- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,395
- پوائنٹ
- 891
مسٹر غلام احمدپرويز كے كفریہ عقائد
مولانا محمد رمضان سلفى
بشکریہ: صراط الہدیٰ فورم
اصل ماخذ: ماہنامہ محدث ۔۔ فتنہ انکار حدیث نمبر
ابن بطہ عقيدہ توحيد پر اُمت كا اجماع نقل كرتے ہوئے فرماتے ہیں:”حجاز، عراق، مصر، شام اور يمن كے تمام علما كا یہى عقيدہ تھا کہ اللہ تعالىٰ عرش پر مستوى ہے اور اپنى تمام مخلوقات سے جدا اور الگ تھلگ ہے- جيسا کہ خود اللہ تعالىٰ نے اپنى ايسى ہى صفات بيان فرمائى ہیں، جن كى كيفيت كو وہى جانتا ہے اور اس كا علم ہر چيز كو شامل ہے-“
حافظ ابو نعيم، اللہ تعالىٰ كے بارے ميں امت ِمسلمہ كا عقيدہ يوں بيان فرماتے ہیں :”تمام صحابہ اور تابعين اور اہل اسلام كا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالىٰ كى ذات ساتوں آسمانوں كے اوپر عرش پر ہے اور وہ اپنى سارى مخلوق سے جدا ہے-“
امام ابن خزيمہ اللہ تعالىٰ كے بارے ميں اہل سنت كے مذكورہ عقيدے سے انكار اور اس سے انحراف كرنے والے شخص كے مرتد اور ا س كے واجب القتل ہونے كى صراحت كرتے ہوئے فرماتے ہیں:” ہمارا طريقہ وہى ہے جو سلف صالحين كا تھا اور وہ سب كتاب و سنت اور اِجماعِ امت كے پابند تھے- ان سب كا یہ عقيدہ تھاکہ جن نصوص و آيات ميں اللہ تعالىٰ كے عرش پر مستوى ہونے كا ذكر آتا ہے، انہیں بلاكيف اور بلاتمثيل تسليم كيا جائے اور اس بات پر بھی ايمان ہو کہ اللہ تعالىٰ كى ذات اپنى تمام مخلوق سے جدا ہے اور مخلوقات اس سے الگ تہلگ ہے- یہ نہیں کہ وہ اپنى مخلوق كے اندر حلول كئے ہوئے ہو اور نہ ہى وہ اپنى مخلوق سے متصل ہے بلکہ وہ اپنے عرش پر مستوى ہے اور اس كا عرش آسمان كے اوپر ہے ، زمين پر نہیں-“ (كتاب العلو، ص١٤٨)
یہ ہے وہ عقيدہ جس پر تمام مسلمانوں كا اتفاق ہے اور ذات ِبارى تعالىٰ پر ايمان ہى دراصل دين اسلام كى بنياد ہے، جس سے انكار كرنے يا اس عقيدہٴ توحيدكى تحريف كر دينے كے بعد كوئى شخص مسلمان نہیں رہ سكتا-” جو شخص اس بات كا اقرار نہیں كرتا کہ اللہ تعالىٰ عرش پر مستوى ہے اور اس كا عرش سات آسمانوں كے اوپر ہے ،وہ كافر ہے- اسے کہا جائے کہ وہ اپنے بدعقيدہ سے توبہ كرے، اور اگر وہ اس سے توبہ كرنے كے لئے تيار نہ ہو تو اس كى گردن اڑا دى جائے-“
ديکھئے مسٹر پرويز نے خدا پر ايمان كو معاشرہ پر ايمان لانے سے تعبير كرديا، اور اِس معاشرہ پر ہى صفات ِخداوندى كو چسپاں كرديا ہے، حالانکہ اللہ تعالىٰ كى صفات كامل اور بلاكيف مانى جاتى ہیں جبکہ معاشرہ اور مخلوق كى صفات ناقص ہیں اور ان كى كيفيت بھی ہمارے لئے منكشف ہے-”ميں نے تمہیں اپنے سابقہ خط ميں بتايا تھا کہ خدا پر ايمان كے معنى یہ ہیں کہ جو معاشرہ اس كے قوانين كے مطابق قائم ہو، اسے صفات ِخداوندى كا مظہر ہونا چاہئے- “ (سليم كے نام: ١ /٢٢٥)
(سليم كے نام: از پرويز، ج١ ص٢٩٩)”انسانوں كے خود ساختہ مذہب كے پيدا كردہ خدا پر ايمان لانے اور اس كے دعاوىٰ پر توكل رکہنے سے وہ يقين كسى طرح پيدا نہیں ہوسكتا جو انسان كو احتياج كى فكر سے بے خوف كردے- یہى وہ خدا تھا جس كے متعلق ماركس نے کہہ ديا تھا کہ اس كا تصور سرمایہ داروں كى مصلحت كوشيوں كا پيدا كردہ ہے، ليكن ’خدا‘ كے تصور كا ايك مفہوم وہ ہے جسے (بزعم پرويز) خود خدا نے متعين كيا ہے اور جو قرآن كے حروف و نقوش ميں جگمگ جگمگ كرتا دکہائى ديتا ہے- اس تصور كى رو سے ان مقامات پر خدا سے عملاً مفہوم، وہ نظام ہے جو ا س كے قوانين كو نافذ كرنے كے لئے متشكل ہوتا ہے اور اس طرح وہ تمام ذمہ دارياں اپنے سر پر لے ليتا ہے، جنہیں خدا نے اپنى طرف منسوب كيا ہے-“
بزمِ پرويز ميں اگر كوئى شخص عقل سے كام لينے والا موجود ہو تو وہ ان حضرات سے پوچھے کہ جب قرآنِ كريم كے ديگر مقامات ميں اللہ تعالىٰ كے قوانين اور ان كى پيروى كى اہميت واضح الفاظ ميں ذكر كردى گئى ہے تو ’اللہ‘ كے اسم گرامى كو قانون كے معنى ميں لينے كى ضرورت كيا ہے؟ كيا اللہ اور قانون دونوں مترادف ہیں؟ اور اس كے باوجود اگر آپ لوگ ’اللہ‘ كو قوانين كے معنى ليتے ہیں تو یہ صرف اس لئے ہے کہ مسلمانوں كے ہاں اللہ تعالىٰ پر ايمان كے عقيدے كو مسخ كر ديا جائے اور اہل اسلام كے دلوں سے عظمت ِخدا كے تصور كو ختم كرديا جائے اور مركزى حكومت كے قوانين كو خدا كے قوانين كا نام دے كر ان كى اہميت كو دلوں ميں راسخ كر ديا جائے-”سليم اگر تم ايك اہم نكتہ كو سمجھ لو تو قرآن فہمى ميں تمہارى بہت سى مشكلات كا حل خود بخود نكل آئے گا يعنى ان مقامات ميں جہاں قرآن كريم ميں لفظ ’اللہ‘ استعمال ہوا ہے، ’اللہ كى جگہ اگر تم ’اللہ كا قانون‘ کہہ ليا كرو تو بات بالكل واضح ہوجائے گى-“ (سليم كے نام: ج١ /ص١٧٣)
ديکھئے مسٹر پرويز كائنات سے الگ عرش پر مستوى ذات ِبارى تعالىٰ كو ماننے كے لئے تيار نہیں ہے، بلکہ وہ ايسے خدا كى تلاش ميں سرگرداں ہے جو كسى تنظيم كى شكل ميں كائنات كے اندر ہى موجود ہو-”خدا كے متعلق عام تصور یہى ہے کہ وہ كائنات سے باہر، انسانى دنيا سے الگ اپنے عرشِ حكومت پر بيٹھا ہے- ہمارا فريضہ یہ ہے کہ ہم اس كے اَحكام بجا لاتے رہیں، اس سے وہ خوش ہوجاتا ہے، اگر ايسا نہ كيا جائے تو و ہ ناراض ہو كر انسانوں كو جہنم ميں ڈال ديتا ہے، یہ تصور غير قانونى ہے-“
اس سے ذرا آگے چل كر وہ لکھتے ہیں :”جس قسم كى محبت انسانى محبوب سے كى جاتى ہے، اس قسم كى محبت خدا سے كى ہى نہیں جاسكتى، تم كسى اَن ديکھى چيز سے محبت كر ہى نہیں سكتے-“
مسٹر پرويز كا یہ دعوىٰ آيت ﴿وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہ﴾(البقرہ:١٦٥) اور اس جيسى ديگر متعدد آيات كے خلاف ہے- معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنا خدا مخلوقات كے اندر ہى تلاش كرنے كى كوشش ميں تھے جو محسوس اور مرئى يعنى دنيا ميں ہى نظر آنے والا ہو، لہذا وہ اپنى اس كوشش ميں كامياب ہوگئے اور اس نے محسوس اور دنيا ميں ہى نظر آنے والا خدا تلاش كر ليا جس كى بشارت وہ اپنے حواريوں كو ديتے ہوئے ’نظامِ ربوبيت‘ ميں صفحہ١٥٨پرلکہتے ہیں:”محسوسات كا خوگر انسان كسى غير مرئى وغير محسوس حقيقت سے محبت نہیں كرسكتا-“ (سليم كے نام: ج٣/ ص٨٩)
قانونِ خداوندى كا لفظ بھی پرويز صاحب كا تكیہ كلام ہے جسے وہ بكثرت اپنى كتابوں ميں ذكر كرتے ہیں، ورنہ قارئين پر یہ بات مخفى نہیں کہ وہ قانونِ فرنگى كو قانونِ خداوندى كا نام ديتے ہیں، اور مستشرقين وملحدين كے آراء و افكار كو قرآنى آيات كے لبادے ميں پيش كرتے ہیں، اوراس ہيرا پھيرى ميں وہ مہارتِ تامہ رکھتے ہیں-ان كى اس چابك دستى كا ہم فراخدلى سے اعتراف كرتے ہیں- دوسرے مقام ميں وہ اسلامى حكومت كے منشور كو ’ميثاقِ خداوندى‘ كا نام ديتے ہوئے اور اپنے حواريوں كو محسوس اور مرئى خدا كا مشاہدہ كرواتے ہوئے رقم طراز ہیں: (سلسبيل ،ص١٢٢)”ہم اس مقام پر ايك اہم نكتہ كى وضاحت ضرورى سمجھتے ہیں، جسے آگے بڑھنے سے پہلے سمجھ لينا ضرورى ہے-
ہم نے ﴿اِنَّ اللہ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُوٴمِنِيْنَ…﴾ كى آيت ميں بھی اور مذكورہ صدر آيت ميں بھی ’اللہ‘ سے مراد ليا ہے ”وہ معاشرہ جو قانونِ خداوندى كو نافذ كرنے كيلئے متشكل ہو-“
اس كے بعد انہوں نے ميثاقِ خداوندى كى تفصيل نقل كى ہے ليكن ان كے سابقہ اقتباس پر غور فرمائيں جس ميں انہوں نے اقتدارِ اعلىٰ كو ہى خدا قرار ديا ہے اور ارباب ِاقتدار كو عمالِ حكومت كا خدا بنا كر كفر كا ارتكاب كيا ہے اور اپنے اس كفر كو برملا لوگوں پر مسلط كرتے ہوئے کہتے ہیں:”چونکہ عمال حكومت ِاسلامیہ كا عہدنامہ ان كے اور حكومت كے اقتدارِ اعلىٰ (يعنى ان كے خدا) كے مابين ہوگا، اس لئے ہم نے اس كا عنوان ’ميثاقِ خداوندى‘ مناسب سمجھا ہے-“
”قرآن ميں جہاں ’اللہ اور رسول‘ كے الفاظ اكٹھے آتے ہیں، وہاں اس سے مراد كيا ہوتى ہے؟ … اس سے مراد ’اسلامى نظامِ حكومت‘ ہے جو خدا كے احكام نافذ كرنے كے لئے متشكل ہوتا ہے-“ (قرآنى فيصلے، ج١ ص٢٣٧)
”یہ بات کہ قرآنِ كريم ميں جہاں اس ضمن ميں ’اللہ اور رسول‘كے الفاظ آئے ہیں، اس سے مراد ’اسلامى نظام‘ ہے، ہمارى اختراع نہیں؛ یہ خيال متقدمين كا بھی تھا، اور خود ہمارے زمانے كے مفسرين كا بھی ہے، مثلاً قرآنِ كريم كى آيت ہے ﴿يَسْاَلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰہ وَالرَّسُوْلِ…﴾ اے رسول تم سے پوچھتے ہیں اَنفال (مال غنيمت )كے متعلق، کہہ دو کہ اَنفال اللہ اور رسول كے لئے ہے-“
اس كے بعد مسٹر پرويز حق كا خون كرتے ہوئے کہتے ہیں:” انفال كے معنى كے متعلق ان تمام اقوال ميں سے قرين صواب ان لوگوں كا قول ہے جنہوں نے کہا ہے کہ یہ وہ اضافے ہیں جو امامِ وقت بعض يا كل فوج كے لئے كرتا ہے-“
مستشرقين كے اس ہندى شاگرد نے يہاں ابن جرير طبرى كے سر وہ جھوٹ تھوپنے كى كوشش كى ہے جس كا ان كے ذہن ميں پو رى زندگى تصور بھی نہیں آيا اور نہ ہى انہوں نے اللہ و رسول كے مقدس الفاظ كو امامِ وقت كے لئے استعمال كيا ہے، بلکہ وہ مذكورہ عبارت ميں لفظ اَنْفَال كا معنى اور اس كى تفسير و تشريح بيان كر رہے ہیں اور ان كے یہ الفاظ وأولى ہذہ الاقول بالصواب فى معنى الأنفال اس پر دليل كے لئے كافى ہیں اور اَنفال كے بارہ ميں وہ راجح قول یہ ذكر كر رہے ہیں کہ اس سے مراد ”وہ اضافى مال ہے جو امامِ لشكر مجاہدين ميں سے بعض يا سب كو ان كى كاركردگى كے پيش نظر ديتا ہے“… ليكن ان صاحب نے اَنفال كى تشريح ميں آنے والے لفظ ’امام‘ كو ’اللہ و رسول‘ كى تفسير بنا ديا اور اِسے ابن جرير طبرى كے سر منڈہ ديا ہے، حالانکہ مفسر طبرى اپنى مذكورہ عبارت ميں ’اللہ و رسول‘ كى تفسير نقل نہیں كر رہے ، بلکہ وہ تو صرف اَنفال كى وضاحت كرنا چاہتے ہیں، اس لئے ان كے كلام كى ابتدا ميں یہ لفظ آئے ہیں ”قال أبوجعفر: اختلف اہل التاويل في معنى الأنفال“ (ديکھئے تفسير طبرى: ج٦/ ص١٦٨)”يہاں انفال كے معنى سے بحث نہیں، مدعا صرف یہ ہے کہ ’اللہ و رسول‘ كى تفسير انہوں نے امامِ وقت لکھى ہے-“ (قرآنى فيصلے از پرويز، ج٢/ ص٢٢٢)
(قرآنى فيصلے، ج٢ ص٢٢٣)”امام رازى نے آيت ٣٣/٥ ﴿اِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللہ وَرَسُوْلَہ﴾ كے تحت امام ابوحنيفہ كا یہ قول نقل كيا ہے:﴿ اِذا قَتَل واَخَذَ المالَ فالإمام مُخَيَّرٌ فیہ بين ثلاثةِ اشياءَ﴾ امام ابوحنيفہ نے فرمايا کہ ”اگر باغى يا ڈاكو نے قتل بھی كيا ہے اور مال بھی ليا ہے تو ’امام‘ كو اختيار ہے کہ تينوں سزاؤں (قتل، قطع اور صليب) ميں سے جو سزا چاہے، اس كو دے- “
تفسير رازى ميں اللہ تعالىٰ سے متعلق اس وضاحت كے ہوتے ہوئے بھی مسٹر پرويز كا یہ دعوىٰ كر دينا کہ امام رازى كے نزديك ’اللہ‘ سے مراد امامِ وقت يا وقت كى گورنمنٹ ہے، بہت بڑى جہالت اور حماقت كى بات ہے اور وہ اپنے كفريات كو لوگوں ميں رائج كرنے كے لئے علماءِ اسلام كو استعمال كرنا چاہتے ہیں جبکہ امام رازى كا مسلك تو یہ ہے کہ كلمہ اسلام (جو كفر سے اسلام ميں داخل ہونے كے لئے پڑہا جاتا ہے) ميں لفظ ’اللہ‘ كى جگہ اگر بارى تعالىٰ كا ہى كوئى دوسرا نام استعمال كيا جائے تو یہ جائز نہیں ہے، اور نہ ہى اس طرح كوئى شخص دائرئہ اسلام ميں داخل ہوسكتا ہے، مثال كے طور پر اگر كوئى غير مسلم ”لاإلہ إلا اللہ“ كى بجائے ”لا إلٰہ إلا الرحمٰن“ کہے تو امام رازى كے نزديك ايسا شخص مسلمان نہیں ہوگا- ان كے الفاظ ملاحظہ ہوں:”اللہ تعالىٰ كى سارى مخلوق اس بات پر متفق ہے کہ لفظ اللہ ذات ِبارى تعالىٰ كے ساتھ خاص ہے، ايسے ہى لفظ ’الٰہ‘ اللہ تعالىٰ كے ساتھ مخصوص ہے-“
ديکھئے، امام رازى كلمہ توحيد ميں لفظ اللہ كى جگہ اسماء ِالٰہى سے ہى كوئى دوسرا اسم گرامى استعمال كرنے كى بھی اجازت نہیں ديتے، اور مسٹر پرويز ان سے لفظ ’اللہ‘ كو امامِ وقت يا حكومت وقت پر استعمال كرنے كے جواز كو ثابت كرنے پر تلے ہوئے ہیں، اور اس طرح وہ اپنى ضلالت كى تائيد ميں امام رازى كو سہارا بنانا چاہتے ہیں-”يعنى كلمہ توحيد جسے پڑھ كر كافر اسلام ميں داخل ہوتا ہے، وہ كلمہ ”لا إلہ الا اللہ “ ہے- اگر كوئى شخص لفظ ’اللہ‘ كى جگہ كوئى دوسرا نام ذكر كرے، اور لا الہ إلا الرحمٰن يا لا إلہ إلا الرحيم وغيرہ پڑہے تو وہ كفر سے نہیں نكلے گا اور نہ ہى دائرہ اسلام ميں داخل ہوگا-كفر سے نكل كر وہ مسلمان تب ہى کہلائے گا جب ”لا إلہ إلا اللّہ“ پڑہے اور یہ لفظ ’اللہ‘ كے ذاتِ بارى تعالىٰ كے ساتھ مخصوص ہونے كى دليل ہے-“ (التفسير الكبير از امام رازى: ج١ ص١٦٤)
آخر ميں مسٹر پرويز ان مفسرين سے نقل كردہ كلام كا نتيجہ ذكر كرتے ہیں کہ”اسى آيت كى تفسير ميں علامہ جلال الدين سيوطى الدرّالمنثورميں یہ روايت درج كرتے ہیں: ”عن سعيد بن المسيب والحسن والضحاك في الاٰية قالوا: الإمام مخيّر في المحارب يصنع بہ ما شاء“ سعيد بن مسيب، حسن بصرى اور ضحاك علیہم الرحمہ نے کہا ہے کہ ’محارب‘ كے معاملہ ميں امام كو اختيار ہے کہ جو چاہے كرے- “ (قرآنى فيصلے: ج٢ /ص٢٢٣)
حالانکہ حقيقت یہ ہے کہ امام سيوطى كے نزديك آيت ﴿اِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللہ وَرَسُوْلَہ﴾ ميں اللہ و رسول سے مراد امامِ وقت نہیں ہے، بلکہ ان كے نزديك ’اللہ‘ سے وحى نازل كرنے والى ذات اور رسول سے وحى قبول كرنے والى شخصيت ہى مراد ہے- اور ان كى مذكورہ عبارت ميں’امام‘ سے مراد اميرالمومنين ہے، جسے اللہ تعالىٰ اور رسول اللہ كے خلاف بغاوت اختيار كرنے والے مجرم كو آيت ِبالا ميں ذكر ہونے والى سزاؤں ميں سے كوئى ايك سزا دينے كى اجازت ہے-”ان حضرات كے اَقوال سے دو باتيں ظاہر ہوگئيں، ايك یہ کہ ان كے نزديك ”اللہ اور رسول“ سے مراد امامِ وقت ہے اور دوسرے یہ کہ … “ (قرآنى فيصلے: ٢/٢٢٤)
حاصل كلام یہ ہوا کہ … بقول پرويز… امامِ وقت (اللہ و رسول) اپنے خلاف ہونے والى بغاوت كے مجرم كو خود ہى سزا دے سكتا ہے اور اپنے مقدمہ كا فيصلہ خود ہى كرسكتا ہے كيونکہ بزعم پرويز امامِ وقت سے مراد اللہ و رسول ہے اور اللہ و رسول ہى امامِ وقت ہے- گويا مدعى خود ہى قاضى بن كر اپنے كيس كا فيصلہ ثالث كى بجائے خود ہى كرسكتا ہے، بلکہ خود ہى مجرم كو سزا دينے كا اختيار بھی حاصل كر ليتا ہے- حالانکہ جس طرح قاضى اپنے ذاتى كيس كا فيصلہ خود نہیں كرسكتا، اسى طرح امامِ وقت سے بھی لازماً ’اللہ و رسول‘ مرادنہیں ہوسكتا-
اس سے ذرا آگے چل كر وہ مزيد کھل كر سامنے آتے ہیں”اس آيت ِمقدسہ كا مفہوم بالكل واضح ہے، اس ميں ’اللہ و رسول‘ سے مراد مركز ِملت يعنى نظامِ خداوندى (Central Authority) اور اولوالامر سے مفہوم افسرانِ ماتحت ہیں-“
(معراجِ انسانيت از پرويز: ص٣٢٢،٣٢٣)”قرآنِ كريم ميں مركز ِملت كو ’اللہ اور رسول‘ كے الفاظ سے تعبير كيا گيا ہے-“
(قرآنى قوانين، ص٦)”حكومت كے انتظامى امور كے لئے ايك مركز ہوگا اور اس مركز كے ماتحت افسرانِ مجاز، قرآنِ كريم ميں اس كے لئے ’خدا اور رسول‘ كى اصطلاح آئى ہے يعنى وہ نظامِ خداوندى جسے رسول اللہ نے متشكل فرمايا، خدا اور رسول كى اطاعت سے مقصو د اسى مركز ِحكومت ِخداوندى كى اطاعت تھى-“
مسٹر پرويز سارى زندگى بے عقلى كى باتيں كرتے رہے اور اپنى كتابوں ميں جابجا ايسى باتيں لکھ كر عقل كا منہ چڑاتے رہے، جبکہ ايك عقلمند انسان بشرطيکہ وہ مسلمان بھی ہو بخوبى جانتا ہے کہ اللہ اور رسول كے مقدس كلمات ايسى اصطلاحات نہیں ہیں جنہیں جس پر چاہیں منطبق كرديں، بلکہ لفظ ’اللہ‘ نام ہے اس ذات مقدس كا جو واجب ُالوجود ہے، عرش پر مستوى اوروحى نازل كرنے والا ہے اور رسول اللہ سے مراد وہ شخصيت ہے جو وحى كو قبول كرنے والى ہے- جديد مركزى حكومت كو ان دونوں ميں سے كسى كے ساتھ كوئى نسبت ہى نہیں ہے اور نہ ہى اس ميں اور اللہ و رسول ميں كوئى قدرِ مشترك ہے-”رسول اللہ كے بعد خليفتہ الرسول رسول ُاللہ كى جگہ لے ليتا ہے، اب خدا اور رسول كى اطاعت سے مراد اسى جديد مركز ِحكومت كى اطاعت ہوتى ہے-“ (معراجِ انسانيت: ص٣٥٧)
ليكن سوال یہ ہے کہ بزعم پرويز زمين پر چلنے والوں كا رِزق تو معاشرے كے ذمہ ہوگيا، مگر اس معاشرہ كا رزق كس كے ذمہ ہوگا؟ كيونکہ دوسروں كے رزق كى ذمہ دارى لينے والے معاشرے كے افراد بھی کھانے، پينے كے سامان سے مستغنى تو نہیں ہیں جنہیں رزق كى ضرورت نہ ہو-” ہم نے (اس آيت ميں) اللہ سے مراد ليا ہے وہ معاشرہ جو قانونِ خداوندى كو نافذ كرنے كے لئے متشكل ہو-“ (نظامِ ربوبيت از پرويز ص١٥٨)
اللہ تعالىٰ قائم بالذات، واجب ُالوجود ہے، ليكن اگر کہا جائے کہ وہ ايك قوت ہے، جيسے پرويزنے کہا ہے، تو اس طرح اللہ تعالىٰ كے قائم بالذات ہونے كى نفى ہوجاتى ہے كيونکہ قوت ايك عَرض ہے جو قائم بالغير ہوتى ہے، تو اللہ تعالىٰ كو ايك قوت بنانے والاذات ِبارى تعالىٰ كے وجود سے انكار كرنا چاہتا ہے، اور یہ نظریہ بھی مسٹر پرويز كا اپنا نہیں بلکہ اسے انہوں نے مستشرق ميتھو آرنلڈ سے چرايا ہے جو کہتا ہے :”قرآنى تعليم كى بنياد خدا كى وحدت پر ہے، يعنى اس حقيقت كے اعتراف پر کہ كائنات ميں صرف ايك قوت ہے جس كااقتدار واختيار ہے-“ (لغات القرآن: ج٤/ ص١٦٩٠)
اسلامى تعليمات كى بنياد ايمان باللہ پر ہے، اس لئے مسٹرپرويز نے نظریہ خدا كو لوگوں كے دلوں ميں سے مسخ كرنے كے لئے سرتوڑ كوشش كى، اور اس بارے ميں وہ مختلف تضادات كا شكار ہوئے ہیں، كبھی وہ خدا كو مركز حكومت بناتے ہیں اور كبھی اسے معاشرہ اور كبھی قوت کہتے ہیں- ليكن اول ُالذكر نظریہ اس كے نزديك راجح معلوم ہوتا ہے ، اس لئے اس پر اس نے دلائل پيش كرنے كى كوشش كى ہے-ان دلائل كا جائزہ ہم سابقہ صفحات ميں ذكر كر آئے ہیں جس سے یہ بات کھل كر سامنے آگئى ہے کہ مركز ِملت يا مركز ِحكومت كو خدا بنا كر مسٹرپرويز دائرہ اسلام سے خارج ہوچكے ہیں كيونکہ كوئى مسلمان كسى مركز يا معاشرے كو خدا بنانے كى جسارت نہیں كرسكتا-”خدا اس قوت كا نام ہے جو سب كى مسبّب ہے-“ (انسان نے كيا سوچا،ص٣٨٧)
یہى امام راغب ’الٰہ‘ كے مادہ كے تحت لفظ ’اللہ‘ كے بارہ ميں فرماتے ہیں:”مفردات امام راغب كے علاوہ، نظر سے كوئى ايسى كتاب نہیں گزرى جسے خالص قرآنى الفاظ كا لغت کہا جاسكے“ (لغات ُالقرآن، ج١ ص٢٠)
امام راغب كى طرح تمام اہل اسلام لفظ ’اللہ‘ كو اس ذات ِبارى تعالىٰ كاذاتى نام مانتے ہیں جو اپنى مخلوقات سے بلند عرش پر مستوى ہے، اور اس لفظ كو خالق كائنات سے مخصوص سمجھتے ہیں اور اس كا استعمال مخلوق ميں سے كسى فرد يا جماعت كے لئے حرام جانتے ہیں، ليكن مسٹر پرويز كا لفظ ’اللہ‘ كو مخلوق ميں سے مركز ِحكومت يا مركز ِملت كے لئے استعمال كرنا، كبھی اس سے معاشرہ اور كبھی قوت مراد لينا ان كى منافقت كى دليل ہے، چونکہ اس قسم كے نظريات انہوں نے مستشرقين كى تاليفات سے اَخذكئے ہیں جو قرآن اور اسلام كو ان كى تحريف معنوى كرنے كے لئے پڑھتے ہیں اور وہ سب كافر و ملحد اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں، تو ان كے نقش قدم پر چل كر قرآن اور اسلام كى تحريف معنوى كرنے والاغلام احمد پرويز مسلمان كيسے ہوسكتا ہے؟”لفظ ’اللہ‘ ذاتِ بارى تعالىٰ كے ساتھ خاص ہے اور اس كى خصوصيت كى دليل اللہ تعالىٰ كا یہ ارشاد ہے ”بھلا تم اس كا كوئى ہم نام پاتے ہو؟“ (المفردات، ص٢١)
(قرآنى فيصلے، ج٤ ص١١٠)”وہ خدا جو وہموں كے پردے ميں تھا، آپ كى كتابوں كے مطالعہ سے اب وہ ظاہر ہوچكا ہے-“
ديکھئے پرويز نے ’ اللہ و رسول‘ كو جامع اصطلاح بنا ديا اور اس ميں بے شمار افرادكو داخل كرنے كى ناپاك جسارت كى ہے، حالانکہ كوئى مسلمان حضرت محمد رسول اللہ كے بعد كسى اُمتى كو رسول كا لقب دينے كا تصور بھی نہیں كرسكتا-”قرآن سے فيصلہ انفرادى طور پر نہیں ليا جائے گا، بلکہ اس كے لئے ايك زندہ اور محسوس ثالث اور حاكم كى ضرورت ہوگى- اس فيصلہ كرنے والى اتھارٹى كو قرآن ميں ’اللہ اور رسول‘ كى جامع اصطلاح سے تعبير كيا گيا ہے-“ (سليم كے نام، ج٢ ص٣٢٨)
(معراجِ انسانيت، ص٣١٨)”اللہ اور رسول سے مراد وہ مركز ِنظامِ اسلامى ہے جہاں سے قرآنى احكام نافذ ہوں-“
ليكن پرويز نے … جو مفكر ِقرآن كے لقب سے بھی ياد كئے جاتے ہیں… ان آياتِ قرآنیہ پر (جن ميں اللہ اور رسول كے مقدس كلمات استعمال ہوئے ہیں) رك كر كبھی یہ سوچنے كى زحمت نہ كى کہ ان قرآنى آيات ميں اللہ اور رسول كا لفظ مفرد استعمال ہوا ہے جس سے لامحالہ فردِ واحد ہى مراد ہوسكتا ہے جو کہ اللہ تعالىٰ اور اس كا پيغمبر محمد رسول اللہ ہے، لہذا رسول كا مفرد لفظ افسرانِ مجاز كے جتھوں كے لئے كيسے استعمال ہوسكتا ہے؟ اس سوال كا جواب دينے كى بجائے اب وہ اپنے خود ساختہ ’خدا و رسول‘ يعنى افرادِ حكومت كو اللہ تعالىٰ كے مبعوث كردہ رسول حضرت محمدرسول اللہ كے فيصلوں كو كينسل كرنے اور منسوخ بنانے كااختيار ديتے ہوئے رقمطرازہیں:”حكومت كے انتظامى اُمور كے لئے ايك مركز ہوگا اور اس مركز كے ماتحت افسرانِ مجاز، قرآنِ كريم ميں اس كے لئے ’خدا و رسول‘ كى اصطلاح آئى ہے-“ (قرآنى قوانين: ص٦)
(شاہكارِ رسالت، ص٢٨١)”(اسلامى نظام) سابقہ اَدوار كے فيصلوں ميں خواہ وہ رسول اللہ كے زمانے ميں ہى كيوں نہ صادر ہوئے ہوں، ردّ و بدل كرسكتا ہے اور بعض فيصلوں كو منسوخ بھی كرسكتا ہے-“
اندھى عقيدت سے بالاتر ہو كر پرويزى لٹريچر كا مطالعہ كرنے والے شخص پر یہ بات مخفى نہیں ہے کہ مسٹر پرويز عام طور پر اپنى تاليفات ميں اپنى لفاظى كا جادو دکھانے كى كوشش كرتے ہیں اور لفظى ہيرا پھيرى سے وہ عامۃ الناس كو اپنے جال ميں پھانسنے كى تاك ميں رہتے ہیں جيسا کہ وہ مذكورہ اقتباس ميں اور اس جيسے ديگر مقامات ميں کہا كرتے ہیں کہ”قرآن ميں جہاں ’اللہ اور رسول‘كے الفاظ اكٹھے آتے ہیں، وہاں اس سے مراد اسلامى نظامِ حكومت ہے جو خدا كے احكام نافذ كرنے كے لئے متشكل ہوتا ہے-“ (قرآنى فيصلے، ج١ ص٢٣٧)
اس سے عام قارى یہى سمجھتا ہے کہ مسٹر پرويز كے ہاں اللہ اور رسول سے اسلامى نظامِ حكومت اسى وقت مراد ہے جبکہ یہ دونوں لفظ اكٹھے آجائيں ليكن یہ الفاظ ايك دوسرے سے جدا ہو كر استعمال ہوں تو پھر شايد اس كے ہاں اللہ سے مراد ذات ِبارى تعالىٰ اور رسول سے مراد محمد رسول اللہ كى شخصيت ہوتى ہے- حالانکہ ايسا ہرگز نہیں ہے، اور نہ ہى كسى شخص كو اس مغالطہ كاشكار ہونا چاہئے- بلکہ مسٹرپرويز كے نزديك رسول كا لفظ خواہ لفظ اللہ سے مل كر استعمال ہو يا اُس سے جدا ہو كر، بہرحال اس سے ہر دور كى ’مركزى اتھارٹى‘ ہى مراد ہوتى ہے جيسا کہ اس نے آيت ﴿ وَاِذَا جَاءَ ہمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہ وَلَوْ رُدُّوْہ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلىٰ اُوْلِىْ الْاَمْرِمِنْہمْ لَعَلِمَہ الَّذِيْنَ يَسْتَنْبِطُوْنَہ مِنْہمْ … ﴾ (النساء: ٨٣) كا مفہوم بيان كرتے ہوئے لکہا ہے :”قرآن ميں جہاں ’اللہ اور رسول‘كے الفاظ اكٹھے آتے ہیں،وہاں اس سے مراد اسلامى نظامِ حكومت ہوتا ہے-“
ديکھئے يہاں لفظ ’رسول‘ كومسٹر پرويز نے مركزى اتھارٹى سے تعبير كيا ہے، اس لئے کہ لفظ ’رسول‘ خواہ لفظ ’اللہ‘ سے مل كر آئے يا اُس سے جدا ہو كر، دونوں صورتوں ميں مسٹر مذكور كے ہاں اس سے مركزى اتھارٹى يا مركز ِملت مراد ہوتا ہے- اس كے ہاں ان سے مراد ذات ِبارى تعالىٰ اور محمد رسول اللہ كى شخصيت ہرگز نہیں ہوتى-”ان كے دعوائے اطاعت كوشى كى یہ كيفيت ہے کہ جب كہیں سے امن يا خوف كى اُڑتى ہوئى سى بات سن پاتے ہیں تو اسے لے دوڑتے ہیں اور خوب پھيلاتے ہیں- حالانکہ نظام سے وابستگى اور اطاعت كا تقاضا ہے کہ ايسى باتوں كو رسول (يعنى مركزى اتھارٹى) يا اپنے افسرانِ ماتحت تك پہنچا يا جائے تاکہ وہ لوگ جو بات كى تہہ تك پہنچنے كى صلاحيت رکھتے ہیں، اس كى اچھى طرح جانچ پڑتال كر ليں-“ (مفہوم القرآن، ج١ ص٢٠٥)
حالانکہ پرويز كے ہاں صحت كے اعتبار سے شرفِ قبوليت حاصل كرنے والى كتاب المفردات ميں اللہ تعالىٰ كى طرف سے وحى پانے والى شخصيت كو ہى نبى کہا گيا ہے-امام راغب فرماتے ہیں :”دوسرى طرف ہمارا مذہب پرست طبقہ ہے - وہ بھی حقيقت كو بالعموم جس انداز سے پيش كرتا ہے، اس سے نہ صرف یہ کہ حقيقت كما ہى سامنے نہیں آتى بلکہ ان كے بيان سے جو تصوير ذہن ميں مرتسم ہوتى ہے ، اس سے رسول كا صحيح مقام نگاہوں كے سامنے نہیں آتا، یہ کہتے ہیں کہ آپ مامور من اللہ تھے جو كچھ اللہ تعالىٰ آپ كو حكم ديتا ، آپ اس كى تعميل كرتے تھے-“ (معراجِ انسانيت از پرويز: ص ١٧٤)
اور قرآنِ كريم كى متعدد آيات ميں آپ پر وحى كے نزول كى صراحت موجود ہے- اس لئے مسٹر پرويز مسلمانوں كے اجماع كے خلاف ’رسول‘ كے لفظ سے مركزى اتھارٹى يا مركز ِملت مراد لے كر اور آپ كے مامور من اللہ ہونے كا انكار كركے دائرہ اسلام سے خارج ہوچكے ہیں-”نبى اللہ تعالىٰ اور اس كے اہل عقل بندوں كے درميان پيغامبر ہوتا جو ان كى دنيا اور آخرت كے معاملات ميں واقع ہونے والے فساد كا اِزالہ كرنے كے لئے بھیجا جاتا تھا- “
مسٹر پرويز جہنم كو حقيقت سے خالى، غير محسوس قلبى كيفيت كا نام ديتا ہے، اور اس كے مخصوص مقام كا نام ہونے سے انكار كرتا ہے، اور اس كا یہ نظریہ فرمانِ الٰہى كے خلاف ہے جس ميں فاسق و فاجر لوگوں كے جہنم ميں داخل ہونے كى صراحت پائى جاتى ہے،”جہنم انسان كى قلبى كيفيت كا نام ہے، ليكن قرآنِ كريم كا انداز یہ ہے کہ وہ غير محسوس، مجرد حقائق كو محسوس مثالوں سے سمجھاتا ہے-“ (جہانِ فردا: ص ٢٣٥)