• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معانی واحکام پر ترتیل ِقرآن کریم کے اثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِدغام متجانسین
یہ تائ، دال، طاء، ذال، اور میم میں ہوتا ہے۔
قرآن کریم میں ہے:
’’ لَآ إِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ‘‘ (البقرہ:۲۵۶)
’قدتبین‘ میں تاء کا دال میں اِدغام اس بات کی وضاحت کر رہا ہے کہ قطعی طور پر ہدایت کا بیان ہوچکا ہے اور الغی(گمراہی) کی وضاحت بھی کر دی گئی ہے۔
قال اﷲ تعالیٰ: ’’ قَدْ أُجِیْبَتْ دَّعْوَتُکُمَا ‘‘ (یونس:۸۹)
کلمہ مذکورہ میں تاء کا دال میں ادغام سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی فرعون اور اس کے حواریوں کے خلاف بددعا کے جلد قبول ہو جانے کی طرف اِشارہ کر رہا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِدغام متقاربین
یہ چار حروف ل،ر، ق اور ک میں ہوتا ہے جیسے’’ وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا ‘‘ (طہٰ:۱۱۴)
قل رب میں لام کا راء میں ادغام تام یہ بیان کر رہا ہے کہ بندۂ مومن کو اللہ رب العزت سے اِضافۂ علم کی دعا میں جلدی کرنی چاہیے۔
اِرشاد باری تعالیٰ ہے:’’ بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا ‘‘ (النساء:۱۵۸)
بل رفع اﷲ إلیہ کا اِدغام رفع عیسیٰ علیہ السلام کے سرعت کا متقاضی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِشمام
اِشمام یہ ہے کہ ہونٹوں کو اس طرح ملانا گویا کہ قاری ضمہ کے پڑھنے کا ارادہ رکھتا ہے لیکن حقیقت میں وہ فتحہ پڑھے یہ قرآن کریم میں سورۃ یوسف میں آیا ہے۔ اِرشاد ربانی ہے: ’’ قَالُوْا یٰٓــأَبَانَا مَالَکَ لَا تَاْمَنَّا عَلٰی یُوْسُفَ ‘‘(یوسف:۱۱)
لا تأمنا میں اِشمام ہے جو اس بات کی طرف اِشارہ ہے کہ جس طرح سامع کو تردد ہوتا ہے کہ آیا قاری فتحہ پڑھ رہا ہے یا ضمہ اسی طرح جب اخوان یوسف علیہ السلام اِجازت طلب کرر ہے تھے تو ان کے قول میں تردد جھلک رہا تھا، کیونکہ وہ بظاہر تو یوسف علیہ السلام کے ناصح ہونے کا اعلان کر رہے تھے لیکن حقیقت میں وہ خائن تھے اسی طرح عملی تردد کی طرف اشمام اشارہ کر رہا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سکتات کے معانی پر اثرات
مصحف مدینہ میں موجود ہے کہ امام حفص سے بطریق شاطبی متفق علیہا سکتات کی تعداد پانچ ہے جو درج ذیل ہیں:
(١) عوجا (سورۃ کہف:۱)
(٢) مرقدنا (یٰسین:۵۲)
(٣) من راق (سورۃ قیامۃ:۲۷)
(٤) بل ران (المطففین:۱۴)
(٥) مالیہ ( الحاقہ:۲۸)
جب ہم آیات پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ مقامات پر اگرچہ ایک لمحہ کے لیے ہی ٹھہرا جائے، ٹھہرنا ضرورچاہیے، کیونکہ یہ امور ہیں ہی کچھ ایسے کہ تدبر، تفحص اور تحقق کا تقاضا کرتے ہیں۔
مثلاً:’’ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا٭پ قَیِّمًا …‘‘ (کہف:۱)
مذکورہ آیت میں عوجاً کا سکتہ اس لیے ہے کہ کچھ لحظہ ٹھہر کر غور وفکر کر لو کہ اس کتاب کی کیا قدرو منزلت ہے اور وہ یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کی کجی اور ٹیڑھ پن نہیں ہے بلکہ یہ ایک مستقیم کتاب ہے۔
اِرشادی ایزدی ہے:’’ مَنْ۰ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا ۷پ ہٰذَا مَا …‘‘ (یٰسین:۵۲)
یہاں مرقدنا سے یہ اِشارہ مقصود ہے کہ یہاں ٹھہر کر غور کرو کہ آئندہ جو کلام تم پڑھنے لگے ہو یہ ملائکہ اور اہل ایمان کا کلام ہے نہ کہ کافروں کا۔ کیونکہ اس سے ماقبل کلام میں کافروں نے مسلمانوں سے سوال کیا تھا اس کا جواب دیا جا رہا ہے۔
’’ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِ ئایٰتُنَا قَالَ أَسٰطِیْرُ الْأَوَّلِیْنَ٭ کَلَّا بَلْ پ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ‘‘(المطففین: ۱۳، ۱۴)
یہاں لفظ بل میں سکتہ یہ دعوت دے رہا ہے کہ غور تو کرو کہ لوگوں نے کس وجہ سے قرآن کریم کو جھٹلایا وہ صرف یہ تھا کہ ان کے دلوں میں قبولیت حق کی صلاحیت نہیں تھی وہ کفر وشرک اور عدوان بغی سے زنگ آلود تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
صلہ ھا کی ضمیر کے معانی پر اثرات
اِمام حفص ہر اس ہاء ضمیر پر صلہ کرتے ہیں جس سے ماقبل اور مابعد متحرک ہو لیکن چند کلمات اس قاعدہ سے مستثنیٰ ہیں جو خاص معانی پر دلالت کرتے ہیں۔جیسے
(١) یَرْضَہُ
یہ لفظ سورۃ زمر کی اس آیت میں وارد ہوا ہے :
’’ وَاِنْ تَشْکُرُوْا یَرْضَہُ لَکُمْ ‘‘ (الزمر:۷)
یہاں عدم صلہ اس بات پر دال ہے کہ جوں ہی بندہ اللہ رب العزت کا شکر بجالاتا ہے تو اللہ رب العزت فی الفور اس پر راضی ہوجاتے ہیں۔
(٢) أَرْجِہْ
یہ لفظ یوں استعمال ہوا ہے:
’’ قَالُوٓا أَرْجِہْ وَ أَخَاہُ ‘‘ (الاعراف:۱۱۱)
یہ صلہ اس بات کی طرف اِشارہ کر رہا ہے کہ فرعون کے حواری سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کے معاملہ کو بہت ہلکا سمجھ رہے تھے کیونکہ ان کا گمان تھا کہ یہ جادوگر ہیں(نعوذباللہ)
(٣) فَاَلْقِہِ
یہ سورۃ نمل کی آیت
’’ اِذْہَبْ بِکِتٰبِیْ ہٰذَا فَاَلْقِہِ اِلَیْہِمْ ثُمَّ تَوَلَّ ‘‘ (سورۃ النمل:۲۸)
میں آیا ہے جو اس بات پر دال ہے کہ سیدنا سلیمان کے ہاں قوم سبا کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قواعد تجوید کے ذریعہ بعض احکام کا بھی استنباط ممکن ہے
اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
’’ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ أَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَسَبْعَۃٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ‘‘ (البقرہ:۱۹۶)
مذکورہ آیت میں ایام فی پر غنہ ہے جو اس بات کی طرف اِشارہ کر رہا ہے کہ ایام حج میں فوراً روزے رکھنا ضروری نہیں بلکہ دوران ایام معاملہ میں وسعت ہے جبکہ وسبعۃ إذا رجعتم کا عدم غنہ اس بات پر دال ہے کہ حاجی کو گھر پہنچتے ہی فوراً روزے رکھنے چاہئیں کسی قسم کی تاخیر نہیں کر سکتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سورۃ الکہف میں اَحکام تلاوت کا معانی پر اَثرات
’’زِدْنٰہُمْ ہُدًی‘‘ کی دال پر قلقلہ ہے جو اللہ رب العزت کی طرف اعطائے کثرت ہدایت پر دال ہے اسی طرح ’’وَرَبَطْنَا عَلیٰ قُلُوْبِھِمْ‘‘ (الکہف:۱۴) میں رَبَطْنَا کا قلقلہ ان کے تعلق کی گہرائی کی طرف اِشارہ کر رہا ہے۔
’’ اِذَا طَلَعَتْ تَّزٰوَرُ عَنْ کَھْفِھِمْ ‘‘ (الکہف:۱۷) میں طَلَعَتْ تَّزٰوَرُ کا ادغام اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ سورج طلوع ہی ان کے کہف کے دائیں طرف ہوتا تھا یہ نہیں کہ پہلے طلوع کا مقام کچھ اور ہوتا بعد ازاں کہف سے دائیں طرف پھرتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ سورۃ کہف میں اصحاف کہف کی تعداد بذریعہ قواعد تجوید بھی معین کرنا ممکن ہے۔’’ ثَلٰثَۃٌ رَّابِعُھُمْ کَلْبُھُمْ ‘‘ (الکہف:۲۲)یہاں ثلٰثۃ اور رابعہم کے درمیان عدم غنہ ہے جو اس بات پر دال ہے کہ اس پر تفکیر کی ضرورت نہیں ہے یہاں جلدی سے گزر جاؤ اس کے بعد ’’ خَمْسَۃٌ سَادِسُھُمْ ‘‘ (الکہف:۲۲)میں غنہ اس پر قدرے غور کی دعوت دے رہا ہے اور ’’ سَبْعَۃٌ وَّ ثَامِنُھُمْ ‘‘ (الکہف:۲۲) میں ادغام بھی ہے غنہ جو اس کی طرف اِشارہ کر رہا ہے کہ تعداد اس قابل ہے کہ اس پر اس مسئلہ میں بنیاد رکھی جائے۔
’’ فَإِنِ اتَّبَعْتَنِیْ فَلَا تَسْئَلْنِیْ عَنْ شَیْئٍ حَتّیٰٓ أُحْدِثَ لَکَ مِنْہُ ذِکْرًا ‘‘ (الکہف:۷۰)
یہاں کا اِظہار اس بات پر دال ہے کہ جس طرح یہاں عدم غنہ ہے اس طرح موسیٰ کو عدم سوال کی نصیحت ہے اورٍ حَتّیٰٓ اُحْدِثَ لَک کی مد میں اس بات کی طرف اِشارہ ہے کہ یہاں سے اگر علم کی دولت حاصل کرنی ہے تو ایک لمبا عرصہ ساتھ گزارنا پڑے گا۔
ہم نے اس سلسلہ میں ایک ادنیٰ سی کاوش کی ہے اللہ رب العزت قبول فرمائے اور اہل علم کو قرآن کے اس پہلو پر بھی سوچنے کی توفیق دے۔آمین

٭_____٭_____٭
 
شمولیت
اکتوبر 16، 2011
پیغامات
106
ری ایکشن اسکور
493
پوائنٹ
65
السلام علیکم !محترم ساجد صاحب مجھے یہ مضمون (پی ۔ڈی۔ایف ) فارمیٹ میں چاہیے ۔ممنون ہوں گا ۔ جزاک اللہ خیرا
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
السلام علیکم !محترم ساجد صاحب مجھے یہ مضمون (پی ۔ڈی۔ایف ) فارمیٹ میں چاہیے ۔ممنون ہوں گا ۔ جزاک اللہ خیرا
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
محمد موسی بھائی، علم القراءات کے موضوع پر یہ تمام آرٹیکلز جو ساجد بھائی شیئر کر رہے ہیں۔ آپ پی ڈی ایف کی صورت میں ہماری کتب لائبریری سے حاصل کر سکتے ہیں۔

ماہنامہ رشد: قراءات نمبر حصہ اول
ماہنامہ رشد: قراءات نمبر حصہ دوم
ماہنامہ رشد: قراءات نمبر حصہ سوم
 
Top