• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصحف المدینۃ النبویۃکی اہمیت اور اس پر تحقیقی کام کا تعارف

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِصطلاحات ضبط
الصفر المستدیر : (o)
یہ حرف علت پر لکھا جاتاہے جو نہ وقفاً پڑھے جاتے ہیں اورنہ وصلاً، جیسے یَتْلُوْا صُحُفًا،مِنْ نَّبَائِ الْمُرْسَلِیْنَ، بَنَیْنٰھَا بِاَیْیدٍ وغیرہ
ہمارے پاکستان میں بعض مصاحف میں اس طرح کے کلمات پر کوئی نشان نہیں اور بعض پراس سے مختلف (o)گول نشان ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
الصفر المستطیل القائم: (o)
یہ علامت ایسے وقف کے اوپر لکھی جاتی ہے، جس کے بعد حرف متحرک ہوگا اور اس الف کے زیادہ ہونے پر دلالت کرے گا۔ وصل کی حالت میں یہ الف نہیں پڑھا جائے گا۔ وقف کی حالت میں پڑھاجائے گا، جیسے أنَا خَیْرٌ، لٰکِنَّا اگر اس کے بعد حرف ساکن ہوگا تو اس الف پرکوئی علامت نہیں لگائی جائے گی، جیسے اَنَا النَّذِیْرُ۔
اس کاحکم یہ ہے کہ وصلاً نہیں پڑھاجائے گا، وقفا پڑھاجائے گا۔
بعض پاکستانی مصاحف میں اس طرح کے کلمات پر بھی کوئی نشان نہیں ہوتااور بعض مصاحف میں اس طرح کاگول نشان (o) ہوتاہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
راس خآء صغیرہ (حـ):
خ کاچھوٹاسرا بغیرنقطے کے حرف کے اوپر ہوگا اور یہ حرف کے ساکن ہونے پر دلالت کرتاہے۔ یہ بڑی وضاحت کے ساتھ پڑھا جائے گا،جیسے مِنْ خَیْرٍ، وَیَنْئوْنَ عَنْہُ، قَدْ سَمِعَ، اَوَعَظْتَ ، وَخُضْتُمْ۔اور جب اس حرف کا دوسرے حرف میں ادغام کیاجائے گا تو سکون نہیں لکھا جائے گا، بلکہ مدغم فیہ مشدد لکھا جائے گا، جیسے اُجِیْبَت دَّعْوَتکُمَا، یَلْھَث ذّٰلِکَ، وَقَالَت طَّآئِفَۃٌ، وَمَنْ یَّکْرِھھُّنَ۔ اور اَلَمْ نَخْلُقکُّمْ میں جزم لکھنا اور نہ لکھنا دو وجہیں ہیں، لیکن جزم نہ لکھنا زیادہ راجح ہے۔ جن حروف کاادغام ناقص کیا جاتاہے، وہاں مدغم پرجزم نہیں لکھی جاتی اور مدغم فیہ پر شد نہیں لکھی جاتی ہے،جیسے مَن یَقُوْلُ، مِنْ وَال،فَرَّطتُمْ، بَسَطتَ۔
اور اسی طرح نون اور میم کے اخفاء میں بھی وہ حروف سکون سے خالی رہے گا ، جیسے مِن تَحْتِھَا،مِن ثَمَرَۃِ،اِنَّ رَبَّھُم بِھِمْ
ہمارے پاکستانی مصاحف میں جزم ذرا مختلف ہوتا ہے ا ور ادغام تام یاناقص کیا جائے تو مدغم پرجزم اور مدغم فیہ پر شد ڈالی جاتی ہے اور اسی طرح نون میم مخفات میں بھی نون میم پر جزم ڈالی جاتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
میم صغیرہ
چھوٹی سی میم لکھی جاتی ہے جہاں نون ساکن ونون تنوین کے بعد باء آئے، جیسے عَلِیْمُم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ،جَزَآئَمبِمَا کَانُوْا اور تنوین کی بجائے صرف ایک حرکت لکھی جائے گی۔ پاکستانی مصاحف کا ضبط اس طرح ہے کہ نون ساکن ونون تنوین کے بعد اگر باء آجائے تو وہاں چھوٹی سی میم لکھی جاتی ہے اور تنوین کی دونوں حرکات لکھی جاتی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ترکیب الحرکتین …ٌ …ً …ٍ
جب نون تنوین کے بعد حرف حلقی میں اظہار ہو تو اس وقت تنوین کی دو زبر، دو زیر، دو پیش بالکل مساوی لکھتے ہیں، جیسے سمیعٌ علیمٌ، وَلَا شَرَاباً اِلَّا ، وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ ہمارے ہاں بھی ضبط اسی طرح ہے۔
اور تنوین کی حرکات کو فرق کے ساتھ لکھا جائے گا، جبکہ نون تنوین کاادغام تام کیا جائے گا اوروہاں مدغم فیہ پر شد بھی ڈالی جائے گی، جیسے خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ، غَفُوْرًا رَّحِیْمًا، یَوْمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ اور اسی طرح تنوین کو فرق کے ساتھ لکھا جائے گا، جب تنوین کا ادغام ناقص ہوگا یا اخفا کیاجائے گامدغم فیہ پرشد نہیں ڈالی جائے گی، جیسے وُجُوْہٌ یَوْمَئِذٍ، رَحِیْمٌ وَدُوْدٌ،شِھَابٌ ثَاقِبٌ،سِرَاعًا ذَلِکَ،بِاَیْدِیْ سَفَرَۃٍ کِرَامِ م۔
ہمارے پاکستانی مصاحف میں ضبط اس طرح ہے کہ تنوین میں حرکات ثلاثہ کوپورے قرآن میں ایک ہی طرح لکھا جاتاہے۔ مدغم نون تنوین کا اگر ادغام تام یاناقص کیاجائے تو مدغم فیہ پر شد ضرور ڈالی جاتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
الحروف الصغیرۃ
بعض حروف بالکل چھوٹے لکھے جاتے ہیں۔یہ رسم میں علیحدہ ہوتے ہیں جو کہ مصاحف عثمانیہ میں رسم میں نہیں لکھے جاتے اور پڑھنے کے لیے انہیں لکھا جاتاہے، جیسے ذٰلِکَ الْکِتٰبُ،اِنَّ وَلِیِّ یَ اﷲ، أِے لٰفِھِمْ رِحْلَۃَ الشَّتَآئِ، وَکَذَلِکَ نجِیْ الْمُؤْمِنِیْنَ
نوٹ: علماء ضبط اس قسم کے حروف سرخ روشنائی سے لکھتے تھے، لیکن اب چھپائی میں مشکل پیش آتی ہے اور ایک ہی رنگ پراکتفا کیاجاتاہے۔ پاکستانی ضبط اس طرح ہے کہ ذٰلک، ٖالٰفھم وغیرہ میں حروف پر صرف کھڑا زبر، کھڑی زیر یا الٹاپیش لکھاجاتا ہے۔ باقی کلمات کا ضبط اسی طرح ہے کہ ان پرچھوٹاسا حرف لکھا جاتا ہے۔
اگر حروف اَصلیہ کتابت کے اندر نہ پڑھے جارہے ہوں تو ان کے نائب لگائے جاتے ہیں۔ الصلوٰۃ میں کھڑا زبر ڈالا ہے واؤ نہیں پڑھا جارہا۔ اَلرِّبٰوا،وَاﷲُ یَقْبِضُ وَیَبْصُطْ میں صاد لکھا ہے اور اس کے اوپر چھوٹا سا سین لکھا ہے، جبکہ پڑھا سین جاتاہے۔ اور اگر صاد کے نیچے سین لکھاجائے اس کا مطلب ہوتاکہ صاد اور سین دونوں طرح پڑھنا درست ہے ، جبکہ صاد مشہور تر ہے، جیسے اَمْ ھُمُ الْمُصَّیْطِرُوْنَ۔
( ٓ ) یہ مد کا شوشہ دلالت کرتا ہے، اس پر جو اصلی مد سے زیادہ پڑھی جاتی ہو، جیسے الٓمٓ جہاں مدبدل ہو، وہاں اس قسم کا شوشہ نہیں ڈالا جاتا، بلکہ ہمزہ اور اس کے بعد الف لکھا جاتاہے، جیسے ئَ امَنُوْا۔
پاکستانی ضبط میں بھی مد کا شوشہ مد اصلی سے زیادہ مد کرنے کے لیے ڈالا جاتا ہے اور بدل میں صرف کھڑا زبر ڈالا جاتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٥) ایسا نقطہ جو درمیان سے خالی ہو، جہاں لکھا ہو وہاں امالہ کیا جاتاہے، جیسے بِسْمِ اﷲِ مَجْرھَا
یہ علامت بھی پہلے سرخ لکھی جاتی تھی، لیکن اب ایک رنگ میں لکھی جاتی ہے اور یہی علامت لَا تَاْمَنَّا عَلٰی یُوْسُفَادغام مع الاشمام کے لیے بھی لکھی جاتی ہے۔ وہاں میم کے بعد اور نون سے پہلے بنائی جاتی ہے۔
پاکستان ضبط میں ایساکوئی نشان نہیں بنایا جاتا۔
()ایسا چار کونوں والا نقطہ جو درمیان سے بند ہو، اس ہمزہ پردلالت کرتاہے جس ہمزہ میں تسہیل ہے، جیسے ئَاعْجَمِیٌّ وَعَرَبِیٌّ ہمارے پاکستانی ضبط میں ایسا کوئی نشان نہیں ہوتا۔
حرف سین اسی کلمہ پرلکھا جاتاہے، جن کلمات میں سکتہ کیاجاتا ہے، جیسے عِوَجَاس قَیِّمًا( سورۃ الکہف)، مِنْ مَرْقَدِنَاس (سورۃیس)، مَنْ س رَاقٍ (سورۃ القیامہ)، بَلْ س رَانَ (سورۃ المطففین)
پاکستانی ضبط میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔
مَالِیَہْ س ھَلَکَ سورۃ الحاقہ میں دو وجہیں ہیں۔اظہار مع السکت اور ادغام۔
پاکستانی ضبط میں ایسی کوئی علامت نہیں ہوتیـ
(و) واؤ چھوٹی سی لکھی جاتی ہے، جہاں ہائے ضمیر پر قاعدہ کے موافق ضمہ پر صلہ کیاجارہاہو۔
(ے) جس ہاء پر قاعدہ کے موافق کسرہ پرصلہ کیا جارہا ہو وہاں چھوٹی سی یاء لکھی جاتی ہے۔اگر صلہ کے بعد ہمزہ ہوتو اس ’و‘ ،’ی‘ پر چھوٹی سی مد بھی لکھی جاتی ہے، جیسے إنَّ رَبَّہُو ،کَانَ بِہِی بَصِیْرًا،وَاَمْرُہُوٓ اِلَی اﷲِ،وَالَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَا اَمَرَ اﷲ بِہ یٓ اَن یُوْصَلَ۔
پاکستانی ضبط میں کھڑی زیر اور الٹا پیش لکھا جاتاہے۔ ہائے ضمیرکے ماقبل یا ما بعد اگر کوئی حرف ساکن ہو تو وہاں ہائے ضمیر میں صلہ نہیں ہوتا، مگر ہمارے مصاحف میں دو جگہ صلہ لکھا ہوا ہے: بِہٖ انْظُرْ (الانعام) ، شَاکِرًا لِاَنْعُمِہٖ اجْتَبٰہُ (النحل)۔ ان دونوں جگہ ہائے ضمیر میں عدم صلہ ہے۔ یاد رہے کہ ان دونوں مواقع پر ہمارے پاکستانی مصاحف میں جو کھڑی زیر کی علامت ڈالی گئی ہے، یہ بالکل غلط ہے۔ وقف کی صورت میں ہاء ساکن ہوگی اور وصل میں ہاء کے نیچے زیر پڑھی جائے گی، لہٰذا صلہ لکھنا درست نہیں۔
ہائے ضمیر کے ماقبل اور مابعد حرف متحرک ہو تو ہائے ضمیر میں صلہ ہوتا ہے، مگر یَرْضَہُ لَکُمْ(الزمر) میں صلہ نہیں ہوتا۔ پاکستانی مصاحف میں بھی ضبط اسی طرح ہے۔
ہائے ضمیر کے ماقبل اگر کسرہ یا یاء ساکنہ ہو تو ہائے ضمیر مکسور ہوتی ہے مگر اَرْجِہْ (الاعراف،الشعراش) اور فَاَلْقِہْ (النمل) میں ہائے ضمیرساکن ہے۔ پاکستانی مصاحف میں بھی ضبط اسی طرح ہے۔
ہائے ضمیر کے ماقبل یا مابعد کوئی حرف ساکن ہوتو ہائے ضمیرمیں صلہ نہیں ہوتا، مگر وَیَخْلُدْ فِیْہِ ے مُھَانًا (الفرقان) میں صلہ ہوتا ہے۔ پاکستانی مصاحف میں ھاء کے نیچے کھڑی زیر ڈالی گئی ہے۔

نوٹ:
نقطوں کی پہنچان کےلیے آپ اس فائل کو دیکھیں
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ سورۃ الروم میں لفظ ضَعْفٍ مجرور دو جگہ اور ایک جگہ ضَعْفًا منصوب ضاد کافتحہ سے اور ضاد کاضمہ دو وجہیں ہیں یعنی
اَﷲُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْم بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنْم بَعْدِ قُوَّۃٍ ضُعْفًا وَشَیْبَۃً ج جبکہ ہمارے مصاحف میں ضَعف دو جگہ مجرور اور ضَعفا ایک منصوب، تینوں ضاد کے ضمہ سے لکھے ہیں اور حاشیہ میں ضاد کا فتحہ بھی لکھا ہوا ہے۔
٭ سورۃ النَّمل میں ء اتٰن میں وقفا امام حفص رحمہ اللہ کے لیے دو وجہیں ہیں:
ایک اثبات یاء ساکنہ سے یعنی ئَ اتٰنِیْ اور دوسری وجہ نون کے سکون سے ۔
٭ سورۃ الدہر میں لفظ سَلٰسِلَاْ میں بھی وقفاً دو وجہیں ہیں:
ایک آخر الف کے اثبات سے اور دوسری وجہ آخری الف کے حذف سے۔
یہاں علم الضبط کا بیان اِختتام پذیرہوا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آیات کا شمار
آیات کاشمار بھی ایک نہایت اہم علم ہے اوراس کی اہمیت کے پیش نظر ایک مختصر تعارف میں اس علم کا بھی کرانا چاہوں گا۔ آیات کے شمار میںاہل مکہ، اہل مدینہ، اہل شام، اہل بصرہ اور اہل کوفہ نے اختلاف کیاہے، جو اس طرح ہے۔ اہل مدینہ آیات قرآن کی دوتعداد ذکر کرتے ہیں:
(١) پہلی تعداد وہ ہے، جس کو امام ابوجعفر یزید بن القَعْقَاع رحمہ اللہ اور امام شیبہ بن نصاح رحمہ اللہ نے قرار دیا ہے۔
(٢) دوسری تعداد وہ ہے، جسے امام اسماعیل بن جعفر بن ابی کثیر انصاری رحمہ اللہ نے مقرر فرمایا ہے۔
اہل مکہ شمار آیات امام عبداللہ بن کثیررحمہ اللہ سے لیتے ہیں،جس کو امام مکی رحمہ اللہ مجاہدرحمہ اللہ سے اور امام مجاہد رحمہ اللہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سید القراء ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے اخذ کرتے ہیں۔
اہل شام کی شمار آیات کو ہارون بن موسیٰ الاخفش رحمہ اللہ نے عبداللہ بن ذکوان رحمہ اللہ سے اور احمدبن یزید حلوانی رحمہ اللہ وغیرہ نے ہشام بن عماررحمہ اللہ سے نقل کیا ہے، پھر آگے ابن ذکوان رحمہ اللہ اور ہشام رحمہ اللہ نے ایوب بن تمیم ذماری رحمہ اللہ سے اَخذ کیا ہے، ایوب رحمہ اللہ نے یحییٰ بن الحارث رحمہ اللہ سے اخذ کیا، وہ فرماتے ہیں:
’’یہی وہ تعداد ہے، جس کو ہم اہل شام کی تعداد آیات مانتے ہیں اور اسی کو مشائخ نے صحابہ کرام کی روایت سے ہم تک پہنچایا ہے اور اسی کو امام عامر شامی رحمہ اللہ نے حضرت ابوالدرداء رضی اللہ سے روایت کیا ہے۔‘‘
اہل بصرہ کی تعداد آیات کا مدار عاصم بن الحجاج الجُحْدری رحمہ اللہ کی روایت پر ہے۔ اہل کوفہ جس تعداد کو مانتے ہیں،اس کی نسبت امام حمزہ کوفی رحمہ اللہ، امام کسائی کوفی رحمہ اللہ اور امام خلف بن ہشام رحمہ اللہ سے کی جاتی ہے۔ امام حمزہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہم کو یہ تعداد ابن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ نے بواسطہ عبدالرحمن سلمی رحمہ اللہ سے اور انہوں نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے سن کر بتلائی ہے۔ جبکہ عدد آیات کے کوفی شمار میں، جو کہ حضرت ابوعبدالرحمن بن حبیب سلمی رحمہ اللہ سے وارد ہے اور انہوں نے خلیفہ چہارم علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے اخذ کیا ہے، کو ملحوظ رکھاگیا ہے۔ یہ بات امام ابوالقاسم شاطبی رحمہ اللہ، جنہوں نے عدد آیات کے فن کے متعلق اپنے قصیدہ’ناظمۃ الزہر‘ میں قواعد بیان فرمائے ہیں، نے اپنی کتاب ’ناظمۃ الزہر‘ میں بیان فرمائی ہے۔ کوفی شمار کے مطابق آیات کی تعداد (۶۲۳۶) چھ ہزار دو سو چھتیس ہیں۔ مصحف المدینۃ النبویۃ کے کل صفحات کی تعداد (۶۰۴) چھ سو چار ہے، جبکہ اجزاء، احزاب اور ارباع کو علامہ الصفاقسی رحمہ اللہ کی کتاب ’غیث النفع‘ سے ، علامہ شاطبی رحمہ اللہ کی ’ناظمۃ الزہر‘ کی شروحات سے، الشیخ محمد متولی رحمہ اللہ کی ’تحقیق البیان‘سے اور ابوعیدرضوان المخلِّلاتی رحمہ اللہ کی ’ارشاد القراء والکاتبین‘ سے اخذ کیاگیا ہے، جبکہ سورتوں کے مکی ومدنی کا بیان عمر بن محمد بن عبدالکافی رحمہ اللہ کی کتاب سے اَخذ کیا گیا ہے۔
وقوف کی علامات اور ان کی نشاندہی اراکین لجنہ نے معانی کو مدنظر رکھ کر خود کی ہے، جس میں اراکین لجنہ نے علمائے وقف والابتداء اور علماء مفسرین کے اقوال کو مدنظر رکھا ہے، جبکہ مواقع ِسجدات کو کتب احادیث اور کتب فقہ سے اخذ کیاہے۔ واضح رہے کہ ہمارے پاکستانی مصاحف میں سجدات تلاوت چودہ بیان کئے گئے ہیں، جبکہ مصحف مدینہ میں مکمل پندرہ سجدات بیان کئے گئے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سکتات کے مواقع جو روایت حفص کے مطابق ہیں، وہ امام شاطبی رحمہ اللہ کی ’حرز الامانی ووجہ التھانی المعروف بالشاطبیۃ‘سے اخذ شدہ ہیں۔ بعد ازاں اس مصحف میں استعمال ہونے والی اصطلاحات ضبط کا تعارف اور تشریح دی گئی ہے۔ اسی طرح علامات الوقوف کا بیان ہے،جن میں(م) سے وقف لازم، (لا) سے وقف ممنوع، (ج) سے وقف جائز، (صلے) سے وقف جائز مع کون الوصل اولیٰ، (قلے) سے علامۃ الوقف الجائز مع کون الوقف اولیٰ اور وقف معانقہ کی نشاندہی کی گئی ہے۔
یہاں میں آپ حضرات کے سامنے یہ بات خاص طور پر عرض کروں گا کہ پاکستان میں چھپنے والے قرآن حکیم کے نسخہ جات میں علامات وقوف کی اس قدر بھرمار ہے کہ ایک عام قاری کو ان علامات وقوف کو یاد رکھنا بھی ایک جہد مسلسل کا متقاضی ہے۔ راقم نے ان تمام باتوں کی بڑی تفصیل سے وضاحت اپنی کتاب ’الاھتداء فی الوقف والابتداء‘میں کی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح ’مصحف المدینۃ النبویۃ‘میں بڑی مختصر اورجامع انداز میں علامات وقوف مقرر کی گئی ہیں اسی طرح پاکستان کے مطبوعہ قرآن کے نسخوں میں بھی وہ علامات وقوف اختیارکرنی چاہئے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ ’مصحف المدینۃ النبویۃ‘ ایک ایسا شاہکار ہے جس میں پڑھنے والے کے لیے بہت زیادہ آسانی اور سہولت کا اہتمام کیا گیا ہے۔ میں دعا کرتاہوں کہ اسی طرز اور نہج پر پاکستان میں بھی اس اہتمام اور شان سے کام ہو اور پھر تمام ناشرین ِقرآن کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ اسی منظور کردہ مصحف کو پرنٹ کریں اور دیگر مختلف النوع کتابت والے مصاحف، جن میں رسم، ضبط اور حتیٰ کہ دیگر بڑی فاش اغلاط ہیں ان کی طباعت حکومت کے حکم پر بند کردی جائے اور پورے پاکستان میں بھی صحت رسم و ضبط کے اعلیٰ معیار پر ایک مصحف رائج ہوجائے۔
 
Top