• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسٹر غلام احمد پرویز کے کفریہ عقائد

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
تمہید

كويت سے شائع ہونے والے اخبار ’الايمان‘ كے دسمبر ١٩٩٨ء كے شمارہ ميں سعودى عرب كے مفتى ٴاعظم شيخ عبدالعزيز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ كا غلام احمد پرويز اور اس كے حواريوں كے بارے ميں ايك فتوىٰ شائع ہوا تھا جس ميں مفتى صاحب نے پرويز كے عقائد و نظريات معلوم ہونے كے بعد اُسے اور اس كے پيروكاروں كو كافر قرار ديا تھا-

زير نظر مضمون ميں ہم چاہتے ہیں کہ مسٹر پرويز اور اس كے متبعين كے اعتقادات ان كى اپنى كتابوں كے حوالہ جات سے منظر عام پر لائيں تاکہ قارئين كو معلوم ہوسكے کہ واقعى آنجہانى پرويز اور اس كے حوارى كفریہ عقائد كے علمبردار ہیں، اور ان كے كفر و ارتداد ميں كوئى شك و شبہ نہیں ہے، اور شيخ ابن باز نے ان كے كافر اور مرتد ہونے كا جو فتوىٰ ديا ہے، بالكل برحق اور سچ ہے- كيونکہ مسٹر پرويز كى خودنوشت كتابیں ان كے كفریہ عقائد كى تصديق كرتى ہیں اور اس كے افكار ان لوگوں كے ملحد و مرتد ہونے كو ثابت كرتے ہیں-

اہل اسلام كے ہاں یہ بات مسلم ہے کہ اسلام كے بنيادى عقائد حسب ِذيل ہیں :

  • اللہ تعالىٰ پر ايمان لانا
  • حضرت محمد كى نبوت و رسالت پر ايمان لانا
  • يومِ آخرت پر ايمان
  • فرشتوں پر ايمان اور
  • قرآنِ كريم پر ايمان لانا وغيرہ …

یہ ايسے عقائد ہیں جن كے اِقرار و تصديق سے كوئى شخص مسلمان ہوتا ہے اور ان عقائد كا انكار كرنے والا يا ان كى من پسند تحريف كرنے والا شخص كافر اور دائرہ اِسلام سے خارج ہوجاتا ہے- لہذا آئندہ سطور ميں اس بات كو واضح كيا جائے گا کہ امت ِمسلمہ كے نزديك ان عقائد سے كيا مراد ہے ، اور مسٹر پرويز اور اس كے پيروكار كيسے ان عقائد كو مسخ كرنے كى مذموم كوشش ميں مصروف ہیں-
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
ايمان باللہ -ذاتِ الٰہى كے بارے ميں امت ِمسلمہ كا متفقہ عقيدہ

اللہ تعالىٰ كى ذات پر ايمان لانے كو دين اسلام ميں بنيادى اہميت حاصل ہے جس سے كوئى مسلمان انكار نہیں كرسكتا، اور اللہ تعالىٰ كے عرش پر مستوى ہونے اور اپنى مخلوقات سے الگ تھلگ ہونے كو تمام مسلمان بالاتفاق تسليم كرتے آرہے ہیں اور قرآنِ كريم نيز سنت ِنبویہ اللہ تعالىٰ كے بارے ميں یہى عقيدہ پيش كرتے ہیں اور امام ذہبى اس پر امت مسلمہ كا اجماع ذكر كرتے ہوئے فرماتے ہیں :


”أدركنا العلماء فى جميع الأمصار حجازا وعراقا ومصر وشامّا ويمنا فكان مذھبھم أن اللہ تبارك وتعالى على عرشہ بائن من خلْقِہ كما وصف نفسہ بلاكيف وأحاط بكل شيئ علما (كتاب العلوّ للذہبى ص١٣٧)
”حجاز، عراق، مصر، شام اور يمن كے تمام علما كا یہى عقيدہ تھا کہ اللہ تعالىٰ عرش پر مستوى ہے اور اپنى تمام مخلوقات سے جدا اور الگ تھلگ ہے- جيسا کہ خود اللہ تعالىٰ نے اپنى ايسى ہى صفات بيان فرمائى ہیں، جن كى كيفيت كو وہى جانتا ہے اور اس كا علم ہر چيز كو شامل ہے-“
ابن بطہ عقيدہ توحيد پر اُمت كا اجماع نقل كرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”أجمع المسلمون من الصحابة والتابعين أن اللہ على عرشہ فوق سمواتہ بائن من خلقہ“ (كتاب الإبانة)
”تمام صحابہ اور تابعين اور اہل اسلام كا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالىٰ كى ذات ساتوں آسمانوں كے اوپر عرش پر ہے اور وہ اپنى سارى مخلوق سے جدا ہے-“
حافظ ابو نعيم، اللہ تعالىٰ كے بارے ميں امت ِمسلمہ كا عقيدہ يوں بيان فرماتے ہیں :
”طريقتنا وطريقة السّلف المتّبعين للكتاب والسنة وإجماع الامة وممّا اعتقدوہ أن الأحاديث التى ثبتت فى العرش واستواءِ اللہ علیہ يقولون بہا ويُثبتونہا من غير تكييف ولا تمثيل وأن اللہ بائن من خلقہ والخلق بائنون منہ لا يحُلُّ فیہم ولايمتزج بہم وہو مستو على عرشہ فى سمائہ من دون أرضہ“

” ہمارا طريقہ وہى ہے جو سلف صالحين كا تھا اور وہ سب كتاب و سنت اور اِجماعِ امت كے پابند تھے- ان سب كا یہ عقيدہ تھاکہ جن نصوص و آيات ميں اللہ تعالىٰ كے عرش پر مستوى ہونے كا ذكر آتا ہے، انہیں بلاكيف اور بلاتمثيل تسليم كيا جائے اور اس بات پر بھی ايمان ہو کہ اللہ تعالىٰ كى ذات اپنى تمام مخلوق سے جدا ہے اور مخلوقات اس سے الگ تہلگ ہے- یہ نہیں کہ وہ اپنى مخلوق كے اندر حلول كئے ہوئے ہو اور نہ ہى وہ اپنى مخلوق سے متصل ہے بلکہ وہ اپنے عرش پر مستوى ہے اور اس كا عرش آسمان كے اوپر ہے ، زمين پر نہیں-“ (كتاب العلو، ص١٤٨)
امام ابن خزيمہ اللہ تعالىٰ كے بارے ميں اہل سنت كے مذكورہ عقيدے سے انكار اور اس سے انحراف كرنے والے شخص كے مرتد اور ا س كے واجب القتل ہونے كى صراحت كرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”من لم يُقِرَّ بأن اللّہ تعالىٰ على عرشہ قد استوى فوق سبع سمواتہ فہو كافر بربّہ يستتاب فإن تاب وإلا ضُرِب عُنقُہ“ (معرفة علوم الحديث، ص٨٤)

” جو شخص اس بات كا اقرار نہیں كرتا کہ اللہ تعالىٰ عرش پر مستوى ہے اور اس كا عرش سات آسمانوں كے اوپر ہے ،وہ كافر ہے- اسے کہا جائے کہ وہ اپنے بدعقيدہ سے توبہ كرے، اور اگر وہ اس سے توبہ كرنے كے لئے تيار نہ ہو تو اس كى گردن اڑا دى جائے-“
یہ ہے وہ عقيدہ جس پر تمام مسلمانوں كا اتفاق ہے اور ذات ِبارى تعالىٰ پر ايمان ہى دراصل دين اسلام كى بنياد ہے، جس سے انكار كرنے يا اس عقيدہٴ توحيدكى تحريف كر دينے كے بعد كوئى شخص مسلمان نہیں رہ سكتا-
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
پرويز كى نظر ميں اللہ سے كيا مراد ہے؟

اب آئيں ديكھیں کہ مسٹر غلام احمد پرويز جو فرقہ طلوعِ اسلام كے بانيوں ميں سے ہیں- اللہ تعالىٰ كے بارہ ميں كيا عقيدہ رکھتے ہیں، اور كيسے وہ سارى زندگى عقيدہٴ توحيد كو مسخ كرنے كى كوشش ميں مصروف رہے ہیں-

اگرچہ مسٹر پرويز اپنى تاليفات ميں ’اللہ‘ يا ’خدا‘ كا لفظ بكثرت استعمال كرتے ہیں، جس سے عام لوگ یہى سمجھتے ہیں کہ پرويز كے نزديك بھی تصورِ خدا وہى ہے جو اہل اسلام كے ہاں ہے- حالانکہ حقيقت ِحال اس كے بالكل برعكس ہے- مسٹر پرويز كے ہاں اللہ يا خدا سے مراد وہ ذات نہیں ہے جو عرش پر مستوى ہے اور جس پر تمام مسلمانوں كا ايمان ہے، بلکہ انہوں نے عقيدہ توحيد اور ايمان باللہ كے مفہوم كو ايسا مسخ كيا ہے کہ كوئى مسلمان اس كا تصور بھی نہیں كرسكتا، اور اس پر ان كى تاليف كردہ كتابيں گواہ ہیں- جيسا کہ وہ اپنى كتاب ’سليم كے نام‘ ميں اپنے متبنّىٰ ’سليم‘ كو اللہ پر ايمان لانے كا مفہوم سمجھاتے ہوئے لکھتے ہیں:


”ميں نے تمہیں اپنے سابقہ خط ميں بتايا تھا کہ خدا پر ايمان كے معنى یہ ہیں کہ جو معاشرہ اس كے قوانين كے مطابق قائم ہو، اسے صفات ِخداوندى كا مظہر ہونا چاہئے- “ (سليم كے نام: ١ /٢٢٥)
ديکھئے مسٹر پرويز نے خدا پر ايمان كو معاشرہ پر ايمان لانے سے تعبير كرديا، اور اِس معاشرہ پر ہى صفات ِخداوندى كو چسپاں كرديا ہے، حالانکہ اللہ تعالىٰ كى صفات كامل اور بلاكيف مانى جاتى ہیں جبکہ معاشرہ اور مخلوق كى صفات ناقص ہیں اور ان كى كيفيت بھی ہمارے لئے منكشف ہے-

مسٹر پرويز اپنى اسى كتاب كے دوسرے مقام پر اہل اسلام كے ہاں عقيدہ ٴ خدا كو ردّ كرتے ہوئے اور ماركس كے نظریہٴ خدا كو اجاگر كرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”انسانوں كے خود ساختہ مذہب كے پيدا كردہ خدا پر ايمان لانے اور اس كے دعاوىٰ پر توكل رکہنے سے وہ يقين كسى طرح پيدا نہیں ہوسكتا جو انسان كو احتياج كى فكر سے بے خوف كردے- یہى وہ خدا تھا جس كے متعلق ماركس نے کہہ ديا تھا کہ اس كا تصور سرمایہ داروں كى مصلحت كوشيوں كا پيدا كردہ ہے، ليكن ’خدا‘ كے تصور كا ايك مفہوم وہ ہے جسے (بزعم پرويز) خود خدا نے متعين كيا ہے اور جو قرآن كے حروف و نقوش ميں جگمگ جگمگ كرتا دکہائى ديتا ہے- اس تصور كى رو سے ان مقامات پر خدا سے عملاً مفہوم، وہ نظام ہے جو ا س كے قوانين كو نافذ كرنے كے لئے متشكل ہوتا ہے اور اس طرح وہ تمام ذمہ دارياں اپنے سر پر لے ليتا ہے، جنہیں خدا نے اپنى طرف منسوب كيا ہے-“
(سليم كے نام: از پرويز، ج١ ص٢٩٩)
اس عبارت پر غور كيجئے،مسٹرپرويز ماركس كى تقليد ميں اندھا ہو كر كيسے خدا پر ايمان كے اسلامى مفہوم كو بے فائدہ بتا رہا ہے اور خدا پر ايمان سے مراد وہ نظام بتاتا ہے جو اس كے قوانين كا نفاذ كرے، اگرچہ قوانين خداوندى كے نفاذ سے انكار نہیں كيا جاسكتا، ليكن خدا سے مراد ہى نظام لے لينا بے دين ذہن كى اختراع ہے-

آپ قرآنى آيت
﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَىٰ الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ﴾ (سورة طہ: ٥)
”رحمن جل شانہ عرش پر قائم ہے-“

كى روشنى ميں غور كريں، كيا قرآن كريم كى نصوص اس خدا كا تصور پيش كرتى ہیں جو ماركس يا مسٹر پرويز نے پيش كيا ہے؟ يا اس عقيدہ توحيد كو پيش كرتى ہیں جس كا تعارف ہم نے متذكرة الصدر سطور ميں كروايا ہے؟ لہذا ايسى عبارتوں سے مسٹرپرويز كى ضلالت کھل كر سامنے آجاتى ہے اور اس سے ان كے كفر كا پردہ چاك ہوجاتا ہے اور اب وہ اپنے متبنّىٰ سليم كو قرآن فہمى كا قانون سکھاتے ہوئے فرماتے ہیں:

”سليم اگر تم ايك اہم نكتہ كو سمجھ لو تو قرآن فہمى ميں تمہارى بہت سى مشكلات كا حل خود بخود نكل آئے گا يعنى ان مقامات ميں جہاں قرآن كريم ميں لفظ ’اللہ‘ استعمال ہوا ہے، ’اللہ كى جگہ اگر تم ’اللہ كا قانون‘ کہہ ليا كرو تو بات بالكل واضح ہوجائے گى-“ (سليم كے نام: ج١ /ص١٧٣)
بزمِ پرويز ميں اگر كوئى شخص عقل سے كام لينے والا موجود ہو تو وہ ان حضرات سے پوچھے کہ جب قرآنِ كريم كے ديگر مقامات ميں اللہ تعالىٰ كے قوانين اور ان كى پيروى كى اہميت واضح الفاظ ميں ذكر كردى گئى ہے تو ’اللہ‘ كے اسم گرامى كو قانون كے معنى ميں لينے كى ضرورت كيا ہے؟ كيا اللہ اور قانون دونوں مترادف ہیں؟ اور اس كے باوجود اگر آپ لوگ ’اللہ‘ كو قوانين كے معنى ليتے ہیں تو یہ صرف اس لئے ہے کہ مسلمانوں كے ہاں اللہ تعالىٰ پر ايمان كے عقيدے كو مسخ كر ديا جائے اور اہل اسلام كے دلوں سے عظمت ِخدا كے تصور كو ختم كرديا جائے اور مركزى حكومت كے قوانين كو خدا كے قوانين كا نام دے كر ان كى اہميت كو دلوں ميں راسخ كر ديا جائے-

مسٹر پرويز اپنے مخصوص تمسخرانہ انداز ميں اللہ تعالىٰ كے عرش پر مستوى ہونے كا انكار كرتے ہوئے لکھتے ہیں: (سليم كے نام: پيش لفظ، ج٢ )

”خدا كے متعلق عام تصور یہى ہے کہ وہ كائنات سے باہر، انسانى دنيا سے الگ اپنے عرشِ حكومت پر بيٹھا ہے- ہمارا فريضہ یہ ہے کہ ہم اس كے اَحكام بجا لاتے رہیں، اس سے وہ خوش ہوجاتا ہے، اگر ايسا نہ كيا جائے تو و ہ ناراض ہو كر انسانوں كو جہنم ميں ڈال ديتا ہے، یہ تصور غير قانونى ہے-“
ديکھئے مسٹر پرويز كائنات سے الگ عرش پر مستوى ذات ِبارى تعالىٰ كو ماننے كے لئے تيار نہیں ہے، بلکہ وہ ايسے خدا كى تلاش ميں سرگرداں ہے جو كسى تنظيم كى شكل ميں كائنات كے اندر ہى موجود ہو-

حالانکہ قرآنى نصوص سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اللہ تعالىٰ اپنى مخلوقات سے جدا ہے جسے ان دنياوى آنکھوں سے ديکھا نہیں جاسكتا، اور ہر چيز سے بڑہ كر اس سے اور اس كى شريعت سے محبت كرنا مسلمانوں كے ايمان كا جز ہے، ليكن پرويز ايسے خدا سے محبت كو محال اور دشوار شمار كرتے ہوئے کہتے ہیں:

”جس قسم كى محبت انسانى محبوب سے كى جاتى ہے، اس قسم كى محبت خدا سے كى ہى نہیں جاسكتى، تم كسى اَن ديکھى چيز سے محبت كر ہى نہیں سكتے-“
اس سے ذرا آگے چل كر وہ لکھتے ہیں :
”محسوسات كا خوگر انسان كسى غير مرئى وغير محسوس حقيقت سے محبت نہیں كرسكتا-“ (سليم كے نام: ج٣/ ص٨٩)
مسٹر پرويز كا یہ دعوىٰ آيت ﴿وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہ﴾(البقرہ:١٦٥) اور اس جيسى ديگر متعدد آيات كے خلاف ہے- معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنا خدا مخلوقات كے اندر ہى تلاش كرنے كى كوشش ميں تھے جو محسوس اور مرئى يعنى دنيا ميں ہى نظر آنے والا ہو، لہذا وہ اپنى اس كوشش ميں كامياب ہوگئے اور اس نے محسوس اور دنيا ميں ہى نظر آنے والا خدا تلاش كر ليا جس كى بشارت وہ اپنے حواريوں كو ديتے ہوئے ’نظامِ ربوبيت‘ ميں صفحہ١٥٨پرلکہتے ہیں:
”ہم اس مقام پر ايك اہم نكتہ كى وضاحت ضرورى سمجھتے ہیں، جسے آگے بڑھنے سے پہلے سمجھ لينا ضرورى ہے-
ہم نے ﴿اِنَّ اللہ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُوٴمِنِيْنَ…﴾ كى آيت ميں بھی اور مذكورہ صدر آيت ميں بھی ’اللہ‘ سے مراد ليا ہے ”وہ معاشرہ جو قانونِ خداوندى كو نافذ كرنے كيلئے متشكل ہو-“
قانونِ خداوندى كا لفظ بھی پرويز صاحب كا تكیہ كلام ہے جسے وہ بكثرت اپنى كتابوں ميں ذكر كرتے ہیں، ورنہ قارئين پر یہ بات مخفى نہیں کہ وہ قانونِ فرنگى كو قانونِ خداوندى كا نام ديتے ہیں، اور مستشرقين وملحدين كے آراء و افكار كو قرآنى آيات كے لبادے ميں پيش كرتے ہیں، اوراس ہيرا پھيرى ميں وہ مہارتِ تامہ رکھتے ہیں-ان كى اس چابك دستى كا ہم فراخدلى سے اعتراف كرتے ہیں- دوسرے مقام ميں وہ اسلامى حكومت كے منشور كو ’ميثاقِ خداوندى‘ كا نام ديتے ہوئے اور اپنے حواريوں كو محسوس اور مرئى خدا كا مشاہدہ كرواتے ہوئے رقم طراز ہیں: (سلسبيل ،ص١٢٢)

”چونکہ عمال حكومت ِاسلامیہ كا عہدنامہ ان كے اور حكومت كے اقتدارِ اعلىٰ (يعنى ان كے خدا) كے مابين ہوگا، اس لئے ہم نے اس كا عنوان ’ميثاقِ خداوندى‘ مناسب سمجھا ہے-“
اس كے بعد انہوں نے ميثاقِ خداوندى كى تفصيل نقل كى ہے ليكن ان كے سابقہ اقتباس پر غور فرمائيں جس ميں انہوں نے اقتدارِ اعلىٰ كو ہى خدا قرار ديا ہے اور ارباب ِاقتدار كو عمالِ حكومت كا خدا بنا كر كفر كا ارتكاب كيا ہے اور اپنے اس كفر كو برملا لوگوں پر مسلط كرتے ہوئے کہتے ہیں:

”قرآن ميں جہاں ’اللہ اور رسول‘ كے الفاظ اكٹھے آتے ہیں، وہاں اس سے مراد كيا ہوتى ہے؟ … اس سے مراد ’اسلامى نظامِ حكومت‘ ہے جو خدا كے احكام نافذ كرنے كے لئے متشكل ہوتا ہے-“ (قرآنى فيصلے، ج١ ص٢٣٧)

اللہ تعالىٰ كے احكام كے نفاذ سے كسى كو انكار نہیں ہے اور نہ ہى اس پر كسى كو كوئى اعتراض ہوسكتا ہے- ليكن ’اللہ‘ اور ’رسول‘ كے مقدس كلمات سے نظام حكومت مراد لينامسٹر پرويز كے كفر والحاد اور ان كى منافقت كى غمازى كرتا ہے- جس كى جرأت اس سے پہلے كسى مسلمان كو نہیں ہوئى-
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
مفسرين قرآن پر اپنى من مانى تعبير تھوپنے كى جسارت



مفسر ابن جرير طبرى پر بہتان :
جھوٹے آدمى كو اپنى بات سچ باور كرانے كے لئے ديگر متعدد جھوٹوں كا سہارا دركار ہوتا ہے جيسا کہ مسٹر پرويز نے ’اللہ و رسول‘ كے مقدس كلمات كو مركزى حكومت كے لئے استعمال كركے كذب بيانى كى، اور اسے سچ بنانے كے لئے دوسرا جھوٹ یہ بولا کہ وہ مفسر ابن جرير طبرى كو بھی اس ميدان ميں کھينچ لائے اور یہ دعوىٰ كرديا کہ
”یہ بات کہ قرآنِ كريم ميں جہاں اس ضمن ميں ’اللہ اور رسول‘كے الفاظ آئے ہیں، اس سے مراد ’اسلامى نظام‘ ہے، ہمارى اختراع نہیں؛ یہ خيال متقدمين كا بھی تھا، اور خود ہمارے زمانے كے مفسرين كا بھی ہے، مثلاً قرآنِ كريم كى آيت ہے ﴿يَسْاَلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰہ وَالرَّسُوْلِ…﴾ اے رسول تم سے پوچھتے ہیں اَنفال (مال غنيمت )كے متعلق، کہہ دو کہ اَنفال اللہ اور رسول كے لئے ہے-“

امام ابن جرير طبرى جن كى تفسير كو اُمّ التفاسير کہا جاتا ہے، اللہ و رسول كى تفسير ميں مختلف اقوال نقل كرنے كے بعد اپنا فيصلہ یہ لکھتے ہیں : ”وأولى ہذہ الأقوالِ بالصَّواب فى معنى الأنفالِ قول من قال ہي زياداتٌ يزيدہا الامامُ لبعض الجيشِ أوجميعِہم“
” انفال كے معنى كے متعلق ان تمام اقوال ميں سے قرين صواب ان لوگوں كا قول ہے جنہوں نے کہا ہے کہ یہ وہ اضافے ہیں جو امامِ وقت بعض يا كل فوج كے لئے كرتا ہے-“
اس كے بعد مسٹر پرويز حق كا خون كرتے ہوئے کہتے ہیں:
”يہاں انفال كے معنى سے بحث نہیں، مدعا صرف یہ ہے کہ ’اللہ و رسول‘ كى تفسير انہوں نے امامِ وقت لکھى ہے-“ (قرآنى فيصلے از پرويز، ج٢/ ص٢٢٢)
مستشرقين كے اس ہندى شاگرد نے يہاں ابن جرير طبرى كے سر وہ جھوٹ تھوپنے كى كوشش كى ہے جس كا ان كے ذہن ميں پو رى زندگى تصور بھی نہیں آيا اور نہ ہى انہوں نے اللہ و رسول كے مقدس الفاظ كو امامِ وقت كے لئے استعمال كيا ہے، بلکہ وہ مذكورہ عبارت ميں لفظ اَنْفَال كا معنى اور اس كى تفسير و تشريح بيان كر رہے ہیں اور ان كے یہ الفاظ وأولى ہذہ الاقول بالصواب فى معنى الأنفال اس پر دليل كے لئے كافى ہیں اور اَنفال كے بارہ ميں وہ راجح قول یہ ذكر كر رہے ہیں کہ اس سے مراد ”وہ اضافى مال ہے جو امامِ لشكر مجاہدين ميں سے بعض يا سب كو ان كى كاركردگى كے پيش نظر ديتا ہے“… ليكن ان صاحب نے اَنفال كى تشريح ميں آنے والے لفظ ’امام‘ كو ’اللہ و رسول‘ كى تفسير بنا ديا اور اِسے ابن جرير طبرى كے سر منڈہ ديا ہے، حالانکہ مفسر طبرى اپنى مذكورہ عبارت ميں ’اللہ و رسول‘ كى تفسير نقل نہیں كر رہے ، بلکہ وہ تو صرف اَنفال كى وضاحت كرنا چاہتے ہیں، اس لئے ان كے كلام كى ابتدا ميں یہ لفظ آئے ہیں ”قال أبوجعفر: اختلف اہل التاويل في معنى الأنفال“ (ديکھئے تفسير طبرى: ج٦/ ص١٦٨)

يعنى ابن جرير طبرى كے نزديك اَنفال كى تفسير ميں مفسرين كا اختلاف ہے جسے وہ بيان كر رہے ہیں، اور اس بارے ميں مختلف اقوال ميں سے راجح قول كو ذكر كر رہے ہیں اور ان كے نزديك اللہ اور رسول كى مراد ميں كسى مسلمان كا اختلاف ہى نہیں جسے ذكر كرنے كى انہیں ضرورت درپيش ہو، ا ور نہ ہى اللہ و رسول كامفہوم ان كے نزديك امامِ وقت يا مركزى حكومت ہے، ليكن یہ صاحب ان كے قول كى غلط توجیہ كرتے ہوئے کہتے ہیں ”يہاں اَنفال كے معنى سے بحث نہیں“ حالانکہ امام طبرى بحث ہى ’انفال‘ كے معنى سے كر رہے ہیں، اللہ ورسول كا معنى تفسير طبرى ميں زير بحث ہى نہیں ہے- كيونکہ اس ميں امت ِمسلمہ كا كبھی اِختلاف ہى واقع نہیں ہوا-

مسٹرپرويز كى مثال تو ساون كے اندھے كى سى ہے جسے ہر طرف سبزہ ہى سبزہ نظر آتا ہے، ا س نے اِمامِ وقت يا حكومت ِوقت كو اپنا اللہ اور خدا بنا رکہا ہے، ا س لئے جہاں كہیں اسے ’امام‘ كا لفظ نظر آجاتا ہے وہ اس كى تعبير اللہ و رسول سے كرنے كے درپے ہوجاتا ہے، جيسا کہ وہ اب امام رازى كو اپنے كفریہ موقف كى تائيد ميں گھسيٹتے ہوئے لکھتا ہے:

”امام رازى نے آيت ٣٣/٥ ﴿اِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللہ وَرَسُوْلَہ﴾ كے تحت امام ابوحنيفہ كا یہ قول نقل كيا ہے:﴿ اِذا قَتَل واَخَذَ المالَ فالإمام مُخَيَّرٌ فیہ بين ثلاثةِ اشياءَ﴾ امام ابوحنيفہ نے فرمايا کہ ”اگر باغى يا ڈاكو نے قتل بھی كيا ہے اور مال بھی ليا ہے تو ’امام‘ كو اختيار ہے کہ تينوں سزاؤں (قتل، قطع اور صليب) ميں سے جو سزا چاہے، اس كو دے- “
(قرآنى فيصلے، ج٢ ص٢٢٣)
مسٹر پرويز نے صغرىٰ امام رازى سے اور اس كا كبرىٰ امام ابوحنيفہ سے لے كر یہ نتيجہ اخذ كرنے كى كوشش كى ہے کہ امام رازى كے نزديك بھی اللہ سے مراد امامِ وقت ہے

ع كہیں كى اينٹ كہیں كا روڑا بھان متى نے كنبہ جوڑا !!

حالانکہ امام رازى لفظ ’اللہ‘كو مخلوقات ميں سے كسى دوسرے پر استعمال كرنے كے بالكل خلاف ہیں، اس لئے وہ اپنى كتاب كے آغاز اور سورة فاتحہ كى تفسير ميں اللہ تعالىٰ كے اسماء و صفات كے تحت لفظ اللّٰہ كى یہ خصوصيت ذكر كرتے ہیں:

اَطبق جميعُ الخلق على أن قولنا ’اللہ‘ مخصوص باللہ سبحانہ وتعالى وكذٰلك قولنا ’الإلہ‘ مخصوص بہ سبحانہ وتعالىٰ (تفسير رازى: ١/١٦٣)
”اللہ تعالىٰ كى سارى مخلوق اس بات پر متفق ہے کہ لفظ اللہ ذات ِبارى تعالىٰ كے ساتھ خاص ہے، ايسے ہى لفظ ’الٰہ‘ اللہ تعالىٰ كے ساتھ مخصوص ہے-“
تفسير رازى ميں اللہ تعالىٰ سے متعلق اس وضاحت كے ہوتے ہوئے بھی مسٹر پرويز كا یہ دعوىٰ كر دينا کہ امام رازى كے نزديك ’اللہ‘ سے مراد امامِ وقت يا وقت كى گورنمنٹ ہے، بہت بڑى جہالت اور حماقت كى بات ہے اور وہ اپنے كفريات كو لوگوں ميں رائج كرنے كے لئے علماءِ اسلام كو استعمال كرنا چاہتے ہیں جبکہ امام رازى كا مسلك تو یہ ہے کہ كلمہ اسلام (جو كفر سے اسلام ميں داخل ہونے كے لئے پڑہا جاتا ہے) ميں لفظ ’اللہ‘ كى جگہ اگر بارى تعالىٰ كا ہى كوئى دوسرا نام استعمال كيا جائے تو یہ جائز نہیں ہے، اور نہ ہى اس طرح كوئى شخص دائرئہ اسلام ميں داخل ہوسكتا ہے، مثال كے طور پر اگر كوئى غير مسلم ”لاإلہ إلا اللہ“ كى بجائے ”لا إلٰہ إلا الرحمٰن“ کہے تو امام رازى كے نزديك ايسا شخص مسلمان نہیں ہوگا- ان كے الفاظ ملاحظہ ہوں:

”الخاصية الثانية أن كلمة الشہادة التى بسببہا ينتقل الكافر من الكفر إلى الإسلام لم يحصل فیہا إلا بہذا الإسم فلو أن الكافر قال: أشہد أن لا إلہ إلا الرحمٰن أو إلا الرحيم أو إلا الملك أو إلا القدوس، لم يَخرج من الكفر ولم يَدخل في الاسلام اما إذا قال: أشہد أن لا إلہ إلا اللّہ فإنہ يخرج من الكفر و يدخل فى الاسلام وذلك يدلّ على اختصاص ہٰذا الاسم بہذہ الخاصية“

”يعنى كلمہ توحيد جسے پڑھ كر كافر اسلام ميں داخل ہوتا ہے، وہ كلمہ ”لا إلہ الا اللہ “ ہے- اگر كوئى شخص لفظ ’اللہ‘ كى جگہ كوئى دوسرا نام ذكر كرے، اور لا الہ إلا الرحمٰن يا لا إلہ إلا الرحيم وغيرہ پڑہے تو وہ كفر سے نہیں نكلے گا اور نہ ہى دائرہ اسلام ميں داخل ہوگا-كفر سے نكل كر وہ مسلمان تب ہى کہلائے گا جب ”لا إلہ إلا اللّہ“ پڑہے اور یہ لفظ ’اللہ‘ كے ذاتِ بارى تعالىٰ كے ساتھ مخصوص ہونے كى دليل ہے-“ (التفسير الكبير از امام رازى: ج١ ص١٦٤)
ديکھئے، امام رازى كلمہ توحيد ميں لفظ اللہ كى جگہ اسماء ِالٰہى سے ہى كوئى دوسرا اسم گرامى استعمال كرنے كى بھی اجازت نہیں ديتے، اور مسٹر پرويز ان سے لفظ ’اللہ‘ كو امامِ وقت يا حكومت وقت پر استعمال كرنے كے جواز كو ثابت كرنے پر تلے ہوئے ہیں، اور اس طرح وہ اپنى ضلالت كى تائيد ميں امام رازى كو سہارا بنانا چاہتے ہیں-

پرويز صاحب امام سيوطى كوبھی اپنے كفریہ موقف كى تائيد ميں پيش كرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”اسى آيت كى تفسير ميں علامہ جلال الدين سيوطى الدرّالمنثورميں یہ روايت درج كرتے ہیں: ”عن سعيد بن المسيب والحسن والضحاك في الاٰية قالوا: الإمام مخيّر في المحارب يصنع بہ ما شاء“ سعيد بن مسيب، حسن بصرى اور ضحاك علیہم الرحمہ نے کہا ہے کہ ’محارب‘ كے معاملہ ميں امام كو اختيار ہے کہ جو چاہے كرے- “ (قرآنى فيصلے: ج٢ /ص٢٢٣)
آخر ميں مسٹر پرويز ان مفسرين سے نقل كردہ كلام كا نتيجہ ذكر كرتے ہیں کہ
”ان حضرات كے اَقوال سے دو باتيں ظاہر ہوگئيں، ايك یہ کہ ان كے نزديك ”اللہ اور رسول“ سے مراد امامِ وقت ہے اور دوسرے یہ کہ … “ (قرآنى فيصلے: ٢/٢٢٤)
حالانکہ حقيقت یہ ہے کہ امام سيوطى كے نزديك آيت ﴿اِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللہ وَرَسُوْلَہ﴾ ميں اللہ و رسول سے مراد امامِ وقت نہیں ہے، بلکہ ان كے نزديك ’اللہ‘ سے وحى نازل كرنے والى ذات اور رسول سے وحى قبول كرنے والى شخصيت ہى مراد ہے- اور ان كى مذكورہ عبارت ميں’امام‘ سے مراد اميرالمومنين ہے، جسے اللہ تعالىٰ اور رسول اللہ كے خلاف بغاوت اختيار كرنے والے مجرم كو آيت ِبالا ميں ذكر ہونے والى سزاؤں ميں سے كوئى ايك سزا دينے كى اجازت ہے-

ليكن اگر مسٹر پرويز كے دعوىٰ كو تسليم كر ليا جائے تو بات بالكل اُلجھ جاتى ہے كيونکہ اس كے نزديك ’اللہ اور رسول‘ سے مراد امامِ وقت سے الگ ہستياں نہیں ہیں بلکہ امامِ وقت ہى اللہ و رسول ہے، تو اس طرح آيت ِبالا كا مفہوم یہ بن جاتا ہے کہ جو مجرم اللہ و رسول (يعنى امامِ وقت) كے خلاف بغاوت اختيار كرے،تو اس كى سزا ميں امامِ وقت (يعنى اللہ و رسول) كو اختيار ہے وہ اُسے جو سزا چاہے دے سكتا ہے-

حاصل كلام یہ ہوا کہ … بقول پرويز… امامِ وقت (اللہ و رسول) اپنے خلاف ہونے والى بغاوت كے مجرم كو خود ہى سزا دے سكتا ہے اور اپنے مقدمہ كا فيصلہ خود ہى كرسكتا ہے كيونکہ بزعم پرويز امامِ وقت سے مراد اللہ و رسول ہے اور اللہ و رسول ہى امامِ وقت ہے- گويا مدعى خود ہى قاضى بن كر اپنے كيس كا فيصلہ ثالث كى بجائے خود ہى كرسكتا ہے، بلکہ خود ہى مجرم كو سزا دينے كا اختيار بھی حاصل كر ليتا ہے- حالانکہ جس طرح قاضى اپنے ذاتى كيس كا فيصلہ خود نہیں كرسكتا، اسى طرح امامِ وقت سے بھی لازماً ’اللہ و رسول‘ مرادنہیں ہوسكتا-
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
اللہ اور رسول سے مراد ’مركز ِملت‘ ہے … پرويز


مسٹر پرويز نے اپنى پورى كوشش ”اللہ و رسول“ كى اطاعت و فرمانبردارى سے لوگوں كو ہٹانے ميں صرف كردى، اور ان مقدس كلمات كے مفاہيم كو بگاڑنے ميں دن، رات وہ كو لہو كے بيل كى طرح جتے رہے اور قرآنِ كريم كى تحريف ِمعنوى كرنے كے لئے انہوں نے كوئى دقيقہ فروگذاشت نہیں جانے ديا-

قرآنى آيت ﴿يٰاَیہا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَطِيْعُوْا اللہ وَاَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِىْ الْاَمْرِمِنْكُمْ﴾ كے الفاظ پر اپنا كافرانہ موقف مسلط كرتے ہوئے لکھتے ہیں :

”اس آيت ِمقدسہ كا مفہوم بالكل واضح ہے، اس ميں ’اللہ و رسول‘ سے مراد مركز ِملت يعنى نظامِ خداوندى (Central Authority) اور اولوالامر سے مفہوم افسرانِ ماتحت ہیں-“
اس سے ذرا آگے چل كر وہ مزيد کھل كر سامنے آتے ہیں
”قرآنِ كريم ميں مركز ِملت كو ’اللہ اور رسول‘ كے الفاظ سے تعبير كيا گيا ہے-“
(معراجِ انسانيت از پرويز: ص٣٢٢،٣٢٣)

مسٹر پرويز نے چونکہ مركزى حكومت كو اپنا اللہ اور رسول بنا ليا تھا، اس لئے قرآنِ كريم ميں جہاں اللہ تعالىٰ اور رسول اللہ كى اطاعت كا حكم ديا گيا ہے وہاں اس كے نزديك مركزى حكومت كى اطاعت وفرمانبردارى مراد ہے- جيسا کہ اس نے لکھا ہے۔

”حكومت كے انتظامى امور كے لئے ايك مركز ہوگا اور اس مركز كے ماتحت افسرانِ مجاز، قرآنِ كريم ميں اس كے لئے ’خدا اور رسول‘ كى اصطلاح آئى ہے يعنى وہ نظامِ خداوندى جسے رسول اللہ نے متشكل فرمايا، خدا اور رسول كى اطاعت سے مقصو د اسى مركز ِحكومت ِخداوندى كى اطاعت تھى-“
(قرآنى قوانين، ص٦)

دوسرے مقام پر لکھتا ہے:
”رسول اللہ كے بعد خليفتہ الرسول رسول ُاللہ كى جگہ لے ليتا ہے، اب خدا اور رسول كى اطاعت سے مراد اسى جديد مركز ِحكومت كى اطاعت ہوتى ہے-“ (معراجِ انسانيت: ص٣٥٧)
مسٹر پرويز سارى زندگى بے عقلى كى باتيں كرتے رہے اور اپنى كتابوں ميں جابجا ايسى باتيں لکھ كر عقل كا منہ چڑاتے رہے، جبکہ ايك عقلمند انسان بشرطيکہ وہ مسلمان بھی ہو بخوبى جانتا ہے کہ اللہ اور رسول كے مقدس كلمات ايسى اصطلاحات نہیں ہیں جنہیں جس پر چاہیں منطبق كرديں، بلکہ لفظ ’اللہ‘ نام ہے اس ذات مقدس كا جو واجب ُالوجود ہے، عرش پر مستوى اوروحى نازل كرنے والا ہے اور رسول اللہ سے مراد وہ شخصيت ہے جو وحى كو قبول كرنے والى ہے- جديد مركزى حكومت كو ان دونوں ميں سے كسى كے ساتھ كوئى نسبت ہى نہیں ہے اور نہ ہى اس ميں اور اللہ و رسول ميں كوئى قدرِ مشترك ہے-

جس كى بنا پر مركزى حكومت كو ’اللہ و رسول‘ بنا ديا جائے- اگر بقولِ پرويز مركزى حكومت كو اللہ و رسول تسليم كر ليا جائے تو اس كا مطلب یہ ہوا کہ مركز ِحكومت وحى نازل كرنے والا ہے اور خود ہى وحى وصول كرنے والا بھی ہے- اگر مسٹر پرويز كى عقل كا ديوالیہ نہ نكل گيا ہوتا تو وہ ضرور سوچتے کہ جب قرآنِ كريم اور حديث ِنبوى ميں اُمرا اور مسلمان حكمرانوں كى بات ماننے كا حكم بصراحت موجود ہے تو اللہ و رسول كى اطاعت پر مشتمل آيات سے مركزى حكومت كى اطاعت مراد لينے كى ضرورت ہى باقى نہیں رہ جاتى-

مسٹر پرويز اللہ و رسول سے جديد مركز ِحكومت ہى مراد ليتے اور اپنے اسى موقف پر قائم رہتے تو ہوسكتا تھا کہ انہیں ملحد لوگوں كى دنيا ميں عقلمند انسان مان ليا جاتا، مگر تعجب ہے کہ وہ اپنے اس موقف پر بھی قائم نہ رہے، اور مركز ِحكومت كے علاوہ اللہ و رسول كى ديگر مختلف تعبيرات پيش كركے وہ ملحد لوگوں كے نزديك بھی عقل و متانت سے عارى ايك يا وہ گو انسان ہى سمجھے جاتے ہیں- چنانچہ اب وہ ”اللہ اور رسول“ كى ديگر نئى ہى تعبيريں بيان كرتے ہیں اور آيت ﴿وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِىْ الْاَرْضِ اِلاَّ عَلَى اللہ رِزْقُہا﴾ ”يعنى زمين پر كوئى چلنے والا ايسا نہیں جس كا رزق اللہ تعالىٰ كے ذمہ نہ ہو“ كے تحت وہ ’اللہ‘ سے معاشرہ مراد ليتے ہوئے لکھتے ہیں:

” ہم نے (اس آيت ميں) اللہ سے مراد ليا ہے وہ معاشرہ جو قانونِ خداوندى كو نافذ كرنے كے لئے متشكل ہو-“ (نظامِ ربوبيت از پرويز ص١٥٨)
ليكن سوال یہ ہے کہ بزعم پرويز زمين پر چلنے والوں كا رِزق تو معاشرے كے ذمہ ہوگيا، مگر اس معاشرہ كا رزق كس كے ذمہ ہوگا؟ كيونکہ دوسروں كے رزق كى ذمہ دارى لينے والے معاشرے كے افراد بھی کھانے، پينے كے سامان سے مستغنى تو نہیں ہیں جنہیں رزق كى ضرورت نہ ہو-

دوسرے مقام پر خداكو ايك قوت بتاتا ہے اور کہتا ہے :
”قرآنى تعليم كى بنياد خدا كى وحدت پر ہے، يعنى اس حقيقت كے اعتراف پر کہ كائنات ميں صرف ايك قوت ہے جس كااقتدار واختيار ہے-“ (لغات القرآن: ج٤/ ص١٦٩٠)
اللہ تعالىٰ قائم بالذات، واجب ُالوجود ہے، ليكن اگر کہا جائے کہ وہ ايك قوت ہے، جيسے پرويزنے کہا ہے، تو اس طرح اللہ تعالىٰ كے قائم بالذات ہونے كى نفى ہوجاتى ہے كيونکہ قوت ايك عَرض ہے جو قائم بالغير ہوتى ہے، تو اللہ تعالىٰ كو ايك قوت بنانے والاذات ِبارى تعالىٰ كے وجود سے انكار كرنا چاہتا ہے، اور یہ نظریہ بھی مسٹر پرويز كا اپنا نہیں بلکہ اسے انہوں نے مستشرق ميتھو آرنلڈ سے چرايا ہے جو کہتا ہے :

”خدا اس قوت كا نام ہے جو سب كى مسبّب ہے-“ (انسان نے كيا سوچا،ص٣٨٧)
اسلامى تعليمات كى بنياد ايمان باللہ پر ہے، اس لئے مسٹرپرويز نے نظریہ خدا كو لوگوں كے دلوں ميں سے مسخ كرنے كے لئے سرتوڑ كوشش كى، اور اس بارے ميں وہ مختلف تضادات كا شكار ہوئے ہیں، كبھی وہ خدا كو مركز حكومت بناتے ہیں اور كبھی اسے معاشرہ اور كبھی قوت کہتے ہیں- ليكن اول ُالذكر نظریہ اس كے نزديك راجح معلوم ہوتا ہے ، اس لئے اس پر اس نے دلائل پيش كرنے كى كوشش كى ہے-ان دلائل كا جائزہ ہم سابقہ صفحات ميں ذكر كر آئے ہیں جس سے یہ بات کھل كر سامنے آگئى ہے کہ مركز ِملت يا مركز ِحكومت كو خدا بنا كر مسٹرپرويز دائرہ اسلام سے خارج ہوچكے ہیں كيونکہ كوئى مسلمان كسى مركز يا معاشرے كو خدا بنانے كى جسارت نہیں كرسكتا-

آخر ميں ہم اللہ تعالىٰ كے بارے ميں امام راغب كى المفردات كا اقتباس نقل كرتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ اللہ كو مخلوقات ميں سے كسى فرد و معاشرہ كے لئے استعمال كرنا جائز نہیں ہے اور المفردات راغب وہ كتاب ہے جسے مسٹر پرويز كى طرف سے بھی شرف ِقبوليت حاصل ہوچكا ہے- جيسا کہ انہوں نے لکھا ہے:

”مفردات امام راغب كے علاوہ، نظر سے كوئى ايسى كتاب نہیں گزرى جسے خالص قرآنى الفاظ كا لغت کہا جاسكے“ (لغات ُالقرآن، ج١ ص٢٠)
یہى امام راغب ’الٰہ‘ كے مادہ كے تحت لفظ ’اللہ‘ كے بارہ ميں فرماتے ہیں:
”خُصّ بالبارى تعالىٰ ولِتخصّصہ بہ قال تعالىٰ﴿ہلْ تَعْلَمُ لَہ سَمِيًّا﴾
”لفظ ’اللہ‘ ذاتِ بارى تعالىٰ كے ساتھ خاص ہے اور اس كى خصوصيت كى دليل اللہ تعالىٰ كا یہ ارشاد ہے ”بھلا تم اس كا كوئى ہم نام پاتے ہو؟“ (المفردات، ص٢١)
امام راغب كى طرح تمام اہل اسلام لفظ ’اللہ‘ كو اس ذات ِبارى تعالىٰ كاذاتى نام مانتے ہیں جو اپنى مخلوقات سے بلند عرش پر مستوى ہے، اور اس لفظ كو خالق كائنات سے مخصوص سمجھتے ہیں اور اس كا استعمال مخلوق ميں سے كسى فرد يا جماعت كے لئے حرام جانتے ہیں، ليكن مسٹر پرويز كا لفظ ’اللہ‘ كو مخلوق ميں سے مركز ِحكومت يا مركز ِملت كے لئے استعمال كرنا، كبھی اس سے معاشرہ اور كبھی قوت مراد لينا ان كى منافقت كى دليل ہے، چونکہ اس قسم كے نظريات انہوں نے مستشرقين كى تاليفات سے اَخذكئے ہیں جو قرآن اور اسلام كو ان كى تحريف معنوى كرنے كے لئے پڑھتے ہیں اور وہ سب كافر و ملحد اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں، تو ان كے نقش قدم پر چل كر قرآن اور اسلام كى تحريف معنوى كرنے والاغلام احمد پرويز مسلمان كيسے ہوسكتا ہے؟

مسٹر پرويزنے چونکہ اپنے حواريوں كو جديد مركزى حكومت كى صورت ميں اس دنيا ميں ہى خدا دکھاديا تھا، اس لئے اس كے عقيدت مند اس پر بڑے خوش ہوتے اور خط و كتابت كے ذريعے وہ اپنى مسرت كا اظہار كرتے رہتے تھے- جيسا کہ ايك عقيدت مند نے تفصيلى خط لکھ كر مسٹر مذكوركے ہاں اپنى خوشى كا اظہار ان الفاظ سے كيا:
”وہ خدا جو وہموں كے پردے ميں تھا، آپ كى كتابوں كے مطالعہ سے اب وہ ظاہر ہوچكا ہے-“
(قرآنى فيصلے، ج٤ ص١١٠)

پرويزيوں پر ظاہر ہوجانے والا خدا وہى ہے جسے یہ لوگ جديد مركزى حكومت يا مركز ملت سے تعبيركرتے ہیں، ان كے كفر و ارتداد پر اس سے بڑھ كر اور كون سى دليل دركار ہے؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
ايمان بالرسول


تمام مسلمانوں كے ہاں یہ مسلمہ عقيدہ ہے کہ نبوت و رسالت وہبى چيز ہے، اوراللہ تعالىٰ نے جسے چاہا، اُسے اپنى وحى كے لئے منتخب فرمايا ہے- كوئى شخص اپنى ذاتى محنت و كاوش سے يا عبادت و رياضت سے منصب ِنبوت و رسالت كو حاصل نہیں كرسكتا- یہ اللہ تعالىٰ كا انتخاب ہے جو اس كے ذاتى اختيار پر منحصر ہے - جملہ اہل اسلام كا یہ بھی عقيدہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام كے بعد بے شمار انبياءِ كرام عليہم السلام مبعوث ہوئے ہیں ليكن اب نبوت ورسالت حضرت محمد پر مكمل ہوگئى ہے- اب آپ ہى نبى اور رسول ہیں، كوئى شخص آپ كے بعد نبى يا رسول كا لقب حاصل نہیں كرسكتا- قرآنِ كريم كى آيت ﴿وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْل﴾ (آلِ عمران:١٤٤) ميں كلمہ حصر اس بات پر فيصلہ كن دليل ہے کہ رسول صرف محمد رسول اللہ ہى ہیں- اوراُمت ميں جو شخص اسلامى نظام كے نفاذ ميں انتھك محنت كرنے والا ہو يا عملاً اسے نافذ كر دينے والا ہو، وہ رسول اللہ كا ادنىٰ اُمتى ہونے سے بڑھ كر كچھ نہیں ہے- اس كے برعكس جو شخص محمد رسول اللہ كے بعد نبوت كا دعوىٰ كرے يا كسى اُمتى كو رسول كا لقب دينے لگے، بلکہ وہ قرآنى آيات جو ’رسول‘ كے لفظ پر مشتمل ہیں انہیں مركز ِحكومت پرمنطبق كرنے لگے، وہ ختم نبوت كا منكر اور مسلمانوں كے اِجماع كے مطابق وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے-

اب آئيں ديكھیں،مسٹر پرويز كيسے اس منصب ِرسالت پر ڈاكے ڈالتے رہے اوراُمت كے بعض افراد كو’رسول‘ كے مقدس لقب سے نوازتے رہے- جيسا کہ وہ اللہ تعالىٰ كے فرمان ﴿فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُوٴْمِنُوْنَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَبَيْنَہمْ﴾ كے تحت لکھتے ہیں :

”قرآن سے فيصلہ انفرادى طور پر نہیں ليا جائے گا، بلکہ اس كے لئے ايك زندہ اور محسوس ثالث اور حاكم كى ضرورت ہوگى- اس فيصلہ كرنے والى اتھارٹى كو قرآن ميں ’اللہ اور رسول‘ كى جامع اصطلاح سے تعبير كيا گيا ہے-“ (سليم كے نام، ج٢ ص٣٢٨)
ديکھئے پرويز نے ’ اللہ و رسول‘ كو جامع اصطلاح بنا ديا اور اس ميں بے شمار افرادكو داخل كرنے كى ناپاك جسارت كى ہے، حالانکہ كوئى مسلمان حضرت محمد رسول اللہ كے بعد كسى اُمتى كو رسول كا لقب دينے كا تصور بھی نہیں كرسكتا-
دوسرے مقام پر وہ رسول كے لفظ سے اپنى مراد كو بيان كرتے ہوئے يوں گويا ہیں:
”اللہ اور رسول سے مراد وہ مركز ِنظامِ اسلامى ہے جہاں سے قرآنى احكام نافذ ہوں-“
(معراجِ انسانيت، ص٣١٨)

ليكن یہ بات ذہن نشين رہے کہ مسٹر پرويز كے ہاں قرآنى احكام سے مراد وہ اَحكام نہیں ہوتے جو قرونِ اولىٰ سے مسلمانوں ميں مسلم چلے آرہے ہیں اور جو صحابہ كرام اور رسول اكرم كے زير عمل رہے ہیں، بلکہ مسٹرمذكور كے ہاں اس سے مراد وہ احكامات ہوتے ہیں جنہیں وہ فرنگيوں كے افكار كى روشنى ميں گھڑتے ہیں اور پھر انہیں بڑى کھينچا تانى سے قرآنى آيات ميں ٹانكنا شروع كرديتے ہیں- اس كے بعد انہیں’مفہوم القرآن‘ يا ’مطالب ُالفرقان‘ كے نام سے منظر عام پر لے آتے ہیں-

ذہنى لحاظ سے يورپ سے مرعوب لوگ ايسے افكار كواسلامى اور قرآنى سمجھ كر قبول كر ليتے ہیں اور قرآن و سنت كى سمجھ رکھنے والے حضرات جب یہ ديکھتے ہیں کہ متن قرآن ميں جن لوگوں كى مذمت ہو رہى ہے، مسٹر پرويز كى مفہوم ُالقرآن يا مطالب ُالفرقان ميں انہى كوہيرو بنا كر پيش كيا جارہا ہے تو وہ ان كى اس ہيرا پھيرى پر سر پيٹتے رہ جاتے ہیں-

کہتے ہیں كسى جھوٹ كو سچ باور كرانے كے لئے اسے كئى بار بوليں تو سننے والوں كو وہ جھوٹ عين سچ دکھائى دينے لگتا ہے- مسٹر پرويز كى كتابوں كا بھی یہى حال ہے، وہ اپنے متعدد جھوٹوں كو قريباً ہر كتاب ميں دہراتے چلے جاتے ہیں- جس كى وجہ سے ان كى تاليفات ميں تكرار كى بھرمار ہے اور اس طرح ان كے كذبات اور افتراء ات كو ان كے عقيدت مند سچ سمجھ بيٹھتے ہیں- حالانکہ یہ افكار ملحد مستشرقين كى عقلى غلاظتيں اور ان كى ذہنى نجاستيں ہیں جنہیں مسٹر پرويز اپنى سارى زندگى قرآنى اور اسلامى احكام كے طور پر متعارف كرانے كى حماقت كرتے رہے جيسا کہ وہ اللہ اور رسول سے مركز ِحكومت اور افسرانِ مجاز جيسى اپنى مراد كو اپنى كتابوں ميں لائے ہیں اور لکھتے ہیں:

”حكومت كے انتظامى اُمور كے لئے ايك مركز ہوگا اور اس مركز كے ماتحت افسرانِ مجاز، قرآنِ كريم ميں اس كے لئے ’خدا و رسول‘ كى اصطلاح آئى ہے-“ (قرآنى قوانين: ص٦)
ليكن پرويز نے … جو مفكر ِقرآن كے لقب سے بھی ياد كئے جاتے ہیں… ان آياتِ قرآنیہ پر (جن ميں اللہ اور رسول كے مقدس كلمات استعمال ہوئے ہیں) رك كر كبھی یہ سوچنے كى زحمت نہ كى کہ ان قرآنى آيات ميں اللہ اور رسول كا لفظ مفرد استعمال ہوا ہے جس سے لامحالہ فردِ واحد ہى مراد ہوسكتا ہے جو کہ اللہ تعالىٰ اور اس كا پيغمبر محمد رسول اللہ ہے، لہذا رسول كا مفرد لفظ افسرانِ مجاز كے جتھوں كے لئے كيسے استعمال ہوسكتا ہے؟ اس سوال كا جواب دينے كى بجائے اب وہ اپنے خود ساختہ ’خدا و رسول‘ يعنى افرادِ حكومت كو اللہ تعالىٰ كے مبعوث كردہ رسول حضرت محمدرسول اللہ كے فيصلوں كو كينسل كرنے اور منسوخ بنانے كااختيار ديتے ہوئے رقمطرازہیں:

”(اسلامى نظام) سابقہ اَدوار كے فيصلوں ميں خواہ وہ رسول اللہ كے زمانے ميں ہى كيوں نہ صادر ہوئے ہوں، ردّ و بدل كرسكتا ہے اور بعض فيصلوں كو منسوخ بھی كرسكتا ہے-“
(شاہكارِ رسالت، ص٢٨١)

مسٹر پرويز كى طرف سے منصب ِرسالت پر اس ڈاکہ زنى كا مذكورہ كتاب كے نام (شاہكارِ رسالت) سے جو کھلا ہوا تضاد ہے، اس سے قطع نظر اگر… بقولِ پرويز… اسلامى نظام كى علمبردار حكومت اور اس كے افسروں كو رسول اللہ كے زمانے كے فيصلوں كو تبديل يا منسوخ كرنے كا اختيار دے ديا جائے تواس طرح اللہ تعالىٰ كى طرف سے آپ پر وحى كا نزول بے معنى ہو كر رہ جاتا ہے بلکہ بايں طور تو آپ كے فرمودات كا آپ كے كسى اُمتى كے قول و فعل سے بھی كوئى امتياز باقى ہیں رہتا- حالانکہ اللہ تعالىٰ كے رسول كى طرف سے بعض احكام كا نسخ اپنى مرضى سے نہیں بلکہ اللہ تعالىٰ كى وحى سے ہوتا تھا- ليكن مسٹر پرويز كے خود ساختہ رسول (اسلامى حكومت) كا ردّوبدل اور نسخ اپنى ہوائے نفس سے ہوگا اور وحى الٰہى كے خلاف بھی- مسٹر پرويز كو نجانے ايسے كفریہ عقائد اپنانے اور انہیں لوگوں تك پہنچانے ميں كيا لذت آتى تہى کہ وہ ان سے توبہ كرنے كى بجائے اُلٹا انہیں اپنى سب تصنيفات ميں دہراتے رہتے تھے، جيسا کہ وہ لکھتے ہیں:

”قرآن ميں جہاں ’اللہ اور رسول‘كے الفاظ اكٹھے آتے ہیں، وہاں اس سے مراد اسلامى نظامِ حكومت ہے جو خدا كے احكام نافذ كرنے كے لئے متشكل ہوتا ہے-“ (قرآنى فيصلے، ج١ ص٢٣٧)
اندھى عقيدت سے بالاتر ہو كر پرويزى لٹريچر كا مطالعہ كرنے والے شخص پر یہ بات مخفى نہیں ہے کہ مسٹر پرويز عام طور پر اپنى تاليفات ميں اپنى لفاظى كا جادو دکھانے كى كوشش كرتے ہیں اور لفظى ہيرا پھيرى سے وہ عامۃ الناس كو اپنے جال ميں پھانسنے كى تاك ميں رہتے ہیں جيسا کہ وہ مذكورہ اقتباس ميں اور اس جيسے ديگر مقامات ميں کہا كرتے ہیں کہ
”قرآن ميں جہاں ’اللہ اور رسول‘كے الفاظ اكٹھے آتے ہیں،وہاں اس سے مراد اسلامى نظامِ حكومت ہوتا ہے-“
اس سے عام قارى یہى سمجھتا ہے کہ مسٹر پرويز كے ہاں اللہ اور رسول سے اسلامى نظامِ حكومت اسى وقت مراد ہے جبکہ یہ دونوں لفظ اكٹھے آجائيں ليكن یہ الفاظ ايك دوسرے سے جدا ہو كر استعمال ہوں تو پھر شايد اس كے ہاں اللہ سے مراد ذات ِبارى تعالىٰ اور رسول سے مراد محمد رسول اللہ كى شخصيت ہوتى ہے- حالانکہ ايسا ہرگز نہیں ہے، اور نہ ہى كسى شخص كو اس مغالطہ كاشكار ہونا چاہئے- بلکہ مسٹرپرويز كے نزديك رسول كا لفظ خواہ لفظ اللہ سے مل كر استعمال ہو يا اُس سے جدا ہو كر، بہرحال اس سے ہر دور كى ’مركزى اتھارٹى‘ ہى مراد ہوتى ہے جيسا کہ اس نے آيت ﴿ وَاِذَا جَاءَ ہمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہ وَلَوْ رُدُّوْہ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلىٰ اُوْلِىْ الْاَمْرِمِنْہمْ لَعَلِمَہ الَّذِيْنَ يَسْتَنْبِطُوْنَہ مِنْہمْ … ﴾ (النساء: ٨٣) كا مفہوم بيان كرتے ہوئے لکہا ہے :

”ان كے دعوائے اطاعت كوشى كى یہ كيفيت ہے کہ جب كہیں سے امن يا خوف كى اُڑتى ہوئى سى بات سن پاتے ہیں تو اسے لے دوڑتے ہیں اور خوب پھيلاتے ہیں- حالانکہ نظام سے وابستگى اور اطاعت كا تقاضا ہے کہ ايسى باتوں كو رسول (يعنى مركزى اتھارٹى) يا اپنے افسرانِ ماتحت تك پہنچا يا جائے تاکہ وہ لوگ جو بات كى تہہ تك پہنچنے كى صلاحيت رکھتے ہیں، اس كى اچھى طرح جانچ پڑتال كر ليں-“ (مفہوم القرآن، ج١ ص٢٠٥)
ديکھئے يہاں لفظ ’رسول‘ كومسٹر پرويز نے مركزى اتھارٹى سے تعبير كيا ہے، اس لئے کہ لفظ ’رسول‘ خواہ لفظ ’اللہ‘ سے مل كر آئے يا اُس سے جدا ہو كر، دونوں صورتوں ميں مسٹر مذكور كے ہاں اس سے مركزى اتھارٹى يا مركز ِملت مراد ہوتا ہے- اس كے ہاں ان سے مراد ذات ِبارى تعالىٰ اور محمد رسول اللہ كى شخصيت ہرگز نہیں ہوتى-

بالكل ويسے ہى جيسے کہ غلام احمد پرويز كو اپنے داد ا رحيم بخش كے ساتھ ملا كر ذكر كيا جائے يا اس سے جدا كركے، دونوں صورتوں ميں اس سے مراد وہى شخص ہوگا جو اپنى پورى زندگى فرنگى اَفكار كو قرآن كے نام پر لوگوں كے سامنے پيش كركے ان كى عقلوں سے کھيلتا رہا، او ر امت ِمسلمہ كے اَسلاف كو سازشى قرار دے كر خود اسلام كا علمبردار اور اس كا ٹھيكے دار بنتا رہا-

مسٹرپرويز اگر اپنى كسى كتاب ميں محمد رسول اللہ كا نام نامى ذكر بھی كرتے ہیں، تو اس كے ہاں اس سے مراد بھی وہ ذات ِرسالتما ٓب نہیں ہوتى جن پر اللہ تعالىٰ كى طرف سے وحى نازل ہوتى تھى بلکہ وہ حضرت محمد كو بھی ايك ريفارمر(مصلح) كى حيثيت سے ليتے ہیں، اور آپ پر من جانب اللہ وحى كے نزول كے منكر ہیں ، جيسا کہ وہ لکھتے ہیں :

”دوسرى طرف ہمارا مذہب پرست طبقہ ہے - وہ بھی حقيقت كو بالعموم جس انداز سے پيش كرتا ہے، اس سے نہ صرف یہ کہ حقيقت كما ہى سامنے نہیں آتى بلکہ ان كے بيان سے جو تصوير ذہن ميں مرتسم ہوتى ہے ، اس سے رسول كا صحيح مقام نگاہوں كے سامنے نہیں آتا، یہ کہتے ہیں کہ آپ مامور من اللہ تھے جو كچھ اللہ تعالىٰ آپ كو حكم ديتا ، آپ اس كى تعميل كرتے تھے-“ (معراجِ انسانيت از پرويز: ص ١٧٤)
حالانکہ پرويز كے ہاں صحت كے اعتبار سے شرفِ قبوليت حاصل كرنے والى كتاب المفردات ميں اللہ تعالىٰ كى طرف سے وحى پانے والى شخصيت كو ہى نبى کہا گيا ہے-امام راغب فرماتے ہیں :

”النبوة سفارة بين اللہ وبين ذوي العقول من عبادہ لإزاحة علتہم في أمر معادہم ومعاشہم“ (المفردات: ص٤٨٢)
”نبى اللہ تعالىٰ اور اس كے اہل عقل بندوں كے درميان پيغامبر ہوتا جو ان كى دنيا اور آخرت كے معاملات ميں واقع ہونے والے فساد كا اِزالہ كرنے كے لئے بھیجا جاتا تھا- “
اور قرآنِ كريم كى متعدد آيات ميں آپ پر وحى كے نزول كى صراحت موجود ہے- اس لئے مسٹر پرويز مسلمانوں كے اجماع كے خلاف ’رسول‘ كے لفظ سے مركزى اتھارٹى يا مركز ِملت مراد لے كر اور آپ كے مامور من اللہ ہونے كا انكار كركے دائرہ اسلام سے خارج ہوچكے ہیں-
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
آخرت پر ايمان

اسلامى عقائد ميں، ’يومِ آخرت‘ پر ايمان لانے كو جو اہميت حاصل ہے، اس سے ہر صاحب ِ ايمان شخص بخوبى واقف ہے، اور وہ على وجہ البصيرت اس بات كو جانتا ہے کہ اس دنيا كى زندگى كے بعد موت ہے اور موت كے بعد قيامت كے دن ہر شخص كو زندہ كركے اٹھايا جائے گا اور ہر مردوزَن اللہ تعالىٰ كى عدالت ميں پيش ہو كر اچھے يا برے اعمال كا حساب دے گا-

چونکہ اللہ تعالىٰ نے اپنى ہدايت كى كتابوں كے ذريعہ اور انبياءِ كرام كو مبعوث كركے اچھے يا برے اَعمال سے لوگوں كو آگاہ كرديا، لہذا آخرت كے دن نيك اَعمال سرانجام دينے والے لوگ مقامِ جنت ميں اللہ تعالىٰ كے مہمان ہوں گے اور وہ اپنے اچھے عملوں كى جزا ديئے جائيں گے، اور شريعت ِالٰہیہ سے ہٹ كر زندگى گزارنے والے لوگ جہنم رسيد كئے جائيں گے اور اپنے بُرے اعمال كى سزا پائيں گے- اور قرآن كريم واشگاف الفاظ ميں اس بات كى طرف راہنمائى كرتا ہے کہ جنت اور جہنم دو مقام ہیں جو اللہ تعالىٰ نے نيك اور بد لوگوں كى جزا اور سزا كے لئے تيار كر رکہے ہیں، جيسا کہ ارشادِ بارى تعالىٰ ہے:

﴿فَاَمَّا مَنْ طَغٰى وَاٰثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا فَاِنَّ الْجَحِيْمَ ہىَ الْمَأوٰى وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہ وَنَہٰى النَّفْسَ عَنِ الْہوَى فَاِنَّ الْجَنَّةَ ہىَ الْمَأوٰى﴾ (النازعات: ٣٧ تا ٤١)
” جس شخص نے سركشى اور شرارت كى زندگى گذارى اور دنيا كى زندگى كو ہى ترجيح دى تو جہنم اس كا مقام ہوگا، ليكن جو شخص اپنے ربّ كے سامنے حساب دينے سے ڈر كر زندگى بسر كرتا رہا او راپنے آپ كو نفسانى خواہشات سے روكتا رہا تو اس كا مقام جنت ہوگا-“
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
پرويز كے نزديك ’جہنم‘ سے مراد


آب آئيں ديكھیں، پرويزمسلمانوں كے ہاں مسلمہ عقيدہٴ آخرت كى كيسے تحريف كرتا ہے اور جنت وجہنم كے دو مقام ہونے سے انكار كرتا ہے، بلکہ وہ جنت و جہنم كو اپنے قلم كے زور سے دنيا ميں ہى کھينچ لانے كے درپے ہے، اور لکھتا ہے :

”جہنم انسان كى قلبى كيفيت كا نام ہے، ليكن قرآنِ كريم كا انداز یہ ہے کہ وہ غير محسوس، مجرد حقائق كو محسوس مثالوں سے سمجھاتا ہے-“ (جہانِ فردا: ص ٢٣٥)
مسٹر پرويز جہنم كو حقيقت سے خالى، غير محسوس قلبى كيفيت كا نام ديتا ہے، اور اس كے مخصوص مقام كا نام ہونے سے انكار كرتا ہے، اور اس كا یہ نظریہ فرمانِ الٰہى كے خلاف ہے جس ميں فاسق و فاجر لوگوں كے جہنم ميں داخل ہونے كى صراحت پائى جاتى ہے،

اِرشادِ بارى تعالىٰ ہے:
﴿كَلاَّ اِنہمْ عَنْ رَّبِّہمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ ثُمَّ اِنہمْ لَصَالُوْا الْجَحِيْمَ، ثُمَّ يُقَالُ ہٰذَا الَّذِىْ كُنْتُمْ بِہ تُكَذِّبُوْنَ﴾( المطفّفين:١٥تا١٧)
”وہ (مجرم لوگ) اس (قيامت كے) دن اپنے ربّ تعالىٰ (كے ديدار) سے روك ديئے جائيں گے، اس كے بعد وہ جہنم ميں داخل ہوں گے پھر ان سے کہا جائے گا یہ وہى جہنم ہے جسے تم (دنيا ميں) جھٹلايا كرتے تھے-“

مسٹر پرويز كو سوچنا چاہئے تھا کہ اگر جہنم غير محسوس قلبى كيفيت كا نام ہے، جيسا کہ ان كا زعم باطل ہے تو اس ميں داخل ہونے كا كيا معنى ہے؟اور كسى شخص كو قلبى كيفيت ميں داخل ہونے كا حكم كيسے ديا جاسكتا ہے؟ قرآنِ كريم ميں مجرمين كے جہنم ميں داخل ہونے كا فرمان موجود ہے تو ا س كا مطلب یہ ہے کہ جہنم قلبى كيفيت نہیں ہے، بلکہ ايك مقام كا نام ہے، جس ميں مجرم لوگ داخل كئے جائيں گے اور داخلہ كسى محسوس مقام ميں ہى ہوتا ہے قلبى كيفيت ميں نہیں، اور ﴿ثُمَّ يُقَالُ ہٰذَا الَّذِىْ كُنْتُمْ بِہ تُكَذِّبُوْنَ﴾ ميں جہنم كے متعلق ﴿ہٰذَا﴾ اسم اشارہ كا استعمال كرنا اس بات كى دليل ہے کہ جہنم محسوس چيز كا نام ہے كيونکہ كسى محسوس چيز كى طرف اشارہ كركے ہى یہ کہا جاسكتا ہے کہ یہ وہى جہنم ہے جسے تم دنيا ميں ماننے كے لئے تيار نہیں تھے- بنابريں پرويز كا اسے قلبى كيفيت بتانا اور اسے غير محسوس، حقيقت سے خالى حالت قرار دينا ايسا فكر ہے جو سراسر قرآنى نصوص كے خلاف ہے
 
Top