتا تھا۔(بخاری۔مالک)

حسن رحمہ اللہ کہتے ہیں :عبیداللہ بن زیاد معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کے پاس گئے وہ اس وقت تکلیف وبیماری میں مبتلا تھے انہوں نے کہامیں تمہیں ایک حدیث سنانا چاہتاہوں جو میں نے پہلے تمہیں نہیں سنائی ۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ جب کسی کو لوگوں پر حکمران بنادیتا ہے اور وہ لوگوں کے ساتھ دھوکہ کررہا ہوتومرنے کے بعد اللہ اس پر جنت حرام کردیتا ہے ۔(بخاری۔مسلم۔ابن حبان)

ایک روایت میں حسن رحمہ اللہ سے مروی ہے کہتے ہیں :معقل بن یسار tبیمار ہوئے ان کے پاس عبیداللہ بن زیاد آئے تھے انہوں نے کہا میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی حدیث تمہیں سنا رہا ہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا:جو بھی شخص مسلمانوں کا حکمران بنتا ہے ان کے لیے کوشش نہیں کرتا ،خیرخواہی نہیں کرتا وہ جنت کی خوشبونہیں پائے گا حالانکہ وہ خوشبو سو سال کی مسافت تک آتی ہے۔(احمد ۔طبرانی۔ابن ابی شیبہ۔ابن عبدالبر۔ابونعیم)

ایک روایت میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو شخص بھی مسلمانوں کا امیر بنتا ہے اور امت کے لیے خیر خواہی اور کوشش نہیں کرتا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔(مسلم ۔ابوعوانہ۔بیھقی)

ایک روایت میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:جس حکمران نے اپنے عوام کے ساتھ فریب کیا وہ جہنم میں جائے گا ۔(طبرانی۔ابوعوانہ ۔ابن عساکر)

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(دجال کاذکر کرتے ہوئے)میں تمہیں اس سے ڈراتاہوں اور ہر نبی نے اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا ہے مگر میں تمہیں اس کے بارے میں ایسی بات کرتاہوں جو کسی نبی نے نہیں کی اور وہ یہ کہ وہ بھینگا ہے جب کہ رب بھینگا نہیں ہے۔(بخاری ۔مسلم ودیگر بہت سی کتب …)

۵۔پانچویں ذمہ داری:لوگوں کے حقوق عدل کے ساتھ پورے کرنا خاص کر یتیموں اوربیواؤں ،مساکین وفقراء کے اور ان کے حالات کا خیال رکھنا۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :مرنے والے آدمی کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم سوال کرتے تھے کہ اس پر جتنا قرضہ ہے اس کے برابر (یا زائد)اس نے مال چھوڑا ہے ؟اگر جواب ہاں میں ہو تاتو جنازہ پڑھالیتے ورنہ مسلمانوں سے کہتے کہ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو جب اللہ نے فتوحات نصیب فرمائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں مسلمانوں کی جانوں کا ان سے زیادہ ذمہ دار ہوں اب جو مسلمان مرے گا اور اس پر قرضہ ہوگا تو وہ میں ادا کروں گا اورجو مرے گا اس کامال اس کے ورثاء کا ہے۔(بخاری۔احمد)

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے مال چھوڑا وہ اس کے ورثاء کا ہے او ر جس نے قرضہ چھوڑا وہ ہم پر ہے۔(بخاری۔مسلم۔ابوداؤد)

علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہما سے فرمایا:میں تمہیں نہیں دے سکتا جبکہ اہل الصفہ کے پیٹ (بھوک سے )دوہرے ہورہے ہیں اور ایک مرتبہ جب فاطمہ رضی اللہ عنہانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے غلام مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ میں اس حال میں تمہیں کیسے دے دوں کہ کہ اہل الصفہ کے پیٹ دوہرے ہورہے ہیں ۔(احمد۔بہیقی۔ابونعیم)

جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حنین سے واپس لوگوں کے ساتھ آرہے تھے لوگ آپ کے ساتھ چمٹ گئے یعنی آپ سے مال مانگنے لگے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کیکر کی جھاڑیوں کی طرف دھکیل لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کانٹوں میں الجھ گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میری چادر مجھے دیدو ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر میرے پاس ان کانٹوں کے برابر مال ہوتا تو وہ بھی میں تمہارے درمیان تقسیم کردیتا تم مجھے پھر بھی کنجوس ،جھوٹا اور بزدل نہ پاتے ۔(بخاری۔مسلم۔نسائی۔ابن حبان۔مالک۔ابویعلیٰ۔طبرانی۔بزار)
احمد نے موسیٰ بن طلحہ سے روایت کیا ہے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ منبر پر تھے اور موذن تکبیر کہہ رہا تھا جبکہ آپ رضی اللہ عنہ لوگوں سے ان کی ضروریات پوچھ رہے تھے ۔(جاری ہے)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
مسلم حکمرانوں کی ذمہ داریاں

۶۔چھٹی ذمہ داری:مسلمانوں کے مال کا تحفظ ان کی مصلحتوں کا خیال رکھنا عمالِ حکومت کا محاسبہ کرنا ۔
ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ازد قبیلے کے ایک آدمی ابن الاتبیہ کو عامل بنایا زکاۃ جمع کرنے کے لیے جب وہ (زکاۃ جمع کرکے لایا)تو کہنے لگایہ آپ کے لیے ہے اور یہ کچھ مجھے تحفے میں دیا گیا ہے۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں سے کوئی آدمی اپنے باپ کے گھر میں بیٹھے اور پھر دیکھے کہ اسے کوئی تحفہ دیتا ہے یا نہیں ؟اللہ کی قسم اس مال میں سے جو کچھ لے گا قیامت کے د ن اسے اپنی گردن پرلاد کر لائے گا اگر اونٹ ہوگا تو وہ آوازیں دے رہا ہوگااگر بکری ہوگی تو وہ آوازیں دے رہی ہوگی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر کہا اے اللہ میں نے پہنچادیا تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔(بخاری۔مسلم۔احمد ۔ابوعوانہ۔بیہقی)

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکہتے ہیں :میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے فرمایا:تم میں سے ہرشخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال ہوگا امام ذمہ دار ہے اس سے عوام کے بارے میں پوچھا جائے گا آدمی اپنے گھر میں ذمہ دار ہے اور اس کے لیے جواب دہ ہے عورت اپنے گھر میںذمہ دار ہے اوراس کے لیے جواب دہ ہے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ذمہ داری کے لیے جوابدہ ہے ۔(بخاری۔مسلم۔احمد)

۷۔ساتویں ذمہ داری :ملک کی حفاظت ،دیار اسلام کا دفاع، مال وجان کا تحفظ امت کو خطرات سے محفوظ رکھنے کی کوششیں کرنا۔
اللہ کافرمان ہے:
وَقَاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ(توبہ:۳۶)
مشرکین سے قتال کرو سب کے ساتھ کہ جب تک وہ تم سے لڑتے رہیں ۔

فرماتا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُمْ مِّنَ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوْا فِیْکُمْ غِلْظَۃً (توبۃ:۱۲۳)
ایمان والوجو کفار تمہارے ساتھ لڑتے ہیں ان سے لڑو اور تم میں ان کے لیے سختی ہونی چاہیے ۔

اللہ نے متعدد آیات میں کفا ر سے جہاد کرنے کا حکم دیا ہے اس کامدار وبنیاد امام پر ہے اس لیے کہ امام ہی فوجیں تیار کرتا ہے وہی دستے روانہ کرتا ہے ۔غنیمت وفیٔ تقسیم کرتا ہے معاہدے کرتا ہے اسی لیے علماء نے کہاہے جہاد کا دارومدار امام پر ہے اگر امام نہ ہو اور مصلحت کا تقاضا ہو تو جہاد کو مؤخر نہیں کیا جاسکتا ۔جو بہتر آدمی ہو وہ لوگوں کو اس مہم پر روانہ کرسکتا ہے۔(المغنی:۸/۳۵۲-۳۵۳)

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ بہترین اور بہادر ترین اور سب سے زیادہ سخی تھے ایک مرتبہ مدینہ والے کسی آواز کو سن کر گھبراگئے اور آواز کی سمت چل پڑے تو آگے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لارہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے جاکر معلوم کرچکے تھے او رگھوڑے کی ننگی پیٹھ پر تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں تلوار لٹک رہی تھی۔(بخاری۔ترمذی۔احمد۔بہیقی۔ابویعلیٰ)

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ایک آدمی نے پوچھا تم لوگ حنین والے دن بھاگ گئے تھے ؟براء نے کہا اللہ کی قسم رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بھاگے بلکہ جلد باز قسم کے لوگ بھاگے تھے اور قبیلہ بنوہوازن نے ان پر تیر برسائے تھے جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر تھے ۔سفید خچرنی پر تھے اور ابوسفیان بن الحارث رضی اللہ عنہ نے خچرنی کی لگام پکڑرکھی تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے میں نبی ہوں جھوٹا نہیں ہوں میں عبدالمطلب کی اولاد ہوں۔(بخاری۔مسلم۔ابوداؤد۔نسائی)

سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات غزوات میں شریک رہا اور دیگر دستوں کے ساتھ گیا ہوں ان کی تعداد نو غزوات کی ہے ایک مرتبہ ہمارے امیر ابوبکررضی اللہ عنہ تھے اور ایک مرتبہ اسامہ رضی اللہ عنہ تھے ۔(بخاری۔مسلم۔ابوعوانہ)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میرے پیچھے رہنے والوں کو میرے ساتھ نہ جانے کا دکھ ہوگااور میرے پاس اتنی جنگی سواریاں ہیں نہیں کہ سب کو دیدوں تومیں کسی غزوہ سے کبھی پیچھے نہ رہتا اللہ کی قسم میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتال کروں اور شہید ہوجاؤں پھر زندہ ہوجاؤں پھر شہید ہوجاؤں پھر زندہ ہوجاؤ پھر شہید ہوجاؤں۔(بخاری۔مسلم۔طبرانی)

جہادکے لیے دستے اور لشکر روانہ کرنا امیر کا کام ہے ۔امراء وعمال مقرر کرنا بھی امام کی ذمہ داری ہے یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے ۔جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ساحل کی طرف ایک فوجی دستہ روانہ کیا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو ان کا امیر مقرر کیا یہ تین سو افراد تھے میں بھی ان میں شامل تھا ۔ہم راستے میں تھے کہ کھانے پینے کا سامان ختم ہوگیا ابوعبیدہ نے حکم دیا کہ جتنا کھانے کاسامان ہے سب کو ایک جگہ جمع کرو اس میں سے روزانہ حسب ضرورت تھوڑا ساکھانا ہر شخص کو دیا جاتا تھا وہ بھی ختم ہوگیا اور ہمیں صرف ایک ایک کھجور ملتی تھی…(بخاری۔ابن حبان۔ابوعوانہ۔مالک)

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے :رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ موتہ میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو امیر بنایاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اگر یہ شہید ہوجائیں تو جعفررضی اللہ عنہ امیرہوں گے اگر وہ شہید ہوجائیں تو عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ ہوں گے ۔عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :میں اس غزوہ میں تھا ہم نے تلاش کیا تو جعفر کو مقتولین میں پایا ان کے جسم میں نوے سے زیادہ تیر وتلوار کے زخم تھے ۔(بخاری۔ابن حبان)

ماوردی رحمہ اللہ کہتے ہیں :امام کی ذمہ داری ہے سرحدوں کا تحفظ کہ دشمن کو اس طرح غلبہ حاصل نہ ہو کہ وہ عزتیں پامال کرے یا کسی مسلمان کاخون بہائے ۔امام پر اسلام دشمنوں سے جہاد کرنا واجب ہے تاکہ اللہ کا دین تمام ادیان (باطلہ )پر غالب آجائے ۔(الاحکام السلطانیہ:۱۶) (جاری ہے)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
یہ مسئلہ بھی اسی مضمون میں حل ہوجائے گا۔ ان شاء اللہ گھبرائیں نہیں

کیا کلمہ گو حکمرانوں کے خلاف خُروج (لڑائی) جائز ہے ؟؟؟؟

سمیر بھائی یہ سوال آپ سے ہے​
 

ابو بصیر

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 30، 2012
پیغامات
1,420
ری ایکشن اسکور
4,198
پوائنٹ
239
یہ مسئلہ بھی اسی مضمون میں حل ہوجائے گا۔ ان شاء اللہ گھبرائیں نہیں
تو کریں نہ حل میں تو شدت سے اس بات کے جواب کا انتظار کر رہا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
فاجر امیر کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کا فائدہ

فاجر امیر کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کا فائدہ


سوال:اکثر مجاہدین سوال کرتے ہیں بعض مقامات پر ہم نے دیکھا ہے کہ جہاد اور جہاد کی تیاری ایسے امراء کرواتے ہیں جن میں کچھ عیوب ونقائص ہوتے ہیں یا فسق وبدعت ہوتی ہے کیا ان امراء کی معیت میں جہاد ہوسکتا ہے ؟یا بہتر یہ ہے کہ ان کے ساتھ جہاد نہ کیا جائے بلکہ کسی اور متقی اور باکردار شخص کے ساتھ مل کر جہاد کیا جائے ؟جب مجاہد کو ان فاسقوں کے علاوہ کوئی نہیں ملتا اور ان کے ساتھ جہاد نہیں کیا جاتا تو جہاد کا سلسلہ کلیۃً ترک ہوجاتا ہے تو کیا ایسے میں ان امراء کے ساتھ مل کر جہاد کیا جاسکتا ہے ؟کیا ایسے امیر کی اطاعت بھی اسی طرح واجب ہے جس طرح متقی عادل امیر کی ہے؟

جواباس سوال کے جواب سے قبل ہم فاجر کی تعریف کرنا چاہتے ہیں فاجر کہتے ہیں جو عادل نہ ہو ۔عادل کا مطلب ہے آدمی اپنے دین میں صحیح ہو۔ماوردی رحمہ اللہ کہتے ہیں :عدل ہر اس عہدے کے لیے معتبر وضروری ہے عدل کا معنی سچ بولنا ۔دیانتداری۔محرمات سے اجتناب ۔برائیوں سے بچنا۔مشکوک کاموں سے اجتناب کرنا غصہ وخوشی میں خود پر قابو رکھنے والا دین ودنیا میں اعتدال کی راہ اپنانے والا اجمالی طور پر دوباتیں اس میں اہم ہیں

۱۔دین کے لحاظ سے اصلاح یعنی فرائض کی ادائیگی محرمات سے اجتناب کہ گناہ کبیرہ نہ کرے اور صغیرہ پر مداومت نہ کرے ۔

۲۔سنجیدگی ومتانت ۔یعنی ایسے کام کرنا کہ جو انسان کی خوبصورتی وخوبی کاباعث ہوں اور غلط اور معیوب کاموں سے اجتناب کرے ۔(منارالسبیل:۲/۴۸۷-۴۸۸)

فاسق وفاجر وہ ہے جو ظاہری طور پر گناہ کا ارتکاب کرتا ہوکبائر پر مصر رہتاہو ان سے توبہ نہیں کرتا رکتا نہیں ہے وعظ ونصیحت اس پر اثر نہیں کرتا ۔اب آتے ہیں سوال کے جواب کی طرف اس کی تین شقیں ہیں یا تین طرح کا زاویہ نگاہ ہوسکتا ہے ۔

یہ جاننا لازم ہے کہ علماء نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ فاسق فاجر کو عہدہ نہیں دیا جاسکتا اور جس آدمی کے اختیار میں عہدہ دینا ہے اس پر لازم ہے کہ کسی عہدے پرعادل اور صالح آدمی کا تقررکرے اس لیے کہ اللہ کا فرمان ہے :
قَالَ لاَ یَنَالُ عَہْدِی الظّٰلِمِیْنَ(بقرہ:۱۲۴)
میرا عہد ظالموں تک نہیں پہنچتا۔
ارشاد ہے:
اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ(قصص:۲۶)
آپ جو مزدور رکھنا چاہتے ہیں تو بہتر ہے کہ قوی اور دیانتدار ہو۔

اسی لیے علماء نے کہا ہے جس آدمی نے فسق ،فجور اور بدعت کا اظہار کیا اسے مسلمانوں کا امام نہیں بنایاجاسکتا امامت کس فاسق فاجر کو نہیں دی جاسکتی یہ لوگ تو تعزیر کے لائق ہیں جب تک توبہ نہ کرلیں اس وقت تک ان سے قطع تعلق کرنا بہتر ہے۔ اس کے لیے اللہ کا یہ فرمان بنیاد ہے :
وَ اِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرَاہِیْمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لاَ یَنَالُ عَہْدِی الظّٰلِمِیْنَ(بقرہ:۱۲۴)
اور جب ابراہیم علیہ السلام کو اس کے رب نے چند کلمات سے آزمایا اور ابراہیم uنے وہ کلمات پورے کیے تو اللہ نے فرمایامیں تمہیں لوگوں کا امام بناتا ہوں ابراہیم علیہ السلام نے کہا میری اولاد میں سے بھی بنادے اللہ نے فرمایا میرا عہد ظالموں تک نہیں پہنچتا ۔

لہٰذا ظالم وفاجر شخص کو امام نہیں بنایا جاسکتا مسلمان پر لازم ہے کہ ایسے امیر کے بارے میں بہتر ذمہ داری کا مظاہرہ کرے جب تک اس کو تبدیل کرکے صالح عادل امیر نہ آجائے ۔

۲۔اگر اس طرح نہ ہوسکے اورامیر فاسق وفاجر یا بدعتی ہو تو پھر مسلم مجاہد کو اگر موقع ملتاہے کہ اس کو چھوڑ کر کسی بہتر امیر کے ساتھ مل جائے تو ملناچاہیے او رفاجر کے ساتھ کام نہ کرے اس سے دوفائدے ہوں گے ایک توجہاد کسی صالح امیر کے تحت ہوگا دوسرا یہ کہ اس فاجر امیر کی اصلاح ہوجائے گی کہ جب اس کو چھوڑدیاجائے گا اس سے دوری اختیار کرلی جائے گی تو اسے احساس ہوجائے گا ۔جیسا کہ مسجد کا امام ہوتا ہے کہ جب کچھ لوگ اس کے پیچھے نماز پڑھنا چھوڑ کر کسی اورکے پیچھے پڑھنا شروع کردیں تو اس کا اثر اس منکر پر پڑے گا جو اس کے اندر پائی گئی ہے پھر وہ اس سے توبہ کرلے گا اس طرح اس کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کرنا شرعی مصلحت ہوتی ہے بشرطیکہ مقتدیوں کا جمعہ اور جماعت فوت نہ ہو اسی طرح جہاد میں بھی کرنا چاہیے ۔(شرح العقیدۃ الطحاویہ :۴۲۳)

اگر کسی مسلمان کو فاجر فاسق امام کے علاوہ کوئی دوسرا نہ ملے کسی بھی وجہ سے اور ا سکی معیت میں جہاد ترک کرنے سے مکمل طور پر جہاد رہ جاتا ہے تو پھر یہاں جواب کی دوشقیں بنیں گی ۔
۱۔اگر امام کے فجور اس ذات تک محدود ہوں مثلاً شراب پیتاہو مال غنیمت میں غبن کرتا ہویا اس کا فسق وبدعت ایسی نہ ہو کہ اس کی بنیاد پر جہاد کو باطل کردیا جائے توایسے امام کے ساتھ مل کر جہاد کیا جاسکتا ہے اس کے حکم کی نافرمانی نہیں کی جائے گی بشرطیکہ اس کی اطاعت اللہ رسول کی معصیت نہ ہواور جب تک یہ فجور جہاد کی مصلحت میں مخل نہ ہویہ بھی تب ہے کہ جب امام کی اصلاح کی کوشش ہر وقت جاری رہے اور اس کے لیے اصلاح کی دعا بھی کی جاتی رہے اس بنیادی مسئلہ پرپہلے دلائل دیئے جاچکے ہیں ۔یہ حکم جو میں نے ذکر کیا ہے یہ اہل سنت والجماعۃ کے ہاں تسلیم شدہ ہے خرقی کا قول ہے کہ ہرنیک وفاجر کی معیت میں جہاد ہوسکتا ہے اس قول پر ابن قدامہ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے مراد یہ ہے کہ ہر امام کے ساتھ مل کر جہاد کیا جاسکتا ہے ۔امام اہل السنۃ ابوعبداللہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ایک آدمی کے بارے میں سوال ہوا جو کہتا ہے کہ میں جہاد نہیں کروں گا اور اسے عباس کے بیٹے نے پکڑلیا ہے کیاان (عباسیوں)کو مال فیٔ پورا دیا جائے گا ؟امام احمد نے کہا یہ توبرے لوگ ہیں جاہل ہیں خود بیٹھے ہوئے ہیں ان سے کہا جائے گا تم خود تو بیٹھے ہو اور دوسروں کو جہاد کا کہہ رہے ہو تو کون جائے گا ؟کیا اسلام ختم نہیں ہوا روم کیا کرے گا ؟ابن قدامہ نے کہا کہ ابوداؤد نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم پر جہاد واجب ہے ہر نیک وفاجر امیر کے ساتھ (ابوداؤد۔ابویعلیٰ)۔ابن حجر کہتے ہیں :کہ لابأس بہ باسنادہ الا یہ کہ مکحول جو ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں تو مکحول نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا)انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تین باتیں ایمان کی بنیاد ہیں لاالٰہ الااللہ کہنے والے کو کسی گناہ کی وجہ سے کافر نہ کہیں کسی عمل کی وجہ سے کسی اسلام سے خارج نہ کریں ۔جہاد اس وقت تک جاری ہے جب سے مجھے اللہ نے مبعوث فرمایا ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب میرا آخری امتی دجال سے جنگ کرے گا اور تقدیر پر ایما ن لانا۔(ابوداؤد۔سند میں یزید بن ابی نشبہ مجہول ہے)

فاجر امام کی معیت میں جہاد نہ کرنے سے جہاد ختم ہوسکتا ہے اور کفار مسلمانوں پرغالب آجائیں گے اس میں بڑا فساد ہے ۔اللہ کا فرمان ہے۔
وَ لَوْ لاَ دَفْعُ اﷲِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ(بقرہ:۲۵۱)
اگر اللہ بعض لوگوں کو بعض کے ذریعے نہ دباتا تو زمین میں فساد ہوجاتا۔(المغنی والشرح الکبیر)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔لوگوں میں قوت کا جمع ہونا اور دیانتداری کم ہے اسی لیے عمررضی اللہ عنہ کہتے تھے اے اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں فاجر کی طاقت اور بھروسہ کی کمی سے ۔لہٰذا ہر عہدے کے لیے نسبتاً صالح آدمی کا انتخاب کرنا چاہیے ۔حرب وجنگ میں طاقتور اور دلیر آدمی کا چناؤ کرنا چاہیے اگرچہ اس میں کچھ فجور ہوں بجائے کمزورآدمی کے اگرچہ وہ دیانتدار ہو۔جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ سے دوآدمیوں کے بارے میں سوال ہوا دونوں غزوہ کے امیر ہیں ایک طاقتور فاجر ہے دوسرا صالح کمزور ہے دونوںمیں سے کس کے ساتھ مل کر غزوہ میں شریک ہواجائے ؟جواب دیا جو فاجر قوی ہے اس کی قوت مسلمانوں کی قوت ہے جبکہ اس کے گناہ اس کے لیے ہیں جبکہ نیک اورصالح کمزور آدمی جو ہے اس کی نیکی اس کے لیے ہے اورکمزوری مسلمانوں کے لیے (مصیبت بنے گی)لہٰذا طاقتور فاجر کے ساتھ غزوہ میں شریک ہونا چاہیے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ اس دین کو فاجر آدمی کے ذریعے سے قوت دے گا ۔یہ بھی روایت ہے ایسے لوگوں کے ذریعے جن کا (دین میں )کوئی حصہ نہ ہو گا۔(بخاری۔نسائی ۔ابن حبان)

اگر ایک آدمی فاجر نہیں ہے (اور طاقتور ہے)تو یہ زیادہ مستحق ہے کہ اسے جنگ کے لیے امیر بنالیا جائے اگرچہ اس سے زیادہ صالح لوگ موجود ہوں مگر اس کی طرح جنگ کے لیے کارآمد نہ ہوں۔(مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ :۲۸/۲۵۴-۲۵۵)

اس مسئلہ سے متعلق ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تاتاریوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے فرمایا ہے اگر ان تاتاریوں کے مقابلے کے لیے صحیح اور مکمل طریقے سے لوگ متفق ہوجائیں تو یہ اللہ کی رضامندی ،دین کے قیام ،کلمۃ اللہ کی بلندی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے لیے بہتر ہے بلکہ مقصود ہے اور اگر ان میں سے ایسا بھی ہو جس میں فجور وفساد نیت ہومثلاً بعض امور میں ریاست کی خلاف ورزی کرتا ہوتو پھر بھی اس کے ساتھ مل کرتاتاریوں کے خلاف قتال کرنا چاہیے اس لیے کہ تاتاریوں سے قتال نہ کرنے کی صورت میں بہت بڑا فساد ہوگا لہٰذا ان کے ساتھ قتال کرنا زیادہ بہتر ہے اس لیے کہ چھوٹے فساد کے بجائے بڑے فساد کو روکنا ضروری ہے یہ اسلام کا اصول ہے اس کی پابندی ضروری ہے اسی لیے اہل سنت والجماعت کے اصول میں ہے کہ ہر نیک وبد کے ساتھ مل کر غزوہ کیا جائے ۔بلکہ خلفاء راشدین کے بعد اکثر غزوات اسی طرح کے ہوئے ہیں ۔نبی eسے منقول ہے فرمایا:قیامت تک گھوڑوں کی پیشانی میں خیر لکھاگیا ہے اجر اور غنیمت ۔(بخاری۔مسلم۔احمد۔نسائی۔ترمذی۔ابوداؤد)

یہی مطلب اس حدیث میں بھی بیان ہوا ہے جسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جہاد اس وقت تک جاری رہے گا جب تک میری امت کا آخری آدمی دجال کے ساتھ قتال نہ کرے کسی ظالم کا ظلم یا عادل کا عدل اسے باطل نہیں کرسکتا۔مشہور حدیث ہے :میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر رہے گا اور قیامت تک کوئی انہیں نقصان نہیں پہنچاسکے گا ۔(بخاری مسلم)

ان کے علاوہ بھی نصوص ودلائل ہیں جن کی بنیاد پر اہل سنت والجماعت نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ جو بھی امیر مستحق جہاد ہے اس کے ساتھ مل کر جہاد کیا جاسکتا ہے چاہے فاجر ہو یا صالح البتہ روافض اور خوارج نے اس سے اختلاف کیا ہے ۔ایک حدیث میں مذکور ہے :عنقریب فاجر ،ظالم اور بددیانت امیر ہوں گے جس نے ان کے جھوٹے ہونے کے باوجود ان کی تصدیق کی ان کے ساتھ تعاون کیا وہ مجھ سے نہیں نہ میں اس سے ہوں(میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں )نہ ہی وہ حوض کوثر پر آئے گا اور جو ان کی تصدیق نہیں کرے گاان کے ظلم میں ان کے ساتھ تعاون نہیں کرے گا وہ مجھ سے ہے میں اس سے ہوں او روہ حوض کوثر پر عنقریب آئے گا۔(ابن ماجہ۔طبرانی۔حاکم)

جب آدمی کو یہ معلوم ہو جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کا حکم دیا ہے اور یہ امراء کے تحت ہوگا ،قیامت تک جاری رہے گا اوریہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظالموں کے ساتھ تعاون کرنے سے منع کیا ہے تو آدمی سمجھ جائے گا کہ درمیانہ راستہ جو خالص دین اسلام کا راستہ ہے وہ یہ ہے کہ جہاد کرنا ہے او ران لوگوں کی معیت میں بھی کرنا ہے جن کے بارے میں بات ہورہی ہے کہ ہر امیر کے ساتھ مل کر جہاد ہو اس لیے کہ اسلام کے لیے جہاد ضروری ہے اور جب ان کے بغیر نہیں ہوتا تو اسی طرح کرنا ہوگا البتہ ان کے ان احکام کی اطاعت کی جائے گی جو اللہ کی اطاعت کے ہوں اور جو اللہ کے معصیت کے ہوں ان میں اطاعت نہیں کی جائے گی اس لیے کہ خالق کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت نہیں ہوتی ۔یہ ہے اس امت کا بہترین طریقہ ہرمکلف پر یہ طریقہ لازم ہے یہ درمیانہ راستہ اورمسلک ہے بخلاف حروریہ کے ومرجئہ کے ۔حروریہ نے پرہیزگاری کا جو غلط اور خودساختہ راستہ اپنایا ہے وہ ان کے علم کی کمی کی وجہ سے ۔مرجئہ نے ہر قسم کے امراء کی مطلق اطاعت کا راستہ اپنایاہے ۔اگرچہ وہ نیک اورصالح نہ ہوں (یہ دونوں مسلک غلط ہیں)۔(مجموع الفتاویٰ :۲۸/۵۰۶-۵۰۸، شرح عقیدۃ الطحاویہ :۴۲۲-۴۲۳)

عقیدہ طحاویہ کے شارح کہتے ہیں۔(مصنف کا یہ قول کہ )حج اور جہاد مسلمان امراء نیک وبد کی معیت میں قیامت تک جاری رہیں گے کوئی چیز ان کو ختم یا باطل نہیں کرسکتی ۔شارح کہتے ہیں :شیخ کا مقصد روافض کا ردّ ہے جو کہتے ہیں کہ جہاد صرف اس صورت میں ہوگا جب آل محمدمیں سے ایک راضی نہ ہو اور آسمان سے آواز نہ آئے کہ اس کی اتباع کرو۔یہ قول واضح طور پر باطل ہے ان کی شرط ہے کہ امام معصوم ہو اس شرط کی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ صحیح مسلم میں عوف بن مالک الاشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تمہارے بہترین امام وہ ہیں جنہیں تم پسند کرو اور وہ تمہیں پسند کرتے ہوں وہ تمہارے لیے اور تم ان کے لیے دعائیں کرو اور تمہارے برے امام وہ ہیں جن سے تم نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کرتے ہوں تم ان پر اور وہ تم پر لعنت بھیجتے ہوں۔ میں نے کہا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم ایسے میں ان کو چھوڑ نہ دیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :نہیں جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں یاد رکھو جس نے اپنے امیر وحکمران میں اللہ کی معصیت کا کوئی کام دیکھ لیا تو اس کام وعمل سے نفرت کرے مگر امیر کی اطاعت سے نہ نکلے ۔اس حدیث میں جن امراء کا ذکر ہے امت میں اس کی مثالیں گزرچکی ہیں ۔امام کا معصوم ہونا یہ کسی نے نہیں کہا ۔(شرح عقیدہ طحاویہ :۴۳۷)

امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مسئلہ کے لیے باب باندھا ہے باب الجہاد ماض مع البر والفاجر لقول النبی رسول صلی اللہ علیہ وسلم الخیل معقود فی نواصیھا الخیر الی یوم القیامۃ۔باب ہے اس بارے میں کہ جہاد جاری ہے ہر نیک اور فاجر کی معیت میں اس لیے کہ رسول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے گھوڑوں کی پیشانی میں قیامت تک خیر ہے۔دوسری روایت میں الفاظ ہیں :گھوڑوں کی پیشانی میں قیامت تک کے لیے خیر ہے اجر یاغنیمت)

ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔اس حدیث سے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ قیامت تک گھوڑوں کی پیشانی میں خیر ہے اس سے مراد جہاد کے گھوڑے ہیں اور خیر سے مراد ہے غنیمت واجر ۔اس کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ یہ اس وقت ہوگاجب امام عادل کی امارت میں جہاد ہوگا اس فضیلت کے حصول میں اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ جہاد ظالم امام کی معیت میں ہویا عادل کی ،ترغیب جہاد کی ہے گھوڑوں کی نہیں ہے۔(فتح الباری:۶/۵۶)

فاجر امام کی معیت میں جب جہاد کیا جاسکتا ہے تو اس کے پیچھے نماز بھی پڑھی جاسکتی ہے جب اس کے علاوہ کسی اور کے پیچھے نماز پڑھنے میں فساد زیادہ ہویا اگر اس کے پیچھے نہ پڑھیں تونماز نہیں ہورہی ہو ۔یہ بھی اہل سنت کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے اس کے بارے میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔اس بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ جو حکمران عدل سے فیصلہ کرتا ہے اور عدل سے تقسیم کرتاہے تو ان معاملات میں اس کے ساتھ تعاون کیا جائے گا اسی طرح اگر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرتا ہو پھر بھی تعاون کیا جائے گا اگر اس میں بہت زیادہ فساد نہ ہوایسے لوگوں کو جمعہ وجماعت کے امام بھی بنایاجاسکتا ہے البتہ اگر صالح ونیکوکار امام دستیاب ہو تو فاجر و گناہ گار اور ظاہری بدعات کرنے والے کو امام نہیں بنانا چاہیے بلکہ حسب استطاعت ایسے لوگوں کی امامت پر اعتراض کرنا چاہیے اور اگر ایسا ہو کہ دو آدمیوں میں سے کسی کو عہدہ دینا ہوگا اور دونوں بدعتی ہیں تو دونوں میں سے نسبتاً صالح کو امام بنانا واجب ہے جب غزوہ میں ایسی صورتحال ہو کہ دوافراد میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا ضروری ہوگیا ہو اور ان میں سے ایک دیندار ہے مگر جہاد کے لیے کمزورہے اور دوسرا گناہ گار ہے مگر جہاد کے لیے مفید ہے تواس گناہ گارکو امیر بنایاجائے گا جس آدمی کی حکمرانی سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچتا ہو اسے ہی امیر بنانا چاہیے ۔(منہاج السنۃ النبویۃ :۴/۵۲۶)

العقیدہ الطحاویہ کے شارح کہتے ہیں ۔اگر کسی آدمی کی بدعت یا گناہوں کے بارے میں علم نہ ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے اس ائمہ کا اتفاق ہے یہ شرط نہیں ہے کہ مقتدی امام کا عقیدہ جانتا ہو اورنہ یہ شرط ہے کہ اس سے عقید معلوم کرے بلکہ مستورالحال کے پیچھے نماز پڑھتا رہے اگرچہ کسی ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ لی جو بدعتی ہے اور اپنی بدعت کی طرف دعوت دے رہاہے یا کھلا فسق کررہا ہے مثلاً تنخواہ دار امام جو جمعہ و عیدین وغیرہ کے لیے رکھے جاتے ہیں یا عرفہ کے دن کا امام ۔مقتدی اس کے پیچھے نماز پڑھے گایہ سلف وخلف کا مذہب ہے اگر کسی نے بدعتی اور گناہ گار امام کے پیچھے نماز وجمعہ چھوڑ دیا تو وہ اکثر علماء کے نزدیک بدعتی ہے صحیح مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پیچھے نماز پڑھے گا اس نماز کو دہرائے گا نہیں جیسے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما حجاج بن یوسف کی امامت میں نماز پڑھتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فاجر ائمہ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے اسے دوبارہ نہیں لوٹاتے تھے ۔اسی طرح عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ ولید بن عقبہ بن ابی معید کے پیچھے نماز پڑھتے تھے حالانکہ وہ شراب پیتا تھا یہاں تک کہ ایک مرتبہ اس نے فجر کی چار رکعت پڑھائی اور پھر کہا اور پڑھادوں ؟ جب عثمان رضی اللہ عنہ کامحاصرہ کیا گیا توکسی نے عثمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا آپ عوام کے امام ہیں اور یہ جو نماز پڑھا رہا ہے یہ امام فتنہ ہے ۔عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا نماز لوگوں کا بہترین عمل ہے جب لوگ یہ عمل کریں تو تم بھی ان کے ساتھ یہ عمل کرو اور جب وہ کوئی برا کام کریں تو اس سے اجتناب کرو ۔شارح عقیدہ کہتے ہیں۔اگر ایسے امام کے پیچھے نماز نہ پڑھنے سے مقتدی کی جماعت سے نمازاور جمعہ ضائع ہوتا ہو تو وہ اس کے پیچھے نماز پڑھنا ترک نہ کرے ایسا کرنے والا بدعتی اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا مخالف ہے اسی طرح اس نے معاملات نمٹانے کے لیے کسی کومقرر کیا ہواور اس کے پیچھے نماز ترک کرنے میں کوئی شرعی مصلحت نہ ہو تو ا س کے پیچھے نمازنہ چھوڑے بلکہ پڑھنا افضل ہے اگر انسان کے لیے ممکن ہو کہ کسی ظاہری منکر کے مرتکب کو امام نہ بنائے تو اس پر واجب ہے کہ ایسانہ کرے ۔اور اگر امام کسی اور نے مقرر کیا ہواور ا س کو امامت سے ہٹانا ممکن نہ ہو یااس کو امامت سے ہٹانا کسی اور بڑے شر کا سبب بنتا ہو تو چھوٹے فساد کے بدلے میں بڑا فساد نہیں اپنانا چاہیے اس لیے کہ شریعت کا مقصد شر وفساد کو ختم کرنا یا کم کرنا ہے جماعت سے نماز اور جمعہ کا ترک بڑا فساد ہے بنسبت فاجر امام کی اقتداء میں نمازپڑھنے سے خاص کر اس صورت میں کہ نماز چھوڑدینے کے باوجود امام گناہوں کو نہ چھوڑتا ہوتو ایسے میں مفسدہ ختم ہونے کے بجائے شرعی مصلحت معطل ہوجائے گی ۔(شرح عقیدۃ الطحاویۃ :۴۲۲-۴۲۳)

جواب کی دوسری شق اس صورت کے ساتھ خاص ہے کہ جب ایسے امیر کی نافرمانی جہاد کو نقصان پہنچارہی ہو یا جہاد کا مقصد حاصل نہ ہورہا ہو مثلاً یہ کہ امیر اللہ کے دشمنوں سے دوستی کرتا ہو یا جہاد کے معاملے میں بددیانتی کرتا ہویا مسلمانوں کے مرنے کی پرواہ نہ کرتا ہواور یہ بھی کسی مصلحت کے بغیر ہو۔یامسلمانوں کے خلاف قتال کررہا ہو تاکہ کسی طاغوت کی حکمرانی قائم رہے یا اسلام کے خلاف کوئی نظام قائم ہو تو ایسے لوگوں کی معیت میں جہاد نہیں کیا جاسکتا اس لیے کہ انہوں نے امارۃ کے اصل مقصود کی مخالفت کی ہے۔(قرطبی:۱/۲۷۲)

اسی لیے علماء نے فرق کیا ہے اس امیر میں کہ جس کے گناہ مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہوں۔(المغنی والشرح الکبیر :۱/۳۷۱-۳۷۲) (جاری ہے)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
مسلم حکمران ہو تو عوام کی ذمہ داریاں کیاہوں گی؟

مسلم حکمران ہو تو عوام کی ذمہ داریاں کیاہوں گی؟


ایسے حکمران کی موجودگی میں عوام کی ذمہ داریاں مختصراً یہ ہیں :

سننا اطاعت کرنا مگر معصیت میں نہیں ۔صبر کرنا اگرچہ عوام کے کچھ حقوق روک لے ۔اس کے لیے دعا کرنا ۔اس کی امارت کے تحت جہاد کرنا ۔زکاۃ اس کو دینا ۔اور شرعی آداب کے ساتھ اس کی خیر خواہی ونصیحت کرنا۔
۱۔پہلی ذمہ داری: سننا اور اطاعت کرنا مگر معصیت میں نہ ہو ۔امیر کی اطاعت کرنا عبادت ہے جس کا اجر اللہ دیتا ہے اس لیے کہ ان کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے ۔امیر کی اطاعت مسلمانوں کے اتحاد کا سبب ہے ان کی اطاعت سے لوگوں کے باہمی اختلافات واختلاف رائے ختم ہوجاتے ہیں جو اگر برقرار رہیں تو باہمی انتشار کا سبب بنتے ہیں جس کانتیجہ مسلمانوں کی کمزوری ہے ۔اسی لیے شریعت نے مسلمانوں کے اختلافات وتنازعات ختم کرنے کی نیت سے ایک امام کا تقرر مشروع قراردیا ہے اور سننے واطاعت دونوں کا بیک وقت حکم دیا ہے اللہ نے اپنے مومن بندوںکو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاہے :
وَاتَّقُوا اﷲَ وَاسْمَعُوْا وَ اﷲُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ(مائدہ:۱۰۸)
اللہ سے ڈرتے رہو سنو اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

مطلب یہ ہے کہ جو کہا جاتا ہے وہ سنو جو تمہیں کرنے کوکہا جائے وہ کرو اللہ کے حکم کی اتباع کرو ۔اللہ کا فرمان ہے:
وَ اسْمَعُوْا وَ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(بقرہ:۱۰۴)
سنو اورکافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

یعنی جو کچھ کہاجارہا ہے اسے سنو اورکتاب اللہ میں سے جو کچھ تمہیں بتایا جائے اسے یاد رکھو اور سمجھو ۔سننے کا حکم دینے کا مطلب ہے اطاعت کرنا قبول کرنا صرف کانوں سے سننا نہیں ہے جیساکہ سمع اللہ لمن حمدہ ہے کہ اللہ نے حمد قبول کرلی ۔کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول ﷺہمارے پاس آئے تو نو تھے ۔پانچ تھے چار تھے فرمایاسنو کیا تم نے سن لیا میرے بعد امیر ہوں گے جو ان کے پاس گیا ان کے جھوٹ کو سچ کہا ان کے ظلم میں ان کا ساتھ دیا اس کا مجھ سے میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے نہ ہی وہ حوض کوثر پر آسکے گا او رجو ان کے پاس نہیں گیا ان کے ظلم پر ان کی مدد نہیں کی ان کے جھوٹ کی تصدیق نہیں کی اس کا مجھ سے اور میرا اس سے تعلق ہے وہ حوض کوثر پر آئے گا۔(احمد ۔ترمذی)

ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول ﷺنے فرمایا :لوگو سنو ،سمجھو اور جان لوکہ اللہ کے کچھ بندے جو انبیاء نہیں ہیں نہ ہی شہداء ہیں مگر انبیاء وشہداء ان کے مقام ومرتبے اوراللہ سے ان کی قربت کی وجہ سے ان رشک کریں گے ۔(احمد۔دارمی)

سابقہ آیات واحادیث سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ سننا دوقسم کا ہے اورسمجھنا اور ہدایت بھی دو قسم کی ہے اس تقسیم کے لیے دلائل بھی ہیں مثلاً اللہ نے کافروں کے لیے ایک قسم کا سننا اور سمجھنا اور ہدایت ثابت کیا ہے اور ان سے ایک اور قسم کے سننے ،سمجھنے اور ہدایت کی نفی کی ہے ،پہلی قسم سے مراد ہے ان پر حجۃ قائم کرنا یعنی حجۃ کو سمجھنا صحیح طریقہ سے ۔جبکہ دوسری قسم جس کی نفی کی گئی ہے سے مراد وہ سننا ،سمجھنا اور ہدایت ہے جومومنوں کو حاصل ہے یعنی حجۃ قبول کرنا اس پر ایمان لانا اس سے فائدہ لینا اس کی تفصیل یوں بیان کی جاسکتی ہے ۔

سماعت کی دوقسمیں ہیں :ایک ہے سماع ادراک اللہ نے کافروں کے لیے یہی سماعت ثابت کی ہے :
قَالُوْا سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا وَ اُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْعِجْلَ(بقرہ:۹۳)
کہتے ہیں ہم نے سنا اور نافرمانی کی ان کے دلوں میں بچھڑے کی محبت بیٹھ گئی ہے۔

یَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا وَاسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ(نساء:۴۶)
کہتے ہیں ہم نے سنا اور نافرمانی کی سنو نہ سناجائے ۔

وَ لاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ ہُمْ لاَ یَسْمَعُوْنَ(انفال:۲۱)
ان کی طرح مت ہو نا جو کہتے ہیں ہم نے سنا حالانکہ وہ نہیں سنتے۔

وَ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ ٰاٰیتُنَا قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَآئُ لَقُلْنَا مِثْلَ ہٰذَآاِنْ ہٰذَآ اِلَّا ٓٓ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ(انفال:۳۱)
وہ کہتے ہیں ہم نے سنا اگر ہم چاہیں تو ہم بھی اس طرح کا کلام بناسکتے ہیں یہ صرف پہلے لوگوں کے قصے ہیں ۔

وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اﷲِ(توبۃ:۶)
اگرکوئی مشرک آپ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دیں یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔

یَّسْمَعُ ٰایٰتِ اﷲِ تُتْلٰی عَلَیْہِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَکْبِرًا کَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْہَا(جاثیۃ:۸)
اللہ کی آیات سنتا ہے جو اس پر پڑھی جاتی ہیں پھر تکبر کرتاہے جیسے اس نے سنی ہی نہیں۔

اس طرح کی دیگر آیات بھی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کفا رکانوں سے سنتے ہیں اور ایک وقت میں قلبی سماع کی نفی کی گئی ہے یہ دوسری قسم کا سماع ہے یعنی قبول کرنے ، رہنمائی حاصل کرنے ،فائدہ اٹھانے کا سماع ہے اس قسم کے سماع کی اللہ نے کفا ر سے نفی کی ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے :
وَ لَوْ عَلِمَ اﷲُ فِیْہِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَہُمْ وَ لَوْ اَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوا وَّ ہُمْ مُّعْرِضُوْنَ(انفال:۲۳)
اگر ان میں خیرجانتا (یعنی اللہ کو معلوم تھا کہ ان میں خیر نہیں ہے)تو انہیں سنوا دیتا اگر انہیں سنواتا تو وہ منہ پھیر لیتے اور اعراض کرنے والے ہوتے ۔

اللہ کا فرمان ہے:
وَ لاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ ہُمْ لاَ یَسْمَعُوْنَ(انفال:۲۱)
ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو کہتے ہیں ہم نے سنا حالانکہ وہ نہیں سنتے ۔

فرماتاہے:
وَ قَالُوْا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِیْٓ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ(ملک:۱۰)
کہیں گے اگر ہم سنتے یا سمجھتے تو ہم جہنمیوں میں سے نہ ہوتے ۔

اللہ نے ان کے لیے کانوں کی سماعت یعنی ادراک ثابت کردیا ہے جیسے :قالوا قد سمعنااور قبولیت کی سماعت کی نفی کی ہے کہ وھم لایسمعون اور لوکنا نسمع اسی طرح اللہ یہ فرمان بھی اسی سے متعلق ہے:
وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْکَ وَجَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ اَکِنَّۃً اَنْ یَّفْقَہُوْہُ(انعام:۲۵)
ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو آپ (e)کی بات کو غور سے سنتے ہیں مگر ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں کہ اسے سمجھ نہ سکیں ۔

عقل کی دوقسمیں ہیں :
1 وہ عقل جو دیوانگی وجنون کی ضد ہے جس کی وجہ سے یا موجودگی کی بناپر ہی شرعی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اسی عقل کے ذریعے سے انسان معانی ومقاصد کو سمجھتا ہے یہ عقل کفار کے پاس تھی وہ مخاطب کی بات کو سمجھ لیتے تھے جیسا کہ اللہ کافرمان ہے :
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَکُمْ وَ قَدْ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلٰمَ اﷲِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَہٗ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَ ہُمْ یَعْلَمُوْنَ(بقرہ:۷۵)
کیا تم توقع رکھتے ہو کہ یہ تمہاری بات کا یقین کرلیں گے حالانکہ ان میں سے کچھ لوگ اللہ کا کلام سنتے تھے پھر سمجھنے کے بعد اس میں تحریف کرتے تھے حالانکہ وہ جانتے تھے۔

اس آیت میں اللہ نے کفار کی سماعت ثابت کی ہے یہ بھی بتلادیا ہے کہ وہ اللہ کے کلام کا معنی بھی سمجھتے تھے لیکن اس سے فائدہ نہ اٹھاسکے ۔

2 دوسری قسم کی عقل ہے دلی طور پر کسی چیز کی سمجھ وادراک اور اس کے ساتھ خطاب کی قبولیت اور ا س سے فائدہ حاصل کرنا بھی لازم ملزوم ہے اللہ نے اس قسم کی عقل کی کفار سے نفی کی ہے جیسا کہ آیت گزری ہے :وَ قَالُوْا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ …یا جیسا کہ فرمان ہے :
صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لاَ یَعْقِلُوْنَ(بقرہ:۱۷۱)
گونگے بہرے اور اندھے ہیں عقل نہیں رکھتے ۔

اسی طرح اللہ کا فرمان ہے:
اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ اِنْ ہُمْ اِلَّا کَالْاَنْعَامِ(فرقان:۴۴)
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سن رہے ہیں یا سمجھ رہے ہیں یہ لوگ تو صرف چوپائے ہیں ۔

ان کے علاوہ دیگر آیات جن میں یہ بتلایا گیا ہے کہ کفار کی عقل نہیں ہے یہ بھی اللہ نے بتلایا ہے کہ ان کی عقل بطور عذاب وسزاء چھین لی گئی ہے کہ یہ اللہ کے دین سے اعراض کرتے تھے۔ جیسا کہ فرمان ہے :
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ فَاَعْرَضَ عَنْہَا وَ نَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدٰہُ اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ اَکِنَّۃً اَنْ یَّّفْقَہُوْہُ وَ فِیْٓ ٰاذَانِہِمْ وَقْرًا وَ اِنْ تَدْعُہُمْ اِلَی الْہُدٰی فَلَنْ یَّہْتَدُوْآ اِذًا اَبَدًا(کہف:۵۷)
کون ہے بڑا ظالم اس سے جس کو اپنے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی گئی اور اس نے اعراض کرلیا اوربھول گیا جو کچھ اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا تھا ہم نے ان کے دلوں پر تالے ڈال دیئے ہیں کہ وہ سمجھ نہ سکیں اورکانوں میں ڈاٹ اگر آپ ان کو ہدایت کی طرف بلائیں تو یہ کبھی راہ نہ پائیں گے۔

اللہ نے یہ بتایا کہ ان کے دلوں اور کانوں پر مہر ان کے لیے بطور سزاء کے لگائی گئی ہے اس لیے کہ وہ اللہ کی آیات میں تدبر کرنے سے اعراض کرتے تھے ان سے نصیحت حاصل نہیں کرتے تھے ۔ہدایت کی دوقسمیں ہیں :
۱۔ رہنمائی کرنا راہ دکھانا یہ ہدایت کفار کو دی گئی یعنی راستے کی طرف ان کی رہنمائی کردی گئی تھی جیسا کہ فرمایا ہے :
وَ اَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَیْنٰہُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمٰی عَلَی الْہُدٰی(فصلت:۱۷)
اور ثمود کو ہم نے راہ دکھائی مگر انہوں نے اندھے پن کو اختیار کرلیا ہدایت کے بدلے

انسان کے بارے میں اللہ نے یہی فرمایا :
اِنَّا ہَدَیْنٰہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوْرًا(دھر:۳)
ہم نے اس کو راستہ دکھایا اب چاہے یہ شکر گزار بنے یا ناشکرا۔

ایک اور جگہ ارشاد ہے:
وَّ لِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ(رعد:۷)
اور ہر قوم کے لیے ہدایت دینے والا ہے ۔

ان کے علاوہ بھی اس مفہوم کو واضح کرنے والی آیات ہیں یہ ہے وہ ہدایت جو ثمود کو ،تمام جنات اور انسانوں کافروں ومومنوں کو دی گئی یعنی اللہ نے ان سب کو اطاعات ومعاصی کی نشان دہی کردی اپنی پسند ناپسند سے آگاہ کردیا ۔

۲۔ دوسری قسم کی ہدایت ہے قبول کرنے ، اپنانے والی ہدایت اس قسم کی ہدایت کی اللہ نے کفار سے نفی کی ہے جیساکہ فرمان ہے۔
اِنَّکَ لاَ تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ ٰلکِنَّ اﷲَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ وَ ہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ(قصص:۵۶)
(اے محمدe)آپ ہدایت نہیں دے سکتے جس کو چاہتے ہیں لیکن اللہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔

دوسری جگہ ارشاد ہے:
لَیْسَ عَلَیْکَ ہُدٰہُمْ وَٰلکِنَّ اﷲَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآء(بقرہ:۲۷۲)
آپ کے ذمہ ان کی ہدایت نہیں ہے لیکن اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔

اللہ نے واضح کردیا کہ نبی ﷺصرف راہ دکھانے کے ذمہ دار ہیں جیسا کہ فرمان ہے۔
اَفَاَنْتَ تَہْدِی الْعُمْیَ وَ لَوْ کَانُوْا لاَ یُبْصِرُوْنَ(یونس۔۴۳)
کیا آپ اندھوں کو راستہ دکھائیں گے اگر وہ نہیں دیکھتے ۔

اسی طرح اللہ کافرمان ہے:
وَ مَآ اَنْتَ بِہٰدِ الْعُمْیِ عَنْ ضَلٰلَتِہِمْ(روم:۵۳)
آپ اندھے کو اس کی گمراہی سے ہدایت کی طرف نہیں لاسکتے ۔

اس طرح کی دیگر آیات بھی اس مقصد کو واضح کرتی ہیں اللہ نے کفار کے لیے جو سماعت اور رہنمائی ثابت کی ہے وہ ان پر حجت قائم کرنے کے لیے ہے اس لیے کہ جو شخص کسی بھی وجہ سے خطاب اور بات نہ سمجھ سکے اس کا حساب کیا جائے گا ؟ان کفار سے جس ہدایت کی نفی کی گئی ہے اس سے دوسری قسم یعنی قبول کرنے اور اپنانے کی ہدایت مراد ہے ۔یہی وہ ہدایت ہے جو اللہ نے مومنوں پر بطور احسان کے بیان کی ہے فرماتا ہے:
اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْآ اِلَی اﷲِ وَ رَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اَنْ یَّّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا(نور:۵۱)
مومنوں کو جب اللہ ورسول (e)کے فیصلے کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں ہم نے سن لیااور مان لیا۔

دوسری جگہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَ الَّذِیْنَ اہْتَدَوْا زَادَہُمْ ہُدًی وَّ ٰاٰتہُمْ تَقْوٰہُمْ(محمد:۱۷)
جن لوگوں نے ہدایت قبول کی (اللہ نے)ان کی ہدایت اور تقوی میں اضافہ کردیا۔

یہاں ہدایت سے مراد توفیق اور مدد ہے جو کسی بھلائی کی کسی کو دی جائے اور کسی کے دل میں پیدا کی جائے ۔اطاعت کا حکم اللہ کے اس فرمان میں ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ(نساء:۵۹)
اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (e)کی اطاعت کرو اور اولی الامر کی۔

قرآن میں اس طرح کا حکم بہت سی جگہ آیا ہے ۔ایک جگہ اللہ نے سننے اورماننے دونوں کا ایک ساتھ ذکرکیا ہے۔
فَاتَّقُوا اﷲَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اَنْفِقُوْا خَیْرًا لِاَنْفُسِکُمْ(تغابن:۱۶)
سنو اور اطاعت کرو اور خرچ کرو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔

اطاعت کا مطلب ہے حکم کو قبول کرنا اس کے مطابق عمل کرنا اس کی ضد معصیت ہے یعنی حکم کی مخالفت کرنا اس کو ردّکرنا آیت کامفہوم ہے جس بات کی تمہیں نصیحت کی جاتی ہے اسے سنو جوحکم دیا جاتا ہے اسے مانوجس سے منع کیا جاتا ہے اس سے رک جاؤ۔مقاتل کہتے ہیں۔یہاں سننے سے مراد ہے توجہ سے سنو جو کچھ اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے کتاب اللہ میں سے اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کرو جو بھی حکم دیں یا منع کریں کسی نے کہا ہے یہاں سننے سے مراد ہے قبول کروجو کچھ سنتے ہو۔اولی الامر کی اطاعت کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے : یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ(نساء:۵۹)1۔

اولی الامر سے مراد وہ ہیں جن کی اطاعت اللہ نے لازم قرار دی ہے چاہے حکمران ہوں یا علماء جمہور سلف وخلف مفسرین اور فقہاء کا یہی مذہب ہے ۔(شرح نووی مسلم:۱۲/۴۶۴-۴۶۵،ابن کثیر:۱/۴۴۵)

اس آیت کریمہ میں اللہ نے علماء وحکمرانوں میں سے اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا ہے ساتھ ہی وضاحت کردی ہے کہ ان کی اطاعت اس بات سے مشروط ہے کہ وہ مسلمان ہوں(مِنْکُمْ)اسی لیے اہل علم نے کہا ہے کہ جن اولی الامر کی اطاعت واجب ہے ان سے مراد علماء اور فقہاء اور وہ حکمران ہیں جو اللہ کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں وہ حکمران مراد نہیں ہیں جو منکر کا حکم کرتے ہیں اور معروف سے روکتے ہیں جو لوگوں کو زبردستی کفر اپنانے پر مجبور کرتے ہیں یہ وہ اولی الامر نہیں جن کی اطاعت واجب ہے۔بلکہ اولی الامر سے مراد وہ علماء ہیں جو اپنے علم پر عمل کرتے ہیں معروف کا حکم کرتے ہیں منکر سے منع کرتے ہیں ۔وہ امراء حق ہیں جو اللہ ورسول کے حکم پر عمل کرتے ہیں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرتے ہیں ۔جبکہ ظالم ،فاسق اور گناہ گار لوگ امام وحکمران نہیں بن سکتے ۔جیسا کہ اللہ کافرمان ہے: لاَ یَنَالُ عَہْدِی الظّٰلِمِیْنَ(بقرہ:۱۲۴)میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا۔اس پر علماء کا اتفاق ہے یہ ہوں یا کوئی اور معصیت میں ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی اس لیے کہ اللہ کافرمان ہے۔خالق کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت نہیں ہے ۔امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔جابر بن عبداللہ ،ابن عباسرضی اللہ عنہم،مجاہد،عطاء،حسن بصری اور ابوالعالیہ رحمہم اللہ کہتے ہیں ۔کہ اولی الامر سے مرد اہل القرآن والعلم والفقہ ہیں امام مالک رحمہ اللہ نے بھی یہی کہا ہے ۔ضحاک کابھی یہ قول ہے ۔مجاہد کہتے ہیں۔اس سے مراد علماء وفقہاء ہیں۔فان تنازعتم کامطلب ہے تنازعات کتاب اللہ وسنت رسول اللہ کے پاس لیجایا کرو اولی الامر کے پاس مت لیجایاکرو۔عبداللہ بن احمدرحمہ اللہ کہتے ہیں ۔وہ فقہاء ودیندار لوگ مراد ہیں جو لوگوںکو دین سکھاتے ہیں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرتے ہیں اللہ نے اپنے بندوں پر ان کی اطاعت واجب کردی ہے ۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور میمون بن مہران رحمہ اللہ مقاتل اورکلبی سے روایت ہے اولی الامر سے مراد ہے فوجی دستوں کے امیر ۔سہل بن عبداللہ کہتے ہیں ۔لوگ اس وقت تک بھلائی پر رہیں گے جب تک وہ علماء اور بادشاہ کی تعظیم کرتے رہیں گے جب لوگ ان دونوں کی تعظیم کریں گے اللہ ان کی دنیا وآخرت کی اصلاح کرے گا اور اگر یہ ان دونوں کو حقیر جانیں گے اللہ ان کی دنیا وآخرت برباد کردے گا ۔(تفسیر القرطبی:۵/۳۶۲)

معلوم ہوتا ہے کہ اولی الامر سے حکمران وعلماء دونوں مراد ہیں اس لیے کہ حکمران فوج کے امور اور دشمن سے جنگ کرنے کی تدابیر کرتے ہیں جبکہ علماء شریعت کا تحفظ کرتے ہیں اورحلال وحرام جائز وناجائز کے بارے میں بتاتے ہیں اس لیے اللہ نے ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے عادل حکمرانوں اورعلماء کی بات ماننے کا حکم دیا ہے ۔امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔اولی الامر سے مراد ائمہ وبادشاہ اور قاضی ہیں اور ہر وہ عہدے دار جس کے پاس شرعی عہدہ ہو طاغوتی نہ ہو ۔(فتح القدیر:۱/۴۸)

اس آیت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اللہ ورسول کی اطاعت ہر حال میں کی جائے گی جبکہ اولی الامر میں سے ایسے بھی ہوسکتے ہیں جن کی اطاعت کی جائے اور ایسے بھی ہوں گے جن کی اطاعت نہ کی جائے (فان تنازعتم)میں یہ بتایا گیا ہے کہ حکمران اگر حق نہیں جانتے تو ان کی اطاعت مت کرو اور جس میں تم باہم اختلاف کرو اسے اللہ ورسول ﷺکے حکم کی طرف لوٹا دو۔(فتح الباری:۱۳/۱۱۲)

۔ ابن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے رسول ﷺنے فرمایا سنو اور اطاعت کرو جب تک معصیت کا حکم نہ دیا جائے اگر معصیت کا حکم کاحکم دیا جائے تو نہ سننا ہے نہ اطاعت کرنی ہے۔(بخاری۔مسلم۔احمد)

۔ ابن عمر رضی اللہ عنہماسے ہی مرفوعاً روایت ہے ۔آپ ﷺنے فرمایا:جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی ۔امام ڈھال ہوتا ہے جس کی آڑ لے کر قتال کیا جاتا ہے اگر امیر تقوی اور عدل کے ساتھ حکم کرتا ہے تو اس کے لیے اجر ہے اگر ایسا نہیں کرتا تو اس کے لیے وبال ہے۔(بخاری۔مسلم۔احمد۔نسائی)

اس حدیث میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ ہر وہ امیر مراد ہے جو آپ ﷺکی شریعت کے مطابق امیر بناہو۔ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں :جس نے میرے امیر کی اطاعت کی ایک روایت میں الامیر ہے دونوں کامطلب یہ ہے کہ ہر وہ امیر جو حق اور عدل کے ساتھ فیصلہ کرتا ہوتو وہ شارع علیہ السلام کا امیر ہے اس لیے کہ وہ شریعت کاذمہ دار ہے ۔اس حدیث سے اولی الامر کی اطاعت کا وجوب ثابت ہوتا ہے بشرطیکہ وہ معصیت کا حکم نہ کریں امیر کی اطاعت کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ افتراق وفساد نہ ہو۔(فتح الباری:۱۳/۱۱۲)

۔ آپ ﷺکا فرمان ہے سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پر ایک حبشی غلام کو ہی کیوں نہ امیر بنادیا جائے ۔(بخاری۔ترمذی۔نسائی۔ابن ماجہ۔احمد۔طبرانی)

یعنی عامل ،شہر کا امیر ،ملک کا امیر ،یا نماز کا امام ،خراج وصول کرنے کا امیر یا جنگ کا امیر بنادیا جائے ۔خلفاء کے زمانے میں بعض لوگوں کے پاس تینوں عہدے بیک وقت ہوتے تھے ۔(جنگ ۔امامت نماز اور خلافت عامہ)یا بعض عہدے کسی اور کے پاس کچھ کسی اور کے پاس ہوتے تھے ۔ابوذر ضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے خلیل ﷺنے مجھے وصیت کی ہے کہ سنوں اور اطاعت کروں اگرچہ کسی حبشی غلام کو امیر بنالیا جائے جس کے ہاتھ پاؤں کٹے ہوئے ہوں۔(ابن ماجہ۔حاکم۔بہیقی)

یحییٰ بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا۔(حجۃ الوداع کا خطبہ دیتے ہوئے)اگرچہ تم پرحبشی غلام امیر بنادیا جائے جب تک وہ کتاب اللہ کے مطابق تمہاری قیادت کررہاہو۔(احمد۔ابوعوانہ۔طبرانی)

ایک روایت میں لفظ ہے اگرچہ اس کا سر کشمش کی طرح ہو علماء کہتے ہیں اس کا معنی ہے سر چھوٹا ہو جیسا کہ عام طور پر حبشیوں میں ہوتا ہے بعض نے کہا کہ کالے رنگ کی وجہ سے کہا ہے کسی نے کہا کہ چھوٹے اور گھنگریالے بالوں کی وجہ سے کہا ہے ۔اس سے یہ بھی استدلال کیا گیاہے کہ ظالم بادشاہوں کے خلاف بھی بغاوت نہیں کرناچاہیے اس لیے کہ اس میں ان کی برائیوں کی بنسبت زیادہ بڑا نقصان ہے۔(فتح الباری:۱۳/۱۲۲)

۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی ﷺنے فرمایا ہے َمیں تمہیں تین چیزوں کا حکم کرتاہوں اور تین سے منع کرتا ہوں حکم یہ کرتا ہوں کہ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ شریک نہ کرو۔اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو تفرقہ میں مبتلا نہ ہو۔سنواور اطاعت کرو اللہ جس کو تمہارے امور کا ذمہ دار بنائے ۔(ابن حبان)

۔ علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی ﷺنے ایک فوجی دستہ روانہ کیا اور ان پر ایک انصاری کو امیر بنایا انہیں اس کی اطاعت کا حکم دیا ۔اس امیر کو (کسی وجہ سے)غصہ آیا اس نے کہا کیا نبی ﷺنے تمہیں میری اطاعت کا حکم نہیں دیا ہے ؟انہوں نے کہا کیوں نہیں ؟امیر نے کہا لکڑیاں جمع کرو اور اس میں آگ لگاؤ انہوں نے ایسا کرلیا ۔امیرنے کہا آگ میں کود جاؤ۔ان لوگوں نے ارادہ کرلیا مگر پھر ایک دوسرے کوروکنے لگے یہ کہہ کر نبی ﷺکے پاس ہمارے آنے اورایمان لانے کا تو مقصد ہی یہ تھا کہ ہم آگ سے محفوظ ہوجائیں وہ اسی طرح رہے یہاں تک کہہ آگ بجھ گئی امیر کا غصہ بھی رفع ہوگیا تھا۔ یہ بات نبی ﷺتک پہنچی تو آپ ﷺنے فرمایا:اگر یہ لوگ آگ میں کودجاتے تو قیامت تک اسی میں رہتے اطاعت صرف معروف میں ہے۔(بخاری۔مسلم۔احمد۔ابوعوانہ۔ابویعلیٰ۔بہیقی۔ابن ابی شیبہ)

۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول ﷺسے روایت کرتے ہیں آپ ﷺنے فرمایا:مسلمان پر سننا اور اطاعت کرنا ہے چاہے پسند کرے یا نہ کرے جب تک کہ معصیت کا حکم اسے نہ دیا جائے ۔اگر معصیت کا حکم دیا گیا تو نہ سننا ہے نہ اطاعت ہے۔

۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی ﷺنے فرمایا ۔تم پر تنگی ،آسانی ،خوشی اورناخوشی اور تم پر ترجیح دینے کے باوجود سننا اور اطاعت کرنا ہے ۔(مسلم۔نسائی۔ترمذی۔احمد)

۔ ابن عمررضی اللہ عنہماسے روایت ہے نبی ﷺنے فرمایا۔مسلمان پر پسند وناپسند میں اطاعت ہے جب تک معصیت کا حکم نہ دیاجائے اگر معصیت کا حکم دیا جائے تونہ سننا ہے نہ اطاعت ہے۔(بخاری۔مسلم۔نسائی۔ترمذی)

۔ جنادہ بن ابی امیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔ہم عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے ہاں ان کی عیادت کرنے گئے ہم نے کہااللہ آپ کو صحت دے ہمیں رسولﷺکی کوئی حدیث سنائیں ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں رسول ﷺنے بلایا اور ہم سے بیعت لی سننے اور اطاعت کرنے پر خوشی وناخوشی میں تنگی وآسانی میں اور ہم پر ترجیح کے باوجود اور یہ کہ ہم حکمرانوں سے تنازعہ نہ کریں الا یہ کہ ظاہر کفر دیکھ لیں جس کی اللہ کی طرف سے دلیل ہو۔(بخاری۔مسلم۔احمد ۔ابن حبان)

ایک روایت میں ہے اور یہ کہ ہم حق کا ساتھ دیں جہاں بھی ہوںاس بارے میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہ کریں ۔خوشی و ناخوشی کا مطلب ہے کہ ہر حال میں اللہ کے حکم کی پیروی کرنی ہے ۔ابن التین کہتے ہیں:اس کا مطلب ہے کہ (جنگ کے لیے )نکلنے میں سستی ہو یا مشقت ہو ۔طیبی کہتے ہیں:ہم نے اس بات پر عہد کیا کہ آسانی وتنگی ۔تکلیف وخوشی ہرحال میں ۔لفظ بایعنامفاعلہ کا صیغہ ہے جس میں ایک تو مبالغہ ہے دوسرا یہ کہ قیامت میں ان کو ان امور کے بدلے میں شفاعت اور اجر ملے گا۔مسند احمد میں لفظ ہے اگرچہ تم خود کو زیادہ مستحق سمجھتے ہو ۔ابن حبان میں ہے اگرچہ یہ حکمران تمہارے مال کھائیں اور تمہاری پیٹھ پر کوڑے ماریں ۔یہ کہ ہم حق کا ساتھ دیں جہاں بھی ہوں اس میں کسی ملامت کی پرواہ نہ کریں یعنی کسی بات کا خوف نہ کریں اس میں اس بات کی ترغیب یا حکم ہے کہ منکر کو ختم کرناہے اگر صرف ملامت کا اندیشہ ہو اور اس کے علاوہ کسی تکلیف کا نہ ہو تو ہاتھ سے ختم کرے ورنہ زبان سے ورنہ دل سے ۔کفار سے جہاد ہر صورت میں جاری رہنا چاہیے جب تک اللہ کا دین غالب نہ آجائے ۔اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا جہاد کرنے کا حق ہے ۔اسی طرح اس شخص کے خلاف جہاد کرناچاہیے جو حق سے عناد رکھتا ہے ۔ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے رسول ﷺنے فرمایا۔جس نے اپنے امیر میں کوئی ناپسندیدہ بات دیکھی تو اس کو چاہیے کہ صبر کرے اس لیے کہ اگر جماعت سے ایک بالشت برابربھی علیحدہ ہوا اور مرگیا تو جاہلیت کی موت مرے گا ۔(بخاری۔مسلم)

۔ ابن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے نبی ﷺنے فرمایا ۔جس نے اطاعت سے ہاتھ کھینچ لیا وہ قیامت میں اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہ ہوگی اور جو (اس حال میں )مرگیا وہ جاہلیت کی موت مرا۔(مسلم۔بہیقی ۔طبرانی)

عبدالرحمن بن عبد رب الکعبہ کہتے ہیں۔میں مسجد میں داخل ہوا تو عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہماکعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے لوگ ان کے پاس جمع تھے میں بھی ان کے پاس آکر بیٹھ گیا انہوں نے بتایا کہ ہم ایک سفر میں رسول ﷺکے ساتھ تھے ایک جگہ ہم نے پڑاؤ ڈالا تو کوئی تیر صحیح کرنے لگا کوئی نیزے ۔کہ اتنے میں رسول ﷺکی طرف سے کسی آواز دینے والے نے آواز دی کہ جمع ہوجاؤہم رسول ﷺکے پاس جمع ہوگئے تو آپ ﷺنے فرمایا مجھ سے پہلے جو بھی نبی گزرا اس پر لازم تھاکہ جو بھلائی جانتا ہے وہ اپنی امت کو بتائے اور ہر وہ شر جسے وہ جانتا ہے اس سے ان کو خبردار کرے اس امت کے اول لوگوں میں عافیت ہے اورآخر کے لوگ آزمائش میں ہوں گے اور ایسے کام کریں گے جو تمہیں ناپسند ہیں ایک کے بعدایک فتنے آئیں گے مؤمن کہے گایہ میری بربادی ہے پھر وہ فتنہ ختم ہوجائے گاتو مومن کہے گا یہ اچھا وقت ہے ۔جو شخص جہنم سے آزادی اور جنت میں داخل ہونا چاہتاہے تو اس کو موت ایمان کی حالت میں آنی چاہیے اور لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کرے جو خود اپنے ساتھ ہونا پسند کرتاہے جس نے امام کی بیعت کی اس کے ہاتھ میں ہاتھ دیدیا تو حسب استطاعت اس کی اطاعت کرے اگر دوسرا کوئی امام آکر اس سے لڑے یا حکومت چھیننے کی کوشش کرے تو اس کی گردن ماردو ۔میں ان کے قریب ہوگیا اور کہا کہ اللہ کی قسم کھا کر بتاؤ یہ تم نے رسول ﷺسے سنا ہے ؟اس نے کہا میرے کانوں نے سنا ہے اور دل نے یاد رکھا ہے میں نے کہا یہ تمہار اچچازاد معاویہ رضی اللہ عنہ ہمیں حکم دیتاہے کہ ہم اپنا مال آپس میں باطل طریقے سے کھائیں ایک دوسرے کو قتل کریں جبکہ اللہ کا فرمان ہے کہ :ایک دوسرے کامال باطل طریقے سے مت کھاؤالا یہ کہ باہمی تجارت ہواور ایک دوسرے کو قتل مت کرو اللہ تم پر رحم کرنے والا ہے۔وہ خاموش رہے پھرکہا ان کی اطاعت کرو اللہ کی اطاعت میں اور اللہ کی معصیت میں ان کی اطاعت مت کرو۔(مسلم۔نسائی۔بہیقی)

۔ عوف بن مالک رضی اللہ عنہ رسول ﷺسے روایت کرتے ہیں ۔فرمایا تمہارے بہترین امام وہ ہیں جنہیں تم پسند کرو اور وہ تم سے محبت کرتے ہوں وہ تمہارے لیے اور تم ان کے لیے دعائیں کرو ۔تمہارے بدترین امام وہ ہیں جنہیں تم ناپسند کرو وہ تمہیں ناپسندکریں تم ان پر لعنت کرو وہ تم پر لعنت کریں ۔کسی نے پوچھا اللہ کے رسول ﷺکیا ہم ان سے جنگ نہ کریں ۔آپ ﷺنے فرمایا نہیں ۔جب تک وہ نمازیں قائم کرتے رہیں اگر تم ان میں کوئی ناپسندیدہ بات دیکھو تو اس کے عمل سے نفرت کرو مگر اس کی اطاعت سے ہاتھ مت کھینچو۔(مسلم۔نسائی)

یہ اس بات کی مشروعیت پر دلیل ہے کہ امام سے محبت کی جائے اس کے لیے دعا کی جاتی رہے ۔جو امام اپنے عوام کے لیے دعا کرتا ہے ان سے محبت کرتا ہے ان کی دعائیں لیتا ہے وہ بہترین امام ہے اور جو اپنے عوام سے اور عوام اس سے نفرت کریں ایک دوسرے کے لیے بددعائیں کریں یہ بدترین امام ہیں اس لیے کہ جو امام عدل قائم کرتا ہے وہ قابل تعریف ہے جو ظلم کرتا ہے وہ عوام کی طرف سے مذمت اور گالیوں کا مستحق ہے بدترین امام ہے ۔

۲۔دوسری ذمہ داری :اماموں کے (کاموں)پر صبر کرنا اگرچہ وہ عوام کے بعض حقوق روک لے ۔
۔ ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے نبی ﷺنے فرمایا۔جو امیر کی کسی بات یا عمل کو ناپسند کرے تو اسے صبر کرنا چاہیے اس لیے کہ جو امیر کی اطاعت سے ایک بالشت برابر نکل گیا وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔(بخاری۔مسلم۔احمد)

۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول ﷺنے فرمایا ۔میرے بعد ایسے کام ہوں گے جنہیں تم ناپسند کروگے ۔لوگوں نے پوچھا اللہ کے رسول اگر ہم میں سے کسی کو اس وقت سے واسطہ پڑجائے تو آپ ہمیں کیا حکم کرتے ہیں ؟آپ ﷺنے فرمایا:تم پر جو حق ہے وہ ادا کرو اور اپنا حق اللہ سے مانگو۔(بخاری۔مسلم۔نسائی۔ابن حبان۔طبرانی)

ایسے حالات میں کہ حکمران عوام کے حقوق ادا نہ کرتے ہوں نبی ﷺکا پھر بھی سمع واطاعت کا حکم شاید اس لیے ہو کہ دونقصانوں میں سے کم نقصان کو اپنایا جائے ۔اس لیے کہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنا بڑا نقصان ہے کہ اس میں اختلاف وتفرقہ پیدا ہوتاہے ۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حدیث میں مذکور جس ترجیح دیئے جانے کا ذکر ہے اس سے مراد حقیقی ترجیح نہیں ہے ۔یہاں نبی ﷺنے اطاعت کرنے کا حکم اس لیے دیا ہے تاکہ بغاوت کے تمام ذرائع بند ہوجائیں اور امیر کی نافرمانی سے امت کو ضعف نہ پہنچے اور صرف خیالات یا بدظنی کی وجہ سے لوگ بغاوت نہ کریں ۔جیسا کہ بخاری میں ہے ایک آدمی نے رسولﷺسے کہا کہ آپ نے فلاں کوسرکاری کام پر لگادیا مجھے نہیں لگایا؟تو آپ ﷺنے فرمایا کہ میرے بعد تم دیکھو گے کہ تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی تم صبر کرو یہاں تک کہ مجھ سے (قیامت میں)ملاقات کرلو۔ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں :اس جواب میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عہدے طلب نہیں کرنے چاہیے اور آپ ﷺنے یہ جو کہا کہ میرے بعد ترجیح دی جائے گی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے تم پر ترجیح نہیں دی یہ کام میرے بعد ہوں گے میرے دور میں نہیں ہوں گے میں نے ترجیح نہیں دی بلکہ مسلمانوں کی مصلحت دیکھی ہے ۔جبکہ دنیا وی مفادات حاصل کرنے والے میرے بعد آئیں گے اس وقت صبر کرنا ۔(فتح الباری:۱۳/۸)

۔ علقمہ بن وائل اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں ۔سلمہ بن یزید الجعفی رضی اللہ عنہ نے رسول ﷺسے پوچھا اللہ کے رسول ﷺیہ بتائیں کہ اگر ہم پر ایسے امیر مقرر ہوجائیں جو ہم سے اپنا حق مانگیں اور ہمیں ہمارا حق نہ دیں ایسے میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟آپ نے منہ پھیر لیا ۔اس نے پھر پوچھا دوسری بار پھر تیسری بار پوچھا اشعت بن قیس رضی اللہ عنہ نے اس کو کھینچ لیا ۔آپ ﷺنے فرمایا:سنو اور اطاعت کرو تم پر تمہاری اور ان پر ان کی ذمہ داری ہے۔(بخاری ۔مسلم۔نسائی)

۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے رسول ﷺنے فرمایا:تم پر ایسے امیر مقرر ہوں گے جن کے کچھ کام تمہیں اچھے لگیں گے کچھ برے جس نے برا سمجھا یا نفرت کی وہ بری ہوگیا جس نے اعتراض کیا وہ سلامت رہا لیکن جو راضی رہا اور تابعداری کرتا رہا ۔لوگوں نے کہا اللہ کے رسول ﷺکیا ہم ان سے قتال نہ کریں آپ ﷺنے فرمایا :نہیں جب تک وہ نمازیں پڑھتے رہیں۔(مسلم۔ابوداؤد)۔(جاری ہے)
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
کیا کلمہ گو حکمرانوں کے خلاف خُروج (لڑائی) جائز ہے ؟؟؟؟

سمیر بھائی یہ سوال آپ سے ہے​

یہاں پر اُس سوال کا جواب جاننے سے پہلے میں یہ جاننا چاہتا ہوں۔۔۔
کہ خروج کے لئے کن شرائط کا ہونا ضروری ہے؟؟؟۔۔۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
میری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ قرآن و سنت کے محکم دلائل کو دیکھ کر یاسر اکرم بھائی کو کیوں گھبراہٹ ہونے لگی ہے۔ میرے بھائی پہلے اسلام قرآن وسنت کی پیروی کا نام ہے یا اپنے خود ساختہ گھڑے ہوئے خیالات کا ذرا صبر کریں قرآن وسنت پر اطمینان رکھیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ارشادات مبارکہ یقینا آپ کی حق تلفی نہیں کریں گے۔
 
Top