• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مشاہیر قراء کرام کا تذکرہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مشاہیر قراء کرام کا تذکرہ

شیخ القراء قاری محمدیحییٰ رسولنگری​
اس سلسلہ کا ایک تفصیلی مضمون اسی سے قبل ماہنامہ رُشد قراء ات نمبر دوم میں صفحہ ۶۷۶ تا صفحہ ۷۵۵ پر شائع ہوچکا ہے جس میں تمام میادین علم کی علمی شخصیات کی علم تجوید و قراء ات کے ساتھ وابستگی کے حوالے سے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی گئی تھی۔ زیر نظر مضمون اگرچہ انتہائی مختصر ہے لیکن اس میں صرف متعدد علوم کے صرف معروف علماء کے علم قراء ات سے تعلق پربحث کی گئی ہے، نیز ان کے حالات زندگی سے بھی بالاختصار پردہ اُٹھایاگیا ہے۔
صاحب ِمضمون شیخ القراء قاری محمد یحییٰ رسولنگری﷾ نے یہ تحریر ادارۂ رُشد کی فرمائش پرقراء ات نمبر سوم کیلئے خاص طور پر ترتیب دی ہے۔ آپ کا تعلق ادارہ کلیۃ القرآن، جامعہ لاہور سے دو طرح قائم ہے۔ اولاً یوں کہ سرپرست ماہنامہ رُشد کے ساتھ مل کر کلیۃ القرآن کی بنیاد رکھنے اور اس کے فروغ کا باعث بننے والے جناب شیخ القراء قاری محمد ابراہیم میرمحمدی﷾ آپ کے خاص شاگرد ہیں۔ ثانیاً خود قاری صاحب﷾ آج کل کلیۃ القرآن، جامعہ لاہور کے اعزازی رئیس ہیں۔ بہرحال ہم قاری صاحب ممدوح کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے قیمتی مصروفیات سے ٹائم نکال کر یہ مضمون ہمیں ارسال فرمایا۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِسلام کی آفاقی تعلیمات ہم تک پہنچنے کا ذریعہ وہ مبارک ہستیاں ہیں جنہوں نے خیر قرون میں اَپنے سینوں میں قرآن وسنت کو محفوظ کیا اور زمانے کے حوادث سے بچا کر سو فیصد خالص شکل میں ہم تک پہنچا دیا۔ ان میں سے جن نفوسِ قدسیہ کے ذریعے قرآن کریم کے حروف وقراء ات ہم تک پہنچے ہیں ان کو تاریخ نے قراء کا نام دیا ہے جن میں سب سے جلیل القدر شخصیات صحابہ کرام﷢ کی ہیں، جن کی صفات وخصائل سے کتب بھری پڑی ہیں۔ صحابہ﷢ کے بعد مرورِ زَمانہ کے ساتھ جن لوگوں نے یہ ذمہ داری نبھائی یقینا وہ بھی اِس لائق ہیں کہ اُن کے فضائل ومناقب کو جمع کیا جائے اور خوبصورت اَلفاظ میں اُن کا ذکر خیر کیا جائے۔ انہی میں سے چند وہ اَشخاص جن کی خدمات کسی طرح بھی فراموش نہیں کی جاسکتیں ہم اُن کا ذکر کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَبوعبید قاسم بن سلام﷫
اَبوعبید قاسم بن سلام الخراسانی الانصاری البغدادی﷫ صاحبِ تصانیف ِکثیرۃ ہیں ان کی کتب فقہ، لغت اور شعر میںبھی ہیں لیکن آپ فنِ قراء ات بالخصوص رسم قرآن اور اَوقاف کے اِمام مانے جاتے ہیں۔
٭ علامہ ابوعمرو الدانی﷫ فرماتے ہیں:
’’ آپ نے علم قراء ات، اِمام کسائی، شجاع بن اَبی نصر، اِسماعیل بن جعفر اور حجاج بن محمد سے عرضاً و سماعاً حاصل کیا ہے۔ آپ سے بے شمار مخلوق نے قراء ات کو نقل کیا ہے۔ ‘‘
٭ امام دانی﷫ مزید فرماتے ہیں :
’’ آپ اپنے زمانے میں جمیع علوم کے جامع مانے جاتے تھے۔ آپ ثقہ اورعامل بالسنۃ مشہور تھے۔ محدثین میں سے بڑے بڑے علماء آپ کے شاگرد تھے مثلاً اِمام ابومحمد الدارمی﷫، ابوبکر بن اَبی الدنیا﷫، محمد بن یحییٰ المروزی﷫اور احمد بن یحییٰ البلاذری﷫ وغیرہم۔ آپ مقلد نہیں بلکہ ایک مجتہد اِمام تھے اور اِمام اللغۃ بھی مانے جاتے تھے۔‘‘
٭ اِمام اَحمد بن سلمہ﷫ کہتے ہیں:
’’ میں نے اِسحق بن راہویہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ اِمام ابوعبیدقاسم بن سلام مجھ سے بڑے فقیہ اور عالم ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ امام حسن بن سفیان﷫ کہتے ہیں :
’’ میں نے اسحق بن راہویہ کو کہتے ہوئے سنا کہ ہم اَبوعبید قاسم بن سلام کے محتاج ہیں وہ کسی کے محتاج نہیں ہیں۔‘‘
٭ اِمام عباس کہتے ہیں :
’’ میں نے اَحمد بن حنبل﷫ سے سنا وہ فرما رہے تھے کہ اَبوعبید قاسم بن سلام ایسا شخص ہے جو ہر روز ہم سے بھلائی میں بڑھ جاتا ہے۔‘‘
٭ شیخ عبداللہ بن طاہر فرماتے ہیں :
اِسلام میں چا ربڑے اِمام ہیں:
(١) عبداللہ بن عباس﷜ (٢) اِمام شعبی﷫ (٣) قاسم﷫ (٤) اَبوعبید قاسم بن سلام ﷫
یہ چاروں حضرات اَپنے اَپنے زمانے کے نابغۂ روزگار شخصیتں تھیں۔
اِمام ابن الانباری فرماتے ہیں :
’’ اِمام ابوعبید قاسم بن سلام﷫ رات کے تین حصے کرتے تھے۔ ایک حصہ سونے، ایک تصنیف و تالیف میں مشغول رہتے اور آخری حصہ نوافل و تسبیحات میں صرف کرتے۔ آپ﷫ کے بے شمار مناقب ہیں۔‘‘
۲۲۴ھ کو مکہ مکرمہ میں آپ نے وفات پائی ۔رحمۃ اﷲ علیہ رحمۃ واسعۃ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِمام ابن جریر طبری﷫
آپ کا اِسم گرامی ابوجعفر محمد بن جبیر بن یزید بن کثیر بن غالب الطبری ہے۔ آپ نے ۲۲۴ھ کو آمل طبرستان میں پیدا ہوئے۔ یہ وہی سال ہے جس سال اِمام ابوعبید قاسم بن سلام﷫ اِس دنیا فانی میں لیل و نہار بسر کرکے اپنے خالق حقیقی سے جاملے یعنی ایک اِمام کبیرروز وشب کی قید سے آزاد اور دوسرا قید ہوجاتا ہے۔
آپ کی طبیعت میں جب حصولِ علم کی رغبت پیدا ہوئی اس وقت آپ کی عمر۲۰ سال تھی یعنی عین جوانی کے اَیام میں علم حاصل کرنا شروع کیا۔ لہٰذا آپ نے سب سے پہلے اِسلامی دستور کے موافق قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی آپ کے پہلے شیخ سلیمان بن عبدالرحمن الطلحی ہیں۔ اِمام نافع﷫ کی قراء ت آپ نے الشیخ یونس بن عبدالاعلی سے پڑھی۔ آپ نے علم حدیث اِمام ابن ابی الشوارب، اِمام اسحاق بن اسرائیل، الشیخ اسماعیل بن موسیٰ الفراری اور الشیخ اَحمد بن منیع سے حاصل کیا۔
٭ ابن عساکر﷫ کہتے ہیں:
’’ آپ نے قرآن کریم کی مزید تعلیم بیروت میں الشیخ عباس بن ولیدسے حاصل کی۔‘‘
٭ اَبوبکر الخطیب﷫ کہتے ہیں :
’’ آپ علمی شخصیتوں کے درمیان اِمام مانے جاتے تھے۔ آپ کا فتویٰ چلتا تھا۔ علماء آپ کی رائے کی قدر کرتے تھے کیونکہ آپ علمی لحاظ سے بہت بلند مقام رکھتے تھے ،اپنے ہم عصروں میں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا۔ آپ قرآنِ کریم کے حافظ، فنِ قراء ات کے ماہر، شرعی علوم کے فقہیہ اور تفسیر قرآن میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔ علم حدیث میں آپ کو یدطولیٰ حاصل تھا۔ علم الرجال کے ماہر اور ضعیف و صحیح کو جانتے تھے۔ بالخصوص اَقوالِ صحابہ﷢اور تابعینِ عظام﷭ سے آپ خوف واقف تھے۔ آپ نے ہر فن میں کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ الشیخ ابومحمد الفرعانی﷫ فرماتے ہیں :
’’ آپ کے تلامذہ کی ایک بہت بڑی جماعت ہے آپ نے بے شمار کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ کہتے ہیں کہ آپ کی تصنیفات کو پوری زندگی کے اَیام پر تقسیم کیا جائے تو روزانہ کے چودہ ورق بنتے ہیں ، یہ بہت قلیل اَندازہ ہے۔‘‘
الشیخ ابوحامد الأسفرائینی ﷫جو فقہ شافعی کے بہت بڑے اِمام مانے جاتے ہیں، کہتے ہیں:
’’ اگر آدمی پوری دنیا کاچکر لگائے تو جس جس جگہ بھی جائے گا اُسے ابن جریر ﷫کی تفسیر قرآن مل جائے گی۔‘‘(ماخوذ اَز معرفۃ القراء: ۲۱۲)
آپ نے ماہ شوال ۳۱۰؍ھ بغداد میں وفات پائی۔ إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِمام ابومحمد مکی بن ابی طالب القیسی الاندلسی﷫
آپ کا مکمل اِسم گرامی اَبومحمد مکی بن اَبی طالب بن حموش بن محمد بن مختار القیسی المغربی القیروانی القرطبی الاندلسی۔
آپ ۳۳۵؍ھ میں اُندلس کے مشہور شہر قیروان میں پیدا ہوئے۔ آپ نے علم قراء ات اَبی طیب ابن غلبون﷫، ابن طاہر و ابی عبداللہ عبدالعزیز﷫سے حاصل کیا۔ نیز علی بن محمد الادفوری ﷫سے بھی سماع کیا ہے۔
آپ کے زمیل ابوعمر احمد بن مہدی المقری﷫ کہتے ہیں:
’’علامہ مکی بن ابی طالب﷫ علم قراء ات اور علومِ عربیہ کے متبحر عالم تھے آپ بے پناہ ذہین، اعلیٰ اَخلاق کے پیکر، معاملہ فہم اور دین میں اِنتہائی پختہ تھے۔ آپ اعلیٰ اَدا کے مالک مجود عالم تھے۔ تیرہ سال کی عمر میں آپ نے مصر کا سفر کیا وہاں حفظِ قرآن کی تکمیل کی اور بعد اَزاں ابن غلبون طاہر﷫ کی خدمت میں پہنچے اور ان سے علم قراء ت کی تکمیل کی۔ پھر قیروان واپس تشریف لائے اور یہاں دیگر علوم حاصل کئے۔
۳۸۲ھ میں پہلا اور۳۸۷ھ میں دوسرا حج کیا۔ اِسی دوران مکہ مکرمہ میں الشیخ اَحمد بن فراس﷫ وابی القاسم عبید اللہ بن السقطی﷫ سے سماع کیا۔ جب حج سے واپس تشریف لائے تو جامع قرطبہ میں مسند تدریس پر رونق اَفروز ہوئے۔ آپ سے خلق کثیر نے علم قراء ات اور دیگر علوم میں اِستفادہ کیا۔ آپ کو اللہ نے وہ شہرت عطا کی کہ ہر خاص و عام آپ کا اِحترام کرتا تھا، ایک امیر شخص دورانِ خطبہ مذاق کیا کرتا تھا آپ نے اُسے بددعا دی تو قرطبہ کا فقیر ترین شخص ہوگیا۔
آپ کے زُملاء میں سے معروف ترین لوگ یہ ہیں۔ اَصبغ بن راشدین ، اَصبغ اللخمی، الشیخ علی اَبی زید القابسی،الشیخ اَبی الحسن القابسی اور اَبوالعباس المھدوی مذکورہ چاروں حضرات بھی علم
قراء ت اور ادب میں یکتائے روزگار تھے۔
آپ نے شیخ ابی الحسن القابسی﷫ سے علم قراء ات اور علم حدیث میں اِستفادہ بھی کیا ہے ان کے علاوہ فقہ مالکی کے مشہور اِمام ابومحمد بن ابی زید﷫سے فقہ کی تعلیم لی۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ اِمام ذہبی﷫ فرماتے ہیں :
’’ علوم قرآن میں آپ کے عصر میں آپ سے بڑھ کر کوئی عالم نہ تھا اور آپ سید اہل عصرہ کے لقب سے مشہور تھے۔‘‘
آپ نے مذکورہ شیوخ کے علاوہ دیگر حضرات سے بھی اِستفادہ کیا ہے جس میں ابوجعفر النحاس﷫، شیخ مظفر بن اَحمد بن حمدان﷫، شیخ اَحمد بن ابراہیم﷫ اور شیخ سعید بن السکن﷫ شامل ہیں۔ امام دانی﷫ شیخ سعیدبن السکن کے بارے میں فرماتے ہیں :’’ آپ قراء ت ِنافع میں ورش کے لیے اِمالہ میں منفرد تھے۔نیز آپ نے شیخ عبدالمنعم بن عبیداللہ بن غلبون، اِبراہیم بن عبدالرزاق، شیخ اِبراہیم بن محمد، شیخ ابن خالویہ اور محمد بن جعفر الفریابی﷭نے بھی اِستفادہ کیا ہے۔
اِسی طرح آپ مکہ کے پڑوس میں ایک عرصہ تک ٹھہرے رہے تاکہ شیوخِ حرم سے بھی اِستفادہ کرسکیں ،اسی دوران شیخ حرم ابوالحسن احمد بن ابراہیم القبقسی سے سند اہل حجاز حاصل کی ۔ نیز مکہ میں قیام کے دوران الشیخ اَبوذر عبداللہ بن احمد الھروی﷭ سے بھی تحصیل علم کیا۔
آپ اِس قدر اعلیٰ اَخلاق کے مالک تھے کہ بہت سارے علماء نے آپ کے بارے میں تعریفی کلمات لکھے ہیں۔ شیخ ابوحیان الاندلسی﷫اور آپ کے زمیل خاص ابن شق اللیل نے آپ کی مدح میں عجیب و غریب اَشعارکہے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِمام ابوعمرو الدانی﷫
آپ کا اِسم مبارک اَبوعمرو سعیدبن عثمان الدانی الاموی القرطبی الاندلسی ہے۔ آپ کو ابن صیرفی کی کنیت سے بھی جانا جاتا ہے لیکن ابوعمرو الدانی﷫ زیادہ معروف ہے۔ آپ ۳۳۷؍ھ کو پیدا ہوئے اور باقاعدہ تعلیم ۳۸۶ھ سے شروع کی۔ تحصیل علم کے سلسلہ میں آپ نے پہلا سفر قیروان کی طرف کیا یہاں آپ چار ماہ تک ٹھہرے اور مختلف شیوخ سے اِستفادہ کیا۔ ماہ شوال ۳۸۷ھ میں مصر تشریف لے گئے اورایک سال یہاںسکونت علمی اِختیار کی، اور ذیعقد ۳۸۹ھ واپس اُندلس تشریف لائے۔ ۴۰۳ھ میں شہر تغر تشریف لے گئے وہاں محلہ سرقسطہ میں سات سال تک قیام فرمایا وہاں آپ نے علمِ قرا ء ات اور دیگر علوم کی تدریس کی اور ہر خاص و عام نے آپ سے فائدہ اٹھایا۔
سات سال بعد آپ پھر دوبارہ قرطبہ لوٹے اور قصہ دانیہ میں مستقل سکونت اختیار فرما لی آپ نے یہاں رہ کر سترہ سال تک علوم قرآن کی شمع کو فروزاں رکھا اور سینکڑوں شائقینِ قرآن نے علمی پیاس بجھائی۔
آپ نے علم قراء ات الشیخ عبدالعزیز جعفر خواستی الفارسی، شیخ خلف بن اِبراہیم بن خاقان، الشیخ ابی الفتح فارس بن احمد، شیخ ابی الحسن طاہر بن غلبون﷭سے حاصل کیں۔ ابن مجاہد﷫ کی کتاب السبعہ کا سماع ابومسلم محمد بن احمد الکاتب﷫ سے کیا ،نیز علم حدیث کا سماع الشیخ احمد بن فراس العبقسی﷫ عبدالرحمن بن عثمان الزاھد﷫ اور شیخ ابی مسلم﷫سے کیا۔
آپ کے معروف تلامذہ میں سے، الشیخ ابوبکر بن الفصیح، ابوالدرداء مفترح، ابوالحسین یحییٰ بن ابی زید و ابوبکر محمد بن المفترح، ابوالحسن علی بن عبدالرحمن بن الاش، ابوداؤد سلیمان بن نجاح، ابوعبداللہ محمد بن مزاحم، ابوعلی الحسن بن علی بن مبشر، ابوالقاسم خلف بن ابراہیم اور ابواسحاق ابراہیم بن علی﷭ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ خلقِ کثیر نے آ پ سے فیص پایاہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ ابن بشکوال﷫ کہتے ہیں :
’’ ابوعمرو الدانی﷫ علم قراء ات کے اِماموں میں سے ایک بہت بڑے اِمام تھے آپ تفسیر، حدیث، معانی اور اِعراب وغیرہم کے ماہر تھے اور بلاکے ضابط تھے آپ کی کتب کی بہت لمبی فہرست ہے۔ ‘‘
٭ علامہ مقاحمی﷫ فرماتے ہیں:
’’ آپ مالکی المذہب تھے اور مجیب الدعوات اِنسان تھے۔ آپ کی مشہور تالیفات میں سے جامع البیان فی القراء ات السبع، التسیر في القراء ات السبعہ، المقنع في الرسم القرآني، المکتفیٰ في الوقف والإبتداء، کتاب الإقتصار في القراء ات السبع، المحکم في نقط المصاحف، التحدید في علم التجوید شامل ہیں۔ علم قراء ات میں عالی السند ہونا بہت بڑے اِعزاز کی بات ہے۔ آپ بھی عالی السند ہیں موجودہ دور میں شاید ہی کوئی اَیسی سند ہو جس میں آپ کا واسطہ نہ ہو۔
آپ دانیہ میں یوم الاثنین نصف شوال ۴۴۴ھ کو اللہ کی ملاقات کیلئے سدھار گئے۔
 
Top