• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسیحی رہبانیت کے کرشمے

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مسیحی رہبانیت کے کرشمے

مدثر لطیف​
سیدنا عیسیٰ﷤ کے بعد دو سو سال بعد تک عیسائی کلیسا رہبانیت سے ناآشنا تھا، مگر عیسیٰ﷤ کے دُنیا سے اُٹھا لیے جانے کے فوراً بعد سے ہی عیسائیت میں اس کے جراثیم داخل ہو گئے تھے، وہ تخیلات پیدا ہو گئے تھے جو اس چیز کو جنم دیتے ہیں۔ ترکِ دُنیا و تجرد کو اخلاقی آئیڈیل قرار دینا اور درویشانہ زندگی کو شادی بیاہ اور دُنیوی کاروبار کی زندگی کے مقابلے میں اعلیٰ و افضل سمجھنا ہی رہبانیت کی بنیاد ہے اور یہ دونوں چیزیں مسیحیت میں ابتدا سے ہی آ گئی تھیں۔ تجرد کو تقدس کا ہم معنی سمجھنے کی وجہ سے کلیسا میں مذہبی خدمات انجام دینے والوں کیلئے یہ بات ناپسندیدہ خیال کی جاتی تھی کہ وہ شادی کریں، بال بچوں والے ہوں اور خانہ داری کے بکھیڑوں میں پڑیں۔ اسی چیز نے تیسری صدی تک پہنچتے پہنچتے ایک فتنے کی شکل اختیار کرلی اور رہبانیت ایک وبا کی طرح عیسائیت میں پھیلنا شروع ہوئی۔ تاریخی طور پر اس کے تین بڑے اسباب تھے:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(1) قدیم مشرک سوسائٹی میں شہوانیت، بدکرداری اور دُنیا پرستی جس شدت کے ساتھ پھیلی ہوئی تھی اس کا توڑ کرنے کیلئے عیسائی علما نے اعتدال کی راہ اختیار کرنے کی بجائے، انتہا پسندی کی راہ اختیار کی۔ اُنہوں نے دُنیا پرستی کے خلاف اتنی شدت برتی کہ آخر کار ایک دیندار آدمی کیلئے کسی قسم کی املاک رکھنا ہی گناہ بن گیا اور اخلاق کا معیار یہ ٹھہرا کہ آدمی بالکل مفلس اور ہر لحاظ سے تارکِ دُنیا ہو۔ اسی طرح مشرک سوسائٹی کی لذت پرستی کے جواب میں وہ اس انتہا پر جا پہنچے کہ لذات کو ترک کرنا، نفس کو مارنا اور خواہشات کا قلع قمع کر دینا ہی ا خلاق بن گیا اور طرح طرح کی ریاضتوں سے جسم کو اذیتیں دینا آدمی کی روحانیت کا کمال اور ا س کا ثبوت سمجھا جانے لگا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(2) ہورس (Horus) اور آئسس (Isis) کے مجسّموں کی جگہ سیدنا مسیح اور مریم علیہا السلام کے بت پوجے جانے لگے۔ سیٹرنیلیا (Saturnalia) کی جگہ کرسمس کا تہوار منایا جانے لگا۔ قدیم زمانے کے تعویذ، گنڈے، عملیات، فال گیری، غیب گوئی اور جن بھوت بھگانے کے اعمال سب عیسائی درویشوں نے شروع کر دیئے۔ اور عوام چونکہ اس شخص کو اللہ والا سمجھتے تھے جو گندا اور ننگا ہو اور کسی بھٹ یا کھوہ میں رہے لہٰذا عیسائی کلیسا میں ولائیت کا یہی تصور مقبول ہوگیا اور ایسے ہی لوگوں کی کرامتوں سے عیسائیوں کے ہاں تذکرۃ الاولیا قسم کی کتابیں لبریز ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(3) عیسائیوں کے پاس دین کی سرحدیں متعین کرنے کیلئے کوئی مفصل شریعت اور کوئی واضح سنت موجود نہ تھی۔ شریعت ِموسوی﷤ وہ چھوڑ چکے تھے اور تنہا انجیل کے اندر کوئی مکمل ہدایت نامہ نہ پایا جاتا تھا، اس لئے مسیحی علما کچھ باہر کے فلسفوں سے متاثر ہوکر اور کچھ خود اپنے رجحانات کی بنا پر طرح طرح کی بدعتیں دین میں داخل کرتے چلے گئے۔ رہبانیت بھی انہی بدعتوں میں سے ایک تھی۔ مسیحی مذہب کے رہبان اور قسیسین نے اس کا فلسفہ اور طریقہ کار بدھ مذہب کے بھکشوؤں، ہندو جوگیوں اور سنیاسیوں، قدیم مصری فقرا (Anchorites)، ایران کے مانویوں اور افلاطون اور فلاطینوس کے پیرو اشراقیوں سے اَخذ کیا اور اسی کو تزکیۂ نفس کا طریقہ، روحانی ترقی کا ذریعہ اور تقرب الی اللہ کا وسیلہ قرار دے دیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیوں میں رہبانیت کا آغاز مصر سے ہوا۔ اس کا بانی سینٹ انتھونی (Anthony) تھا، جو ۲۵۰ء میں پیدا ہوا اور۳۵۰ء میں دُنیا سے رخصت ہوا۔ سینٹ انتھونی پہلا مسیحی راہب قرار دیا جاتا ہے جس نے ضوم کے علاقے میں پسپیر کے مقام پرجو اب دیر الحمیمون کے نام سے معروف ہے، پہلی خانقاہ قائم کی۔ اس کے بعد اس نے بحر اَحمر کے ساحل پر دوسری خانقاہ قائم کی جسے اب دیر مارانطونیوس کہا جاتا ہے۔ عیسائیوں میں رہبانیت کے بنیادی قواعد اسی کی تحریروں اور ہدایات سے ماخوذ ہیں۔ اس کے بعد یہ سلسلہ مصر میں سیلاب کی طرح پھیل گیا اور جگہ جگہ راہبوں اور راہبات کیلئے خانقاہیں قائم ہوگئیں، جن میں سے بعض میں تین تین ہزار راہب بیک وقت رہتے تھے۔ ۳۲۵ء میں مر ہی کے اندر ایک اور مسیحی ولی پاخومیوس نمودار ہوا جس نے دس بڑی خانقاہیں راہبوں وراہبات کیلئے بنائیں۔ اس کے بعد یہ سلسلہ شام وفلسطین اور افریقہ ویورپ کے مختلف ملکوں میں پھیلتا چلا گیا۔ کلیسائی نظام کو اوّل اوّل اس رہبانیت کے معاملے میں سخت الجھن کا سابقہ پیش آیا کیونکہ وہ ترکِ دنیا اور تجرد کو روحانی زندگی کا آئیڈیل تو سمجھتا تھا، مگر راہبوں کی طرح شادی بیاہ اور اولاد پیدا کرنے اور ملکیت رکھنے کو گناہ بھی نہ ٹھہرا سکتا تھا۔اس راہبانہ بدعت کی چند خصوصیات اختصار سے عرض ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
1۔سخت ریاضتوں اور نت نئے طریقوں سے اپنے جسم کو اذیتیں دینے میں ہر راہب دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا تھا۔ عیسائی اولیا کے تذکروں میں ان لوگوں کے جو کمالات بیان کئے گئے ہیں وہ کچھ اس طرح کے ہیں: اسکندریہ کا سینٹ مکاربوس ہر وقت اپنے جسم پر ۸۰ پونڈ کا بوجھ اٹھائے رکھتا تھا، چھ مہینے تک وہ ایک دلدل میں سوتا رہا اور زہریلی مکھیاں اس کے برہنہ جسم کو کاٹتی رہیں۔ اس کے مرید سینٹ یوسپیوس نے اپنے پیر ومرشد سے بڑھ کر ریاضت کی، وہ ۱۵۰ پونڈ کا بوجھ اٹھائے پھرتا رہتاتھا اور تین سال تک ایک خشک کنوئیں میں پڑا رہا۔ سینٹ سابیوس صرف ایسی مکئی کھاتا تھا جو مہینہ بھر پانی میں بھیگ کر بدبودار ہو جاتی تھی۔ سینٹ بیساریون ۴۰ دن تک خاردار جھاڑیوں میں پڑا رہا اور ۴۰ سال تک اس نے زمین کو پیٹھ نہیں لگائی۔ سینٹ سیمون اسٹائلائٹ عیسائیوں کے اولیائے کبار میں شمار ہوتا ہے، اس کے بارے میں آتا ہے کہ اس نے شمالی شام کے قلع سیمان کے قریب ساٹھ فٹ بلند ایک ستون بنوایا، جس کا بالائی حصہ صرف تین فٹ کے گھیرے میں تھا اور اوپر کٹہرا بنا دیا گیا تھا، اس ستون پر اس نے پورے تین سال گزار دیئے، دھوپ، بارش، سردی اور گرمی اس پر سے گزرتی تھی لیکن وہ اس ستون سے نہ اُترتا تھا، پھر اس نے ایک رسی لے کر اپنے آپ کو اس ستون سے باندھ لیا یہاں تک کہ رسی اس کے گوشت میں پیوست ہوگئی، گوشت سڑ گیا اور اس میں کیڑے پڑ گئے، جب کوئی کیڑا اس کے پھوڑوں سے گر جاتا تو وہ اسے اُٹھا کر پھر وہیں رکھ کر کہتا: ’’کھا! جو کچھ خدا نے تجھے دیا ہے۔‘‘ مسیحی عوام دور دور سے اس کی زیارت کیلئے آتے تھے، جب وہ مرا تو مسیحی عوام کا یہ فیصلہ تھا کہ وہ عیسائی ولائیت کی بہترین مثال تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
2 ۔وہ بروقت گندے رہتے اور صفائی سے سخت پرہیز کرتے تھے، نہانا یا جسم کوپانی لگانا ان کے نزدیک خدا پرستی کے خلاف تھا۔ سینٹ اتھاناسیوس بڑی عقیدت کے ساتھ سینٹ انتھونی کی یہ خوبی بیان کرتا ہے کہ اس نے مرتے دم تک کبھی اپنے پاؤں نہیں دھوئے۔ سینٹ ابراہام جب سے داخل مسیحیت ہوا، پورے ۵۰ سال اس نے منہ دھویا نہ پائوں۔ ایک مشہور راہبہ کنواری سلویا نے عمر بھر اپنی انگلیوں کے علاوہ جسم کے کسی حصے کوپانی نہیں لگنے دیا۔ ایک زنانہ دیر (Convent) کی ۱۳۰ راہبات کی تعریف میں لکھا ہے کہ انہوں نے کبھی اپنے پاؤں نہیں دھوئے اور غسل کا نام سن کر ہی ان کے بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
3۔ رہبانیت نے ازدواجی زندگی کو عملاً بالکل حرام کردیا اور نکاح کے رشتے کو کاٹ پھینکنے میں سخت بے دردی سے کام لیا۔ ان کے نزدیک لذت اور گناہ ہم معنی تھے، حتیٰ کہ مسرت بھی ان کی نگاہ میں خدا فروشی کے مترادف تھی۔ سینٹ یاسل ہنسنے اور مسکرانے تک کو ممنوع قراردیتا ہے۔ انہی تصورات کی بنا پر مرد وعورت کے درمیان شادی کا تعلق ان کے ہاں قطعی نجس قرار پا گیا تھا۔ راہب کیلئے ضروری تھا کہ وہ شادی کرنا تو درکنار، عورت کی شکل تک نہ دیکھے اور اگر شادی شدہ ہو تو بیوی کو چھوڑ کر نکل جائے۔ مردوں کی طرح عورتوں کے دل میں بھی یہ بات بٹھائی گئی تھی کہ وہ آسمانی بادشاہت میں داخل ہونا چاہتی ہیں تو ہمیشہ کنواری رہیں اور اگر شادی شدہ ہیں تو اپنے شوہروں سے الگ ہو جائیں۔ ممتاز مسیحی عالم سینٹ جیروم کہتا ہے کہ جو عورت مسیح کی خاطر راہبہ بن کر ساری عمر کنواری رہے تو وہ مسیح کی دلہن ہے اور اس کی ماں کو مسیح کی ساس ہونے کا شرف حاصل ہے۔ سینٹ نائلس دو بچوں کا باپ تھا، جب اس پر رہبانیت کا دورہ پڑا تو اس کی بیوی روتی رہ گئی اور وہ اس سے الگ ہو گیا۔ سینٹ امون نے شادی کی پہلی رات ہی دلہن کو ازدواجی تعلق کی نجاست پر وعظ سنایا اور دونوں نے بالاتفاق طے کر لیا کہ جیتے جی ایک دوسرے سے الگ رہیں گے۔ سینٹ ابراہام شادی کی پہلی رات ہی اپنے بیوی کو چھوڑ کر فرار ہوگیا، یہی حرکت سینٹ ایلیکسس نے کی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کلیسا کا نظام تین صدیوں تک اپنی حدود میں ان انتہا پسندانہ تصورات کی کسی نہ کسی طرح مزاحمت کرتا رہا۔ اس زمانے میں ایک پادری کیلئے مجرد ہونا لازمی نہ تھا۔ اگر اس نے پادری کے منصب پر فائز ہونے سے پہلے شادی کر رکھی ہوتی تو وہ بیوی کے ساتھ رہ سکتا تھا، البتہ تقرر کے بعد شادی کرنا اس کیلئے ممنوع تھا۔ نیز کسی ایسے شخص کو پادری مقرر نہیں کیا جاسکتا تھا جس نے کسی بیوہ یا مطلقہ سے شادی کی ہو، جس کی دو بیویاں ہوں یا جس کے گھر میں لونڈی ہو، رفتہ رفتہ چوتھی صدی میں یہ خیال پوری طرح زور پکڑ گیاکہ جو شخص کلیسا میں مذہبی خدمات انجام دیتا ہو، اس کیلئے شادی شدہ ہونا بڑی گھناؤنی بات ہے۔ ۳۶۲ء میں گنگرا کونسل (Council of Gengra) کی آخری مجلس میں اس طرح کے انتہائی خیالات کو خلافِ مذہب قرار دیا گیا، لیکن اس کی تھوڑی مدت بعد ہی ۳۸۶ء کی رومن سیناڈ (Synod) نے تمام پادریوں کو مشورہ دیا کہ وہ ازدواجی تعلقات سے کنارہ کش رہیں۔ دوسرے سال پوپ سائریسیئس (Siricius) نے حکم دے دیا کہ جو پادری شادی کرے یا شادی شدہ ہونے کی صورت میں اپنی بیوی سے تعلق رکھے، اُسے منصب سے معزول کر دیا جائے۔ سینٹ جیروم، سینٹ ایمیروز اور سینٹ آگسٹائن جیسے اَکابر علما نے بڑے زور وشور سے اس فیصلے کی حمایت کی اور تھوڑی سی مزاحمت کے بعد مغربی کلیسا میں یہ پوری شدت کے ساتھ نافذ ہوگیا۔ اس دور میں متعدد مجلسیں ان شکایات پر غور کرنے کیلئے منعقد ہوئیں کہ جو لوگ پہلے سے شادی شدہ تھے وہ مذہبی خدمات پر مقرر ہونے کے بعد بھی اپنی بیویوں کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھتے ہیں۔ آخر کار اس کی اصلاح کیلئے یہ قواعد بنائے گئے کہ وہ کھلے مقامات پر سوئیں، اپنی بیویوں سے کبھی علیحدگی میں نہ ملیں، ملاقات کے وقت کم از کم دو آدمی موجود ہوں۔ سینٹ گریگوری ایک پادری کی تعریف میں لکھتا ہے کہ ۴۰ سال تک وہ اپنی بیوی سے الگ رہا، حتیٰ کہ مرتے وقت جب اس کی بیوی اس کے قریب گئی تو اس نے کہا: اے عورت! دور ہٹ جا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
4۔ سب سے زیادہ دردناک باب اس رہبانیت کا یہ ہے کہ اس نے ماں باپ، بھائی بہن اور اولاد تک سے آدمی کا رشتہ کاٹ دیا۔ مسیحی اولیا کے تذکروں میں ا س کے ایسے ایسے دلدوز واقعات ملتے ہیں جنہیں پڑھ کر انسان کیلئے ضبط کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
ایک راہب ایواگرئیس (Evagrius) سالہا سال سے صحرا میں ریاضتیں کررہا تھا، ایک روز یکایک اس کے پاس اس کی والدین کے خطوط پہنچے جو برسوں سے اس کی جدائی میں تڑپ رہے تھے، اسے اندیشہ ہوا کہ کہیں ان خطوط کو پڑھ کر اس کے دل میں انسانی محبت کے جذبات نہ جاگ اٹھیں، اس نے ان کو کھولے بغیر آگ میں جھونک دیا۔ سینٹ مارکس (Marcus) کی ماں ا س سے ملنے کیلئے اس کی خانقاہ میں آئی، خانقاہ کے شیخ (Abbot) کی خوشامد کرکے اس کو راضی کیا کہ وہ بیٹے کو ماں کے سامنے آنے کا حکم دے مگر بیٹا کسی طرح ماں کے سامنے نہ آناچاہتا تھا، آخر کار اس نے شیخ کے حکم کی تعمیل اس طرح کی کہ بھیس بدل کر ماں کے سامنے گیا اور آنکھیں بند کرلیں، اس طرح ماں نے بیٹے کو پہچانا نہ بیٹے نے ماں کی شکل دیکھی۔ اس سے بھی زیادہ دردناک قصہ سینٹ سیمون اسٹائلائٹس (Simoon Stylites) کا ہے جو ماں باپ کو چھوڑ کر ۲۷ سال غائب رہا، باپ اس کے غم میں مرگیا، ماں زندہ تھی، بیٹے کی ولایت کے چرچے جب دور ونزدیک پھیل گئے اور ماں کوپتہ چلا، بے چاری اس سے ملنے کیلئے خانقاہ پر پہنچی مگر وہاں کسی عورت کو داخلے کی اجازت نہ تھی، اس نے لاکھ منت سماجت کی کہ بیٹا! یا تو مجھے اندر بلا لے یا باہر نکل کر مجھے اپنی صورت دکھا دے، مگر اس ولی اللہ نے صاف انکار کردیا، تین دن اور تین راتیں وہ خانقاہ کے دروازے پر پڑی رہی اور آخر کار وہاں لیٹ کر جان دے دی، تب ولی اللہ باہر آئے، ماں کی نعش پر آنسو بہائے اور اس کی مغفرت کیلئے دُعا کی۔ ایک شخص میویٹس (Mutius) کے بارے میں آتا ہے کہ وہ خوشحال آدمی تھا، جب اس پر مذہبی جذبہ طاری ہوا تو اپنے آٹھ سال کے اکلوتے بیٹے کو لے کر ایک خانقاہ میں جا پہنچا، وہاں اس کے دل سے بیٹے کی محبت کو نکالنے کیلئے بیٹے پر طرح طرح کی سختیاں کی جاتی رہیں، پھر اس کو خانقاہ کے شیخ نے حکم دیا کہ اس کو د ریا میں پھینک دے، جب وہ پھینکنے لگا تو اس وقت راہبوں نے اس کی جان بچائی اور تسلیم کر لیا کہ وہ واقعی مرتبہ ولایت کو پہنچ گیا ہے۔ مسیحی رہبانیت کا نقطۂ نظر ان معاملات میں یہ تھا کہ جو شخص ’خدا‘ کی محبت چاہتا ہو تو اسے وہ تمام زنجیریں کاٹ دینی چاہئیں جو دُنیا میں اسے اپنے والدین، بہن بھائیوں اور بچوں کے ساتھ باندھتی ہیں۔
 
Top