• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصاحف ِعثمانیہ اور مستشرقین کے اعتراضات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصاحف ِعثمانیہ اور مستشرقین کے اعتراضات

ڈاکٹر محمد عبد اللہ صالح​
حضرت عثمان غنی﷜ نے اپنے زمانہ میں قریش کی لغت کے مطابق قرآن مجید کا ایک صحیح نسخہ تیارکروایا تاکہ پوری امت مسلمہ ایک ہی طرح سے قرآن مجید کی تلاوت کر سکے اور کوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔ در اصل حذیفہ بن الیمان﷜نے شکایت کی تھی کہ بعض علاقوں میں قرآن مجید کو پڑھنے کے انداز میں اختلاف کی بنا پر حالات تشویشناک ہیں چنانچہ حضرت عثمان غنی﷜نے قرآن حکیم کا ایسا نسخہ کمال احتیاط کے ساتھ تیار کر وایا، کہ جس میں تمام جائز قراء اتیں سما سکتی تھیں۔
مگر مستشرقین حضرت عثمان﷜کی اس کاروائی ، اس مصحف کی تیاری،پس منظر اور خود مصحف عثمانی پر اعتراضات کرتے ہیں، اور ان اعتراضات کا ماحاصل یہ ہے کہ عہد عثمانی سے قبل قرآن کا کوئی نسخہ معرض وجود میں نہ آسکا۔ ذیل میں ہم مستشرقین کے اعتراضات نقل کرتے ہوئے ان کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔
نولڈیکے (Noldeke) اپنے مقالہ میں قرآن حکیم کی تاریخ حفاظت پر یوں رقم طراز ہے۔
’’مصحفِ عثمان﷜سے قبل قرآن مجید کا کوئی معیار اور مرتب نسخہ موجود نہ تھا۔ اور یہ مصحف ، حضرت ابوبکرصدیق﷜ کے مصحف کی نقل ہی تھا ( لہٰذا اگر مصحفِ صدیقی حقیقی مصحف نہ تھا تو مصحفِ عثمانی کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔)‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت عثمان﷜کی تدوین قرآن کی ساری کاروائی مشکوک بناتے ہوئے لکھتا ہے:
"as to thay were conductad we no have Trustworthly information, Tradition being have much under the influence of dog matic persupposition."
مزید یہ کہ حضرت عثمان﷜کی جمع قرآن کی ان مساعی کو سیاسی مقاصد کے حصول کا رنگ دیتا ہے:
"but for the assentially political object of putting an end to controversies by admitting one from of the common book religion and of law, this measuere was necessar."
آگے چل کر نولڈیکے کہتاہے کہ حضرت عثمان﷜نے اپنے نسخے کے علاوہ دیگر تمام مصاحف جلوا دیئے اس طرح قرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہو گیا اور قرآن کا حقیقی متن اگر ہم جاننا چاہیں تومعلوم نہیں ہو سکتا۔ مزید اس طرح کے وہ بہت سے شکوک وشبہات پیدا کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
"Slight clerical errors there may have beenthought some times in vary strange order." {Ibid.605}
مصحف عثمانی کو مشکوک بنانے کی کوشش میں ایک اورمشہور مستشرق ایف بہل (F.Buhal) بھی پیش پیش نظر آتا ہے۔ وہ اپنے مقالہ میں لکھتاہے:
’’مصحف عثمانی در اصل مصحف صدیقی کی نقل تھا۔ لیکن ساتھ ہی کہتا ہے کہ مصحف صدیق کوئی باقاعدہ مرتب نسخہ نہ تھا۔‘‘ [Encyclopaedia of islam ,iv.1073]
’’ اس سلسلے میں نو آموز اور ناتجربہ کار کاتبوں کی طرف سے کچھ لا پروائیاں اور غلطیاں سرزد ہوئیں۔‘‘ [Ibid,1073]
’’حضرت عثمان﷜نے اپنے تیار کروائے ہوئے نسخے کے علاوہ تمام نسخوں کو ضائع کروا دیا۔ اس طرح قرآن کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو گیا۔ [Ibid,1070]
’’حضر ت عثمان﷜تو ایک متفقہ قرآن او رمتفقہ تلفظ بھی تیار نہ کرسکے۔‘‘ [Ibid,1070]
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اگرچہ کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان﷜نے اختلافات ختم کرنے کے لئے باقی نسخوں کو جلوا دیا تھا۔ لیکن اختلاف ختم کرنے کے لئے جلانے یا ضائع کرنے کا یہ عمل بے اثر تھا، کیونکہ قرآن لوگوں کے حافظے میں موجود تھا۔[Ibid,1073]
’’ مصحف عثمانی حقیقی قرآن نہیں،اس مصحف کی کوئی ترتیب بھی نہ تھی۔ علاوہ ازیں جو مصاحف دیگر علاقوں کو روانہ کئے گئے ان میں ہم آہنگی بھی نہ تھی۔[Ibid,1073]
ایف بہل نے تفسیری طبری کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عثمان﷜ خود بھی اپنے تیار کردہ نسخے کو مستند اور صحیح نہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ لکھتا ہے:
"even Oth man himself, occording to one story --- did not adhere to the text authorised by him. but read sura iii 100 with an addition not now found in it. and if this is correct, it is no wonder that others took still greater liderties, various circumstances contributed to the continual variation in the from of text." ]Ibid,1073[
نولڈیکے اور بہل کی طرح ایک اور مشہور مستشرق مارگولیتھ (Margoliouth) اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے حضرت عثمان﷜ کے مرتب کئے ہوئے مصحف پر شکوک وشبہات کااظہار کرتا ہے۔ مارگولیتھ اس مصحف میں ابہام اور اغلاط کے بارے میں لکھتا ہے۔
’’زید بن ثابت﷜ کو حضرت عثمان﷜نے اس کام پر اس لیے لگایا کہ انتہائی ابہام کی موجودگی میں وہی اس متن کی وضاحت کرسکتے تھے۔‘‘ [Margoliouth.D.S., Mohammadanism.70]
اس کے اپنے الفاظ میں:
"Perhaps because in the extreme ambiguity with and imperfection ot the scrip he aione could interpert the first edition with certainity." ]Ibid,70[
اسی طرح مارگولیتھ کہتا ہے کہ ’’حضرت عثمان﷜کے اپنے نسخے کے علاوہ دوسرے نسخے جلوا دینے کے عمل سے قرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہو گیا ہے۔ چنانچہ اب ہمیں قرآن کا حقیقی متن نہیں مل سکتا۔‘‘[Ibid,۰۷]
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قریب قریب یہی انداز دیگر مستشرقین
(1) Wath, Montgomery, Mohammad at Makka,9 (2) Frost ,SE, the sacred Writing of world,s Great Religions, 307 (3) Jaffery, arthur, Matevial for the study of History of the Tost of the Quran,a (4)Nicholoson,R,A, Literary History of the Arabs. (5)Trition,A.S, Islam Belief and parctice,60.
(۶) فنڈز ،پادری ، میز الحق:۳۶،۴۰، (7) Bell, Richerd , Introduction tothe Quran.42,44]
نے بھی اختیار کیا ہے اور انہوں نے بھی اس سے ملتے جلتے اعتراضات اٹھائے ہیں بعض مستشرقین کے نقطہ نگاہ کا تذکرہ ’’البیان‘‘ (حقانی ،عبد الحق، البیان فی علوم القرآن:۲۵۸) میں بھی ملتا ہے ۔ او ربعض کا تذکرہ ڈاکٹر صبحی صالح ( صبحی صالح، ڈاکٹر ، مباحث فی علوم القرآن:۷۹،۸۰) نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ تاویل القرآن (ضربت، عیسوی، تاویل القرآن:۱۰۶،۱۰۷) میں بھی ان اعترضات کو دھرایا گیا ہے۔
مستشرقین کا نقطہ نظر بیان کرنے کے بعد اب ہم ذیل میں اسلامی مآخذ سے عہدعثمانی میں جمع قرآن کی نوعیت ، مقاصد ، پس منظر اور طریقہ کار کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں تاکہ مستشرقین کے اعتراضات کا ردبھی ہو سکے اور حقیقت حال بھی سامنے آجائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پس منظر
حضرت عثمان﷜کے عہد حکومت تک اسلامی مملکت وسیع علاقے تک پھیل چکی تھی اور عرب کے علاوہ عجم کے تمام علاقے اسلامی حکومت کا حصہ بن چکے تھے۔ قرآن مجید جہاں مسلمانوں کی زندگی کا لازمی جزو تھا۔تو دوسری طرف ’’سبعہ احرف‘‘ بھی موجود تھے۔ حضور سے مختلف صحابہ کرام﷢نے انہی ’’سات حروف‘‘ کے ساتھ قرآن پڑھا تھا۔ صحابہ نے اپنے شاگردوں کو بھی انہی کے مطابق پڑھایا تھا۔ حضور کی وفات کے بعد ، بلکہ آپ کی موجودگی میں صحابہ ان علاقوں میں بھی پھیل چکے تھے۔ جب مملکت کی حدود عجم تک وسیع ہوتی چل گئیں تو صحابہ کرام﷢ ان علاقوں میں پہنچ گئے۔ ان میں سرکاری طور پر بھیجے ہوئے معلمین بھی تھے اور دعوت وتبلیغ کی غرض سے جانے والے بھی۔
(صبحی صالح، ڈاکٹر، حوالہ مذکورہ:۸۱)
اس طرح ’’سبعہ احرف‘‘ عرب وعجم کے تمام علاقے میں پھیل گیا۔ جب تک لوگ ’’سبعہ احرف‘‘ کی حقیقت سے آگاہ تھے اس وقت تک اس سے کوئی خرابی پیدا نہ ہوئی۔ لیکن جب یہ اختلاف دور دراز کے علاقوں تک پہنچ گیا اور ان پر یہ بات واضح نہ تھی کہ ’’سبعہ احرف‘‘ کی سہولت کا مقصد کیا ہے اور یہ بات ان میں پوری طرح مشہور نہ تھی کہ قرآن مجید سات حروف پر نازل ہوا ہے تو اس وقت لوگوں میں جھگڑے کھڑے ہونے لگے ۔بعض لوگ اپنی قراء ت کو صحیح اور دوسروں کی قراء ت کو غلط قرار دینے لگے۔(سیوطی ، جلال الدین، الاتقان فی علوم القرآن:۸۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ان جھگڑوں سے ایک طرف تو یہ خطرہ تھا کہ لوگ قرآن کریم کی متواتر قراء توں کو غلط قرار دینے کی سنگین غلطی کریں گے، دوسری طرف یہ مسئلہ بھی تھا کہ حضرت زید بن ثابت﷜کے لکھے ہوئے ایک نسخہ ،جو کہ مدینہ طیبہ میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس موجود تھا، اس کے علاوہ پورے عالم اسلام میں اس سے معیاری نسخہ نہ تھا۔ جو پور ی امت کے لئے حجت بن سکے۔ کیونکہ دوسرے نسخے انفرادی طور پر لکھے ہوئے تھے اور ان میں ساتوں حروف کو جمع کر نے کا کوئی اہتمام نہ تھا۔ اس لیے ان جھگڑوں کے تصحیفے کی اگر کوئی قابل اعتماد صورت تھی تو وہ یہی تھی کہ ایسے نسخے پورے عالم اسلام میں پھیلا دیئے جائیں جن میں ساتوں حروف جمع ہوں اور انہیں دیکھ کر یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ کونسی قراء ت درست او رکون سی قراء ت غلط ہے؟ یہ عظیم الشان کارنامہ حضرت عثمان﷜ نے سر انجام دیا۔
ان کے اس کارنامے کی تفصیلات روایات میں موجود ہیں۔ حضرت حذیفہ بن الیمان﷜ آرمینیا کے محاذ پر جہاد میں مصروف تھے۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ لوگوں میں قرآن کریم کی قرا ء توں میں اختلاف ہو رہا ہے۔ چنانچہ مدینہ طیبہ واپس آتے ہی انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ وہ امیر المؤمنین حضرت عثمان﷜ کے پاس آئے اور خدمت میں حاضر ہو کر پوری صورت حال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے خلیفہ سے کہا کہ قبل اس کے کہ یہ امت کتاب اللہ کے بارے میں یہود و نصاری کی طرح اختلاف کا شکار ہو جائے آپ اس اختلاف کا علاج فرما لیں۔ انہوں نے مزید کہا’’ کہ میں آرمینیا کے محاذ پر جہاد میں مصروف تھا کہ میں نے دیکھا کہ شام کے رہنے والے لوگ ابی بن کعب﷜کی قراء ت میں پڑھتے تھے جو اہل عراق نے نہیں سنی ہوئی تھی۔ اس بنا پر وہ ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے ہیں۔ (الاتقان فی علوم القرآن:۶۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس سلسلے میں علامہ بدر الدین عینی﷫ لکھتے ہیں:
إن حذیفۃ قدم من غزوۃ فلم یدخل في بیتہ حتی أتی عثمان فقال یا أمیر المؤمنین! أدرک الناس۔ قال: وما ذاک؟ قال: غزوت أرمینیۃ فإذا أہل الشام یقرئون بقرائۃ أبي بن کعب فیأتون بما لم یسمع أہل العراق وإذا أہل العراق یقرئون بقرائۃ عبداﷲ بن مسعود فیأتون بما لم یسمع أہل الشام فیکفر بعضہم بعضاً۔(عینی ، بدر الدین،علامہ، عمدۃ القاری، شرح صحیح بخاری: ۱۶)
’’حضرت حذیفہ﷜کی ایک غزوہ سے واپسی ہوئی تو وہ واپسی پر وہ اپنے گھر میں داخل نہیں ہوئے تاآنکہ حضرت عثمان﷜ کی خدمت میں حاضر ہو ئے ،اور عرض کیا: اے امیر المؤمنین ! لوگوں کی خبر لیجئے۔ انہوں نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہا میں لڑ ائی کے سلسلے میں آرمینیا گیا ہوا تھا وہاں پہنچا تومعلوم ہوا کہ اہل شام اُبی بن کعب﷜ کی قراء ت پڑھتے ہیں جسے اہل عراق نے نہیں سنا ہوا تھا اور اہل عراق عبد اللہ بن مسعود﷜ کی قراء ت میں پڑھتے ہیں جسے اہل شام نے نہیں سنا اس اختلاف کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے ہیں۔‘‘
حضرت حذیفۃ بن الیمان﷜ کا واقعہ صحیح بخاری میں ہے جس کاتر جمہ یہ ہے:
’’حضرت حذیفۃ بن الیمان﷜ حضرت عثمان﷜کے پاس آذر بائیجان کے معرکے کے بعد حاضر ہوئے اور انہیں قراء ات ِقرآن میں باہمی اختلاف نے بہت پریشان کیا تھا۔ حذیفہ﷜ نے حضرت عثمان﷜ سے کہا :اے امیر المؤمنین ! امت کی خبر لیجئے قبل اس کے کہ وہ اپنی کتاب میں یہود ونصاری کی طرح اختلاف کرنے لگیں۔ اس پر حضرت عثمان﷜ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ ہمارے پاس قرآن مجید کے نوشتے اور صحیفے بھیج دیں، ہم انہیں نقل کر لیں گے اور ایک مصحف کی شکل میں جمع کر لیں گے پھر انہیں آپ کی طرف لوٹا دیں گے۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ صحیفے حضرت عثمان﷜ کے پاس بھیج دیئے۔ حضرت عثمان﷜ نے حضرت زید بن ثابت﷜ ، عبد اللہ بن زبیر﷜ ، سعد بن العاص﷜ اور عبد الرحمن بن حارث بن ہشام ﷜ کومتعین فرمایا کہ وہ ان صحائف کو ایک مصحف میں نقل کر یں۔ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور حضرت عثمان﷜ نے جماعت قریش کے تینوں کاتبوں کوفرمایا کہ جب تم اور زید بن ثابت﷜ میں قرآن کریم کی کسی آیت کے لکھنے میں اختلاف ہو توپھر اسے لغتِ قریش میں لکھنا، کیونکہ قرآن مجید لغتِ قریش میں نازل ہوا ہے۔ چنانچہ ان حضرات نے اسی پر عمل کیا ۔ یہاں تک کہ جب یہ حضرات ان صحائف کو نقل کر چکے تو حضرت عثمان﷜ نے ان اصل صحائف کو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس لوٹا دیا اور ہر علاقے میں ایک ایک نقل شدہ مصحف ارسال کر دیا، اور یہ حکم صادر فرمایا کہ ان کے علاوہ جو مجموعے اور صحیفے لوگوں کے پاس لکھے ہوئے موجود ہوں ان کو جلا دیا جائے۔( بخاری:محمد بن اسماعیل ،الجامع الصحیح:۱۱۱،۱۴۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت عثمان﷜بھی شاید خود اس خطرے سے آگاہ تھے۔انہیں اس بات کی اطلاع ملی تھی کہ خود مدینہ طیبہ کے اندر ایسے واقعات پیش آئے کہ جب مختلف صحابہ کرام﷢ کے شاگرد اکٹھے ہوئے تو اختلاف کی سی ایک کیفیت پیدا ہو رہی تھی۔(جلال الدین، سیوطی: الاتقان فی علوم القرآن:۱،۶۱)
جب حضرت حذیفہ﷜نے بھی اسی قسم کی اطلاع دی تو آپ نے فوراً اقدام کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اسی وقت حضرت عثمان﷜نے جلیل القدر صحابہ کو جمع کیا اور ان سے اس سلسلے میں مشورہ کیا اور فرمایا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ میری قراء ت تمہاری قراء ت سے بہتر ہے اور یہ بات کفر تک پہنچ سکتی ہے۔ لہٰذا آپ لوگوں کی کیا رائے ہے؟ صحابہ کرام﷢ نے حضرت عثمان﷜ سے یہی پوچھا کہ آپ نے کیا سوچا ہے؟ حضرت عثمان﷜نے فرمایا کہ میری رائے یہ ہے کہ ہم تمام لوگوں کو ایک یقینی مصحف پر جمع کر دیں تاکہ کوئی اختلاف اور افتراق باقی نہ رہے۔ صحابہ نے اس رائے کو پسند کیا اور حضرت عثمان﷜ کی رائے کی تائید کی چنانچہ حضرت عثمان﷜ نے اسی وقت لوگوں کو جمع کیا اور خطبہ ارشاد فرمایا:
’’أنتم عندي تختلفون فیہ وتلحنون، فمن نأی عني من أہل الأمصار أشد فیہ اختلافاً وأشد لحناً، اجتمعوا یا أصحاب محمد ﷺ فاکتبوا الناس إماما۔‘‘
تم لوگ مدینہ میں میرے قریب رہتے ہوئے قرآن کریم کی قراء توں کے بارے میں ایک دوسرے کی تکذیب اور ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہو۔ اس سے یہ ظاہر ہے کہ جو لوگ مجھ سے دور ہیں وہ تو اور زیادہ تکذیب او ر اختلاف کرتے ہوں گے۔ لہٰذا تم لوگ مل کر ایک نسخہ ایسا تیار کرو جو سب کے لئے واجب الاقتداء ہو۔‘‘(فتح الباری:کتاب فضائل القرآن،باب جمع القرآن،۴۹۸۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحفِ عثمان کے بارے میں ہم نے جو وضاحت بیان کی ہے اس سے صاف طور پر واضح ہورہا ہے کہ متفقہ مصحف تیار کروانے کی اس وقت اشد ضرورت تھی۔ ایسا نہیں کہ حضرت عثمان﷜نے اپنی سیاسی پالیسی یا ذاتی ضرورت کے تحت ایسا کیا تھا۔حضرت حذیفہ﷜ کا آذربائیجان سے واپسی پر فوراً حضرت عثمان﷜کے پاس آنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ اس اختلاف سے پریشان تھے۔ پھر انہوں نے حضرت عثمان﷜کے سامنے یہ مسئلہ اس انداز سے پیش کیا کہ وہ اس کی سنگینی کو فوراً سمجھ گئے ۔ اس ساری صورت حال کے پیش نظر حضرت عثمان﷜ نے مندرجہ ذیل کام کیے۔
اوّلاً:قرآن کریم کے معیاری نسخے تیار کروائے اور انہیں مختلف اطراف میں روانہ کر دیا۔
ثانیاً: ان مصاحف کا رسم الخط ایسا رکھا کہ اس میں ’’ساتوں حروف‘‘ سما سکیں۔ چنانچہ یہ مصاحف نقاط اور حرکات سے خالی تھے اور انہیں ہر حرف کے مطابق پڑھا جا سکتا تھا۔ جتنے انفرادی نسخے لوگوں نے تیار کر رکھے تھے ان سب کو نذر آتش کر دیا۔
ثالثاً: یہ پابندی عائد کر دی کہ آئندہ جو مصاحف لکھے جائیں وہ انہی مصاحف کے مطابق تیار کئے جائیں۔ حضرت ابوبکر﷜ کے تیار کردہ نسخہ میں الگ الگ سورتیں تھیں حضرت عثمان﷜نے انہیں اکٹھاکر کے ایک مصحف کی شکل دے دی۔ (سیوطی، جلال الدین:الاتقان فی علوم القرآن:۲؍۶۱)
ان اقدامات کا مقصدیہ تھا کہ کہ تمام عالم میں رسم الخط اور ترتیب سور کے اعتبار سے تمام مصاحف میں یکسانیت ہو اور ان مصاحف کو دیکھ کر فیصلہ کیا جاسکے کہ کونسی قراء ت درست اور کونسی غلط ہے۔ اس بات کی وضاحت حضرت علی﷜ کے اس قول سے ہوتی ہے۔ جو ابن ابی داؤد نے کتاب المصاحف میں نقل کیا ہے۔(ایضا حوالہ مذکور:۶۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قال علي:
’’لا تقولوا في عثمان إلا خیرا فواﷲ ما فعل الذي فعل في المصاحف إلا عن ملأ منا قال: ما تقولون فی ہذہ القرائۃ فقد بلغني أن بعضہم یقولون إن قرائتي خیر من قرائتک ولہٰذا یکادون أن یکون کفراً۔ قلنا: فما تری؟ قال: أری أن نجمع الناس علی مصحف واحد فلا تکون فرقۃ ولا اختلاف۔ قلنا: فنعم ما أریت۔

حضرت علی﷜نے فرمایا کہ حضرت عثمان﷜ کے بارے میں کوئی بات ان کی بھلائی کے علاوہ نہ کہو، کیونکہ اللہ کی قسم انہوں نے مصاحف کے بارے میں جو کام کیا وہ ہم سب کی موجودگی میں کیا۔ انہوں نے ہم سب سے مشورہ کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ ان قراء توں کے بارے میں تمہارا کیاخیال ہے؟ کیونکہ مجھے اطلاعات مل رہی ہیں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ میر ی قراء ت تمہاری قراء ت سے بہتر ہے۔ حالانکہ یہ ایسی بات ہے جو کفر کے قریب تر پہنچا دیتی ہے۔ اس پر ہم نے حضرت عثمان﷜ سے کہا کہ آپ کی کیا رائے ہے انہوں نے فرمایا میری رائے یہ ہے کہ ہم سب لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کر دیں۔ تاکہ کوئی اختلاف وافتراق باقی نہ رہے ہم سب نے کہا کہ ’’آپ نے اچھی رائے قائم کی ہے۔‘‘
اس روایت میں حضرت عثمان﷜ کے الفاظ’’أری أن نجمع الناس علی مصحف واحد ‘‘ ہمارے موضوع کے اعتبار سے خاص توجہ کے حامل ہیں۔ کہ آپ نے یہ ارادہ ظاہر فرمایا کہ ہم ایک معیاری مصحف تیار کرنا چاہتے ہیں جوپورے عالم اسلام کے لئے یکساں طور پر حجت بن سکے اور اس کے بعد کسی صحیح قرآن کے انکار، یا منسوخ یا کسی شاذ قراءت پر اصرار کی گنجائش باقی نہ رہے۔
 
Top