• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معانی وبلاغت پر قراء ات کے اثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات اور حروف و معانی کی تبدیلی اور مختلف دلالتوں میں اس کا اثر
بے شک قضیۃ تناوب (ایک حرف کا دوسرے کو نائب بنانا اور معنی کا معنی کو) ان قضیوں میں سے ہے جن میں لغت کے جدید و قدیم دونوں قسم کے علماء مشغول رہے ہیں۔
(١) اکثر بصری نحوی اس بات کے قائل ہیں کہ حرف میں اصل یہ ہے کہ وہ اس معنی پر دلالت کرتا ہے جس کے لیے وہ وضع کیا گیا ہوتا ہے اس کے علاوہ دوسرے معنی پردلالت نہیں کرتا۔ (الإنصاف في مسائل الخلاف: ۲؍۴۸۱)
(٢) کوفی علماء نحو: کہتے ہیں کہ حرف کو ایک معنی پرمنحصر کرنا صحیح نہیں (یا محال ہے) اور انہوں نے استدلال کیا ہے ان مثالوں سے جو قرآن کریم یا کلام عرب میں وارد ہوئی ہیں۔ (إلانصاف أیضاً، معاني القرآن للأخفش: ۱؍۵۱، الکامل: ۶؍۲۴۴)
یہ دونوں قول محل نظر ہیں۔ جس نے ایک حرف کوایک معنی پر منحصر کردیا ہے اس نے تأویل (جو اس مسئلہ میں وارد ہوئی ہیں) میں اسراف سے کام لیا ہے اور جس نے مطلق طور پر اجازت دے دی ہے اس نے لازمی طور پر اس مثال: ’سرت إلی فلان وھو یقصد معہ‘ کو جائز قرار دے دیا ہے۔ جب معاملہ ایسا ہے تو ایسی وجہ سے ابن جنی البصری نے ایک باب باقاعدہ اس عنوان سے قائم کیا ہے: ’باب في استعمال الحرف بعضہا مکان البعض‘، ’یہ باب ہے ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف لانے کا‘ اور اس میں یہ ذکر کیا کہ اس قاعدے یا اصول کو لوگوں نے عاریۃً بڑی باریک بینی سے قبول کیا ہے اور بطور شواہد باقاعدہ اس میں ایسی مثالیں ذکر کیں جن میں معانی حروف کے درمیان ایک دوسرے کے نائب بنتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پھر ابن جنی نے قرآن اور اشعار کے ان اَسالیب ( جن میں حروف اپنے موضوع لہ معنی کے علاوہ استعمال ہوئے ہیں) کا حل بھی بتایا ہے۔
فرماتے ہیں: حرف جو عنقریب تیرے سامنے آئے گا اس کو اس کے باب سے نکال کر دوسرے باب میں استعمال کیا گیا ہے۔ (الخصائص: ۲؍۴۶۵، الجني الداني: ۲۳۱)
اب ہم اس مثال کو پیش کرتے ہیں جس میں حروف و معانی کا تناسب ہے۔ اور ان میں سے ہر ایک پر ایک اعجازی وجہ مرتب ہوتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مثال
اللہ تعالیٰ کا فرمان: ’’ أَوَ أَمِنَ أَھْلُ الْقُرٰٓی أَنْ یَّاْتِیَھُمْ بَاْسُنَا ضُحًی وَّ ھُمْ یَلْعَبُوْنَ ‘‘ (الاعراف:۹۸)
’’یا انہیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا (مضبوط ہاتھ) عذاب یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا جب کہ وہ کھیل رہے ہوں گے؟‘‘
پس اللہ تعالیٰ کے اس قول ’’أو أمن‘‘ میں دو قراء تیں ہیں:
(١) ’’أَوْ أَمِنَ‘‘ واؤ کے سکون کے ساتھ یہ قرا ء ت مدنی قراء ابن کثیر مکی اور ابن عامر شامی کی ہے۔
(٢) ’’أَوَ أَمِنَ‘‘ واؤ کے فتحہ کے ساتھ یہ باقی قراء کی قراء ت ہے۔(کتاب السبعۃ: ۲۸۶، النشر:۲؍۲۷۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
درج بالا قراء توں کی توجیہہ
(١) جب سکون والی قراء ت کا اعتبار کیا جائے واؤ حرف عطف اس وقت اس کے معنی ہوگا تقسیم اور تنویع کا اور معنی اس وقت ہوگا ’’کیا بستی والے اس بات سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ان کے پاس رات کے وقت ہماری پکڑ آئے اس حال میں کہ وہ سوئے ہوئے ہوں یا وہ اطمینان میں ہیں اس بات سے کہ ان پر ہمارا عذاب دن میں اس وقت آئے جب یہ کھیل رہے ہوں۔ یعنی کیا وہ ان دونوں پکڑوں میں سے کسی ایک سے اطمینان پکڑبیٹھے ہیں۔
اب ہم ان کے انکار کی دونوں وجوہ کو بیان کرتے ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) اگر حرف عطف مانیں تو معنی ہوگاکہ کیا وہ بے خوف ہیں رات یا دن کے وقت عذاب کے آنے سے۔ (اتحاف فضلاء البشر والنشر: ۲؍۵۴۱، المحرر الوجیز: ۲؍۴۳)
یہ بھی جائز ہے کہ اس کا معنی اباحت و تخیر کا کیا جائے جیسے اللہ تعالیٰ کا قول : ’’ وَلاَ تُطِعْ مِنْہُمْ ئَاثِمًا أَوْ کَفُوْرًا ‘‘ (الانسان:۲۴)
’’یعنی نہ تو اطاعت کر اس قسم کے لوگوں کی (جن کی طرف اشارہ ہے)‘‘
معنی ہوگا ’’اگر تم ایک پکڑ سے اطمینان پکڑ لو گے تو دوسری سے بھی اطمینان مت پکڑو۔‘‘ (الحجۃ لأبي علی: ۴؍۵۴، الجامع الأحکام القرآن: ۷؍۲۵۳)
(٢) ’’أو‘‘ واؤ کے فتحہ کے ساتھ۔
یہ واؤ عاطفہ ہے اور اس پر ہمزہ استفہام انکاری داخل ہے جیساکہ وہ ’ثم‘ پر داخل ہوجاتا ہے۔ مثال اللہ تعالیٰ کا قول ہے: ’’ أَثُمَّ إِذَا مَا وَقَعَ ئَامَنْتُمْ بِہٖ ‘‘ (یونس:۵۱)
ثم حرف عطف پر ہمزہ جو ہم معنی استفہام انکاری ہے، داخل ہوا ہے۔
اسی کی مثل: ’’ أَوَ کُلَّمَا عٰھَدُوْا عَھْدًا نَّبَذَہٗ فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ ‘‘ (بقرہ:۱۰۰)
’’ أَوَ لَمْ یَھْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْأَرْضَ مِنْ۰ بَعْدِ أَھْلِھَا ‘‘ ( الاعراف:۱۰۰)
تو ان تمام مثالوں کے پیش نظر ’أو أمن اھل القریٰ…‘ کا معنی ہوگا کہ کیا وہ دونوں (لیل و نہار) کی پکڑ سے بے خوف ہوگئے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
درج بالا قراء توں کی توجیہہ
پہلی قراء ت میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہمزہ ہے جو کہ عاطف کا ایسا جزء ہے جواستفہام کا فائدہ دیتا ہے۔ اس وجہ سے یہ ’لیل و نہار‘ کے عذاب میں سے ایک کے امن سے انکار کرنے کا فائدہ دیتی ہے۔
دوسری قراء ت میں ہمزہ استفہام کا ہے جو کہ واؤ عاطفہ پر داخل ہوا ہے۔ اسی بنا پر یہ قراء ت عذاب کی دونوں ضربوں (لیل و نہار) کے برابر ہونے کا فائدہ دیتی ہے ۔
اسی بنا پر اس کی یہ دلالت اعجاز بیانی پر دلالت عزیمہ ہے جو کہ قراء ات متواترہ سے ثابت ہوتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) تنوع اسالیب بیان
مختلف اغراض و مقاصد کے لیے مختلف اسالیب بیان کا استعمال عربی زبان کا طرۂ امتیاز ہے۔یاد رہے کہ لغت عرب میں جملے کی اس اعتبار سے دو قسمیں ہوتی ہیں:
(١) جملہ خبریہ (٢) جملہ انشائیہ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) جملہ خبریہ
قرآنی استعمال سے قطع نظر جملہ خبریہ ایسے جملے کو کہتے ہیں جس میں سچ اور جھوٹ دونوں احتمال موجود ہوں۔
(٢) جملہ انشائیہ
جس کلام میں صدق و کذب دونوں احتمالات نہ ہوں اسے انشائیہ جملہ کہتے ہیں۔
لیکن جملے کی اس تقسیم کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مذکورہ دونوں اسالیب کلام ایک دوسرے کی جگہ پر استعمال نہیں کئے جاسکتے بلکہ یہ تو کلام عرب کی خصوصیت ہے اور کائنات کا بلیغ ترین کلام اس کا بہترین شاہد ہے۔ چنانچہ مختلف قراء ات میں مختلف اسالیب استعمال ہوتے ہیں،کیونکہ ہر اسلوب کاایک خاص مقام اور تاکید ہوتی ہے لہٰذا ایک ہی آیت میں مختلف قراء ات سے تنوع اسالیب پیداہوتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل مثالوں سے واضح ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ۃ اور تنوع اَسالیب بیان میں اس کا اَثر
اس میں درج ذیل چیزیں ہیں:
(١) اسلوب خبر و استفہام کے اعتبار سے قرا ء ات کی تبدیلی۔
(٢) اسلوب خبر و امر کے اعتبار سے قراء ات کی تبدیلی۔
(٣) اسلوب خبر و نہی کے اعتبار سے قراء ات کی تبدیلی۔
(٤) فعل کے مفرد، جمع کی طرف مسند ہونے کے اعتبار سے قراء ات کی تبدیلی۔
(٥) صیغۂ خطاب کی صیغۂ متکلم کے اعتبار سے قراء ت کی تبدیلی
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) خبر و استفہام کے اعتبار سے قراء ات کی تبدیلی
مثال نمبر۱
اللہ تعالیٰ کا قول :
’’وَ لَا تُؤْمِنُوٓا إِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِیْنَکُمْ قُلْ اِنَّ الْھُدٰی ھُدَی اللّٰہِ أَنْ یُّؤْتٰٓی أَحَدٌ مِّثْلَ مَآ أُوْتِیْتُمْ أَوْ یُحَآجُّوْکُمْ عِنْدَ رَبِّکُمْ قُلْ إِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَ اللّٰہُ وٰسِعٌ عَلِیْمٌ ‘‘(آل عمران:۷۳)
’’ اور سوائے تمہارے دین پرچلنے والوں کے اور کسی کا یقین نہ کرو۔ آپ کہہ دیجئے کہ بے شک ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے (اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اس بات کا بھی یقین نہ کرو) کہ کوئی اس جیسا دیا جائے جیسا تم دیئے گئے ہو، یا یہ کہ یہ تم سے تمہارے رب کے پاس جھگڑا کریں گے آپ کہہ دیجئے کہ فضل تو اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے اسے دے ، اللہ تعالیٰ وسعت والا اور جاننے والا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے اس قول: ’’ أن یؤتیٰ أحد ‘‘ میں دو قراء تیں ہیں:
(١) ’’أَنْ یُؤْتیٰ‘‘ ایک ہمزہ کے ساتھ یہ جمہور قراء کی قراء ت ہے۔
(٢) ’’ أَأَنْ یُؤْتیٰ‘‘ وہ ہمزہ کے ساتھ یہ ابن کثیر مکی کی قراء ت ہے۔ (السبعۃ لابن مجاھد: ۲۰۷، النشر : ۲؍۶۲۱)
 
Top