• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصنف ہدایہ کی حضرت ابرہیم کی شان میں گستاخی۔

شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
85

مصنف ہدایہ کی حضرت ابرہیم کی شان میں گستاخی۔
حنفی مذہب کے اس مسلہ کو عید میں تکبیر اس طرح پڑھے ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
ھوالماثوری عن الخلیل صلوات اللہ علیہ۔
یعنی خلیل صلوات اللہ علیہ سے یہی تکبیر منقول ہے ملاحظہ ہو جلد اول صفحہ 155 باب العیدین مطبوعہ مجتبائی۔ دراصل حضرت ابراہیم علیہ اسلام سے یہ ثابت نہیں یہاں تک کہ زیلعی کو بھی کہنا پڑا لم اجدماثورا عن الخلیل یعنی میں نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ سے اس کا منقول ہونا نہیں پایا۔

مصنف ہدایہ جلد اول باب صلٰوة الجمعہ صفحہ 148 مطبوعہ مجتبائی میں اپنی طرف سے حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر کے لکھتے ہیں۔ لقو لہ علیہ اسلام لاجمعة الا فی مصر جامع۔
یعنی جمعہ کی نماز سوائے بڑے شہر کےہوتی ہی نہیں۔ اے لوگو ں کو قرآن و حدیث سے ہٹا کر فقہ کی ان کتابوں کی طرف جھکانے والو سچ بتاو کیا تم سب مل کر بھی ان الفاظ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت کر سکتے ہو؟

فقہ شریف کی کل کتابوں کا حال قریب قریب یہی ہے کہ ان کے مصنفین کو حدیث کی مطلقاً تمیز نہیں مقدمہ عمدة الرعایہ مطبوعہ یوسفی صفحہ 12 کی آخری سطر میں لکھتے ہیں اور صفحہ 13 میں لکھتے ہیں۔
فقہ کی کتابیں اگرچہ فروعی مسائل میں معتبر ہوں اور ان کے تصنیف کرنے والے بھی اگرچہ کامل فقہیہ اور معتبر لوگ ہوں تاہم انکی نقل کردہ حدیثوں پر پورا اعتماد نہ کرنا چاہیے بلکہ دراصل وہ حدیث ہے یہ بھی یقین نہیں کیا جاسکتا اور اس حدیث کے ثبوت کا بھی کامل علم محض ان فقہاء کے اپنی کتابوں میں وارد کرنے سے حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ ان حضرات نے تو معتبر ترکتابوں کو بھی بکثرت موضوعات اور مختلفات سے پر کر دیا ہے یہ وہ فقہا ہیں جنہیں فقہی مسائل کے ادھر ادھر سے جمع کر دینے کے سواکچھ نہیں آتا حدیث میں انہیں کوئی مہارت نہیں۔

ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ موضوعات کبیر مطبوعہ مجتبائی صفحہ 74 میں لکھتے ہیں۔
لا عبرة بنقل النھایة ولا بقیة شراح الھدایة فانھم لیسوا من المحدثین ولا اسند والا حادیث الی احد من المخر جین۔
یعنی نہایہ والے اور دیگر شارحین ہدایہ کسی حدیث کو اپنی کتب میں وارد کریں تو وہ معتبر نہیں اس لئے کے وہ حدیث کے جاننے والے نہیں اور نہ کسی محدث کی حدیث کی کتاب کا حوالہ دیتے ہیں ۔

شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب الانصاف مطبوعہ شرکة مطبوعات مصر صفحہ 17 میں لکھتے ہیں۔
اکثر فقہاء حدیث بہت ہی کم جانتے ہیں اور صحیح ضعیف کی پہچان انہیں خاک بھی نہیں ہوتی اور حدیث کی عمدگی غیر عمدگی سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا کوئی بھی روایت ہو مطابق مطلب اور موافق مذہب ہونی چاہیے فوراً وارد کردیا کرتے ہیں چاہے کیسی بھی ہو۔

شیخ عبدالحق حنفی دہلوی شرح سفر السعادت میں ہدایہ اور مصنف ہدایہ کی نسبت لکھتے ہیں اگر حدیثے آوردہ نزد محدثین خالی از ضعفی نہ غالباً اشتغال دقت آں اوستاذ در علم حدیث کمتربودہ۔
یعنی مصنف ہدایہ اگر کوئی حدیث بھی ہدایہ میں لاتے ہیں تووہ بھی محدثین کے نزدیک ضعف سے خالی نہیں ہوتی غالباً مصنف ہدایہ کو علم حدیث کا بہت کم شغل تھا۔

امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
ھولاء اصحاب ابی حنیفة لیس لھم بصر بشی من الحدیث مامو الا الجراة قیام اللیل
للمروزی مطبوعہ رفاہ عام لاھور صفحہ 124 یعنی امام ابو حنیفہ کے مذہب والوں کو حدیث کی کچھ تمیز نہیں وہ تو سراسر دھینگا مشتی کیا کرتے ہیں۔

کتاب قلمی صفحہ 53 میں حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کا قول نقل کرتے ہیں کل حدیث جاء من العراق ولیس لہ اصل فی الحجاز فلا تقبلہ۔
یعنی عراق کی جانب سے جو حدیث آئے اور حجاز میں اس کی اصلیت نہ پائی جاتی ہو تو اسے قبول نہ کیا کرو اسی کتاب کے اسی صفحہ میں امام زہری کا قول نقل منقول ہے اذاسمعت بالحدیث العراق فار دوجہ ثم اردوبہ۔
یعنی عراقیوں کو حدیث سے مس نہیں ان کی بیان کردہ حدیث کو قبول نہ کر لیاکرو حضرت امام طاؤس تو ان سے بھی بڑھ کر فرماگئے اور پہلے سے لوگوں کے کان کھول دیے اس کتاب کے اسی صفحہ میں آپ کا فرمان منقول ہے۔
اذا حدثک العراقی ماتہ حدیث فاطرح تسعتہ و تسعین ۔
یعنی عراق والے اگر سو حدیثیں بھی بیان کریں تو ان میں سے ننانوے غیر ثابت ہوں گی اور امام ہشام بن عروہ نے تو اس ڈھول کا پول کھول دیا اسی صفحہ میں ان کا قول یہ ہے۔
اذاحدثک العراقی بالف حدیث فالق تسع مائة و تسعین و کن من الباقی فی شک۔
یعنی اگرکوئی عراقی شخص تیرے سامنے ایک ہزار حدیثیں بیان کرے تو سمجھ لے کہ نو سو نوے تو اس میں سے اعتبار سے گری ہوئی ہوں گی اور دس جو باقی رہ گئیں وہ بھی ابھی شک والی ہوں گی ۔

خود صاحب مذہب یعنی حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی نسبت سنئے قیام اللیل للمروزی مطبوعہ رفاہ عام لاہور صفحہ 123 کی آخری سطر میں ہے۔
قال ابن المبارک کان ابو حنیفہ رحمتہ اللہ یتیما فی الحدیث۔
یعنی شیخ الاسلام حضرت عبداللہ بن مبارک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ابو حنیفہ حدیث میں یتیم تھے۔ امام صاحب کی حدیث کی کمی کا اعتراف صاحب عمدة الرعایہ شرح شرح وقایہ بھی صفحہ 34 مطبوعہ یوسفی میں ان الفاظ میں کرتے ہیں۔ واما روایتہ للاحدیث فھی وان کانت قلیلة بالنسبة الی غیرہ من المحدثین الا ان قلتھا لا تحط مرتبة۔
یعنی امام صاحب کی حدیث کی روایت اگرچہ بہ نسبت دوسرے محدثین کے کم ہے لیکن اس کمی سے ان کا درجہ کم نہیں ہوسکتا غرض صاحب عمدة الرعایہ کو اقرار ہے کہ امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے حدیثیں کم مروی ہیں ۔

تاریخ خطیب بغدادی میں حضرت امام صاحب کی نسبت منقول ہے کہ آپ نے علم حدیث سے اپنی بے رغبتی اور بے اعتنائی کھلے لفظوں میں ظاہر فرمائی
الفاظ ملاحظہ ہوں۔
یعنی امام صاحب فرماتے ہیں طالب علم کے شروع کرنے سے پہلے میں نے لوگوں سے دریافت کرنا شروع کیا کہ فلاں علم کے پڑھنے سے کیافائدہ ؟ اور فلاں علم سے کیا نتیجہ؟ اسی سلسلہ میں میں نے کہا اگر حدیث کا علم حاصل کروں اور اس میں اس مرتبہ تک پہنچ جاؤں کہ مجھ سے زیادہ حافظ حدیث کوئی نہ ہو تو کیا انجام ہو گا ؟انھوں نے کہا کہ جب آپ بڑی عمر کو پہنچ کر حدیثیں بیان کرنی شروع کریں گےاور نوجوان نو عمر لوگوں کا حلقہ انہیں سنے گا تو لامحالہ کہیں نہ کہیں غلطی بھی ہو جائے گی پس آپ کو کذاب کا خطاب دے دیا جائے گا اور وہ آپ کے انتقال کے بعد بھی آپ کی سوانح میں رہ جائے گا تومیں نے کہا مجھے اس علم حدیث کی کوئی ضرورت نہیں۔

علامہ اشرف بن طیب حنفی تنبیہ الوسنان میں فرماتے ہیں فرماتے ہیں ترجمہ زندیقوں اور بدعتیوں نے جو حدیثیں پیغمبر علیہ اسلام کے اوپر گھڑ لی تھیں جن کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھ گئ تھی تو کسی حنفی مذہب کی کتاب میں کسی حدیث کا صرف لکھا ہوا دیکھ لینا اس حدیث کے معتبر ہونے کی دلیل نہیں ہو سکتا۔اس لئےکہ ان کا وارد کرنا بیکار ہے۔ یہ متاخرین فقہا چاہے علماء ماوراء النہر ہوں خواہ علماء خراسان ہوں یہ لوگ اپنی ان فقہ حنفی کی کتابوں میں حدیثیں لے تو آتے ہیں مگر حدیث کی کسی معتبر کتاب کا حوالہ نہیں دیتے بلکہ نہیں دے سکتے حتی کہ صاحب الھدایہ اللتی علیہ مدار رحی الحنیفة یہاں تک کہ مصنف ہدایہ بھی جن پر حنفی مذہب کی چکی چل رہی ہے یہ بھی یونہی حدیث کہہ کر لکھ دیتے ہیں لیکن اکثر وہ الفاظ حدیث کہیں دستیاب نہیں ہوسکتے۔
ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ تزکرہ الموضوعات میں لکھتے ہیں۔
ان نقل الاحدیث النبویة لا یجوز الامن الکتب المتداولہ لعدم الاعتمادعلی غیرھا۔
یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں کو صرف حدیث کی معتبر اور مشہور کتابوں سے لینا چاہئے کیونکہ ان کے سوا اور کتابیں اعتماد اور بھروسے کے لائق نہیں۔
الفوائد لبہیہ مطبوعہ یوسفی صفحہ 42 پر لکھا ہے۔
فی طبقات القاری قدوقع فی کتابہ الھدایة اوھام کثیر قد نقلھاالعلامة الفھامة الشیخ عبدالقادرالقرشی فی کتابھہ المسمی بالعنایة۔
یعنی ملا علی قاری اپنی کتاب طبقات میں لکھتے ہیں ہدایہ میں بڑی بڑی غلطیاں اور بہت سے وہم ہیں جن کو علامہ شیخ عبدالقادرقریشی حنفی نے اپنی کتاب عنایہ میں ذکر کیا ہے بلکہ علامہ ممدوح نے اس مضمون پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس کا ذکر بھی اسی کتاب کے صفحہ میں ان لفظوں کے ساتھ ہے اوہام الھدایتہ اس کتاب کا نام ہے اوہام ہدایہ۔
حنفی مذہب کی اعلی کتاب ردالمختار کی پہلی جلد کے بانویں صفحہ کی اس عبارت کو سن لیجئے فقہ کی تمام مختصر کتابوں سے فتوی دینا جائز نہیں فقہ کی کتاب نہر شرح کنز عینی کی۔ درمختار جو تنویرالابصار کی شرح ہے۔ شرح کنز ملا مسکیں کی۔ شرح نقایتہ قہستانی قنیہ زاہدی کی۔ اشباہ نظائر وغیرہ۔
 
Top