• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصاحف ِعثمانیہ اور مستشرقین کے اعتراضات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اگر حضرت عثمان﷜کے کچھ ذاتی مقاصد تھے تو ان کی تکمیل کے لئے دوسرے صحابہ کو (ان صحابہ کی بجائے) کمیٹی میں شامل کر کے اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کر سکتے تھے۔
مشہور مستشرق اسپرنگر مسلمانوں کے فن اسماء الرجال ( جو انہوں نے حضور کے ارشادات کو پرکھنے کے لئے جاری کیا تھا اور جس کی مثال دنیا کی کوئی اورقوم پیش نہ کر سکی) کے بارے میں لکھتا ہے:
’’مسلمانوں نے پیغمبر اسلام کے اقوال محفوظ کرنے کے لئے پانچ لاکھ لوگوں کے حالات زندگی محفوظ کر لئے۔‘‘ (شبلی نعمانی، مولانا ، سیرت اٰلنبی:۱؍۴۲)
ایسی محتاط قوم سے یہ بات کیونکر منسوب کی جاسکتی ہے کہ اس نے ملی بھگت کر کے قرآن مجید میں تغیر وتبدل کیا ہے۔
اسلامی معاشرہ اس وقت طبقاتی طور پر امیر اور غریب میں منقسم نہ تھا کہ کچھ صحابہ کو امراء کے طبقہ سے اور کچھ کو غرباء کے طبقہ سے منسوب کیا جائے۔
جس معاشرے میں ایک بڑھیا بر سرِ منبر حضرت عمر﷜ جیسے جلالی خلیفہ وقت کو کسی مسئلہ پر ٹوک سکتی ہے او رعام آدمی خلیفہ سے یہ کہہ سکتا ہے کہ اپنا خطبہ جاری کرنے سے پہلے مجھے جواب دیں کہ ہم سب کی قمیصیں تو چھوٹی ہیں اور آپ کی قمیص بیت المال کے کپڑے سے اتنی لمبی کس طرح بن گئی ؟ اور خلیفہ کو اس کا جواب دینا پڑتا ہے۔ (سیوطی، جلال الدین، حوالہ مذکور:۲؍۱۲۴،۱۲۷)
اس معاشرے میں کیونکر گمان کیا جاسکتا ہے کہ ان کے سامنے قرآن حکیم میں تغیر ہو گیا اور وہ خاموش بیٹھے رہے؟
اسی سلسلے میں بنیادی بات یہ ہے کہ
حضرت عثمان﷜ کی سیاسی پالیسیوں کے ساتھ بعض لوگوں نے اختلاف کیا لیکن آپ کو بالاتفاق ’’جامع القرآن‘‘ کا خطاب دیا۔( ایضا:۱؍۶۱)
اگر جمع قرآن بھی سیاسی پالیسیوں کا حصہ تھا تو لوگ آپ کے خلاف فتنہ پیدا کرتے وقت آپ پر تحریف قرآن مجید کا الزام بھی لگاتے۔ یہ مصحف امت میں اتحاد کا باعث ہوا نہ کہ افتراق کا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تحریف قرآن مجید کی جسارت تو ایک عام مسلمان بھی نہیں کرسکتا چہ جائیکہ حضرت عثمان﷜ جیسی ممتاز ہستی پر یہ الزام عائد کیا جائے۔(ایضا:۲؍۱۵۱،۱۵۳)
آپ کی شرافت کا تو یہ عالم تھا کہ آخری ایام میں جب باغیوں نے آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیا تھا آپ نے سرکاری محافظ قبول نہ کیے او رفرمایا میری خاطر کسی مسلمان کا خون نہیں بہنا چاہیے۔(ابن اثیر،الکامل فی التاریخ:۳؍۶۰)
کیا اس بات کی کوئی گنجائش ہو سکتی ہے کہ انہوں نے ذاتی غرض کی خاطر قرآن مجید میں تحریف کر دی ہو۔ علامہ مقری اپنی کتاب ’’نفخ الطیب‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حضرت عثمان﷜ کے تیار کروائے ہوئے مصحف پر یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے۔
ہذا ما جمع علیہ جماعۃ من أصحاب رسول اﷲ ﷺ، منہم زید بن ثابت وعبداﷲ ابن مسعود وسعید بن العاص۔ (مقری،تنضح الطیب:۱؍۳۹۸)
شاہ ولی اللہ﷫ کے الفاظ کہ ’’صحابہ کرام﷢ کے مشورہ اور اجماع سے ایک نسخہ تیار کیاگیا‘‘
خاص طور پر قابل ذکر ہیں اس سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ کاروائی حضرت عثمان﷜ کا ذاتی کام نہ تھا بلکہ صحابہ کرام﷢ ان کے ساتھ شامل تھے۔(ولی اللہ، شاہ ، از اﷲ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء:۲؍۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) کیا حضرت عثمان﷜ نے وہ آیات قرآن مجید سے حذف کر دی تھیں جن میں حضرت علی﷜ اور اہل بیت کے مناقب جمع کئے گئے تھے۔(فنڈر،پادری، میزان الحق:۳۶،۴۴)
اس سلسلے میں مندرجہ ذیل حقائق پیش کئے جا سکتے ہیں:
یہ اعتراض سر اسر عقل کے خلاف ہے خصوصاً بنو امیہ اور حضرت علی﷜ کے ساتھیوں کے درمیان مخاصمت کو ذہن میں رکھیں تونظر آتا ہے کہ اتنے شدید اختلافات کے باوجود حضرت علی﷜کے ساتھی اسی قرآن پر متفق رہے جسے بعد میں لوگوں نے ’’مصحف عثمانی‘‘کا نام دیا۔نہ صرف یہ بلکہ آج تک تمام فرقے قرآن کی صیانت اورعصمت پر متفق ہیں۔
حضرت ابو بکر صدیق﷜او رحضرت عثمان﷜جنہوں نے قرآن مجید دو مرتبہ لکھا، دونوں کے عہد میں حضرت علی﷜موجود تھے لیکن کبھی بھی قرآن کے بارے میں اختلاف نہیں ہوا نہ ہی حضرت علی﷜نے کوئی اختلاف کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق﷜ حضرت عمر﷜ حضرت عثمان﷜ میں کسی ایک کا دور بھی جبر و تشدد کا دور نہ تھا کہ حضرت علی﷜مجبوراً چپ ہو گئے،نہ ہی اس بات کا امکان ہو سکتا تھا کہ قرآن سے آیات ومضامین حذف کیے جارہے ہوں اورلوگ خاموشی سے بیٹھے رہے ۔ اگر حضرت علی﷜ تینوں خلفاء کے عہد میں کچھ نہ کر سکے تو بعد میں جب وہ خود خلیفہ بنے تو اس وقت بھی تو وہ سب کچھ کر سکتے تھے اس وقت تو انہیں کوئی روکنے والا نہ تھا اگر وہ ایسا کر دیتے کہ (بقولِ مستشرقین) اصل قرآن امت کو لوٹا دیتے تو انہیں کوئی روکنے والا نہ تھا، او روہ امت کے ہیرو بن جاتے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ’’جامع القرآن ‘‘ کاخطاب تو صرف حضرت ابو بکر صدیق﷜ اور حضرت عثمان﷜ کو ملا ہے۔(حریری، غلام احمد، تاریخ تفسیر ومفسرین:۹۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت علی﷜ امت سے کہہ سکتے تھے کہ لوگو یہ ہے قرآن کا وہ پہلا حصہ جو پہلے تین خلفاء نے غائب کروا دیا تھا اور اس کا علم صرف مجھے ہی تھا۔لیکن انہوں نے تو اس کا تذکرہ تک نہیں کیا بلکہ ہمیں تو اس کے بالکل برعکس بیانات ملتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ حضرت علی﷜ بہت ہی جرأت مند انسان تھے کیا کوئی شخص یہ بات گوارا کرسکتا ہے کہ کوئی حضرت علی﷜کے بارے میں رائے قائم کر لے کہ انہوں نے تحریف ِ قرآن کی کاروائی آنکھوں سے دیکھ لی ہو اور کسی کو روکا تک نہیں یا تو بزدلی کامظاہر ہ کیا یامصلحت کا جبکہ قرآن مجید ان کے بارے میں کہتا ہے:
’’؛ یُجٰہِِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَا ٓئِمٍ۱…٭ ‘‘ (المائدۃ: ۵۴)
’’وہ اللہ کے راستے میں جہاد کر تے ہیں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوف نہیں کھاتے۔‘‘
رمضان المبارک کی راتوں میں جب ابی بن کعب﷜ لوگوں کی امامت کرواتے اور قرآن مجید سناتے تھے، اس وقت حضرت علی﷜ان کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے ہوتے تھے۔
اگر قرآن مجید میں کوئی ردوبدل ہوا تھا تو آپ اسی وقت اعتراض کر سکتے تھے نیز یہ کہ حضورﷺ آپ﷜ کو قرآن سنایا کرتے تھے۔(بخاری، محمد بن اسماعیل،حوالہ مذکور:۱؍۲۳۴)
مصحفِ عثمانی کی بنیاد وہ نسخہ تھا جو اس وقت حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی تحویل میں تھا۔(ایضا:۳؍۱۴۶)
عقل کہتی ہے کہ اگر حضرت عثمان﷜ نے قرآن میں تغیر وتبدل کردیا تھا تو پھر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو ان کا مصحف واپس کبھی نہ کیا جاتا، کیونکہ اس کی موجودگی میں توحضرت عثمان﷜کی ساری کاروائی رائیگاں جاسکتی تھی۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے کبھی بھی یہ نہیں فرمایا کہ اے عثمان﷜!آپ نے تو ایک نیا قرآن تیار کرلیا ہے، حالانکہ میر ا مصحف کچھ اور تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت عثمان﷜ نے باقی تمام مصاحف نذر آتش کر دیئے اور اس کا مقصد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عثمان﷜ کے تیار کروائے ہوئے نسخے کو کوئی چیلنج نہ کر سکے لیکن اتنی بات تو تاریخی طور پر ثابت شدہ ہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا والا نسخہ مروان بن حکم کے دور تک موجود تھا۔ حضرت عثمان﷜ کے قرآن کے نسخے کی تیاری (۶۴ھ تا ۳۵ھ)۔ (ایضا:۳۷۸) اور مروان کی فرمانروائی کے درمیان کئی برس کا عرصہ گزرا ۔ اگر حضرت عثمان﷜ نے قرآن کریم میں تغیر وتبدل کر دیا تھا توحضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا نسخہ قرآن کی اصلی صورت میں موجود تھا۔ لہٰذا اصل نقول تیار کروائی جاسکتی تھیں۔ یہ بات بھی ناقابل تسلیم ہے کہ حضرت عثمان﷜ کا دور جبر وتشدد کا دور تھا، ایسا خیال کرنا تاریخی غلطی ہو گی۔ جس خلیفہ نے بلوائیوں کے ہاتھوں محض اس لیے شہادت قبول کی کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی ان کی حفاظت کرے اور ان کے دروازے پر کھڑا ہو اور حفاظت کرتے ہوئے کسی مسلمان کی جان ضائع ہو، وہ ہستی ذاتی مقاصد کے تحت تیارہ کردہ قرآن کو لوگوں میں مروّج کرنے کے لئے لوگوں پر تشدد کرے گی؟
(٤) اگر یہ کہا جائے کہ حضرت عثمان﷜ کی وفات کے بعد حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا والے نسخے سے اصل قرآن مجید کو حاصل نہ کیا جا سکا، کیونکہ حضرت عثمان﷜ کے اثرات بڑے گہرے تھے تو یہ بات بھی بڑی خلاف واقعہ ہے، کیونکہ جو خلیفہ بلوائیوں کے ہاتھوں کسی میدان میں نہیں بلکہ اپنے گھر میں شہید ہو رہا ہے اور اس کی شہادت کا بدلہ بھی نہیں لیا جا رہا ہے اس کے سیاسی اثرات کے بارے میں کیا تصور کیا جا سکتا ہے؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت عثمان﷜ کی شہادت کے بعد جب مسلمانوں کے فرقوں میں خون ریز لڑائیاں ہو رہی تھیں، اس وقت بھی ان سب کا قرآن ایک ہی تھا۔ قرآن پر متفق ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عثمان﷜نے قرآن مجید میں کوئی تبدیلی نہیں کی تھی۔ کیونکہ حضرت عثمان﷜نے دیگر مصاحف ہی تلف کئے تھے لوگوں کے حافظے سے تو قرآن محو نہیں ہوا تھا۔
حضرت عثمان﷜کے مصحف کے بارے میں علامہ ابن حزم﷫نے اس نقطہ نگاہ کا جواب یوں دیا ہے۔
حضرت علی﷜جو روافض کے نزدیک بہت عظیم مقام رکھتے ہیں پونے چھ برس تک برسر اقتدار رہے ان کا حکم چلتا تھا ان پر کیا دباؤ تھا کہ انہوں نے اصل قرآن جاری نہیں فرمایا؟
امام حسن﷜ کو بھی خلافت ملی وہ بھی معصوم سمجھے گئے ہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود یہ کس طرح جراء ت ہو سکتی ہے کہ ایسی بات کہی جائے۔ (ایضا:۷۸)
علامہ فرماتے ہیں:
’’قرآن پاک میں کوئی حرف کم ہونا، زائد ہونا، تبد یل ہوناہم کیسے تسلیم کرسکتے ہیں جبکہ قرآن مجید میں تغیر کے مرتکب ہونے کی وجہ سے ان حضرات سے جہاد، اہل شام سے لڑائی کرنے سے زیادہ ضروری اور اہم تھا۔‘‘
(Mior,William,Op.Cit.xiv)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کیا حضرت عثمان﷜نے حضرت علیt اور اہل بیت سے متعلقہ آیات قرآن مجید سے نکال دی تھیں؟ مستشرقین کے اس موقف کا جواب ہم انہیں کے ایک ساتھی ولیم میور کے حوالے سے پیش کریں گے۔ میور لکھتے ہیں کہ
یہ اعتراض سراسر عقل کے منافی ہے۔ خصوصاً بنو امیہ سے اور حامیان حضرت علی﷜کے مناقشات پر نظر کرتے ہوئے کہ اتنے شدید اختلافات کے باوجود حامیان حضرت علی﷜اسی قرآن مجید پر متفق رہے۔ جسے بعد میں انہی لوگوں نے ’’صحیفہ عثمانی‘‘ سے موسوم کیا، نہ صرف یہ بلکہ آج تک تمام شیعہ سنی فرقے قرآن مجید کی صیانت وعصمت پر متفق ہیں۔ (Mior,William,Op.Cit.xiv)
آخر میں ولیم میور لکھتے ہیں:
’’پس ہمارے ان معارضات سے ثابت ہے کہ موجودہ قرآن میں کوئی ایسی آیت نظر انداز نہیں کی گئی جو حضرت علی﷜ کی عصمت پر دال ہو۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کیا حضرت عثمان﷜نے قرآن مجید کا ۷/۶ حصہ ضائع کردیا؟
(٥) مستشرقین کا ایک اعتراض یہ ہے کہ
’’حضرت عثمان﷜نے جب مصحف تیارکروایا تو انہوں نے سات قراء توں میں سے چھ کو خارج کردیا اور لوگوں کو ایک ہی قراء ت ( حرف) پر جمع کر دیا۔ اس طرح ان کے بقول حضرت عثمان﷜ نے ۷/۱ قرآن باقی رہنے دیا ۷/۶ حصہ ضائع کر دیا۔ (ناصر ، کے ایل، قرآن شریف کے متن کا تاریخی مطالعہ:۲۵)
اس اعتراض کاجب ہم تحقیقی جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یا تو اس کے پیچھے مستشرقین کی کم علمی کار فرما ہے یا ان کی دانستہ حقائق سے چشم پوشی۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل نکات اصل مسئلے کی وضاحت کرتے ہیں۔
٭ مستشرقین یہ سمجھتے ہیں کہ شاید قرآن مجید کا ہر ہر لفظ سات سات قراء توں سے پڑھنے کی اجازت تھی حالانکہ ایسی صورت حال نہ تھی۔
’سبعہ احرف ‘ محض الفاظ کی ادائیگی کافرق تھا۔ ایک لفظ دوسرے لفظ کے مترادف تھا، سات میں سے کوئی اختیار کر لیا گیاتو قرآن مجید کا لفظ ادا ہو گیا اس فرق سے معانی میں بھی کوئی واضح فرق نہیں پڑتا تھا۔
مزید جو اس نقطہ نگاہ کااصل جواب ہے وہ یہ ہے کہ
حضرت عثمان﷜نے درحقیقت لوگوں کو متواتر اور ثابت شدہ قراء توں پر جمع کیا تھا۔ یہ تو حقیقت ہی کے برعکس ہے کہ انہوں نے سات قراء تیں یا ’’سبعہ احرف‘‘ کو ختم کر کے ایک ’’حرف‘‘ پر لوگوں کو جمع کیا تھا۔(ایضا:۱؍۲۵۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت عثمان﷜ کے رسم الخط جس میں کہ’’سات حروف‘‘ سما سکیں اس کی مثالیں دوسری جگہ بیان کر دی گئی ہیں ، ذیل میں ان کو مکرر بیان کیا جاتا ہے ’’امام ابن حزم﷫‘‘ نے بھی اس سلسلے میں اپنی کتاب’’ الفصل فی الملل والنحل‘‘ میں مدلل بحث کی ہے اور اس قسم کے اعتراض کا رد خالص عقلی اور منطقی انداز میں کیا ہے کہ کیا فی الواقع حضرت عثمان﷜کے عہد میں قرآن میں تغیر ہوگیا تھا۔ امام موصوف نے خود یہود و نصاریٰ کی طرف سے کئے گئے کچھ اعتراضات کا بھی ذکر کیا ہے اور پھر ان کا رد فرمایا ہے۔(ابن حزم، حوالہ مذکورہ:۲؍۷۶،۸۸)
(٦) مستشرقین نے تمام زورِ استدلال اس پر صرف کردیا ہے کہ حضرت عثمان﷜کامصحف ناقابل اعتبار، غیر مرتب اور نامکمل تھا اس کے لئے وہ مختلف قسم کے حربے اختیار کرتے ہیں۔ مزید جو اعتراض یہ کرتے ہیں کہ حیات نبیﷺکے آخری عرصہ میں متعدد آیات منسوخ ہو گئی تھیں ۔ اس سلسلے میں ابن جزری﷫ لکھتے ہیں:
ولا شک أن القرآن نسخ منہ فی العرضۃ الأخیرۃ فقد صح النص بذلک عن غیر من الصحابۃ وروینا بإسناد صحیح عن زر بن حبیش قال: قال لي ابن عباس: أي القرائتین تقرأ؟ قلت: الآخرۃ۔ قال: فإن جبریل کان یعرض القرآن علی النبي ﷺ عام رمضان۔ قال: فعرض علیہ القرآن في العام الذي قبض فیہ النبي ﷺ مرتین فشہد عبد اﷲ (یعني ابن مسعود) ما نسخ منہ وما بدل۔ (الجزری، ابو الخیر، النشر فی القراء ات العشر: ۲؍۳۸)
’’اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ قرآن میں زمانہ وحی میں نسخ اورتغیرات اللہ کے حکم کے مطابق ہوتے رہے ہیں اور متعدد صحابہ سے ایسی مرویات بھی وارد ہیں اور ہم نے صحیح سند کے ساتھ حضرت زر بن حبیش﷜سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن عباس﷜ نے پوچھا کہ آپ دونوں قراء توں میں سے کونسی تلاوت کرتے ہیں تو میں نے جواب دیا’’ میں آخری عرضۂ اخیرہ والی تلاوت کرتاہوں پھر فرمایا کہ نبی اکرمﷺ سے جبریل امین﷤ ہر سال ایک مرتبہ قرآن کا دور فرماتے حتی کہ جس سال آپ کی وفات ہوئی تب سے آپ پر ایک سال میں دو دور کرنا لازم ہوا تھا۔ عبد اللہ بن مسعود﷜ نے بھی گواہی دی ہے کہ اس موجود ہ قرآن میں اب کوئی منسوخ آیت نہیں نہ ہی کوئی تغیر ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ تو ہے کہ عرضۂ اخیرہ سے قبل بہت سی قراء تیں خود اللہ تعالی کی طرف سے منسوخ ہوگئیں ۔ حضرت ابی بکرہ﷜ نے مترادف الفاظ کے جس اختلاف کا ذکر کیا ہے اس کی جزئیات بھی یقینا اسی وقت منسوخ ہو گئی ہوں ، لیکن مستشرقین کا اس نسخ اور تبدیلی سے استدلال کرتے ہوئے قرآن کو محرف بنانا صحیح نہیں کیونکہ حضرت عثمان﷜ نے جو مصحف تیارکروایا تھا وہ عرضۂ اخیرہ کے مطابق تھا۔ جب کہ تمام منزل وحی تبدیلیوں کے بعد اپنا اصل مقام پا چکی تھی۔
بناء بریں ہم پوری طمانیت کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ مصحف عثمانی او رحضرت زید بن ثابت﷜کے اس نسخے میں اصلاً کوئی تعرض نہ تھا جس میں زید نے قراء ت کی مختلف صورتوں میں سے صرف قریش کے لہجہ کو محفوظ رکھا۔
(Mior,William,Op.Cit.xiv)
 
Top