• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مشکلات القراء ات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دونوں قراء توں میں تطبیق کاطریقہ
٭ اِمام جصاص رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ یجب استعمالھما علی أعمھما حکماً وأکثرھما فائدۃ وھو الغَسل۔‘‘ (أحکام القرآن للجصاص: ۲؍۳۴۶)
’’یہ ضروی ہے کہ ان دونوں قراء توں کوایسے معنی پر محمول کیا جائے جو حکم کے اعتبار سے زیادہ عام ہو، اور اس میں فائدہ زیادہ ہو،اوروہ پیروں کادھوناہی ہے‘‘ ۔
اسی طرح فتح البا ری شرح بخاری میں ہے :
’’بین القرائتین تعارض ظا ہر والحکم فیما ظا ہرہٗ تعارضٌ أنّہ إن أمکن العمل بھما وجب، وإلا عُمِل بالقدر الممکن، ولا یتأتّی الجمع بین الغَسل والمسح في عضو واحدٍ في حالۃ واحدۃٍ؛ لأنہ یؤدّی إلی تکرار المسح لأن الغَسل یتضمّن المسح۔ والأمر المطلق لا یقتضي التّـکرار، فبقي أن یعمل بھما في حالتین توفیقا بین القرائتین وعملا بالقدر الممکن۔‘‘ (فتح الباری لابن حجر: ۱؍ ۳۵۶)
’’دونو ں قرا ء توں میں ظاہری تعا رض ہے ، اور ظا ہر ی تعارض والی چیز کا حکم یہ ہے کہ اگر دونوں پر عمل ممکن ہو تو یہ ہی واجب ہو گا ، ورنہ بقدر اِمکا ن دونو ں پر عمل کیا جا ئے گا ۔ اور یہا ں ایک عضو میں ’غسل‘ اور ’مسح‘ کو ایک ہی حا لت میں جمع نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس سے مسح کا تکرار لا زم آ تا ہے اس لئے کہ ’غسل‘ ’مسح‘ کو بھی شامل ہو تا ہے ، جبکہ اَمر مطلق تکرار کا تقا ضا نہیں کر تا ؛ لہٰذا یہ ہی صورت با قی رہی کہ دونوں قرا ء توں پر دو (مختلف) حالتوں میں عمل کیا جائے تا کہ دونوں قرا ء توں میں موا فقت ہو اور بقدر اِمکان عمل بھی ہو جا ئے ۔ ‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ اصول الشاشی میں ہے:
’’ومنھا أن النص إذا قریٔ بقرائتین أو رُوِيَ بروایتین، کان العملُ بہ علی وجہ یکون عملًا بالوجھین۔ أولٰی، مثالہ: في قولہ تعالیٰ: ’’ وَأَرْجُلَکُمْ ‘‘ قرء بالنصب عطفا علی المغسول، وبالخفض عطفا علی الممسوح۔ فحملت قرائۃ الخفض علی حالۃ التخفّف، وقرائۃ النّصب علی حالۃ عدم التخفّف۔ وباعتبار ھذا المعنی قال البعض: جواز المسح ثبت بالکتاب۔‘‘ (أصول الشاشي: ۵۰)
یعنی نصوص کی مرادمعلوم کرنے کے طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی آیت دو قراء توں سے پڑھی جائے یا کسی حدیث میں دو روایتیں ہوں، تواگر اس طرح عمل کیا جائے کہ دونوں وجہ کے مطابق عمل ہوسکے تو یہ بہتر ہے ۔مثلا : قرآن شریف میں وامسحوا برء و سکم وأرجلکم دو طرح پڑھا گیا ہے۔ وارجلکم کو لام کے زیر سے پڑھا جائے تو مغسول پر عطف ہوگا اور لام کی زبر کے ساتھ پڑھا جائے تو ممسوح پر عطف ہوگا۔ پس حمل کیا قر ا ء ت کسرہ کوموزہ پہننے کی صورت پر اور قرا ء ۃ نصب کو جب کہ پاؤں میں موزہ نہ ہواس پر۔ اسی بناء پر بعض مشائخ نے کہا ہے کہ موزہ پر مسح کرنا قرآن شریف سے ثابت ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نتیجہ قراء ت
خلاصہ یہ ہے کہ جمہور فقہاء کے نزدیک دونوں قراء توں سے پیروں کو دھونے کاحکم ثابت ہوتاہے اور جروالی قراء ت کی اکثر مفسرین نے یہ توجیہ کی ہے کہ اس میں جر جواریعنی پڑوس اورقرب کی وجہ سے ہے۔(مدارک التنزیل للنسفی: ۱/۴۳۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) عورت کوچھونے سے وضوء ٹوٹنے کامسئلہ
’’ وَ إِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی أَوْ عَلٰی سَفَرٍ أَوْجَآئَ أَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ أَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَائً صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَ أَیْدِیْکُمْ ‘‘ (النسآء: ۴۳)
’’اور اگر تم مریض ہو یاسفر میں، یا تم میں سے کوئی شخص جائے ضرورت سے آیا ہے،یا تم عورتوں کے پاس گئے پھر تمہیں پانی نہ ملے، تو پاک زمین کا ارادہ کرو پھر اپنے چہرے اور ہاتھوں کوملو۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اختلاف قراء ات
اس آیت میں کلمہ لمستم میں دو قراء تیں ہیں :
(١)۔۔۔۔لٰمَسْتُمْ۔۔۔۔امام نافع ابن کثیر مکی ۔ابو عمرو بصری ابن عامر شامی ، امام عاصم ۔
(٢)۔۔۔۔لَمَسْتُمْ ۔۔۔۔امام حمزہ ،کسائی اور امام خلف۔(النشر لابن الجزری: ۲/۲۵۰)
ایک قراء ت مجردسے ہے اورایک قراء ت باب مفاعلہ سے ہے،جوکہ جانبین سے ہوتاہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
توجیہ قراء ات
٭ امام ابن خالویہ رحمہ اللہ (م۳۷۰ھ) لکھتے ہیں :
’’فالحجۃ لمن أثبتھا (أی الألف) أنہ جعل الفعل للرجل والمرأۃ، ودلیلہ: أن فعل الاثنین لم یأت عن فصحاء العرب إلا ’بفَاعَلتُ‘ وبالمفاعلۃ۔ وأوضح الأدلۃ علی ذلک قولھم: جامعتُ المرأۃَ، ولم یُسمع منھم جَمَعتُ۔ والحجۃُ لن طرحَھا: أنہ جعلھا فعلا للرّجل دون المرأۃ۔ ودلیلہ قولۃ تعالیٰ: ’’ إِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ‘‘ (الأحزاب: ۴۹) ولم یقل: ناکحتم‘‘ (الحجۃ لابن خالویہ: ۶۲)
’’جنہوں نے اس کو اثبات الف سے پڑھا ہے ۔ان کے نزدیک یہ مرد وعورت کا فعل ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ فصیح عربوں کے ہاں دوافراد کا فعل باب مفاعلہ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔اور اس پر واضح ترین دلیل عربوں کا قول’جامعت المرأۃ‘ ہے۔ اس صورت میں جَمعتُ کسی سے نہیں سنا گیا ۔اور جن لوگوں نے الف کو حذف کرکے پڑھا ہے، ان کے نزدیک یہ صرف مرد کا فعل ہے ،عورت صدورِ فعل میں شامل نہیں ۔اور اسکی دلیل اللہ تعالیٰ کا قول: ’إذا نکحتم المؤمنات‘ (الأحزاب :۴۹) ہے ۔اس آیت میں بھی فعل کی نسبت صرف مرد کی طرف کی گئی ہے، اور باب مفاعلہ سے تعبیر نہیں کیا گیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
لَمس کا مرادی معنی
اس آیت میں کلمہ لامستم کے مرادی معنی میں علماء کااختلاف ہواہے۔ لہٰذاعورت کو چھونے سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں اس میں فقہاء کااختلاف ہے۔ اَحناف کا مذہب یہ ہے کہ عورت کوچھونے سے بالکل وضو ء نہیں ٹوٹتا ۔جبکہ اِمام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب یہ کہ عورت کو چھونے سے ہر حال میں وضوء ٹوٹ جاتاہے۔ مالکیہ اور حنابلہ کا مذہب قریب قریب ہے اوروہ یہ کہ اگر شہوت کے ساتھ عورت کو چھوا جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا ،اور اگر بغیر شہوت کے چھوا تووضو نہیں ٹوٹے گا۔ (أحکام القرآن: ۲؍۲۷۲، کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ : ۱؍۱۳۳،۱۳۸)
چنانچہ تفسیر مظہری میں ہے :
’’لگنے اور چھونے سے بطور کنایہ جماع مراد ہے ۔۔۔ اس صورت میں جنابت بمعنی اِنزال ہوگا بمعنی جماع نہ ہوگا۔ وگرنہ عطف صحیح نہیں ہوگا ۔ اِما م اعظم کے مسلک پر آیت کا توضیحی مطلب اس طرح ہوگا کہ اگر تم جنبی ہویاتم کو اِنزال ہوگیا ہو ،بیماری کی حالت ہو یا سفر کی یا بول وبراز وغیرہ سے تمہارا وضو ٹوٹ گیا ہو ،یا بغیر اِنزال کے تم نے جماع کیا ہو تو تیمم کرسکتے ہو۔‘‘ (تفسیر مظہری:۳؍۱۰۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِسی طرح کتاب الأم للشافعي میں ہے :
’’وإذا أفضیٰ الرجل بیدہ إلی امرأتہ أو ببعض جسدہ إلی بعض جسدھا لا حائلَ بینہ وبینھا، بشھوۃ أو بغیر شھوۃ وجب علیہ الوضوء ووجب علیھا، وکذلک إن لمستہ ھي وجب علیہ وعلیھا الوضوء‘‘ (کتاب الأم للشافعی:۱؍۱۵،۱۶)
’’اور جب کوئی آدمی اپنا ہاتھ اپنی بیوی کو لگادے یا اپنے جسم کو اس کے جسم سے ایسے لگا ئے کہ ان دونوں کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو، شہوت کے ساتھ یا بغیر شہوت کے، تو دونوں پر وضو واجب ہوگا ۔اسی طرح اگر عورت مرد کوچھو ئے تو بھی دونوں پر وضو واجب ہوگیا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
معنی قراء ات
٭ مولانا ظفر اَحمد عثمانی رحمہ اللہ ( م۱۳۹۴ھ) لکھتے ہیں:
’’وأما قولہ تعالی: ’’ أَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ ‘‘ فأرجح التفسیرین لہ ھو الجماع وھو مروي عن حبر الأمۃ بحر الملۃ سیدنا عبداﷲ ابن عباس۔‘‘ (أعلاء السنن لظفر أحمد عثمانی: ۱؍۱۱۰)
اِس کی دلیل میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت کاتذکرہ کیاگیاہے جس میں وہ فرماتی ہیں :
’’ میں رسول اللہﷺکے سامنے سویاکرتی تھیں اور میرے پاؤں قبلے کی طرف ہوتے جب آپﷺ سجدہ کرتے، تو مجھے دبا دیتے تو میں اپنی ٹانگیں کھینچ لیتی جب آپﷺ کھڑے ہوتے تو میں ان کودوبارہ پھیلا لیتی۔‘‘ (الجامع الصحیح للبخاري: ۱؍۵۶)
گویالمس سے مراداگرہاتھ سے چھوناہوتاتوپھرتواس وقت آپﷺدوبارہ وضو فرماتے۔
نیز حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے یہ قول منقول ہے:
’’الملامسۃ ما دون الجماع بأن مسّ الرجل جسد امرأتہ بشہوۃ ففیہ الوضوئ۔‘‘ (أحکام القرآن للقرطبي: ۵؍۲۲۴)
اس کے بارے میں مولانا ظفر اَحمد عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’وقد اُختلف في الاحتجاج بہ۔‘‘(ظفر أحمد عثماني: حوالہ مذکور)
’’اس کے حجت ہونے میں اختلاف ہے‘‘۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نیز ایک روایت میں آتا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
’’آ پﷺ اپنی کسی بیوی کابوسہ لیتے پھر نماز پڑھتے اور وضو نہ کرتے۔‘‘ (أیضاً: ۱/۱۰۹ ، نیز آثار السنن لمحمد بن علی النیموي: ۴۶)
اِس مذکورہ آیت کے کلمہ لٰمستم میں فقہاء احناف کے نزدیک دونوں قراء توں سے جماع ہی مراد ہے۔ لیکن اس پر یہ اشکال ہوتاہے کہ دوقراء تیں دو آیتوں کی طرح ہوتی ہیں ۔اور یہاں ان دونوں قراء توں کا معنی بھی مختلف ہے، لہٰذا ان دونوں معانی میں تطبیق ہونی چاہیئے۔
٭ امام جصاص رحمہ اللہ (م ۳۷۰ھ) لکھتے ہیں ۔
’’إن حملہ علی الجماع یُفید معنیین: أحدھما إباحۃ التیمم للجنب في حال عوز المائ، والآخر أنّ إلتقاء الختانین دون الإنزال یوجب الغسل۔ فکانَ حملُہ علی الجماع أولـی من الاقتصار بہ علی فائدۃ واحدۃٍ وھو کون اللمس حدثا۔‘‘ (أحکام القرآن للجصاص: ۲؍۳۷۲،۳۷۳)
’’اس لفظ کو جماع کے معنی پر محمول کرنا دو معانی کا فائدہ دیتا ہے :
 
Top