• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسند احمد (مسند الخلفاء الراشدین) یونیکوڈ

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
(221) حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ قُرَادٌ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ أَبُو زُمَيْلٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي عُمَرُ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ، قَالَ: نَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَصْحَابِهِ وَهُمْ ثَلاثُ مِائَةٍ وَنَيِّفٌ، وَنَظَرَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ فَإِذَا هُمْ أَلْفٌ وَزِيَادَةٌ، فَاسْتَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَةَ، ثُمَّ مَدَّ يَدَيهُ، وَعَلَيْهِ رِدَاؤُهُ وَإِزَارُهُ، ثُمَّ قَالَ: " اللهُمَّ أَيْنَ مَا وَعَدْتَنِي؟ اللهُمَّ أَنْجِزْ مَا وَعَدْتَنِي، اللهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلامِ فَلا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا " قَالَ: فَمَا زَالَ يَسْتَغِيثُ رَبَّهُ، وَيَدْعُوهُ حَتَّى سَقَطَ رِدَاؤُهُ، فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ فَأَخَذَ رِدَاءَهُ [فَرَدَّاهُ، ثُمَّ الْتَزَمَهُ مِنْ وَرَائِهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا نَبِيَّ اللهِ، كَذَاكَ مُنَاشَدَتُكَ رَبَّكَ، فَإِنَّهُ سَيُنْجِزُ لَكَ مَا وَعَدَكَ] . وَأَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى: {إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ} . فَلَمَّا كَانَ يَوْمُئِذٍ، وَالْتَقَوْا فَهَزَمَ اللهُ الْمُشْرِكِينَ، فَقُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، وَأُسِرَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، فَاسْتَشَارَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ وَعَلِيًّا وَعُمَرَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا نَبِيَّ اللهِ، هَؤُلَاءِ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِيرَةُ وَالْإِخْوَانُ، فَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُمُ الْفِدَاءَ، فَيَكُونُ مَا أَخَذْنَا مِنْهُمْ قُوَّةً لَنَا عَلَى الْكُفَّارِ، وَعَسَى اللهُ أَنْ يَهْدِيَهُمْ فَيَكُونُونَ لَنَا عَضُدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا تَرَى يَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟ " فَقَالَ: قُلْتُ: وَاللهِ مَا أَرَى مَا رَأَى أَبُو بَكْرٍ، وَلَكِنِّي أَرَى أَنْ تُمَكِّنَنِي مِنْ فُلانٍ - قَرِيبٍ لِعُمَرَ - فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، وَتُمَكِّنَ عَلِيًّا مِنْ عَقِيلٍ فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ، وَتُمَكِّنَ حَمْزَةَ مِنْ فُلانٍ أَخِيهِ فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ، حَتَّى يَعْلَمَ اللهُ أَنَّهُ لَيْسَ فِي قُلُوبِنَا هَوَادَةٌ لِلْمُشْرِكِينَ، هَؤُلاءِ صَنَادِيدُهُمْ وَأَئِمَّتُهُمْ وَقَادَتُهُمْ. فَهَوِيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ أَبُو بَكْرٍ وَلَمْ يَهْوَ مَا قُلْتُ، فَأَخَذَ مِنْهُمُ الْفِدَاءَ. فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ، قَالَ عُمَرُ: غَدَوْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هُوَ قَاعِدٌ وَأَبُو بَكْرٍ، وَإِذَا هُمَا يَبْكِيَانِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَخْبِرْنِي مَاذَا يُبْكِيكَ أَنْتَ وَصَاحِبَكَ؟ فَإِنْ وَجَدْتُ بُكَاءً بَكَيْتُ، وَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُكَاءً تَبَاكَيْتُ لِبُكَائِكُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الَّذِي عَرَضَ عَلَيَّ أَصْحَابُكَ مِنَ الْفِدَاءِ، وَلَقَدْ عُرِضَ عَلَيَّ عَذَابُكُمْ أَدْنَى مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ " - لِشَجَرَةٍ قَرِيبَةٍ - وَأَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى: {مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ} [الأنفال: 67] إِلَى قَوْلِهِ: {لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ} [الأنفال: 68] مِنَ الْفِدَاءِ، ثُمَّ أُحِلَّ لَهُمُ الْغَنَائِمُ. فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ عُوقِبُوا بِمَا صَنَعُوا يَوْمَ بَدْرٍ مِنْ أَخْذِهِمُ الْفِدَاءَ، فَقُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ، وَفَرَّ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ، وَهُشِمَتِ الْبَيْضَةُ عَلَى رَأْسِهِ، وَسَالَ الدَّمُ عَلَى وَجْهِهِ، فَأَنْزَلَ اللهُ: {أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُّصِيبَةٌ} [آل عمران: 165] إِلَى قَوْلِهِ: {إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ} [آل عمران: 165] بِأَخْذِكُمُ الْفِدَاءَ. [راجع: 208]
(221) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کا جائزہ لیا تو وہ تین سو سے کچھ اوپر تھے، اور مشرکین کا جائزہ لیا وہ ایک ہزار سے زیادہ معلوم ہوئے، یہ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ ہو کر دعاء کے لئے اپنے ہاتھ پھیلا دیئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت چادر اوڑھ رکھی تھی، دعاء کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الٰہی! تیرا وعدہ کہاں گیا؟ الٰہی اپنا وعدہ پورا فرما، الٰہی اگر آج یہ مٹھی بھر مسلمان ختم ہوگئے تو زمین میں پھر کبھی بھی آپ کی عبادت نہیں کی جائے گی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم مستقل اسی طرح اپنے رب سے فریاد کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رداء مبارک گر گئی، یہ دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کو اٹھا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈال دیا اور پیچھے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چمٹ گئے اور کہنے لگے اے اللہ کے نبی! آپ نے اپنے رب سے بہت دعاء کر لی، وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی کہ اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے اور اس نے تمہاری فریاد کو قبول کر لیا تھا کہ میں تمہاری مدد ایک ہزار فرشتوں سے کروں گا جو لگاتار آئیں گے۔
جب غزوہ بدر کا معرکہ بپا ہوا اور دونوں لشکر ایک دوسرے سے ملے تو اللہ کے فضل سے مشرکین کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، چنانچہ ان میں سے ستر قتل ہوگئے اور ستر ہی گرفتار کر کے قید کر لئے گئے، ان قیدیوں کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا اے اللہ کے نبی! یہ لوگ ہمارے ہی بھائی بند اور رشتہ دار ہیں، میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے لیں، وہ مال کافروں کے خلاف ہماری طاقت میں اضافہ کرے گا اور عین ممکن ہے کہ اللہ انہیں بھی ہدایت دے دے تو یہ بھی ہمارے دست و بازو بن جائیں گے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ابن خطاب! تمہاری رائے کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میری رائے وہ نہیں ہے جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ہے، میری رائے یہ ہے کہ آپ فلاں آدمی کو "جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قریبی رشتہ دار تھا" میرے حوالے کر دیں اور میں اپنے ہاتھ سے اس کی گردن اڑادوں، آپ عقیل کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کردیں اور وہ ان کی گردن اڑادیں، حمزہ کو فلاں پر غلبہ عطا فرمائیں اور وہ اپنے ہاتھ سے اسے قتل کریں، تاکہ اللہ جان لے کہ ہمارے دلوں میں مشرکین کے لئے کوئی نرمی کا پہلو نہیں ہے، یہ لوگ مشرکین کے سردار، ان کے قائد اور ان کے سرغنہ ہیں، جب یہ قتل ہو جائیں گے تو کفر وشرک اپنی موت آپ مرجائے گا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے کو ترجیح دی اور میری رائے کو چھوڑ دیا، اور ان سے فدیہ لے لیا، اگلے دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! خیر تو ہے آپ اور آپ کے دوست (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) رو رہے ہیں؟ مجھے بھی بتائیے تاکہ اگر میری آنکھوں میں بھی آنسو آجائیں تو آپ کا ساتھ دوں، ورنہ کم از کم رونے کی کوشش ہی کر لوں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے ساتھیوں نے مجھے فدیہ کا جو مشورہ دیا تھا اس کی وجہ سے تم سب پر آنے والا عذاب مجھے اتنا قریب دکھائی دیا جتنا یہ درخت نظر آرہا ہے، اور اللہ نے یہ آیت نازل کی ہے کہ پیغمبر اسلام کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ اگر ان کے پاس قیدی آئیں ۔ ۔ ۔ آخر آیت تک، بعد میں ان کے لئے مال غنیمت کو حلال قرار دے دیا گیا۔
آئندہ سال جب غزوہ احد ہوا تو غزوہ بدر میں فدیہ لینے کے عوض مسلمانوں کے ستر آدمی شہید ہوگئے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر منتشر ہو گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہو گئے، خود کی کڑی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک میں گھس گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے انور خون سے بھر گیا اور یہ آیت قرآنی نازل ہوئی کہ جب تم پر وہ مصیبت نازل ہوئی جو اس سے قبل تم مشرکین کو خود بھی پہنچا چکے تھے تو تم کہنے لگے کہ یہ کیسے ہو گیا؟ آپ فرما دیجئے کہ یہ تمہاری طرف سے ہی ہے، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ شکست فدیہ لینے کی وجہ سے ہوئی۔


(222) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا عَلَى أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنِ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اللَّتَيْنِ قَالَ اللهُ تَعَالَى: {إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا} [التحريم: 4] حَتَّى حَجَّ عُمَرُ وَحَجَجْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا كُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ عُمَرُ وَعَدَلْتُ مَعَهُ بِالْإِدَاوَةِ، فَتَبَرَّزَ ثُمَّ أَتَانِي، فَسَكَبْتُ عَلَى يَدَيْهِ فَتَوَضَّأَ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَنِ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَانِ قَالَ اللهُ تَعَالَى: {إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا} ؟ فَقَالَ عُمَرُ: وَاعَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ! - قَالَ الزُّهْرِيُّ: كَرِهَ، وَاللهِ، مَا سَأَلَهُ عَنْهُ وَلَمْ يَكْتُمْهُ عَنْهُ - قَالَ: هِيَ حَفْصَةُ وَعَائِشَةُ. قَالَ: ثُمَّ أَخَذَ يَسُوقُ الْحَدِيثَ، قَالَ: كُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ قَوْمًا نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ، قَالَ: وَكَانَ مَنْزِلِي فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ بِالْعَوَالِي، قَالَ: فَتَغَضَّبْتُيَوْمًا عَلَى امْرَأَتِي، فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي، فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي، فَقَالَتْ: مَا تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ، فَوَاللهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ، وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ، فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَقُلْتُ: أَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قُلْتُ: وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاكُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ. قُلْتُ: قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْكُنَّ، وَخَسِرَ، أَفَتَأْمَنُ إِحْدَاكُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ، فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَكَتْ؟ لَا تُرَاجِعِي رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تَسْأَلِيهِ شَيْئًا، وَسَلِينِي مَا بَدَا لَكِ، وَلَا يَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْسَمَ وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكِ - يُرِيدُ عَائِشَةَ -. قَالَ: وَكَانَ لِي جَارٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَنْزِلُ يَوْمًا، وَأَنْزِلُ يَوْمًا، فَيَأْتِينِي بِخَبَرِ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ، وَآتِيهِ بِمِثْلِ ذَلِكَ، قَالَ: وَكُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ الْخَيْلَ لِتَغْزُوَنَا، فَنَزَلَ صَاحِبِي يَوْمًا، ثُمَّ أَتَانِي عِشَاءً فَضَرَبَ بَابِي، ثُمَّ نَادَانِي فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ. فقُلْتُ:وَمَاذَا، أَجَاءَتْ غَسَّانُ؟ قَالَ: لَا، بَلْ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ وَأَطْوَلُ، طَلَّقَ الرَّسُولُ نِسَاءَهُ. فَقُلْتُ: قَدْ خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ، قَدْ كُنْتُ أَظُنُّ هَذَا كَائِنًا. حَتَّى إِذَا صَلَّيْتُ الصُّبْحَ شَدَدْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي، ثُمَّ نَزَلْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ وَهِيَ تَبْكِي، فَقُلْتُ: أَطَلَّقَكُنَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: لَا أَدْرِي، هُوَ هَذَا مُعْتَزِلٌ فِي هَذِهِ الْمَشْرُبَةِ. فَأَتَيْتُ غُلَامًا لَهُ أَسْوَدَ، فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ الْغُلَامُ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ، فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَتَيْتُ الْمِنْبَرَ، فَإِذَا عِنْدَهُ رَهْطٌ جُلُوسٌ يَبْكِي بَعْضُهُمْ، فَجَلَسْتُ قَلِيلًا، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ، فَأَتَيْتُ الْغُلَامَ فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ عَلَيَّ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ. فَخَرَجْتُ فَجَلَسْتُ إِلَى الْمِنْبَرِ، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ، فَأَتَيْتُ الْغُلَامَ فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ، فَوَلَّيْتُ مُدْبِرًا، فَإِذَا الْغُلَامُ يَدْعُونِي، فَقَالَ: ادْخُلْ، فَقَدْ أَذِنَ لَكَ. فَدَخَلْتُ فَسَلَّمْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى رَمْلِ حَصِيرٍ - وحَدَّثَنَاهُ يَعْقُوبُ فِي حَدِيثِ صَالِحٍ قَالَ: رُمَالِ حَصِيرٍ - قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ، فَقُلْتُ: أَطَلَّقْتَ يَا رَسُولَ اللهِ نِسَاءَكَ؟ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيَّ وَقَالَ: " لَا " فَقُلْتُ: اللهُ أَكْبَرُ، لَوْ رَأَيْتَنَا يَا رَسُولَ اللهِ، وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ قَوْمًا نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ، فَتَغَضَّبْتُ عَلَى امْرَأَتِي يَوْمًا فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي، فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي، فَقَالَتْ: مَا تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ؟ فَوَاللهِ إِنَّ أَزْوَاجَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ، وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ. فَقُلْتُ: قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْهُنَّ وَخَسِرَ، أَفَتَأْمَنُ إِحْدَاهُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ، فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَكَتْ؟ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَقُلْتُ: لَا يَغُرُّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْسَمَ وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكِ، فَتَبَسَّمَ أُخْرَى، فَقُلْتُ: أَسْتَأْنِسُ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: " نَعَمْ ". فَجَلَسْتُ، فَرَفَعْتُ رَأْسِي فِي الْبَيْتِ، فَوَاللهِ مَا رَأَيْتُ فِيهِ شَيْئًا يَرُدُّ الْبَصَرَ إِلَّا أَهَبَةً ثَلَاثَةً، فَقُلْتُ: ادْعُ يَا رَسُولَ اللهِ أَنْ يُوَسِّعَ عَلَى أُمَّتِكَ، فَقَدْ وُسِّعَ عَلَى فَارِسَ وَالرُّومِ، وَهُمْ لَا يَعْبُدُونَ اللهَ. فَاسْتَوَى جَالِسًا، ثُمَّ قَالَ: " أَفِي شَكٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟ أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا " فَقُلْتُ: اسْتَغْفِرْ لِي يَا رَسُولَ اللهِ. وَكَانَ أَقْسَمَ أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَيْهِنَّ شَهْرًا مِنْ شِدَّةِ مَوْجِدَتِهِ عَلَيْهِنَّ، حَتَّى عَاتَبَهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ. [صححه البخاري (89) ومسلم (1479) وابن خزيمة (1921و 2178) وابن حبان (4268)] [انظر: 339]
(222) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مجھے اس بات کی بڑی آرزو تھی کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو ازواج مطہرات کے بارے سوال کروں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ "اگر تم دونوں توبہ کر لو تو اچھا ہے کیونکہ تمہارے دل ٹیڑھے ہوچکے ہیں" لیکن ہمت نہیں ہوتی تھی، حتیٰ کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حج کے لئے تشریف لے گئے، میں بھی ان کے ساتھ تھا، راستے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ لوگوں سے ہٹ کر چلنے لگے، میں بھی پانی کا برتن لے کر ان کے پیچھے چلا گیا، انہوں نے اپنی طبعی ضرورت پوری کی اور جب واپس آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وضو کرنے لگے۔
اس دوران مجھے موقع مناسب معلوم ہوا، اس لئے میں نے پوچھ ہی لیا کہ امیرالمومنین! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے وہ دو عورتیں کون تھیں جن کے بارے اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ اگر تم توبہ کرلو تو اچھا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ابن عباس! حیرانگی کی بات ہے کہ تمہیں یہ بات معلوم نہیں، وہ دونوں عائشہ اور حفصہ تھیں، اور فرمایا کہ ہم قریش کے لوگ اپنی عورتوں پر غالب رہا کرتے تھے، لیکن جب ہم مدینہ منورہ میں آئے تو یہاں کی عورتیں، مردوں پر غالب نظر آئیں، ان کی دیکھا دیکھی ہماری عورتوں نے بھی ان سے یہ طور طریقے سیکھنا شروع کر دئیے۔
میرا گھر اس وقت عوالی میں بنو امیہ بن زید کے پاس تھا، ایک دن میں نے اپنی بیوی پر غصہ کا اظہار کسی وجہ سے کیا تو وہ الٹا مجھے جواب دینے لگی، مجھے بڑا تعجب ہوا، وہ کہنے لگی کہ میرے جواب دینے پر تو آپ کو تعجب ہو رہا ہے بخدا! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی انہیں جواب دیتی ہیں بلکہ بعض اوقات تو ان میں سے کوئی سارا دن تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بات ہی نہیں کرتی۔
یہ سنتے ہی میں اپنی بیٹی حفصہ کے پاس پہنچا اور ان سے کہا کہ کیا تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تکرار کرتی ہو؟ انہوں نے اقرار کیا، پھر میں نے پوچھا کہ کیا تم میں سے کوئی سارا دن تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بات ہی نہیں کرتی؟ انہوں نے اس پر اقرار کیا، میں نے کہا کہ تم میں سے جو یہ کرتا ہے وہ بڑے نقصان اور خسارے میں ہے، کیا تم لوگ اس بات پر مطمئن ہو کہ اپنے پیغمبر کو ناراض دیکھ کر تم میں سے کسی پر اللہ کا غضب نازل ہو اور وہ ہلاک ہوجائے۔ خبردار! تم آئندہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی بات پر تکرار نہ کرنا اور نہ ان سے کسی چیز کا مطالبہ کرنا، جس چیز کی ضرورت ہو مجھے بتا دینا، اور اپنی سہیلی یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ چہیتی اور لاڈلی سمجھ کر کہیں تم دھوکہ میں نہ رہنا.
میرا ایک انصاری پڑوسی تھا، ہم دونوں نے باری مقرر کر رکھی تھی، ایک دن وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا اور ایک دن میں، وہ اپنے دن کی خبریں اور وحی مجھے سنا دیتا اور میں اپنی باری کی خبریں اور وحی اسے سنا دیتا، اس زمانے میں ہم لوگ آپس میں یہ گفتگو ہی کرتے رہتے تھے کہ بنو غسان کے لوگ ہم سے مقابلے کے لئے اپنے گھوڑوں کے نعل ٹھونک رہے ہیں.
اس تناظر میں میرا پڑوسی ایک دن عشاء کے وقت میرے گھر آیا اور زور زور سے دروازہ بجایا، پھر مجھے آوازیں دینے لگا، میں جب باہر نکل کر آیا تو وہ کہنے لگا کہ آج تو ایک بڑا اہم واقعہ پیش آیا ہے، میں نے پوچھا کہ کیا بنو غسان نے حملہ کردیا؟ اس نے کہا نہیں! اس سے بھی زیادہ اہم واقعہ پیش آیاہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ہے، میں نے یہ سنتے ہی کہا کہ حفصہ خسارے میں رہ گئی، مجھے پتہ تھا کہ یہ ہو کر رہے گا۔
خیر! فجر کی نماز پڑھ کر میں نے اپنے کپڑے پہنے اور سیدھا حفصہ کے پاس پہنچا، وہ رو رہی تھیں، میں نے ان سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی ہے؟ انہوں نے کہا مجھے کچھ خبر نہیں، وہ اس بالاخانے میں اکیلے رہ رہے ہیں، میں وہاں پہنچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سیاہ فام غلام ملا، میں نے کہا کہ میرے لئے اندر داخل ہونے کی اجازت لے کر آؤ، وہ گیا اور تھوڑی دیر بعد آکر کہنے لگا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا ذکر کر دیا تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ میں وہاں سے آکر منبر کے قریب پہنچا تو وہاں بھی بہت سے لوگوں کو بیٹھے روتا ہوا پایا، میں بھی تھوڑی دیر کے لئے وہاں بیٹھ گیا، لیکن پھر بے چینی مجھ پر غالب آگئی اور میں نے دوبارہ اس غلام سے جا کر کہا کہ میرے لئے اجازت لے کر آؤ، وہ گیا اور تھوڑی دیر بعد ہی آکر کہنے لگا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا ذکر کیا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، تین مرتبہ اس طرح ہونے کے بعد جب میں واپس جانے لگا توغلام نے مجھے آواز دی کہ آئیے، آپ کو اجازت مل گئی ہے۔
میں نے اندر داخل ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں جس کے نشانات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلوئے مبارک پر نظر آرہے ہیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے دی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا نہیں! میں نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا، اور عرض کیا یا رسول اللہ! ذرا دیکھئے تو سہی، ہم قریشی لوگ اپنی عورتوں پر غالب رہتے تھے، جب مدینہ منورہ پہنچے تو یہاں ایسے لوگوں سے پالا پڑا جن پر ان کی عورتیں غالب رہتی ہیں، ہماری عورتوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی ان کے طور طریقے سیکھنا شروع کر دئیے، چنانچہ ایک دن میں اپنی سے کسی بات پر ناراض ہوا تو وہ الٹا مجھے جواب دینے لگی، مجھے تعجب ہوا تو وہ کہنے لگی کہ آپ کو میرے جواب پر تعجب ہو رہا ہے، بخدا! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج بھی انہیں جواب دیتی ہیں اور سارا سارا دن تک ان سے بات نہیں کرتیں ۔
میں نے کہا کہ جو ایسا کرتی ہے وہ نقصان اور خسارے میں ہے، کیا وہ اس بات سے مطمئن رہتی ہیں کہ اگر اپنے پیغمبر کی ناراضگی پر اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا تو وہ ہلاک نہیں ہوں گی؟ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے، میں نے مزید عرض کیا یا رسول اللہ! اس کے بعد میں حفصہ کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ تو اس بات سے دھوکہ میں نہ رہ کہ تیری سہیلی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ چہیتی اور لاڈلی ہے، یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ مسکرائے۔
پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں بے تکلف ہو سکتا ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی، چنانچہ میں نے سر اٹھا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کاشانہ اقدس کا جائزہ لینا شروع کردیا، اللہ کی قسم! مجھے وہاں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی جس کی طرف باربار نظریں اٹھیں، سوائے تین کچی کھالوں کے، میں نے یہ دیکھ کر عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ سے دعاء کیجئے کہ آپ کی امت پر وسعت اور کشادگی فرمائے، فارس اور روم جو اللہ کی عبادت نہیں کرتے، ان پر تو بڑی فراخی کی گئی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا ابن خطاب! کیا تم اب تک شک میں مبتلا ہو؟ ان لوگوں کو دنیا میں یہ ساری چیزیں دے دی گئی ہیں، میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے لئے بخشش کی دعا فرما دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل میں یہ قسم کھالی تھی کہ ایک مہینے تک اپنی ازواج مطہرات کے پاس نہیں جائیں گے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر سخت غصہ اور غم تھا، تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس سلسلے میں وحی نازل فر مادی۔


(223) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ سُلَيْمٍ، قَالَ: أَمْلَى عَلَيَّ يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ الْأَيْلِيُّ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ: كَانَ إِذَا نَزَلَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَحْيُ يُسْمَعُ عِنْدَ وَجْهِهِ دَوِيٌّ كَدَوِيِّ النَّحْلِ، فَمَكَثْنَا سَاعَةً، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، فَقَالَ: "اللهُمَّ زِدْنَا وَلا تَنْقُصْنَا، وَأَكْرِمْنَا وَلا تُهِنَّا، وَأَعْطِنَا وَلا تَحْرِمْنَا، وَآثِرْنَا وَلا تُؤْثِرْ عَلَيْنَا، وَارْضَ عَنَّا وَأَرْضِنَا "، ثُمَّ قَالَ: " لَقَدْ أُنْزِلَتْ عَلَيَّ عَشْرُ آيَاتٍ، مَنْ أَقَامَهُنَّ دَخَلَ الْجَنَّةَ "، ثُمَّ قَرَأَ عَلَيْنَا: {قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ} حَتَّى خَتَمَ الْعَشْرَ آيَاتٍ. [صححه الحاكم (2/392)، وقال النسائي: هذا حديث منكر، قال الالباني: ضعيف (الترمذي: 3173)]
(223) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب نزول وحی ہوتا تو آپ کے روئے انور کے قریب سے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی سی آواز سنائی دیتی تھی، ایک مرتبہ ایسا ہوا تو ہم کچھ دیر کے لئے رک گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ ہو کر اپنے ہاتھ پھیلائے اور یہ دعا فرمائی کہ اے اللہ! ہمیں زیادہ عطا فرما، کمی نہ فرما، ہمیں معزز فرما، ذلیل نہ فرما، ہمیں عطا فرما، محروم نہ فرما، ہمیں ترجیح دے، دوسروں کو ہم پر ترجیح نہ دے، ہم سے راضی ہوجا اور ہمیں راضی کر دے، اس کے بعد فرمایا کہ مجھ پر ابھی ابھی دس ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں کہ اگر ان کی پابندی کوئی شخص کر لے، وہ جنت میں داخل ہوگا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ المومنون کی ابتدائی دس آیات کی تلاوت فرمائی۔


(224) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ: أَنَّهُ شَهِدَ الْعِيدَ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَصَلَّى قَبْلَ أَنْ يَخْطُبَ بِلا أَذَانٍ وَلا إِقَامَةٍ، ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ صِيَامِ هَذَيْنِ الْيَوْمَيْنِ، أَمَّا أَحَدُهُمَا، فَيَوْمُ فِطْرِكُمْ مِنْ صِيَامِكُمْ وَعِيدُكُمْ، وَأَمَّا الْآخَرُ، فَيَوْمٌ تَأْكُلُونَ فِيهِ مِنْ نُسُكِكُمْ. [راجع: 163]
(224) ابوعبید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں عید کے موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے خطبہ سے پہلے بغیر اذان اور اقامت کے نماز پڑھائی، پھر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا لوگو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دودنوں کے روزے سے منع فرمایا ہے، عیدالفطر کے دن تو اس لئے کہ اس دن تمہارے روزے ختم ہوتے ہیں اور عیدالاضحی کے دن اس لئے کہ تم اپنی قربانی کے جانور کا گوشت کھا سکو۔


(225) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَعْدٍ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَزْهَرَ، قَالَ: شَهِدْتُ الْعِيدَ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ... فَذَكَرَ الْحَدِيثَ. [قال شعيب: إسناده حسن] [راجع: 163]
(225) گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی نقل کی گئی ہے۔


(226) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ قَبَّلَ الْحَجَرَ، ثُمَّ قَالَ: قَدْ عَلِمْتُ أَنَّكَ حَجَرٌ، وَلَوْلا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَكَ مَا قَبَّلْتُكَ. [صححه مسلم (1270)، وابن خزيمة (2711)، وابن حبان (3821)، قال شعيب: صحيح لغيره]
(226) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور اس سے مخاطب ہو کر فرمایا میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
(227) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنِي سَيَّارٌ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ: أَنَّ رَجُلًا كَانَ نَصْرَانِيًّا يُقَالُ لَهُ: الصُّبَيُّ بْنُ مَعْبَدٍ، أَسْلَمَ، فَأَرَادَ الْجِهَادَ، فَقِيلَ لَهُ: ابْدَأْ بِالْحَجِّ، فَأَتَى الْأَشْعَرِيَّ، فَأَمَرَهُ أَنْ يُهِلَّ بالْعُمْرَةِ وَالْحَجِّ جَمِيعًا، فَفَعَلَ، فَبَيْنَا هُوَ يُلَبِّي إِذْ مَرَّ بِزَيْدِ بْنِ صُوحَانَ وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: لَهَذَا أَضَلُّ مِنْ بَعِيرِ أَهْلِهِ، فَسَمِعَهَا الصُّبَيُّ، فَكَبُرَ ذَلِكَ عَلَيْهِ، فَلَمَّا قَدِمَ أَتَى عُمَرَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ. قَالَ: وَسَمِعْتُهُ مَرَّةً أُخْرَى يَقُولُ: وُفِّقْتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ. [راجع: 83]
(227) حضرت ابو وائل کہتے ہیں کہ صبی بن معبد ایک عیسائی آدمی تھے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا، انہوں نے جہاد کا ارادہ کر لیا، اسی اثناء میں کسی نے کہا آپ پہلے حج کر لیں، پھر جہاد میں شرکت کریں۔
چنانچہ وہ اشعری کے پاس آئے، انہوں نے صبی کو حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھا احرام باندھ لینے کا حکم دیا، انہوں نے ایسا ہی کیا، وہ یہ تلبیہ پڑھتے ہوئے، زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے پاس سے گذرے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ یہ شخص اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے، صبی نے یہ بات سن لی اور ان پر بہت بوجھ بنی، جب وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو زید اور سلمان نے جو کہا تھا ، اس کے متعلق ان کی خدمت میں عرض کیا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ آپ کو اپنے پیغمبر کی سنت پر رہنمائی نصیب ہوگئی۔


(228) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عُمَرَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْمُرُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ اللَّيْلَةَ، كَذَاكَ فِي الْأَمْرِ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ، وَأَنَا مَعَهُ. [راجع: 175]
(228) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول مبارک تھا کہ روزانہ رات کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس مسلمانوں کے معاملات میں مشورے کے لئے تشریف لے جاتے تھے، ایک مرتبہ میں بھی اس موقع پر موجود تھا۔


(229) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَرْجِسَ، قَالَ: رَأَيْتُ الْأُصَيْلِعَ - يَعْنِي عُمَرَ - يُقَبِّلُ الْحَجَرَ وَيَقُولُ: إِنِّي لَأُقَبِّلُكَ، وَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَنْفَعُ وَلا تَضُرُّ، وَلَوْلا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ لَمْ أُقَبِّلْكَ. [صححه مسلم (1270)] [انظر: 361]
(229) عبداللہ بن سرجس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں، میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، نہ کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان، لیکن میں تجھے پھر بھی بوسہ دے رہا ہوں، اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔


(230) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَيَرْقُدُ أَحَدُنَا وَهُوَ جُنُبٌ؟ قَالَ: " نَعَمْ، إِذَا تَوَضَّأَ ". [راجع: 94]
(230) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اگر کوئی آدمی اختیاری طور پر ناپاک ہو جائے تو کیا اسی حال میں سو سکتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ! وضو کر لے اور سو جائے۔


(231) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَاصِمٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ، وَأَدْبَرَ النَّهَارُ، وَغَابَتِ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرْتَ ". [راجع: 192]
(231) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب رات آجائے اور دن چلا جائے اور سورج غروب ہوجائے تو تمہیں روزہ افطار کر لینا چاہیے، (مشرق اور مغرب مراد ہے.)
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
(232) حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، (ح) وحَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، الْمَعْنَى، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ: أَنَّ نَافِعَ بْنَ عَبْدِ الْحَارِثِ لَقِيَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بِعُسْفَانَ، وَكَانَ عُمَرُ اسْتَعْمَلَهُ عَلَى مَكَّةَ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: مَنِ اسْتَخْلَفْتَ عَلَى أَهْلِ الْوَادِي؟ قَالَ: اسْتَخْلَفْتُ عَلَيْهِمُ ابْنَ أَبْزَى. فقَالَ: وَمَا ابْنُ أَبْزَى؟ فَقَالَ: رَجُلٌ مِنْ مَوَالِينَا. فَقَالَ عُمَرُ: اسْتَخْلَفْتَ عَلَيْهِمْ مَوْلًى! فَقَالَ: إِنَّهُ قَارِئٌ لِكِتَابِ اللهِ، عَالِمٌ بِالْفَرَائِضِ قَاضٍ، فَقَالَ عُمَرُ: أَمَا إِنَّ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ: " إِنَّ اللهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا، وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ ". [قال شعيب: إسناداه صحيحان]
(232) حضرت عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ "عسفان" نامی جگہ میں نافع بن عبدالحارث کی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں مکہ مکرمہ کا گورنر بنا رکھا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ تم نے اپنے پیچھے اپنا نائب کسے بنایا؟ انہوں نے کہا عبدالرحمن بن ابزی کو، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا ابن ابزی کون ہے؟ عرض کیا ہمارے موالی میں سے ہے، حضرت عمر رضی اللہ نے فرمایا کہ تم ایک غلام کو اپنا نائب بنا آئے؟ عرض کیا کہ وہ قرآن کریم کا قاری ہے، علم فرائض ووراثت کو جانتا ہے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، حضرت عمر رضی اللہ نے فرمایا کہ تمہارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اس کے متعلق فرما گئے ہیں کہ بیشک اللہ اس کتاب کے ذریعے بہت سے لوگوں کو عزتیں عطا فرمائے گا اور بہت سے لوگوں نیچے کر دے گا۔


(233) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ سُمَيْعٍ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ لِأَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ: ابْسُطْ يَدَكَ حَتَّى أُبَايِعَكَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " أَنْتَ أَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ " فَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ: مَا كُنْتُ لِأَتَقَدَّمَ بَيْنَ يَدَيْ رَجُلٍ أَمَرَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَؤُمَّنَا، فَأَمَّنَا حَتَّى مَاتَ. [إسناده ضعيف]
(233) ابوالبختری کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے فرمایا اپنا ہاتھ پھیلائیے تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کروں، کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آپ اس امت کے امین ہیں، انہوں نے فرمایا میں اس شخص سے آگے نہیں بڑھ سکتا جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری امامت کا حکم دیا ہو اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک ہماری امامت کرتے رہے ہوں۔


(234) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ عُمَرَ، قَالَ: قَسَمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِسْمَةً، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، لَغَيْرُ هَؤُلاءِ أَحَقُّ مِنْهُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّهُمْ خَيَّرُونِي بَيْنَ أَنْ يَسْأَلُونِي بِالْفُحْشِ، أَوْ يُبَخِّلُونِي فَلَسْتُ بِبَاخِلٍ ". [راجع: 127]
(234) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ چیزیں تقسیم فرمائیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس کے زیادہ حقدار تو ان لوگوں کو چھوڑ کر دوسرے لوگ تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا انہوں نے مجھ سے غیر مناسب طریقے سے سوال کرنے یا مجھے بخیل قرار دینے میں مجھے اختیار دے دیا ہے، حالانکہ میں بخیل نہیں ہوں۔
فائدہ : مطلب یہ ہے کہ اگر میں نے اہل صفہ کو کچھ نہیں دیا تو اپنے پاس کچھ بچا کر نہیں رکھا اور اگر دوسروں کو دیا ہے تو ان کی ضروریات کو سامنے رکھ کر دیا۔


(235) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أيَنَامُ أَحَدُنَا وَهُوَ جُنُبٌ؟ قَالَ: " نَعَمْ، وَيَتَوَضَّأُ وُضُوءَهُ لِلصَّلاةِ ". [راجع: 94] [وسيأتي في مسند ابن عمر: 4929]
(235) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اگر کوئی آدمی اختیاری طور پر ناپاک ہوجائے تو کیا اسی حال میں سو سکتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ! نماز والا وضو کر لے اور سو جائے۔


(236) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ عُمَرَ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ... مِثْلَهُ. [راجع: 94]
(236) گذشتہ روایت ایک دوسری سند سے بھی مذکور ہے جو عبارت میں گذر چکی۔


(237) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: رَأَى ابْنُ عُمَرَ سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ يَمْسَحُ عَلَى خُفَّيْهِ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَإِنَّكُمْ لَتَفْعَلُونَ هَذَا؟ فَقَالَ سَعْدٌ: نَعَمْ. فَاجْتَمَعَا عِنْدَ عُمَرَ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَفْتِ ابْنَ أَخِي فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ، فَقَالَ عُمَرُ: كُنَّا وَنَحْنُ مَعَ نَبِيِّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَمْسَحُ عَلَى خِفَافِنَا. فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَإِنْ جَاءَ مِنَ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ؟ فَقَالَ عُمَرُ: نَعَمْ، وَإِنْ جَاءَ مِنَ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ. قَالَ نَافِعٌ: فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ بَعْدَ ذَلِكَ يَمْسَحُ عَلَيْهِمَا مَا لَمْ يَخْلَعْهُمَا، وَمَا يُوَقِّتُ لِذَلِكَ وَقْتًا. فَحَدَّثْتُ بِهِ مَعْمَرًا، فَقَالَ: حَدَّثَنِيهِ أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ مِثْلَهُ. [قال الالباني: صحيح (ابن ماجة: 546، ابن خزيمة: 184)] [راجع: 87]
(237) ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ آپ یہ بھی کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں! پھر وہ دونوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اکٹھے ہوئے تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا امیرالمومنین! ذرا ہمارے بھتیجے کو موزوں پر مسح کا مسئلہ بتا دیجئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم ماضی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور اب بھی موزوں پر مسح کرتے ہیں، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے پوچھا کہ اگرچہ کوئی شخص پاخانہ یا پیشاب ہی کر کے آیا ہو؟ فرمایا ہاں! اگرچہ وہ پاخانہ یا پیشاب ہی کر کے آیا ہو، نافع کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی موزوں پر مسح کرنے لگے اور اس وقت تک مسح کرتے رہے جب تک موزے اتار نہ لیتے اور اس کے لئے کسی وقت کی تعیین نہیں فرماتے تھے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
(238) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، قَالَ: صَرَفْتُ عِنْدَ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ وَرِقًا بِذَهَبٍ، فَقَالَ: أَنْظِرْنِي حَتَّى يَأْتِيَنَا خَازِنُنَا مِنَ الْغَابَةِ. قَالَ: فَسَمِعَهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: لَا وَاللهِ، لَا تُفَارِقُهُ حَتَّى تَسْتَوْفِيَ مِنْهُ صَرْفَهُ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الذَّهَبُ بِالْوَرِقِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ ". [راجع: 162]
(238) حضرت مالک بن اوس بن الحدثان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے سونے کے بدلے چاندی کا معاملہ طے کیا، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ ذرا رکیے، ہمارا خازن "غابہ" سے آتا ہی ہوگا، یہ سن کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں ! تم اس وقت تک ان سے جدا نہ ہونا جب تک کہ ان سے اپنی چیز وصول نہ کر لو، کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سونے کی چاندی کے بدلے خرید وفروخت سود ہے الاّ یہ کہ معاملہ نقد ہے ۔


(239) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ، قَالَ: لَمَّا ارْتَدَّ أَهْلُ الرِّدَّةِ فِي زَمَانِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ عُمَرُ: كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ يَا أَبَا بَكْرٍ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، فَإِذَا قَالُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، فَقَدْ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللهِ "؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَاللهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَيْهَا. قَالَ عُمَرُ: فَوَاللهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ أَنَّ اللهَ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ. [راجع: 117]
(239) عبیداللہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اہل عرب میں سے جو مرتد ہو سکتے تھے، سو ہوگئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ ان لوگوں سے کیسے قتال کر سکتے ہیں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے مجھے لوگوں سے اس وقت تک قتال کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہ کہہ لیں، جو شخص لا الہ الا اللہ کہہ لے، اس نے اپنی جان اور مال کو مجھ سے محفوظ کر لیا، ہاں اگر اسلام کا کوئی حق ہو تو الگ بات ہے، اور اس کا حساب کتاب اللہ کے ذمے ہوگا؟
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا اللہ کی قسم! میں اس شخص سے ضرور قتال کروں گا جو نماز اور زکوۃ کے درمیان فرق کرتے ہیں، کیونکہ زکوۃ مال کا حق ہے، بخدا! اگر انہوں نے ایک بکری کا بچہ "جو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے" بھی روکا تو میں ان سے قتال کروں گا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سمجھ گیا، اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس معاملے میں شرح صدر کی دولت عطا فرما دی ہے اور میں سمجھ گیا کہ ان کی رائے ہی برحق ہے۔


(240) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: كُنْتُ فِي رَكْبٍ أَسِيرُ فِي غَزَاةٍ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَلَفْتُ، فَقُلْتُ: لَا وَأَبِي، فَنَهَرَنِي رَجُلٌ مِنْ خَلْفِي، وَقَالَ: " لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ " فَالْتَفَتُّ، فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. [راجع: 116]
(240) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوے میں تھا، ایک موقع پر میں نے قسم کھاتے ہوئے کہا " لا وابی " تو پیچھے سے ایک آدمی نے مجھ سے کہا کہ اپنے آباؤ اجداد کے نام کی قسمیں مت کھایا کرو، میں نے دیکھا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔


(241) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَحْلِفُ بِأَبِي، فَقَالَ: " إِنَّ اللهَ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ " قَالَ عُمَرُ: فَوَاللهِ مَا حَلَفْتُ بِهَا بَعْدُ ذَاكِرًا وَلا آثِرًا. [راجع: 112]
(241) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے باپ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے آباؤ اجداد کے نام کی قسمیں کھانے سے منع فرمایا ہے چنانچہ اس کے بعد میں نے جان بوجھ کر یا نقل کے طور پر بھی ایسی قسم نہیں کھائی۔


(242) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ عُمَرَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِي الْحَرِيرِ فِي إِصْبَعَيْنِ. [راجع: 92]
(242) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کے لئے دو انگلیوں کے برابر ریشم کی اجازت دی ہے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
(243) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عُتْبَةَ بْنِ فَرْقَدٍ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ بِأَشْيَاءَ يُحَدِّثُهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَ فِيمَا كَتَبَ إِلَيْهِ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَلْبَسُ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا إِلَّا مَنْ لَيْسَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْهُ شَيْءٌ، إِلَّا هَكَذَا " وَقَالَ بِإِصْبَعَيْهِ: السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى. قَالَ أَبُو عُثْمَانَ: فَرَأَيْتُ أَنَّهَا أَزْرَارُ الطَّيَالِسَةِ حِينَ رَأَيْنَا الطَّيَالِسَةَ. [إسناده صحيح على شرط الشيخين، أخرجه البخاري (5830)، مسلم (2069) (13)]
(243) ابو عثمان کہتے ہیں کہ ہم حضرت عتبہ بن فرقد رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ایک خط آگیا، جس میں لکھا تھا، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص دنیا میں ریشمی لباس پہنتا ہے سوائے اتنی مقدار کے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی بلند کر کے دکھائی، اس کا آخرت میں ریشم کے حوالے سے کوئی حصہ نہیں ۔


(244) حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بَابَيْهِ عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: قُلْتُ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: إِقْصَارُ النَّاسِ الصَّلاةَ الْيَوْمَ، وَإِنَّمَا قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا} [النساء: 101] ، فَقَدْ ذَهَبَ ذَاكَ الْيَوْمَ! فَقَالَ: عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْهُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " صَدَقَةٌ تَصَدَّقَ اللهُ بِهَا عَلَيْكُمْ، فَاقْبَلُوا صَدَقَتَهُ ". [راجع: 174]
(244) یعلی بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ قرآن کریم میں قصر کا جو حکم خوف کی حالت میں آیا ہے، اب تو ہر طرف امن وامان ہو گیا ہے تو کیا یہ حکم ختم ہو گیا؟ (اگر ایسا ہے تو پھر قرآن میں اب تک یہ آیت کیوں موجود ہے؟) تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے بھی اسی طرح تعجب ہوا تھا جس طرح تمہیں ہوا ہے اور میں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یہ اللہ کی طرف سے صدقہ ہے جو اس نے اپنے بندوں پر کیا ہے، لہٰذا اس کے صدقے اور مہربانی کو قبول کرو۔


(245) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ يُحَدِّثُ، فَذَكَرَهُ. [راجع: 174]
گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مذکور ہے۔


(246) حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: إِنَّ آخِرَ مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْآنِ آيَةُ الرِّبَا، وَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ وَلَمْ يُفَسِّرْهَا، فَدَعُوا الرِّبَا وَالرِّيبَةَ. [قال البوصيري: هذا اسناده صحيح رجاله ثقات، قال الالباني: صحيح (ابن ماجة: 2276)، قال شعيب: حسن] [انظر: 350]
(246) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں سب سے آخری آیت سود سے متعلق نازل ہوئی ہے، اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی وفات سے قبل اس کی مکمل وضاحت کا موقع نہیں مل سکا، اس لئے سود کو بھی چھوڑ دو اور جس چیز میں ذرا بھی شک ہو اسے بھی چھوڑ دو۔


(247) حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِالنِّيَاحَةِ عَلَيْهِ ". [راجع: 180]
(247) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میت کو اس کی قبر میں اس پر ہونے والے نوحے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔


(248) حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يُعَذَّبُ الْمَيِّتُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ ". [راجع: 180]
(248) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میت کو اس کی قبر میں اس پر اس کے اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
(249) حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ يَحْيَى، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ أَنَّ عُمَرَ قَالَ: إِيَّاكُمْ أَنْ تَهْلِكُوا عَنْ آيَةِ الرَّجْمِ، [وَأَنْ يَقُولَ قَائِلٌ:] لَا نَجِدُ حَدَّيْنِ فِي كِتَابِ اللهِ، فَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَجَمَ، وَقَدْ رَجَمْنَا. [قال الترمذي: حسن صحيح، قال الالباني: صحيح (الترمذي: 1431)] [انظر: 302]
(249) حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آیت رجم کے حوالے سے اپنے آپ کو ہلاکت میں پڑنے سے بچانا، کہیں کوئی شخص یہ نہ کہنے لگے کہ کتاب اللہ میں تو ہمیں دو سزاؤں کا تذکرہ نہیں ملتا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی رجم کی سزا جاری کرتے ہوئے دیکھا ہے اور خود ہم نے بھی یہ سزا جاری کی ہے۔


(250) حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: وَافَقْتُ رَبِّي فِي ثَلاثٍ - أوْ وَافَقَنِي رَبِّي فِي ثَلاثٍ - قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، لَوِ اتَّخَذْتَ مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى؟ فَأَنْزَلَ اللهُ: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى} ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهُ يَدْخُلُ عَلَيْكَ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، فَلَوْ أَمَرْتَ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ بِالْحِجَابِ، فَأَنْزَلَ اللهُ آيَةَ الْحِجَابِ، وَبَلَغَنِي مُعَاتَبَةُ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلامُ بَعْضَ نِسَائِهِ، قَالَ: فَاسْتَقْرَيْتُ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ، فَدَخَلْتُ عَلَيْهِنَّ فَجَعَلْتُ أَسْتَقْرِيهِنَّ وَاحِدَةً وَاحِدَةً: وَاللهِ لَئِنِ انْتَهَيْتُنَّ وَإِلَّا لَيُبَدِّلَنَّ اللهُ رَسُولَهُ خَيْرًا مِنْكُنَّ، قَالَ: فَأَتَيْتُ عَلَى بَعْضِ نِسَائِهِ، قَالَتْ: يَا عُمَرُ، أَمَا فِي رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَعِظُ نِسَاءَهُ حَتَّى تَكُونَ أَنْتَ تَعِظُهُنَّ؟ فَأَنْزَلَ اللهُ: {عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ}. [راجع: 157]
(250) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے تین باتوں میں اپنے رب کی موافقت کی ہے۔
(١) ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! کاش! ہم مقام ابراہیم کو مصلی بنا لیتے، اس پر یہ آیت نازل ہوگئی کہ مقام ابراہیم کو مصلی بنالو۔
(٢) ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے پاس نیک اور بد ہر طرح کے لوگ آتے ہیں، اگر آپ امہات المومنین کو پردے کا حکم دے دیں تو بہتر ہے؟ اس پر اللہ نے آیت حجاب نازل فرمادی۔
(٣) ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواج مطہرات سے ناراضگی کا مجھے پتہ چلا، میں ان میں سے ہر ایک کے پاس فردا فردا گیا اور ان سے کہا کہ تم لوگ باز آجاؤ ورنہ ہو سکتا ہے ان کا رب انہیں تم سے بہتر بیویاں عطا کردے، حتیٰ کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجہ محترمہ کے پاس گیا تو وہ کہنے لگیں عمر! کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نصیحت کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں جو تم ان کی بیویوں کو نصیحت کرنے آگئے ہو؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان ہی الفاظ کے ساتھ قرآن کریم کی آیت نازل فرما دی۔


(251) حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، حَدَّثَنِي أَبُو ذِبْيَانَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ الزُّبَيْرِ يَقُولُ: لَا تُلْبِسُوا نِسَاءَكُمُ الْحَرِيرَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ لَبِسَ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا لَمْ يَلْبَسْهُ فِي الْآخِرَةِ ". وقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ الزُّبَيْرِ مِنْ عِنْدِهِ: وَمَنْ لَمْ يَلْبَسْهُ فِي الْآخِرَةِ لَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ، قَالَ اللهُ تَعَالَى: {وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ}. [راجع: 123]
(251) حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ اپنی عورتوں کو بھی ریشمی کپڑے مت پہنایا کرو کیونکہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص دنیا میں ریشم پہنتا ہے، وہ آخرت میں اسے نہیں پہن سکے گا، اس کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے اجتہاد سے فرمایا کہ جو آخرت میں بھی ریشم نہ پہن سکے وہ جنت میں ہی داخل نہ ہوگا، کیونکہ قرآن میں آتا ہے کہ اہل جنت کا لباس ریشم کا ہوگا۔
فائدہ : یہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا اپنا اجتہاد تھا، جمہور علماء کی رائے یہ ہے کہ ریشمی کپڑے کی ممانعت مرد کے لئے ہے، عورت کے لئے نہیں۔


(252) حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَامِرٌ، وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: مَرَّ عُمَرُ بِطَلْحَةَ - فَذَكَرَ مَعْنَاهُ - قَالَ: مَرَّ عُمَرُ بِطَلْحَةَ فَرَآهُ مُهْتَمًّا، قَالَ: لَعَلَّكَ سَاءَكَ إِمَارَةُ ابْنِ عَمِّكَ - قَالَ: يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ - فَقَالَ: لَا، وَلَكِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنِّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةً لَا يَقُولُهَا الرَّجُلُ عِنْدَ مَوْتِهِ إِلَّا كَانَتْ نُورًا فِي صَحِيفَتِهِ، أَوْ وَجَدَ لَهَا رَوْحًا عِنْدَ الْمَوْتِ " قَالَ عُمَرُ: أَنَا أُخْبِرُكَ بِهَا، هِيَ الْكَلِمَةُ الَّتِي أَرَادَ بِهَا عَمَّهُ: شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ. قَالَ: فَكَأَنَّمَا كُشِفَ عَنِّي غِطَاءٌ، قَالَ: صَدَقْتَ، لَوْ عَلِمَ كَلِمَةً هِيَ أَفْضَلُ مِنْهَا لَأَمَرَهُ بِهَا. [راجع: 187]
(252) امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذرے تو انہیں پریشان حال دیکھا، وہ کہنے لگے کہ شاید آپ کو اپنے چچازاد بھائی کی یعنی میری خلافت اچھی نہیں لگی؟ انہوں نے فرمایا اللہ کی پناہ! مجھے تو کسی صورت ایسا نہیں کرنا چاہیے، اصل بات یہ ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر کوئی شخص نزع کی حالت میں وہ کلمہ کہہ لے تو اسکے لئے روح نکلنے میں سہولت پیدا ہوجائے اور قیامت کے دن وہ اس کے لئے باعث نور ہو، (مجھے افسوس ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کلمے کے بارے میں پوچھ نہیں سکا، اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نہیں بتایا، میں اس وجہ سے پریشان ہوں) ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں وہ کلمہ جانتا ہوں، (حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے الحمد للہ کہہ کر پوچھا کہ وہ کیا کلمہ ہے؟) فرمایا وہی کلمہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے سامنے پیش کیا تھا یعنی لا الہ الا اللہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ آپ نے سچ فرمایا: آپ نے میرے اوپر سے پردہ ہٹا دیا، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے افضل بھی کوئی کلمہ جانتے ہوتے تو اپنے چچا کو اس کا حکم دیتے۔


(253) حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ عَتِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بَابَيْهِ عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: طُفْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَلَمَّا كُنْتُ عِنْدَ الرُّكْنِ الَّذِي يَلِي الْبَابَ مِمَّا يَلِي الْحَجَرَ، أَخَذْتُ بِيَدِهِ لِيَسْتَلِمَ، فَقَالَ: أَمَا طُفْتَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَهَلْ رَأَيْتَهُ يَسْتَلِمُهُ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَانْفُذْ عَنْكَ فَإِنَّ لَكَ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةً حَسَنَةً. [انظر: 313] [وسيأتي في مسند عثمان بن عفان: 512]
(253) حضرت یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ طواف کیا، جب میں رکن یمانی پر پہنچا تو میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ لیا تاکہ وہ استلام کرلیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کبھی طواف نہیں کیا؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں ! فرمایا تو کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا استلام کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ میں نے کہا نہیں! فرمایا پھر اسے چھوڑ دو، کیونکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تمہارے لئے اسوہ حسنہ موجود ہے ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
(254) حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ الْأَعْمَشِ، حَدَّثَنَا شَقِيقٌ حَدَّثَنِي الصُّبَيُّ بْنُ مَعْبَدٍ، وَكَانَ رَجُلًا مِنْ بَنِي تَغْلِبَ، قَالَ: كُنْتُ نَصْرَانِيًّا فَأَسْلَمْتُ، فَاجْتَهَدْتُ فَلَمْ آلُ، فَأَهْلَلْتُ بِحَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ، فَمَرَرْتُ بِالْعُذَيْبِ عَلَى سَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ وَزَيْدِ بْنِ صُوحَانَ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: أَبِهِمَا جَمِيعًا؟ فَقَالَ لَهُ صَاحِبُهُ: دَعْهُ، فَلَهُوَ أَضَلُّ مِنْ بَعِيرِهِ. قَالَ: فَكَأَنَّمَا بَعِيرِي عَلَى عُنُقِي، فَأَتَيْتُ عُمَرَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ لِي عُمَرُ: إِنَّهُمَا لَمْ يَقُولا شَيْئًا هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. [راجع: 83]
(254) حضرت ابووائل کہتے ہیں کہ صبی بن معبد قبیلہ بنو تغلب کے آدمی تھے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اسلام قبول کر لیا، اور محنت کرنے میں کوئی کمی نہ کی۔
پھر میں نے میقات پر پہنچ کر حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ لیا، زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے پاس سے مقام عذیب میں میرا گذر ہوا تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ یہ شخص اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے، صبی کہتے ہیں کہ اس جملے سے مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرا اونٹ میری گردن پر ہے، میں جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو زید اور سلمان نے جو کہا تھا، اس کے متعلق ان کی خدمت میں عرض کیا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ان کی بات کا کوئی اعتبار نہیں، آپ کو اپنے پیغمبر کی سنت پر رہنمائی نصیب ہو گئی۔


(255) حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي نَذَرْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَنْ أَعْتَكِفَ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ لَيْلَةً، فَقَالَ لَهُ: " فَأَوْفِ بِنَذْرِكَ ". [صححه البخاري (2042)، ومسلم (1656)] [انظر: 4705]
(255) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں ذکر کیا یا رسول اللہ! میں نے زمانہ جاہلیت میں یہ منت مانی تھی کہ مسجد حرام میں ایک رات کا اعتکاف کروں گا، اب کیا کروں؟ فرمایا اپنی منت پوری کرو۔


(256) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ صُبَيِّ بْنِ مَعْبَدٍ التَّغْلِبِيِّ، قَالَ: كُنْتُ حَدِيثَ عَهْدٍ بِنَصْرَانِيَّةٍ، فَأَرَدْتُ الْجِهَادَ أَوِ الْحَجَّ، فَأَتَيْتُ رَجُلًا مِنْ قَوْمِي يُقَالُ لَهُ: هُدَيْمٌ، فَسَأَلْتُهُ، فَأَمَرَنِي بِالْحَجِّ، فَقَرَنْتُ بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ ... فَذَكَرَهُ. [راجع: 83]
(256) صبی بن معبد کہتے ہیں کہ میں نے نیا نیا عیسائیت کو خیرباد کہا تھا، میں نے ارادہ کیا کہ جہاد یا حج پر روانہ ہو جاؤں، چنانچہ میں نے اپنے ایک ہم قوم سے جس کا نام "ہدیم" تھا مشورہ کیا تو اس نے مجھے حج کرنے کو کہا، میں نے حج اور عمرہ دونوں کی نیت کرلی، اس کے بعد انہوں نے پوری حدیث ذکر کی۔


(257) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ زُبَيْدٍ الْإِيَامِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ عُمَرَ، قَالَ: صَلاةُ السَّفَرِ رَكْعَتَانِ، وَصَلاةُ الْأَضْحَى رَكْعَتَانِ، وَصَلاةُ الْفِطْرِ رَكْعَتَانِ، وَصَلاةُ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَانِ، تَمَامٌ غَيْرُ قَصْرٍ، عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ سُفْيَانُ: وَقَالَ زُبَيْدٌ مَرَّةً: أُرَاهُ عَنْ عُمَرَ. قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَلَى غَيْرِ وَجْهِ الشَّكِّ. وقَالَ يَزِيدُ - يَعْنِي ابْنَ هَارُونَ -: ابْنُ أَبِي لَيْلَى قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ. [صححه ابن خزيمة (1425) وابن حبان (2783)، قال الالباني: صحيح (ابن ماجه: 1063، 1064، والنسائي 3 / 111 و 118و 183)]
(257) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سفر کی نماز میں دو رکعتیں ہیں، عیدین میں سے ہر ایک کی دو دو رکعتیں، اور جمعہ کی بھی دو رکعتیں ہیں ، اور یہ ساری نمازیں مکمل ہیں، ان میں سے قصر کوئی بھی نہٰیں ہے جیسا کہ لسان نبوت سے ادا ہو چکا۔


(258) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ: أَنَّهُ وَجَدَ فَرَسًا كَانَ حَمَلَ عَلَيْهَا فِي سَبِيلِ اللهِ تُبَاعُ فِي السُّوقِ، فَأَرَادَ أَنْ يَشْتَرِيَهَا، فَسَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَهَاهُ وَقَالَ: " لَا تَعُودَنَّ فِي صَدَقَتِكَ ". [راجع: 166]
(258) اسلم رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فی سبیل اللہ کسی شخص کو سواری کے لئے گھوڑا دے دیا، بعد میں دیکھا کہ وہی گھوڑا بازار میں بک رہا ہے، انہوں نے سوچا کہ اسے خرید لیتا ہوں، چنانچہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع کردیا اور فرمایا کہ اسے مت خریدو اور اپنے صدقے سے رجوع مت کرو.


(259) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ وَبِيَدِهِ عَسِيبُ نَخْلٍ، وَهُوَ يُجْلِسُ النَّاسَ، يَقُولُ: اسْمَعُوا لِقَوْلِ خَلِيفَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ مَوْلًى لِأَبِي بَكْرٍ يُقَالُ لَهُ: شَدِيدٌ، بِصَحِيفَةٍ فَقَرَأَهَا عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ: يَقُولُ أَبُو بَكْرٍ: اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا لِمَنْ فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ، فَوَاللهِ مَا أَلَوْتُكُمْ. قَالَ قَيْسٌ: فَرَأَيْتُ عُمَرَ بَعْدَ ذَلِكَ عَلَى الْمِنْبَرِ. [قال شعيب: إسناده صحيح على شرط الشيخين]
(259) قیس کہتے ہیں کہ میں نے عمر فاروق رضی اللہ کو ایک مرتبہ اس حال میں دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں کھجور کی ایک شاخ تھی اور وہ لوگوں کو بٹھا رہے تھے، اور کہہ رہے تھے کہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات توجہ سے سنو، اتنی دیر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا آزاد کردہ غلام جس کا نام شدید تھا ایک کاغذ لے کر آگیا، اور اس نے لوگوں کو وہ پڑھ کر سنایا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کاغذ میں جس شخص کا نام درج ہے (وہ میرے بعد خلیفہ ہوگا اس لئے) تم اس کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا، بخدا! میں نے اس سلسلے میں مکمل احتیاط اور کوشش کر لی ہے، قیس کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو منبر پر جلوہ افروز دیکھا (جس کا مطلب یہ تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کاغذ میں ان ہی کا نام لکھوایا تھا).
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
(260) حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ، عَنْ عِمْرَانَ السُّلَمِيِّ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيذِ، فَقَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ وَالدُّبَّاءِ. فَلَقِيتُ ابْنَ عُمَرَ فَسَأَلْتُهُ، فَأَخْبَرَنِي - فِيمَا أَظُنُّ - عَنْ عُمَرَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ وَالدُّبَّاءِ - شَكَّ سُفْيَانُ -. قَالَ: فَلَقِيتُ ابْنَ الزُّبَيْرِ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ وَالدُّبَّاءِ. [راجع: 185]
(260) عمران اسلمی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مٹکے کی نبیذ کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے کی نبیذ اور کدو کی سے ہی تو منع فرمایا ہے۔
پھر میں نے یہی سوال حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کیا تو انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدو کی نبیذ اور سبز مٹکے سے منع فرمایا ہے.
پھر میں نے یہی سوال حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے کیا تو انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مٹکے اور کدو کی نبیذ سے منع فرمایا ہے۔


(261) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ آدَمَ وَأَبِي مَرْيَمَ وَأَبِي شُعَيْبٍ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ بِالْجَابِيَةِ ... فَذَكَرَ فَتْحَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ. قَالَ: قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: فَحَدَّثَنِي أَبُو سِنَانٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ آدَمَ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ لِكَعْبٍ: أَيْنَ تُرَى أَنْ أُصَلِّيَ؟ فَقَالَ: إِنْ أَخَذْتَ عَنِّي صَلَّيْتَ خَلْفَ الصَّخْرَةِ، فَكَانَتِ الْقُدْسُ كُلُّهَا بَيْنَ يَدَيْكَ، فَقَالَ عُمَرُ: ضَاهَيْتَ الْيَهُودِيَّةَ، لَا، وَلَكِنْ أُصَلِّي حَيْثُ صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَقَدَّمَ إِلَى الْقِبْلَةِ فَصَلَّى، ثُمَّ جَاءَ فَبَسَطَ رِدَاءَهُ فَكَنَسَ الْكُنَاسَةَ فِي رِدَائِهِ، وَكَنَسَ النَّاسُ. [اسناده ضعيف]
(261) فتح بیت المقدس کے واقعے میں مختلف رواۃ ذکر کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کعب احبار سے پوچھا کہ آپ کی رائے میں مجھے کہاں نماز پڑھنی چاہیے؟ انہوں نے کہا کہ اگر آپ میری رائے پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو صخرہ کے پیچھے نماز پڑھیں، اس طرح پورا بیت المقدس آپ کے سامنے ہوگا، فرمایا تم نے بھی یہودیوں جیسی بات کہی، ایسا نہیں ہوسکتا، میں اس مقام پر نماز پڑھوں گا جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج نماز پڑھی تھی، چنانچہ انہوں نے قبلہ کی طرف بڑھ کر نماز پڑھی، پھر نماز کے بعد اپنی چادر بچھائی اور اپنی چادر میں وہاں کا سارا کوڑا کر کٹ اکٹھا کیا ، لوگوں نے بھی ان کی پیروی کی۔


(262) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ - يَعْنِي ابْنَ مِغْوَلٍ - قَالَ: سَمِعْتُ الْفُضَيْلَ بْنَ عَمْرٍو، عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عُمَرَ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْكَلالَةِ، فَقَالَ: " تَكْفِيكَ آيَةُ الصَّيْفِ " فَقَالَ: لَأَنْ أَكُونَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِي حُمْرُ النَّعَمِ. [قال شعيب: صحيح لغيره]
(262) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے "کلالہ" کے متعلق سوال کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے لئے موسم گرما میں نازل ہونے والی آیت کلالہ کافی ہے، مجھے اس مسئلے کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرنا سرخ اونٹوں کے ملنے سے زیادہ پسندیدہ تھا۔


(263) حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ: أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّهُ تُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَغْسِلَ ذَكَرَهُ، وَيَتَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلاةِ. [راجع: 94]
(263) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اگر میں ناپاک ہو جاؤں تو کیا کروں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ شرمگاہ کو دھو کر نماز والا وضو کر کے سو جاؤ۔


(264) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ قَزَعَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ: يُعَذِّبُ اللهُ هَذَا الْمَيِّتَ بِبُكَاءِ هَذَا الْحَيِّ؟ فَقَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا كَذَبْتُ عَلَى عُمَرَ، وَلا كَذَبَ عُمَرُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. [راجع: 180]
(264) قزعہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ میت کو اہل محلہ کے رونے دھونے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کریں گے؟ فرمایا کہ یہ بات مجھ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کی ہے، نہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اس کی جھوٹی نسبت کی ہے اور نہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
(265) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عُبَيْدِ اللهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ الْقَرْثَعِ، عَنِ قَيْسٍ أَوِ ابْنِ قَيْسٍ - رَجُلٍ مِنْ جُعْفِيٍّ - عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ وَأَبُو بَكْرٍ، عَلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَهُوَ يَقْرَأُ، فَقَامَ فَتَسَمَّعَ قِرَاءَتَهُ، ثُمَّ رَكَعَ عَبْدُ اللهِ، وَسَجَدَ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سَلْ تُعْطَهْ، سَلْ تُعْطَهْ "، قَالَ: ثُمَّ مَضَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: " مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ غَضًّا كَمَا أُنْزِلَ، فَلْيَقْرَأْهُ مِنَ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ ". قَالَ: فَأَدْلَجْتُ إِلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ لِأُبَشِّرَهُ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَلَمَّا ضَرَبْتُ الْبَابَ - أَوْ قَالَ: لَمَّا سَمِعَ صَوْتِي - قَالَ: مَا جَاءَ بِكَ هَذِهِ السَّاعَةَ؟ قُلْتُ: جِئْتُ لِأُبَشِّرَكَ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: قَدْ سَبَقَكَ أَبُو بَكْرٍ. قُلْتُ: إِنْ يَفْعَلْ فَإِنَّهُ سَبَّاقٌ بِالْخَيْرَاتِ، مَا اسْتَبَقْنَا خَيْرًا قَطُّ إِلَّا سَبَقَنَا إِلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ. [راجع: 175]
(265) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا گذر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس سے ہوا، میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا، ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس وقت قرآن پڑھ رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قرأت سننے کے لئے کھڑے ہوگئے۔
پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رکوع سجدہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مانگو تمہیں دیا جائے گا، پھر واپس جاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو شخص قرآن کریم کو اسی طرح تروتازہ پڑھنا چاہے جیسے وہ نازل ہوا ہے، اسے چاہیے کہ وہ ابن ام عبد کی قرأت پر اسے پڑھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ رات ہی کو میں انہیں یہ خوشخبری ضرور سناؤں گا، چنانچہ جب میں نے ان کا دروازہ بجایا تو انہوں نے فرمایا کہ رات کے اس وقت میں خیر تو ہے؟ میں نے کہا کہ میں آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خوشخبری سنانے کے لئے آیا ہوں ، انہوں نے فرمایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ پر سبقت لے گئے ہیں، میں نے کہا اگر انہوں نے ایسا کیا ہے تو وہ نیکیوں میں بہت زیادہ آگے بڑھنے والے ہیں، میں نے جس معاملے میں بھی ان سے مسابقت کی کوشش کی، وہ ہر اس معاملے میں مجھ سے سبقت لے گئے۔


(266) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ، قَالَ: لَمَّا أَقْبَلَ أَهْلُ الْيَمَنِ جَعَلَ عُمَرُ يَسْتَقْرِي الرِّفَاقَ، فَيَقُولُ: هَلْ فِيكُمْ أَحَدٌ مِنْ قَرَنٍ؟ حَتَّى أَتَى عَلَى قَرَنٍ، فَقَالَ: مَنْ أَنْتُمْ؟ قَالُوا: قَرَنٌ، فَوَقَعَ زِمَامُ عُمَرَ، أَوْ زِمَامُ أُوَيْسٍ، فَنَاوَلَهُ - أَوْ نَاوَلَ - أَحَدُهُمَا الْآخَرَ، فَعَرَفَهُ، فَقَالَ عُمَرُ: مَا اسْمُكَ؟ قَالَ: أَنَا أُوَيْسٌ. فَقَالَ: هَلْ لَكَ وَالِدَةٌ؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: فَهَلْ كَانَ بِكَ مِنَ الْبَيَاضِ شَيْءٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَدَعَوْتُ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ، فَأَذْهَبَهُ عَنِّي إِلَّا مَوْضِعَ الدِّرْهَمِ مِنْ سُرَّتِي لِأَذْكُرَ بِهِ رَبِّي، قَالَ لَهُ عُمَرُ: اسْتَغْفِرْ لِي. قَالَ: أَنْتَ أَحَقُّ أَنْ تَسْتَغْفِرَ لِي، أَنْتَ صَاحِبُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقَالَ عُمَرُ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ خَيْرَ التَّابِعِينَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: أُوَيْسٌ، وَلَهُ وَالِدَةٌ، وَكَانَ بِهِ بَيَاضٌ فَدَعَا اللهَ عَزَّ وَجَلَّ فَأَذْهَبَهُ عَنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ الدِّرْهَمِ فِي سُرَّتِهِ ". فَاسْتَغْفَرَ لَهُ، ثُمَّ دَخَلَ فِي غِمَارِ النَّاسِ، فَلَمْ يُدْرَ أَيْنَ وَقَعَ، قَالَ: فَقَدِمَ الْكُوفَةَ، قَالَ: وَكُنَّا نَجْتَمِعُ فِي حَلْقَةٍ، فَنَذْكُرُ اللهَ، وَكَانَ يَجْلِسُ مَعَنَا، فَكَانَ إِذَا ذَكَرَ هُوَ وَقَعَ حَدِيثُهُ مِنْ قُلُوبِنَا مَوْقِعًا لَا يَقَعُ حَدِيثُ غَيْرِهِ ... فَذَكَرَ الْحَدِيثَ. [صححه مسلم (2542]
(266) اسیر بن جابر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اہل یمن کا وفد آیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی اونٹنی کی رسی تلاش کرتے جاتے تھے اور پوچھتے جاتے تھے کہ کیا تم میں سے کوئی "قرن" سے بھی آیا ہے، یہاں تک کہ وہ پوچھتے پوچھتے "قرن" کے لوگوں کے پاس آپہنچے اور ان سے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو؟ انہوں نے بتایا کہ ہمارا تعلق "قرن" سے ہے، اتنے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی یا حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ سے جانوروں کی لگام چھوٹ کر گر پڑی، ان میں سے ایک نے دوسرے کو اٹھا کر وہ لگام دی تو ایک دوسرے کو پہچان لیا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ آپ کا اسم گرامی کیا ہے؟ عرض کیا اویس! فرمایا کیا آپ کی کوئی والدہ بھی تھیں؟ عرض کیا جی ہاں ! فرمایا کیا آپ کے جسم پر چیچک کا بھی کوئی نشان ہے؟ عرض کیا جی ہاں! لیکن میں نے اللہ سے دعا کی تو اللہ نے اسے ختم کردیا، اب وہ نشان میری ناف کے پاس صرف ایک درہم کے برابر رہ گیا ہے تاکہ اسے دیکھ کر مجھے اپنے رب کی یاد آتی رہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ اللہ سے میرے لئے بخشش کی دعا کیجئے، انہوں نے عرض کیا کہ آپ صحابی رسول ہیں، آپ میرے حق میں بخشش کی دعا کیجئے، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خیرالتابعین اویس نامی ایک آدمی ہوگا، جس کی والدہ بھی ہوگی اور اس کے جسم پر چیچک کے نشانات ہوں گے، پھر جب وہ اللہ سے دعاء کرے گا تو ناف کے پاس ایک درہم کے برابر جگہ کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ اس بیماری کو اس سے دور فرما دیں گے، حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے لئے بخشش کی دعا کی اور لوگوں کے ہجوم میں گھس کر غائب ہو گئے، کسی کو پتہ نہ چل سکا کہ وہ کہاں چلے گئے۔
بعد میں وہ کوفہ آگئے تھے، راوی کہتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ ایک حلقہ بنا کر ذکر کیا کرتے تھے، یہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھتے تھے، جب یہ ذکر کرتے تھے تو ان کی بات ہمارے دلوں پر اتنا اثر کرتی تھی کہ کسی دوسرے کی بات اتنا اثر نہیں کرتی تھی۔


(267) حَدَّثَنَا [عَبْدُ اللهِ , حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ] عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِيالشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عُبَيْدِ اللهِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، [عَنِ عَلْقَمَةَ] ، عَنِ الْقَرْثَعِ، عَنْ قَيْسٍ، أَوِ ابْنِ قَيْسٍ - رَجُلٍ مِنْ جُعْفِيٍّ - عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ عَفَّانَ. [راجع: 175]
(267) گذشتہ حدیث ایک دوسری سند سے بھی روایت کی گئی ہے جو عبارت میں موجود ہے ۔


(268) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ لَمَّا عَوَّلَتْ عَلَيْهِ حَفْصَةُ، فَقَالَ: يَا حَفْصَةُ، أَمَا سَمِعْتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الْمُعَوَّلُ عَلَيْهِ يُعَذَّبُ ". قَالَ: وَعَوَّلَ صُهَيْبٌ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا صُهَيْبُ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْمُعَوَّلَ عَلَيْهِ يُعَذَّبُ. [صححه مسلم (127) وابن حبان (3132)]
(268) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا آخری وقت قریب آیا تو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رونے اور چیخنے لگیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا حفصہ! کیا تم نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ جس پر چیخ کر رویا جاتا ہے، اسے عذاب ہوتا ہے؟ اس کے بعد حضرت صہیب رضی اللہ عنہ پر بھی ایسی ہی کیفیت طاری ہوئی تو ان سے بھی یہی فرمایا۔


(269) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ الرِّشْكُ، عَنْ مُعَاذَةَ، عَنْ أُمِّ عَمْرٍو ابْنَةِ عَبْدِ اللهِ، أَنَّهَا سَمِعَتْ عَبْدَ اللهِ بْنَ الزُّبَيْرِ يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَخْطُبُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ لَبِسَ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا، فَلا يُكْسَاهُ فِي الْآخِرَةِ ". [راجع: 123]
(269) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص دنیا میں ریشم پہنے گا، آخرت میں اسے نہیں پہنایا جائے گا۔


(270) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَالِيَةِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: حَدَّثَنِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ فِيهِمْ عُمَرُ - وَقَالَ عَفَّانُ مَرَّةً: شَهِدَ عِنْدِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ وَأَرْضَاهُمْ عِنْدِي عُمَرُ - أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا صَلاةَ بَعْدَ صَلاتَيْنِ: بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ ". [راجع: 110]
(270) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مجھے ایسے لوگوں نے اس بات کی شہادت دی ہے جن کی بات قابل اعتماد ہوتی ہے، ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں جو میری نظروں میں ان سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے دو نمازوں کے بعد کوئی نماز نہیں ہے، فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے اور عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے۔


(271) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، بِمِثْلِ هَذَا: شَهِدَ عِنْدِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ. [راجع: 110]
یہی روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری سند سے بھی نقل کی گئی ہے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
(272) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ: أَنَّ الْيَهُودَ قَالُوا لِعُمَرَ: إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ آيَةً لَوْ أُنْزِلَتْ فِينَا لاتَّخَذْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ عِيدًا، فَقَالَ: إِنِّي لَأَعْلَمُ حَيْثُ أُنْزِلَتْ، وَأَيَّ يَوْمٍ أُنْزِلَتْ، وَأَيْنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُنْزِلَتْ؛ أُنْزِلَتْ يَوْمَ عَرَفَةَ وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ - قَالَ سُفْيَانُ: وَأَشُكُّ يَوْمَ جُمُعَةٍ أَوْ لَا - يَعْنِي: {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا} [المائدة: 3]. [راجع: 188]
(272) طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ ایک یہودی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور کہنے لگا امیرالمومنین! آپ لوگ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں جو اگر ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے جس دن وہ نازل ہوئی، (حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے پوچھا وہ کون سی آیت ہے؟ اس نے آیت تکمیل دین کا حوالہ دیا،) اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بخدا! مجھے علم ہے کہ یہ آیت کس دن اور کس وقت نازل ہوئی تھی، یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جمعہ کے دن عرفہ کی شام نازل ہوئی تھی۔


(273) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْبَطْحَاءِ، فَقَالَ: " بِمَ أَهْلَلْتَ؟ " قُلْتُ: بِإِهْلالٍ كَإِهْلالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " هَلْ سُقْتَ مِنْ هَدْيٍ؟ " قُلْتُ: لَا. قَالَ: " طُفْ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ حِلَّ ". فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ أَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ قَوْمِي فَمَشَّطَتْنِي، وَغَسَلَتْ رَأْسِي، فَكُنْتُ أُفْتِي النَّاسَ بِذَلِكَ بِإِمَارَةِ أَبِي بَكْرٍ، وَإِمَارَةِ عُمَرَ، فَإِنِّي لَقَائِمٌ فِي الْمَوْسِمِ إِذْ جَاءَنِي رَجُلٌ فَقَالَ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي شَأْنِ النُّسُكِ، فَقُلْتُ: أَيُّهَا النَّاسُ، مَنْ كُنَّا أَفْتَيْنَاهُ فُتْيَا فَهَذَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ قَادِمٌ عَلَيْكُمْ، فَبِهِ فَاْئتَمُّوا، فَلَمَّا قَدِمَ قُلْتُ: مَا هَذَا الَّذِي قَدْ أَحْدَثْتَ فِي شَأْنِ النُّسُكِ؟ قَالَ: إِنْ نَأْخُذْ بِكِتَابِ اللهِ، فَإِنَّ اللهَ قَالَ: {وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ} [البقرة: 196] ، وَإِنْ نَأْخُذْ بِسُنَّةِ نَبِيِّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى نَحَرَ الْهَدْيَ. [صححه البخاري (1559) ومسلم (1221)]
(273) حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں جب یمن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم "بطحاء" میں تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے احرام کی حالت میں دیکھ کر پوچھا کہ کس نیت سے احرام باندھا؟ میں نے عرض کیا یہ نیت کر کے کہ جس نیت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا ہو، میرا بھی وہی احرام ہے، پھر پوچھا کہ قربانی کا جانور ساتھ لائے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں! فرمایا کہ پھر خانہ کعبہ کا طواف کرکے صفا مروہ کے درمیان سعی کرو اور حلال ہو جاؤ۔
چنانچہ میں نے بیت اللہ کا طواف کیا، صفا مروہ کے درمیان سعی کی، پھر اپنی قوم کی ایک عورت کے پاس آیا، اس نے میرے سر کے بالوں میں کنگھی کی اور میرا سرپانی سے دھویا، بعد میں لوگوں کو بھی حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کے دور خلافت میں یہی مسئلہ بتاتا رہا، ایک دن ایام حج میں، میں کسی جگہ کھڑا ہوا تھا کہ ایک آدمی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ نہیں جانتے، امیرالمومنین نے حج کے معاملات میں کیا نئے احکام جاری کئے ہیں؟ اس پر میں نے کہا لوگو! ہم نے جسے بھی کوئی فتویٰ دیا ہو، وہ سن لے، یہ امیرالمومنین موجود ہیں، ان ہی کی اقتداء کرو، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میں نے ان سے پوچھا کہ مناسک حج میں آپ نے یہ کیا نیا حکم جاری کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ اگر ہم قرآن کریم کو لیتے ہیں تو وہ ہمیں اتمام حج وعمرہ کا حکم دیتا ہے اور اگر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو لیتے ہیں تو نبی صلی للہ علیہ وسلم قربانی کا جانور ذبح کرنے سے پہلے حلال نہیں ہوئے۔
فائدہ : دراصل حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ دونوں کو جمع کرنے کی ممانعت کی تھی، یہاں اسی کا ذکر ہے۔


(274) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ، وَيَقُولُ: إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلا تَنْفَعُ، وَلَكِنِّي رَأَيْتُ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَ حَفِيًّا. [صححه مسلم (1271)] [انظر: 382]
(274) سوید بن غفلہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں میں جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ہے جو کسی کو نفع نقصان نہیں پہنچا سکتا لیکن میں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھ پر مہربان دیکھا ہے۔


(275) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ. وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ - قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: سَمِعْتُ عُمَرَ -: إِنَّ الْمُشْرِكِينَ كَانُوا لَا يُفِيضُونَ مِنْ جَمْعٍ حَتَّى تُشْرِقَ الشَّمْسُ عَلَى ثَبِيرٍ - قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: وَكَانُوا يَقُولُونَ: أَشْرِقْ ثَبِيرُ كَيْمَا نُغِيرُ - يَعْنِي: فَخَالَفَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَفَعَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ. [راجع: 84]
(275) عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مشرکین طلوع آفتاب سے پہلے مزدلفہ سے واپس نہیں جاتے تھے، نبی صلی اللہ عیہ وسلم نے ان کا طریقہ اختیار نہیں کیا، اور مزدلفہ سے منی کی طرف طلوع آفتاب سے قبل ہی روانہ ہوگئے۔


(276) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: إِنَّ اللهَ تَعَالَى بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ، فَكَانَ فِيمَا أَنْزَلَ عَلَيْهِ آيَةُ الرَّجْمِ، فَقَرَأْنَا بِهَا، وَعَقَلْنَاهَا، وَوَعَيْنَاهَا، فَأَخْشَى أَنْ يَطُولَ بِالنَّاسِ عَهْدٌ، فَيَقُولُوا: إِنَّا لَا نَجِدُ آيَةَ الرَّجْمِ، فَتُتْرَكَ فَرِيضَةٌ أَنْزَلَهَا اللهُ، وَإِنَّ الرَّجْمَ فِي كِتَابِ اللهِ تَعَالَى حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى إِذَا أَحْصَنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ إِذَا قَامَتِ الْبَيِّنَةُ، أَوْ كَانَ الْحَبَلُ، أَوِ الِاعْتِرَافُ. [قال شعيب: إسناده صحيح] [انظر: 391]
(276) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا: ان پر کتاب نازل فرمائی، اس میں رجم کی آیت بھی تھی جسے ہم نے پڑھا، اور یاد کیا تھا ، مجھے اندیشہ ہے کہ کچھ عرصہ گذرنے کے بعد لوگ یہ نہ کہنے لگیں کہ ہمیں تو رجم سے متعلق کوئی آیت نہیں ملتی اور یوں ایک فریضہ "جو اللہ نے نازل کیا ہے" چھوٹ جائے، یاد رکھو! کتاب اللہ سے رجم کا ثبوت برحق ہے اس شخص کے لئے جو شادی شدہ ہو "خواہ مرد ہو یا عورت" جبکہ گواہ موجود ہوں، یا عورت حاملہ ہوگئی ہو یا وہ اعتراف جرم کر لے۔
 
Top