• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مطلقہ اور اس کی عدت۔ تفسیر السراج۔ پارہ:2

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
وَاِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۲۲۷ وَالْمُطَلَّقٰتُ يَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْۗءٍ۝۰ۭ وَلَا يَحِلُّ لَہُنَّ اَنْ يَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللہُ فِيْٓ اَرْحَامِہِنَّ اِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ وَبُعُوْلَتُہُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِيْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْٓا اِصْلَاحًا۝۰ۭ وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰۠ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْہِنَّ دَرَجَۃٌ۝۰ۭ وَاللہُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۲۲۸ۧ
اوراگر انھوں نے طلاق کا پختہ ارادہ کرلیا تو اللہ سنتا اور جانتا ہے۔(۲۲۷)اورمطلقہ عورتیں۱؎ اپنے آپ کو تین حیض تک (نکاح دیگر سے) روکیں اور ان کو اس کاچھپانا جو خدانے ان کے رحموں میں پیدا کیا ہے حلال نہیں ہے اگر وہ اللہ پر اور آخری دن پر ایمان رکھتی ہیں اور اس عرصہ میں اگر وہ صلح کرنا چاہیں توان کے خاوندوں کا حق ہے کہ انھیں پھیرلیں اور عورتوں کا بھی حق ہے جیسے مردوں کا ان پر حق ہے دستور کے موافق اور مردوں کا عورتوںکے اوپردرجہ ہے اور اللہ زبردست حکمت والاہے۔(۲۲۸)
مطلقہ اور اس کی عدت
۱؎ اسلام نے جہاں عورت کی عزت وحرمت کا جائز اعتراف کیا ہے وہاں اس نے اس کی نفسیات کا بھی گہرا مطالعہ کیا ہے اور جو بات کہی ہے وہ عین فطرت نسوانی کے لیے مفید ہے ۔ مثلاً طلاق اصولاً دونوں طرف سے ہوسکتا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے سے اس درجہ شکایت ہوسکتی ہے کہ وہ علیٰحدہ ہوجانے پر مجبور ہوں مگر عورت از خود اس کی مجاز نہیں اور یہ اس لیے کہ عورت فطرتاً عقل سے جذبات کی زیادہ تابع ہوتی ہے۔ اسے اگر طلاق وتخلی کے اختیارات دے دیے جائیں تو وہ اپنی زندگی نہایت تکلیف میں بسر کرے اور تلخ کرلے۔ وہ لوگ جنھوں نے اسلامی نظام طلاق کا مطالعہ نہیں کیا، معترض ہیں کہ دیکھیے اسلام نے کس طرح عورت کے حق ازدواج کو چھین لیا ہے اور ہروقت اسے طلاق کے ڈر سے سہما رکھا ہے حالانکہ طلاق کی حیثیت ابغض المباحات کی ہے یعنی ناپسندیدہ مگر ناگزیر علیحدگی کی ۔ کیا اس قسم ونوع کے حالات پیدا نہیں ہوتے کہ میاں بیوی الگ ہوجائیں۔ اس سے دونوں کی عزت محفوظ ہو جاتی ہے ۔ دونوں ایک دوسرے کی جانب سے عافیت میں ہوجاتے ہیں اور دونوں آزاد ہوجاتے ہیں۔ کیا شادی کرلینے کے بعد مرد بہرحال نباہ کرنے پرمجبور ہے،مرد بہرحال نباہ کرنے پرمجبور ہے،جب کہ اس کا دل نہیں چاہتا۔بات یہ ہے کہ ہم معاملات کو واقعات اور انسانی فطرت کی روشنی میں نہیں دیکھتے بلکہ ان کو محض منطق وقیاس کی رو سے دیکھتے ہیں۔ یعنی ہم صرف معاملہ کے اس پہلو کو بھول جاتے ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔

قرآن حکیم نے مطلقات کو تین قروء کی جو رعایت دی ہے اس لیے ہے کہ شاید دونوں میں صلح ہوجائے اور دونوں پھربدستور میاں بیوی رہیں۔ مطلقات سے مراد وہ عورتیں ہیں جو مدخولہ ہوں اورحاملہ نہ ہوں۔غیرمدخولہ کا حکم الگ ہے۔ اس کے متعلق فرمایا:
فَمَالَکُمْ عَلَیْھِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدُّوْنَھَا۔
حاملہ کے متعلق ارشاد فرمای:۔
واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن۔
قروء کے متعلق اختلاف ہے ۔بعض کے نزدیک اس سے مراد مدت طہر ہے اور بعض کے نزدیک مدت حیض اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ قروء ذوات الاضداد میں سے ہے۔ اس کا اطلاق حیض وطہر دونوں پر ہوتا ہے ۔ قروء کے اصل معنی مدت واجل کے ہیں۔ جیسے ھبت الریاح لقروءھا۔ چونکہ طہر وحیض دونوں ایک قسم کی مدت ہیں، اس لیے دونوں پر لغواًاطلاق درست ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن واحادیث میں یہ لفظ دونوں معانی میں برابر استعمال ہوا ہے ۔ حیض کے لیے جیسے فرمایا :
دعی الصلوٰۃ ایام اقراءک باطلاق الامۃ تطلیقتان وعدتھا حیضتان۔
طہر کے لیے جیسے قرآن میں فرمایا:
فطلقوھن لعدتھن
اورظاہر ہے کہ عدت طلاق طہرہے مگر مقصد چونکہ مہلت دینا ہے ، اس لیے اوسع اور تین مراد لیا اور یہ منشائے شریعت کے زیادہ مطابق ہوگا۔ لہٰذا حیض زیادہ قرین قیاس ہے اور یوں دونوں معانی کے لیے گنجائش ہے ۔ عورت کو یہ ہدایت کی کہ وہ جو کچھ اس کے رحم میں ہے ، چھپائے نہیں، اس لیے کہ فیصلہ اس صورت میں صرف عورت کی بات پر ہوگا۔یہ بھی فرمایا کہ اثنائے عدت میں مردوں کو اختیار رجوع ہے ۔ اگر وہ اصلاح چاہیں ۔اس کے بعد یہ بتایا کہ عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے بجز اس کے کہ مردوں کے ذمہ نفقہ وقیام کی ذمہ داریاں ڈال دی گئی ہیں، اس لیے معمولی باتیں طلاق وتخلی کا باعث نہ بنیں اورحتی الوسع صلح کرلی جائے۔
 
Top