• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مشکلات القراء ات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ خلاف کہتے ہیں:
’’قولہ تعالی في سورۃ البقرۃ: ’’ کُتِبَ عَلَیْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَکَ خَیْرَا ڑ الْوَصِیَّۃُ لِلْوٰلِدَیْنِ وَالأقْرَبِینَ بِالْمَعْرُوفِ‘‘ (البقرۃ:۱۸۰). وقولہ تعالی: ’’ یُوصِیکُمُ اللّہُ فِی أَوْلٰدِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَیَیْنِ‘‘ (النساء :۱۱)، علی آخر آیۃ المواریث۔ الآیۃ الأولی توجب علی المورث إذا قارب الموت أن یوصی من ترکتہ لوالدیہ وأقاربہ بالمعروف، والآیۃ الثانیۃ توجب لکل واحد من الوالدین والأولاد والأقربین حقاً من الترکۃ بوصیۃ اﷲ لا بوصیۃ المورث فہما متعارضان ظاہراً ویمکن التوفیق بینہما بأن یراد في آیۃ سورۃ البقرۃ الوالدان والأقربون الذین منع من إرثہم مانع کاختلاف الدین۔‘‘ (علم أصول الفقہ: ۲۳۰۔۲۳۱)
پہلی آیت یہ بتلاتی ہے کہ والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لئے معروف طریقہ سے وصیت کرنا واجب ہے۔دوسری آیت یہ بتلاتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے والدین ، اَولاد اورقریبی رشتہ داروں کے لئے میراث میں سے حصے مقرر فرمادیئے ہیں، اور مورث کے صوابدید پر نہیں چھوڑا۔ اس لئے یہ دونوں آیتیں متعارض ہیں۔ لیکن ان دونوں کے درمیان مطابقت اور موافقت پیداکی جاسکتی ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ پہلی آیت کو اس حکم پر محمول کیا جائے کہ والدین اور رشتہ دار کسی مانع کے سبب میراث میں سے حصہ نہ پاسکیں ، مثلاً کسی کے والدین یا بعض رشتہ دار مسلمان نہ ہوں تو ان کے حق میں وصیت کرنا واجب ہے ۔اور دوسری آیت کو اس حکم پر محمول کیاجائے کہ اس آیت میں جن ورثاء کے حصے مقرر ہیں ان کو اس طرح دیدئیے جائیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری مثال ملاحظہ ہو:
’’قولہ تعالی: ’’ وَالَّذِینَ یُتَوَفَّوْنَ مِنکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوٰجاً یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْراً‘‘(البقرۃ: ۲۳۴)
وقولہ تعالی: ’’ وَأُوْلٰتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُہُنَّ أَن یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ‘‘ (الطلاق:۴)
ویمکن التوفیق بینہما بأن الحامل المتوفی عنہا زوجہا تعتد بأبعد الأجلین، فإن وضعت حملہا قبل أربعۃ أشہر وعشرۃ أیام من تاریخ الوفاۃ، تربصت حتی تتم أربعۃ أشہر وعشرۃ أیام، وإن أمضت أربعۃ أشہر وعشرۃ أیام قبل أن تضع حملہا تربصت حتی تضع حملہا۔‘‘ (أیضاً ص: ۲۳۱)
یہ دونوں مثالیں ڈاکٹر عبدالکریم الزیدان نے بھی نقل کی ہیں ۔ ( الوجیز فی أصول الفقہ ۳۹۶،۳۹۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ اﷲ تعالیٰ کااِرشاد ہے:
’’ وَالَّذِینَ یُتَوَفَّوْنَ مِنکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوٰجاً یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْراً ‘‘(البقرہ:۲۲۴)
٭ دوسری جگہ ارشاد ہے:
’’ وَأُوْلٰتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُہُنَّ أَن یَضَعْنَ حَمْلَہُنّ ‘‘ (الطلاق:۴)
کچھ فقہاء کی رائے یہ ہے کہ دوسری آیت نے پہلی آیت کو ایسی حاملہ عورت کی نسبت، جس کے خاوند کا اِنتقال ہوگیا ہو، منسوخ نہیں کیا۔ اس لئے ان فقہاء نے ان دونوں آیتوں کے درمیان تطبیق پیدا کی ہے۔تطبیق کی صورت یہ ہے کہ جس عورت کے خاوند کا انتقال ہوگیا ہو اور وہ حاملہ ہو تو وہ وضع حمل اور چار ماہ دس دن میں جو مدت زیادہ ہو اس عرصہ تک عدت گزارے۔اگر یہ مدت گزرجائے اور اس کے ہاں بچہ پیدا نہ ہوتو وضع حمل تک عدت گزارے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جمع وتوفیق کے قاعدہ میں سے ایک قاعدہ یہ ہے کہ دو نصوص میں سے ایک نص عام ہو اوردوسری خاص یا ایک مطلق ہو اور دوسری مقید ، تو خاص سے عام کی تخصیص کریں گے۔ اور جو خاص جس چیز کے بارے میں وارد ہوئی ہے اس پر اسی حد تک عمل کریں گے، اور اس کے علاوہ دوسری چیزوں میں عام پر عمل کریں گے۔ اسی طرح مطلق کو مقید پر محمول کریں گے یا مقید پر اپنے موقع پرعمل کریں گے۔ ( الوجیز في أصول الفقہ: ۳۹۷)
’’ومن طرق الجمع والتوفیق: اعتبار أحد النصین مخصصاً لعموم الآخر، أو مقیداً لإطلاقہ، فیعمل بالخاص في موضعہ وبالعام فیما عداہ، ویعمل بالمقید في موضعہ وبالمطلق فیما عداہ۔‘‘ (علم أصول الفقہ: ۲۳۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
توفیق کے طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ دونصوص میں سے ایک کی اس طرح تاویل کی جائے کہ وہ دوسری کی معارض نہ ہو۔جیسے متاخرین علماء نے صفات سے متعلق بعض آیات کی تاویل کی ہے۔
فأما المخلص بطریق الحال فبیانہ في قولہ تعالی: ’’ وَلَا تَقْرَبُوْہُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ ‘‘ بالتخفیف في إحدی القرائتین وبالتشدید في الأخری، فبینہما تعارض في الظاہر لأن حتی للغایۃ وبین امتداد الشيء إلی غایۃ وبین قصورہ دونہا منافاۃ، والإطّہار: ہو الاغتسال، والطہر یکون بانقطاع الدم فبین امتداد حرمۃ القربان إلی الاغتسال وبین ثبوت حل القربان عند انقطاع الدم منافاۃ ولکن باعتبار الحال ینتفی ہذا التعارض وہو أن بالتخفیف علی حال ما إذا کان أیامہا عشرۃ لأن الطہر بالانقطاع إنما یتیقن بہ في تلک الحالۃ فإن الحیض لا یکون أکثر من عشرۃ أیام فأما فیما دون العشرۃ لا یثبت الطہر بالانقطاع بیقین لتوہم أن یعاودہا الدم ویکون ذلک حیضا فتمتد حرمۃ القربان إلی الإطّہار بالاغتسال۔
وکذلک قولہ تعالی: ’’ وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ ‘‘ فالتعارض یقع في الظاہر تحمل القرائۃ بالتشدید علی حال ما إذا کان أیامہا دون العشرۃ والقرائۃ بین القرائۃ بالنصب الذي یجعل الرجل عطفا علی المغسول، والقرائۃ بالخفض الذي یجعل الرجل عطفا علی الممسوح (ثم) تنتفي ہذہ المعارضۃ بأن تحمل القرائۃ بالخفض علی حال ما إذا کان لابسا للخف بطریق أن الجلد الذي استتر بہ الرجل یجعل قائما مقام بشرۃ الرجل فإنما ذکر الرجل عبارۃ عنہ بہذا الطریق والقرائۃ بالنصب علی حال ظہور القدم فإن الفرض في ہذہ الحالۃ غسل الرجلین عینا۔ (أصول السرخسي: ۲؍۲۰)
’’ وَیَسْـلُونَکَ عنِ المَحِیضِ قُلْ ھُوَ أذًی فَاعتَزِلُوا النّسآئَ فِی الْمَحیضِ وَلَا تَقرَبُوھُنّ حَتّٰی یَطْھُرْنَ فَإِذَا تَطَھَّرْنَ فَاْتُوھُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمرَکُمُ اللّٰہُ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوّٰبِینَ ویُحِبُّ المُتطھِّرینَ‘‘(البقرۃ:۲۲۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’’وہ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں،آپ کہہ دیجئے کہ وہ تکلیف ہے ،لہٰذا حیض کے دوران تم عورتوں سے دوررہو،اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں؍غسل نہ کرلیں،ان کے قریب نہ جاؤ۔پھرجب وہ بالکل پاک ہوجائیں توان کے پاس اس طرح آؤ جس طرح اللہ نے تمہیں حکم دیاہے،بیشک اللہ تعالی توبہ کرنے والوں اورپاک رہنے والوں کومحبوب رکھتاہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آیت کامعنی ومفہوم
اس آیت میں حیض کے مسائل بیان ہوئے ہیں۔یعنی دوران حیض بیوی سے صحبت جائزنہیں ہے۔البتہ جماع کے علاوہ ساتھ رہنا،کھانا،پیناوغیرہ جائزہیں۔نیزیہ بھی بیان ہے کہ حائضہ عورت حیض سے کب پاک شمارہوگی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِختلاف قراء ات
اس آیت میں کلمہ یطھرن میں دوقراء تیں ہیں:
(١)۔۔۔۔ یَطَّھَّرْنَ۔۔۔۔شعبہ ،حمزہ ،کسائی ،خلف۔
(٢)۔۔۔۔یَطْھُرْنَ۔۔۔۔باقی سب قراء۔ (مصحف القراء ات العشر، سورۃالبقرۃ: ۲۲۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
معنی قراء ات
دونوں قراء توں کامعنی ایک دوسرے سے مختلف ہے ۔
٭ اِمام جصا ص حنفی رحمہ اللہ (م ۳۷۰ھ) لکھتے ہیں:
’’فنقول إنّ قولہ: ’’ یَطْھُرنَ‘‘ إذا قُریَٔ بالتّخفیف فھو مستعملٌ علی حقیقتِہٖ فیمن کانت أیامھا عشرا۔ فیجوز للزوج استباحۃ وطئھا بمضي العشر۔ وقولہ ’’ یطَّھَّرْنَ‘‘ بالتشدید وقولہ:’’فَإِذا تَطَھَّرنَ ‘‘ مستعملا نِ في الغُسل إذا کا نت أیامھا دون العشر۔ (الجصاص، أحکام القرآن: ۱؍۳۵۰)
’’ پس ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا قول ’یَطْھُرْنَ‘ جب مخفف پڑ ھا جا ئے تو وہ اپنے حقیقی معنی میں مستعمل ہے۔ اس عورت کے حق میں جس کا خون دس دن پر بند ہو ا ہو اس کے شو ہر کے لئے دس دن گزرنے پر اس کے قریب جانا جا ئز ہو گا ۔ یعنی عورت کیلئے جماع سے پہلے غسل ضروری نہ ہو گا ۔او ر اللہ تعا لیٰ کا قول ’یطَّھَّرن‘ تشدید کے سا تھ اور اسی طرح ’فاذا تطھَّرن‘ غسل کے معنی میں استعمال ہوں گے ،جب اس عورت کاخون دس دن سے کم پربندہواہو۔ ‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مسئلہ کی دوصورتیں
پہلی صورت میں یہ عورت حیض سے پاک ہوگئی ہے ،اوراس کاحکم اب حالت جنابت والا ہے۔ یعنی وہ نماز کیلئے توغسل کرے گی لیکن صحبت کیلئے غسل ضروری نہیں۔لیکن اگر دس دن سے کم پر خون بند ہوا ہو تو اس عورت کوصحبت سے قبل غسل کر نا ضروری ہو گا۔اس میں دراصل امام جصا ص رحمہ اللہ یہ فرما تے ہیں کہ دونوں قرا ء توں کو اپنے معنی حقیقی پر استعمال کیا جا سکتا ہے لہٰذا معنی حقیقی ہی مراد لیاجائے گا۔
چنا نچہ آ گے لکھتے ہیں :
’’ولا یکو ن فیہ استعمال واحد من الفعلین علی المجاز، بل ھما مستملا ن علی الحقیقۃ في الحا لین‘‘ (أیضا)
’’ اور اس میں دونوں فعلوں میں سے کسی ایک کا بھی مجا ز ی معنی مراد نہیں ہو گا ، بلکہ یہ دونوں اپنے حقیقی معنی میں دو مختلف حالتوں میں استعمال ہو ں گے ۔‘‘
 
Top