• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معذوروں کے حقوق اور معاشرتی بیگاڑ!

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
معذورین کے ساتھ اسلام کا رویہ اور عصر حاضر!


معذوری کا لفظ اردو زبان میں دماغی اور جسمانی عارضِ کو کہتے ہیں اور جس کو یہ عارضہ لاحق ہو وہ معذور کہلاتا ہے۔مگر عربی زبان ہیں یہ عام ہے اور ہر اس شخص کو شامل ہے جو معاشرے میں اپنی ذمہ داریاں ادا ناکر سکتا ہواور عربی میں ایسے شخص کو (عاجزمن العمل)جو کام کرنے میں عاجزاور کمزور ہواسی طرح(الّذی لہ عذر)یعنی جو صیح طور پر کام سر انجام نہ دے سکتا ہو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق معذور وہ شخص ہےجس کو طویل المیعاد جسمانی ‘ذہنی کمزوری ہو اور وہ معاشرے میں کردار ادا کرنے میں رکاوٹ کا سبب ہو۔

(معذوری کی تعریف)وہ پیدائشی یا حادثاتی مرض جو صحت کے بنیادی اصولوں سے محرومی کا سبب بنے۔

٭قارئین معذوری کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہےکہ جتنا خود انسان اور معذوری کی کئی ایک اقسام ہیں جن میں سے (ما لی ‘جسمانی ‘علمی )بعض عارضی طور پر ہوتی ہیں جیسے( بے ہوشی وغیرہ)اور بعض ہمیشہ کے لیےانسان کو لاحق ہوتی ہیں جیسے( اندھا پن‘پاگل پن وغیرہ)اسی طرح بعض پیدائشی ہوتی ہیں جیسے(لنگڑا پن‘بہرہ پن وغیرہ)بعض حادثاتی طور پرانسان کو لاحق ہو جاتی ہیں جیسے(ایکسیڈینٹ یا مشین وغیرہ میں آ کرہاتھ یا بازو وغیرہ کا کٹ جانا)اسی طرح بعض اجتمائی طور پر لاحق ہو جاتی ہیں جیسے(قہط سالی‘زلزلہ‘سیلاب وغیرہ)اور بعض انفرادی ہوتی ہیں جیسے(شوگر‘فالج‘لقوہ‘مرگی)جب سے انسان پیدا ہوا ہے اسی دن سے پیدائشی عارضے انسان کی زندگی میں لاحق ہوتے رہےاسی وجہ سے ہر دور میں معذورین کے ساتھ مختلف ادوار میں بہیمانہ سلوک کیا جاتا رہااسلام سے قبل معذورین کی حثیت جانوروں سے کم نہ سمجھی جاتی تھی ۔اور اسلام آنے کے بعد بھی جاہلیت اور اسلامی تعلیمات سے عدم واقفیت کی بنیاد بر معذورین کو معاشرے بوجھ تصور کیا جانےاور ان کو حصول رزق کا موثر ترین ذریعہ سمجھا جانے لگا۔جس کے سبب گداگری کا ٰطوق ان بیچاروں کے گلے میں ڈال دیا گیا اور در در کے دھکے ان بیچاروں کو کھانا پڑھتے۔ دور جاہلیت میں ارسطو اور افلاطون وغیرہ نے معذورین کے قتل کو اس لیے واجب قرار دیا کےیہملکی خزانے پر بوجھ ہیں‘ہندو (ورینو قبیلہ)معذور سے الگ ہوہی نہیں ہوتا تھا بلکہ چھوڑ کر چلا جاتا تھایا قتل کر دیتا تھا‘افریقی قبیلہ(کاجان)کہتا تھا کہ بیمار سے شریر روحیں چمٹ جاتی ہیں اس لیے اس سے الگ رہنا چاہیے۔اسٹریلوی(دیدی قبیلہ)کہتا تھا کہ مسخ چہرے والے کو قتل کر دینا چاہیے۔اسلام نے آ کر ان کو تحفظ دیا اور ان کو ان کے حقوق دیے‘اسلام نے مالی معذور سے حج اور زکوٰۃ وغیرہ کو ساقط کر دیا‘جسمانی معذور سے نماز ‘روزہ وغیرہ کو ساقط کر دیا(حضرت عائشہ رضی اللہ عنھاکی حدیث سے معلوم ہوا کہ )تین قسم کے لوگوں سے نماز ساقط ہے ان میں سے مجنون بھی ہے‘علمی معذورین میں سے جاہل اور عدم واقفیت کی بنیاد پر تفصیلی احکام الہی کانے کا مطالبہ نہیں کرتا سوائےبنیادی چیزو کے۔اس کےعلاوہ ان کو جائیداد میں سے حصہ دیا اور نکاح وطلاق‘حصول علم کاروبار‘غرض کے ہر ممکن حد تک معذور کی حوصلہ افضائی فرمائی اور اس کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دی .ذیل میں چند ایک مثالیں اسلامی تعلیمات کے طور پر پیش خدمت ہیں جن سے اسلام کا معذوروں کے بارے میں نظریہ اور موقف سمجھنے میں آسانی ہو گی ۔

٭حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی حدیث جس سے معلوم ہوا کہ پاگل ‘سویا ہوا‘نابالغ بچے سے نماز ساقط ہے-اس حدیث میں پاگل پن کو معذوری کہا گیا ہے اس طرح دوسرے بھی ۔

٭وہ عورت جس کو غشی و مرگی کے دورے پڑتے تھےتو حضور ﷺنے اسے فرمایا اگر صبر کرے گی تو میں تجھے جنت کی بشارت دیتا ہوتو اس نے کہا یا رسول اللہﷺدعا فرمادیں جب مجھے بے ہوشی ہو تو میرا ستر نہ کھل پائےتو حضور ﷺنے دعا فرما دی۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیماری پر صبر کرنے کا بڑا اجر ہے‘یہ بھی معلوم ہوا کہ بیماری گناہوں کا کفارہ ہے‘یہ بھی معلوم ہوا کہ بیماری سے شفاء کے لیے نیک آدمی سے دعا کروا لینی چاہیے‘یہ بھی معلوم ہوا کہ بیماری پربے زبان پر حرف شکایت نہ لایا جائے‘یہ بھی معلوم ہوا کہ ستروحجاب کا خیال رکھنا حیاء کی علامت ہے۔

٭احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہےکہ حضور ﷺکی تعلیمات میں سے اور اخلاقیات میں سے اس بات سے سختی سے منع کیاٰگیا ہے کہ حضورﷺنے چہرے پرمارنے سے سختی سے منع کیا ہےکیونکہ یہ معذوری کا سبب بن سکتا ہے۔اسی طرح کنکریوں سے کھیلنے سے حضور ﷺ نے سختی سے منع کیا ہےکیونکہ یہ بھی معذوری کا سبب بن سکتا ہے کسی کی آنکھ پھوڑ سکتا ہے‘اس طرح سرعام اسلحہ لہرانے سے منع کیا گیااور تلواروغیرہ کو عام حالات میں میان میں رکھنے کی تر غیب دی گئی کہ کہی کسی کو لگکر زخم نہ دیدے۔

٭حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے معذور وں کا بیت المال سے وظیفہ مقرر کیااور ان کے لیے قوانین اور محکمے بنائے۔

٭ولید بن عبد الملک نےیتیموںکی کفالت کی معذوروں کی خدمت کے لیے خادم دیےنبینوں کے لیے رہبر مقرر کیے بیماروں کے لیے( بیمارستان)کے نام پرادارہ قائم کیا۔

٭عمر بن عبدالعزیزنے چلنے پھرنے کے لیےخادم اور اور معذورین کے لیے (دیرِحزقیال)کے نام پرادارہ قائم کیا۔

٭خلیفہ متوکل نے مبردکو معذوروں کی دیکھ بال کے لیے مقرر کیا۔

٭احمدبن طولون نے مصر میں (بیمارستان طولون)کے نام پرادارہ قائم ہی نہیں کیا بلکہ خود وہا جا کرتنگ دستوں کی شکایات سنتے اور دیکھ بھال میں غفلت برداشت نہ کرتے۔

٭علماء کرام نے معذورں کی خدمت و دیکھ بھال اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دی کہ یہ اللہ کی تقسیم ہے ان کو طعن و تشنعی مت کرواور ان کے لیے تعلیم وتعلم کا انتظام کرونہ کہ ان کے ہاتھ میں کشکول پکڑا دو اور وہ لوگوں سے مانگتےپھریں اور لوگوں سے قسم قسم کی باتیں سنتے پھریں اس حوالے سے مندرجہ ذیل کتب علماء کرام نے تصنیف کیں۔جاحظ کی کتاب (البرصان والعرجان والعمیان والحولان) ہثیم بن عدی کی کتاب (اصحاب العاہات)صلاح الدین صفدری کی کتاب (نکت الہیمان فی نکت العمیان) اسی طرح(الشعوربالعوز) قابل ذکر ہے۔
 
Top