• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معانی واحکام پر ترتیل ِقرآن کریم کے اثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
معانی واحکام پر ترتیل ِقرآن کریم کے اثرات

مُحمّد شملول
مُترجِم: ابوبکر، صبر اللہ​
ربِ کائنات سبحانہ وتعالیٰ نے جہاں ہمیں عبادات (نماز و صیام، زکاۃ و حج) وغیرہ کی تعلیم دی وہاں ہمیں ہماری ناقص عقل، حواس یا وجدان کا مکلف نہیں بنایا بلکہ خود ہی طریقۂ عبادت کی بھی تعیین فرما دی۔ اسی طرح تلاوتِ قرآن، جو کہ افضل ترین عبادت ہے، کا طریقۂ تلاوت بھی شارع نے خود متعین فرمایا ہے، دیگر عبادات کی طرح اس کو بھی اگر نبی کریم1 کے بتائے ہوئے طریقے سے ہٹ کر انجام دیا جائے گا تو اجر وثواب میں کمی یا مکمل محرومی بلکہ گناہ بننے کا اندیشہ ہے۔
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، دیگر کلاموں کے اُتار چڑھاؤ اور مد وجزر میں پنہاں معنویت کی طرح اس میں یہ خاصہ بدرجۂ اَتم موجود ہے۔ چنانچہ اس موضوع پر مشہور مصری محقق الاستاذ محمد شملول﷾ کی تصنیف ’إعجاز رسم القرآن وإعجاز التلاوۃ‘ کی ایک مبحث کو فاضل مترجمین نے اُردو قالب میں ڈھالا ہے جو اپنے موضوع پر ایک اچھوتی تحریر ہے۔
یاد رہے کہ اس قسم کے بعض علمی نکات پر التصویرالفني في محاسن القرآن از سید قطب رحمہ اللہ، اللمعات في تفسیر سورۃ الکہف از شیخ عدنان عبد القادر﷾ اور أثر القراء ات القرآنیۃ فی الفہم اللغوي از ڈاکٹر مسعود علی حسن عیسیٰ﷾ اور دیگر بعض کتب میں بھی قلم اٹھایا گیا ہے۔ ان نکات کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ ان سے دین متین میں ہدایت کے کسی پہلو کا تو بہرحال اضافہ نہیں ہوتا لیکن تفسیر بالرائے محمود کے ضمن میں اعجازِ قرآنی کے بعض نئے پہلو ضرور اُجاگر ہوتے ہیں جو بہرصورت قابل ِستائش کاوش ہے۔ (ادارہ)
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا ایک معجزہ ہے۔ اس کو اس طرح پڑھنا واجب ہے جس طرح یہ نازل ہوا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ فَإِذَا قَرَأْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْء انَہٗ ‘‘ (القیامۃ: ۱۸)
’’جب ہم اسے پڑھ رہے ہوں اس وقت تم اس کی قراء ت کو غور سے سنا کرو۔‘‘
(٢) وقال تعالیٰ:’’ وَرَتِّلِ الْقُرئَانَ تَرْتِیْلاً ‘‘ (المزمل: ۴)
’’اور قرآن کوخوب ٹھہر ٹھہرکر پڑھو۔‘‘
(٣) اِرشاد نبوی ﷺ
’’ إِنَّ اﷲَ یُحِبُّ أَنْ یُّقْرَئَ الْقُرْآنَ کَمَا أُنْزِلَ ‘‘
’’بیشک اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں کہ قرآن کریم اس طرح پڑھا جائے جس طرح نازل کیا گیا تھا۔‘‘
اس لئے ہم پر واجب ہے کہ قرآن کریم کی اس طرح تلاوت کریں جس طرح یہ آپﷺپر نازل ہوا ہے اور جس طرح آپﷺنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اطمینان اور ترتیل کے ساتھ پڑھایا۔ آپﷺحروف کو کماحقہ صفات اور مخارج کی اَدائیگی کے ساتھ اَدا فرماتے اور مد، غنہ، اظہار، ادغام، اخفاء، تفخیم، ترقیق، حروف کی خوبصورتی اور ابتداء و انتہاء کا خصوصی خیال رکھتے تھے۔
اِس سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت قواعد کے مطابق بالکل ایسی ہونی چاہئے جیسے یہ نازل ہوا ہے تاکہ نصوص قرآنی کے حقیقی معانی کھل کر سامنے آجائیں۔
یہ ایک ایسا موضوع ہے جو اسلامی مفکرین کی توجہ کا مستحق ہے اور بھرپور بحث و مطالعہ کا محتاج ہے۔ یقینا یہ موضوع قرآن کے عجائبات میں سے ہے جس کی گہرائی تک پہنچنا چند اَفراد کے بس میں نہیں ہے۔ البتہ اس میں غوروفکر کرنا ہر صاحب علم پر واجب اور ضروری ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کیونکہ ِارشاد باری ہے:
’’ أَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْئَانَ أَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ أَقْفَالُھَا ‘‘ (محمد:۲۴)
’’ یہ قرآن میں غوروفکر کیوں نہیں کرتے کیاان کے دلوں پر تالے لگ گئے ہیں۔‘‘
ہم اس بارے میں مقدمہ کے طور چند مثالوں کا تذکرہ کر رہے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مدات کے معانی پر اَثرات کی مثالیں
کلماتِ قرآنیہ پر مد کرنا حروف کی زیادتی پر دلالت کرتا ہے ، اور زیادتی ٔ حروف معنی کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے۔
لہٰذا اَثنائے تلاوت بعض کلمات قرآنی پر مد اصل سے بڑھ کر مد کرنا، اس کلمہ کی عظمت اور اس کے معنی کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے۔
ذیل میں ہم قرآن کے وہ کلمات پیش کرتے ہیں جن پر مد کرنا واجب ہے،اور یہ مد بیکار نہیں ہے،بلکہ کلمہ کی اہمیت پر دلالت کرتی ہے۔ ایسے کلمات قرآن کریم میں بہت زیادہ ہیں مگر ہم صرف چند مثالیں پیش کرتے ہیں، جیسے:
(١) ’الطآمۃ‘… ’’فَاِذَا جَآئَ تِ الطَّآمَّۃُ الْکُبْرٰی‘‘ (النازعات:۳۴)
’’پس جب وہ بڑی آفت (قیامت ) آجائے گی۔‘‘
(٢) ’السمآء ‘ …’’ وَالسَّمَآئَ بِنَآئً ‘‘ (البقرۃ:۲۲)
’’اور آسمان کو چھت بنایا‘‘
(٣) ’جآن‘ … ’’ فَیَوْمَئِذٍ لاَّ یُسْئَلُ عَنْ ذَنْـچبِہٖ اِنْسٌ وَلَا جَآنٌّ ‘‘ (الرحمن:۳۹)
’’اس دن کسی انسان اور جن سے اس کا گناہ پوچھنے کی ضرورت نہ ہو گی۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) ’الطآپفین‘ … ’’ أَنْ طَہِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ ‘‘ (البقرہ:۱۲۵)
’’اور ہم نے ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں،اعتکاف اور رکوع سجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھو۔‘‘
جب ہم ان کلمات پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ کسی بہت بڑی چیز پر دلالت کررہے ہیں نہ کہ عام چیز پر، لہٰذا ثابت ہوامد زیادتی معنی کے لیے آتی ہے۔ ہم ’الطآمۃ‘ کا مقارنہ اسکے قریب المعنی کلمہ ’القارعۃ‘ کے ساتھ کرتے ہیں جس میں مد نہیں پائی جاتی۔ (اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسمیں مد کیوں نہیں حالانکہ یہ بھی تو بڑی چیز پر دلالت کرتا ہے)
اسکا جواب یہ ہے کہ’ القارعہ‘ کے معنی میں جس شدت کو پیدا کرنا مطلوب ہے وہ یہ ہے تقرع اذان الناس( یعنی لوگوں کے کانوں کو کھٹکھٹانا) اور یہ ایک ایسی شے جو زمانے کو مستلزم نہیں ، بلکہ اس کا اَچانک وقوع ہوتا ہے اور یہ کسی مد یامدت کی محتاج نہیں ہے۔
اسی طرح جب ہم سورۃ کافرون میں غور کرتے ہیں تو ’’مَا تَعْبُدُوْنَ‘‘ و’’مَا عَبَدْتُمْ‘‘میں ’ما‘ پر مدنہیں پاتے ۔ کیونکہ ان کے معبودان باطلہ کی حقارت مقصود ہے جبکہ ’’مَآأعْبُدُ‘‘ پر مد ہے اور یہ رسول اللہﷺکے معبود کی عظمت کو ثابت کر رہی ہے۔
’’ اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٓٗ أَسْلِمْ ‘‘ (البقرہ:۱۳۱)
’’جب کبھی انہیں ان کے رب نے کہا فرمانبردار ہوجا انہوں نے کہا میں نے رب العالمین کی فرمانبردار کی۔‘‘
اور یہ مد رب سبحانہ و تعالیٰ کی عظمت پر دال ہے۔
’’ وَمَا قَدَرُواﷲَ حَقَّ قَدْرِہٖٓ إِذْ قَالُوْا … الخ‘‘ (الانعام:۹۱)
’’اور ان لوگوں نے اللہ کی جیسی قدر پہچاننا واجب تھی ویسی قدر نہ پہنچانی‘‘
اور یہ لمبی مد رب سبحانہ و تعالیٰ کی قدرت کی عظمت پر دلالت کرنے کے لیے آئی ہے:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مدلازم مثقل کی مثال
(٣) ’’صِرٰطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّینَ ‘‘ (الفاتحۃ:۷)
’’ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کی‘‘
یہاں ’’ وَلَا الضَّآلِّینَ ‘‘ میں مد لازم کلمی مثقل ہے جو چھ حرکات کیبرابرکھینچی جاتی ہے، جبکہ ’’غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ‘‘ پر مد نہیں ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ’’ وَلَا الضَّآلِّینَ ‘‘ کے مصداق ’’ النصٰریٰ ‘‘ ہیں یہ مد ان کی کثرت تعداد پر دال ہے۔
اور ’’ المَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ ‘‘ کے مصداق صرف یہود ہیں یہاں عدم مد ان کے قلت پر یہ دلالت کرتا ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نون ساکنہ و تنوین کے احکام کا معانی پر اثر
الاظہار
اِصطلاح قراء میں اظہار کا معنی
نون ساکنہ یا تنوین کے بعد اگر حروف حلقی ء ھ ع ح غ خ میں سے کوئی حرف آجائے تو وہاں اظہار ہوگا قرآن کریم قرآن کریم میں اس کی بے شمار اَمثلہ موجود ہیں۔ جب ہم اس پر غور وفکر کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اظہار میں چونکہ نون ساکن کے بعد حرف کو بہت جلد اَدا کرنا ہوتا ہے اس لیے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ما بعد کلمہ کا اس سے اس قدر شدید الصاق ہوتا ہے کہ وہ کسی فاصل کا متحمل نہیں ہوتا جیسا کہ سورۃ الزلزال میں ہے:
’’ فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہٗ ‘‘ (الزلزال:۷) ’’ پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی تو وہ اسے دیکھ لے گا۔‘‘
’’ وَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ‘‘ (الزلزال:۸) ’’اور جس نے ذرا برابر بدی(بُرائی) کی ہوگی تو اسے دیکھ لے گا۔‘‘
ہم دیکھتے ہیں ’’ذرۃ خیراً یرہ‘‘ اظہار بلاغنہ ہے، کیونکہ اس کے بعد والا کلمہ حرف ’خ‘ سے شروع ہوتا اور یہ حروف حلقی میں سے ہے۔ ’ مثقال ذرۃ کو خیرا یر‘ کے ساتھ ملانے سے معنی سمجھ آتا ہے۔ کہ ایک ذرا برابر بھی خیر انسان کے ساتھ ملصق رہے گی اور کبھی الگ نہیں ہوگی۔
جبکہ دوسری آیت میں مثقال ذرۃ اور شراً میں غنہ کے ذریعے فاصل لایا گیا ہے جو اس بات کی طرف اِشارہ ہے کہ انسان جب کسی برائی کا اِرتکاب کرتا ہے تو توبہ کے ذریعہ موقع دیا جاتا ہے تاکہ وہ اس برائی کو اپنے سے جدا کرسکے۔
’’فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوٰزِیْنُہٗ٭ فَھُوَ فِی عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ٭ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوٰزِیْنُہٗ٭ فَأُمُّہٗ ھَاوِیَۃٌ‘‘ (القارعہ:۶،۹)
’’اور پھر جس پلڑے بھاری ہوگی وہ تو دل پسند آرام کی زندگی میں ہوگا، اور جس کے پلڑے ہلکی ہوگی پس اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’’مَنْ ثَقُلَتْ مَوٰزِیْنُہٗ‘‘ میں غنۂ نون سے اس اطمینان وراحت کی وضاحت مطلوب ہے جس سے اہل جنت بہرہ مند ہوں گے اور ’’مَنْ خَفَّتْ مَوٰزِیْنُہٗ‘‘کے نون میں حروف حلقی ’خ‘ آنے کی وجہ سے غنہ نہیں ہے اور یہ سرعت اللہ رب العزت کے سریع الحساب والعقاب ہونے کی وضاحت کر رہی ہے۔
’’قُلْ ھُوَ اﷲُ أَحَدٌ ٭ اﷲُ الصَّمَدُ ٭ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ ٭ وَلَمْ یَکُن لَّہٗ کُفُواً أَحَدٌ ‘‘ (الإخلاص:۱،۴)
’’اور کہہ دیجئے کہ اللہ ایک ہی ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔‘‘
اس پوری سورۃ مبارکہ میں کسی جگہ بھی غنہ کا عدم وجود اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ توحید الہٰی ایسے امور قطعیہ میں سے ہے جو زمانے کی مسافتوں سے ماوراء ہے یعنی ہر زمان ومکان میں یہ ثابت وقائم ہے۔
’’فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ‘‘ (البقرہ:۳۸) ’’پس ان پر کوئی خوف نہیں۔‘‘
یہاں عدم غنہ اس بات کی وضاحت کر رہا ہے کہ ایمان اور عمل صالح کرنے والوں کو ایک لمحہ کے لیے بھی خوف نہیں کرنا چاہیے۔
’’الَّذِیْ أَطْعَمَھُمْ مِنْ جُوْعٍ وَئَامَنَھُمْ مِنْ خَوْفٍ‘‘ (قریش:۴) ’’جس نے انہیں بھوک میں کھانا دیا اور خوف میں امن وامان دیا۔‘‘
من جوع کے نون کا غنہ اس بات پر دال ہے کہ بھوک تب ہی متحقق ہوگی جب کھانا کھائے ہوئے کچھ وقت لگا ہو اور من خوف میں غنہ اس لیے نہیں ہے کہ خوف اور بدامنی کی حالت میں انسان اس بات کا متمنی ہوتا ہے کہ اگلے ہی لمحے بڑی سرعت کے ساتھ خوف امن میں بدل جائے۔
’’وَمَا اﷲُ بِغٰفِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ‘‘ (البقرہ؛۷۴) ’’اور تم اللہ تعالیٰ کو اپنے اعمال سے غافل نہ جانو۔‘‘
قرآن کریم میں نو مقامات پر وارد ہوا ہے اور اس کے بعد حرف حلقی’ع‘ ہونے کی وجہ سے یہاں اظہار ہے جو اس کی اطلاع دے رہا ہے کہ باری تعالیٰ ایک لحظہ بھر اپنے بندوں کے اعمال سے غافل نہیں ہوتے لیکن جب اس لفظ کی نسبت بندوں کی طرف ہو جیسا کہ قرآن کریم میں ہے :’’کُنَّا فِیْ غَفْلَۃٍ مِنْ ھٰذَا‘‘ (الأنبیاء:۹۷)
’’پھربھی وہ بے خبری میں پھیرئے ہوئے ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تویہاں تنوین کے بعد غنہ ہورہا ہے جو وضاحت کررہا ہے کہ انسان بہت دیر تک غفلت میں مبتلارہتا ہے۔
’’ وَ إِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ‘‘ ( البقرہ:۱۸۶)
’’جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں۔‘‘
یہاں بھی (قریب اور اجیب) کے درمیان میں غنہ نہیں ہے جو اللہ رب العزت کی سرعت اجابت پر دلالت کرتا ہے۔
’’ وَ مَا یَسْتَوِی الْبَحْرٰنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَآئِغٌ شَرَابُہٗ وَ ھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ ‘‘ (الفاطر:۱۲)
’’اور برابر نہیں دو دریار یہ میٹھا ہے پیاس بجھاتا ہے پینے میں خوشگوار اور دوسرا کھاری ہے کڑوا۔‘‘
پہلے تینوں الفاظ میں نون تنوین پر غنہ کرکے پڑھیں گے اور اس کی حکمت یہ ہے کہ میٹھی اور ذائقہ دار چیزکو راحت اور سکون سے پیتے ہیں اس میں وقت لگتا ہے، اور کھاری کڑوا ہوتاہے اس کو جلدی پینے کی کوشش کرتے ہیں، اس میں وقت نہیں لگتا۔
’’ ھُوَ الَّذِیٓ أَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُئَایٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ أُمُّ الْکِتٰبِ ‘‘ (آل عمران:۷)
’’وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اوربعض متشابہ ہیں۔‘‘
یہاں ’محکمت، اور ھن‘کے درمیان اظہار کی وجہ سے جلدی پڑھیں گے، کیونکہ یہ قطعی امر ہے اور ’آیات محکمٰت‘ متشابہات کی وضاحت وتفسیر میں ماخذکی حیثیت رکھتی ہیں۔
’’ فَتَقَبَّلَھَا رَبُّھَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّ أَنْبَتَھَا نَبَاتًا حَسَنًا ‘‘ ( آل عمران:۳۷)
’’پس اس سے اس کے پروردگار نے اچھی طرح قبول فرمایا اس سے بہترین پرورش دی۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’قبول حسن اور نبات حسن ‘کے درمیان اس لیے غنہ نہیں ہے کہ دونوں چیزیں حضرت سیدہ مریم کے حق میں قطعی ہیں۔ ’’ وَ مَا مِنْ إِلٰہٍ إِلَّا اللّٰہُ ‘‘ (آل عمران:۶۲) ’’ اور کوئی معبود برحق نہیں باوجود اللہ تعالیٰ کے۔‘‘
یہ بھی اَمر قطعی ہے جو بلا فاصلہ واقع ہوا ہے۔
’’ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ ‘‘ (النساء :۳)
’’اگر تمہیں برابری نہ کرسکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈی۔‘‘
یہاں بھی اَمر قطعی ہے جس سے نون تنوین میں غنہ نہیں ہوا۔
’’ وَ اللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ‘‘ (البقرہ:۲۲۸)
’’اللہ غالب حکمت والا ہے۔‘‘
’’ وَ اللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ‘‘ (آل عمران:۳۴)
’’اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘
’’ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ‘‘ (المائدہ:۵۴)
’’اللہ تعالیٰ وسیع علم والا ہے۔‘‘
یہ تمام اَسمائے قطعیہ ہیں۔ جن کے درمیان کوئی بھی فاصلہ غنہ کی شکل میں نہیں۔
 
Top