• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسند احمد (مسند الخلفاء الراشدین) یونیکوڈ

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
(120) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ اللهِ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ حُمْرَةَ بْنِ عَبْدِ كُلالٍ، قَالَ: سَارَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى الشَّامِ بَعْدَ مَسِيرِهِ الْأَوَّلِ كَانَ إِلَيْهَا، حَتَّى إِذَا شَارَفَهَا، بَلَغَهُ وَمَنْ مَعَهُ أَنَّ الطَّاعُونَ فَاشٍ فِيهَا، فَقَالَ لَهُ أَصْحَابُهُ: ارْجِعْ وَلا تَقَحَّمْ عَلَيْهِ، فَلَوْ نَزَلْتَهَا وَهُوَ بِهَا لَمْ نَرَ لَكَ الشُّخُوصَ عَنْهَا. فَانْصَرَفَ رَاجِعًا إِلَى الْمَدِينَةِ، فَعَرَّسَ مِنْ لَيْلَتِهِ تِلْكَ، وَأَنَا أَقْرَبُ الْقَوْمِ مِنْهُ، فَلَمَّا انْبَعَثَ، انْبَعَثْتُ مَعَهُ فِي أَثَرِهِ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: رَدُّونِي عَنِ الشَّامِ بَعْدَ أَنْ شَارَفْتُ عَلَيْهِ، لِأَنَّ الطَّاعُونَ فِيهِ، أَلَا وَمَا مُنْصَرَفِي عَنْهُ بمُؤَخِّرٍّ فِي أَجَلِي، وَمَا كَانَ قُدُومِي مِنْهُ بمُعَجِّلِي عَنْ أَجَلِي، أَلا وَلَوْ قَدْ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَفَرَغْتُ مِنْ حَاجَاتٍ لَا بُدَّ لِي مِنْهَا، لَقَدْ سِرْتُ حَتَّى أَدْخُلَ الشَّامَ، ثُمَّ أَنْزِلَ حِمْصَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَيَبْعَثَنَّ اللهُ مِنْهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سَبْعِينَ أَلْفًا لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ وَلا عَذَابَ عَلَيْهِمْ، مَبْعَثُهُمْ فِيمَا بَيْنَ الزَّيْتُونِ وَحَائِطِهَا فِي الْبَرْثِ الْأَحْمَرِ مِنْهَا". [إسناده ضعيف، صححه الحاكم (3/88) وقال الذهبي: منكر. وقال ابن الجوزي في "العلل المتناهية" (1/307): هذا حديث لا يصح]
(120) حمرہ بن عبد کلال کہتے ہیں کہ پہلے سفر شام کے بعد ایک مرتبہ پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ شام کی طرف روانہ ہوئے، جب اس کے قریب پہنچے تو آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو یہ خبر ملی کی شام میں طاعون کی وباء پھوٹ پڑی ہے، ساتھیوں نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے کہا کہ یہیں سے واپس لوٹ چلیے، آگے مت بڑھیے، اگر آپ وہاں چلے گئے اور واقعی یہ وباء وہاں پھیلی ہوئی ہو تو ہمیں آپ کو وہاں سے منتقل کرنے کی کوئی صورت پیش نہیں آئے گی۔
چنانچہ مشورہ کے مطابق حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ واپس آگئے، اس رات جب آپ نے آخری پہر میں پڑاؤ ڈالا تو میں آپ کے سب سے زیادہ قریب تھا، جب وہ اٹھے تو میں بھی ان کے پیچھے پیچھے اٹھ گیا، میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں شام کے قریب پہنچ گیا تھا لیکن یہ لوگ مجھے وہاں سے اس بناء پر واپس لے آئے کہ وہاں طاعون کی وباء پھیلی ہوئی ہے، حالانکہ وہاں سے واپس آجانے کی بناء پر میری موت کے وقت میں تو تاخیر ہو نہیں سکتی، اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ میری موت کا پیغام جلد آجائے اس لئے اب میرا ارادہ یہ ہے کہ اگر میں مدینہ منورہ پہنچ کر ان تمام ضروری کاموں سے فارغ ہو گیا جن میں میری موجودگی ضروری ہے تو میں شام کی طرف دوبارہ ضرور روانہ ہوں گا اور شہر "حمص" میں پڑاؤ کروں گا، کیونکہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے ستر ہزار ایسے بندوں کو اٹھائے گا جن کا نہ حساب ہوگا اور نہ ہی عذاب اور ان کے اٹھائے جانے کی جگہ زیتون کے درخت اور سرخ ونرم زمین میں اس کے باغ کے درمیان ہوگی۔


(121) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَقِيلٍ، عَنِ ابْنِ عَمِّهِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا يُحَدِّثُ أَصْحَابَهُ، فَقَالَ: " مَنْ قَامَ إِذَا اسْتَقَلَّتِ الشَّمْسُ فَتَوَضَّأَ، فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، غُفِرَ لَهُ خَطَايَاهُ فَكَانَ كَمَا وَلَدَتْهُ أُمُّهُ ". قَالَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ: فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي رَزَقَنِي أَنْ أَسْمَعَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَكَانَ تُجَاهِي جَالِسًا: أَتَعْجَبُ مِنْ هَذَا؟ فَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْجَبَ مِنْ هَذَا قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَ، فَقُلْتُ: وَمَا ذَاكَ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي؟ فَقَالَ عُمَرُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ رَفَعَ نَظَرَهُ إِلَى السَّمَاءِ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فُتِحَتْ لَهُ ثَمَانِيَةُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، يَدْخُلُ مِنْ أَيِّهَا شَاءَ ". [قال الالباني: ضعيف (ابوداؤد: 170) قال شعيب: صحيح لغيره]
(121) حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ غزوہ تبوک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ حدیث بیان کرنے کے لئے بیٹھے اور فرمایا جو شخص استقلال شمس کے وقت کھڑا ہو کر خوب اچھی طرح وضو کرے اور دو رکعت نماز پرھ لے، اس کے سارے گناہ اس طرح معاف کردئیے جائیں گے گویا کہ اس کی ماں نے اسے آج ہی جنم دیا ہو حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ ارشاد سننے کی توفیق عطا فرمائی۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس مجلس میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، وہ فرمانے لگے کہ کیا آپ کو اس پر تعجب ہو رہا ہے؟ آپ کے آنے سے پہلے نبی نے اس سے بھی زیادہ عجیب بات فرمائی تھی، میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر فداء ہوں، وہ کیا بات تھی؟ فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا تھا جو شخص خوب اچھی طرح وضو کرے، پھر آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے اور یہ کہے
اشہد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشہد ان محمدا عبدہ ورسولہ
اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جائیں گے کہ جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔


(122) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ - يَعْنِي أَبَا دَاوُدَ الطَّيَالِسِيَّ - قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ دَاوُدَ الْأَوْدِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُسْلِيِّ عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: ضِفْتُ عُمَرَ، فَتَنَاوَلَ امْرَأَتَهُ فَضَرَبَهَا، وَقَالَ: يَا أَشْعَثُ، احْفَظْ عَنِّي ثَلاثًا حَفِظْتُهُنَّ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَسْأَلِ الرَّجُلَ فِيمَ ضَرَبَ امْرَأَتَهُ، وَلا تَنَمْ إِلَّا عَلَى وَتْرٍ " وَنَسِيتُ الثَّالِثَةَ. [قال الالباني: ضعيف (ابوداؤد: 2147، ابن ماجة: 1986)]
(122) اشعث بن قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی دعوت کی ان کی زوجہ محترمہ نے انہیں دعوت میں جانے سے روکا انہیں یہ بات ناگوار گذری اور انہوں نے اپنی بیوی کو مارا، پھر مجھ سے فرمانے لگے اشعث! تین باتیں یاد رکھو جو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر یاد کی ہیں ۔
(١) کسی شخص سے یہ سوال مت کرو کہ اس نے اپنی بیوی کو کیوں مارا ہے؟
(٢) وتر پڑھے بغیر مت سویا کرو ۔
(٣) تیسری بات میں بھول گیا۔


(123) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا يَزِيدُ - يَعْنِي الرِّشْكَ - عَنْ مُعَاذَةَ، عَنْ أُمِّ عَمْرٍو ابْنَةِ عَبْدِ اللهِ، أَنَّهَا سَمِعَتْ عَبْدَ اللهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، يَقُولُ: سَمِعَتْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ فِي خُطْبَتِهِ، أَنَّهُ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "مَنْ يَلْبَسِ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا، فَلايُكْسَاهُ فِي الْآخِرَةِ. [صححه البخاري (5834) ومسلم (2069)] [راجع: 251، 269]
(123) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص دنیا میں ریشم پہنے گا، وہ آخرت میں اسے نہیں پہنایا جائے گا۔


(124) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَيَسِيرَنَّ الرَّاكِبُ فِي جَنَبَاتِ الْمَدِينَةِ، ثُمَّ لَيَقُولُ: لَقَدْ كَانَ فِي هَذَا حَاضِرٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ كَثِيرٌ ". قَالَ أَبِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: وَلَمْ يَجُزْ بِهِ حَسَنٌ الْأَشْيَبُ جَابِرًا. [قال شعيب: حسن لغيره] [وسيأتي في مسند جابر: 14734]
(124) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب ایک سوار مدینہ منورہ کے اطراف وجوانب میں چکر لگاتا ہوگا اور کہتا ہوگا کہ کبھی یہاں بہت سے مومن آباد ہوا کرتے تھے۔


(125) حَدَّثَنَا هَارُونُ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ السَّائِبِ حَدَّثَهُ، أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ أَبِي الْقَاسِمِ السَّبَائِيَّ حَدَّثَهُ، عَنْ قَاصِّ الْأَجْنَادِ بِالْقُسْطَنْطِينِيَّةِ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلا يَقْعُدَنَّ عَلَى مَائِدَةٍ يُدَارُ عَلَيْهَا الْخَمْرُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلا يَدْخُلِ الْحَمَّامَ إِلَّا بِإِزَارٍ، وَمَنْ كَانَتْ تُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلا تَدْخُلِ الْحَمَّامَ". [قال شعيب: حسن لغيره]
(125) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا اے لوگو! میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ کسی ایسے دستر خوان پر مت بیٹھے جہاں شراب پیش کی جاتی ہو جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ بغیر تہبند کے حمام میں داخل نہ ہو اور جو عورت اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو وہ حمام میں مت جائے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
(126) حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ الْخُزَاعِيُّ، أَخْبَرَنَا لَيْثٌ، وَيُونُسُ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ الْهَادِ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي الْوَلِيدِ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللهِ - يَعْنِي ابْنَ سُرَاقَةَ - عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ أَظَلَّ رَأْسَ غَازٍ، أَظَلَّهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ جَهَّزَ غَازِيًا حَتَّى يَسْتَقِلَّ، كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ حَتَّى يَمُوتَ - قَالَ: يُونُسُ: أَوْ يَرْجِعَ - وَمَنْ بَنَى لِلَّهِ مَسْجِدًا يُذْكَرُ فِيهِ اسْمُ اللهِ تَعَالَى، بَنَى اللهُ لَهُ بِهِ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ ". [صححه ابن حبان (1608) والحاكم (2/89) وارسله البوصيري. قال الالباني: صحيح (ابن ماجة: 735 و 2758]
(126) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص کسی مجاہد کے سر پر سایہ کرے، اللہ قیامت کے دن اس پر سایہ کرے گا، جو شخص مجاہد کے لۓ سامان جہاد مہیا کرے یہاں تک کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجائے، اس کے لئے اس مجاہد کے برابر اجر لکھاجاتا رہے گا جب تک وہ فوت نہ ہوجائے، اور جو شخص اللہ کی رضا کے لئے مسجد تعمیر کرے جس میں اللہ کا ذکر کیا جائے، اللہ جنت میں اس کا گھر تعمیر کردے گا۔


(127) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ، يَقُولُ: قَسَمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِسْمَةً، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، لَغَيْرُ هَؤُلاءِ أَحَقُّ مِنْهُمْ: أَهْلُ الصُّفَّةِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّكُمْ تُخَيِّرُونِي بَيْنَ أَنْ تَسْأَلُونِي بِالْفُحْشِ، وَبَيْنَ أَنْ تُبَخِّلُونِي، وَلَسْتُ بِبَاخِلٍ ". [صححه مسلم (1056)] [انظر: 234]
(127) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ چیزیں تقسیم فرمائیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان کے زیادہ حقدار تو ان لوگوں کو چھوڑ کر اہل صفہ تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم مجھ سے غیر مناسب طریقے سے سوال کرنے یا مجھے بخیل قرار دینے میں خود مختار ہو، حالانکہ میں بخیل نہیں ہوں۔
فائدہ : مطلب یہ ہے کہ اگر میں نے اہل صفہ کو کچھ نہیں دیا تو اپنے پاس کچھ بچا کر نہیں رکھا اور اگر دوسروں کو دیا ہے تو ان کی ضروریات کو سامنے رکھ دیا۔


(128) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ، عَنْ أَبِيهِ، أَوْ عَنْ جَدِّهِ. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الْحَدَثِ تَوَضَّأَ، وَمَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ. [قال شعيب: صحيح لغيره] [انظر: 216، 343]
(128) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ نے حدث لاحق ہونے کے بعد وضو کیا اور موزوں پر مسح فرما لیا۔


(129) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، كَانَ مُسْتَنِدًا إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعِنْدَهُ ابْنُ عُمَرَ، وَسَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، فَقَالَ: اعْلَمُوا أَنِّي لَمْ أَقُلْ فِي الْكَلالَةِ شَيْئًا، وَلَمْ أَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِي أَحَدًا، وَأَنَّهُ مَنْ أَدْرَكَ وَفَاتِي مِنْ سَبْيِ الْعَرَبِ، فَهُوَ حُرٌّ مِنْ مَالِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ: أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَشَرْتَ بِرَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، لَائتَمَنَكَ النَّاسُ، وَقَدْ فَعَلَ ذَلِكَ أَبُو بَكْرٍ وَائْتَمَنَهُ النَّاسُ. فَقَالَ عُمَرُ: قَدْ رَأَيْتُ مِنْ أَصْحَابِي حِرْصًا سَيِّئًا، وَإِنِّي جَاعِلٌ هَذَا الْأَمْرَ إِلَى هَؤُلاءِ النَّفَرِ السِّتَّةِ الَّذِينَ مَاتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ، ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: لَوْ أَدْرَكَنِي أَحَدُ رَجُلَيْنِ، ثُمَّ جَعَلْتُ هَذَا الْأَمْرَ إِلَيْهِ لَوَثِقْتُ بِهِ: سَالِمٌ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ. [إسناده ضعيف]
(129) حضرت ابورافع کہتے ہیں کہ زندگی کے آخری ایام میں ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، اس وقت حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اور سعید بن زید رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، آپ نے فرمایا کہ یہ بات آپ کے علم میں ہونی چاہیے کہ میں نے کلالہ کے حوالے سے کوئی قول اختیار نہیں کیا، اور نہ ہی اپنے بعد کسی کو بطور خلیفہ کے نامزد کیا ہے اور یہ کہ میری وفات کے بعد عرب کے جتنے قیدی ہیں، سب اللہ کے راستہ میں آزاد ہوں گے۔
حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ اگر آپ کسی مسلمان کے متعلق خلیفہ ہونے کا مشورہ ہی دے دیں تو لوگ آپ پر اعتماد کریں گے جیسا کہ اس سے قبل حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور لوگوں نے ان پر بھی اعتماد کیا تھا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا دراصل مجھے اپنے ساتھیوں میں ایک بری لالچ دکھائی دے رہی ہے، اس لئے میں ایسا تو نہیں کرتا، البتہ ان چھ آدمیوں پر اس بوجھ کو ڈال دیتا ہوں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بوقت وفات دنیا سے راضی ہو کر گئے تھے، ان میں سے جسے چاہو، خلیفہ منتخب کرلو۔
پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر دو میں سے کوئی ایک آدمی بھی موجود ہوتا اور میں خلافت اس کے حوالے کر دیتا تو مجھے اطمینان رہتا، ایک سالم جو کہ ابوحذیفہ کے غلام تھے اور دوسرے حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ۔


(130) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، حَدَّثَنِي أَبُو الْعَالِيَةِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: شَهِدَ عِنْدِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ فِيهِمْ عُمَرُ - وَأَرْضَاهُمْ عِنْدِي عُمَرُ -: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا صَلاةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَلا صَلاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ ". [راجع: 110]
(130) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مجھے ایسے لوگوں نے اس بات کی شہادت دی ہے ”جن کی بات قابل اعتماد ہوتی ہے ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں جو میری نطروں میں ان سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں“ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے اور عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
(131) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَكَبَّ عَلَى الرُّكْنِ، فَقَالَ: إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ، وَلَوْ لَمْ أَرَ حِبِّي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَكَ وَاسْتَلَمَكَ، مَا اسْتَلَمْتُكَ وَلَا قَبَّلْتُكَ، لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ. [قال الالباني: اسناده قوي]
(131) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حجر اسود کو بوسہ دینے کے لئے اس پر جھکے تو فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، اگر میں نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو تیری تقبیل یا استلام کرتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا اور کبھی تیرا استلام نہ کرتا، ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ تمہارے لئے اللہ كے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ایک ایک لمحے میں بہترین رہنمائی موجود ہے ۔


(132) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا عَمَّارُ بْنُ أَبِي عَمَّارٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " رَأَى فِي يَدِ رَجُلٍ خَاتَمًا مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ: " أَلْقِ ذَا "، فَأَلْقَاهُ، فَتَخَتَّمَ بِخَاتَمٍ مِنْ حَدِيدٍ، فَقَالَ: " ذَا شَرٌّ مِنْهُ "، فَتَخَتَّمَ بِخَاتَمٍ مِنْ فِضَّةٍ، فَسَكَتَ عَنْهُ. [قال الالباني: حسن لغيره]
(132) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے اتار دو، چنانچہ اس نے اتاردی، اور اس کی جگہ لوہے کی انگوٹھی پہن لی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو اس سے بھی بری ہے، پھر اس نے چاندی کی انگوٹھی پہن لی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر سکوت فرمالیا۔


(133) حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ. وَحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتِ الْأَنْصَارُ: مِنَّا أَمِيرٌ، وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ. فَأَتَاهُمْ عُمَرُ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ أَبَا بَكْرٍ أَنْ يَؤُمَّ النَّاسَ؟ فَأَيُّكُمْ تَطِيبُ نَفْسُهُ أَنْ يَتَقَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ؟ فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: نَعُوذُ بِاللهِ أَنْ نَتَقَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ. [صححه الحاكم (3/67) قال الألباني: حسن الاسناد (النسائي: 2/74)] [انظر:3842، 3765]
(133) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو انصار کہنے لگے کہ ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک امیر تم میں سے ہوگا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے، اور فرمایا اے گروہ انصار! کیا آپ کے علم میں بات نہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو لوگوں کی امامت کا حکم خود دیا تھا؟ آپ میں سے کون شخص اپنے دل کی بشاشت کے ساتھ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھ سکتاہے؟ اس پر انصار کہنے لگے اللہ کی پناہ! کہ ہم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھیں ۔


(134) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ رَأَى رَجُلًا تَوَضَّأَ لِلصَّلاةِ، فَتَرَكَ مَوْضِعَ ظُفْرٍ عَلَى ظَهْرِ قَدَمِهِ، فَأَبْصَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " ارْجِعْ فَأَحْسِنْ وُضُوءَكَ ". فَرَجَعَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ صَلَّى. [صححه مسلم (243)]
(134) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ان کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جو نماز کے لئے وضو کر رہا تھا، اس نے وضو کرتے ہوئے پاؤں کی پشت پر ایک ناخن کے بقدر جگہ چھوڑ دی یعنی وہ اسے دھو نہ سکا یا وہاں تک پانی نہیں پہنچا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے دیکھ لیا اور فرمایا کہ جا کر اچھی طرح وضو کرو، چنانچہ اس نے جا کر دوبارہ وضو کیا اور نماز پڑھی۔


(135) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ رَافِعٍ الطَّاطَرِيُّ بَصْرِيٌّ، حَدَّثَنِي أَبُو يَحْيَى، رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، عَنْ فَرُّوخَ، مَوْلَى عُثْمَانَ: أَنَّ عُمَرَ - وَهُوَ يَوْمَئِذٍ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ - خَرَجَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَرَأَى طَعَامًا مَنْثُورًا، فَقَالَ: مَا هَذَا الطَّعَامُ؟ فَقَالُوا: طَعَامٌ جُلِبَ إِلَيْنَا، قَالَ: بَارَكَ اللهُ فِيهِ وَفِيمَنْ جَلَبَهُ، قِيلَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَإِنَّهُ قَدِ احْتُكِرَ. قَالَ: وَمَنِ احْتَكَرَهُ؟ قَالُوا: فَرُّوخُ مَوْلَى عُثْمَانَ، وَفُلانٌ مَوْلَى عُمَرَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمَا فَدَعَاهُمَا، فَقَالَ: مَا حَمَلَكُمَا عَلَى احْتِكَارِ طَعَامِ الْمُسْلِمِينَ؟ قَالا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، نَشْتَرِي بِأَمْوَالِنَا، وَنَبِيعُ، فَقَالَ عُمَرُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنِ احْتَكَرَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ طَعَامَهُمْ، ضَرَبَهُ اللهُ بِالْإِفْلاسِ، أَوْ بِجُذَامٍ "، فَقَالَ فَرُّوخُ عِنْدَ ذَلِكَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أُعَاهِدُ اللهَ وَأُعَاهِدُكَ، أَنْ لَا أَعُودَ فِي طَعَامٍ أَبَدًا، وَأَمَّا مَوْلَى عُمَرَ، فَقَالَ: إِنَّمَا نَشْتَرِي بِأَمْوَالِنَا وَنَبِيعُ. قَالَ أَبُو يَحْيَى: فَلَقَدْ رَأَيْتُ مَوْلَى عُمَرَ مَجْذُومًا. [وأورده ابن الجوزي في "العلل المتناهية، قال الذهبي: والخبر منكر. وصححه البوصيري. قال الالباني: ضعيف (ابن ماجة: 2155]
(135) فروخ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں مسجد جانے کے لئے گھر سے نکلے، راستے میں انہیں جگہ جگہ غلہ نظر آیا، انہوں نے پوچھا یہ غلہ کیسا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ درآمد کیا گیا ہے، فرمایا اللہ اس میں برکت دے اور اس شخص کو بھی جس نے اسے درآمد کیا ہے، لوگوں نے کہا اے امیر المؤمنین! یہ تو ذخیرہ اندوزی کا مال ہے، پوچھا کس نے ذخیرہ کر کے رکھا ہوا تھا؟ لوگوں نے بتایا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے غلام فروخ اور آپ کے فلاں غلام نے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو بلا بھیجا اور فرمایا کہ تم نے مسلمانوں کی غذائی ضروریات کی ذخیرہ اندوزی کیوں کی؟ انہوں نے عرض کیا کہ امیر المؤمنین! ہم اپنے پیسوں سے خریدتے اور بیچتے ہیں (اس لئے ہمیں اپنی مملوکہ چیز پر اختیار ہے، جب مرضی بیچیں) فرمایا میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مسلمانوں کی غذائی ضروریات کی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے تنگدستی اور کوڑھ کے مرض میں مبتلا کردیتا ہے۔
فروخ نے تو یہ سن کر اسی وقت کہا امیرالمومنین! میں اللہ سے اور آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ ایسا نہیں کروں گا، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا غلام اپنی اسی بات پر اڑا رہا کہ ہم اپنے پیسوں سے خریدتے اور بیچتے ہیں (اس لئے ہمیں اختیار ہونا چاہیے) ابو یحییٰ کہتے ہیں کہ بعد میں جب میں نے اسے دیکھا تو وہ کوڑھ کے مرض میں مبتلا ہوچکا تھا۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
(136) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ، يَقُولُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْعَطَاءَ، فَأَقُولُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، حَتَّى أَعْطَانِي مَرَّةً مَالًا، فَقُلْتُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ وَتَصَدَّقْ بِهِ، فَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ، وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلا سَائِلٍ فَخُذْهُ، وَمَا لَا، فَلا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ ". [صححه البخاري (7164) ومسلم (1045)] [انظر: 137]
(136) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ دینا چاہتے تو میں عرض کر دیتا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھ سے زیادہ جو محتاج لوگ ہیں، یہ انہیوں دے دیجئے، اسی طرح ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ مال ودولت عطاء فرمایا، میں نے حسب سابق یہی عرض کیا کہ مجھ سے زیادہ کسی ضرورت مند کو دے دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے لے لو اپنے مال میں اضافہ کرو، اس کے بعد صدقہ کردو، اور یاد رکھو! اگر تمہاری خواہش اور سوال کے بغیر کہیں سے مال آئے تو اسے لے لیا کرو، ورنہ اس کے پیچھے نہ پڑا کرو۔


(137) حَدَّثَنَا هَارُونُ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْعَطَاءَ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ. [صححه البخاري (1473) ومسلم (1045)] [انظر: 136]
(137) گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔


(138) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، حَدَّثَنِي بُكَيْرٌ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: هَشَشْتُ يَوْمًا فَقَبَّلْتُ وَأَنَا صَائِمٌ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: صَنَعْتُ الْيَوْمَ أَمْرًا عَظِيمًا، قَبَّلْتُ وَأَنَا صَائِمٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَرَأَيْتَ لَوْ تَمَضْمَضْتَ بِمَاءٍ وَأَنْتَ صَائِمٌ؟ " قُلْتُ: لَا بَأْسَ بِذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَفِيمَ؟ ". [صححه ابن خزيمة (1999)، وابن حبان (3544)، والحاكم (1/43)، قال الالباني: صحيح (ابوداؤد: 2385) وقال النسائي: وهذا حديث منكر، وبكير مأمون، وعبد الملك بن سعيد رواه عنه غير واحد، ولا ندري ممن هذا] [انظر:372]
(138) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں بہت خوش تھا، خوشی سے سرشار ہو کر میں نے روزہ کی حالت میں ہی اپنی بیوی کا بوسہ لے لیا، اس کے بعد احساس ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آج مجھ سے ایک بہت بڑا گناہ سرزد ہوگیا ہے، میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی کو بوسہ دے دیا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بتاؤ! اگر آپ روزے کی حالت میں کلی کرلو تو کیا ہوگا؟ میں نے عرض کیا اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے، فرمایا پھر اس میں کہاں سے ہوگا؟


(139) حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ - يَعْنِي ابْنَ أَبِي الْفُرَاتِ - عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ، أَنَّهُ قَالَ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَوَافَيْتُهَا وَقَدْ وَقَعَ فِيهَا مَرَضٌ، فَهُمْ يَمُوتُونَ مَوْتًا ذَرِيعًا، فَجَلَسْتُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَمَرَّتْ بِهِ جَنَازَةٌ فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرًا، فَقَالَ عُمَرُ: وَجَبَتْ، ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرٌ، فَقَالَ عُمَرُ: وَجَبَتْ، ثُمَّ مُرَّ بِالثَّالِثَةِ فَأُثْنِيَ عَلَيْهَا شَرٌّ، فَقَالَ عُمَرُ: وَجَبَتْ، فَقَالَ أَبُو الْأَسْوَدِ: مَا وَجَبَتْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: قُلْتُ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُّمَا مُسْلِمٍ شَهِدَ لَهُ أَرْبَعَةٌ بِخَيْرٍ أَدْخَلَهُ اللهُ الْجَنَّةَ "، قَالَ: فَقُلْنَا: وَثَلاثَةٌ؟ قَالَ: فَقَالَ: " وَثَلاثَةٌ "، قَالَ: قُلْنَا: وَاثْنَانِ، قَالَ: " وَاثْنَانِ "، قَالَ: ثُمَّ لَمْ نَسْأَلْهُ عَنِ الْوَاحِدِ. [صححه البخاري (2643)] [انظر: 204، 318، 389]
(139) ابو الاسود کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا، وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ وہاں کوئی بیماری پھیلی ہوئی ہے جس سے لوگ بکثرت مر رہے ہیں میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں سے ایک جنازہ کا گذر ہوا، لوگوں نے اس مردے کی تعریف کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا واجب ہوگئی، پھر دوسرا جنازہ گذرا، لوگوں نے اس کی بھی تعریف کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا واجب ہوگئی، تیسراجنازہ گذرا تو لوگوں نے اس کی برائی بیان کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا واجب ہوگئی، میں نے بالآخر پوچھ ہی لیا کہ امیرالمومنین! کیا چیز واجب ہو گئی؟
فرمایا میں نے تو وہی کہا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کے لئے چار آدمی خیر کی گواہی دے دیں اس کے لئے جنت واجب ہوگئی، ہم نے عرض کیا اگر تین آدمی ہوں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تب بھی یہی حکم ہے، ہم نے دو کے متعلق پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دوہوں تب بھی یہی حکم ہے، پھر ہم نے خود ہی ایک کے متعلق سوال نہیں کیا۔


(140) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، حَدَّثَنَا بُكَيْرٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ عُمَرَ، قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ، وَالْفَتْحَ فِي رَمَضَانَ، فَأَفْطَرْنَا فِيهِمَا. [قال الالباني: ضعيف الاسناد (الترمذي: 714)، قال شعيب: حديث قوي] [راجع: 142]
(140) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں بھی جہاد کے لئے نکلے تھے، اور فتح مکہ کا واقعہ تو خیر رمضان ہی میں پیش آیا تھا، ان دونوں موقعوں پر ہم نے دوران سفر روزے نہیں رکھے تھے۔ (بلکہ بعد میں قضاء کی تھی)
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
(141) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ عَوْفٍ الْعَنَزِيُّ، بَصْرِيٌّ، قَالَ: أَنْبَأَنِي الْغَضْبَانُ بْنُ حَنْظَلَةَ: أَنَّ أَبَاهُ حَنْظَلَةَ بْنَ نُعَيْمٍ وَفَدَ إِلَى عُمَرَ، فَكَانَ عُمَرُ إِذَا مَرَّ بِهِ إِنْسَانٌ مِنَ الْوَفْدِ سَأَلَهُ مِمَّنْ هُوَ، حَتَّى مَرَّ بِهِ أَبِي فَسَأَلَهُ: مِمَّنْ أَنْتَ؟ فَقَالَ: مِنْ عَنَزَةَ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " حَيٌّ مِنْ هَاهُنَا مَبْغِيٌّ عَلَيْهِمْ مَنْصُورُونَ ". [اسناده ضعيف]
(141) غضبان بن حنظلہ کہتے ہیں کہ ان کے والد حنظلہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک وفد لے کر حاضر ہوئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وفد کے جس آدمی کے پاس سے بھی گذرتے اس کے متعلق یہ ضرور پوچھتے کہ اس کا تعلق کہاں سے ہے؟ چنانچہ جب میرے والد کے پاس پہنچے تو ان سے بھی یہی پوچھا کہ آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟ انہوں نے بتایا قبیلہ عنزہ سے، تو فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس قبیلے کے لوگ مظفر ومنصور ہوتے ہیں۔


(142) حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مَعْمَرٍ: أَنَّهُ سَأَلَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ عَنِ الصِّيَامِ فِي السَّفَرِ، فَحَدَّثَهُ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَتَيْنِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ: يَوْمَ بَدْرٍ، وَيَوْمَ الْفَتْحِ، فَأَفْطَرْنَا فِيهِمَا. [راجع: 140]
(142) معمر ”جو کہ ایک مشہور محدث ہیں“ نے ایک مرتبہ حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے دوران سفر روزہ رکھنے کا حکم دریافت کیا تو انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ حدیث انہیں سنائی کہ ہم نے ماہ رمضان میں دو مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شرکت کی ہے، ایک غزوہ بدر کے موقع پر اور ایک فتح مکہ کے موقع پر اور دونوں مرتبہ ہم نے روزے نہیں رکھے۔


(143) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا دَيْلَمُ بْنُ غَزْوَانَ، عَبْدِيٌّ، حَدَّثَنَا مَيْمُونٌ الْكُرْدِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي كُلُّ مُنَافِقٍ عَلِيمِ اللِّسَانِ ". [قال شعيب: إسناده قوي] [انظر: 310]
(143) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے اپنی امت کے متعلق سب سے زیادہ خطرہ اس منافق سے ہے جو زبان دان ہو۔


(144) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَائِدَةَ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ مَسْلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ فِي أَرْضِ الرُّومِ، فَوُجِدَ فِي مَتَاعِ رَجُلٍ غُلُولٌ، فَسَأَلَ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ، عَنْ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ وَجَدْتُمْ فِي مَتَاعِهِ غُلُولًا فَأَحْرِقُوهُ - قَالَ: وَأَحْسَبُهُ قَالَ: وَاضْرِبُوهُ-" قَالَ: فَأَخْرَجَ مَتَاعَهُ فِي السُّوقِ، قَالَ: فَوَجَدَ فِيهِ مُصْحَفًا، فَسَأَلَ سَالِمًا، فَقَالَ: بِعْهُ، وَتَصَدَّقْ بِثَمَنِهِ. [قال الترمذي: هَذَا الْحَدِيثُ غَرِيبٌ،‏‏‏‏ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْه. وقال البخاري: عامة اصحابنا يحتجون بهذا في الغلول وهو باطل ليس بشيء. قال الالباني: ضعيف (ابوداؤد: 2713، الترمذي: 1461)]
(144) حضرت سالم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وہ مسلمہ بن عبدالملک کے ساتھ ارض روم میں تھے کہ ایک آدمی کے سامان سے چوری کا مال غنیمت نکل آیا، لوگوں نے حضرت سالم رحمہ اللہ سے اس مسئلے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے اپنے والد حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے واسطے سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث نقل کی کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے جس شخص کے سامان میں سے تمہیں چوری کا مال غنیمت مل جائے، اس سامان کو آگ لگادو، اور شاید یہ بھی فرمایا کہ اس شخص کی پٹائی کرو۔
چنانچہ لوگوں نے اس کا سامان نکال کر بازار میں لا کر رکھا، اس میں سے ایک قرآن شریف بھی نکلا، لوگوں نے سالم سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اسے بیچ کر اس کی قیمت صدقہ کردو۔


(145) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ، وَحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ عُمَرَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَعَوَّذُ مِنْ خَمْسٍ: مِنَ الْبُخْلِ، وَالْجُبْنِ، وَفِتْنَةِ الصَّدْرِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ، وَسُوءِ الْعُمْرِ. [صححه ابن حبان (1024) والحاكم (1/530) قال الالباني: صعيف (أبوداود 1539 ابن ماجه: 3844، النسائي:8/255، 266، 267، 272) قال شعيب: اسناده صحيح] [انظر: 388]
(145) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانچ چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے، بخل سے، بزدلی سے، دل کے فتنہ سے، عذاب قبر سے اور بری عمر سے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
(146) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي يَزِيدَ الْخَوْلانِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "الشُّهَدَاءُ ثَلاثَةٌ: رَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَيِّدُ الْإِيمَانِ لَقِيَ الْعَدُوَّ، فَصَدَقَ اللهَ حَتَّى قُتِلَ، فَذَلِكَ الَّذِي يَرْفَعُ إِلَيْهِ النَّاسُ أَعْنَاقَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ - وَرَفَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ حَتَّى وَقَعَتْ قَلَنْسُوَتُهُ أَوْ قَلَنْسُوَةُ عُمَرَ - وَرَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَيِّدُ الْإِيمَانِ لَقِيَ الْعَدُوَّ، فَكَأَنَّمَا يُضْرَبُ جِلْدُهُ بِشَوْكِ الطَّلْحِ، أَتَاهُ سَهْمٌ غَرْبٌ فَقَتَلَهُ، هُوَ فِي الدَّرَجَةِ الثَّانِيَةِ، وَرَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَيِّدُ الْإِيمَانِ خَلَطَ عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا، لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللهَ حَتَّى قُتِلَ، فَذَلِكَ فِي الدَّرَجَةِ الثَّالِثَةِ". [قال الترمذي: حسن غريب، قال الالباني: ضعيف (الترمذي: 1644)] [انظر: 150]
(146) حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے شہداء تین طرح کے ہوتے ہیں۔
(١) وہ مسلمان آدمی جس کا ایمان مضبوط ہو، دشمن سے اس کا آمنا سامنا ہوا اور اس نے اللہ کی بات کو سچا کر دکھایا یہاں تک کہ شہید ہوگیا، یہ تو وہ آدمی ہے جس کی طرف قیامت کے دن لوگ گردنیں اٹھا اٹھا کر دیکھیں گے اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر بلند کر کے دکھایا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ٹوپی گر گئی۔
(٢) وہ مسلمان آدمی جس کا ایمان مضبوط ہو، دشمن سے آمنا سامنا ہوا، اور ایسا محسوس ہو کہ اس کے جسم پر کسی نے کانٹے چبھا دئیے ہوں اچانک کہیں سے ایک تیر آیا اور وہ شہید ہوگیا، یہ دوسرے درجے میں ہوگا۔
(٣) وہ مسلمان آدمی جس کا ایمان تو مضبوط ہو لیکن اس نے کچھ اچھے اور کچھ برے دونوں طرح کے عمل کئے ہوں، دشمن سے جب اس کا آمنا سامنا ہوا تو اس نے اللہ کی بات کو سچا کر دکھایا، یہاں تک کہ شہید ہوگیا، یہ تیسرے درجے میں ہوگا۔


(147) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ لَهِيعَةَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَنْ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا يُقَادُ وَالِدٌ مِنْ وَلَدٍ". [انظر: 148، 346]
(147) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا باپ سے اس کی اولاد کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔


(147م) وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَرِثُ الْمَالَ مَنْ يَرِثُ الْوَلاءَ". [قال الالباني: صحيح (ابن ماجة: 2662 الترمذي: 1400) قال شعيب: حديث حسن] [راجع: 147]
(147) اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مال کا وارث وہی ہوگا جو ولاء کا وارث ہوگا۔


(148) حَدَّثَنَا حَسَنٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا يُقَادُ لِوَلَدٍ مِنْ وَالِدِهِ ". [قال شعيب: حديث حسن] [راجع: 147]
(148) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ باپ سے اس کی اولاد کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔


(149) حَدَّثَنَا حَسَنٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ شُرَحْبِيلَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّهُ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَوَضَّأَ مَرَّةً مَرَّةً. [ضعف البوصيري اسناده، وقال الترمذي: حديث عمر هذا ليس بشيء، قال الالباني: حسن (ابن ماجة: 412) قال شعيب: صحيح لغيره] [انظر: 151]
(149) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اعضاء وضو کو ایک ایک مرتبہ بھی دھویا تھا۔


(150) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي يَزِيدَ الْخَوْلَانِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "الشُّهَدَاءُ أَرْبَعَةٌ: رَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَيِّدُ الْإِيمَانِ لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللهَ فَقُتِلَ، فَذَلِكَ الَّذِي يَنْظُرُ النَّاسُ إِلَيْهِ هَكَذَا - وَرَفَعَ رَأْسَهُ حَتَّى سَقَطَتْ قَلَنْسُوَةُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ قَلَنْسُوَةُ عُمَرَ - وَالثَّانِي: رَجُلٌ مُؤْمِنٌ لَقِيَ الْعَدُوَّ فَكَأَنَّمَا يُضْرَبُ ظَهْرُهُ بِشَوْكِ الطَّلْحِ، جَاءَهُ سَهْمُ غَرْبٍ فَقَتَلَهُ، فَذَلكَ فِي الدَّرَجَةِ الثَّانِيَةِ، وَالثَّالِثُ: رَجُلٌ مُؤْمِنٌ خَلَطَ عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا، لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى قُتِلَ، فَذَلكَ فِي الدَّرَجَةِ الثَّالِثَةِ، وَالرَّابِعُ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ أَسْرَفَ عَلَى نَفْسِهِ إِسْرَافًا كَثِيرًا، لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللهَ حَتَّى قُتِلَ، فَذَلكَ فِي الدَّرَجَةِ الرَّابِعَةِ". [راجع: 146]
(150) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے شہداء چار طرح کے ہوتے ہیں۔
(١) وہ مسلمان آدمی جس کا ایمان مضبوط ہو، دشمن سے اس کا آمنا سامنا ہوا اور اس نے اللہ کی بات کو سچا کر دکھایا یہاں تک کہ شہید ہوگیا، یہ تو وہ آدمی ہے جس کی طرف قیامت کے دن لوگ گردنیں اٹھا اٹھا کر دیکھیں گے اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر بلند کر کے دکھایا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ٹوپی مبارک گر گئی۔
(٢) وہ مسلمان آدمی جس کا ایمان مضبوط ہو، دشمن سے آمنا سامنا ہوا، اور ایسا محسوس ہوا کہ اس کے جسم پر کسی نے کانٹے چبھا دئیے ہوں، اچانک کہیں سے ایک تیر آیا اور وہ شہید ہوگیا، یہ دوسرے درجے میں ہوگا۔
(٣) وہ مسلمان آدمی جس کا ایمان تو مضبوط ہو لیکن اس نے کچھ اچھے اور کچھ برے دونوں طرح کے عمل کئے ہوں ، دشمن سے جب اس کا آمنا سامنا ہوا تو اس نے اللہ کی بات کو سچا کر دکھایا، یہاں تک کہ شہید ہوگیا، یہ تیسرے درجے میں ہوگا۔
(٤) وہ مسلمان آدمی جس نے اپنی جان پر بے حد ظلم کیا، اس کا دشمن سے آمنا سامنا ہوا، تو اس نے اللہ کی بات کو سچا کر دکھایا اور شہید ہوگیا، یہ چوتھے درجے میں ہوگا۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
(151) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ اللهِ الْغَافِقِيُّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ تَوَضَّأَ عَامَ تَبُوكَ وَاحِدَةً وَاحِدَةً. [راجع: 149]
(151) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے سال اپنے اعضاء وضو کو ایک ایک مرتبہ دھویا تھا۔


(152) حَدَّثَنَا حَسَنٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " سَيَخْرُجُ أَهْلُ مَكَّةَ ثُمَّ لَا يَعْبَرُ بِهَا - أَوْ لَا يَعْبُرُ بِهَا إِلَّا قَلِيلٌ - ثُمَّ تَمْتَلِئُ وَتُبْنَى، ثُمَّ يَخْرُجُونَ مِنْهَا فَلا يَعُودُونَ فِيهَا أَبَدًا ". [اسناده ضعيف]
(152) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عنقریب اہل مکہ اپنے شہر سے نکلیں گے لیکن دوبارہ اسے بہت کم آباد کر سکیں گے، پھر شہر مکہ بھر جائے گا اور وہاں بڑی عمارتیں بن جائیں گے، اس وقت جب اہل مکہ وہاں سے نکل گئے تو دوبارہ واپس کبھی نہیں آسکیں گے۔


(153) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا تَوَضَّأَ لِصَلاةِ الظُّهْرِ، فَتَرَكَ مَوْضِعَ ظُفُرٍ عَلَى ظَهْرِ قَدَمِهِ، فَأَبْصَرَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "ارْجِعْ فَأَحْسِنْ وُضُوءَكَ" فَرَجَعَ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ صَلَّى. [راجع: 134]
(153) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جو نماز ظہر کے لئے وضو کر رہا تھا، اس نے وضو کرتے ہوئے پاؤں کی پشت پر ایک ناخن کے بقدر جگہ چھوڑ دی یعنی وہ اسے دھونہ سکا یا وہاں تک پانی نہیں پہنچا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ جا کر اچھی طرح وضو کرو، چنانچہ اس نے جا کر دوبارہ وضو کیا اور نماز پڑھی۔


(154) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: زَعَمَ الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ ". [قال شعيب: حديث صحيح] [انظر: 164، 331]
(154) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عیسائیوں نے جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام کو حد سے زیادہ آگے بڑھایا مجھے اس طرح مت بڑھاؤ، میں تو اللہ کا بندہ اور اس کا پیغمبر ہوں۔


(155) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَارٍ بِمَكَّةَ: {وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا} [الإسراء: 110] ، قَالَ: كَانَ إِذَا صَلَّى بِأَصْحَابِهِ رَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ، قَالَ: فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ الْمُشْرِكُونَ سَبُّوا الْقُرْآنَ، وَمَنْ أَنْزَلَهُ وَمَنْ جَاءَ بِهِ، فَقَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ} أَيْ بِقِرَاءَتِكَ فَيَسْمَعَ الْمُشْرِكُونَ، فَيَسُبُّوا الْقُرْآنَ، {وَلَا تُخَافِتْ بِهَا} عَنْ أَصْحَابِكَ فَلا تُسْمِعُهُمُ الْقُرْآنَ، حَتَّى يَأْخُذُوهُ عَنْكَ، {وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا}. [صححه البخاري (4722) ومسلم (446) وابن حبان (6564) وابن خزيمة (1587)] [سيأتي في مسند عبد الله بن عباس: 1853]
(155) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آیت قرآنی
{وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا}
جس وقت نازل ہوئی ہے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں روپوش تھے، وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تھے تو قرآن کریم کی تلاوت بلند آواز سے کرتے تھے، جب مشرکین کے کانوں تک وہ آواز پہنچتی تو وہ خود قرآن کو، قرآن نازل کرنے والے کو اور قرآن لانے والے کو برا بھلا کہنا شروع کردیتے، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی کہ آپ بلند آواز سے قرأت نہ کیا کریں کہ مشرکین کے کانوں تک وہ آواز پہنچے اور وہ قرآن ہی کو برا بھلا کہنا شروع کردیں، اور اتنی پست آواز سے بھی تلاوت نہ کریں کہ آپ کے ساتھی اسے سن ہی نہ سکیں، بلکہ درمیانہ راستہ اختیار کریں۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
(156) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أخبرنا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مِهْرَانَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: خَطَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ - وَقَالَ هُشَيْمٌ مَرَّةً: خَطَبَنَا - فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، فَذَكَرَ الرَّجْمَ، فَقَالَ: لَا تُخْدَعُنَّ عَنْهُ، فَإِنَّهُ حَدٌّ مِنْ حُدُودِ اللهِ، أَلا إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَجَمَ، وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ، وَلَوْلا أَنْ يَقُولَ قَائِلُونَ: زَادَ عُمَرُ فِي كِتَابِ اللهِ عز وجل مَا لَيْسَ مِنْهُ، لَكَتَبْتُهُ فِي نَاحِيَةٍ مِنَ الْمُصْحَفِ، شَهِدَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ - وَقَالَ هُشَيْمٌ مَرَّةً: وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ وَفُلانٌ وَفُلانٌ - أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَجَمَ وَرَجَمْنَا مِنْ بَعْدِهِ، أَلا وَإِنَّهُ سَيَكُونُ مِنْ بَعْدِكُمْ قَوْمٌ يُكَذِّبُونَ بِالرَّجْمِ، وَبِالدَّجَّالِ، وَبِالشَّفَاعَةِ، وَبِعَذَابِ الْقَبْرِ، وَبِقَوْمٍ يُخْرَجُونَ مِنَ النَّارِ بَعْدَمَا امْتَحَشُوا. [اسناده ضعيف] [انظر: 197، 332، 391]
(156) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے، حمدوثناء کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے رجم کا تذکرہ شروع کیا اور فرمایا کہ رجم کے حوالے سے کسی دھوکے کا شکار مت رہنا، یہ اللہ کی مقرر کردہ سزاؤں میں سے ایک سزا ہے، یاد رکھو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رجم کی سزا جاری فرمائی ہے اور ہم بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ سزاجاری کرتے رہے ہیں، اگر کہنے والے یہ نہ کہتے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن میں اضافہ کردیا اور ایسی چیز اس میں شامل کردی جو کتاب اللہ میں سے نہیں ہے تو میں اس آیت کو قرآن کریم کے حاشیے پر لکھ دیتا۔
یاد رکھو! عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) اس بات کا گواہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کی سزا جاری فرمائی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم نے بھی یہ سزاجاری کی ہے، یاد رکھو! تمہارے بعد کچھ لوگ آئیں گے جو رجم کی تکذیب کرتے ہوں گے، دجال، شفاعت اور عذاب قبر سے انکار کرتے ہوں گے اور اس قوم کے ہونے کو جھٹلائیں گے جنہیں جہنم میں جل کر کوئلہ ہوجانے کے بعد نکال لیا جائے گا۔


(157) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: وَافَقْتُ رَبِّي فِي ثَلاثٍ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، لَوِ اتَّخَذْنَا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى؟ فَنَزَلَتْ: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى} [البقرة: 125] ، وَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ نِسَاءَكَ يَدْخُلُ عَلَيْهِنَّ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، فَلَوْ أَمَرْتَهُنَّ أَنْ يَحْتَجِبْنَ؟ فَنَزَلَتْ آيَةُ الْحِجَابِ، وَاجْتَمَعَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاؤُهُ فِي الْغَيْرَةِ، فَقُلْتُ لَهُنَّ: {عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ} [التحريم: 5] ، قَالَ: فَنَزَلَتْ كَذَلِكَ. [صححه البخاري (402)، وابن حبان (6896)] [انظر: 160، 250]
(157) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے تین باتوں میں اپنے رب کی موافقت کی ہے۔
(١) ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کاش! ہم مقام ابراہیم کو مصلی بنا لیتے، اس پر یہ آیت نازل ہوگئی کہ مقام ابراہیم کو مصلی بنالو۔
(٢) ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کی ازواج مطہرات کے پاس نیک اور بد ہر طرح کے لوگ آتے ہیں، اگر آپ انہیں پردے کا حکم دے دیں تو بہتر ہے؟ اس پر آیت حجاب نازل ہوگئی۔
(٣) ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات نے کسی بات پر ایکا کرلیا، میں نے ان سے کہا کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی ہو تو ہو سکتا ہے ان کا رب انہیں تم سے بہتر عطاء کردے، ان ہی الفاظ کے ساتھ قرآن کریم کی آیت نازل ہوگئی۔


(158) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ: سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ، فَقَرَأَ فِيهَا حُرُوفًا لَمْ يَكُنْ نَبِيُّ اللهِ أَقْرَأَنِيهَا، قَالَ: فَأَرَدْتُ أَنْ أُسَاوِرَهُ وأنا فِي الصَّلاةِ، فَلَمَّا فَرَغَ، قُلْتُ: مَنْ أَقْرَأَكَ هَذِهِ الْقِرَاءَةَ؟ قَالَ: رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: كَذَبْتَ، وَاللهِ مَا هَكَذَا أَقْرَأَكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ أَقُودُهُ، فَانْطَلَقْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّكَ أَقْرَأْتَنِي سُورَةَ الْفُرْقَانِ، وَإِنِّي سَمِعْتُ هَذَا يَقْرَأُ فِيهَا حُرُوفًا لَمْ تَكُنْ أَقْرَأْتَنِيهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْرَأْ يَا هِشَامُ " فَقَرَأَ كَمَا كَانَ قَرَأَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَكَذَا أُنْزِلَتْ "، ثُمَّ قَالَ: " اقْرَأْ يَا عُمَرُ " فَقَرَأْتُ، فَقَالَ: " هَكَذَا أُنْزِلَتْ "، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْقُرْآنَ أنَزَلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ ". [قال الالباني: صحيح (النسائي: 2/150)] [انظر المسور وعبد الرحمن بن عبد: 277، 278، 296، 297، 2375]
(158) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو سورہ فرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا، انہوں نے اس میں ایسے حروف کی تلاوت کی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھائے تھے میں اس وقت نماز پڑھ رہا تھا ، میرا دل چاہا کہ میں ان سے نماز ہی میں پوچھ لوں، بہرحال! فراغت کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ تمہیں سورہ فرقان اس طرح کس نے پڑھائی ہے؟ انہوں نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے، میں نے کہا آپ جھوٹ بولتے ہیں ، بخدا! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اس طرح یہ سورت نہیں پڑھائی ہوگی۔
یہ کہہ کر میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں کھینچتا ہوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوگیا، اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے مجھے سورہ فرقان خود پڑھائی ہے، میں نے اسے سورہ فرقان کو ایسے حروف میں پڑھتے ہوئے سناہے جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہشام سے اس کی تلاوت کرنے کے لئے فرمایا: انہوں نے اسی طرح پڑھا جیسے وہ پہلے پڑھ رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے، پھر مجھ سے کہا کہ عمر! تم بھی پڑھ کر سناؤ، چنانچہ میں نے بھی پڑھ کر سنادیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ سورت اس طرح بھی نازل ہوئی ہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا بے شک اس قرآن کا نزول سات قراءتوں پر ہوا ہے۔


(159) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الْهَيْثَمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ عُمَرَ، قَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْتَوِي مَا يَجِدُ مَا يَمْلَأُ بِهِ بَطْنَهُ مِنَ الدَّقَلِ. [صححه مسلم (2978) قال شعيب: اسناده حسن] [انظر: 353]
(159) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوک کی وجہ سے کروٹیں بدلتے ہوئے دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ردی کھجور بھی نہ ملتی تھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا پیٹ بھر لیتے۔


(160) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:
قَالَ عُمَرُ: وَافَقْتُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ فِي ثَلاثٍ - أَوْ وَافَقَنِي رَبِّي فِي ثَلاثٍ - قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، لَوِ اتَّخَذْتَ الْمَقَامَ مُصَلًّى؟ قَالَ: فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى} ، وَقُلْتُ: لَوْ حَجَبْتَ عَنْ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ، فَإِنَّهُ يَدْخُلُ عَلَيْكَ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ؟ فَأُنْزِلَتْ آيَةُ الْحِجَابِ، قَالَ: وَبَلَغَنِي عَنْ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ شَيْءٌ فَاسْتَقْرَيْتُهُنَّ أَقُولُ لَهُنَّ: لَتَكُفُّنَّ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ لَيُبْدِلَنَّهُ اللهُ بِكُنَّ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ مُسْلِمَاتٍ، حَتَّى أَتَيْتُ عَلَى إِحْدَى أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ، فَقَالَتْ: يَا عُمَرُ، أَمَا فِي رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَعِظُ نِسَاءَهُ حَتَّى تَعِظَهُنَّ؟ فَكَفَفْتُ، فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: {عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُّؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ} الْآيَةَ.
[راجع: 157]
(160) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے تین باتوں میں اپنے رب کی موافقت کی ہے
(١) ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! کاش! ہم مقام ابراہیم کو مصلی بنالیتے، اس پر یہ آیت نازل ہوگئی کہ مقام ابراہیم کو مصلی بنالو۔
(٢) ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کی ازواج مطہرات کے پاس نیک اور بد ہر طرح کے لوگ آتے ہیں اگر آپ انہیں پردے کا حکم دے دیں توبہتر ہے؟ اس پر آیت حجاب نازل ہوگئی۔
(٣) ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات نے کسی بات پر ایکا کر لیا، میں نے ان سے کہا کہ تم باز آجاؤ، ورنہ ہوسکتا ہے ان کا رب انہیں تم سے بہتر بیویاں عطاء کردے، میں اسی سلسلے میں امہات المومنین میں سے کسی کے پاس گیا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ اے عمر! کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کو نصیحت نہیں کرسکتے کہ تم انہیں نصیحت کرنے نکلے ہو؟ اس پر میں رک گیا، لیکن ان ہی الفاظ کے ساتھ قرآن کریم کی آیت نازل ہوگئی۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
(161) حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، أَنَّ يَحْيَى بْنَ أَبِي كَثِيرٍ حَدَّثَهُ عَنْ عِكْرِمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْعَقِيقِ يَقُولُ: " أَتَانِي اللَّيْلَةَ آتٍ مِنْ رَبِّي فَقَالَ: صَلِّ فِي هَذَا الْوَادِي الْمُبَارَكِ، وَقُلْ: عُمْرَةٌ فِي حَجَّةٍ". قَالَ الْوَلِيدُ: يَعْنِي: ذَا الْحُلَيْفَةِ. [صححه البخاري (1534) وابن خزيمة (2617)]
(161) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے وادی عقیق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آج رات ایک آنے والا میرے رب کے پاس سے آیا اور کہنے لگا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھیے اور حج کے ساتھ عمرہ کی بھی نیت کر کے احرام باندھ لیں، مراد ذوالحلیفہ کی جگہ ہے۔


(162) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، سَمِعَ مَالِكَ بْنَ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: - وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " الذَّهَبُ بِالْوَرِقِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ ". [صححه البخاري (2134) ومسلم (1586)] [انظر: 338، 314]
(162) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سونا چاندی کے بدلے بیچنا اور خریدنا سود ہے الاّ یہ کہ نقد ہو، گندم کی گندم کے بدلے خرید و فروخت سود ہے الاّ یہ کہ نقد ہو، جو کی خرید و فروخت جو کے بدلے سود ہے الاّ یہ کہ نقد ہو.


(163) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، سَمِعَ أَبَا عُبَيْدٍ، قَالَ: شَهِدْتُ الْعِيدَ مَعَ عُمَرَ، فَبَدَأَ بِالصَّلاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ، وَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ صِيَامِ هَذَيْنِ الْيَوْمَيْنِ، أَمَّا يَوْمُ الْفِطْرِ فَفِطْرُكُمْ مِنْ صَوْمِكُمْ، وَأَمَّا يَوْمُ الْأَضْحَى فَكُلُوا مِنْ لَحْمِ نُسُكِكُمْ. [صححه البخاري (1990) ومسلم (1137) وابن خزيمة (2959) وابن حبان (2600)] [انظر: 224، 225، 286]
(163) عبید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں عید کے موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا ، انہوں نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی، پھر فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے روزے سے منع فرمایا: عیدالفطر کے دن تو اس لئے کہ اس دن تمہارے روزے ختم ہوتے ہیں اور عیدالاضحی کے دن اس لئے کہ تم اپنی قربانی کے جانور کا گوشت کھا سکو۔


(164) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ، فَقُولُوا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ". [قال شعيب: اسناده صحيح] [راجع: 154]
(164) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عیسائیوں نے جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام کو حد سے زیادہ آگے بڑھایا مجھے اس طرح مت بڑھاؤ، میں تو اللہ کا بندہ ہوں، لہٰذا تم مجھے اس کا بندہ اور پیغمبر ہی کہا کرو۔


(165) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ، أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيَنَامُ أَحَدُنَا وَهُوَ جُنُبٌ؟ قَالَ: " يَتَوَضَّأُ وَيَنَامُ إِنْ شَاءَ ". وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: " لِيَتَوَضَّأْ وَلْيَنَمْ ". [راجع: 94]
(165) ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر کوئی آدمی اختیاری طور پر ناپاک ہوجائے تو کیا اسی حال میں سو سکتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چاہے تو وضو کر کے سوجائے (اور چاہے تو یوں ہی سوجائے)
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
(166) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ عُمَرَ، حَمَلَ عَلَى فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَرَآهَا أَوْ بَعْضَ نِتَاجِهَا يُبَاعُ، فَأَرَادَ شِرَاءَهُ، فَسَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ، فَقَالَ: " اتْرُكْهَا تُوَافِكَ، أَوْ تَلْقَهَا جَمِيعًا ". وَقَالَ مَرَّةً: فَنَهَاهُ، وَقَالَ: " لَا تَشْتَرِهِ، وَلا تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ ". [صححه البخاري (2636) ومسلم (1620)] [انظر: 258، 281، 384]
(166) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فی سبیل اللہ کسی شخص کو سواری کے لئے گھوڑا دے دیا، بعد میں دیکھا کہ وہ گھوڑا خود یا اس کا کوئی بچہ بازار میں بک رہا ہے، انہوں نے سوچا کہ اسے خرید لیتا ہوں، چنانچہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع کر دیا اور فرمایا کہ اسے مت خریدو اور اپنے صدقے سے رجوع مت کرو۔


(167) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، يُحَدِّثُ عَنْ عُمَرَ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: " تَابِعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ، فَإِنَّ مُتَابَعَةً بَيْنَهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ الخَبَثَ ". [قال الالباني: صحيح (ابن ماجة: 2887) قال شعيب: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف]
(167) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا حج وعمرہ تسلسل کے ساتھ کیا کرو، کیونکہ ان کے تسلسل سے فقر وفاقہ اور گناہ ایسے دور ہوجاتے ہیں جیسے بھٹی میں لوہے کا میل کچیل دور ہو جاتا ہے۔


(168) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ، وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوِ امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ ". [صححه البخاري (54) ومسلم (1907) وابن خزيمة (142 و 143 و 455) وابن حبان (388)] [انظر: 300]
(168) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اعمال کا دارومدار تو نیت پر ہے اور ہر انسان کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہو، سو جس شخص کی ہجرت اللہ کی طرف ہو، تو وہ اس کی طرف ہی ہوگی جس کی طرف اس نے ہجرت کی، اور جس کی ہجرت حصول دنیا کے لئے ہو یا کسی عورت سے نکاح کی خاطر ہو تو اس کی ہجرت اس چیز کی طرف ہوگی جس کی طرف اس نے کی۔


(169) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: قَالَ الصُّبَيُّ بْنُ مَعْبَدٍ: كُنْتُ رَجُلًا نَصْرَانِيًّا فَأَسْلَمْتُ، فَأَهْلَلْتُ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ، فَسَمِعَنِي زَيْدُ بْنُ صُوحَانَ وَسَلْمَانُ بْنُ رَبِيعَةَ، وَأَنَا أُهِلُّ بِهِمَا، فَقَالا: لَهَذَا أَضَلُّ مِنْ بَعِيرِ أَهْلِهِ. فَكَأَنَّمَا حُمِلَ عَلَيَّ بِكَلِمَتِهِمَا جَبَلٌ، فَقَدِمْتُ عَلَى عُمَرَ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِمَا فَلامَهُمَا، وَأَقْبَلَ عَلَيَّ فَقَالَ: هُدِيتَ لِسُنَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. [راجع: 83]
قَالَ عَبْدَةُ: قَالَ أَبُو وَائِلٍ: كَثِيرًا مَا ذَهَبْتُ أَنَا وَمَسْرُوقٌ إِلَى الصُّبَيِّ نَسْأَلُهُ عَنْهُ.
(169) حضرت ابووائل رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ صبی بن معبد کہتے ہیں کہ میں ایک عیسائی تھا، پھر میں نے اسلام قبول کر لیا، میں نے میقات پر پہنچ کر حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ لیا، زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے کہا کہ یہ شخص اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے، ان دونوں کی یہ بات مجھ پر پہاڑ سے بھی زیادہ بوجھ ثابت ہوئی، چنانچہ میں جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو زید اور سلمان نے جو کہا تھا، اس کے متعلق ان کی خدمت میں عرض کیا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کی طرف متوجہ ہو کر انہیں ملامت کی اور میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ آپ کو اپنے پیغمبر کی سنت کی رہنمائی نصیب ہوگئی۔


(170) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: ذُكِرَ لِعُمَرَ أَنَّ سَمُرَةَ - وَقَالَ مَرَّةً: بَلَغَ عُمَرَ أَنَّ سَمُرَةَ - بَاعَ خَمْرًا، قَالَ: قَاتَلَ اللهُ سَمُرَةَ، إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَعَنَ اللهُ الْيَهُودَ، حُرِّمَتْ عَلَيْهِمُ الشُّحُومُ، فَجَمَلُوهَا فَبَاعُوهَا ". [صححه البخاري (2223) ومسلم (1582) وابن حبان (6253)]
(170) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ بات ذکر کی گئی کہ سمرہ نے شراب فروخت کی ہے، انہوں نے فرمایا اللہ اسے ہلاک کرے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہودیوں پر لعنت فرمائے کہ ان پر چربی کو حرام قرار دیا گیا لیکن انہوں نے اسے پگھلا کر اس کا تیل بنالیا اور اسے فروخت کرنا شروع کردیا۔
 
Top