• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معجزات کے متعلق غلط اور موضوع روایتوں کے پیدا ہونے کے اسباب

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۱۵۔ اسی قسم کی ایک اور روایت حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کی جاتی ہے کہ میرا چھوٹا بھائی عبد اللہ جب پیدا ہوا تو اس کے چہرے پر سورج کی سی روشنی تھی اور والدہ نے ایک دفعہ خواب دیکھا… بنو مخزوم کی ایک (عورت) کاہنہ نے یہ خواب سن کر پیشنگوئی کی کہ لڑکے کی پشت سے ایک ایسا بچہ ہو گا جو تمام دنیا پر حکومت کرے گا۔ جب آمنہ کے شکم سے بچہ پیدا ہوا تو میں نے ان سے پوچھا کہ ولادت کے اثناء میں تم کو کیا کیا نظر آیا، انہوں نے کہا کہ جب مجھے درد ہونے لگا تو میں نے بڑے زور کی آواز سنی جو انسانوں کی آواز کی طرح نہ تھی اور سبز و ریشم کا پھریرا یاقوت کے جھنڈے میں لگا ہوا آسمان و زمین کے بیچ میں گڑا نظر آیا اور میں نے دیکھا کہ بچہ کے سر سے روشنی کی کرنیں نکل نکل کر آسمان تک جاتی ہیں، شام کے تمام محل آگ کے شعلے معلوم ہوتے تھے اور اپنے پاس مرغابیوں کا ایک جھنڈا دکھائی دیا۔ جس نے بچہ کو سجدہ کیا پھر اپنے پروں کو کھول دیا اور سعیرہ اسدیہ کو دیکھا کہ وہ کہتی ہوئی گزری کہ تیرے اس بچے نے بتوں اور کاہنوں کو بڑا صدمہ پہنچایا ہائے سعیرہ ہلاک ہو گئی۔ پھر ایک بلند بالا سپید رنگ جوان نظر آیا جس نے بچہ کو میرے ہاتھ سے لے لیا اور اس کے منہ میں اپنا لعاب دہن لگایا، اس کے ہاتھ میں سونے کا ایک طشت تھا۔ بچہ کے پیٹ کو پھاڑا، پھر اس کے دل کو نکالا، اس میں سے ایک سیاہ داغ نکال کر پھینک دیا، پھر سبز حریر کی ایک تھیلی کھولی جس میں سپید کی طرح چیز تھی اس کو سینہ میں بھرا پھر سفید حریر کی ایک تھیلی کھولی اس میں سے ایک انگوٹھی نکال کر مونڈھے پر انڈے کے برابر مہر کی اور اس کو باریک کرتا پہنا دیا۔ اے عباس یہ میں نے دیکھا۔ اس روایت کے متعلق ہمیں کچھ زیادہ کہنا نہیں ہے کہ ناقلین نے اس کے ضعف کو خود تسلیم کیا ہے اور حافظ سیوطی نے لکھا ہے کہ اس روایت اور اس سے پہلے کی دو روایتوں (۱۳، ۱۴) میں میں نے اپنی اس کتاب و (خصائص کبری) میں ان تینوں (روایتوں) سے زیادہ سخت منکر کوئی روایت نقل نہیں کی اور میرا دل ان کے لکھنے کو نہیں چاہ رہا تھا لیکن میں نے محض ابونعیم کی تقلید میں لکھ دیا ہے۔ جن روایتوں کو حافظ سیوطی لکھنے کے قابل نہ سمجھیں تم ان کے ضعف کے درجہ کو سمجھ سکتے ہو، سیوطی اس روایت کا ماخذ ابو نعیم کو بتاتے ہیں مگر یہ روایت دلائل ابو نعیم کے مطبوعہ نسخہ میں نہیں ملی یہ بھی یاد رہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دو ہی سال بڑے تھے، جب آمنہ نے وفات پائی تو وہ سات آٹھ سال کے بچہ تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۱۶۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آمنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا قصہ بیان کر رہی تھیں کہ میں حیرت میں تھی ہی کہ تین آدمی دکھائی دئیے جن کے چہرے سورج کی طرح چمک رہے تھے، ایک کے ہاتھ میں چاندی کا آفتابہ تھا جس سے مشک کی سی خوشبو آ رہی تھی، دوسرے کے ہاتھ میں سبز زمرد کا طشت تھا، جس کے چار گوشے تھے اور ہر گوشہ میں سپید موتی رکھا ہوا تھا اور ایک آواز آئی، اے حبیب اللہ! یہ پوری دنیا پورب پچھم خشکی و تری سب مجسم ہو کر آئی ہے، اس کے جس گوشے کو چاہئے مٹھی میں لے لیجئے۔ آمنہ کہتی ہے کہ میں نے گھوم کر دیکھا کہ بچہ کہاں ہاتھ رکھتا ہے میں نے دیکھا کہ اس نے بیچ میں ہاتھ رکھا تو کہنے والے کی آواز سنی کہ محمد نے کعبہ کے خدا کی قسم کعبہ پر قبضہ کیا ہے ہاں یہ کعبہ اس کا قبلہ اور اس کا مسکن بنے گا، تیسرے کے ہاتھ میں سپید حریر لپٹا ہوا تھا اس نے اس کو کھولا تو اس میں ایک انگوٹھی نکلی جس کو دیکھ کر دیکھنے والوں کی آنکھیں حیرت کرتی تھیں پھر وہ میرے پاس آیا تو طشت والے اس انگوٹھی کو لے کر اس آفتابہ سے سات بار اس کو دھویا اور تھوڑی دیر تک اپنے بازئوں میں لپٹائے رکھا۔ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ رضوان جنت تھا، پھر بچہ کے کان میں کچھ کہا جس کو آمنہ کہتی ہے کہ میں نہ سمجھ سکی پھر اس نے کہا اے محمد بشارت ہو کہ کسی نبی کو ایسا علم عطا نہیں کیا گیا جو تم کو نہیں بتایا گیا تم سب پیغمبروں سے زیادہ شجاع بنائے گئے، تم کو فتح و نصرت کی کنجی دی گئی اور رعب داب بخشا گیا، جو تمہارا نام سنے گا اس نے تم کو کبھی دیکھا بھی نہ ہو تو وہ کانپ جائے گا۔ اے خدا کے خلیفہ۔

اس روایت کا ماخذ یہ ہے کہ یحییٰ بن عائذ المتوفی نے اپنی کتاب میلاد میں اس کو ذکر کیا ہے ابن دحیہ محدث نے بڑی جرات کر کے اس کو غریب کہا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس کو غریب کہنا بھی اس کی توثیق ہے یہ تمام تر بے اصل اور بے بنیاد ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۱۷۔ روایت :آمنہ کہتی ہیں کہ جب ولادت ہوئی تو ایک بہت بڑا ابر (بادل) کا ٹکڑا نظر آیا جس میں گھوڑے کے ہنہنانے اور پروں کے پھنپھنانے اور لوگوں کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ وہ ابر کا ٹکڑا بچہ کے اوپر چھا گیا اور بچہ میری نگاہوں سے اوجھل ہو گیا البتہ منادی کی آواز سنائی دی کہ محمد کو ملکوں ملکوں پھرائو اور سمندروں کی تہوں میں لے جائو کہ تمام دنیا ان کے نام و نشان کو پہنچان لے اور جن و انس چرند پرند ملائکہ بلکہ ہر ذی روح کے سامنے ان کو لے جائو۔ ان کو آدم کا خلق ،شیث کی معرفت ،نوح کی شجاعت، ابراہیم کی دوستی، اسماعیل کی زبان، اسحاق کی رضا، دائود کی آواز، دانیال کی محبت، الیاس کا وقار ، یحییٰ کی پاکدامنی اور عیسیٰ علیہ السلام کا زہد عطا کرو اور تمام پیغمبروں کے اخلاق میں ان کو غوطہ دو، آمنہ کہتی ہے پھر یہ منظر ہٹ گیا تو میں نے دیکھا کہ آپ سبز حریر میں لپٹے ہیں اور اس کے اندر سے پانی ٹپک رہا ہے، آواز آئی ہاں محمد نے تمام دنیا پر قبضہ کر لیا اور کوئی مخلوق ایسی نہ رہی جو ان کے حلقہ اطاعت میں نہ آ گئی ہو کہتی ہیں کہ پھر میں نے دیکھا تو نظر آیا کہ آپ کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہے اور مشک خالص کی سی خوشبو آپ سے نکل رہی ہے دفعۃً تین آدمی نظر آئے ایک کے ہاتھ میں چاندی کا آفتابہ ہے دوسرے کے ہاتھ میں سبز زمرد کا طشت ہے اور تیسرے کے ہاتھ میں سپید ریشم ہے، اس نے سپید ریشم کو کھول کر اس میں سے انگوٹھی جس کو دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوتی تھیں، نکالی پہلے اس نے انگوٹھی کو سات دفعہ اس آفتابہ کے پانی سے دھویا پھر مونڈھے پر مہر کر کے بچہ کو تھوڑی دیر کیلئے اپنے بازوئوں میں لپیٹ لیا اور پھر مجھے واپس کر دیا۔

اس حکایت کی بنیاد یہ ہے کہ قسطلانی نے مواھب لدنیہ میں السعادۃ والبشری نامی ایک میلاد کی کتاب سے اس کو نقل کیا ہے اور السعادۃ والبشری کا مصنف کہتا ہے کہ اس نے خطیب سے اس کو لیا ہے۔ روایات کے لحاظ سے خطیب کی تاریخ کا جو درجہ ہے وہ کس کو معلوم نہیں۔ قسطلانی نے اس روایت کو ابو نعیم کی طرف بھی منسوب کیا ہے، قسطلانی نے خود تصریح کر دی ہے کہ اس میں سخت نکارت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۱۸۔ روایت :آمنہ کہتی ہے کہ جب آپ پیدا ہوئے تو ایک روشنی چمکی جس سے تمام مشرق و مغرب روشن ہو گیا اور آپ دونوں ہاتھوں کو ٹیک کر زمین پر گر پڑے (شاید مقصود یہ کہنا ہے کہ آپ سجدہ میں گئے) پھر مٹھی سے مٹی اٹھائی (اہل میلاد اس سے یہ مطلب لیتے ہیں کہ آپ نے روئے زمین پر قبضہ کر لیا) اور آسمان کی طرف سر اٹھایا (شاید یہ دکھانے کیلئے کہ میں جس کو سجدہ کر رہا ہوں وہ عرش پر ہے ۔ محمدی) یہ حکایت ابن سعد میں متعدد طریقوں سے مذکور ہے مگر ان میں کوئی قوی نہیں، اسی کے قریب ابو نعیم اور طبرانی میں روایتیں ہیں ان کا بھی یہی حال ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پیدائش نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت یہودی کا خبردار کرنا

۱۹۔ روایت :جس شب کو آپ پیدا ہوئے قریش کے بڑے بڑے سردار جلسہ جمائے بیٹھے تھے، ایک یہودی نے جو مکہ میں سوداگری کرتا تھا اس نے آ کر دریافت کیا کہ آج تمہارے یہاں کسی کے گھر بچہ پیدا ہوا ہے؟ سب نے لا علمی ظاہر کی۔ اس نے کہا اللہ اکبر تم کو معلوم نہیں تو خیر، میں جو کہتا ہوں اس کو سن لو۔ آج شب کو اس پچھلی امت کا نبی پیدا ہو گیا۔ اس کے دونوں مونڈھوں کے بیچ میں ایک نشان ہے، اس میں گھوڑے کے بال کی طرح کچھ اوپر تلے بال ہیں۔ وہ دو دن تک دودھ نہیں پئے گا کیونکہ ایک جن نے اس کے منہ میں انگلی ڈال دی ہے جس سے وہ دودھ نہیں پی سکتا۔ جب جلسہ چھٹ گیا اور لوگ گھروں کو لوٹے تو معلوم ہوا کہ عبد اللہ بن عبد المطلب کے گھر لڑکا پیدا ہوا ہے، لوگ اس یہودی کو آمنہ کے گھر لائے، اس نے بچہ کی پیٹھ پر تل دیکھا تو غش کھا کر گر پڑا، جب ہوش آیا، لوگوں نے پوچھا: اس نے کہا خدا کی قسم اسرائیل کے گھرانے سے نبوت رخصت ہو گئی ہے، اے قریش! تم اس کی پیدائش سے خوش ہو، ہوشیار خدا کی قسم یہ تو تم پر ایک دن ایسا حملہ کرے گا جس کی خبر چار دانگ عالم میں پھیلے گی۔

یہ روایت مستدرک حاکم میں ہے اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے مگر اہل علم جانتے ہیں کہ حاکم کا کسی روایت کا صحیح کہنا ہمیشہ تنقید کا محتاج ہوتا ہے چنانچہ حافظ ذھبی نے تلخیص مستدرک (ج:۲، ص:۶۰۲) میں حاکم کی تصحیح کی تردید کی ہے۔ اس کا سلسلہ روایت یہ ہے کہ یعقوب بن سفیان فسوی، ابو غسان محمد بن یحییٰ کنانی سے اور یہ اپنے باپ یحییٰ بن علی کنانی سے اور وہ محمد بن اسحاق (مصنف سیرت) سے روایت کرتے ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ابن اسحاق نے خود اپنی سیرت میں یہ روایت نہیں کی ہے، ابو غسان محمد بن یحییٰ کو بعض محدثین نے اچھا کہا ہے مگر محدث سلیمانی نے اس کو منکر الحدیث (ایسی باتیں بیان کرنے والا جن کی تصدیق دیگر معتبر بیانات سے نہیں ہوتی) کیا ہے۔ ابن حزم نے اس کو مجہول کہا ہے۔ بہرحال ان تک غنیمت ہے مگر ان کے باپ یحییٰ بن علی کا کہیں کوئی ذکر نہیں کہ یہ کون تھے اور کب تھے۔ اس قسم کی ایک روایت عیص راھب کے متعلق ابو جعفر بن ابی شیبہ سے ہے اور ابو نعیم نے دلائل میں اور ابن عساکر نے تاریخ میں اس کو ذکر کیا ہے لیکن زرقانی نے لکھ دیا ہے کہ ابو جعفر بن ابی شیبہ نا معتبر ہے۔ (میں عبد الغفار محمدی کہتا ہوں کہ جس نبی کی پیدائش اتنی کڑی نگرانی میں ہوئی ہو اور ہر دم فرشتوں کی نگرانی میں ہو اور جس کی پیدائش کے وقت جنات و شیاطین (میلادیوں کے بقول) بند کردئیے گئے ہوں، ایسی حالت میں اور ایسے پہرے میں ایک جن کا آپ کے منہ مبارک میں انگلی ڈال کر منہ کو دودھ پینے سے بند کر دینا دل تو نہیں مان سکتا جبکہ حدیث صحیح مشکوٰۃ ص:۱۸میں ہے کہ ہر آدمی کے پاس ایک جن ہوتا ہے (جو شرارت کرتا ہے) میرے پاس بھی ایک جن ہے مگر میں اس کی شرارت سے محفوظ ہوں، اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ کے ساتھ جن شرارت نہیں کر سکتا لہٰذا یہ روایت حاکم والی صحیح حدیث کے خلاف ہے جو ناقابل قبول ہے۔ محمدی)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاگہوارے میں چاند سے کلام کرنا

۲۰۔ روایت حضرت عباس رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ مجھ کو جس نشانی نے آپ کے مذہب میں داخل ہونے کا خیال دلایا وہ یہ ہے کہ جب آپ گہوارہ میں تھے تو میں نے دیکھا کہ آپ چاند سے اور چاند آپ سے باتیں کرتا تھا اور انگلی سے آپ اس کو جدھر اشارہ کرتے تھے ادھر جھک جاتا تھا، فرمایا ہاں! میں اس سے اور وہ مجھ سے باتیں کرتا تھا اور رونے سے بہلاتا تھا اور عرش کے بیچ جا کر جب وہ تسبیح کرتا تھا تو میں اس کی آواز سنتاتھا۔

یہ حکایت دلائل بیہقی، کتاب الماتین صابونی، تاریخ خطیب اور تاریخ ابن عساکر میں ہے مگر خود بیہقی نے تصریح کر دی ہے کہ یہ صرف احمد بن ابراہیم جبلی کی روایت ہے اور وہ مجہول ہے۔ صابونی نے روایت لکھ کر کہا ہے کہ یہ سند اور متن دونوں لحاظ سے غریب ہے۔ علاوہ ازیں حضرت عباس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شاید ایک دو سال بڑے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شیر خوارگی کے عالم میں وہ خود شیر خوار ہوں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اگر یہ نشانی دیکھ کر حضرت عباس کو اسلام میں دخل ہونے کا خیال آیا تو سب سے پہلے اسلام لاتے

میں عبد الغفار محمدی کہتا ہوں کہ اگر یہ روایت سچ ہے تو اس سے تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ جب ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اعلان نبوت فرماتے اس اعلان نبوت کے فوراً بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ مسلمان ہو جاتے، آپ کا کلمہ پڑھ لیتے کیونکہ آپ کی حقانیت کی نشانی اور دلیل تو پہلے دیکھ ہی چکے تھے اور فوراً آپ کے مذہب میں داخل ہو جاتے جیسا کہ خود ان کے الفاظ موجود ہیں۔ حالانکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسلام فوراً قبول نہیں کیا اور نہ فوراً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مذہب میں داخل ہوئے بلکہ بہت سے لوگوں نے اس سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا ، سیدنا ابوبکر، خدیجہ ، زید، علی رضی اللہ عنہم تو وہ ہیں جو سب سے پہلے آپ پر ایمان لائے، ان کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دعوت پر حضرت عثمان، طلحہ، زبیر، عبد الرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم ایمان لائے۔ ان کے بعد حضرت ابوعبیدہ ، سعید، ارقم، ابن مسعود، بلال وغیرہم رضوان اللہ علیہم اسلام لائے (اوجز السیر ص:۵۸۶مصنف علامہ مفتی عمیم الاحسان المجددی البرکتی طبع مع المشکوٰۃ ) پھر حضرت حمزہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے لیکن پھر بھی ابھی تک حضرت عباس رضی اللہ عنہ اسلام نہیں لائے تھے لہٰذا معلوم ہوا کہ یہ نشانی والی بات صحیح نہیں ہے۔ محمدی) (یہاں تک علامہ سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی کلام ختم ہوگئی)۔

سعیدی صاحب نے جن روایتوں کو نواب صاحب کی کتاب شمامہ عنبریہ اور اشرف علی تھانوی کی کتاب نشر الطیب سے نقل کیا ہے ان کی حقیقت محققانہ انداز میں جناب سید محمد سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی اس مفصل تحقیق سے واضح ہو گئی ہے کہ یہ روایات موضوع ضعیف، منکر ہیں جو استدلال کے قابل نہیں۔

ہم میلاد کیوں نہیں مناتے؟
 
Top