• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مشکلات القراء ات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مشکلات القراء ات

قاری رشید اَحمد تھانوی​
اہل علم کے ہاں مشکل القرآن، مشکل الحدیث اور مشکل الاثار وغیرہ کے عنوان پر لکھی جانے والی کتب غیر معروف نہیں۔ ان کتب کے لکھنے کا پس منظر یہ ہے کہ قرآن و سنت چونکہ انسانوں کیلئے اللہ کی ابدی ہدایت پر مشتمل ہیں اور ان کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات اعلیٰ صفات ہے چنانچہ ان کی نسبت سے اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا: ’’ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِندِ غَیْرِ اﷲِ لَوَجَدُوا فِیہِ اخْتِلَافًا کَثِیرًا ‘‘ (النسآء: ۸۲)
علم القراء ات کی نسبت بھی چونکہ قرآن کریم سے ہے یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے ہاں جس طرح قرآن کی کسی آیت کا تعارض دوسری آیت سے ممکن نہیں اسی طرح قراء اتِ متنوعہ متواترہ بھی باہم متعارض نہیں ہوتیں۔ مختلف قراء ات کا باہمی اختلاف تنوع کے قبیل سے تعلق رکھتا ہے جس سے معانی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
زیر نظر مضمون میں فاضل مقالہ نگار نے مشکل القراء ات یا بالفاظِ دیگر مختلف القراء ات کو موضوعِ بحث بنایا ہے اور بظاہر متعارض نظر آنے والی قراء ات کے حل کا طریقہ متعین کرتے ہوئے اس سلسلہ میں منکرین ومعترضین قراء ات کی طرف سے عمومی طور پر پیش کی جانے والی متعارض قراء ات کا بھی مختصر جائزہ پیش کیا ہے۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اصول فقہ کی بحثوں میں شرعی دلیلوں کے درمیان تعارض کامطلب یہ ہے کہ کسی خاص مسئلہ میں ایک دلیل کسی حکم کی متقاضی ہو، اور اسی مسئلہ کے بارے میں دوسری دلیل شرعی دوسرا حکم چاہتی ہو۔یعنی شرعی اَحکام میں تعارض سے مراد یہ ہے کہ کسی خاص مسئلہ میں ایک شرعی دلیل جس حکم کی متقاضی ہو ، کوئی دوسری شرعی دلیل اس کے خلاف دوسرے حکم کا تقاضا کرتی ہو۔ یا کسی حکم کے دلائل میں اس طرح عدم مطابقت ہونا کہ جو امر ایک دلیل سے ثابت ہو وہ دوسری دلیل سے ثابت نہ ہوتا ہو۔علماء نے اس کی تعریف یوں کی ہے:
’’التعارض أن یقتضي کل من الدلیلین عدم ما یقتضیہ الآخر‘‘(أصول الفقہ: ۳۵۸)
’’تقابل الدلیلین علی سبیل الممانعۃ۔‘‘( إرشاد الفحول إلی تحقیق الحق من علم الأصول: ۲؍۲۵۸)
ان تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ شرعی اَحکام میں تعارض سے مراد یہ ہے کہ کسی خاص مسئلہ میں ایک شرعی دلیل جس حکم کی متقاضی ہو ، کوئی دوسری شرعی دلیل اس کے خلاف دوسرے حکم کا تقاضا کرتی ہویا یوں کہیے کہ دلائل سے حاصل ہونے والے احکام کا ایک دوسرے کے خلاف اس طور پر ہونا کہ ایک پر عمل کرنے سے دوسرے کا چھوڑنا لازمی ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بعض معاصر علماء تعارض کی تعریف اِن الفاظ میں کرتے ہیں:
’’والتعارض بین الدلیلین الشرعیین معناہ في اصطلاح الأصولیین: اقتضاء کل واحد منہما في وقت واحد حکماً في الواقعۃ یخالف ما یقتضیہ الدلیل الآخر فیہا مثلاً: قولہ تعالی: ’’وَالَّذِینَ یُتَوَفَّوْنَ مِنکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوٰجاً یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْرا‘‘ (البقرۃ:۲۳۴)، ہذا النص یقتضي بعمومہ، أن کل من توفي عنہا زوجہا تنقضي عدتہا بأربعۃ أشہر وعشرۃ أیام، سواء أکانت حاملاً أم غیر حامل.
وقولہ تعالی: ’’ وَأُوْلٰتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُہُنَّ أَن یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ ‘‘ (الطلاق:۴)، ہذا النص یقتضي بعمومہ أن کل حامل تنقضي عدتہا بوضع حملہا، سواء کانت متوفی عنہا زوجہا أم مطلقۃ فمن توفي عنہا زوجہا وہي حامل، واقعۃ یقتضي النص الأول أن تنقضي عدتہا بتربص أربعۃ أشہر و عشرۃ أیام، ویقتضي النص الثاني أن تنقضي عدتہا بوضع حملہا، فالنصان متعارضان في ہذہ الواقعۃ‘‘(أصول الفقہ: ۴۰۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلی آیت بتلاتی ہے کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے اس میں حاملہ وغیر حاملہ عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔لیکن دوسری آیت بتلاتی ہے کہ جس عورت کاخاوند مرجائے اور وہ حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل تک ہے۔یعنی بچہ کی پیدائش ہوتے ہی اس کی عدت ختم ہوجائے گی۔
یہ تعارض دراَصل تعارض نہیں ہے کیوں کہ تعارض حقیقت میں تومحال ہے، لیکن مجتہدین کی رائے اور ان کی نظرکے اعتبار سے یہ محال نہیں ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ایک مجتہد ظاہر میں یہ سمجھے کہ کسی مسئلہ میں ایک دلیل دوسرے کے مخالف ہے، اور اس کا یہ سمجھنا اس کی کم فہمی ، اِدراک کی کمزوری، اور مسئلہ کے تمام دلائل اور پہلوؤں سے ناواقفیت کے سبب سے ہو۔اس لئے یہ تعارض ظاہر میں ہوتا ہے، نہ کہ حقیقت میں ۔ان معنی میں شرعی دلیلوں کے درمیان تعارض کاتصور فی الواقع کیا ہی نہیں جاسکتا۔کیونکہ شریعت میں دلیلیں اَحکام کو بتانے کے لئے قائم کئی گئی ہیں۔ اور اسی وجہ سے ان کے مقتضی پر عمل ممکن ہے، اور تکلیف کی شرط پوری ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ جب تک مکلف عاقل بالغ ہو اس کے لئے شرعی احکام کا جاننا ممکن ہے۔اس صورت میں یہ بات محال ہے کہ دلائل ایک دوسرے کے مخالف ہوں، اور ان کامقصود ہی مبہم اور غیر واضح ہوجائے۔ کیونکہ تعارض کامطلب دلائل کا ایک دوسرے کے مخالف ہونا، ان سے جاہل رکھنا، مقصود مبہم رکھنا ، شرط تکلیف کافوت ہونا ۔اسلامی شریعت میں یہ سب اُمور جائز نہیں ہوسکتے۔ اﷲ تعالیٰ جو شارع حکیم ہے اس کے لئے شریعت میں ایسے دلائل مقرر کرنا محال ہے۔(أصول الفقہ الإسلامي: ۲؍۱۱۷۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ امام سرخسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اعلم بأن الحجج الشرعیۃ من الکتاب والسنۃ لا یقع بینہما التعارض والتناقض وضعا لأن ذلک من أمارات العجز واﷲ تعالی عن أن یوصف بہ وإنما یقع التعارض لجہلنا بالتاریخ فإنہ یتعذر بہ علینا التمییز بین الناسخ والمنسوخ‘‘ ( أصول السرخسي: ۲؍۱۲)
’’فرماتے ہیں کہ دلائل شرعیہ یعنی کتاب وسنت میں تعارض اور تناقض واقع نہیں ہوتا کیو ں کہ یہ عاجزی کی علامات میں سے ہے اللہ تعالیٰ ان صفات سے منزہ اور پاک ہے۔اگر کہیں ایسا ہوتا ہے تو یہ ہماری کوتاہ فہمی یا ناسخ و منسوخ سے عد م واقفیت کا نتیجہ ہو سکتا ہے ۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ ملا جیون لکھتے ہیں:
’’وقد یقع التعارض بین الحجج فیما بیننا لجھلنا بالناسخ والمنسوخ وإلا فلا تعارض في نفس الأمر لأن أحدہما یکون منسوخا والآخر ناسخا وکیف یقع التعارض في کلامہ تعالیٰ لأن ذٰلک من إمارات العجز، تعالی اﷲ عن ذٰلک علوا کبیراً‘‘ (نور الأنوار في شرح المنار: ۱۹۳)
’’اگر چہ حقیقی تعارض تو محال ہے لیکن ان دلائل کے بارے میں مجتہدین کے فہم و ادراک میں تفاوت کی بناء پر ظاہری تعارض ممکن ہے جسے دور کرنے اور متعارض دلائل میں سے کسی ایک کی ترجیح کے لئے علمائے اصول نے کچھ اصول وضوابط وضع کئے ہیں۔ان قواعد میں سے ایک یہ ہے کہ مجتہد کو ناسخ ومنسوخ کاعلم ہونا چاہئے اور الفاظ کی دلالت کی ترجیح کے طریقوں سے واقف ہونا چاہئے ۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تعارض رفع کرنے میں اَحناف اور شوافع کا طریقہ
ایک حنفی مجتہد تعارض رفع کرنے کے لئے بالترتیب مندرجہ ذیل مراحل طے کرتا ہے۔
(١) نسخ (٢) ترجیح (٣) جمع اور تطبیق
(٤) دونوں دلائل سے صرف نظر اور ان سے کم تر درجے کی دلیل سے اِستدلال
ایک شافعی مجتہددفع تعارض کے لئے حسب ترتیب مندرجہ ذیل مراحل سے گزرتا ہے:
(١) جمع و تطبیق (٢) ترجیح (٣) نسخ
(٤) دونوں دلائل سے صرف نظر اور ان سے کم تر درجے کی دلیل سے اِستدلال (أصول الفقہ الإسلامي:۲؍۱۱۷۶۔۱۱۸۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جمع اور تطبیق
اگر دومتعارض نصوص میں سے کسی کے بارے میں یہ معلوم کرنا مشکل ہو کہ کونسی نص ناسخ ہے ، اور جو ترجیح کے طریقے ہم نے اُوپر ذکر کئے ہیں ان میں سے کسی ایک کا بھی اطلاق نہ ہوتا ہو اوردونوں نصوص قوت میں یکساں ہوں، تو اس صورت میں مجتہد کو چاہئے کہ ان دونوں متعارض نصوص کے درمیان جمع ، تطبیق کے اصول کے ذریعے موافقت پیداکرنے کی کوشش کرے اوراس طرح دونوں نصوص پر عمل کرے۔ اِس کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ اﷲ تعالیٰ کا اِرشاد ہے
’’کُتِبَ عَلَیْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَکَ خَیْرَ ڑ الْوَصِیَّۃُ لِلْوٰلِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ ‘‘ (البقرہ: ۱۸۰)
’’تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے تو اگر وہ کچھ مال چھوڑ جانے والا ہو تو ماں باپ اور رشتہ داروں کے لئے دستور کے مطابق وصیّت کی جائے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ دوسری جگہ ارشاد ہے :
’’ یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیٓ أَوْلٰدِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ فَـإِنْ کُنَّ نِسَآئً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ وَ إِنْ کَانَتْ وٰحِدَۃً فَلَھَا النِّصْفُ وَ لِأَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ إِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ فَإِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَہٗٓ أَبَوٰہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ فَإِنْ کَانَ لَــہٗٓ إِخْوَۃٌ فَلِأُمِّہِ السُّدُسُ مِنْ۰ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِھَآ أَوْ دَیْنٍ ئَابَآؤُکُمْ وَ أَبْنَآؤُکُمْ لَا تَدْرُوْنَ أَیُّھُمْ أَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا ‘‘ (النساء:۱۱)
’’اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو اِرشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے۔ اور اگر اولاد میت صرف لڑکیاں ہی ہوں یعنی دو یا دو سے زیادہ تو کل ترکے میں ان کا دو تہائی ہے۔ اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اس کا نصف ہے۔ اور میت کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا ترکے میں چھٹا حصہ ہے۔ بشرطیکہ میت کے اَولاد ہو اور اگر اَولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تو ایک تہائی ماں کا حصہ ہے۔اور اگر میت کے بھائی بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ ہو گا اور یہ تقسیم ترکہ میت کی وصیت کی تعمیل کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے اَدا ہونے کے بعد جو اس کے ذمہ ہو عمل میں آئے گی تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے باپ دادوں اور بیٹوں پوتوں میں سے فائدے کے لحاظ سے کون تم سے زیادہ قریب ہے یہ حصے اللہ کے مقرر کئے ہوئے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا ہے حکمت والا ہے۔‘‘
 
Top