• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مس الذکر پر وضو واجب ہے، مستحب نہیں!

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اسلام علیکم،

: أَخْبَرَتْنِي بُسْرَةُ بِنْتُ صَفْوَانَ: أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِذَا مَسَّ أَحَدُكُمْ ذَكَرَهُ فَلْيَتَوَضَّأْ» .

بسرۃ بنت صفوان سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا: "جب تم میں سے کوئی اپنی شرم گاہ کو چھوئے تو وضوء کرے"
ترمذی وغیرہ

عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ، هُوَ الْحَنَفِيُّ عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ وَهَلْ هُوَ إِلاَّ مُضْغَةٌ مِنْهُ أَوْ بَضْعَةٌ مِنْهُ ‏"‏

طلق بن علی رضی اللہ عنہ نبی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: "کیا وہ تیرے ہی گوشت کا حصہ نہیں"
ترمذی وغیرہ

اب حنفی بھائی ان دو حدیثوں میں یہ تطبیق کرتے ہیں کہ بسرۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث استحباب پر محمول ہے، جبکہ طلق رضی اللہ عنہ کی حدیث جواز پر۔

لیکن، استحباب کیسے ثابت ہو سکتا ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری ہی حدیث میں وضو کے "واجب" ہونے کا صریح بیان دیا ہے؟؟

امام ابن عبد البر التمہید میں نقل کرتے ہیں:

أخبرنا خَلَف بْن الْقَاسِم حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ السَّكَنِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ مِهْرَانَ السَّرَّاجُ، قَالا: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ سُلَيْمَانَ الْبَزَّارُ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمَدَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ أَبِي نُعَيْمٍ، وَيَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: " مَنْ أَفْضَى بِيَدِهِ إِلَى فَرْجِهِ لَيْسَ دُونَهَا حِجَابٌ، فَقَدْ وَجَبَ عَلَيْهِ الْوُضُوءُ "

جہاں تک میرا خیال ہے اس کی سند کم از کم حسن ہے:

1- خلف بن القاسم
ان کے بارے میں امام ذہبی نے فرمایا:
"كان حافظًا فَهْمًا، عارفًا بالرجال. صنّف حديث مالك، وحديث شُعْبَة، وأشياء فِي الزُّهد."
(تاریخ الاسلام: 27/285)

انہوں نے ی بھی فرمایا:
"الحَافِظُ، الإِمَامُ المُتْقِنُ، أَبُو القَاسِمِ ابْنُ الدَّبَّاغِ الأَزْدِيُّ، الأَنْدَلُسِيُّ، القُرْطُبِيُّ."
سیر اعلام النبلا (17/113)

يوسف بن تغري بردي بن عبد الله الظاهري الحنفي نے کہا:
خلف بن القاسم بن سهل الحافظ أبو القاسم الأندلسىّ، كان يعرف بابن الدبّاغ، مولده سنة خمس وعشرين وثلثمائة، كان حافظا مكثرا جمع مسند الإمام مالك بن أنس رضى الله عنه، وحديث شعبة بن الحجّاج، وأسامى المعروفين بالكنى من الصحابة والتابعين وسائر المحدّثين، وكان أعلم الناس برجال الحديث والتواريخ والتفسير.
النجوم الزاهرة في ملوك مصر والقاهرة (4/211)

ابن العماد الحنبلی نے کہا:
أبو القاسم خلف بن القاسم بن سهل الأندلسي الحافظ، وهو إمام مقرئ، مصنف، ناقد.
شذرات الذهب (4/500)

ابن عساکر نے کہا:
خلف بن قاسم بن سهل ويقال له أيضا ابن سهلون بن أسود أبو القاسم المعروف بابن الدباغ كان محدثا مكثرا حافظا
(تاریخ دمشق 17/14)

ابن عبد البر نے کہا:
أما خلف بن القاسم بن سهل الحافظ فشيخ لنا وشيخ لشيوخنا أبي الوليد بن الفرضي وغيره، كتب بالمشرق عن نحو ثلاثمائة رجل، وكان من أعلم الناس برجال الحديث وأكتبهم له، وأجمعهم لذلك وللتواريخ والتفاسير ولم يكن له بصر بالرأي، يعرف بابن الدباغ وهو محدث الأندلس في وقته، وهذا آخر كلام ابن عبد البر.
بغية الملتمس في تاريخ رجال أهل الأندلس (1/288)

2- سعید بن السکن
ابن العماد الحنبلی نے ان کے بارے میں فرمایا:
أبو علي بن السّكن، الحافظ الكبير، سعيد بن عثمان بن سعيد بن السّكن المصري، صاحب التصانيف، وأحد الأئمة. سمع بالعراق، والشام، والجزيرة، وخراسان، وما وراء النهر، من أبي القاسم البغوي وطبقته، كالفربري، وابن جوصا. وممّن روى عنه ابن مندة، وعبد الغني بن سعيد، وكان ثقة حجّة، توفي في المحرم، وله تسع وخمسون سنة.
شذرات الذھب (4/279)

3- محمد بن ابراہیم جو کہ سعید بن السکن کے متابع ہیں، ان کا ابن الجوزی اور خطیب نے صدوق کہا۔

4- علی بن احمد بن سلیمان البزار
ابن یونس المصری نے ان کے بارے میں فرمایا:
كان ثقة كثير الحديث
تاریخ ابن یونس (1/355)

5- احمد بن سعید الحمدانی
ابن حبان نے ان کو ثقات میں نقل کیا۔ العجلی نے انہیں ثقہ کہا، اور ذہبی نے لا باس بہ کہا۔

آگے سے سند مشہور ہے، اور صحیح ہے۔

الغرض یہ مرفوع حدیث احناف کی تطبیق کو غلط ثابت کرتی ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اسے واجب قرار دیا ہے تو یہ استحباب پر محمول نہیں ہو سکتی!

علماء سے گذارش ہے کہ میری تصدیق یا تردید کریں!

جزاک اللہ خیرا۔
 
Top