• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مطالعہ تقلید-(بچشم مقلد)

deewan

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2014
پیغامات
70
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
57
مطالعہ تقلید 8: (اہل علم اور غیراہل علم کا فرق، فتوے کی دلیل، واجب بالذات واجب بالغیر)

اہل علم اور غیراہل علم میں فرق

حدیث

من افتى الناس بغير علم كان اثمه على من افتاه۔(سنن ابی داؤد، حسن ، الجامع الصغیر للسیوطی ، صحیح ، مشكوة المصابيح ، حسن)
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کو بے تحقیق کوئی فتوی دے تو اس کا گناہ اس فتوی دینے والے کو ہو گا۔‘‘
فائدہ:
· اس حدیث میں فتوی دینے کے لیے علم کی شرط لگائی گئی ہے یعنی غیرعالم فتوی نہیں دے سکتا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ غیراہل علم، فتوے کے لیے اہل علم سے رجوع کریں گے اور اس پر عمل کریں گے چاہے ان کو اس فتوے کی دلیل معلوم ہو یا نہ ہو کیونکہ حدیث میں علم کی شرط مفتی پر لگائی گئی ہے۔ غیراہل علم کو تقلید یا اتباع کے علاوہ کسی چیز کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔ صحابہ کرام سے لے کر آج تک یہی معمول ہے کہ عامی کو جو مسئلہ پوچھنا ہوتا ہے وہ عالم سے پوچھے، عالم نے جو حکم بتایا سوال کرنے والے نے مانا اور عمل کرلیا۔ اسی کو اصطلاح میں اتباع یا تقلید کہا جاتا ہے۔ صحابہ کرام ہوں یا بعد کے علما، کسی نے بھی عامی کو دلیل سمجھنے کا ذمہ دار نہیں سمجھا۔ رہا دلیل کا جاننا اور سمجھنا یہ خود علم پر منحصر ہے اور غیرعالم کے لیے اس کا جاننا بلکہ کوشش بھی کرنا کارلاحاصل ہے۔ امام غزالی کی نصیحت ہے کہ عوام کا فرض ہے کہ ایمان اور اسلام لاکر عبادتوں اور روزگار میں مشغول رہیں اور علم کی باتوں میں مداخلت نہ کریں اس کو علما کے حوالے کردیں۔ عامی شخص کا علمی سلسلہ میں حجت کرنا زنا اور چوری سے زیادہ نقصان دہ اور خطرنا ک ہے۔
یہاں اتنا اور سمجھ لینا چاہیے کہ قرآن وحدیث سے براہ راست مسئلہ سمجھنا ہر شخص کا کام نہیں ایسا کرنا مجتہد مطلق ہی کا منصب ہے۔اس لیے کہ ہرشخص اس بات سے آگاہ نہیں کہ فلاں حدیث منسوخ ہے یا نہیں۔ یا یہ کہ حدیث کا ظاہری معنی مقصود ہے یا نہیں یا کوئی اور حدیث اس کےمعارض ہے یا نہیں۔ امام ابویوسفؒ فرماتے ہیں:عام آدمی جب کوئی حدیث سنے تو جائز نہیں کہ وہ ظاہر حدیث سے جو سمجھا ہے اس پر عمل کرے کیونکہ ممکن ہے کہ اس کے ظاہری معنی مرادنہ ہوں، یا وہ حدیث منسوخ ہو، بخلاف فتوے کے کیونکہ فتوی تحقیق کے بعد دیا جاتا ہے۔
صحابہ کرامؓ تقریبا سوا لاکھ تھے جو سب کے سب عربی دان تھے، مگر کتابوں میں چھ سات صحابہ کے فتاوی ملتے ہیں، باقی صحابہؓ انہی فتاوی پر بلامطالبہ دلیل عمل کرتے تھے اور یہی تقلید ہے۔ ابن قیم اعلام الموقعین میں لکھتے ہیں کہ فتوی دینے والے صحابہ صرف 149 تھے جن میں سے صرف سات صحابہ بکثرت فتوی دیتے تھے، تیرہ صحابہ کبھی کبھار فتوی دیتے تھے اور 110 صحابہ نے ساری زندگی میں ایک ایک یا دو دو فتوے دئیے، باقی صحابہؓ سے ایک فتوی دینا بھی ثابت نہیں۔ اسی کتاب میں مزید فرماتے ہیں کہ عبداللہ ابن عباس کے فتاوی بیس جلدوں میں جمع کئے گئے تھے۔
فتوے کی دلیل بتانا ضروری نہیں ہے
حدیث

عن سالم بن عبد الله ، عن عبد الله بن عمر ، انه سئل عن الرجل يكون له الدين على الرجل الى اجل ، فيضع عنه صاحب الحق ، ويعجله الآخر فكره ذلك عبد الله بن عمر ونهى عنه۔ (موطا مالك، كتاب البيوع، صحیح)
حضرت سالم روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ ایک شخص کا دوسرے شخص پر کچھ میعادی قرض ہے (یعنی کوئی ادائیگی کا وقت مقرر ہے)۔ اب قرض خواہ کچھ قرض معاف کرنے کو راضی ہے بشرطیکہ قرض دار قبل از وعدہ قرض لوٹا دے۔انہوں (عبداللہ بن عمرؓ) نے اس کو ناپسند فرمایا۔
فائدہ:
· حضرت عبداللہ بن عمر کا جواب ان کا اپنا اجتہاد تھا۔ اس پر کوئی دلیل موجود نہیں تھی۔
واجب بالذات اور واجب بالغیر
اللہ تعالی نے اطاعت رسول ﷺ کا حکم دیا ہے یعنی ہم پر ان کی اطاعت واجب ہے۔ لیکن اس حکم اطاعت کو پورا کرنے کے لیے ہمیں احادیث کے مجموعوں کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ احادیث کے مجموعوں کی طرف رجوع کرنا بھی واجب ہوا۔ اطاعت رسول ﷺ واجب بالذات ہے۔ جب کہ احادیث کے مجموعوں کی طرف رجوع کرنا واجب بالغیر ہے۔ اسی طرح حدیث کا علم ہے جو واجب الذات ہے۔ پھر خود حدیث کی صحت مقرر کرنے کے لیے سند کی تحقیق بھی ضروری ہے۔ لیکن اس کی سند کی تحقیق واجب بالغیر ہے۔ واجب بالذات کے لیے دلیل کی ضرورت پڑتی ہے، واجب بالغیر کے لیے نص (دلیل) کی ضرورت نہیں ہوتی (حاشیہ: [1])۔ علمائے وقت کا اتفاق کافی ہے۔
صحیح مسلم میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
من علم الرمي ثم تركه فليس منا او فقد عصى
جو شخص تیراندازی سیکھ کر چھوڑ دے وہ ہم میں سے نہیں یا( یہ فرمایا کہ) وہ گناہگار ہوا۔
اصل مقصود تو دشمنان دین سے دین کی حفاظت ہے جو واجب ہے لیکن اس کے لیے تیراندازی (یا ہمارے دور کے ہتھیاروں کا استعمال) سیکھنا بھی واجب ہوا جس کو ترک کرنے پر اس حدیث میں وعید آئی ہے۔ یعنی مقدمۃ الواجب بھی واجب ہوتا ہے۔ یعنی واجب کو پورا کرنے کا ذریعہ بھی واجب ہوتاہے۔ایک اور مثال یہ ہے کہ نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب بالذات ہے اس پر نص (حدیث) موجود ہے، لیکن عام لوگ اس کو بغیر اعراب کے صحیح نہیں پڑھ سکتے چنانچہ اس کوصحیح پڑھنے کے لیے اس پر اعراب لگانا واجب بالغیر ہے۔ چنانچہ سورۃ فاتحہ کی تلاوت واجب بالذات ہے جو واجب بالغیر (اعراب) کے بغیر صحیح نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح تقلید بھی ہے کہ دین پر عمل کرنا واجب بالذات ہے لیکن یہ عمل بھی واجب بالغیر یعنی فقہائے امت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ فقہائے امت ہی حدیث کی مراد سمجھنے کے لیے واسطہ ہیں اس لیے ہمیں فقہ کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ یا دوسر ے لفظوں میں فقہا کی تقلید کرنی پڑتی ہے۔ یہ اسی طرح کی تقلید ہے جس طرح سند کی صحت کے لیے ہم محدثین کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ گو اس کو اصطلاحی پر تقلید نہ کہا جائے لیکن عملا تو یہی ہے۔
(جاری ہے)​
[1]: اس کو اصطلاح میں مقدمۃ الواجب واجب کہتے ہیں۔
 
Last edited by a moderator:

deewan

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2014
پیغامات
70
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
57
مطالعہ تقلید 9: (تقلید، حدیث کے مختلف معنی، مختلف فتوے)

تقلید

تقلید ایک اصطلاحی لفظ ہے۔ اس کا تعلق اجتہادی مسائل سے ہے۔ جو خود اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہو اس کو مجتہد کہتے ہیں اور خود اجتہاد نہ کرسکے اور مجتہد کی تقلید کرے اس کو مقلد کہتے ہیں۔ تسلیم القول بلادلیل یعنی کسی عالم کی بات کو دلیل کے مطالبے کے بغیر مان لینا تقلید ہے۔اس کی دلیل قرآن پاک کی آیت ہے:
فاسئلو اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون (النحل: 43)
اگر تم لوگ نہیں جانتے تو اہل ذکر (علم والے) سے پوچھ لو
علم کی دنیا میں یہ عام ہے۔ مثلا، صحت حدیث کے بارے میں امام بخاریؒ کا قول ان کا علمی اجتہاد ہے اور ان کے اجتہاد کو تسلیم کرنا ان کی تقلید یا اتباع ہے۔ معروف اصطلاحی تقلید نہ صحیح لیکن عملا یہ بھی تقلید ہے۔ اسی طرح فقہائے کرام نے شرعی مسائل کے حل کے سلسلے میں اجتہادات کیے ہیں۔ ان کے اجتہادات کو تسلیم کرنا ان کی تقلید یا اتباع ہے۔ یہی حال تمام دینی علوم کا ہے۔ فہم لغت (عربی) کے لیے اہل لغت اور اہل صرف و نحو و کی تحقیق کو مانا جاتا ہے یہ اس علم میں ان کی تقلید ہے۔ یا مثلا تفسیر میں ابن کثیر ؒکی رائے کو اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس میدان میں ان کی رائے کو ماننا یہ ان کی تقلید ہے۔
حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کو خلیفہ نامزد فرمایا، اس حکمنامے میں نہ آیت سے دلیل بیان کی نہ حدیث سے، محض اپنی رائے سے ایسا کیا۔ تمام صحابہ نے ابوبکرؓ کی رائے کی تقلید میں حضرت عمرؓ کو خلیفہ تسلیم کرلیا۔ تلاوت قرآن میں بھی ہر مسلمان تقلید ہی کرتا ہے کیونکہ نہ وہ اعراب سے واقف ہے نہ اوقاف کے دلائل سے واقف ہے۔ صرف اس حسن ظن پر وہ قبول کرتا ہے کہ لگانے والے نے بادلیل لگائے ہیں۔ دلیل سے آگہی نہیں ہے۔ اس کے باجود اس کی تلاوت باعث اجر اور مقبول ہے۔
ایک حدیث سے مختلف معنی مراد ہوسکتے ہیں
حدیث

عن عبد الله قال نادى فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم انصرف عن الاحزاب ان لا يصلين احد الظهر الا في بني قريظة فتخوف ناس فوت الوقت فصلوا دون بني قريظة وقال آخرون لا نصلي الا حيث امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وان فاتنا الوقت قال فما عنف واحدا من الفريقين۔ (صحيح مسلم، كتاب الجهاد والسير)
عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے جنگ خندق کے دن میں صحابہؓ سے فرمایا کہ عصر کی نما بنی قریظہ (کی بستی) میں پہنچنے سے پہلے کوئی نہ پڑھے۔ لیکن صحابہ( کو تاخیر ہوگئی اور) عصر کا وقت ختم ہونے کا اندیشہ ہوگیا اس پر بعض صحابہ ؓ نے بنی قریظہ پہنچے سے پہلے ہی نماز پڑھ ڈالی اور بعض دوسروں نے کہا کہ نے کہا ہم نماز نہیں پڑھیں گے جب تک رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مطابق (بنی قریظہ) نہ پہنچ جائیں چاہے وقت ختم ہوجائے، (پھر یہ بات رسول اللہ صلی اللہ کے سامنے پیش ہوئی تو) آپ ﷺ نے کسی پر بھی ملامت نہیں کی۔
فائدہ:
· بعض حدیثوں کا مفہوم ایک سے زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔
· بعض صحابہ ؓالفاظ کے ساتھ مراد حدیث پر بھی غور کرتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے۔
· بعض دیگر صحابہ کرام ؓحدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل کرتے تھے۔
· حدیث صرف سند کا نام نہیں بلکہ متن بھی اس میں شامل ہے۔ سند کے صحیح ثابت ہونے کے بعد حدیث کے متن کا معنی متعین کرنا بھی ضروری ہے۔
· مراد رسول ﷺ سمجھ کر اس پر عمل کرنا ترک حدیث نہیں ہے۔
· مجتہدین نے بھی اپنی اجتہادی صلاحیتوں کے ذریعے مراد رسول ﷺ تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔
· جن صحابہ نے نماز پڑھی انہوں نے ’’نماز اپنے وقت پر ادا کرو’’ کے قرآنی قاعدے پر عمل کیا جب کہ جنہوں نے نماز قضا پڑھی ان کے فہم کے مطابق رسول اللہ ﷺ کے حکم کے سبب آج کی نماز اس قاعدے سے مستثنی تھی۔
· یہ فرق مجتہدین کے درمیان بھی پایا جاتا ہے۔کوئی ایک قاعدے کی بنیاد پر فتوی دیتا ہے اور دوسرا مجتہد کسی اور قاعدے کو بنیاد بناتا ہے۔
ایک ہی صورت حال میں فتوے مختلف ہوسکتے ہیں
حدیث
عن ابي هريرة ان رجلا سال النبي صلى الله عليه وسلم عن المباشرة للصائم فرخص له واتاه آخر فساله ،فنهاه فاذا الذي رخص له شيخ والذي نهاه شاب۔ (مشکوۃ المصابیح، صحیح ، سنن ابی داؤد، کتاب الصوم، حسن)
ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روزہ دار کے بیوی سے چمٹ کر سونے کے متعلق پوچھا ، آپ نے اس کو اس کی اجازت دی ، اور ایک دوسرا شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے بھی اسی سلسلہ میں آپ سے پوچھا تو اس کو منع کر دیا ، جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی تھی ، وہ بوڑھا تھا اور جسے منع فرمایا تھا وہ جوان تھا۔
حدیث
عن ابي سعيد الخدري قال خرج رجلان في سفر فحضرت الصلاة وليس معهما ماء فتيمما صعيدا طيبا فصليا ثم وجدا الماء في الوقت فاعاد احدهما الصلاة والوضوء ولم يعد الآخر ثم اتيا رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرا ذلك له فقال للذي لم يعد اصبت السنة واجزاتك صلاتك وقال للذي توضاواعاد لك الاجر مرتين۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الطھارۃ، صحیح)
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو شخص ایک سفر میں نکلے تو نماز کا وقت آ گیا اور ان کے پاس پانی نہیں تھا ، چنانچہ انہوں نے پاک مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھی ، پھر وقت کے اندر ہی انہیں پانی مل گیا تو ان میں سے ایک نے نماز اور وضو دونوں کو دوہرایا ، اور دوسرے نے نہیں دوہرایا ، پھر دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ان دونوں نے آپ سے اس کا ذکر کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا جس نے نماز نہیں لوٹائی تھی : ’’ تم نے سنت کو پا لیا اور تمہاری نماز تمہیں کافی ہو گئی ‘‘ ، اور جس شخص نے وضو کر کے دوبارہ نماز پڑھی تھی اس سے فرمایا :’’ تمہارے لیے دوگنا ثواب ہے۔‘‘
(جاری ہے)​
 
Last edited by a moderator:

deewan

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2014
پیغامات
70
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
57
مطالعہ تقلید 10: (صرف الفاظ مراد نہیں ہوتے، مجتہد کون ہوتا ہے، مجتہد سے اختلاف)

صرف الفاظ ہی مراد نہیں ہوتے

صحیح مسلم، کتاب الحدود میں ابو عبدالرحمان السلمی کی روایت کا مفہوم ہے حضرت علی ؓنے خطبے میں یہ ذکر کیا کہ ان کو رسول اللہ ﷺ نے ایک بدکار لونڈی کو درے مارنے کا حکم فرمایا تھا۔ جب وہ اس حکم کو پورا کرنے کے لیے اس لونڈی کے پاس پہنچے تو معلوم ہوا کہ قریب ہی اس کے یہاں ولادت ہوئی ہے جس پر حضرت علیؓ نے اس اندیشے کی بنیاد پر کہ اس کو درے مارنے پر وہ جان ہی سے نہ چلی جائے اس کو درے نہ لگائے اور جاکر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس بات کا ذکر کیا آپ ﷺ نے فرمایا:
احسنت بہت اچھا کیا۔
فائدہ:
· آپ ﷺ کے حکم میں صحت یا عدم صحت کی کوئی قید نہ تھی لیکن حضرت علیؓ نے اپنی اجتہادی صلاحیت کی بنا پر اس حکم کو قدرت تحمل سے مقید سمجھا اور اس پر عمل کیا جس کی رسول اللہ ﷺ نے تعریف فرمائی۔
· صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کے حکموں پر غور و فکر کرتے اور ان کی مراد سمجھ کر عمل کرتے تھے۔
· مجتہد بھی کسی حدیث کو کسی شرط سے مقید سمجھ کر اس پر عمل کو موقوف (ترک) کرسکتا ہے۔
حدیث
عن معاذ بن جبل ، قال كنت رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم ، على حمار ، يقال له عفير، فقال : يا معاذ هل تدري ما حق الله على العباد ان يعبدوه ولا يشركوا به شيئا وحقهم على الله ان لا يعذب من لا يشرك به قال : فقلت يا رسول الله افلا ابشر الناس قال : لا تبشرهم ، فيتكلوا۔ (صحیح البخاری، كتاب الجهاد والسير)
حضرت معاذؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس گدھے پر سوار تھے ، میں اس پر آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ اس گدھے کا نام عفیر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے معاذ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالی کا حق اپنے بندوں پر کیا ہے ؟ اور بندوں کا حق اللہ تعالی پر کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا حق اپنے بندوں پر یہ ہے کہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور بندوں کا حق اللہ تعالی پر یہ ہے کہ جو بندہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو اللہ اسے عذاب نہ دے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ! کیا میں اس کی لوگوں کو بشارت نہ دے دوں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کو اس کی بشارت نہ دو ورنہ وہ خالی اعتماد کر بیٹھیں گے۔
فائدہ:
· اس روایت میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذؓ کو اطلاع نہ دینے کی ہدایت فرمائی تھی لیکن حضرت معاذؓ نے اپنی اجتہادی صلاحیت سے یہ سمجھاکہ یہ ہدایت اطلاع دینے کو مانع نہیں یعنی یہ ہدایت روایت بیان کرنے سے نہیں روکتی۔ ورنہ صحابی پر مخالفت رسول ﷺ کا الزام آئے گا۔
· مجتہد صحابہ کرامؓ احکام کی علتوں اور دین کی دیگر نصوص پر غور کرکے اجتہاد کے ذریعے سے مراد رسول ﷺ کو پانے کی کوشش کرتے تھے۔ یہاں حضرت معاذؓ نے کتمان علم (علم چھپانے کی وعید)کی حدیث کو سامنے رکھا اور اس بات کی اطلاع دے دی۔
· اگر مجتہد کسی علت کی وجہ سے حدیث پر نہ عمل کرنے کا حکم لگائے تو ایسا کرنا جائز ہے۔ اس کو ترک حدیث نہیں کہا جائے گا۔
حدیث
عن ابي هريرة ان سعد بن عبادة الانصاري قال يا رسول الله ارايت الرجل يجد مع امراته رجلا ايقتله قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا قال سعد بلى والذي اكرمك بالحق فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم اسمعوا الى ما يقول سيدكم۔(صحیح مسلم، کتاب اللعان)
حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے سعد بن عبادہ نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ ﷺ اگر کوئی شخص پنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھے تو کیا وہ اس کو قتل کردے؟‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ سعدؓ بولے:’’کیوں نہ قتل کرے قسم اس ذات کی جس نے آپ ﷺ کو دین حق کے ساتھ مشرف فرمایا میں تو تلوار سے فورا اس کا کام تمام کردوں گا۔’’ رسول اللہ ﷺ نے حاضرین سے فرمایا: ‘‘سنو! تمہارا سردار کیا کہتا ہے۔‘‘
فائدہ:
· بظاہر حضرت سعدؓ نے حدیث کا انکار کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ قتل نہ کرنے کا حکم دے رہے ہیں لیکن حضرت سعدؓ اس پر اصرار کررہے ہیں۔ انؓ کے انکار کے باوجود رسول اللہ ﷺ ’سردار‘ کہہ کر ان کی تعریف فرما رہے ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ حضرت سعدؓ رسول ﷺ کے ارشاد کا مطلب کچھ اور سمجھے اور آپ ﷺ کا ان کو سردار کہہ تعریف فرمانا اس کی تائید تھی۔
· مجتہد اگر اپنی اجتہادی قوت سے حدیث کے کسی دقیق (گہرے) مفہوم کو سمجھتے ہوئے اس پر عمل کرے اور ظاہری مفہوم کو اختیار نہ کرے تو ایسا کرنا جائز ہے۔
· یہیں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی مجتہد کا اجتہاد ظاہر حدیث کے خلاف معلوم ہوتا ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ اس حدیث کے بیک وقت کئی معانی نکلتے ہوں اور اس نے ان مختلف معانی میں سے کسی ایک کو اختیار کرلیا ہے۔ اس کی مثال بنوقریظہ والی حدیث ہے ۔ یا وہ کسی اور حدیث کو اس حدیث کے مقابلے میں راجح (زیادہ صحیح سمجھنا) سمجھتا ہے جس کی وجہ سے اس نے اس حدیث کو ترک کردیا ہے۔
مجتہد
مجتہد اس شخص کو کہتے ہیں جو قرآن و سنت سے مسائل کو اخذ کرسکے یعنی مسائل کا حل ڈھونڈ سکے۔ مجتہد کی مثال ماہر قانون کی سی ہے جو قانون بنانے والا نہیں ہوتا بلکہ قانون کا شارح یعنی شرح کرنے والا ہوتا ہے۔ عام آدمی کو جب ضرورت پڑتی ہے تو اس سے پوچھ کر عمل کرتا ہے۔ مجتہد وہ عالم ہوتا ہے جس کو پانچ طرح کے علوم پر عبور ہوتا ہے۔ اول کتاب اللہ، یعنی قرآن مجید کا علم، دوم سنت رسول ﷺ کا علم، سوم علمائے سلف کے اقوال کا علم کہ ان کا اتفاق کس قول پر ہے اور اختلاف کس قول میں ہے۔ چہارم لغت عربی کا علم، پنجم قیاس کا علم۔ قیاس جو قرآن و حدیث سے حکم نکالنے کا طریقہ ہے۔ امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ جس کو پانچ لاکھ حدیثیں یاد ہوں ( سند و متن سے پوری طرح آگاہ ہو) اور صحابہ اور تابعین کے فتاوی میں بصیرت تامہ، (ان کے تمام احوال سے مکمل واقفیت ہو) تب وہ اجتہاد کرسکتا ہے، یعنی مکمل علم، رکھتا ہو تو اس کو فتوی دینے کا حق ہے یعنی وہ اجتہاد کرسکتا ہے۔ یہ ہے وہ معیار جس کا حامل شخص ہی مجتہدین فقہا کی رائے پر کوئی بات کرسکتا ہے جو اس درجہ علمیت کا حامل نہ ہو تو ایسے کسی شخص کا کسی مجتہد کے اجتہاد کومخالف حدیث کہہ دینا بڑی جرات کی بات ہے۔ آج کل پانچ لاکھ حدیثیں یاد ہونا تو بڑی بات ہے، ایسا عالم جس کو صحیح بخاری سند و متن کے ساتھ یاد ہو ڈھونڈے نہیں ملتا جب کہ صحیح بخاری میں صرف 7275 احادیث ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ صرف فن کے ماہر کی تحقیق ہی مانی جائے گی۔ چنانچہ حدیث کے لیے علم حدیث کے ماہر اور فقہ کے لیے فقہ کے ماہر۔ اور جو ایسا نہ کرے وہ دین و دنیا دونوں میں نقصان اٹھائے گا۔رسول اللہ ﷺ جب بیعت لیتے تو اس میں ایک عہد یہ بھی لیتے تھے کہ ان لا ننازع الامر اھلہ یعنی اہل امر (حکام و علما) سے منازعت (حجت بازی) نہیں کریں گے۔
یہاں اتنا اور جان لیجیے کہ کسی مجتہد کا قول کسی حدیث کے مخالف ثابت کرنے کے لیے تین باتیں ضروری ہیں:
1)اس مسئلہ کی صحیح مراد معلوم ہو یعنی ہمیں معلوم ہو کہ مجتہد کے اس قول سے اس کی کیا مراد ہے۔ دوسرے لفظوں میں فقہ کے مسئلے کو پورا اور صحیح سمجھنا۔
2) اس کی دلیل پر اطلاع ہو۔ یعنی ہمیں معلوم ہو کہ مجتہد نے کس آیت یا حدیث کی بنیاد پر اس قول کو اختیار کیا ہے۔
3) اس کا طریقہ استدلال معلوم ہو۔ یعنی وہ اس نتیجے پر کس طور پہنچا ہے۔ اس لیے کہ بعض اوقات وہ مختلف آیات و احادیث کو سامنے رکھ کر ایک نتیجے پر پہنچتا ہے۔ جس طرح ایک ماہر ڈاکٹر کسی مرض کی تشخیص کرتا ہے تو مختلف علامتوں پر غور کرتا ہوا ایک نتیجے پر پہنچتا ہے۔ اب اگر کوئی نااہل اس سے دریافت کرے کہ وہ اس نتیجے پر کیسے پہنچا تو اس کا جواب یہی ہوگا کہ اس چیز کو سمجھنا کسی ڈاکٹر کا کام ہے۔ اسی طرح مجتہد کسی نتیجے پر کیسے پہنچا یہ سمجھنا اہل علم کا کام ہے۔ اور غیراہل علم کو سمجھانا ناممکن سی بات ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ کسی مجتہد کی رائے پر اعتراض کرنا ایسے شخص کا کام ہے جو خود بہت بڑا عالم ہو، روایات اور درایت (فہم حدیث) کا ماہر ہو۔
(جاری ہے)​
 
Last edited by a moderator:

deewan

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2014
پیغامات
70
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
57
مطالعہ تقلید 11: (قرآن و حدیث اور اجتہاد، مقاصد شریعت، وقت کا تقاضا)

اجتہاد کے لیے صرف قرآن و حدیث کا علم کافی نہیں

حدیث

خرجنا في سفر فاصاب رجلا منا حجر فشجه في راسه فاحتلم فسال اصحابه : هل تجدون لي رخصة في التيمم قالوا : ما نجد لك رخصة وانت تقدر على الماء . فاغتسل فمات فلما قدمنا على النبي صلى الله عليه وسلم اخبر بذلك قال : قتلوه قتلهم الله الا سالوا اذا لم يعلموا فانما شفاء العي السؤال انما كان يكفيه ان يتيمم ويعصب على جرحه خرقة ثم يمسح عليها ويغسل سائر جسده۔ (سنن ابی داؤد حسن)
حضرت ابن عباسؓ سے رویات ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک شخص زخمی ہوگیا اس کے بعد اس کو احتلام ہوگیا۔ اس کے ساتھیوں نے اس کو غسل کا حکم کیا اس نے غسل کیا (جس کی وجہ سے زخم خراب ہوگیا) اور وہ شخص فوت ہوگیا۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ان لوگوں نے اس کو قتل کر ڈالا اللہ ان کو قتل کرے کیا لاعلمی کا علاج پوچھ لینا نہیں ہے؟ اس کو تو یہ کافی تھا کہ تیمم کرلیتا اور اپنے زخم پر پٹی باندھ لیتا پھر اس پر مسح کرلیتا اور باقی بدن کو دھو ڈالتا۔‘‘
فائدہ:
· رسول اللہ ﷺ نے نصوص پر غور کرنے کی تعلیم فرمائی یا اگر ناواقف ہے تو پوچھ لینا چاہیے۔
· نصوص پر غور و فکر کرکے مسئلہ نکالنا ہر شخص کا کام نہیں ہے۔
· رسول اللہ ﷺ کی ناراضگی کا سبب یہ تھا کہ وہ صحابہ فتوی دینے کے اہل نہیں تھے جس کے نتیجے میں ایک جان ضائع ہوگئی۔
· یہ خطائے اجتہادی نہیں بلکہ نااہل کا فتوی دینے کا معاملہ ہے۔کیونکہ اجتہادی خطا پر اجر کی بشارت تو خود آپ ﷺ نے دی ہے۔
· انہوں نے آیت قرآنی وان کنتم جنبا فاطھروا کو سامنے رکھتے ہوئے فتوی دیا جب کہ و ان کنتم مرضی کی اصل غایت (مفہوم) ان کی نگاہ سے اوجھل رہی۔
· نااہل کا اجتہاد کرنا کسی حال میں جائز نہیں چاہے اس کا اجتہاد صحیح بھی ہوجائے۔
· جو شخص خود ہی مطالعہ کرکے اپنے مسئلے کے حل ڈھونڈے وہ دراصل اجتہاد کا دعوی کررہا ہے۔
· قرآن و حدیث کا علم ہونا اور بات ہے اجتہاد کی صلاحیت ہونا اور بات ہے۔
فتوی وقت کے تقاضے کو دیکھ کر دیا جاتا ہے
حدیث

عن بسر بن ارطاة قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول لا تقطع الايدي في الغزو۔ (سنن الترمذی کتاب الحدود صحیح)
حضرت بسرؓ بتاتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا فرماتے تھے:’’جنگ (کی حالت) میں (چوروں) کے ہاتھ مت کاٹو۔
فائدہ:
· فتوی وقت کے تقاضے کو سامنے رکھ کر دیا جاتا ہے۔
· سیدنا عمرؓ نے قحط سالی کے زمانے میں چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا روک دی تھی۔
لا يقطع في عذق ولا عام السنة (مصنف عبدالرزاق)
فتوی مقاصد شریعت کو سامنے رکھ کر دیا جاتا ہے
حدیث

عن زيد بن ثابت رضي الله عنه قال ارسل الي ابو بكر مقتل اهل اليمامة فاذا عمر بن الخطاب عنده قال ابو بكر رضي الله عنه ان عمر اتاني فقال ان القتل قد استحر يوم اليمامة بقراء القرآن واني اخشى ان يستحر القتل بالقراء بالمواطن فيذهب كثير من القرآن واني ارى ان تامر بجمع القرآن قلت لعمر كيف تفعل شيئا لم يفعله رسول الله صلى الله عليه وسلم قال عمر هذا والله خير فلم يزل عمر يراجعني حتى شرح الله صدري لذلك ورايت في ذلك الذي راى عمر(الحدیث)(صحیح البخاری کتاب فضائل القرآن)
حضرت زید بن ثابتؓ سے روایت ہے کہ زمانہ جنگ یمامہ میں حضرت ابوبکرؓ نے مجھے بلا بھیجا وہاں جاکر دیکھتا ہوں کہ عمرؓ بھی موجود ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ یہ عمرؓ میرے پاس یہ مشورہ لے کر آئے ہیں کہ جنگ یمامہ میں بہت سے حفاظ صحابی شہید ہوگئے ہیں اور مجھے (عمرؓ کو) اندیشہ ہے کہ اگر اسی طرح مختلف معرکوں میں حفاظ صحابہ شہید ہوتے رہے تو قرآن کا ایک بڑا حصہ ضائع ہوجائے گا اس لیے میری (عمرؓ کی) رائے یہ ہے کہ آپ قرآن کو ایک جگہ (تحریری طور پر) جمع کرنے کا حکم فرمادیں۔ میں نے عمرؓ کو جواب دیا ہے کہ جو کام رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا وہ میں کس طرح کروں؟ حضرت عمرؓ نے کہا اللہ کی قسم اس کام (میں) خیر ہی خیر ہے اور بار بار یہی کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے میرے دل کو بھی اسی بات پر اطمینان حاصل ہوگیا جس بات پر عمر کو اطمینان حاصل تھا۔
فائدہ:
· حضرت ابوبکرؓ کو ابتدا میں حضرت عمرؓ کے مشورے پر عمل کرنے پر تردد تھا۔ بلکہ وہ اس کام کو بدعت میں داخل سمجھ رہے تھے۔ انؓ کے الفاظ تھے:
’’میں نے عمرؓ کو جواب دیا ہے کہ جو کام رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا وہ میں کس طرح کروں؟‘‘
لیکن حفاظت دین جو اولی الامر (حاکم) کا کام ہے کی ضرورت نے ان کو اس کام کے ٹھیک ہونے پر اطمینان بخشا اور یہ کہ یہ عمل بدعت نہیں ہے۔
· مجتہد بھی اپنے اجتہاد میں مقاصد شریعت کو پیش نظر رکھتا ہے اور جو چیز ا ن کے حصول میں معاون نظر آئے گی اس کو اختیار کرنے کا حکم دے گا۔
(جاری ہے)​
 
Last edited by a moderator:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ کے اس (جاری ہے) کا تقاضا ہے کہ اسی تھریڈ میں جاری رکھا جائے!
اس عنوان کی اگلی تحریر اسی تھریڈ میں لکھنے کی درخواست ہے!
 

deewan

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2014
پیغامات
70
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
57
اہل علم اور غیراہل علم میں فرق
حدیث 1
من افتى الناس بغير علم كان اثمه على من افتاه۔(سنن ابی داؤد، حسن ، الجامع الصغیر للسیوطی ، صحیح ، مشكوة المصابيح ، حسن)
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کو بے تحقیق کوئی فتوی دے تو اس کا گناہ اس فتوی دینے والے کو ہو گا۔‘‘
فائدہ:
· اس حدیث میں فتوی دینے کے لیے علم کی شرط لگائی گئی ہے یعنی غیرعالم فتوی نہیں دے سکتا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ غیراہل علم، فتوے کے لیے اہل علم سے رجوع کریں گے اور اس پر عمل کریں گے چاہے ان کو اس فتوے کی دلیل معلوم ہو یا نہ ہو کیونکہ حدیث میں علم کی شرط مفتی پر لگائی گئی ہے۔غیراہل علم کو تقلید یا اتباع کے علاوہ کسی چیز کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔
صحابہ کرام سے لے کر آج تک یہی معمول ہے کہ عامی کو جو مسئلہ پوچھنا ہوتا ہے وہ عالم سے پوچھے، عالم نے جو حکم بتایا سوال کرنے والے نے مانا اور عمل کرلیا۔ اسی کو اصطلاح میں اتباع یا تقلید کہا جاتا ہے۔ صحابہ کرام ہوں یا بعد کے علما، کسی نے بھی عامی کو دلیل سمجھنے کا ذمہ دار نہیں سمجھا۔ رہا دلیل کا جاننا اور سمجھنا یہ خود علم پر منحصر ہے اور غیرعالم کے لیے اس کا جاننا بلکہ کوشش بھی کرنا کارلاحاصل ہے۔ امام غزالی کی نصیحت ہے کہ عوام کا فرض ہے کہ ایمان اور اسلام لاکر عبادتوں اور روزگار میں مشغول رہیں اور علم کی باتوں میں مداخلت نہ کریں اس کو علما کے حوالے کردیں۔ عامی شخص کا علمی سلسلہ میں حجت کرنا زنا اور چوری سے زیادہ نقصان دہ اور خطرنا ک ہے۔
یہاں اتنا اور سمجھ لینا چاہیے کہ قرآن وحدیث سے براہ راست مسئلہ سمجھنا ہر شخص کا کام نہیں ایسا کرنا مجتہد مطلق ہی کا منصب ہے۔اس لیے کہ ہرشخص اس بات سے آگاہ نہیں کہ فلاں حدیث منسوخ ہے یا نہیں۔ یا یہ کہ حدیث کا ظاہری معنی مقصود ہے یا نہیں یا کوئی اور حدیث اس کےمعارض ہے یا نہیں۔ امام ابویوسفؒ فرماتے ہیں:عام آدمی جب کوئی حدیث سنے تو جائز نہیں کہ وہ ظاہر حدیث سے جو سمجھا ہے اس پر عمل کرے کیونکہ ممکن ہے کہ اس کے ظاہری معنی مرادنہ ہوں، یا وہ حدیث منسوخ ہو، بخلاف فتوے کے کیونکہ فتوی تحقیق کے بعد دیا جاتا ہے۔
صحابہ کرامؓ تقریبا سوا لاکھ تھے جو سب کے سب عربی دان تھے، مگر کتابوں میں چھ سات صحابہ کے فتاوی ملتے ہیں، باقی صحابہؓ انہی فتاوی پر بلامطالبہ دلیل عمل کرتے تھے اور یہی تقلید ہے۔ ابن قیم اعلام الموقعین میں لکھتے ہیں کہ فتوی دینے والے صحابہ صرف 149 تھے جن میں سے صرف سات صحابہ بکثرت فتوی دیتے تھے، تیرہ صحابہ کبھی کبھار فتوی دیتے تھے اور 110 صحابہ نے ساری زندگی میں ایک ایک یا دو دو فتوے دئیے، باقی صحابہؓسے ایک فتوی دینا بھی ثابت نہیں۔ اسی کتاب میں مزید فرماتے ہیں کہ عبداللہ ابن عباس کے فتاوی بیس جلدوں میں جمع کئے گئے تھے۔
فتوے کی دلیل بتانا ضروری نہیں ہے
حدیث 2
عن سالم بن عبد الله عن عبد الله بن عمر انه سئل عن الرجل يكون له الدين على الرجل الى اجل فيضع عنه صاحب الحق ويعجله الآخر فكره ذلك عبد الله بن عمر ونهى عنه۔ (موطا مالك، كتاب البيوع، صحیح)
حضرت سالم روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ ایک شخص کا دوسرے شخص پر کچھ میعادی قرض ہے (یعنی کوئی ادائیگی کا وقت مقرر ہے)۔ اب قرض خواہ کچھ قرض معاف کرنے کو راضی ہے بشرطیکہ قرض دار قبل از وعدہ قرض لوٹا دے۔انہوں (عبداللہ بن عمرؓ) نے اس کو ناپسند فرمایا۔
فائدہ:
· حضرت عبداللہ بن عمر کا جواب ان کا اپنا اجتہاد تھا۔ اس پر کوئی دلیل موجود نہیں تھی۔
واجب بالذات اور واجب بالغیر
اللہ تعالی نے اطاعت رسول ﷺ کا حکم دیا ہے یعنی ہم پر ان کی اطاعت واجب ہے۔ لیکن اس حکم اطاعت کو پورا کرنے کے لیے ہمیں احادیث کے مجموعوں کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ احادیث کے مجموعوں کی طرف رجوع کرنا بھی واجب ہوا۔ اطاعت رسول ﷺ واجب بالذات ہے۔ جب کہ احادیث کے مجموعوں کی طرف رجوع کرنا واجب بالغیر ہے۔ اسی طرح حدیث کا علم ہے جو واجب الذات ہے۔ پھر خود حدیث کی صحت مقرر کرنے کے لیے سند کی تحقیق بھی ضروری ہے۔ لیکن اس کی سند کی تحقیق واجب بالغیر ہے۔ واجب بالذات کے لیے دلیل کی ضرورت پڑتی ہے، واجب بالغیر کے لیے نص (دلیل) کی ضرورت نہیں ہوتی صرف علمائے کرام کا اتفاق درکار ہوتا ہے۔ (حاشیہ: [1]
صحیح مسلم میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
من علم الرمي ثم تركه فليس منا او فقد عصى
جو شخص تیراندازی سیکھ کر چھوڑ دے وہ ہم میں سے نہیں یا( یہ فرمایا کہ) وہ گناہگار ہوا۔
اصل مقصود تو دشمنان دین سے دین کی حفاظت ہے جو واجب ہے لیکن اس کے لیے تیراندازی (یا ہمارے دور کے ہتھیاروں کا استعمال) سیکھنا بھی واجب ہوا جس کو ترک کرنے پر اس حدیث میں وعید آئی ہے۔ یعنی مقدمۃ الواجب بھی واجب ہوتا ہے۔ یعنی واجب کو پورا کرنے کا ذریعہ بھی واجب ہوتاہے۔ایک اور مثال یہ ہے کہ نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب بالذات ہے اس پر نص (حدیث) موجود ہے، لیکن عام لوگ اس کو بغیر اعراب کے صحیح نہیں پڑھ سکتے چنانچہ اس کوصحیح پڑھنے کے لیے اس پر اعراب لگانا واجب بالغیر ہے۔ چنانچہ سورۃ فاتحہ کی تلاوت واجب بالذات ہے جو واجب بالغیر (اعراب) کے بغیر صحیح نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح تقلید بھی ہے کہ دین پر عمل کرنا واجب بالذات ہے لیکن یہ عمل بھی واجب بالغیر یعنی فقہائے امت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ فقہائے امت ہی حدیث کی مراد سمجھنے کے لیے واسطہ ہیں اس لیے ہمیں فقہ کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ یا دوسر ے لفظوں میں فقہا کی تقلید کرنی پڑتی ہے۔ یہ اسی طرح کی تقلید ہے جس طرح سند کی صحت کے لیے ہم محدثین کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ گو اس کو اصطلاحی پر تقلید نہ کہا جائے لیکن عملا تو یہی ہے۔
-------------------
[1]: اس کو اصطلاح میں مقدمۃ الواجب واجب کہتے ہیں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
دیوان بھائی جان! آپ کے مضمون کی کتنی اقساط باقی ہیں؟ تا کہ مضمون مکمل ہونے پر اس پر نقد بھی لکھا جا سکے!!
 

deewan

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2014
پیغامات
70
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
57
و علیکم السلام،
ان شاء اللہ پانچ قسطوں میں مکمل ہوجائے گا۔
 

deewan

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2014
پیغامات
70
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
57
تقلید
تقلید ایک اصطلاحی لفظ ہے۔ اس کا تعلق اجتہادی مسائل سے ہے۔ جو خود اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہو اس کو مجتہد کہتے ہیں اور خود اجتہاد نہ کرسکے اور مجتہد کی تقلید کرے اس کو مقلد کہتے ہیں۔ تسلیم القول بلادلیل یعنی کسی عالم کی بات کو دلیل کے مطالبے کے بغیر مان لینا تقلید ہے۔اس کی دلیل قرآن پاک کی آیت ہے:
فاسئلو اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون (النحل: 43)
اگر تم لوگ نہیں جانتے تو اہل ذکر (علم والے) سے پوچھ لو
علم کی دنیا میں یہ عام ہے۔ مثلا، صحت حدیث کے بارے میں امام بخاریؒ کا قول ان کا علمی اجتہاد ہے اور ان کے اجتہاد کو تسلیم کرنا ان کی تقلید یا اتباع ہے۔ اسی طرح فقہائے کرام نے شرعی مسائل کے حل کے سلسلے میں اجتہادات کیے ہیں۔ ان کے اجتہادات کو تسلیم کرنا ان کی تقلید یا اتباع ہے۔ یہی حال تمام دینی علوم کا ہے۔ فہم لغت (عربی) کے لیے اہل لغت اور اہل صرف و نحو و کی تحقیق کو مانا جاتا ہے یہ اس علم میں ان کی تقلید ہے۔ یا مثلا تفسیر میں ابن کثیر ؒکی رائے کو اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس میدان میں ان کی رائے کو ماننا یہ ان کی تقلید ہے۔ گو اس کو اصطلاحی پر تقلید نہ کہا جائے لیکن عملا تو یہی ہے۔
حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کو خلیفہ نامزد فرمایا، اس حکمنامے میں نہ آیت سے دلیل بیان کی نہ حدیث سے، محض اپنی رائے سے ایسا کیا۔ تمام صحابہ نے ابوبکرؓ کی رائے کی تقلید میں حضرت عمرؓ کو خلیفہ تسلیم کرلیا۔ تلاوت قرآن میں بھی ہر مسلمان تقلید ہی کرتا ہے کیونکہ نہ وہ اعراب سے واقف ہے نہ اوقاف کے دلائل سے واقف ہے۔ صرف اس حسن ظن پر وہ قبول کرتا ہے کہ لگانے والے نے بادلیل لگائے ہیں۔ دلیل سے آگہی نہیں ہے۔ اس کے باجود اس کی تلاوت باعث اجر اور مقبول ہے۔
ایک حدیث سے مختلف معنی مراد ہوسکتے ہیں
حدیث
عن عبد الله قال نادى فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم انصرف عن الاحزاب ان لا يصلين احد الظهر الا في بني قريظة فتخوف ناس فوت الوقت فصلوا دون بني قريظة وقال آخرون لا نصلي الا حيث امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وان فاتنا الوقت قال فما عنف واحدا من الفريقين۔ (صحيح مسلم، كتاب الجهاد والسير)
عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے جنگ خندق کے دن میں صحابہؓ سے فرمایا کہ عصر کی نما بنی قریظہ (کی بستی) میں پہنچنے سے پہلے کوئی نہ پڑھے۔ لیکن صحابہ( کو تاخیر ہوگئی اور) عصر کا وقت ختم ہونے کا اندیشہ ہوگیا اس پر بعض صحابہ ؓ نے بنی قریظہ پہنچے سے پہلے ہی نماز پڑھ ڈالی اور بعض دوسروں نے کہا کہ نے کہا ہم نماز نہیں پڑھیں گے جب تک رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مطابق (بنی قریظہ) نہ پہنچ جائیں چاہے وقت ختم ہوجائے، (پھر یہ بات رسول اللہ صلی اللہ کے سامنے پیش ہوئی تو) آپ ﷺ نے کسی پر بھی ملامت نہیں کی۔
فائدہ:
· بعض حدیثوں کا مفہوم ایک سے زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔
· بعض صحابہ ؓالفاظ کے ساتھ مراد حدیث پر بھی غور کرتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے۔
· بعض دیگر صحابہ کرام ؓحدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل کرتے تھے۔
· حدیث صرف سند کا نام نہیں بلکہ متن بھی اس میں شامل ہے۔ سند کے صحیح ثابت ہونے کے بعد حدیث کے متن کا معنی متعین کرنا بھی ضروری ہے۔
· مراد رسول ﷺ سمجھ کر اس پر عمل کرنا ترک حدیث نہیں ہے۔
· مجتہدین نے بھی اپنی اجتہادی صلاحیتوں کے ذریعے مراد رسول ﷺ تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔
· جن صحابہ نے نماز پڑھی انہوں نے ’’نماز اپنے وقت پر ادا کرو’’ کے قرآنی قاعدے پر عمل کیا جب کہ جنہوں نے نماز قضا پڑھی ان کے فہم کے مطابق رسول اللہ ﷺ کے حکم کے سبب آج کی نماز اس قاعدے سے مستثنی تھی۔
· یہ فرق مجتہدین کے درمیان بھی پایا جاتا ہے۔کوئی ایک قاعدے کی بنیاد پر فتوی دیتا ہے اور دوسرا مجتہد کسی اور قاعدے کو بنیاد بناتا ہے۔
ایک ہی صورت حال میں فتوے مختلف ہوسکتے ہیں
حدیث
عن ابي هريرة ان رجلا سال النبي صلى الله عليه وسلم عن المباشرة للصائم فرخص له واتاه آخر فساله ،فنهاه فاذا الذي رخص له شيخ والذي نهاه شاب۔ (مشکوۃ المصابیح، صحیح ، سنن ابی داؤد، کتاب الصوم، حسن)
ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روزہ دار کے بیوی سے چمٹ کر سونے کے متعلق پوچھا ، آپ نے اس کو اس کی اجازت دی ، اور ایک دوسرا شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے بھی اسی سلسلہ میں آپ سے پوچھا تو اس کو منع کر دیا ، جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی تھی ، وہ بوڑھا تھا اور جسے منع فرمایا تھا وہ جوان تھا۔
حدیث
عن ابي سعيد الخدري قال خرج رجلان في سفر فحضرت الصلاة وليس معهما ماء فتيمما صعيدا طيبا فصليا ثم وجدا الماء في الوقت فاعاد احدهما الصلاة والوضوء ولم يعد الآخر ثم اتيا رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرا ذلك له فقال للذي لم يعد اصبت السنة واجزاتك صلاتك وقال للذي توضاواعاد لك الاجر مرتين۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الطھارۃ، صحیح)
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو شخص ایک سفر میں نکلے تو نماز کا وقت آ گیا اور ان کے پاس پانی نہیں تھا ، چنانچہ انہوں نے پاک مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھی ، پھر وقت کے اندر ہی انہیں پانی مل گیا تو ان میں سے ایک نے نماز اور وضو دونوں کو دوہرایا ، اور دوسرے نے نہیں دوہرایا ، پھر دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ان دونوں نے آپ سے اس کا ذکر کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا جس نے نماز نہیں لوٹائی تھی : ’’ تم نے سنت کو پا لیا اور تمہاری نماز تمہیں کافی ہو گئی ‘‘ ، اور جس شخص نے وضو کر کے دوبارہ نماز پڑھی تھی اس سے فرمایا :’’ تمہارے لیے دوگنا ثواب ہے۔‘‘
(جاری ہے)​
 

deewan

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2014
پیغامات
70
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
57
اہل علم اور غیراہل علم میں فرق
حدیث 1

من افتى الناس بغير علم كان اثمه على من افتاه۔(سنن ابی داؤد، حسن ، الجامع الصغیر للسیوطی ، صحیح ، مشكوة المصابيح ، حسن)
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کو بے تحقیق کوئی فتوی دے تو اس کا گناہ اس فتوی دینے والے کو ہو گا۔‘‘
فائدہ:
· اس حدیث میں فتوی دینے کے لیے علم کی شرط لگائی گئی ہے یعنی غیرعالم فتوی نہیں دے سکتا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ غیراہل علم، فتوے کے لیے اہل علم سے رجوع کریں گے اور اس پر عمل کریں گے چاہے ان کو اس فتوے کی دلیل معلوم ہو یا نہ ہو کیونکہ حدیث میں علم کی شرط مفتی پر لگائی گئی ہے۔غیراہل علم کو تقلید یا اتباع کے علاوہ کسی چیز کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔
صحابہ کرام سے لے کر آج تک یہی معمول ہے کہ عامی کو جو مسئلہ پوچھنا ہوتا ہے وہ عالم سے پوچھے، عالم نے جو حکم بتایا سوال کرنے والے نے مانا اور عمل کرلیا۔ اسی کو اصطلاح میں اتباع یا تقلید کہا جاتا ہے۔ صحابہ کرام ہوں یا بعد کے علما، کسی نے بھی عامی کو دلیل سمجھنے کا ذمہ دار نہیں سمجھا۔ رہا دلیل کا جاننا اور سمجھنا یہ خود علم پر منحصر ہے اور غیرعالم کے لیے اس کا جاننا بلکہ کوشش بھی کرنا کارلاحاصل ہے۔ امام غزالی کی نصیحت ہے کہ عوام کا فرض ہے کہ ایمان اور اسلام لاکر عبادتوں اور روزگار میں مشغول رہیں اور علم کی باتوں میں مداخلت نہ کریں اس کو علما کے حوالے کردیں۔ عامی شخص کا علمی سلسلہ میں حجت کرنا زنا اور چوری سے زیادہ نقصان دہ اور خطرنا ک ہے۔
یہاں اتنا اور سمجھ لینا چاہیے کہ قرآن وحدیث سے براہ راست مسئلہ سمجھنا ہر شخص کا کام نہیں ایسا کرنا مجتہد مطلق ہی کا منصب ہے۔اس لیے کہ ہرشخص اس بات سے آگاہ نہیں کہ فلاں حدیث منسوخ ہے یا نہیں۔ یا یہ کہ حدیث کا ظاہری معنی مقصود ہے یا نہیں یا کوئی اور حدیث اس کےمعارض ہے یا نہیں۔ امام ابویوسفؒ فرماتے ہیں:عام آدمی جب کوئی حدیث سنے تو جائز نہیں کہ وہ ظاہر حدیث سے جو سمجھا ہے اس پر عمل کرے کیونکہ ممکن ہے کہ اس کے ظاہری معنی مرادنہ ہوں، یا وہ حدیث منسوخ ہو، بخلاف فتوے کے کیونکہ فتوی تحقیق کے بعد دیا جاتا ہے۔
صحابہ کرامؓ تقریبا سوا لاکھ تھے جو سب کے سب عربی دان تھے، مگر کتابوں میں چھ سات صحابہ کے فتاوی ملتے ہیں، باقی صحابہؓ انہی فتاوی پر بلامطالبہ دلیل عمل کرتے تھے اور یہی تقلید ہے۔ ابن قیم اعلام الموقعین میں لکھتے ہیں کہ فتوی دینے والے صحابہ صرف 149 تھے جن میں سے صرف سات صحابہ بکثرت فتوی دیتے تھے، تیرہ صحابہ کبھی کبھار فتوی دیتے تھے اور 110 صحابہ نے ساری زندگی میں ایک ایک یا دو دو فتوے دئیے، باقی صحابہؓ سے ایک فتوی دینا بھی ثابت نہیں۔ اسی کتاب میں مزید فرماتے ہیں کہ عبداللہ ابن عباس کے فتاوی بیس جلدوں میں جمع کئے گئے تھے۔
 
Top