• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مضامین ِ حدیث و تعلیمات حدیث

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مضامین ِ حدیث

… تاریخی :
یہ پہلا اور قدرے بڑا حصہ ہے جو استنادی اعتبار سے دوسری تاریخوں کے مقابلہ میں انتہائی معتبر و مستند ہے۔دیگر تواریخ میں قوم کے سیاسی، قومی، معاشرتی ومعاشی حالات کا تجزیہ ہوتا ہے مگر حدیث میں صرف ذات رسول ﷺ کی نبوی شخصیت کا تذکرہ بہ ذریعہ صحیح سند ہوتا ہے۔ سند میں خود حدیث کی تدوین اور زبانی روایت کی تاریخ پنہاں ہے۔یہ قابل بحث چیز نہیں بلکہ تاریخ کا اس طرح حصہ ہیں جس طرح دنیا کی اور تاریخیں ہیں۔ اگرچہ استنادی حیثیت سے دونوں میں فرق ہے۔مگرصحیح علم کا حصول ، غور وفکر اور عبرت ونصیحت کے لئے بہت سبق آموز ہے۔

۲۔ اخلاق و حکمت :
اس حصہ میں اخلاق عالیہ و حکمت کی باتیں ہیں مثلاً جھوٹ سے اجتناب ، سچائی کی عظمت، عدل کی تعریف اور علم کی خوبی۔ اپنی تہذیب اپنا تمدن اور اپنے اخلاق فاضلہ کی حکیمانہ باتیں اس میں ہیں۔ اور ان کے کرنے واپنانے کاطریقہ بتایاگیا ہے۔

۳۔ عقائد:
اس میں عقائد ہیں جن کا تعلق ایمان بالغیب ، معجزات اور وحی خفی وغیرہ سے ہے۔عقیدے کا دو سرا نام غیر متزلزل یقین ہے جسے پانے کا واحد ذریعہ وحی ہے ۔ اسی وجہ سے عقائد کا واحد منبع قرآن پاک اور احادیث نبویہ ہیں۔ خواہ یہ احادیث متواترہوں یا اخبار آحاد۔ اور ان کے ماننے نہ ماننے پر کفر واسلام میں فرق کیا جاتا ہے۔

۴۔ احکام:
احادیث کا یہ حصہ فقہی اور اصولی ہے اور اسی حصے پر مسلمانوں کے تمام عملی کاروبار کادار و مدار ہے۔ سنن کی عام کتب میں یہ سب مواد مل جاتا ہے اور صحاح تو امتیازی حیثیت رکھتی ہی ہیں۔ جو ناقابل تغیر ہیں اور کچھ قابل اجتہاد بھی۔

٭…عموماً احادیث کو غیر اہم سمجھ کر نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ معاشرے کے مختلف الخیال طبقے بھی حدیث سے نالاں ہیں۔ ان کے نزدیک اہم وہی ہے جو موجودہ لہر یاروشِ زمانہ ہے۔نزاکت کی انتہاء یہ ہے کہ رسول محترم کے علاوہ جس نے جو کچھ کہا ہے اسے طے شدہ معاملہ سمجھا جاتا ہے اور اسے چھیڑنا گویا فتنہ انگیزی قرار دیتے ہیں۔مگر رسول ﷺ نے جو کچھ کہا اسے موضوع بحث وجدال اور اجتہاد قرار دیا جاتا ہے۔ عجب ہے ہماری مسلمانی ۔جب کہ مسلم علماء کا اتفاق ہے کہ حدیث جب صحیح ثابت ہوجائے تو شخصی رائے ، اقوال اکابر سبھی ایمانی اعتبار سے ترک کردینے کے قابل ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تعلیمات حدیث

آئیے ! دیکھتے ہیں کہ احادیث نبویہ میں آخر کیا ہے جس سے کچھ لوگ کتراتے یا چیں بچیں ہوتے ہیں۔کیا نبوی باتوں میں کسی شے کی کمی یا پسماندگی ہے جو اپنی مقدس حیثیت تسلیم کرانے میں مانع ہے؟

٭…جو عقیدہ قرآن دیتا ہے وہی حدیثِ رسول بھی دیتی ہے۔
مثلاً:
استوی علی العرش، علو رب، نزول رب، اسماء وصفات باری تعالیٰ اور خالق ومخلوق کے درمیان فرق وجدائی یارفع عیسیٰ علیہ السلام کا معنی ٔ نبوی۔آخر قرآن کا کون سا معنی ومفہوم لوگوں کو سمجھ آجاتا ہے کہ جسے وہ حدیث پر ترجیح دیتے ہیں؟ کیا قرآن وسنت کو ایک دوسرے سے جدا کرنے سے باطنی شرارتوں کے دروازے نہیں کھلتے؟

٭…حدیث تو الہام والقاء ہے ۔
آپ ﷺ کا یہ ارشاد ہے:
السِّوَاکُ مَطْہَرَۃٌ لِلْفَمِ وَمَرْضَاۃٌ لِلرَّبِّ۔مسواک کرنا منہ کی پاکیزگی کا سبب ہے اور رضائے رب کے حصول کاذریعہ بھی۔

جدید علم طب نے بتایا کہ مسواک نہ صرف منہ کو صاف رکھتی ہے بلکہ مسوڑھوں(Gums)اور دانتوں کے درمیان موجود زہریلے مواد کو صرف وہی باہر نکالتی ہے مزیدیہ کہ وہ دانتوں کو مضبوط اور صاف ستھرا رکھنے کے علاوہ منہ، گلا، معدہ اورپیٹ کی کئی بیماریوں پر قابو پاتی ہے ۔السر(Ulcer) اور ایسیڈیٹی (Acidity)کا زیادہ تر سبب یہی زہریلا مواد ہے ۔

ایسے ایمان کا کیا فائدہ جوغیر مسلم سائنس دانوں نے ارشادات نبوی پر تحقیق کرکے ہم سے منوایا مگررسول اکرم ﷺ کی الہامی باتیں ہمارے اندر ایمان بالغیب کو زندہ نہ کرسکیں۔

٭…حدیث میں علم الغیب کی باتیں ہیں:
جس طرح قرآن کریم نے علم غیب سے متعلق خبر دی ہے رسول محترم ﷺنے بھی غیب سے متعلق اخبار ہمیں دی ہیں جو ظاہر ہے بذریعہ وحی آپ ﷺ کو بتائی گئیں۔
مثلاً:
یَنْزِلُ رَبُّنَا إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقَی ثُلُثَ اللَّیْلِ الآخِرِ فَیَقُولُ: ہَلْ مِنْ دَاعٍ فَأَسْتَجِیْبَ لَہُ، ہَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَأَغْفِرَ لَہُ، ہَلْ مِنْ تَائِبٍ فَأَتُوْبَ عَلَیْہِ۔(صحیح بخاری: ۱۱۴۵) جب رات کا ایک تہائی حصہ باقی رہتا ہے تو ہمارے رب کریم آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں: کیا کوئی دعا کرنے والا ہے جس کی میں دعا سن کرقبول کروں؟ کیا کوئی معافی مانگنے والا ہے جسے میں معاف کردوں؟ کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے جس کی توبہ میں قبول کرلوں؟
اللہ تعالیٰ کا یہ نزول اسی شان وانداز کا ہے جو اس کی ذات کو زیبا ہے۔

٭…اس ایمان کا بھی ذکر ہے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علم اور تقدیر کے مطابق ہورہا ہے:
یُؤْذِیْنِی ابْنُ آدَمَ، یَسُبُّ الدَّہْرَ وَأَنَا الدَّہْرُ بِیَدِی الْاَمْرُ اُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ۔(صحیح بخاری: ۴۸۲۶) ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے وہ زمانے کو گالی دیتا ہے جبکہ زمانہ میں ہوں میرے ہاتھ میں امر ہے میں ہی شب وروز کو الٹتا پلٹتا ہوں۔

٭… ساحر ، کاہن اور سنیاسی سے علاج معالجہ کراناحرام ہے:
لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ أَوْ تُطَیِّرَ لَہُ، أَوْ تَکَہَّنَ أَوْ تُکِہِّنَ لَہُ، أَوْ سَحَرَ أَوْ سُحِرَ لَہُ، وَمَنْ أَتٰی کَاہِناً فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُوْلُ، فَقَدْ کَفَرَ بِمَا اُنْزِلَ عَلَی مُحَمَّدٍﷺ۔(مسند البزار: ۳۰۴۴، مجمع الزوائد: ۴۸۰) وہ آدمی ہم میں سے نہیں جس نے فال لی یا فال کروائی، یا کہانت اختیار کی یا اس کے لئے کہانت کی گئی، یا اس نے جادو کیا یا اس کے لئے جادو کیا گیا۔ جو آدمی کاہن کے پاس آئے اور جو کچھ وہ کہے اس کی تصدیق کرے تو اس نے اس دین کا کفر کیا جو محمد ﷺ پر اتارا گیا۔

٭…تعویذ، گنڈے ، دھاگے، پتھرکی انگوٹھی کا پہننا حرام ہے:
مَنْ تَعَلَّقَ بِتَمِیْمَۃٍ فَلَا أَتَمَّ اللّٰہُ لَہُ، وَمَنْ تَعَلَّقَ وَدَعَۃً فَلاَ وَدَعَ اللّٰہُ لَہُ۔(مسند احمد:۴؍۱۵۴)جو شخص تعویذ لٹکائے اللہ تعالیٰ اس کی خواہش پوری نہ کرے اور جو سیپی وغیرہ لٹکائے اللہ تعالیٰ اسے آرام نہ دے۔
إِنَّ الرُّقٰی وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَۃَ شِرْکٌ۔(سنن أبی داؤد: ۳۸۸۳) دم، تعویذ اور جادو یہ سب شرک ہیں۔

٭… شرعی دم اور مباح دوائیں:
مَا أَنْزَلَ اللّٰہُ دَائً إِلاَّ أَنْزَلَ لَہُ شِفَائً، عَلِمَہُ مَنْ عَلِمَہُ وَجَہِلَہُ مَنْ جَہِلَہُ۔(صحیح بخاری: ۵۶۷۸)اللہ تعالیٰ نے جو بیماری بھی نازل کی ہے اس کی شفا بھی نازل فرمائی ہے جس نے اسے جان لیا اس نے اسے جان لیا اور جو اس سے ناواقف رہا وہ اس سے ناواقف ہی رہا۔

٭…گھروں میں تصاویرلٹکانا حرام ہے۔ آ پﷺ فرماتے ہیں:
لاَ تَدْخُلُ الْمَلاَئِکَۃُ بَیْتاً فِیْہِ کَلْبٌ وَلاَ صُوْرَۃٌ۔(صحیح بخاری: ۳۲۲۴) فرشتے اس گھر میں داخل ہی نہیں ہوتے جس گھر میں کتا ہو یا تصویر ہو۔

آپ ﷺنے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا:
لاَ تَدَعْ صُوْرَۃً إِلاَّ طَمَسْتَہَا وَلاَ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلاَّ سَوَّیْتَہُ۔(صحیح مسلم: ۹۶۹)جو تصویر دیکھو اسے مٹا دو اور جو اونچی قبر دیکھو اسے برابر کردو۔

٭… نیک بزرگوں کی قبروں کو مسجد بنانا حرام ہے:
إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَدِ اتَّخَذَنِیْ خَلِیْلاً کَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاہِیْمَ خَلِیْلاً، وَلَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ أُمَّتِیْ خَلِیْلاً لََاتَّخَذْتُ أَبَابَکْرٍ خَلِیْلاً، أَلاَ وَإِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ کَانُوا یَتَّخِذُوْنَ قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ وَصَالِحِیْہِمْ مَسَاجِدَ، أَلاَ فَلاَ تَتَّخِذُوا الْقُبُوْرَ مَسَاجِدَ فَإِنِّیْ أَنْہَاکُمْ عَنْ ذَلِکَ۔(صحیح مسلم:۵۳۲)اللہ تعالیٰ نے مجھے اس طرح خلیل بنایا ہے جس طرح ابراہیم ؑ کوخلیل بنایااور اگر میں اس امت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو ہی بناتا۔ سنو تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء اور نیک لوگوں کی قبروں کو مسجدیعنی سجدہ گاہ بنالیا کرتے۔ خبردار رہو! ان قبروں کو مسجد مت بنانا میں تہیں اس سے روک رہا ہوں۔

٭…نبی کریم ﷺ کی یا اولاد کی قسم کھانا منع ہے:
مَنْ کَانَ حَالِفاً فَلْیَحْلِفْ بِاللّٰہِ أَوْ لِیَصْمُتْ۔(صحیح بخاری: ۲۶۷۹) جو شخص قسم کھانا چاہے تو وہ اللہ کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔

٭…حدیث یہ بھی کہتی ہے کہ یاد اللہ سے رویا جائے:
مَنْ ذَکَرَ اللّٰہَ خَالِیاً فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ فِی السَّبْعَۃِ الَّذِیْنَ یُظِلُّہُمُ اللّٰہُ فِی ظِلِّہِ یَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلا ظِلُّہُ۔(صحیح بخاری: ۶۴۷۹) جس نے خلوت میں(اپنے گناہوں کو یادکیا) اور(دوسری طرف) اللہ تعالیٰ(کی اپنے اوپر مہربانیوں کو) کو یاد کیا پھر(اللہ سے ڈرتے ہوئے ) اس کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں تو یہ ان سات قسم کے لوگوں میں شمار ہوگا جنہیں اللہ تعالیٰ ایسے روزاپنے سائے میں جگہ عطا کرے گا جب سوائے اس کے سایہ کے کوئی اور سایہ نہ ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭…یہ بھی حدیث ہے کہ آپ ﷺ کا نام گرامی سنتے ہی آپ ﷺ پر درودپڑھنا چاہئے:
لَا تَجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قُبُوْراً، وَلاَ تَجْعَلُوْا قَبْرِیْ عِیْداً، وَصَلُّوْا عَلَیَّ فَإِنَّ صَلاَتَکُمْ تَبْلُغُنِیْ حَیْثُ مَا کُنْتُمْ۔(سنن ابی داؤد: ۲۰۴۲) اپنے گھروں کو قبریں مت بناؤ اور میری قبر کو مقام عید بھی نہ بنانا، مجھ پر درود پڑھا کرو جہاں بھی تم ہوگے تمہارا درود مجھے پہنچ جائے گا۔

٭…نزول وحی ، معراج، ہجرت اور غزوۂ بدر کی راتیں ، شب میلادسے افضل ہیں:
مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ہٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ۔(صحیح بخاری: ۲۶۹۷) جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی بات متعارف کرائی جو میرے دئے ہوئے دین میں نہیں تو وہ مردود ہے۔

٭…حدیث میں بھی ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام قتل ہوئے نہ سولی پہ چڑھے:
از روئے قرآن عیسیٰ علیہ السلام نہ سولی پہ چڑھائے گئے، نہ قتل ہوئے اور نہ ہی فوت ہوئے کیونکہ قتل یا صلب اصلاً بدن کے لئے ہوتا ہے اور اگر صرف روح کو اٹھایا گیا ہوتا تو یہود وعیسائی حضرات کے دعو ائے قتل یا صلب کی تائید ہوتی۔ اور اللہ تعالیٰ کے مکمل اختیار وقوت اور حکمت یا نصرت وتائید کی نفی بھی۔اس لئے:
{ بَلْ رَفَعَہُ اللّٰہُ إلَیْہِ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا}(النساء: ۱۵۸) اللہ تعالیٰ نے انہیں روح وجسم سمیت اپنی طرف اوپر اٹھالیا۔اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔

٭…ازروئے حدیث وہ آخری زمانہ میں نزول فرمائیں گے:
وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَیُوْشِکَنَّ أَنْ یَنْزِلَ فِیْکُمُ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا مُقْسِطًا فَیَکْسِرُ الصَّلِیْبَ وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ وَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ وَیَفِیْضُ اْلمَالَ حَتّٰی لاَ یَقْبَلُہُ أَحَدٌ۔(صحیح بخاری: ۳۴۳۸) اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے عنقریب تم میں ابن مریم حاکم وعادل کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ وہ صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کردیں گے، جزیہ ختم کردیں گے اور مال کی اس قدر فراوانی ہوجائے گی کہ اسے کوئی بھی قبول کرنے والا نہ ہوگا۔
وَلاَ تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِیْ یُقَاتِلُونَ عَلَی الْحَقِّ ظَاہِرِیْنَ إِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ، قَالَ فَیَنْزِلُ عِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ فَیَقُوْلُ اَمِیْرُہُمْ : تَعَالَ صَلِّ لَنَا فَیَقُولُ: لَا إِنَّ بَعْضَکُمْ عَلَی بَعْضِ اُمَرَائِ۔ تَکْرِمَۃَ اللّٰہِ ہٰذِہِ الأُمَّۃَ۔(صحیح مسلم: ۱۵۶) میری امت کا ایک گروہ حق پر لڑتا، قیامت کے دن تک غالب رہے گا آپ ﷺ نے فرمایا: عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے تو ان کا امیر کہے گا: آئیے نماز پڑھائیے تو وہ فرمائیں گے: نہیں تم میں سے بعض بعض پر امیر ہیں۔ یہ عزت وتکریم ہوگی جو اللہ تعالیٰ اس امت کو عطا کرے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭…حدیث میں مجتہد اور مفتی کو تنبیہ :
أَجْرَؤُکُمْ عَلَی الْفُتْیَا أَجْرَؤُکُمْ عَلَی النَّارِ(سنن دارمی: ۱۵۷) تم میں فتوی دینے میں زیادہ جری در اصل جہنم کی آگ کے حصول میں زیادہ جری ہے۔

٭…از روئے حدیث سفید بال رنگ کر کالے نہ کردئے جائیں
جِئَ بِأَبِیْ قُحَافَۃَ یَوْمَ الْفَتْحِ إِلٰی رَسُوْ لِ اللّٰہِ ﷺ وَکَأنََّ رَأسَہُ ثَغَامَۃٌ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: اِذْہَبُوْا بِہِ إِلٰی بَعْضِ نِسَائِہِ فَتُغَیِّرُ بِشَئٍ وَاجْتَنِبُوا السَّوَادَ۔(صحیح مسلم: ۲۱۰۲) فتح مکہ کے روز ابوقحافہ کو رسول اکرم ﷺکے پاس لایا گیا تو ان کا سر ثغامۃ پھول کی طرح انتہائی سفید تھا آپ ﷺ نے فرمایا: انہیں ان کے گھرانے کی کسی خاتون کے پاس لے جاؤ جو ان کے بالوں کو کسی رنگ میں تبدیل کردے بس کالے رنگ سے وہ بچیں۔

٭…حدیث بتاتی ہے کہ باغ فدک کس کی وراثت ہے؟
لاَ نُوْرَثُ مَا تَرَکْنَاہُ صَدَقَۃٌ۔ ہم جماعت انبیاء وارث نہیں بنائے جاتے۔ (یعنی ہمارا مال وارثوں میں تقسیم نہیں ہوتا) بلکہ ہمارا ترکہ تو صدقہ ہوتا ہے۔
وراثت یا علم کی ہوتی ہے یا ملک کی یا مال کی۔ سیدنا سلیمان سیدنا داؤد کے وارث بنے مگر کس میں؟ جواب یہ ہے:صرف علم ونبوت اور ملوکیت میں ۔ ورنہ سیدنا داؤد علیہ السلام کے انیس بیٹے تھے۔یہی وراثت علم ونبوت سیدنا یحییٰ علیہ السلام کو اپنے والد محترم سیدنا زکریاعلیہ السلام سے ملی۔سیدنا ابوبکرؓ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے یہی فرمایا۔ سنن ابو داؤدمیں ہے:
إنَّ الأَنْبِیَائَ لَمْ یُوَرِّثُوْا دِیْنَارًا وَلاَ دِرْہَمًا وَإِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَہُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ۔تحقیق انبیاء وراثت میں دینار ودرہم نہیں چھوڑا کرتے وہ صرف علم بطور وراثت چھوڑتے ہیں جس نے بھی اس علم کو لے لیا اس نے بڑا نصیب پا لیا۔

اسی لئے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی سیدہ عائشہ ؓ کو اور سیدنا فاروق اعظمؓ نے اپنی بیٹی سیدہ حفصہؓ کو کوئی حصۂ مال نہیں دیا۔اور نہ ہی سیدنا علی ؓ نے اپنے دور خلافت میں اس فیصلے کو غلط سمجھ کر اس کی اصلاح کی۔ بلکہ سبھی نے حدیثِ رسول کو تسلیم کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… ضعیف حدیث سے استنباط مسائل نہ کئے جائیں۔جیسے سیدنا ابن عمرؓ کی یہ حدیث:
لاَ تَقْرَ ئُالْحَائِضَ وَلاَ الْْجُنُبَ شیاَ مِّنَ الْقُرْآنِ۔(سنن ترمذی: ۱۳۱) حائضہ اور جنبی قرآن میں سے کچھ نہ پڑھیں۔
اس حدیث کے راوی اسماعیل بن عیاش حجازیوں سے روایت کی وجہ سے ضعیف ہیں۔ورنہ حیض ونفاس والی عورت قرآن کریم کو ہاتھ لگائے بغیر پڑھ سکتی ہے۔جیسے:
أنََّہُ کَانَ لاَ یَحْجِزُہُ عَنِ الْقُرآنِ شَئ ٌإِلاَّ الْجَنَابَۃُ۔(مسند أحمد: ۱؍۱۲۵)آپ ﷺ کو سوائے جنابت کے کوئی شے قرآن پڑھنے سے نہیں روکتی تھی۔

٭…خطبہ جمعہ کے دوران تحیۃ المسجد
إِذَا جَائَ أَحَدُکُمْ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَالإِمَامُ یَخْطُبُ فَلْیَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ، وَلْیَتَجَوَّزْ فِیْہِمَا۔(صحیح بخاری:۱۱۶۶) جب تم میںکوئی روز جمعہ اس وقت مسجد میں آئے جب امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ دو رکعتیں پڑھ لے اور انہیں مختصر پڑھے۔

٭…متنفل کے پیچھے مفترض کی نماز
أنَّ مُعَاذَبْنَ جَبَلٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ یُصَلِّیْ مَعَ النَّبِیِّ ﷺ ثُمَّ یَرْجِعُ فَیَؤُمُّ قَوْمَہُ۔(صحیح بخاری:۷۰۰) معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے پیچھے نماز عشاء پڑھتے پھر اپنی قوم میں آکر انہیں نماز عشاء کی امامت کراتے۔

٭… ادائیگی زکوۃمیں کوتاہی اور سزا
مَا مِنْ صَاحِبِ ذَہَبٍ وَلاَ مِنْ فِضَّۃٍ لاَ یُؤَدِّیْ مِنْہَا حَقَّہَا، إِلاَّ إِذَا کَانَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ، صُفِّحَتْ لَہُ صَفَائِحُ مِنْ نَارٍ، فَاُحْمِیَ عَلَیہَا فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ ، فَیُکْوَی بِہَا جَنْبُہُ وَجَبِیْنُہُ وَظَہْرُہُ، کُلَّمَا بَرِدَتْ أُعِیْدَتْ لَہُ، فِی یَومٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِینَ أَلْفَ سَنَۃٍ حَتّٰی یُقْضَی بَیْنَ الْعِبَادِ، فَیَرَی سَبِیْلَہُ إِمَّا إِلَی الْجَنَّۃِ وَإِمَّا إِلَی النَّارِ۔سونے وچاندی کا مالک اگر ان کی زکوۃ ادا نہیں کرتا تو ان سے آگ کے چوڑے تختے بنائے جائیں گے جنہیں جہنم کی آگ میں مزید گرما کر ان کے ساتھ اس کی پیشانی، پہلو اور پشت کو داغا جائے گا ۔جب بھی یہ ٹھنڈے ہوں گے تو انہیں دوبارہ گرم کرلیا جائے اور یہ سلسلہ سارا دن جاری رہے گا جس کی مدت پچاس ہزار سال ہوگی حتی کہ سبھی بندوں کا حساب کتاب چکا دیا جائے گا جس کے بعد وہ اپنی راہ یا توجنت کی طرف دیکھ پائیں گے یا جہنم کی طرف۔

٭…زیور پر زکوٰۃ: سونا خواہ زیور کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو ازروئے حدیث اس کی زکوۃ ادا کرنا فرض ہے۔ آپ ﷺ نے ایک خاتون کے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن دیکھے تو فرمایا:
أَتُعْطِینَ زَکٰوۃَ ہَذَا؟ قَالَتْ : لاَ۔ قَالَ: أَیَسُرُّکِ أَنْ یِسَوِّرَکِ اللّٰہُ بِہِمَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ سِوَارَیْنِ مِنْ نَارٍ؟ قَالَ: فَخَلَعَتْہُمَا فَأَلْقَتْہُمَا إِلَی النَّبِیِّ ﷺ قَالَتْ: ہُمَا لِلّٰہِ وَلِرَسُوِلہِ۔(سنن أبی داؤد: ۱۵۶۳) کیا تم اس کی زکوۃ دیتی ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم خوش ہوگی اگر روز قیامت اللہ تعالیٰ تمہیں آگ کے دو کنگن پہنا دے؟ راوی کہتے ہیں: اس خاتون نے دونوں کنگن اتارے اور نبی ﷺ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے کہا: یہ دونوں اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭…نصاب کے برابر سامان تجارت پرزکوٰۃ : ورنہ حدیث میں اسے بھی کنز کہا گیا ہے:
أنَّ رَسوْلَ اللّٰہِ ﷺ کَانَ یَأمُرُناَ أَنْ نُخْرِجَ الصَّدَقَۃَ مِنَ الَّذِیْ نُعِدُّ لِلْبَیْعِ۔(سنن أبی داؤد: ۱۵۲۲) رسول اکرم ﷺ ہمیں حکم دیا کرتے کہ ہم سامان تجارت کی بھی زکوٰۃ دیا کریں۔

٭…سود کی زیادہ تر صورتیں:
ادھار کی ہی ہیں۔بینکرز ادھار اور سود کو یکجا کرکے گناہ در گنا ہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ بینکوں کے معاملات ان سودی معاملات سے مختلف نہیں جن کی حرمت نصوص سے ثابت ہے۔حیلوں سے حرام کو حلال نہیں کیا جاسکتا۔ حدیث میں ہے:
إِنَّمَا الرِّبَا فِی النَّسِیْئَۃِ۔(صحیح مسلم: ۱۵۹) سود ، ادھار میں ہوا کرتا ہے۔
نیز آپ ﷺ کا یہ ارشاد بھی ہے:
کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَۃً فَہُوَ رِباً۔(إرواء الغلیل ۵؍۲۳۵)جو قرض بھی نفع کو کھینچے وہ سود ہے۔
لاَ تَبِیْعُوا الذَّہَبَ بِالذَّہَبِ إِلاَّ مَثَلًا بِمَثَلٍ، وَلاَ تُشِقُّوا بَعْضَہَا عَلَی بَعْضٍ، وَلاَ تَبِیْعُوْا مِنْہَا غَائِبًا بِنَاجِزٍ۔(صحیح بخاری:۲۱۷۷)۔ سونے کو سونے کا ساتھ مت بیچو الا یہ کہ وہ برابر ہو اور کچھ کو کچھ سے کم یا زیادہ نہ کرو۔اور نہ ہی غائب کو حاضر کے ساتھ بیچو۔

٭…جنس کی جنس سے بیع:
نقد بیع ہویا ادھار بیع ہو۔ از روئے حدیث حرام ہے۔حکمت یہ ہے کہ مسلمان اپنے باہمی معاملات ہمدردی، خیر خواہی اور امانت وسچائی سے نمٹائیں اور دھوکہ، خیانت وملاوٹ سے بچیں۔ نیز قرض در قرض سے محفوظ بھی رہیں اور سود کے لالچ میں آکر اپنے نفع بخش منصوبوں اور مفید صنعتوں سے معطل بھی نہ ہوں۔
الذَّہَبُ بِالذَّہَبِ وَالْفِضَّۃُ بِالْفِضَّۃِ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ، وَالشَّعِیْرُ بِالشَّعِیْرِ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلًا بِمِثْلٍ، یَدًا بِیَدٍ،مَنْ زَادَ أَوِ اسْتَزَادَفَقَدْ اَرْبٰی، اَلْآخِذُ وَالْمُعْطِیْ فِیْہِ سَوَائٌ۔(صحیح مسلم: ۱۵۸۴) سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے، جو جو کے بدلے ، کھجور کھجور کے بدلے، نمک نمک کے بدلے برابر برابرہوں اور دست بدست بیچو۔جو زیادہ دے یا زیادہ طلب کرے تو اس نے سودی معاملہ کیا اور اس میں دونوں لینے والا اور دینے والا برابر ہیں۔

نوٹ: بیع سلم اس لئے جائز ہے کہ اس میں جہالت اور دھوکہ نہیں اور بائع قیمت کے ساتھ اپنی فوری ضرورت پوری کرتا ہے اور مشتری کم قیمت پر شے خرید لیتا ہے۔اس میں بائع ومشتری دونوں کو فائدہ ہوتا ہے جب کہ سودی معاملات میں معین اضافہ ہوتا ہے جو حرام ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭…سودی بینک یا کمپنی سے شیئرز خریدنا:
جو بینک یا کمپنیاں سودی کاروبار کرتی ہوں از روئے حدیث ان کے شیئر خریدنا یاان کی ملازمت کرنا جائز نہیں۔
لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ آکِلَ الرِّبَا، وَمُوْکِلَہُ، وَکَاتِبَہُ وَشَاہِدَیْہِ وَقَالَ: ہُمْ سَوَائٌ۔رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے، کھلانے، ا س کے کاتب اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا: وہ سب گناہ میں برابر ہیں۔(صحیح مسلم:۱۵۹۸)

٭… سرکاری ملازم کو تحفہ دینا:
اپنے حق میں فیصلہ کروانے یا کسی عہدہ کو خود حاصل کرنے کے لئے کسی کی خدمت میں مال یا کوئی اور فائدہ والی چیز پیش کرنا رشوت ہے جو ازروئے حدیث حرام ہے۔
لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ الرَّاشِیَ وَالْمُرْتَشِیَ وَالرَّائِشَ۔ (مسند احمد ۵؍۲۷۹)رسول اللہ ﷺ نے رشوت لینے والے، دینے والے اور دونوں کے درمیان واسطہ بننے والے پر لعنت کی ہے۔

٭…سود ورشوت خوری کی سزائیں:
ازروئے حدیث سود قحط سالی اوررشوت دشمن کے غلبے کا سبب ہے۔
مَا مِنْ قَوْمٍ یَظْہَرُ فِیْہِمُ الرِّبَا إِلاَّ اُخِذُوا بِالسَّنَۃِ وَمَا مِنْ قَوْمٍ یَظْہَرُ فِیْہِمُ الرَّشَا إِلاَّ اُخِذُوْا بِالرُّعْبِ۔(مسند احمد۴؍۲۰۵) جس قوم میں سود عام ہوجائے تو وہ قحط سالی میں مبتلا ہوجاتی ہے اور جس قوم میں رشوت عام ہوجائے اس پر دشمن کا رعب طاری ہوجاتا ہے۔

٭…خوراک نا پاک ہو اور رزق حرام ہو تو دعا مردود:
یَا سَعْدُ: أطِبْ مَطْعَمَکَ تَکُنْ مُسْتَجَابُ الدَّعْوَۃِ، وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ إِنَّ الْعَبْدَ لَیَقْذِفُ اللُّقْمَۃَ فِیْ جَوْفِہِ مَا یَقْبَلُ اللّٰہُ مِنْہُ عَمَلاً أَرْبَعِیْنَ یَوْمًا، وَاَیُّمَا عَبْدٍ نَبَتَ لَحْمُہُ مِنْ سُحْتٍ فَالنَّارُ اَوْلٰی بِہِ۔(الترغیب والترہیب ۲؍۵۴۷) اے سعد: اپنا کھانا پاک کرلو مستجاب الدعوات بن جاؤگے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے کہ بندہ جب ایک حرام لقمہ پیٹ میں ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا ۔ اور جس آدمی کا گوشت حرام مال سے پلا بڑھا ہو جہنم کی آگ ہی اس کے لئے زیادہ مناسب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… امتحانات ودیگر معاملات میں احتیاط
مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا۔ (صحیح مسلم: ۱۰۱) جو ہمیں دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں۔

٭…نکاح کے لئے لڑکی کی رضامندی بھی ضروری ہے:
خاندان یا مال دار کی شرط درست نہیں۔
إِذَا خَطَبَ إِلَیْکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِیْنَہُ وَخُلُقَہُ فَأنْکِحُوْہُ، إِلاَّ تَفْعَلُوْا تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِیْضٌ۔(سنن ترمذی: ۱۰۸۴)جب تمہارے پاس ایسا شخص رشتہ لینے آئے جس کے دین اور اخلاق سے تم راضی ہو تو اسے نکاح کرکے دے دو۔ ورنہ زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہوجائے گا۔

٭…جہیز کا مطالبہ غیر شرعی ۔ شادی میں سادگی:
شادی میں آسانی کو ملحوظ رکھا جائے۔ شادی اور ولیمہ میں تکلف سے پرہیز کرنا چاہئے۔
خَیْرُ الصَّدَاقِ أَیْسَرُہُ۔بہترین مہر وہ ہے جس میں نرمی وآسانی ہو۔ (سنن ابوداؤد: ۲۱۱۷)
اِلْتَمِسْ وَلَو خَاتَمًا مِنْ حَدِیْدٍ۔(صحیح بخاری: ۵۱۲۱) حق مہر کے لئے کچھ تلاش کرو خواہ وہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔

٭…ایک ہی مجلس کی تین طلاقیں:
حدیث کی رو سے ایک ہی کلمہ کے ساتھ یا ایک ہی مجلس میں دی گئی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوں گی۔
کَانَ الطَّلَاقُ عَلَی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ وَأبِیْ بَکْرٍ وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَۃِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَاطَلاَقُ الثَّلاَثِ وَاحِدَۃً، فَقَالَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوْا فِیْ أَمْرٍ کَانَتْ لَہُمْ فِیْہِ أَنَاۃٌ فَلَوْ أَمْضَیْنَاہُ عَلَیْہِمْ فَأَمْضَاہُ عَلَیْہِمْ۔(صحیح مسلم: ۱۴۷۲) رسول اکرم ﷺ کے زمانہ میں اور سیدنا ابوبکر کے عہد میں اور ابتدائی دو سال سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے عہد میں تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگوں نے اس مسئلہ میں جلد بازی سے کام لینا شروع کردیا ہے جس میں ان کے لئے چھوٹ تھی تو کیوں نہ ہم اسے نافذ کردیں؟ چنانچہ انہوں نے اسے نافذ کردیا۔

٭…طلاق شوہر کا حق ہے:
اس حق کے استعمال کے لئے اگر وہ اپنی بیوی یا کسی اور کو وکیل بنالے تو کوئی حرج نہیں۔اسی طرح خاوندوکیل کو طلاق ثلاثہ کے واقع ہونے کا پروانہ بھی نہیں دے سکتا۔کیونکہ ایسا کرنا خوداس کے لئے بھی جائز نہیں۔ جب ایک آدمی نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دیں تو آپ ﷺ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
أَیَلْعَبُ بِکِتَابِ اللّٰہِ وَأَنَا بَینَ أَظْہُرِکُمْ؟ (سنن نسائی: ۳۴۳۰) کیا وہ اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلتا ہے جب کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں؟
طلاق کے بارے میں سائل کو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
إِنْ کُنْتَ طَلَّقْتَہَا ثَلاَثًا فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَیکَ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَکَ وَعَصَیْتَ اللّٰہَ فِیْمَا أَمَرَکَ مِنْ طَلاَقِ امْرَأَتِکَ(صحیح بخاری: ۵۲۶۴) اگر تم نے اسے تین طلاقیں دی ہیں تو وہ تم پر حرام ہے حتی کہ وہ تمہارے علاوہ کسی اور سے شادی کرلے اور تم نے اللہ کے اس حکم کی نافرمانی کی ہے جو اس نے عورت کو طلاق دینے کے بارے میں دیا ہے۔

٭…قضائے عمری کی بجائے توبہ ہی کافی:
قضائے عمری نماز کا کوئی ثبوت نہیں۔ یہ شریعت سازی ہے ۔ یہ کبیرہ گناہ کسی کفارہ کے بغیر سچی توبہ سے معاف ہوجاتا ہے۔
الإِسْلاَمُ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ وَالتَّوْبَۃُ تَہْدِمُ مَا کَانَتْ قَبْلَہَا۔(صحیح مسلم: ۱۲۱)اسلام قبول کرنے سے تمام سابقہ گناہ مٹ جاتے ہیں اور توبہ سے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭…عورت کا اظہار حسن وجمال۔۔گناہ کی دعوت ہے۔ اسی طرح بے پردگی، باریک، تنگ اور چھوٹے کپڑے پہننا، عفت سے اعراض، اور لوگوں کو غلط کاری کی طرف مائل کرنا از روئے حدیث شدید ترین گناہ ہے۔
صِنْفَانِ مِنْ أَہْلِ النَّارِ، لَمْ أَرٰہُمَا، قَوْمٌ مَعَہُمْ سِیَاطٌ کَأَذْنَابِ الْبَقَرِ یَضْرِبُوْنَ بِہَا النَّاسَ، وَنِسَائٌ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ، مُمِیْلاَتٌ، مَائِلاَتٌ، رُؤُوْسُہُنَّ کَاَسْنِمَۃِ الْبُخْتِ الْمَائِلَۃِ، لاَ یَدْخُلْنَ الْجَنَّۃَ ، وَلاَ یَجِدْنَ رِیْحَہَا۔(صحیح مسلم: ۲۱۲۸) جہنمیوں کے دو گروہ ایسے ہیں جنہیں میں نے نہیں دیکھا۔ ایک وہ گروہ جن کے پاس گائے کی دموں جیسے کوڑے ہوں گے وہ لوگوں کو ان سے ماریں گے۔ دوسرا گروہ ان عورتوں کاہے جو بالباس ہیں مگر عریاں ہیں۔غیروں کو اپنی طرف مائل کرنے والیاں ہیں۔اور خود بھی مائل ہونے والیاں ہیں۔ان کے سر بختی اونٹوں کے کوہانوں جیسے ہیں ایسی عورتیں جنت میں داخل ہوسکیں گی نہ ہی اس کی خوشبو پاسکیں گی۔

٭… بڑا فتنہ۔۔مخلوط تعلیم: مخلوط تعلیم از روئے حدیث بہت بڑا فتنہ ہے۔
إِنَّ الدُّنْیاَ حُلْوَۃٌ خَضِرَۃٌ، وَإِنَّ اللّٰہَ مُسْتَخْلِفُکُمْ فِیْہَا، فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُونَ، فَاتَّقُوا الدُّنْیَا وَاتَّقُوا النِّسَائَ، فَإِنَّ أوَّلَ فِتْنَۃُ بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ کَانَتْ فِی النِّسَائِ۔(صحیح مسلم:۲۷۴۲) بلاشبہ دنیا شیریں اور سرسبز وشاداب ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اس میں تمہیں یکے بعد دیگرے بھیجنے والا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ تم کیا عمل کرتے ہو۔ دنیا سے بچو اور عورتوں سے بھی۔ کیونکہ بنو اسرائیل کا اولین فتنہ عورتوں ہی کا تھا۔

٭…اجنبی عورتوں سے مصافحہ ناجائز ہے۔
إِنِّی لاَ اُصَافِحُ النِّسَائَ۔ (سنن نسائی: ۴۱۸۶)میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔
مَا مَسَّتْ یَدُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ یَدَ امْرَأۃٍ قَطُّ، غَیْرَ أَنَّہُ بَایَعَہُنَّ بِالْکَلَامِ۔(صحیح بخاری: ۵۲۸۸) ام المومنین فرماتی ہیں رسول اکرم ﷺ کا ہاتھ کبھی کسی اجنبی عورت کو نہیں چھوا ہاں آپ عورتوں سے بیعت زبانی لے لیا کرتے۔

٭…قرآن کریم کی تعلیم پر اجرت:
یا حفظ کرانے پر اجرت لینے میں از روئے حدیث کوئی حرج نہیں۔

ایک معلوم اجرت کی شرط پر ایک صحابی نے اس آدمی کے لئے قرآن کریم پڑھا تھا جسے بچھو نے ڈس لیا تھا۔ آپ ﷺ نے یہ واقعہ سننے کے بعد فرمایا:
إِنَّ أَحَقَّ مَا أخَذْتُمْ عَلَیہِ أَجْرًا کِتَابَ اللّٰہِ۔یقینا کتاب اللہ اس بات کی زیادہ حق دار ہے کہ اس پر تم اجرت لو۔ (صحیح بخاری: ۵۷۳۷)

٭…ڈاڑھی یا حجاب سے ناراضگی:
باپردہ ہونے یا ڈاڑھی رکھنے سے کوئی ناراض ہوتا ہے تو ہو۔ حدیث میں ہے۔
لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ۔(مصنف ابن ابی شیبۃ: ۳۳۷۰۶) خالق کی نافرمانی ہوتی ہو تو پھر مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔
إِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِی الْمَعْرُوفِ (صحیح بخاری: ۷۱۴۵) اطاعت صرف نیکی کے کام میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭…تکبر کیا ہے؟ حدیث میں اس کی ادنی سی مثال اور سخت وعید۔
مَنْ جَرَّ ثَوْبَہُ خُیَلاَئَ لَمْ یَنْظُرِ اللّٰہُ إِلَیہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔ جو بھی تکبر کی وجہ سے اپنے کپڑے ٹخنوں سے نیچے لٹکائے روز محشر اللہ تعالیٰ اسے نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا۔
إِیَّاکَ وَإسْبَالَ الإِزَارِ فَإنَّہَا مِنَ الْمَخْیَلَۃِ۔ اپنے کپڑے کو نیچے لٹکانے سے بچے رہو کیونکہ یہ تکبر ہے۔(سنن ابوداؤد:۴۰۸۴)

٭…گانا اور موسیٰقی کے تمام آلات لہو الحدیث اور معازف ہیں:
لَیَکُونَنَّ مِنْ أُمَّتِیْ أَقْوَامٌ یَسْتَحِلُّونَ الْحِرَ وَالْحَرِیْرَ وَالْخَمْرَ وَالْمَعَازِفَ(صحیح بخاری: ۵۵۹۰) میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو زنا، ریشم، شراب اورگانا و آلات لہوو لعب کے استعمال کو حلال قرار دیں گے۔

سیدنا ابن مسعود نے لہو الحدیث کی تفسیر کرتے ہوئے قسمیہ فرمایا کہ اس سے مراد گانا ہے۔ پھر فرمایا:
إِنَّ الْغِنَائَ یَنْبُتُ النِّفَاقَ فِی الْقَلْبِ کَمَا یَنْبُتُ الْمَائُ الزَّرْعَ۔ (السنن الکبری از بیہقی:۱۰؍۲۲۳) گانا دل میں اس طرح نفاق پیدا کرتا ہے جس طرح پانی سے کھیتی پروان چڑھتی ہے۔
اس لئے کہ جوگانا سن کر جھوم رہا ہے یا جھوم رہی ہے وہ کیا اپنے شوہر یا بیوی کے لئے جھومنا ہے یا کسی اور محبوب کے لئے ؟

٭…اچھی یا بری شے پر سبحان اللہ یا اللہ اکبر کہنا :
کوئی ایسی شے دیکھنایا بات سننا جو اچھی یا بری لگے تو ازروئے حدیث سبحان اللہ یا اللہ اکبر کہے۔ تالی بجانا خواتین کے لئے مخصوص ہے جب امام نماز میں بھول جائے تو۔اور مرد سبحان اللہ کہیں۔مرد اگر تالی بجائیں تو اس میں کفار کی مشابہت اور عورتوں سے مشابہت ہے جن سے ازروئے حدیث منع کیا گیا ہے۔
مَنْ تَشَبَّہَ بِقَومٍ فَہْوَ مِنْہُمْ۔ جو کسی قوم کی مشابہت کرتا ہے وہ پھر انہی میں سے ہے۔

٭…شرمگاہ کی حفاظت:
اس کی حفاظت یہی ہے کہ ہاتھ سے یا غیر منکوحہ سے اس کا استعمال نہ کرے۔اور نہ فرج کے علاوہ اسے کہیں اور داخل کرے۔
یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمُ الْبَاء َۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ، فَإِنَّہُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأحْصَنُ لِلْفَرْجِ۔وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّہُ لَہُ وِجَائٌ۔(صحیح بخاری: ۵۰۶۶) جوانو: تم میں جو نکاح کرنے کی ہمت وطاقت رکھتا ہو تو وہ شادی کرلے کیونکہ شادی اس کی نگاہ کو انتہائی جھکا دینے والی اور اس کی شرم گاہ کی محافظ ہے۔اور جو شادی کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ روزے رکھے کیونکہ روزہ اس کی جنسی شہوت کے لئے ایک ڈھال کا کام دے گا۔
 
Top