- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
مسلم ممالک کا زوال: لمحۂ فکریہ
بشریٰ ارشد
اکیسیویں صدی میں جب کہ دنیا کے تقریبا سبھی ممالک تیزی کے ساتھ ترقی کر رہے ہیں، مسلم ممالک مسلسل بحران کا شکار ہیں اور پستی وزوال کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں ۔ حالانکہ ایک وقت تھا جب پوری دنیا پر ان کی فوقیت مسلم تھی۔ تعلیمی و سائنسی، اقتصادی و معاشی ، تہذیبی و تمدنی ہر اعتبار سے مسلمان سبھی قوموں سے آگے تھے۔ قوت وطاقت میں انکا کوئی ہمسر نہ تھا ۔ عروج و ترقی میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا ۔ طب و فلسفہ ، سائنس و فلکیات ، نجوم و ہیئت تمام اقسام علوم میں وہ ماہر اور دنیا والے ان کے تابع تھے ۔ ان کی بنائی ہوئی تعلیم گاہیں اور یونیورسیٹیاں سبھی قوموں کے لئے مرجع کی حیثیت رکھتی تھیں ۔ ان کی لائبریریاں اور کتب خانے علم و فن کا سب سے عظیم مخزن شمار کی جاتی تھیں ۔ان کی بنائی ہوئی تاریخی عمارتیں ایسی بے نظیر تھیں کہ دنیا کے ہر گوشے سے لوگ انہیں دیکھنے آیا کرتے تھے۔ ان کی تہذیبی و تمدنی اقدار دنیا والوں کے لئے مثال تھیں ۔ قوت و شوکت کا یہ عالم تھا کہ دنیا کی دیگر تمام قومیں ان کے آگے سر جھکاتی تھیں ۔
لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مسلمان اپنے دین سے دور ہوتے گئے ۔ دولت وثروت کی فراوانی نے ان کے اندر عیش پرستی کو فروغ دیا ۔ وہ اسلام کی احکامات و تعلیمات کو پس پشت ڈال کر دنیا کی لذتوں اور خوش سامانیوں میں مصروف ہوتے گئے نتیجہ یہ ہوا کہ علم و فن سے ان کا ناطہ ٹوٹ گیا ۔ ان کے علمی ذخائر پر غیروں نے قبضہ کر لیا اور ان کی عظیم الشان لائبریریوں اور کتب خانوں کو نذر آتش کر دیا گیا ۔ ان ہی کے علمی ورثہ کو بروئے کار لا کردوسری قومیں نہ صرف ان سے آگے بڑھ گئیں بلکہ انہوں نے مسلمانوں کو پسماندگی سے دوچار کرنے کے لئے مختلف منصوبے اور لائحہ عمل تیا ر کئے ۔خاص طور سے یہودی قوم جو ازل سے مسلمانوں کی دشمن رہی ہے ، نے مسلمانوں کو پسماندگی وذلت کے عمیق غا ر میں دھکیلنے کے لئے با قاعدہ پلاننگ کے تحت ان کو علم وفن سے دور کرنے کا سامان پیدا کیا ۔ ان کے بیچ افتراق و انتشار کا بیج بو دیا ۔مسلمان ان کی سازشوں کا شکا ر ہوئے اور آپسی افتراق و انتشار اور جزئی اختلافات میں پڑ کر اپنا اصل مقصد بھولتے گئے ۔ ذات پات اور مسلک و ملت کے تفرقوںمیں پڑ کر ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ۔ اب ان کے ہاتھوںمیں نہ علم و فن کا چراغ رہا نہ اتحاد و اتفاق کی طاقت ۔اور ایسا کیوں نہ ہوتا آخر وہ اللہ رب العالمین کے سب سے پسندیدہ دین دین اسلام کے حامل تھے۔ ان کے پاس مذہب اسلام کی شکل میں ایک ایسا آفاقی نظام موجود تھا جس میں عروج و ترقی اور کامیابی و کامرانی کے سارے راز مضمر ہیں ۔ انہوں نے اسلامی تعلیمات کو سینے سے لگائے رکھا ۔ زندگی کے ہر میدان میں انہوں نے اسلام کی تعلیمات کو اپنے نگاہوں کے سامنے رکھا ، اسی لئے وہ ہر جگہ کامیاب و سرخرو تھے۔
اس پرمستزاد مغرب کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں پر ہونے والے مسلسل صہیونی حملے ، کبھی اسلامی تعلیمات پر تشکیک و تنقید ، کبھی اسلام اور دہشت گردی کے ما بین ربط و تعلق پیدا کرنے کی نا روا کوششیں ، تو کبھی مسلم ممالک اور مسلم معاشروں میں مغربی تہذیب کے تسلط کے ناپاک منصوبے۔ غرض کہ یہودیوں نے ہر طرح سے مسلمانوں کو دبا نے او ر حاشیہ پر لے جانے کی کوششیں کی ۔ اور مسلمان جو پہلے ہی اپنے دین سے ناطہ توڑے ، اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات و فرامین سے منہ موڑے بیٹھے تھے۔ بری طرح ان کے جال میں پھنس گئے ۔نتیجۃً آج مسلم قوم اور مسلم ممالک پسماندگی و تخلف کا شکار ہیں ۔ اور اکیسیو یں صدی کے اس دور میں عالمی نقشہ پر مسلم ممالک کی کوئی وقعت وحیثیت نہیں ہے۔ عالمی پلیٹ فارم ہونا تو دور کی بات یہ مسلم ممالک آپس میں ایک دوسرے کے خلاف ہی برسر پیکار نظر آتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری قومیں اور طاقتیں آسانی سے ان کو اپنا نشانہ بنا رہی ہیں۔ اور انہیں آپس میں لڑا کر اپنا الو سیدھا کر رہی ہیں ۔ آج عالمی طاقت نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے مسلم ممالک اسرائیل اور امریکہ کے جارحانہ عملی اقدامات اور ظلم و تشدد کی ناروا صعوبات کے باوجود ان کے خلاف آواز اٹھانے سے قاصر ہیں۔ جس کی واضح مثال فلسطین ہے ۔ جہاں دہائیوں سے اسرائیلی طاقتوں نے نا جائز تسلط قائم کر رکھا ہے ۔ وہاں کے مسلم باشندوں پر ظلم و تشدد کے ایسے ایسے پہاڑ توڑے جاتے ہیں کہ سن کر انسانیت شرما جائے ۔ حتیٰ کہ ان کی ناپاک نگاہوں سے مسجد اقصیٰ بھی محفوظ نہیں ہے۔ آئے دن مسجد اقصیٰ میں بحالت نماز نمازیوں کو شہید کیا جاتا ہے اور مسجد اقصیٰ کو منہدم کرنے کے پلان بنائے جاتے ہیں ۔ اور مسلم ممالک کے حکمراں اور صاحب اقتدار حضرات یہ سب دیکھتے ہوئے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ۔ اور ان کی یہ لاچاری ظاہر سی بات ہے ، ان کی عالمی طاقت اور یونیورسل پلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے ہے ۔