• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلم ممالک کے حکمرانوں کو طاغوت کہنا اور علماء کے خلاف بولنا

شمولیت
مئی 01، 2011
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
151
پوائنٹ
58
السلام علیکم
محترم @ابن داود
آپ کے مؤقف کے مطابق حکومتِ وقت کے خلاف احتجاج، بغاوت یا فساد کے زمرے میں آتا ہے۔

لیکن اب تک کی بحث سے میں جو سمجھا ہوں ، دوسرے فریق کی حرفِ شکایت ایک ایسے ادارے کے بارے میں ہے، جو آئینِ پاکستان کی رُو سے حکومتِ وقت کے ماتحت ہے، لیکن یہ ادارہ بجائے خود ملک کی منتخب حکومتوں کو گرانے اور بنانے کا ذمہ دار ہے، تو سوال یہ ہے کہ کیا ایسے ادارے کی ایسی ماورائے آئین کاروائیوں اور اقدامات ، جو حکومتِ وقت کے علم اور اجازت کے بغیر عمل میں لائے جاتے ہیں، کے خلاف آواز بلند کرنا بھی فساد اور بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔

امید ہے میں اپنا مدعا آپ تک پہنچانے میں کامیاب رہا ہوں، برائے مہربانی اس پر بھی کچھ رہنمائی فرمائیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
تھریڈ بند نہیں ہوگا۔
البتہ گفتگو کرنےوالے کوشش کریں کہ سنجیدہ رہیں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
تو پر قرآن اور حدیث سے دلیل پیش کریں کہ اللہ یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ مومنہ عورت کو بھی تفتیش کی خاطر برہنہ کیا جا سکتا ہے
میں نے متفق علیہ حدیث پیش کی ہے، اور آپ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی حدیث کا مطالبہ باطل ہے، کیونکہ ہر معاملہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی حدیث کا ہونا لازم نہیں!
جبکہ حدیث میں تو یہ موجود ہے کہ مومن اور کافر برابر نہیں ہے جیسا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے " کافر کے بدلے مومن قتل نہیں کیا جائے گا" تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک کافر عورت پر قیاس کرکے اپ ایک مسلمان عورت پر وہی احکام جار فرما رہیں ہیں۔
کافر کے بدلے مومن کا قتل نہ کیا جانا ایک تخصیصی حکم ہے! ﴿اسی وجہ سے احناف اس تخصیصی حکم کو تسلیم نہیں کرتے کہ اس کا اثبات خبر واحد سے ہوتا ہے، اور وہ خبر واحد سے عموم میں تخصیص کے قائل نہیں﴾
یہ تو وہی مثال ہوئی کہ کوئی شخص کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مردارمچھلی کو حلال قرار دیا ہے، تو جناب اس سے ثابت ہوا کہ مردار حلال ہوتا ہے!
دوم کہ آپ کو پہلے بھی کہا ہے کہ میں نے یہاں کوئی قیاس پیش نہیں کیا! صاحب کو غالباً استدلال واستنباط اور قیاس کا فرق نہیں معلوم!
کہ میری پیش کردہ حدیث میں عورت کو تفتیش میں برہنہ کرنے کا ثبوت موجود ہے، اور جس عورت کو برہنہ کیا گیا، وہ عورت مشرکہ تھی، لیکن اس سے یہ حکم صرف مشرک عورتوں کے لئے خاص نہیں ہوتا، کہ مسلمان مردوں کو صرف مسلمان عورتوں کے لئے نظریں نیجے کرنے کا حکم نہیں، کہ مسلمان عورتیں ہوں تو نظریں نیچی رکھیں، اور مشرکہ عورتیں ہوں تو انہیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر تاڑنے لگ جائیں!
نیز کہ اس پر اجماع ہے کہ کسی غیر عورت کی طرف نظر کرنا حرام ہے، خواہ وہ مومنہ ہو یا کافرہ!
جس صورت وعلت کی بناء پر اسے جائز قرار دیا گیا ہے، وہ علت اب خوہ مسلمان عورت کے متعلق ہو، یا کافرہ عورت کے متعلق، دونوں پر اس کے جواز کا حکم صادر ہوگا!
یہاں مسلمان عورتیں اور مشرکہ عورتیں برابر ہیں۔ اور اس امر پر اجماع امت ہے، امام ابن حجر العسقلانی کا حوالہ آگے آئے گا وہاں دیکھا جاسکتا ہے۔
یہ کسی شرعی حکم کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ یہ کہا گیا تھا کہ بلاوجہ عورتوں کو اٹھایا جا رہا ہے تو اس پر اپ نے مزکورہ واقعہ پیش کیا تھا کیا کیا آپ کے سوچ سکتے ہیں کہ یہ وردی والے لٹیرے ایک اکیلی عورت کو حبس بے جا میں رکھ کر پارسا بنے رہیں گے
''بلا وجہ '' اور ''حبس بے جا'' یہ ہر ملزم کا نکتہ نظر ہوتا ہے، جبکہ تفتشی ادارہ کی نظر میں اس کے برعکس!
بہر حال بلا وجہ کسی کو حبس بے جا میں رکھنے کی شریعت میں اجازت نہیں! اور نہ ہی میں نے یہ بات کہی ہے!
شاید آں جناب کا وردی والے لٹیروں سے واسطہ کم ہی پڑا ہے یا بالکل نہیں پڑا ہے میں اس لئے جانتا ہوں کہ ہمارے خاندان کا روز کا واسطہ ہے
میری جنم بھومی کراچی کی ہے، میں ان وردی والوں کے ''کارناموں'' سے اچھی طرح واقف ہوں!
یہ تو لوگوں کو آج اس صدی میں ان وردی والوں کے'' کارناموں'' کی خبر ہوئی ہے، یا اس کا خیال آیا ہے، ہم نے تو پچھلی صدی میں بھی ان وردی والوں کو اسی طرح پایا ہے!
اس لئے موصوف خیرالقرون کی نیک ہستیوں کا موازنہ آج کے دور کے افراد سے نہ کریں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےخیرالقرون کے دور کے اچھے ہونے کی گواہی دی ہے آج کے دور کی نہیں جہاں رات کو اکیلی عورت سنوائی کے لئے بھی تھانے چلی جائی تو اس کی عزت محفوظ نہیں ہے۔
آپ میرے مراسلوں کو حالت مراقبہ میں پڑھتے ہیں؟ یا حالت جنوں میں؟
میری تحریر سے وہ عبارت تو پیش کریں کہ جہاں میں نے خیر القرون کی نیک ہستوں کا آج کے دور کے افراد سے موازنہ کیا ہو!
اور میں نے یہ کہاں کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آج کے دور کے اچھے ہونے کی گواہی دی ہے؟
آپ کے مطابق شرعی احکام قرآن و حدیث سے ہیں تو پھر اسی سے پیش فرمائیں
میرے بھائی! ایک بار پھر عرض ہے کہ میں نے متفق علیہ حدیث پیش کی ہے!
آپ کو غالباً یہ اشکال پیدا ہو رہا ہے کہ یہ تو صحابہ رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں!
اس اشکال کی بنیاد علم الحدیث اور علم الفقہ کی کم علمی ہے!
اور اس کم علمی کا ثبوت آپ نے اپنے اگلے ہی جملوں میں پیش کیا ہے!
آں جناب قرآن اورحدیث سے ہٹ کر فقہی کتب پر آ گئے کہاں ہے وہ اہل حدیث کے دو اصول کتاب اللہ اور سنت رسول
جناب من! آپ کو غالباً یہ نہیں معلوم کہ ''اہل حدیث کے دو اصول کتاب اللہ اور سنت رسول'' کا مطلب کیا ہے!
آج یہ بات ذہن نشین کر لیں؛ کہ اس کا مطلب ہے کہ شریعت کے دو بنیادی ماخوذ ہیں، کتاب اللہ اور سنت رسول، اور باقی ذیلی ماخوذ انہیں دو سے اخذ شدہ اور تابع ہیں! خواہ وہ اجماع ہو یا قیاس شرعی!
اور آپ کو فقہ سے متعلق بھی غلط فہمی لاحق ہے، فقہ اسلامی قرآن وسنت سے مسائل کے استدلال واستخراج کا نام ہے! یعنی کہ فقہ اسلامی کا ماخوذ قرآن وسنت ہی ہے!
ذرا قرآن اور حدیث سے دلیل پیش کریں کہ مومنہ عورت کو برہنہ کیا جاسکتا ہے
جناب! میں نے متفق علیہ حدیث پیش کی ہے، جس سے تفتیش کے لئے عورت کو برہنہ کرنا ثابت ہوتا ہے، خواہ مومنہ ہو یا مشرکہ!
اسے مشرکہ کے لئے خاص کرنا درست نہیں، فقہاء ومحدثین نے اسے مسلمان ومشرک دونوں کے لئے عام رکھا ہے!

جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " مومن کی جان کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بڑھ کر ہے جب جان کی اتنی حرمت ہے تو مومن کی عزت کی کوئی حرمت نہیں اسے تفتیش کے نام پر ماپال کیا جاسکتا ہے یاللعجب
یہاں آپ نے لکھنے میں غلطی کر دی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حدیث کے ساتھ اپنے گمان کو بھی اس طرح شامل کر دیا ہے کہ گویا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہو!
سرخ رنگ میں ملون نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ےہے،
جبکہ نیلے رنگ میں ملون آپ کا اپنا گمان ہے!
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث تو درست ہے!
اور آپ کا گمان باطل، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ہی ثابت ہے کہ عورت کو تفتیش کے لئے برہنہ کیا جاسکتا ہے، اور اس حدیث کا اطلاق مسلمان عورت پر بھی اسی طرح ہے، جیسے مشرکہ عورت پر!
تفصیل درج ذیل ہے:


أبو بكر ابن العربيّ (المتوفى: 543هـ):

مکہ والوں کے پاس خط لے کرجانے والی جاسوس عورت کی گرفتاری اور تلاشی والی حدیث کے ضمن میں لکھتے ہیں:
الثانية: جواز تجريد العورة عن السرة عند الحاجة لقول رسول الله ﴿2﴾ صلى الله عليه وسلم للمرأة: ﴿لتلقين الثياب او لنجردنك﴾.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے صحابہ کا اس عورت کو یہ کہنا کہ ''کپڑے اتار یا ہم تجھے برہنہ کر دیں گے'' یہ کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ ضرورت کے تحت ناف سے ستر کو برہنہ کرنے (یعنی ستر کھولنے) کا جواز ہے۔
حاشية: ﴿2﴾ هكذا بالأصل، وهي: رسول رسول الله.
(یعنی عارضۃ الاحوذی میں عبارت یہ ہے کہ (اس عورت کوبرہنہ کرنے کی دھمکی رسول اللہ ﷺ نے دی، جبکہ حدیث میں ہے کہ اسے یہ دھمکی ان دو صحابہ نے دی)
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 139 جلد 12 عارضة الأحوذي بشرح صحيح الترمذي - محمد بن عبد الله بن محمد المعافري الإشبيلي المالكي، أبو بكر ابن العربيّ (المتوفى: 543هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 193 - 194 جلد 12 عارضة الأحوذي بشرح صحيح الترمذي - محمد بن عبد الله بن محمد المعافري الإشبيلي المالكي، أبو بكر ابن العربيّ (المتوفى: 543هـ) - دار الكتب العلمية من الطبعة المصرية القديمة

اور صحیح مسلم کے شارح مشہور محدث علامہ أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں:
وَفِيهِ هَتْكُ أَسْتَارِ الْجَوَاسِيسِ بِقِرَاءَةِ كُتُبِهِمْ سَوَاءٌ كَانَ رَجُلًا أَوْ امْرَأَةً وَفِيهِ هَتْكُ سِتْرِ الْمَفْسَدَةِ إِذَا كَانَ فِيهِ مَصْلَحَةٌ أَوْ كَانَ فِي السِّتْرِ مَفْسَدَةٌ وَإِنَّمَا يُنْدَبُ السِّتْرُ إِذَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ مَفْسَدَةٌ وَلَا يَفُوتُ بِهِ مَصْلَحَةٌ وَعَلَى هَذَا تُحْمَلُ الْأَحَادِيثُ الْوَارِدَةُ فِي النَّدْبِ إِلَى السِّتْرِ
یہ حدیث (دلیل) ہے کہ جاسوسوں کے پیغامات اور خطوط پڑھ کر ان کا پردہ فاش کیا جاسکتا ہے، جاسوس خواہ مرد ہو یا عورت، نیز مصلحت کے تحت مومنین کے مفاد کے خلاف کام کرنے والے مفسدین کا ستر چاک کرنا جائز ہے، اور اگر اس کا پردہ رکھنے سے فساد ہو، تب بھی اس کا ستر چاک کرنا جائز ہے، ہاں ایسے لوگوں کو پردے میں رکھنا اس وقت مندوب ہے، جب اس میں کوئی فساد نہ ہو، اور اس سے کوئی مصلحت فوت نہ ہوتی ہو، اس پر وہ احادیث محمول ہیں، جن میں ستر کے مندوب ہونے پر وارد ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1510 المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج - أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) - بيت الأفكار الدولية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 81 جلد 16 المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج - أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) - مؤسسة قرطبة

اور صحیح بخاری کے شارح امام أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ):
وَفِيهِ جَوَازُ التَّشْدِيدِ فِي اسْتِخْلَاصِ الْحَقِّ وَالتَّهْدِيدِ بِمَا لَا يَفْعَلُهُ الْمُهَدِّدُ تَخْوِيفًا لِمَنْ يُسْتَخْرَجُ مِنْهُ الْحَقُّ وَفِيهِ هَتْكُ سِتْرِ الْجَاسُوسِ

اس میں استخلاص حق (حقیقت کو جاننے) کے لئے سختی کرنے کا جواز ہے، اور کسی (مجرم) کو سچ اگلوانے کیلئے ایسی دھمکی دینا جس پر دھمکی دینے والا عمل تو نہ کرے بلکہ محض ڈرانے کیلئے دھمکائے تا کہ اس سے حق (حقیقت) اگلوائی جائے، اور اس حدیث میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جاسوس کا ستر چاک کرنا جائز ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 208 - 209 جلد 16 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار طيبة، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 324 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار الريان للتراث، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 324 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 261 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 310 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ)

علامہ ابن حجرؒ مزید فرماتے ہیں:
وَفِيهِ أَنَّ الْعَاصِيَ لَا حُرْمَةَ لَهُ وَقَدْ أَجْمَعُوا عَلَى أَنَّ الْأَجْنَبِيَّةَ يَحْرُمُ النَّظَرُ إِلَيْهَا مُؤْمِنَةً كَانَتْ أَوْ كَافِرَةً وَلَوْلَا أَنَّهَا لِعِصْيَانِهَا سَقَطَتْ حُرْمَتُهَا مَا هَدَّدَهَا عَلِيٌّ بتجريدها
اور حدیث میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ گنہگار اور مجرم کی کوئی حرمت نہیں، اور اس پر اجماع ہے کہ اجنبی عورت کی طرف دیکھنا حرام ہے، خواہ وہ عورت مومنہ ہو یا کافرہ، اور اگر اس کے جرم اور گناہ کے سبب اس کی حرمت ساقط نہ ہوتی تو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اسے برہنہ کرنے کی دھمکی دے کر نہ ڈراتے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 209 جلد 16 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار طيبة، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 324 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار الريان للتراث، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 324 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 261 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 642 جلد 08 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - المكتبة السلفية

محمد بن أبي بكر بن أيوب بن سعد شمس الدين ابن قيم الجوزية (المتوفى: 751هـ):
[جَوَازُ تَجْرِيدِ الْمَرْأَةِ لِلْمَصْلَحَةِ الْعَامَّةِ]
فَصْلٌ
وَفِيهَا: جَوَازُ تَجْرِيدِ الْمَرْأَةِ كُلِّهَا وَتَكْشِيفِهَا لِلْحَاجَةِ وَالْمَصْلَحَةِ الْعَامَّةِ، فَإِنَّ عليا والمقداد قَالَا لِلظَّعِينَةِ: لتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لِنَكْشِفَنَّكِ، وَإِذَا جَازَ تَجْرِيدُهَا لِحَاجَتِهَا إِلَى ذَلِكَ حَيْثُ تَدْعُو إِلَيْهَا، فَتَجْرِيدُهَا لِمَصْلَحَةِ الْإِسْلَامِ وَالْمُسْلِمِينَ أَوْلَى.

اور (اس خط لے جانے والی عورت کے) واقعہ میں ضرورت ومصلحت عامہ کے تحت عورت کو پورابرہنہ کرنے اور بے پردہ کرنے کا جواز ہے، کیونکہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور مقداد رضی اللہ عنہ نے ظعینہ (خط لے جانے والی عورت) سے کہا: خط نکال یا پھر ہم تجھے برہنہ کر دیں گے، تو جب ضرورت کے تحت عورت کو برہنہ کرنا جائز ہے، جیسا کہ اس وقعہ میں اس عورت کو کہا گیا، تو اسلام اور مسلمانوں کی مصلحتوں کے لئے عورت کو برہنہ کرنا بالاولی جائز ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 372 جلد 03 زاد المعاد في هدي خير العباد - محمد بن أبي بكر بن أيوب بن سعد شمس الدين ابن قيم الجوزية (المتوفى: 751هـ) - مؤسسة الرسالة، بيروت - مكتبة المنار الإسلامية، الكويت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 480 زاد المعاد في هدي خير العباد - محمد بن أبي بكر بن أيوب بن سعد شمس الدين ابن قيم الجوزية (المتوفى: 751هـ) - مؤسسة الرسالة، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 517 جلد 03 زاد المعاد في هدي خير العباد - محمد بن أبي بكر بن أيوب بن سعد شمس الدين ابن قيم الجوزية (المتوفى: 751هـ) - مجمع الفقه الإسلامي، جدة

صحیح بخاری کے شارح امام ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ):
قوله: (أو لنلقين الثياب). قَالَ ابن التين: صوابه في العربية: لنلقن الثياب. بحذف الياء؛ لأن النون المشددة تجتمع مع الياء الساكنة فتحذف
الياء لالتقاء الساكنين.
وفيه: جواز تجريد العورة عن الستُّرة عند الحاجة.

یعنی اس حدیث میں صحابہ کا اس عورت کو کہنا کہ " خط نکالتی ہے یا ہم تیرے کپڑے اتاریں "اس دھمکی میں ضرورت کے تحت عورت کا ستر برہنہ کرنے کا جواز ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 163 – 164 جلد 18 التوضيح لشرح الجامع الصحيح - ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ) - دار النوادر، دمشق – سوريا - وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية، قطر

امام ابن الملقن ؒ مزید فرماتے ہیں:
فيه: هتك ستر الجاسوس رجلاً كان أو امرأة إذا كان في ذلك مصلحة، أو كان في الستر مفسدة.
اور اس حدیث میں (دلیل ہے) کہ مصلحت کے تحت جاسوس خواہ وہ مرد ہو یا عورت اس کے ستر کو چاک کرنا جائز ہے، یا اس کو بے پردہ نہ کرنے سے نقصان اور خرابی ہوتی ہو، تب بھی اس کا ستر چاک کرنا جائز ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 167 جلد 18 التوضيح لشرح الجامع الصحيح - ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ) - دار النوادر، دمشق – سوريا - وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية، قطر

مشکوٰۃ المصابیح کے سب سے پہلے شارح امام شرف الدين الحسين بن عبد الله الطيبي (743هـ):
وفيه معجزة ظاهرة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، وجواز هتك أستار الجواسيس وقراءة كتبهم، وفيه هتك ستر المفسد إذا كان فيه مصلحة أو كان في الستر مفسدة،

اور اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ظاہر ہے، (کہ آپ نے مسلمانوں کے راز کفار کے پاس لے جانے والی اس عورت کے متعلق بالکل درست خبر دی) اور اس واقعہ میں اس بات کی دلیل بھی ہے کہ جاسوسوں کے ستر کو چاک کرنا اور ان کے خطوط پڑھنا جائز ہے، نیز مصلحت کے تحت مفسد کا ستر چاک کرنا جائز ہے، اور اگر اس کے ستر سے فساد ہو، تب بھی اس کا ستر چاک کرنا جائز ہے،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 3940 شرح الطيبي على مشكاة المصابيح المسمى بـ (الكاشف عن حقائق السنن) - شرف الدين الحسين بن عبد الله الطيبي (743هـ) - مكتبة نزار مصطفى الباز، مكة المكرمة - الرياض

أحمد بن عبد الرحمن بن محمد البنا الساعاتي (المتوفى: 1378 هـ): (حسن البنا کے والد محترم)
وفيه أستار الجواسيس وقراءة كتبهم ولو كانت امرأة، وفيه هتك ستر المفسدة لمصلحة
اور اس میں (اس حدیث میں دلیل ہے) جاسوسوں کے ستر کو چاک کرنے اور ان کے خطوط پڑھنے کی، خواہ وہ عورت ہو یا مرد، اور اس میں (اس حدیث میں دلیل ہے) مصلحت کے تحت مفسد کے ستر کو چاک کرنے کی ۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 17 جلد 02 بدائع المنن في جمع وترتيب مسند الشافعي والسنن، مذيلاً بالقول الحسن شرح بدائع المنن - أحمد بن عبد الرحمن بن محمد البنا الساعاتي (المتوفى: 1378 هـ) - مكتبة الفرقان

محمد بن يوسف بن علي بن سعيد، شمس الدين الكرماني (المتوفى: 786هـ):
وفيه هتك أستار الجواسيس

اور اس میں (اس حدیث میں دلیل ہے) جاسوسوں کے ستر کو چاک کرنے کی۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 13 جلد 21 الكواكب الدراري في شرح صحيح البخاري - محمد بن يوسف بن علي بن سعيد، شمس الدين الكرماني (المتوفى: 786هـ) - دار إحياء التراث العربي، بيروت


شمس الدين البِرْماوي، أبو عبد الله محمد بن عبد الدائم بن موسى النعيمي العسقلاني المصري الشافعي (المتوفى: 831 هـ):

وفيه هتْك أستَار الجَواسيس،

اور اس میں (اس حدیث میں دلیل ہے) جاسوسوں کے ستر کو چاک کرنے کی۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 47 جلد 09 اللامع الصبيح بشرح الجامع الصحيح - شمس الدين البِرْماوي، أبو عبد الله محمد بن عبد الدائم بن موسى النعيمي العسقلاني المصري الشافعي (المتوفى: 831 هـ) - دار النوادر، سوريا


زكريا بن محمد بن أحمد بن زكريا الأنصاري، زين الدين أبو يحيى السنيكي المصري الشافعي (المتوفى: 926 هـ):

وفي الحديث: هتك أستار الجواسيس.
اور اس حدیث میں (دلیل ہے) جاسوسوں کے ستر کو چاک کرنے کی۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 124 جلد 06 منحة الباري بشرح صحيح البخاري المسمى «تحفة الباري» - زكريا بن محمد بن أحمد بن زكريا الأنصاري، زين الدين أبو يحيى السنيكي المصري الشافعي (المتوفى: 926 هـ) - مكتبة الرشد للنشر والتوزيع، الرياض

بدر الدين العينى الحنفي (المتوفى: 855هـ):
وَفِيه جَوَاز تَجْرِيد الْعَوْرَة عَن الستْرَة عِنْد الْحَاجة قَالَه ابْن الْعَرَبِيّ

اور اس (حدیث میں) ضرورت کے تحت عورۃ (ستر) برہنہ کرنے کا جواز ہے، یہ ابن العربی نے کہا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 356 جلد 14 - عمدة القاري شرح صحيح البخاري - أبو محمد محمود بن أحمد بن موسى بن أحمد بن حسين الغيتابى، بدر الدين العينى الحنفي (المتوفى: 855هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 257 جلد 14 - عمدة القاري شرح صحيح البخاري - أبو محمد محمود بن أحمد بن موسى بن أحمد بن حسين الغيتابى، بدر الدين العينى الحنفي (المتوفى: 855هـ) - دار الفكر، بيروت

الملا علی القاري الحنفي (المتوفى: 1014هـ):
وَجَوَازُ هَتْكِ أَسْتَارِ الْجَوَاسِيسِ وَقِرَاءَةِ كُتُبِهِمْ، وَفِيهِ هَتْكُ سِتْرِ الْمُفْسِدِ إِذَا كَانَ فِيهِ مَصْلَحَةٌ، أَوْ كَانَ فِي السِّتْرِ مَفْسَدَةٌ،

اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جاسوسوں کی پردہ دری اور ان کے خطوط پڑھنا جائز ہے۔ اور اسی طرح ہر مفسد کی پردہ دری جائز ہے، جب کہ مصلحت اس کی متقاضی ہو، یا پردہ پوشی کسی مفسدہ کو جنم دینے کا باعث بنتی ہو۔ (ترجمہ: راؤ محمد ندیم)
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 367 جلد 09 مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - علي بن (سلطان) محمد، أبو الحسن نور الدين الملا الهروي القاري (المتوفى: 1014هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

مندرجہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ تفتیش کے لئے ستر برہنہ کرنے کا جواز عام ہے، مرد وعورت، یا مسلم وکافر میں سے کسی کے لئے خاص نہیں!
﴿@نسیم احمد بھائی﴾
کوئی یہ کہے کہ یہ احکام ان کے لئے ہیں جو جاسوس اور مفسد ثابت ہو چکے ہوں، شک کی بناء پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا!
تو یہ اس کی غلط فہمی ہے کہ پہلے کسی شخص کو قاضی جاسوس قرار دے کر اس پر اس کی سزا نافظ کرے، پھر اس جاسوس کا لنگوٹ کھول کر اس کے جاسوس ہونے کا ثبوت نکالنا جائز ہوگا! یعنی کے پہلے اسے مجرم قرار دیا جائے، اور پھر اس کے جرم کے ثبوت تلاش کیئے جائیں!
کوئی یہ کہے کہ یہ کافر جاسوس کے لئے ہے، تو یہ بھی اس کی غلط فہمی ہے، کہ اسی حدیث کے تحت انہیں کتب میں مزید دیکھا جا سکتا ہے کہ جاسوس کے اسلام سے خارج نہ ہونے کی بحث موجودہے، بہر حال اس سے اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ جاسوس مسلم بھی ہو سکتا ہے، خواہ وہ جاسوس ثابت ہونے پر کافر قرار پاتا ہو یا نہیں!

بعض کی طرف سے تھریڈ میں کچھ ''ڈئیلاگ بازی'' بھی کی گئی ہے، اسے درگزر کرتا ہوں!

@عمران ناصر بھائی! آپ کے مراسلہ پر ان شاء اللہ اگلے مراسلہ میں عرض کرتا ہوں!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ کے مؤقف کے مطابق حکومتِ وقت کے خلاف احتجاج، بغاوت یا فساد کے زمرے میں آتا ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے میرا یہ موقف کہاں سے اور کیسے اخذ کیا کہ حکومت وقت کے خلاف احتجاج کو بغاوت یا فساد قرار دیا ہو!
نہ تو میں نے اس تھریڈ میں اور نہ کسی اور جگہ کبھی ایسی بات کی!
میرا یہ مؤقف قطعی نہیں، کہ حکومت وقت کے خلاف محض احتجاج کو بغاوت یا فساد قرار دوں!
حکومت وقت کے خلاف اگر کسی مسئلہ میں ان سے احتجاج کیا جائے، اور اپنے حق کا یا کسی حق کا مطالبہ کرنےکو نہ میں بغاوت سمجھتا ہوں، نہ فساد!
لیکن احتجاج کی نوعت ایسی ہو کہ اس سے ملک میں انتشار پیدا کیا جائے، اور ریاست اور لوگوں کو نقصان پہنچانے والی ہو، تو وہ ضرور فساد ہے،اور بغاوت کا معاملہ اس کے بھی علاوہ ہے!
لیکن اب تک کی بحث سے میں جو سمجھا ہوں ، دوسرے فریق کی حرفِ شکایت ایک ایسے ادارے کے بارے میں ہے، جو آئینِ پاکستان کی رُو سے حکومتِ وقت کے ماتحت ہے، لیکن یہ ادارہ بجائے خود ملک کی منتخب حکومتوں کو گرانے اور بنانے کا ذمہ دار ہے، تو سوال یہ ہے کہ کیا ایسے ادارے کی ایسی ماورائے آئین کاروائیوں اور اقدامات ، جو حکومتِ وقت کے علم اور اجازت کے بغیر عمل میں لائے جاتے ہیں، کے خلاف آواز بلند کرنا بھی فساد اور بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔
جب حکومت وقت کے علم اور اجازت کے بغیر کچھ کیا جا رہا ہے، تو حکومت ان کے خلاف تادیبی کاروائی کیوں نہیں کرتی؟
حکومت تادیبی کاروائی کرے!
وہ کیا کہتے ہیں کہ ''شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے''
وہ ادارے یا اس ادارے کے افراد جو اپنے اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے حکومت کے خلاف سازشیں رچا کرتے ہیں، بلا شبہ وہ پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق بھی مجرم ہیں، اور یہ حکومتیں اور حکومت کے افراد بھی اس معاملہ میں دورخی سے کام لیتے ہیں، کہ جب کسی دوسرے کی حکومت ہوتی ہے، تو یہ لوگ خود ان کے ساتھ ان سازشوں میں شامل ہوتے ہیں، اور جب اپنی حکومت ہوتی ہے، تو ان اداروں کے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات پر قدخن لگانے کی بجائے، اپنا الّو سیدھا کرنے کے لئے نہ ان پر کوئی قدخن لگاتے ہیں، بلکہ انہیں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں! اور جب اپنے پر پڑتی ہے، تو یکایک ''نظریاتی'' ہونے کا نعرہ لگا دیتے ہیں!
مثال اس کی کہ جب مشرف پر آئین توڑنے پر غداری کا مقدمہ قائم کرکے اسے سزا دینے کا مطالبہ کیا جاتا ہے، تو اسی آئین کے مطابق آئین توڑنے میں مدد کرنے والوں کے خلاف کیوں نہیں کیا جاتا، بلکہ انہیں حکومت اور کابینہ میں شامل کر لیا جاتا ہے!
اور جب یہ خود ایک اور آئین توڑنے والے ضیاء الحق کے''نو رتن '' بنے ہوئے تھے! ان پر بھی آئین کی اس شک کا اطلاق ہوتا ہے!
بہر حال ہمارے ملک کے ان مسائل کا حل آئین وقانون کی بالادستی میں ہے!
ہمارے ان اداروں کے متعلق، یا یوں کہیں کہ ایوب، ضیاء اور مشرف کے تناظر میں ایک شعر عرض کرتا ہوں:
آیا تھا گھر سنوارنے، احسان کر گیا
بربادیوں کا اور بھی سامان کر گیا

ویسے اس وقت تو حکومت اور ان اداروں میں بہت ایکا ہے، بلکہ یہ کہا جائے کہ حکومت ان اداروں کی نمائندہ ہے، تو غلط نہ ہوگا!
 
Last edited:

ZArgaam

مبتدی
شمولیت
دسمبر 27، 2018
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
7
"تھریڈ کی مالکن" مَیں ہوں.



کتمانِ حق فساد ہے،
تلبیسِ حق فساد ہے،
زبان کو مروڑ کر (یَّلۡوٗنَ اَلۡسِنَتَہُمۡ) دلائل کی روح بدلنا فساد ہے.

شبہات کا رد نہیں کیا گیا. بلکہ شبہات کا آغاز کیا گیا. یہ بھی علمی فساد ہے.

رئیس المنافقين، ہمیشہ بڑھ چڑھ کر تقاریر کرتا تھا، خود کو اسلام اور مسلمانوں کا خیرخواہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا تھا، نبی مکرم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتا تھا.

جسکو تقریر، شبہات کا رد، اور ہاہاہاہا کرنا ہے، وہ اپنا ایک الگ تھریڈ بنا لے.

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ.
دلائل سے محرومی، غصہ کا آغاز!!

Sent from my F103 Pro using Tapatalk
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
بلا وجہ '' اور ''حبس بے جا'' یہ ہر ملزم کا نکتہ نظر ہوتا ہے، جبکہ تفتشی ادارہ کی نظر میں اس کے برعکس!
بہر حال بلا وجہ کسی کو حبس بے جا میں رکھنے کی شریعت میں اجازت نہیں! اور نہ ہی میں نے یہ بات کہی ہے!
محترم
یعنی اپ کے مطابق ہر ملزم گنہگار ہی ہے چاہے وہ واقعہ بےقصور ہو معزرت کے ساتھ آج کل وردی والے ۸۰ فیصد کو اٹھاتے فقط مال بٹورنے کے لئے ہیں
یہ آپ کی خوش فہمی ہے کہ اپ نے یہ بات نہیں کہی ہے جب آپ سے یہ کہاں گیا تھا کہ بلاوجہ عورتوں کو اٹھایا جا رہا ہے تب اپ نے یہ حدیث پیش فرما دی کہ عورت کو تفتیش کے لئے برہنہ کیا جاسکتا ہےجبکہ اپ کو اسی وقت اس پر نقد کرنی چاہیے تھی مگر اپ نے اس کی نفی کرنے کے لئے دلیل پیش کردی اپ کی حدیث میں اس جاسوس کو برہنہ کرنے کی دھمکی دی گئی اور اس سے اسلام اور دین کی بھلائی تھی اور یہاں تو فقط بلاوجہ ہی تفتیش کے نام پر یہ کارنامہ کیا جارہا ہے جس سے دین کا کم از کم کوئی فائدہ نہیں ہے اور بلاوجہ اٹھانے میں اور اس حدیث میں عورت کو برہنہ کرنے میں کوئی ربط ہی نہیں ہے کہاں جاسوس اور کہاں بلاوجہ صرف عورتوں کی تذلیل اور مال بٹورنے کی خاطر کسی کو اٹھانا شریعت کا کوئی مقصود نہیں ہے اور نہ ان کو برہنہ کرنے سے دین کا کوئی فائدہ ہے الٹا فساد کا باعث ہے


میری پیش کردہ حدیث میں عورت کو تفتیش میں برہنہ کرنے کا ثبوت موجود ہے، اور جس عورت کو برہنہ کیا گیا، وہ عورت مشرکہ تھی، لیکن اس سے یہ حکم صرف مشرک عورتوں کے لئے خاص نہیں ہوتا
محترم،
آپ کی پیش کردہ دلیل میں یہ کہیں بھی موجود نہیں کہ ہر کسی کو تفتیش کے نام پر آٹھا کر برہنہ کر دیا جائے اپ نے جتنے حوالے پیش کیے ہیں ان میں فقط یہ بات ہے کہ جاسوس وہ بھی اس کے لئے جس سے مسلمانوں اور دین کا نقصان ہوتا ہواس کے لئے یہ اقدام جائز رکھا گیا وہ بھی ایک انتہائی اقدام ہے کہ جو روایت پیش کی ہے اس میں صرف دھمکی دی گئی تھی دھمکی دینے اور کرنے میں فرق ہے مگرآپ اس پر قیاس فرما کر ہر کسی کے لئے اس کو جائز فرما رہے ہیں اور وہ بھی آج کے لٹیروں کی لیں جبکہ اس میں جاسوس کی تخصیص کی گئی ہے وہ بھی اس حد تک کہ یقین ہو کہ اس جاسوس سے مسلمانوں کا نقصان ہوتا ہو۔

میری تحریر سے وہ عبارت تو پیش کریں کہ جہاں میں نے خیر القرون کی نیک ہستوں کا آج کے دور کے افراد سے موازنہ کیا ہو!
محترم
یہ مجھے پیش کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے
خود بتاتا ہے آئینہ دل حال تیرا
تو اپنی تحریر خود پڑھ لیں۔
آپ کو فقہ سے متعلق بھی غلط فہمی لاحق ہے، فقہ اسلامی قرآن وسنت سے مسائل کے استدلال واستخراج کا نام ہے! یعنی کہ فقہ اسلامی کا ماخوذ قرآن وسنت ہی ہے!
تو پھر فقہ حنفی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے

میری جنم بھومی کراچی کی ہے، میں ان وردی والوں کے ''کارناموں'' سے اچھی طرح واقف ہوں!
جناب
میں بھی کوئِی افغانستان میں پیدا نہیں ہوا مگر مجھے ایسا لگتا نہیں ہے کہ اپ کا واسطہ ان سے پڑتا ہوگا میں تو اس لئے جانتا ہوں کہ ہمارا سار خاندان وکلاء اور ججوں کا ہےاور ہم سے زیادہ وردی والوں کو صرف وردی والے ہی جان سکتے ہیں بہرحال شریعت کے یہ قانونی احکام جب نافذ العمل ہوں گے جب شریعت نافذ ہو اور ایسے نیک لوگ ہوں جو واقعی جاسوس کو دین اور مسلمانوں کے فائدے کے لئے گرفتار کریں مال بٹورنے یا عصمت دری کی خاطر نہیں والسلام علیکم
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@نسیم احمد بھائی! آپ جاننا چاہتے تھے کہ میرا اسلوب اتنا جارہانہ کیوں ہے!
ایک نظیر دیکھ لیں! کہ کس طرح غلط بیانی کی جاتی ہے، اور جھوٹ منسوب کیا جاتا ہے!
اس پر میرے قلم سے میٹھے بول تو نہیں نلکتے!

محترم
یعنی اپ کے مطابق ہر ملزم گنہگار ہی ہے چاہے وہ واقعہ بےقصور ہو معزرت کے ساتھ آج کل وردی والے ۸۰ فیصد کو اٹھاتے فقط مال بٹورنے کے لئے ہیں
یہ آپ کی خوش فہمی ہے کہ اپ نے یہ بات نہیں کہی ہے جب آپ سے یہ کہاں گیا تھا کہ بلاوجہ عورتوں کو اٹھایا جا رہا ہے تب اپ نے یہ حدیث پیش فرما دی کہ عورت کو تفتیش کے لئے برہنہ کیا جاسکتا ہےجبکہ اپ کو اسی وقت اس پر نقد کرنی چاہیے تھی مگر اپ نے اس کی نفی کرنے کے لئے دلیل پیش کردی اپ کی حدیث میں اس جاسوس کو برہنہ کرنے کی دھمکی دی گئی اور اس سے اسلام اور دین کی بھلائی تھی اور یہاں تو فقط بلاوجہ ہی تفتیش کے نام پر یہ کارنامہ کیا جارہا ہے جس سے دین کا کم از کم کوئی فائدہ نہیں ہے اور بلاوجہ اٹھانے میں اور اس حدیث میں عورت کو برہنہ کرنے میں کوئی ربط ہی نہیں ہے کہاں جاسوس اور کہاں بلاوجہ صرف عورتوں کی تذلیل اور مال بٹورنے کی خاطر کسی کو اٹھانا شریعت کا کوئی مقصود نہیں ہے اور نہ ان کو برہنہ کرنے سے دین کا کوئی فائدہ ہے الٹا فساد کا باعث ہے
میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا کہ آپ میرے مراسلوں کو حالت مراقبہ میں پڑھتے ہیں، یا حالت جنون میں؟
مراسلہ نمبر 70 میں دیکھیں:
اسی کے محلے کی کئی بہنیں ہفتہ دس دن، پندرہ دن کے لیے پکڑی جا رہیں، کیا یہ فساد نہیں کہلائے گا؟
اور سوال 3؛؛ بہنوں کو گھروں سے اٹھانا تفتیش کے لئے فساد نہ کہلائے گا؟
اس کے تحت یہ حدیث پیش کی گئی تھی!
آپ کی باقی باتیں اسی غلط بنیاد پر قائم ہے!
آپ کی پیش کردہ دلیل میں یہ کہیں بھی موجود نہیں کہ ہر کسی کو تفتیش کے نام پر آٹھا کر برہنہ کر دیا جائے اپ نے جتنے حوالے پیش کیے ہیں ان میں فقط یہ بات ہے کہ جاسوس وہ بھی اس کے لئے جس سے مسلمانوں اور دین کا نقصان ہوتا ہواس کے لئے یہ اقدام جائز رکھا گیا وہ بھی ایک انتہائی اقدام ہے کہ جو روایت پیش کی ہے اس میں صرف دھمکی دی گئی تھی دھمکی دینے اور کرنے میں فرق ہے مگرآپ اس پر قیاس فرما کر ہر کسی کے لئے اس کو جائز فرما رہے ہیں اور وہ بھی آج کے لٹیروں کی لیں جبکہ اس میں جاسوس کی تخصیص کی گئی ہے وہ بھی اس حد تک کہ یقین ہو کہ اس جاسوس سے مسلمانوں کا نقصان ہوتا ہو۔
ان ساری باتوں کا جواب پچھلے مراسلہ میں موجود ہے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ آپ کہ علم الحدیث اور علم الفقہ سے متعلق تحریر سمجھنے میں کافی دشواری ہے، اس کی دہری وجوہات ہیں، ایک آپ کی علم الحدیث اور علم الفقہ کی کم علمی، اور دوسری فہم کلام کی کمی!
یہ مجھے پیش کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے
خود بتاتا ہے آئینہ دل حال تیرا
تو اپنی تحریر خود پڑھ لیں۔
''ضرورت بھی نہیں'' کیا مطلب؟
یہ آپ سے مطالبہ کیا گیا ہے، کہ آپ نے مجھ پر تہمت باندھی تھی!
آپ اس کا ثبوت نہیں پیش کرسکے، اور نہ ہی کر سکتے ہیں، کیونکہ میں نے ایسی کوئی بات کی ہی نہیں!
اور آپ کا مجھ پر جھوٹ بولنا ثابت ہوتا ہے!
تو پھر فقہ حنفی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے
فقہ حنفیہ ، فقہ اہل الرائے ہے، کہ جس میں بعض امور میں خبر واحد کا انکار شامل ہے!
اسی بناء پر فقہ حنفی انکار حدیث پر مشتمل ہے!
میں بھی کوئِی افغانستان میں پیدا نہیں ہوا مگر مجھے ایسا لگتا نہیں ہے کہ اپ کا واسطہ ان سے پڑتا ہوگا میں تو اس لئے جانتا ہوں کہ ہمارا سار خاندان وکلاء اور ججوں کا ہےاور ہم سے زیادہ وردی والوں کو صرف وردی والے ہی جان سکتے ہیں
شرعی حکم آپ کے اور آپ کے خاندان کے تاثرات سے اخذ نہیں کیئے جائیں گے، شرعی احکام قرآن و حدیث سے اخذ کیئے جائیں گے، اور یہ اس شرعی حکم کا ثبوت بڑی تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے!
بہرحال شریعت کے یہ قانونی احکام جب نافذ العمل ہوں گے جب شریعت نافذ ہو اور ایسے نیک لوگ ہوں جو واقعی جاسوس کو دین اور مسلمانوں کے فائدے کے لئے گرفتار کریں مال بٹورنے یا عصمت دری کی خاطر نہیں
یہ حزب التحریر جیسے غالی خارجیوں کی باطل سوچ ہے!
 
Last edited:
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@نسیم احمد بھائی! آپ جاننا چاہتے تھے کہ میرا اسلوب اتنا جارہانہ کیوں ہے!
ایک نظیر دیکھ لیں! کہ کس طرح غلط بیانی کی جاتی ہے، اور جھوٹ منسوب کیا جاتا ہے!
اس پر میرے قلم سے میٹھے بول تو نہیں نلکتے!


میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا کہ آپ میرے مراسلوں کو حالت مراقبہ میں پڑھتے ہیں، یا حالت جنون میں؟
مراسلہ نمبر 70 میں دیکھیں:


اس کے تحت یہ حدیث پیش کی گئی تھی!
آپ کی باقی باتیں اسی غلط بنیاد پر قائم ہے!

ان ساری باتوں کا جواب پچھلے مراسلہ میں موجود ہے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ آپ کہ علم الحدیث اور علم الفقہ سے متعلق تحریر سمجھنے میں کافی دشواری ہے، اس کی دہری وجوہات ہیں، ایک آپ کی علم الحدیث اور علم الفقہ کی کم علمی، اور دوسری فہم کلام کی کمی!

''ضرورت بھی نہیں'' کیا مطلب؟
یہ آپ سے مطالبہ کیا گیا ہے، کہ آپ نے مجھ پر تہمت باندھی تھی!
آپ اس کا ثبوت نہیں پیش کرسکے، اور نہ ہی کر سکتے ہیں، کیونکہ میں نے ایسی کوئی بات کی ہی نہیں!
اور آپ کا مجھ پر جھوٹ بولنا ثابت ہوتا ہے!

فقہ حنفیہ ، فقہ اہل الرائے ہے، کہ جس میں بعض امور میں خبر واحد کا انکار شامل ہے!
اسی بناء پر فقہ حنفی انکار حدیث پر مشتمل ہے!

شرعی حکم آپ کے اور آپ کے خاندان کے تاثرات سے اخذ نہیں کیئے جائیں گے، شرعی احکام قرآن و حدیث سے اخذ کیئے جائیں گے، اور یہ اس شرعی حکم کا ثبوت بڑی تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے!

یہ حزب التحریر جیسے غالی خارجیوں کی باطل سوچ ہے!
آپ نے دلائل پر بہت محنت کی ہے. اسکی جزا صرف اللہ دے گا.

لیکن

دلائل اور حقائق آپس میں کیوں ٹکرا رہے ہیں؟
حالانکہ
میں نے ایک اور فساد کی طرف بھی توجہ دلائی ہے. اسکے علاوہ بھی بہت سے تباہ کن فتنے نظر میں ہیں.

آپ نے مراسلہ 105 میں درست کہا ہے. حقیقت تو یہی ہے نا کہ یہ حکومتیں ہوں یا افواج،، یہ تو درحقیقت شریعت سے بغض رکھتی ہیں. تو انکے جرائم کے اندھیرے عام آدمی کو پہنچ گئے ہیں. اب عدالتوں میں بھی تو عدل و انصاف نہیں. تو عام آدمی قانون کو ہاتھ میں لیتا ہے اور پھر نہ ختم ہونے والا فساد جاری.

وہ تو خیر القرون کا دور تھا جب مظلوم یا عام آدمی شرعی علم میں پختگی رکھتا تھا. ابھی حال ہی میں اسید بن حضیر کا واقعہ پڑھا جنہیں حجاج بن یوسف نے شہید کروایا.

تو اصل بات تو یہی ہے نا کہ شرعیت سے متصادم ہر نظام بل شک و شبہ، ظلم و فساد کی جڑ و وجہ ہے!
 
Top