عبدالرزاق قادری
مبتدی
- شمولیت
- دسمبر 25، 2012
- پیغامات
- 46
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 19
اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں کروڑ پتی کالم نویس حضرات اپنے ادبی فن کی بنا پر مفلس و نادار لو گوں کے درد کا رونا روتا نظر آتا ہے یوم مئی کو لا کھ پتی حضرات مزدور انجمنوں کی صورت میں احتجاج کرتے نظر آتے ہیں ٹی وی چلا کر دیکھ لیں ایک فلم کے لیے کروڑوں کا معاوضہ لینے والا غریب کا نمائندہ ہے اور فلم میں اُس اداکار کے ساتھ ظلم ہوتا ہے اُس کو قتل کر دیا جاتا ہے حالانکہ وہ اپنے مرنے کے بعد ہاتھی کی طرح سوا لاکھ سے بھی زیادہ مہنگا ہو جاتا ہے ٹاک شو میں اینکر پرسن بولتا ہے جس کی تنخواہ پاکستان کے ہر شعبہ زندگی کے سنیئر ترین افسران سے زیادہ ہوتی ہے وہ بھی ایک عام آدمی کی نمائندگی کرتا ہے اور پیاز کی قیمت بیس روپے زیادہ ہو جانے پر آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے تمام پارٹیوں کے تمام سیاست دان لاکھوں روپے کا لباس اور جوتے پہن کر کروڑوں کی گاڑی میں تشریف لاتے ہیں اور عوامی جلسہ میں انہوں نے ایسے ایسے پرفیوم لگا رکھے ہوتے ہیں کہ ان کو پسینے کی تکلیف نہ سہنا پڑے یا ان کے ڈائس کے سامنے خفیہ اے سی لگا ہو تا ہے اور وہ بھی بلند و بانگ دعوؤں سے غریب غرباء کو ان کا حق دلانے کے لیے پُر سوز تقریرکر تا ہے جو کہ کسی لاکھ پتی بیوروکریٹ نے لکھی ہوتی ہے اور شاعروں کا کلا م پڑھتا ہے جس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ بندہ غریبوں کا سچا غم گسار ہے اور خیر خواہ بھی، غریبوں کی اعانت کے جتنے اشتہارات ہم اخبارات اور ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں ان کا دسواں حصہ بھی عملی نمونے کی صورت میں نظر نہیں آتا اگر کوئی منصوبہ سامنے آجاتا ہے تو اس میں اتنے زیادہ فنی عیب ہوتے ہیں کہ وہ بہت جلد ناکام ہو جاتا ہے یا پھر بد نیتی کی بناء پر اتنے نااہل اور کرپٹ لو گ بھرتی کیے جاتے ہیں جو معاشر ے کے لیے ناسور بن جاتے ہیں اور حقیقتا تو ناسور کا علاج اُسے کاٹ پھینکنا ہی ہے ورنہ اقبال فرشتوں کے لیے اپنے کلا م میں یوں نہ فرماتے
مزید پڑھنے کےلئے یہاں کلک کریں
(لنک حذف ۔۔۔ انتظامیہ)
مزید پڑھنے کےلئے یہاں کلک کریں
(لنک حذف ۔۔۔ انتظامیہ)