• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معانی واحکام پر ترتیل ِقرآن کریم کے اثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ایک باریک نکتہ
مذکورہ مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر لفظ کا اپنے مابعد اور ماقبل حرف سے کس قدر گہرا اور معجزاتی تعلق ہے جو یہ یقین مزید پختہ کر دیتا ہے کہ یہ واقعی کلام اللہ ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سورۃ الفلق
’’وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ‘‘
یہاں حاسدٍ پر اظہار ہے۔ یہ اس بات کی طرف اِشارہ ہے کہ ’عین الحاسد‘ اچانک اور فجاء ۃ لگ جاتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سورۃ الناس
جب ہم اس سورۃ پر غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس سورۃ کی ہر آیت میں غنہ موجود ہے تو یہ اللہ رب العزت کی وسعت رحمت کا پتہ دے رہی ہے، کیونکہ جس شر سے پناہ مانگی جارہی ہے وہ اس قدر بڑا اور نفوذ پذیر ہے کہ اللہ رب العزت کے تین ناموں کا واسطہ دیا گیا ہے۔ یعنی ’’ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ٭ مَلِکِ النَّاسِ٭ اِلٰـہِ النَّاسِ ‘‘
لہٰذا یہاں ہر آیت میں غنہ اس اللہ رب العزت کے وسعت حفظ اور شیطانوں کے وسعت شر پر دال ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِدغام کے معانی پر اَثرات
نون ساکن وتنوین کے قواعد میں سے ایک ادغام بھی ہے جس کا معنی ہے کہ ایک حرف کو دوسرے حرف میں اس طرح داخل کرنا کہ پڑھتے وقت یوں محسوس ہو کہ ایک ہی حرف ہے۔ نون کا ادغام چھ حروف ی، ر، م، ل، و، ن میں ہوتا ہے۔ ا س کی دواقسام ہیں۔
(١) ادغام ناقص (٢) ادغام کامل
ناقص کا مفہوم یہ ہے کہ دوران ادغام ’ن‘ کی صفت غنہ باقی رہے یہ ’یومن‘ کے چار حروف میں ہوتا ہے اور کامل کا مطلب یہ ہے کہ نون کو بدون غنہ اَدا کیا جائے اور یہ مابعد حروف میں تبدیل ہو جائے یہ ’ل‘ اور’راء‘ میں ہوتا ہے۔ ان دو اقسام میں سے ہر ایک کے فوائد ہیں ادغام کامل تبیین اور وضاحت کا فائدہ دیتا ہے جبکہ ادغام ناقص وسعت معنی کے لیے آتا ہے۔۔ مثلاً’’وَ لَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُوًا أَحَدٌ‘‘ میں یکن لہ کا ادغام کامل اس بات میں قطعیت کا فائدہ دے رہا ہے کہ حق تعالیٰ شانہ کی برابری کی کسی میں قوت نہیں ہے۔ اسی طرح ’’وَلَلْآخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْأُوْلٰی‘‘ یہاں ’خیر لک‘ کا ادغام تام اس کا بیان ہے کہ خیر کا آپ کے ذات کے ساتھ الصاق کامل ہے۔ کبھی بھی آپ سے منفصل نہیں ہوسکتی۔
نیز’’ وَیْلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ ‘‘ یہاں ویل لکل اور ہمزۃ لمزۃ کا ادغام تام اس اَمر میں نص ہے کہ چغل خور اور غیبت کرنے والے کے ساتھ عذاب اس طرح ملصق ہوگیا ہے کہ گویا اس کی ذات کا جزء بن گیا ہے۔ َمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍاس آیت میں ادغام ناقص کے ذریعے عمل کے بقاء اور استمرار کی طرف اِشارہ کیا گیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
صفات حروف کے معانی پر اَثرات
ہر حرف کے لیے ایک متعین مخرج ہے جس سے وہ ایک خاص کیفیت کے ساتھ اَدا ہوتا ہے اس کیفیت کو صفت الحروف کہتے ہیں صفات سے بھی معانی پر کئی اَثرات مرتب ہوتے ہیں جو کہ توضیح وتفسیر میں نفع بخش ثابت ہوتے ہیں۔ ذیل میں ہم اس کا تذکرہ کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حروف استعلاء
’س‘ حروف استعلاء میں سے نہیں جبکہ ’ص‘ حروف استعلاء میں سے ہے جس کا مفہوم اِرتقاء اور بلندی ہے۔ ان دو حروف کو درج ذیل دو آیات میں دیکھنے سے صفات کے اثرات کا اَندازہ ہوگا۔ قرآن کریم میں ہے:
’’ أَمْ عِنْدَہُمْ خَزَآپـنُ رَبِّکَ أَمْ ہُمُ الْمُصَیْطِرُوْنَ۔ ‘‘ ( الطور:۳۲)
’’ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ‘‘ (الغاشیۃ: ۲۲)
لفظ المصیطرون اور المصیطر قرآن کریم میں بلحاظ اصل ’س‘ کے ساتھ مکتوب ہونا چاہیے لیکن کیونکہ حرف س حروف استعلاء میں سے نہیں ہے اور وہ معنی مقصود صحیح اَنداز میں نہیں اَدا کر پاتا اس لیے کی دوسری قراء ت بصاد یعنی المصیطر بھی نازل کر دی گئی تاکہ معنی کی تبیین کا حق اَدا ہوسکے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حروف قلقلہ وحروف امتداد
قلقلہ سے مراد یہ ہے کہ حروف کو بحالت وقف قدرے جنبش دے کر پڑھنا یہ پانچ حروف ہیں:
ق، ط، ب، ج، د۔ حرف امتداد فقط ضاد ہے۔ یہاں امتداد کا مفہوم یہ ہے کہ زبان کی ابتداء سے انتہاء تک آواز کو اس طرح دراز کرنا کہ تحریک وتقلیل کا شائبہ نہ ہو۔
جب ہم حروف قلقلہ پر غور کرتے ہیں خصوصاً جب قلقلہ کبریٰ ہو تو وہ کلمہ وسعت اور زیادتی کے معنی دے رہا ہوتا ہے یا پھر یہ حروف تاکید کا فائدہ دیتے ہیں، کیونکہ قلقلہ میں قدرے حرف کے تکرار کا احساس ہوتا ہے اور تکرار حرف تاکید کے لیے ہوتا ہے۔ مثلاً ’’ اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ٭ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ‘‘ (العلق:۱،۲)
مذکورہ آیت میں خلق کا ’ق‘ اپنے قلقلہ کی بدولت اللہ رب العزت کی وسعت تخلیق کی غمازی کر رہا ہے جبکہ علق میں جنبش حرف سے منی کے قطرات میں موجود Spermsکی کثرت کی طرف اِشارہ کررہا ہے۔اسی طرح العذاب، الحق، والأسباط، الأحزاب، أزواج، المیعاد۔ یہ بھی اپنے معنی میں وسعت رکھتے ہیں۔
حرف ضاد کی خصوصیت یہ ہے کہ سکون کی حالت میں اس میں کسی چیز کو قوت کے ساتھ روکے رکھنے کے معنی پائے جاتے ہیں اور عدم قلقلہ کی بناء پر کسی طرح کی حرکت اور جنبش کے لیے مانع ہے جیسا کہ ِارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ ثُمَّ قَبَضْنٰہُ اِلَیْنَا قَبْضًا یَّسِیْرًا ‘‘ (الفرقان:۴۶)
یہاں حرف ضاد کا سکون اور عدم قلقلہ لفظ ’القبض‘ کے معنی میں تاکید پیدا کر رہا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حروف تفخیم وترقیق
بعض حروف کی تفخیم اس کی زیادتی معنی پر دلالت کرتی ہے اسی طرح ترقیق حروف بھی بعض لطیف اشیاء کی گرہ کشائی کرتی ہے۔ حروف تفخیم دراصل حروف استعلاء ہی ہیں لیکن بعض حالات میں را بھی مفخم پڑھی جاتی ہے۔ نیز لفظ الجلالہ سے ماقبل فتحہ یا ضمہ ہو تو اسے پر پڑھاجاتا ہے۔ جیسے: ’’ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ ‘‘ (الاخلاص:)‘ ’’وَیَفْعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَآء‘‘ (ابراھیم:۲۷) البتہ ماقبل کسرہ ہو تو باریک ہوتا ہے جیسے بسم اﷲ، الحمد ﷲ۔
میرا یہ اعتقاد ہے کہ یہ وسیع دراسۃ کا محتاج ہے جس میں حروف کے اصول اور ان سے وجود پانے والے کلمات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِدغام مثلین، متجانسین اور متقاربین کے معانی پر اَثرات
اِدغام مثلین: دونوں حروف صفات اور مخرج میں متحد ہوں۔
اِدغام متجانسین: دونوں حروف مخرج میں متحد ہوں اور صفات میں مختلف ہوں۔
اِدغام متقاربین: دونوں حروف مخرج اور صفات میں مختلف ہوں۔
جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ اِدغام کا مل معاملے کی قطعیت پر اور کسی زمانی یا مکانی فاصلہ کے عدم وجود پر دلالت کرتا ہے۔ لہٰذا ہم چند مزید مثالیں ذکر کر رہے ہیں تاکہ مزید وضاحت ہوجائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِدغام مثلین
اِرشاد ربانی ہے:’’ أَیْنَ مَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ ‘‘ (النساء:۷۸)
دوران تلاوت یدرککم کے کاف اول کا ثانی میں اس طرح ادغام کریں کہ وہ حرف مشدد ہو جائیں یہ ادغام اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جب کسی پر موت کا وقت آ پہنچے تو پھر اس کے واقع ہونے میں بے اِنتہا سرعت سے کام لیا جاتا۔
اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ اِذْہَبْ بِکِتٰبِیْ ہٰذَا فَــأَلْقِہِ إِلَیْہِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْہُمْ ‘‘ (النمل:۲۸)
یہاں اذہب بکتٰبی میں باء کا اِدغام یہ اشارہ کر رہا ہے کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے ہدہد کو بہت سرعت اور تیزی کے ساتھ خط پہنچانے کا حکم دیا تھا۔
 
Top