• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلم ممالک کے حکمرانوں کو طاغوت کہنا اور علماء کے خلاف بولنا

شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
سوشل میڈیا جیسے فتنے نے ہر عامی کو یہ جرات فراہم کر دی ہے کہ وہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کو کھلے عام طاغوت کہنے اور علماء کرام پر بہتان باندھنے میں تاخیر نہیں کرتے.
میرا سوال ہے کہ؛
ایسی صورتحال میں ایک مسلمان کی کس حد تک ذمہ داری ہے؟ کہ وہ حکمرانوں کے کھلے عام کفر کو دیکھ کر خاموش رھے یا تنقید کرے؟

عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ لعنت بھیجنے اور بددعا دینے سے بھی نہیں رکتے.
 

سجاد

رکن
شمولیت
جولائی 04، 2014
پیغامات
160
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
76
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
جواب تو علماء کرام ھی دیں گے، میں عامی کی حیثیت سے اپنے خیالات سامنے رکھ سکتا ھوں،

سب سے پہلی بات تو یہ کہ معین حکمران کے طاغوت کا فتوی علماء حق کی کثیر جماعت دے تو ھی کسی حکمران کو طاغوت سمجھا جا سکتا ھے، لا تعداد علماء کی ایسی چین موجود ھے کہ جن کی تعلیم کی لڑی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے شروع ھوتی ھے، امام بخاری رحمہ اللہ سے پیچھے تین لڑیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچتی ھیں، اور امام بخاری سے درس حدیث رسول لینے والوں کے تسلسل کی سات لڑیاں امام ابن حجر رحمہ اللہ تک پہنچتی ھیں (شارح بخاری)، اور انکے بعد سے آج تک کے بخاری شریف کی کتاب پڑھنے والے علماء کے تسلسل کی لڑی سولہ بنتی ھیں، کل ملا کر یہ چھبیس یا ستائیس لڑیاں راویان محدثین کی بنتی ھیں،جو پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچ جاتی ھیں، اور اس سلسلہ میں شامل علماء کے اہل حق ھونے کی ایک نشانی بھی ھے، لہذا ان کی کثیر تعداد کا گمراہ ھونا نا ممکن ھے کہ انکو طاغوت کی پہچان ھی نہ ھو سکے،جبکہ ایک عامی جس نے ادھر ادھر سے قرآن و حدیث کو پڑھ تو لیا لیکن احکام کو فہم سلف، فہم صحابہ، فہم نبوی پر حاصل نہیں کیا بلکہ خودفہمی کا شکار رہا، فہم. سلف اسی صورت مل سکتا جب اسلاف سے تعلیمات لی ھو،

سو طاغوت کی پہچان علماء حق کا ھی کام ھے
جو کام علماء کے ھیں وہ عامی کرے گا تو فتنہ ھی پھیلے گا، قتل و غارت ھو گی، لہذا سب سے پہلے تو یہ طے ھونا ضروری ھے کہ کونسا حکمران طاغوت ھے کو نسا فاسق فاجر ھے کونسا منافق ھے اور کونسا متقی پرہیزگار ھے،
جب تک یہ طے نہ ھو جائے لعنت ملامت تنقید کا سلسلہ چلانا دین پسندی نہیں ھے بلکہ خود پسندی ھے

دوسری بات یہ کہ
اہل علم اہل حق مجموعی لحاظ سے کسی معاملہ میں خاموشی اختیار کرتے ھیں تو اس میں بھی اللہ کی کوئی حکمت ھو سکتی ھے، لیکن یوں تو نہیں ھو سکتا کہ دنیا سے اہل حق ھی ختم ھو جائیں،منافقین مکہ کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا رویہ دیکھ لیں جو کہ مثالی بھی ھے، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انکے معاملے پر خاموشی اختیار کی تو اس میں بھی اللہ کی حکمت تھی، جسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے قبول کیا،
اب اگر علماء حق کسی معاملے پر خاموش ھوں یا جو مؤقف اختیار کریں تو عامی کو بھی چاھئے کہ خودپسندی کی بجائے قبول والا رویہ اپنائے

تیسری بات یہ کہ

ظالم فاسق فاجر حکمران پر تنقید کی جا سکتی ھے، اس کے سامنے حق کی بات کی جا سکتی ھے بشرط یہ کہ حق بات کہنے سے خیر کے پہلو نمایاں ھوتے نظر آ رھے ھوں،
لعنت ملامت کرنا یا گالی دینا اچھا شیوہ نہیں ھے، مومنین کو زیب نہیں دیتا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لعنت ملامت کرنے کو ناپسند ھی فرمایا ھے
 
Last edited:

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
سوشل میڈیا جیسے فتنے نے ہر عامی کو یہ جرات فراہم کر دی ہے کہ وہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کو کھلے عام طاغوت کہنے اور علماء کرام پر بہتان باندھنے میں تاخیر نہیں کرتے.
میرا سوال ہے کہ؛
ایسی صورتحال میں ایک مسلمان کی کس حد تک ذمہ داری ہے؟ کہ وہ حکمرانوں کے کھلے عام کفر کو دیکھ کر خاموش رھے یا تنقید کرے؟

عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ لعنت بھیجنے اور بددعا دینے سے بھی نہیں رکتے.
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوشل میڈیا بہت ہی بے لگام ہے ، نہ صرف حکام کے معاملات میں بلکہ کسی عام آدمی پر تنقید کرنے میں بھی کوئی روک ٹوک نہیں ہے ۔ اس بات سے ہرکوئی بخوبی واقف ہے۔ بلاشبہ ہمیں منکر پر نکیر کرنے کا حق ہے ، اس کو مٹانے کی حتی الوسع کوشش بھی کرنی چاہئے مگر کسی ادنی سا مسلمان کو بھی طاغوت کہنا، ان پر لعن وطعن کرنا، کفر کے فتوی لگانا، لعنت بھیجنا بہت ہی افسوسناک امر ہے۔ اگر ان ساری باتوں کا مستحق سامنے والا نہیں ہوگا تو یہ ساری غلاظتیں متکلم پر واپس آجائیں گی ۔ حد تو یہ ہے کہ لوگ علماء کو بھی نہیں بخشتے ۔ اللہ کی پناہ ۔
انفرادی طورپر ہمیں ایسے لوگوں کو نصیحت کرنے کی ضرورت ہے اور اجتماعی طورپر حکومت سے اس بات کا مطالبہ کرناہے کہ جو اس قسم کی پوسٹ کرے جو دوسرے مسلمان کی تضحیک وتکفیرپر مبنی ہو اس کے خلاف سخت قسم کی نوٹس لے تاکہ نہ صرف اسے سبق ملے بلکہ دوسروں کی بھی حوصلہ شکنی ہو۔
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
جواب تو علماء کرام ھی دیں گے، میں عامی کی حیثیت سے اپنے خیالات سامنے رکھ سکتا ھوں،

سب سے پہلی بات تو یہ کہ معین حکمران کے طاغوت کا فتوی علماء حق کی کثیر جماعت دے تو ھی کسی حکمران کو طاغوت سمجھا جا سکتا ھے، لا تعداد علماء کی ایسی چین موجود ھے کہ جن کی تعلیم کی لڑی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے شروع ھوتی ھے، امام بخاری رحمہ اللہ سے پیچھے تین لڑیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچتی ھیں، اور امام بخاری سے درس حدیث رسول لینے والوں کے تسلسل کی سات لڑیاں امام ابن حجر رحمہ اللہ تک پہنچتی ھیں (شارح بخاری)، اور انکے بعد سے آج تک کے بخاری شریف کی کتاب پڑھنے والے علماء کے تسلسل کی لڑی سولہ بنتی ھیں، کل ملا کر یہ چھبیس یا ستائیس لڑیاں راویان محدثین کی بنتی ھیں،جو پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچ جاتی ھیں، اور اس سلسلہ میں شامل علماء کے اہل حق ھونے کی ایک نشانی بھی ھے، لہذا ان کی کثیر تعداد کا گمراہ ھونا نا ممکن ھے کہ انکو طاغوت کی پہچان ھی نہ ھو سکے،جبکہ ایک عامی جس نے ادھر ادھر سے قرآن و حدیث کو پڑھ تو لیا لیکن احکام کو فہم سلف، فہم صحابہ، فہم نبوی پر حاصل نہیں کیا بلکہ خودفہمی کا شکار رہا، فہم. سلف اسی صورت مل سکتا جب اسلاف سے تعلیمات لی ھو،

سو طاغوت کی پہچان علماء حق کا ھی کام ھے
جو کام علماء کے ھیں وہ عامی کرے گا تو فتنہ ھی پھیلے گا، قتل و غارت ھو گی، لہذا سب سے پہلے تو یہ طے ھونا ضروری ھے کہ کونسا حکمران طاغوت ھے کو نسا فاسق فاجر ھے کونسا منافق ھے اور کونسا متقی پرہیزگار ھے،
جب تک یہ طے نہ ھو جائے لعنت ملامت تنقید کا سلسلہ چلانا دین پسندی نہیں ھے بلکہ خود پسندی ھے

دوسری بات یہ کہ
اہل علم اہل حق مجموعی لحاظ سے کسی معاملہ میں خاموشی اختیار کرتے ھیں تو اس میں بھی اللہ کی کوئی حکمت ھو سکتی ھے، لیکن یوں تو نہیں ھو سکتا کہ دنیا سے اہل حق ھی ختم ھو جائیں،منافقین مکہ کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا رویہ دیکھ لیں جو کہ مثالی بھی ھے، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انکے معاملے پر خاموشی اختیار کی تو اس میں بھی اللہ کی حکمت تھی، جسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے قبول کیا،
اب اگر علماء حق کسی معاملے پر خاموش ھوں یا جو مؤقف اختیار کریں تو عامی کو بھی چاھئے کہ خودپسندی کی بجائے قبول والا رویہ اپنائے

تیسری بات یہ کہ

ظالم فاسق فاجر حکمران پر تنقید کی جا سکتی ھے، اس کے سامنے حق کی بات کی جا سکتی ھے بشرط یہ کہ حق بات کہنے سے خیر کے پہلو نمایاں ھوتے نظر آ رھے ھوں،
لعنت ملامت کرنا یا گالی دینا اچھا شیوہ نہیں ھے، مومنین کو زیب نہیں دیتا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لعنت ملامت کرنے کو ناپسند ھی فرمایا ھے
بہترین، شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کے دروس، طاغوت و فتنہ طاغوت، تنفیر، تفجیر، تکفیر،، سے کافی کچھ سیکھنے کو ملا ہے.
لیکن
افسوس ہے کہ اسی منہج کو واضح کر کے بھی جماعت الدعوہ کا ٹھپہ، مرجیہ کا ٹھپہ، علماء سوء کا بہتان،،،

مجھے ابن تیمیہ کے کچھ اقوال کا متن اور وضاحت درکار ہے.

1. کسی نے ابن تیمیہ سے پوچھا کہ "اہل حق کہاں ہیں؟
ابن تیمیہ نے جواب دیا کہ" زیر زمین (یعنی فوت شدہ ) ، زندان میں یا محاذوں پر.

(اب جو جھاد سے ذرا سا بھی منسلک ہے، وہ اس قول کو کسوٹی بنا کر باقی تمام اہل علم کی غیبت کرتا ہے، بدزبانی کرتا ہے. )

2. جب جھاد کا عَلم بلند ہوتا ہے تو لوگ تین قِسموں میں منقسم ہو جاتے ہیں. دیکھیے آپ کون سی قِسم میں شمار ہوتے ہیں؟

ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا :
"آزمائش و فتنہ کے وقت لوگ تین دھڑوں میں منقسم ہو جاتے ہیں.

طائفہ منصورہ ( فاتحین، مجاھدین) جو فسادیوں سے جنگ کرتے ہیں.
مخالفین؛ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنکو ان بے وقوف لوگوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے جو خود کو اصل دین پر سمجھتے ہیں.
وہ فراری طبقہ؛ جو جھاد سے پیچھے بیٹھ رہتے ہیں چاھے انکا عقیدہ و دین بالکل درست ہو.

( مجموع الفتاوي ٢٨/٢٢٩)
پس،ہر ایک جائزہ لے کہ اسکا تعلق کس دھڑے سے ہے.
_20181209_130243.JPG
_20181209_130410.JPG


اس قول کا صحیح فہم چاھیے.
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوشل میڈیا بہت ہی بے لگام ہے ، نہ صرف حکام کے معاملات میں بلکہ کسی عام آدمی پر تنقید کرنے میں بھی کوئی روک ٹوک نہیں ہے ۔ اس بات سے ہرکوئی بخوبی واقف ہے۔ بلاشبہ ہمیں منکر پر نکیر کرنے کا حق ہے ، اس کو مٹانے کی حتی الوسع کوشش بھی کرنی چاہئے مگر کسی ادنی سا مسلمان کو بھی طاغوت کہنا، ان پر لعن وطعن کرنا، کفر کے فتوی لگانا، لعنت بھیجنا بہت ہی افسوسناک امر ہے۔ اگر ان ساری باتوں کا مستحق سامنے والا نہیں ہوگا تو یہ ساری غلاظتیں متکلم پر واپس آجائیں گی ۔ حد تو یہ ہے کہ لوگ علماء کو بھی نہیں بخشتے ۔ اللہ کی پناہ ۔
انفرادی طورپر ہمیں ایسے لوگوں کو نصیحت کرنے کی ضرورت ہے اور اجتماعی طورپر حکومت سے اس بات کا مطالبہ کرناہے کہ جو اس قسم کی پوسٹ کرے جو دوسرے مسلمان کی تضحیک وتکفیرپر مبنی ہو اس کے خلاف سخت قسم کی نوٹس لے تاکہ نہ صرف اسے سبق ملے بلکہ دوسروں کی بھی حوصلہ شکنی ہو۔

جب یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ گھر بیٹھے جانوں کا خوف لیے، تمہیں کیا پتہ ہو،،،،،، تو عام مسلمان کی دل آزاری،،،،، اللہ کو پسند تو نہیں یہ سب.

جو علماء کرام باہر ہیں، وہ سب غلط ہیں، وہ حق بات نہیں کرتے،، ،،، العیاذ باللہ
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
کیا طائفہ المنصورہ میں صرف ہتھیار اٹھانے والے مجاہدین ہی شامل کیے جائیں گے؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اسلام کی حمایت اور منکر کے انکار میں حسب توفیق محنت کرنی چاہیے۔ حکمران جب اعلانیہ غلطیاں کرتے ہیں، تو ان پر نقد بھی اعلانیہ ہونی چاہیے۔ حکمرانوں کی تکفیر یا انہیں طاغوت وغیرہ کہنے سے پہلے وقت کے مستند علماء سے ان مسائل کو زیر بحث لانا چاہیے۔
اس وقت اسلام پسندوں میں دو گروہ بن چکے ہوئے ہیں، ایک وہ ہیں وقت کی حکومتوں کی اسلام مخالف پالیسیوں اور ان کے افراد پر تنقید کرتے ہیں، دوسرے وہ جو حکمرانوں پر تنقید نہیں کرتے۔
اب یہ دونوں آپس میں بھی الجھتے ہیں، حالانکہ ان دونوں گروہوں کو چاہیے، آپس میں الجھنے کی بجائے انکار منکر کا جو طریقہ درست سمجھتے ہیں، اس کے مطابق محنت و کوشش کرتے رہیں۔
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
طائفہ منصورہ کے متعلق صحیح مسلم کا ایک مکمل باب پیش ہے ؛
ــــــــــــــــــــــــــــــ
طائفہ منصورہ
صحیح مسلم۔۔۔۔
باب قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ»:
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا“۔
حدیث نمبر: 4950
عَنْ ثَوْبَانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ كَذَلِكَ "، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ قُتَيْبَةَ وَهُمْ كَذَلِكَ..
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمیشہ میری امت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا کوئی ان کو نقصان نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آئے (یعنی قیامت) اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔“
حدیث نمبر: 4951
عَنْ الْمُغِيرَةِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَنْ يَزَالَ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى النَّاسِ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ ".
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”میری امت میں سے ایک قوم ہمیشہ لوگوں پر غالب رہے گی یہاں تک کہ قیامت آ جائے اور وہ غالب ہی ہوں گے۔“
حدیث نمبر: 4953
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " لَنْ يَبْرَحَ هَذَا الدِّينُ قَائِمًا يُقَاتِلُ عَلَيْهِ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ ".
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دین برابر قائم رہے گا اور اس کے اوپر لڑتی رہے گی ایک جماعت (کافروں سے اور مخالفوں سے) مسلمانوں کی قیامت تک۔“
حدیث نمبر: 4954
جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”ہمیشہ ایک گروہ میری امت کا حق پر لڑتا رہے گا قیامت تک۔“
حدیث نمبر: 4955
أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ هَانِئٍ ، حَدَّثَهُ قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ عَلَى الْمِنْبَرِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي قَائِمَةً بِأَمْرِ اللَّهِ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ أَوْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ عَلَى النَّاسِ ".
عمیر بن ہانی سے روایت ہے، میں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے سنا منبر پر، وہ کہتے تھے میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”ہمیشہ ایک گروہ میری امت کا اللہ تعالیٰ کے حکم پر قائم رہے گا جو کوئی ان کو بگاڑنا چاہے وہ کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آن پہنچے اور وہ غالب رہیں گے لوگوں پر۔“
حدیث نمبر: 4956
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ الْأَصَمِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ ذَكَرَ حَدِيثًا رَوَاهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمْ أَسْمَعْهُ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مِنْبَرِهِ، حَدِيثًا غَيْرَهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَلَا تَزَالُ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ عَلَى مَنْ نَاوَأَهُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ".
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کی اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اس کو دین کی سمجھ دیتا ہے اور ہمیشہ ایک جماعت مسلمانوں کی حق پر لڑتی رہے گی اور غالب رہے گی ان پر جو ان سے لڑیں قیامت تک۔“
حدیث نمبر: 4957
حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شِمَاسَةَ الْمَهْرِيُّ ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ مَسْلَمَةَ بْنِ مُخَلَّدٍ، وَعِنْدَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : لَا تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا عَلَى شِرَارِ الْخَلْقِ هُمْ شَرٌّ مِنْ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ، لَا يَدْعُونَ اللَّهَ بِشَيْءٍ إِلَّا رَدَّهُ عَلَيْهِمْ، فَبَيْنَمَا هُمْ عَلَى ذَلِكَ أَقْبَلَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ، فَقَالَ لَهُ مَسْلَمَةُ يَا عُقْبَةُ: اسْمَعْ مَا يَقُولُ عَبْدُ اللَّهِ، فَقَالَ عُقْبَةُ : هُوَ أَعْلَمُ، وَأَمَّا أَنَا فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا تَزَالُ عِصَابَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى أَمْرِ اللَّهِ قَاهِرِينَ لِعَدُوِّهِمْ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ وَهُمْ عَلَى ذَلِكَ "، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: أَجَلْ، " ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ رِيحًا كَرِيحِ الْمِسْكِ مَسُّهَا مَسُّ الْحَرِيرِ، فَلَا تَتْرُكُ نَفْسًا فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنَ الْإِيمَانِ إِلَّا قَبَضَتْهُ ثُمَّ يَبْقَى شِرَارُ النَّاسِ عَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ ".
عبدالرحمٰن بن شماسہ مہری سے روایت ہے، میں مسلمہ بن مخلد کے پاس بیٹھا تھا، ان کے پاس عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ تھے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: قیامت قائم نہ ہو گی مگر بدترین خلق اللہ پر، وہ بدتر ہوں گے جاہلیت والوں سے اللہ تعالیٰ سے جس بات کی دعا کریں گے اللہ تعالیٰ ان کو دے دے گا لوگ اسی حال میں تھے کہ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ آئے۔ مسلمہ نے ان سے کہا: اے عقبہ! عبداللہ کیا کہتے ہیں۔ عقبہ نے کہا! وہ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ پر میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”ہمیشہ میری امت کا ایک گروہ یا ایک جماعت اللہ تعالیٰ کے حکم پر لڑتی رہے گی اور اپنے دشمن پر غالب رہے گی۔ جو کوئی ان کا خلاف کرے گا ان کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔“ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا بیشک (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا) لیکن پھر اللہ تعالیٰ ایک ہوا بھیجے گا، جس میں مشک کی سی بو ہو گی اور ریشم کی طرح بدن پر لگے گی وہ نہ چھوڑے گی کسی شخص کو جس کے دل میں ایک دانے برابر بھی ایمان ہو گا بلکہ اس کو مار دے گی بعد اس کے سب برے (کافر) لوگ رہ جائیں گے انہی پر قیامت قائم ہو گی۔
حدیث نمبر: 4958
عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَزَالُ أَهْلُ الْغَرْبِ ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمیشہ مغرب والے (یعنی عرب یا شام والے) حق پر غالب رہیں گے یہاں تک کہ قیامت قائم ہو گی۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی (الطائفة المنصورة ) کا تعارف کرواتے ہوئےکہتے ہیں کہ :
قال أحمد بن حنبل إن لم يكونوا أهل الحديث فلا أدري من هم قال القاضي عياض إنما أراد أحمد أهل السنة والجماعة ومن يعتقد مذهب أهل الحديث قلت ويحتمل أن هذه الطائفة مفرقة بين أنواع المؤمنين منهم شجعان مقاتلون ومنهم فقهاء ومنهم محدثون ومنهم زهاد وآمرون بالمعروف وناهون عن المنكر ومنهم أهل أنواع أخرى من الخير ولا يلزم أن يكونوا مجتمعين بل قد يكونون متفرقين في أقطار الأرض
شرح النووي على صحيح مسلم كتاب الامارة

ترجمہ :
امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ "طائفہ منصورہ سے مراد اہل حدیث نہیں تو میں نہیں جانتا کہ پھر کون اس اعزاز کا مستحق ہوسکتا ہے ،صحیح مسلم کے شارح قاضی عیاضؒ مالکی فرماتے ہیں کہ امام احمدؒ کی مراد اہل سنت والجماعت ہیں ،اور جو اہل حدیث کا مذہب و عقیدہ رکھتے ہیں ،امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ " طائفہ منصورہ " کا یہ گروہ مومنین کی انواع میں پھیلا ہوا ہے : ان میں سے کچھ تو بہادری کے ساتھ لڑنے والے ہیں ، اور ان میں سے فقھاء بھی ہیں ، اور اسی طرح ان میں محدثین بھی ہیں ، اور ان میں عابدوزاھد لوگ بھی ہیں ، اور ان میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے بھی ہیں ، اور اسی طرح ان میں اہل خیر یعنی نیکی کے کام سرانجام دینے والوں کی اور بھی انواع ہیں ۔ اور ضروری نہیں کہ یہ اہل حق ایک جگہ یا ایک گروہ میں اکھٹے پائےجائیں ،بلکہ زمین میں مختلف جگہوں پر (مختلف دینی خدمت انجام دیتے ) موجود ہوسکتے ہیں ۔انتھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :
( ولا يلزم أن يكونوا مجتمعين في بلد واحد بل يجوز اجتماعهم في قطر واحد وافتراقهم في أقطار الأرض ، ويجوز أن يجتمعوا في البلد الواحد وأن يكونوا في بعض منه دون بعض ، ويجوز إخلاء الأرض كلها من بعضهم أولاً فأولاً ، إلى أن لا يبقى إلا فرقة واحدة ببلد واحد فإذا انقرضوا جاء أمر الله ) فتح الباری (جلد 13 ،ص 296)
( انہوں نے اس مسئلہ میں تفصیل بیان کرتے ہوۓ کہا ہے ) یہ لازم نہیں کہ طائفہ منصورہ کسی ایک ملک میں ہی جمع ہوں بلکہ جائز (عین ممکن )ہے کہ وہ دنیا کے کسی ایک خطہ میں جمع ہوں جائيں ، اور دنیا کے مختلف خطوں میں بھی ہو سکتے ہیں ، اور یہ بھی ہے کہ وہ کسی ایک ملک میں بھی جمع ہوجائيں ، اور یا پھر مختلف ممالک میں ، اور یہ بھی ہے کہ ساری زمیں ہی ان سے خالی ہوجاۓ اور صرف ایک ہی گروہ ایک ہی ملک میں رہ جاۓ تو جب یہ بھی ختم ہوجاۓ تو اللہ تعالی کا حکم آجاۓ گا ۔ انتھیٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان اہل علم کا یہ کلام نقل کرنے کے بعد علامہ صالح المنجد حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
وكلام العلماء يدور على أن هذه الطائفة ليست محصورة في فئة معينة من الناس كما أنـها ليست محددة ببلد معين ، وإن كان آخرها يكون بالشام وتقاتل الدجال كما أخبر النبي صلى الله عليه وسلم .
ولا شك أن المشتغلين بعلم الشريعة - عـقيدة وفقها وحديثا وتفسيرا وتعلما وتعليما ودعوة وتطبيقا - هم أولى القوم بصفة الطائـفة المنصورة وهم الأولى بالدعوة والجهاد والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر والرد على أهل البدع إذ أن ذلك كله لابد أن يـقترن بالعلم الصحيح المأخوذ من الوحي .

نسأل الله أن يجعلنا منهم ، وصلى الله على نبينا محمد
تو علماء کرام کی کلا م کا ماحاصل یہ ہے کہ یہ کسی ایک گروہ کے ساتھ معین نہیں اور نہ ہی کسی ایک ملک کے ساتھ محدود ہے ، اگرچہ ان کی آخری جگہ شام ہوگی جہاں پر دجال سے لڑيں گے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے ۔
اور اس میں کوئ شک و شبہ نہیں جو لوگ علم شریعت کے میں عقیدہ اور فقہ اور حدیث و تفسیر کی تعلیم و تعلم اور اس پر عمل کرنے اوراس کی دعوت دینے ميں مشغول ہیں یہ لوگ بدرجہ اولی طائفہ منصورہ کی صفات کے مستحق ہیں اور یہ ہی دعوت و جھاد اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور اہل بدعات کے رد میں اولی اور آگے ہیں ، تو ان سب میں یہ ضروری ہے کہ وہ علم صحیح جو کہ وحی سے ماخوذ ہے لیا جاۓ ۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گوہیں کہ وہ ہمیں بھی ان میں سے کرے ، اور اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتیں نازل فرماۓ آمین ۔

واللہ تعالی اعلم
الاسلام سؤال و جواب
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہمارے یہاں کچھ پس منظر والوںکے مجاہد اور تقلید کے مریض کچھ مولوی اپنے اپنےحلقہ اثر میں یقین دلاتے پھرتے ہیں کہ ہم ہی "طائفہ منصورہ" ہیں ،
اسی طرح تکفیری مجاہد بھی یہی دعویٰ رکھتے ہیں ،
ان سب کی اصل حالت اس آدمی جیسی ہے جو "اڑھائی بوٹیاں " رکھ کر "مطب " کھول لے ،اور حاذق حکیم ہونے کا دعوی کرے ۔
جبکہ حقیقت میں علمِ وحی کا حامل عالم جو داعی بھی ہو سب سے پہلے وہ اس بشارت و اعزاز کا مصداق و مستحق ہے ، اس کے بعد امت اسلامیہ اور دین اسلام کا کسی شعبہ میں خادم جو فرقہ بازی سے پاک رہ کر کام کرے ،جس کے کام سے امت اور دین کا فائدہ ہو ۔
ــــــــــــــــــــ

وعليكم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
ماشاء اللہ سیر حاصل بحث.

امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ " طائفہ منصورہ " کا یہ گروہ مومنین کی انواع میں پھیلا ہوا ہے : ان میں سے کچھ تو بہادری کے ساتھ لڑنے والے ہیں ، اور ان میں سے فقھاء بھی ہیں ، اور اسی طرح ان میں محدثین بھی ہیں ، اور ان میں عابدوزاھد لوگ بھی ہیں ، اور ان میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے بھی ہیں ، اور اسی طرح ان میں اہل خیر یعنی نیکی کے کام سرانجام دینے والوں کی اور بھی انواع ہیں ۔ اور ضروری نہیں کہ یہ اہل حق ایک جگہ یا ایک گروہ میں اکھٹے پائےجائیں ،بلکہ زمین میں مختلف جگہوں پر (مختلف دینی خدمت انجام دیتے ) موجود ہوسکتے ہیں ۔انتھی
بہترین، مدلل اور کامل تعریف.


ہمارے یہاں کچھ پس منظر والوںکے مجاہد اور تقلید کے مریض کچھ مولوی اپنے اپنےحلقہ اثر میں یقین دلاتے پھرتے ہیں کہ ہم ہی "طائفہ منصورہ" ہیں ،
اسی طرح تکفیری مجاہد بھی یہی دعویٰ رکھتے ہیں ،
ان سب کی اصل حالت اس آدمی جیسی ہے جو "اڑھائی بوٹیاں " رکھ کر "مطب " کھول لے ،اور حاذق حکیم ہونے کا دعوی کرے ۔
جبکہ حقیقت میں علمِ وحی کا حامل عالم جو داعی بھی ہو سب سے پہلے وہ اس بشارت و اعزاز کا مصداق و مستحق ہے ، اس کے بعد امت اسلامیہ اور دین اسلام کا کسی شعبہ میں خادم جو فرقہ بازی سے پاک رہ کر کام کرے ،جس کے کام سے امت اور دین کا فائدہ ہو ۔
ذہن میں اٹھتے ہوئے سوالات کا بہترین جواب.
ایڈیٹنگ سے پہلے بھی پڑھ لیا تھا. ابتسامہ

تقلید کے مریضوں کو بڑا تکبر کہ برصغیر میں جھاد انکے اکابرین نے شروع کیا.
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
اس وقت اسلام پسندوں میں دو گروہ بن چکے ہوئے ہیں، ایک وہ ہیں وقت کی حکومتوں کی اسلام مخالف پالیسیوں اور ان کے افراد پر تنقید کرتے ہیں، دوسرے وہ جو حکمرانوں پر تنقید نہیں کرتے۔
کیا اس پر تنقید کافی ہے.
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1940464732924840&id=100008839956233&anchor_composer=false

مستند علماء
یہاں کمی بیشی ہو رہی ہے. کیونکہ عامی میزان تھامے بیٹھا ہے جب وہ یہ دیکھتا ہے تو
IMG_20181209_200753_756.jpg
 
Top