• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصحف ِعثمانی کی اِشاعت اور شرق و غرب میں منتقلی

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
موحدین نے اس مصحف کو بڑی حفاظت اور عزت و احترام سے رکھا۔ اس کے لیے قیمتی غلاف تیار کیا ۔ وہ اس کو ایک سرخ اونٹنی پر رکھے ھودج میں بند کرکے اس ھودج پر چار سرخ نشانات لگاتے اوراس ھودج کے پیچھے پیچھے خلیفہ، اس کا بیٹا پھر ان کے پیچھے دیگر لوگ چلتے۔
یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا ۔جب موحدین سفر، نقل وحمل کا ارادہ کرتے تھے تو ساتھ اس مصحف کو ھودج میں رکھ کے لے جاتے ۔اس کے بعد اس مصحف کو خلیفہ موحد باللہ، ابوالحسن علی بن مأمون ادریس نے اپنی حفاظت میں لے لیا۔
۶۴۶ ھ میں علی کو تلمسان میں قتل کردیا گیا موحدین کا لشکر خالی ہوگیا۔ بادشاہ کے خزانے میںلوٹ مار کا بازار گرم ہوگیا ۔عرب لشکر عظیم پر قابض ہوئے اور انہوں نے اس مصحف کریم کوبھی لوٹ لیااور تلمسان میں نیلامی کے لیے کتابوں کے بازار میں رکھ دیا۔ اس کی قیمت ۱۷ درھم رکھی گئی۔جبکہ اس کے بہت سے اوراق ضائع ہو گئے۔ جب تلمسان کے امیر ابویحییٰ جو کہ بنی عبدالواد سے تعلق رکھنے والے تھے ان کو پتا چلا تو اس نے اس مصحف کو خریدا اور بڑی حفاظت کے ساتھ رکھا ۔اس کے بعد اس کے بیٹے اس کے وارث بنے۔۷۰۲ھ تک یہ انہی کے قبضے میں رہا۔
اسی طرح مصحف عثمان تلمسان کے شاہی خزانے (جو کہ بنی عبدالواد کا تھا) میں محفوظ رہا حتیٰ کہ ابوالحسن علی بن عثمان بن ابویعقوب المرینی رمضان کے آخر میں (۷۳۷ھ، ۱۳۳۶ء) تلمسان پر قابض ہوا اور ۷۳۸ھ کو اس کو مکمل طور پر فتح کرلیا۔ مصحف عثمان ان کے ہاتھ لگا اس نے اس کو بڑے اہتمام اور تکریم کے ساتھ رکھا۔ موحدین کی عادت کو برقرار رکھتے ہوئے جب یہ لڑائی کے لیے نکلتے تھے تو اس کو لشکر کے آگے آگے رکھتے تھے۔ بالاتفاق یہ مصحف ۷ جمادی الاوّل ۷۴۱ھ میں نہر سلادو کے پڑوس میں ہونے والی جنگ طریف میں (جیسا کہ عیسائیوں کی معتبر کتابوں میں ہے) پُرتگالوں کے ہاتھوں میں بطور مال غنیمت کے چلا گیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس کے بعد مرینیوں کے اندر ہمت نہ رہی ۔جب مرینی بادشاہ نے دیکھا کہ اب اس مصحف کو واپس لانے کے لیے ہمارے اندر سکت باقی نہیں ہے تو اس نے تاجر ابوعلی حسن بن جمی کو آزمور شہر میں پُرگالوں کی طرف بھیجا کہ ان کو کہے کہ مال لے کر اس مصحف کو واپس کردیں۔ ابوعلی حسن بن جمی اس کام میں کامیاب ہوگیا اور اس مصحف کو ۷۴۵ھ میں فاس شہر میں بادشاہ ابوالحسن مرینی کی خدمت میں لاکر پیش کردیا۔
ابن مرزوق: مرینیوں نے اس مصحف کو پرتگالوں سے چھڑانے کے لیے ایک ہزار سونے کے دینار وقف کئے۔ اس طرح یہ مصحف دوبارہ فاس شہرکی طرف لوٹ آیا۔اس کے دونوں گتوں پر قیمتی پتھروں کو اتارکراسکی خوبصورتی کو پُرتگالوں نے ختم کردیا تھا۔ ۔ اسی طرح یہ مصحف مرینیوں کے خزانے میں رہا اور یہ اس کا آخری زمانہ تھا۔ اس کے بعد تاریخ میں اس کے متعلق کوئی خبر نہیں ملتی۔ واﷲ أعلم
نوٹ
یہ مقالہ ندوۃ بعنوان تاریخ الأمۃ الإسلامیۃ بین الموضوعیۃ والتحیز میں پڑھا گیا، یہ ندوہ ۲۱ تا ۲۳اکتوبر ۱۹۸۹ء میں زقازیق، مصر میں منعقد ہوا۔

٭_____٭_____٭
 
Top