• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصحف ِعثمانی کی اِشاعت اور شرق و غرب میں منتقلی

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف ِعثمانی کی اِشاعت اور شرق و غرب میں منتقلی

ڈاکٹر سحر السید عبد العزیز سالم
مُترجِم: فواد بادشاہ​
تمام مصادرِ عربیہ اس بات پر شاہد ہیں کہ رسول اللہﷺ نزول وحی کے فوراً بعد صحابہ کرام﷢ کو کتابت وحی کا حکم دیتے اور ہر نازل شدہ قرآنی آیت کو فوراً ضبط کرلیا جاتا تھا۔
اس کتابت کا سہرا بالاتفاق چار صحابہ کرام﷢ کے سر پر رکھا گیا ۔
(١) حضرت ابی بن کعب﷜ (٢) حضرت معاذ بن جبل﷜
(٣) حضرت زید بن ثابت﷜ (٤) حضرت ابو زید﷜
یہ چاروں صحابہ انصارمیں سے تھے جبکہ دو کے بارے میں اختلاف ہے جن میں ایک ابودرداء﷜ اور دوسرے عثمانt ہیں۔
اس وقت کے حالات کے پیش نظر صحابہ کرام قرآن کو مختلف ٹکڑوں ، ہڈیوں ، کھجوروں کی لکڑیوں اورچمڑے وغیرہ پر لکھ لیتے تھے۔ گویا کہ نصوص قرآنی کا مواد ان چیزوں کے اندر محفوظ تھا۔ اسی وجہ سے آیات قرآنی جدا اور بکھری ہوئی تھیں اور بہت سے صحابہ نے ان آیات کو اپنے سینوں میں بھی محفوظ کیا ہوا تھا۔ لہٰذا اس طرح قرآن کریم کے محفوظ کرنے کے دو طریقے ہوئے:
(١) طریقہ صوتی (٢) طریقہ کتابی
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
لیکن اس زمانے میں کاتبین کی قلت کے پیش نظر پہلی صورت ’طریقہ صوتی‘ زیادہ آسان تھی۔ اس وجہ سے لوگ اکثر اپنے حافظوں پر اکتفا کرتے تھے۔ رسول اللہﷺ کی وفات کے متصل بعد سلطنت اسلامیہ کی حالت میں تبدیلی رونما ہوئی حتیٰ کہ خلیفہ اوّل ابوبکر﷜ کو کئی فتنوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں سب سے بڑا فتنہ مرتدین کا تھا۔ حضرت ابوبکر﷜ نے بغیر تردد اور سوچ و بیچار کے ان کے خلاف خروج کیا اور انہی کے خلاف جنگ یمامہ ہوئی جس میں تقریباً ایک ہزار مسلمان شہید ہوئے جن میں سے ۴۵۰ حفاظ تھے۔ اس وقت ابوبکر صدیق﷜نے قرآن کریم کو ضائع ہونے کے ڈر سے جمع کرنے کا ارادہ کیا اور یہ ذمہ داری زید بن ثابت﷜ کے سپرد کی کیونکہ وہ قرآن کو پختہ طریقے سے یاد کرنے والے اور کاتبین وحی میں سے تھے۔ اس طرح ابوبکر﷜ اس خدمت عظمیٰ کیلئے آگے بڑھے اور عمرفاروق﷜ نے ان کی معاونت کی۔ ادھر زید بن ثابت﷜ نے اپنے اس معاہدے کے مطابق جو انہوں نے امیر المؤمنین ابوبکر صدیق﷜ سے کیا تھا ،اس کو پورا کرنے کے لیے قرآن کریم کو جمع کرنا شروع کردیا جب تک کوئی اپنے لکھے ہوئے پر دو گواہ نہ لے آتا تھا زید بن ثابت﷜ اس وقت اس لکھے ہوئے کو قبول نہ کرتے تھے۔ اس طرح وہ اپنے اس کام میں کامیاب ہوگئے اور قرآن کریم کو ایک کتابی شکل میں جمع کردیاگیا ۔اسی وجہ سے ابوبکر﷜ پہلے ’جامع القرآن‘ کے نام سے متعارف ہوئے اور اس جمع شدہ قرآن کو عرف میں ’مصحف‘ کہا جاتا ہے۔
یہ مصحف ابوبکر﷜ کے پاس رہا پھر عمر بن خطاب﷜ کے پاس آیا اور ان کی شہادت کے بعد اس مصحف کو اُم المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے سپرد کردیا گیا جو کہ بذات خود قرآن کی قاریہ تھیں۔
غالب گمان یہی ہے کہ یہ مصحف خط لین (مکی خط) میں لکھا گیا تھا اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ مصحف خط جاف (مدنی خط) اور خط لین (مکی خط) دونوں میں لکھا گیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف عثمانی اِسلامی شہروں میں
خلیفہ سوم حضرت عثمان بن عفان﷜کے دورِ خلافت میں اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع ہوا۔ آرمینیہ اور آذربائیجان جیسے عظیم الشان علاقے سلطنت اِسلامیہ کا حصہ بنے۔ ان مفتوحہ علاقوں میں حذیفہ بن یمان﷜نے لوگوںمیں قراء ت کا اختلاف پایا جو کہ مختلف لہجوں کی بنا پر تھا۔ یہ سارا ماجرا دیکھ کر حضرت حذیفہ بن یمان﷜ فوراً مدینہ میں حضرت عثمان بن عفان﷜کے پاس آئے اور کہا:
’’أدرک ھذہ الأمۃ قبل أن یختلفوا اختلاف الیھود والنصاریٰ۔‘‘ (صحیح البخاري: ۴۹۸۸)
’’اے امیرالمؤمنین! اس وقت امت کا تدارک کرو قبل اس کے کہ وہ آپس میں اختلاف کریں جس طرح یہودیوں اور عیسائیوں نے اختلاف کیا۔‘‘
حضرت عثمان بن عفان﷜ حضرت حذیفہ بن یمان﷜ کے الفاظ سن کر بڑے متاثر ہوئے اور ارادہ کرلیا کہ کیوں نہ قرآن کو ایک نسخے کی شکل میں مرتب کیا جائے اور پھر مختلف شہروں کی طرف روانہ کردیا جائے۔ حضرت عثمانt نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے مصحف ابوبکر﷜ منگوایا تاکہ اس کو دیکھ کر از سر نو ایک نیا مصحف مرتب کیا جائے۔ اب اس مہم عظیم کوپایہ تکمیل تک پہچانے کے لیے یہ کام زید بن ثابت﷜، عبداللہ بن زبیر﷜، سعید بن العاص﷜، عبدالرحمن بن حارث بن ہشام﷜ کے سپرد کیا گیا۔ جب کاتبین اپنی کتابت سے فارغ ہوکر اس مصحف کو منظر عام پر لائے تو حضرت عثمان﷜ نے اس مصحف عثمانی کے علاوہ باقی عام و خاص تمام مصاحف کو جلانے کا حکم دے دیا۔
مصحف عثمانی﷜ مکمل کب ہوا؟
اس میں اختلاف ہے کہ مصحف عثمانی کب پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اس میں جو قول راجح معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ مصحف ۳۰ ہجری کو مکمل ہوا ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ مصاحف کس نام سے معروف ہوئے؟
مسلمانوں کو اختلاف سے بچانے کے لیے جو مصاحف ایک ہی قراء ات پر لکھے گئے وہ ’مصحف آئمہ‘ اور ’مصاحف عثمانیہ‘ کے نام سے معروف ہوئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
لکھے جانے والے مصاحف کتنے تھے؟
اس بارے میں لوگوں کا اختلاف ہے کہ جو مصاحف حضرت عثمان﷜ نے لکھوائے ، ان کی تعداد کیا تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ابوعمروالدانی﷫
حضرت عثمان﷜ نے جو مصاحف مرتب کروائے ان کی تعداد چار تھی۔ جن میں سے ایک کوفہ روانہ کیا گیا، دوسرا بصرہ میں، تیسرا دمشق میں اور چوتھا حضرت عثمان﷜ نے اپنے پاس رکھ لیا تھا۔
اسی مؤقف کی تائید اما م زرکشی﷫ نے ’البرھان‘ میں اور امام حذو الدانی﷫ ’المقنع‘ میں کرتے ہیں۔
٭ امام سجستانی﷫ سے اس بارے میں دو قول منقول ہیں:
(١) مصاحف عثمانی حمزہ الزیات کی قراء ت پر لکھے گئے اور یہ کل چار تھے۔
(٢) ان مصاحف کی تعداد سات تھی جو کہ مکہ، شام، یمن، بحرین، بصرہ، کوفہ اور مدینہ کی طرف روانہ کئے گئے۔
امام یعقوبی قرماتے ہیں مصاحف عثمانی کی تعداد ۹تھی۔
٭ ابن الجزری﷫ فرماتے ہیں:
مصاحف عثمانیہ کل آٹھ تھے جن میں سے ایک حضرت عثمان﷜نے اپنے لیے رکھا اور باقی مختلف شہروں کی طرف روانہ کردیئے۔ جو مصحف حضرت عثمان﷜نے اپنے لیے خاص کیاتھا اس کو ’الامام‘ کہا جاتا ہے۔
جمہور علماء کے نزدیک مصاحف عثمانیہ کی تعداد چھ تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف عثمانی شخصی
مصادر عربیہ اس پر متفق ہیں کہ جب محاصرین نے حضرت عثمان﷜ کا گھراؤ کیا جو کئی دنوں تک رہا اس کے آخری دن حضرت عثمان﷜ نے اپنے مصحف خاص کو پکڑ ا اور اپنی گود میں رکھا اور تلاوت کرنے لگے۔ اسی حالت میں دشمنوں نے حملہ کیا جسم سے خون کے قطرات ٹپکے اور ’مصحف امام‘ کے اوراق میں سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اﷲُ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ‘‘ (البقرۃ:۱۳۷) پر گرے۔
یہاں سے مصحف عثمانی شخصی کے متعلق کئی دعوے سامنے آئے جو درج ذیل ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) مصحف مصر کے متعلق
وہ مصحف جس پرحضرت عثمان﷜ کے خون کے قطرات نمایاں تھے وہ مصحف مصر ہے۔
مقریزی: یہ مصحف عباسی خلیفہ مقتدر باللہ کے خزانے سے نکلا تھا۔ اس کے بعد اس کو ۵ محرم ۳۷۸ہجری کو عزیز باللہ کے دور خلافت میں جامع عمرو کی طرف منتقل کردیا گیا( لیکن اس کے منتقل ہونے کے متعلق کوئی تاریخی نص نہیں ملتی۔ پھر مدت طویلہ تک یہ مصحف (جو بعض لوگوں کے گمان کے مطابق مصحف عثمان ہے)مدرسہ القاضی الفاضل جو کہ مشہد حسینی کے قریب تھا اس میں محفوظ رہا ۔پھر یہ مدرسہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا اور اس مصحف کو سلطان غوری کے تعمیر کردہ قُبہ جو کہ اسی مدرسہ القاضی فاضل کے سامنے تھا اس میں منتقل کردیا گیا۔ ۱۲۷۵ہجری تک یہ مصحف اسی جگہ محفوظ رہا پھر یادگار نبویہ کو مسجد زینبی کی طرف لے جایا گیا ۔پھر وہاں سے اس قیمتی خزانے کو ایک قلعہ میں رکھ دیا گیا۔ ۱۳۰۴ہجری میں اس مصحف کو محکمہ اوقاف کے سپرد کردیا اور وہاں سے اگلے سال قصر عابدین میں پھر اسی سال مسجد حسینی میں منتقل کیا گیا۔
امام سمھود: یہ بات یا دعویٰ بعید از قیاس ہے کہ یہ مصحف حقیقتاً وہی مصحف ہے جو حضرت عثمان﷜نے اپنے لیے خاص کیا تھا۔ ہاں البتہ یہ احتمال ہے کہ یہ ان مصاحف میں سے ہو جو حضرت عثمان﷜نے مختلف اسلامی شہروں کی طرف روانہ کئے تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اعتراض: امام سمھود کے اس قول پر ہماری طرف سے یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ یہ ایک وہم ہے جس کی حقیقت کی طرف ہم اشارہ کرنا لازمی سمجھتے ہیں۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عثمان﷜نے جب مصاحف مختلف شہروں کی طرف بھیجے تھے تو اس وقت مصر کی طرف کوئی مصحف نہیں بھیجا تھا ۔
ابوعبیدقاسم بن سلام﷫، سجستانی﷫، ابوعمرو دانی﷫ یہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان﷜نے مصر کی طرف کوئی نسخہ روانہ نہیں کیا تھا۔
ڈاکٹر سعد ماھد: میں نے مصحف مصر کو غور سے پڑھا ہے،میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس مصحف کا خط بعد والے زمانے کا تھا نہ کہ حضرت عثمان﷜ کے زمانے کا؟
ہماری رائے یہ ہے کہ وہ مصحف مصاحف عثمانیہ سے نقل شدہ ہے جیسے مصحف شام ہے۔ کیونکہ عہد اموی میں تصانیف و تدوین کا سلسلہ زوروں پر تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حجاج بن یوسف ثقفی نے اپنے مصحف سے کئی مصاحف تیار کروا کے مختلف شہروں کی طرف روانہ کئے ان شہروں میں مصر بھی قابل ذکر ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) مصحف بصرہ کے متعلق
ابن بطوطہ: مصحف بصرہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ میں نے ’مسجد امیر المؤمنین‘ جو کہ بصرہ میں ہے،میں مصحف کا مشاہدہ کیا وہ واقعی وہی مصحف تھا جو شہادت کے وقت حضرت عثمان﷜ پڑھ رہے تھے اور خون کے قطرات اس ورقے پر موجود تھے جس میں اللہ تعالیٰ کا قول: ’’ فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اﷲُ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ‘‘ ہے۔ (البقرۃ: ۱۳۷)
لیکن ہم اس قول کو بعید از قیاس تصور کرتے ہیں کہ یہ حقیقتاً وہی مصحف ہے جو حضرت عثمان﷜ کا خاص تھا کیونکہ بنی زیان نے اس کو اپنے بادشاہوں کے خزانے میں محفوظ کیا ہوا تھا جو کہ تلمسان میں تھا۔ ۷۳۸ھ (۱۳۳۷ء) کو ابوالحسن علی المرینی نے تلمسان کو فتح کیا اور اس خزانے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ جب ’ابن بطوطہ‘ نے عراق میں مصحف دیکھا اس وقت اس مصحف کو ۱۲۹۵ء سے مغل خاندان کی حکومت قائم ہونیکے بعد ایران میں رکھا گیا۔ اگر ہم بالفرض مان لیں کہ وہ مصحف جو ابن بطوطہ نے بصرہ میں دیکھا وہ مصحف عثمان ہی ہے جوکہ بغداد سے سقوط بغداد کے بعد ۶۵۶ھ میں بصرہ کی طرف منتقل کردیا گیا اور وہاں مغل خاندان کے ہاتھوں میں رہا، تو پھرمصحف عثمان﷜جس پر خون کے قطرات تھے اس کا مغرب میں مرینی خاندان کے خزانے میں موجود ہونے کا دعویٰ ناممکن ہے۔
مغربی مصحف کے بارے میں ہمیں کوئی شک نہیں کیونکہ یہ مصحف اولاً جامع قرطبہ میں رہا پھر وہاں سے مؤحدین نے ضائع ہونے کے ڈر سے اس کو مراکش میں منتقل کردیا اور وہاں اس کو عجائب گھر میں رکھ دیا گیا۔ اس وقت اس کے اوراق مصحف عثمانی سے کچھ کم تھے۔ یہی با ت ہمیں شک میں ڈالتی ہے کہ ابن بطوطہ کا دیکھا ہوا مصحف کیا واقعتا مصحف عثمانی شخصی ہے۔ اس وقت پھر ہمارے لیے سوائے ایک فرضی بات کے کوئی چارہ کار نہیں رہتا کہ یہ مصحف جو بصرہ میں محفوظ تھا یہ ان مصاحف میں سے ہو جن کوحضرت عثمان﷜نے عراق میں بھیجا تھا اور خون کے قطرات اس پر عمداً حقائق پر پردہ پوشی کرنے کے لیے اور یہ ثابت کرنے کے لیے کہ یہ مصحف خلیفہ شہید کا مصحف ہے ، بکھیرے گئے تھے۔
 
Top