• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معانی وبلاغت پر قراء ات کے اثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’اعجاز بلاغی‘
ان دونوں قراء ات میں اگر صیغہ امر کااعتبار کریں تو پھر معنی ہوگا کہ ان مشرکین نے اس قول ’’ قٰلَ رَبِّیْ یَعْلَمُ الْقَوْلَ فِی السَّمَآئِ وَ الْأَرْضِ ‘‘ (الانبیاء:۴) کو چھپایا جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺکو مطلع کردیا اور حکم دیا کہ اے محمدﷺ آپ ان کو کہیں: ’’ قُلْ رَبِّیْ یَعْلَمُ الْقَوْلَ فِی السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ ‘‘ ’’کہ میرا رب تو آسمانوں وزمین کی باتوں کو جانتا ہے۔‘‘ (الجامع لاحکام القرآن: ۱۱؍۲۷۰، فتح القدیر للشوکانی: ۳؍۳۹۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
خلاصہ کلام
ان دونوں قراء توں کو نبیﷺنے اور آپ کے صحابہ کرام نے پڑھا لہٰذا یہ دونوں بمنزلہ دو آیتوں کے ہیں۔
فائدہ: نبیﷺ کو حکم دیا گیا اور آپﷺ نے ’قال کما أمر‘، ’کہا جس طرح حکم دیا گیا۔‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مثال نمبر ۲
اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ قٰلَ رَبِّ احْکُمْ بِالْحَقِّ ‘‘ (الانبیاء:۱۱۲)
اس میں دو قراء تیں ہیں:
الف۔۔۔۔’’قٰلَ رَبِّ‘‘ (صیغہ فعل ماضی کے ساتھ)
یہ قراء ت حفص عن عاصم ہے۔
ب۔۔۔۔’’قُلْ رَبِّ‘‘ (صیغہ امر حاضر کے ساتھ)
یہ قراء ت حفص کے علاوہ باقی قراء کی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
درج بالا قراء توں کی توجیہہ
صیغہ فعل ماضی کے ساتھ ’قال‘ پڑھنے والوں نے اس قول کو أرسلنک کی ضمیر کا مسند بنایا ہے جس کا ذکر گذشتہ آیتوں میں گذر چکا ہے۔
اِرشاد ربانی ہے:
’’ وَ مَآ أَرْسَلْنٰکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ‘‘ (الانبیاء :۱۰۷)
اگر اس قول کا اعتبار کیا جائے تو پھر یہ خبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگی جس کو اس کے رسول نے اپنی دعا میں کہا: ’رب احکم بالحق‘ (معاني القراء ات: ۲؍۱۷۳)
دوسری قراء ۃ (صیغہ امر حاضر) کے ساتھ۔
اس میں یہ حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے نبی کریمﷺ کوہوگا کہ وہ کہہ دیں ’’ربي أحکم بالحق‘‘ ’’اے اللہ! میرے اور ان جھٹلانے والوں کے درمیان فیصلہ کردے اوران کے خلاف میری مدد فرما۔‘‘ (معاني القرآن وإعرابہ للزجاج: ۳؍۸، الجامع لأحکام القرآن: ۱۱؍۳۵۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’اعجاز بلاغی‘
ہر قراء ت میں ایک ایسی دلالت ہوتی ہے جو بلاغت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس درجہ بالا مثال میں بھی جمہور کی قراء ۃ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نبیﷺ کو حکم دیا گیا کہ وہ کہیں ’’رب ربي أحکم بالحق‘‘ اور حفص کی قراء ۃ میں ’قال‘ امر کو فعل ماضی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) فعل کے مفردو جمع کی طرف مسند ہونے کے اعتبار سے قرا ء ات کی تبدیلی:
مثال نمبر۱
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ إِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ھَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ أَنْ یُنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآئِ۱ قَالَ اتَّقُوْا اﷲ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ‘‘ (المائدہ:۱۱۲)
’’ ھَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ ‘‘ میں دو متواتر قراء ات ہیں۔
الف۔۔۔۔’’ ھَلْ یَسْتَطِیْعُ رَ بُّکَ ‘‘ (صیغۂ غائب کے ساتھ)
ب۔۔۔۔’’ ھَل تَّسْتَطِیْعُ رَ بَّکَ ‘‘ (صیغۂ خطاب کے ساتھ)
پہلی قراء ت کے مطابق معنی یہ بنتا ہے کہ حواریوں نے عیسیٰ علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا آپ کا رب آسمان سے ہمارے لیے دستر خوان نازل کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت پر کامل یقین رکھتے تھے لیکن انہوں نے یہ مطالبہ اس لیے کیا تاکہ ایمان مزید پختہ ہوجائے۔
جبکہ دوسری قراء ت میں اللہ تعالیٰ کی زیادہ تعظیم پائی جاتی ہے۔ کیونکہ اس میں استطاعت کی نسبت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف کی گئی ہے اور حواریوں نے اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت کے پیش نظر ایسا کیا۔ حالانکہ ہمارے ہاں پہلی قراء ت زیادہ معروف ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مثال نمبر ۲
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ ‘‘ (الانشقاق:۱۹)
اس میں دو قراء تیں ہیں۔
الف۔۔۔۔’’ لَتَرْکَبُنَّ ‘‘ (باء کے ضمہ کے ساتھ)
یہ قراء ت بصری،مدنی ، قراء اور ابن عامر ، عاصم کی ہے۔
ب۔۔۔۔’’ لَتَرْکَبَنَّ ‘‘ (باء کے فتحہ کے ساتھ)
یہ قراء ۃ ابن کثیر مکی، کسائی، حمزہ اور خلف العاشر کی ہے۔ (المبسوط في القراء ات العشر: ۴۰۰، النشر:۲؍۳۹۹، اتحاف: ۲؍۶۰۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
درج بالا قراء توں کی توجیہہ
پہلی قراء ۃ میں ضمہ لانے کے ساتھ جنس کو متوجہ کیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اس قول ’’ ٰٓیأَیُّہَا الْاِنْسَانُ إِنَّکَ کَادِحٌ‘‘ (الانشقاق:۶) میں موجود ’یاء‘ حرف ندا کا تعلق جنس کے ساتھ ہے۔اس لفظ کا اصل ’’لترکبون‘‘ہے۔ پس دو ساکن اکٹھے ہوئے واؤ کو حذف کردیا باء کو ضمہ دیا، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ یہاں واؤ موجود تھی۔ اور یہ ’لترکبن‘ ہو گیا۔ معنی اس وقت ہو گا ’’لترکبن أیھا الناس طبقاعن طبق‘‘ یعنی ’حالا بعد حال‘ اے لوگو! تمہیں ضرور درجہ بدرجہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف گزرتے چلے جانا ہے۔‘‘
’عن‘ یہاں بمعنی ’بعد‘ ہے۔یعنی تم ایک حالت کے بعد دوسری حالت میں ہوگے۔ اور لفظ عن ’مجاوزہ‘ ’گزرنا‘ کے معنی میں استعمال ہوتاہے۔ یعنی ’لترکبن طبقاً مجاوز من لطبق‘ البتہ تم ضرور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف گزرنے والے ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری قراء ت : ( باء کے فتحہ کے ساتھ)
یہ اسلوب خطابی کے قبیل سے ہے۔ اس میں خطاب کن لوگوں کو ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔
جمہور: اس سے مراد نبیﷺ کی ذات گرامی ہے اور وہ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت، جو کہ مجاہد رحمہ اللہ ان سے نقل کرتے ہیں، میں فرماتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’ لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ ‘‘ ای ’حالاً‘ کہ طبق بمعنی حالت کے ہے اور اس سے مراد نبی1 کی ذات اقدس یعنی آپﷺکی زندگی مطہرہ ہے۔
(٢) دوسرا معنی یہ بھی بیان کیا ہے کہ اے نبیﷺتم کفار کے ساتھ مقابلہ میں ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف درجہ بدرجہ گذرتے چلے جاؤ گے۔‘‘
(٣) اور ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے اللہ کا اپنے نبیﷺسے فتح و نصرت کا وعدہ ہے۔ معنی اس وقت ہوگا ’لترکبن من فتح إلی فتح‘ البتہ تم ایک فتح کے بعد دوسری فتح کی طرف بڑھو گے ’ولتصیرن من نصر إلی نصر‘ اورتم ایک مدد کے بعد دوسری مددکئے جاؤ گے‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’لترکبن سماء بعد سماء‘ ’’تم درجہ بدرجہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی طرف جاؤ گے۔‘‘
اس میں واقعہ معراج کی طرف اشارہ ہے۔ اور بھی بے شمار معانی علماء، مفسرین نے بیان کئے ہیں جن کو ہم اختصارکے پیش نظر چھوڑ رہے ہیں۔
آخر میں امام فخر الدین الرازی رحمہ اللہ (ت:۶۰۶ھ) کا قول بیان کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں :
’’کہ دوسری قراء ت میں آسمان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس وقت معنی ہوگا ’لترکبن السماء یوم القیامۃ حالۃ بعد حالۃ‘ کہ قیامت کے دن آسمان درجہ بدرجہ ایک حالت سے دوسری حالت میں بدلتا چلا جائے گا۔‘‘ پھر اس کے بعد امام رازی رحمہ اللہ نے اس کی علت یوں بیان کی: ’’یہ اس وجہ سے ہے، کیونکہ پہلے آسمان میں شغاف پیداہوں گے۔‘‘
اِرشاد ربانی ہے: ’’ إِذَا السَّمَآئُ انْشَقَّتْ ‘‘ (الانشقاق:۱) ’پھر وہ پھٹ پڑے گا۔‘
اِرشاد ربانی ہے: ’’ إِذَا السَّمَآئُ انْفَطَرَتْ ‘‘ (الانفطار:۱) ’’پھروہ لال چمڑے کی طرح سرخ ہوجائے گا۔
ارشاد ربانی ہے: ’’ وَرْدَۃً کَالدِّھَانِ ‘‘ (الرحمن:۳۷) ’’یہ ہے آسمان کا درجہ بدرجہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف جانا‘‘ اور یہ وجہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ (التفسیر الکبیر: ۳۱؍۳۰۵)
نوٹ: جب آسمان مراد لیے جائیں تو اس وقت ’لترکبن‘ میں’تاء‘ تانیث کی ہوگی۔
 
Top