• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معروف عالم دین مولانا عبدالحمید رحمانی کا انتقال

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
تعمیر نیوز : معروف عالم دین مولانا عبدالحمید رحمانی کا انتقال

ملک کے معروف عالم دین مولانا عبدالحمید رحمانی صدر ابوالکلام آزاد اسلامک اویکننگ سنٹر نئی دہلی بروز منگل 20/اگست صبح 6:30 بجے اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون)
آپ 73 سال کے تھے۔ آپ کے پسماندگان میں اہلیہ، 5 صاحبزادے، عبدالسلام رحمانی، احمد رحمانی، اسماعیل رحمانی، محمد رحمانی، عبداﷲ رحمانی اور ایک صاحبزادی کے علاوہ کافی تعداد میں پوتے پوتیاں اور نواسے اور نواسیاں ہیں۔
اللہ رب العالمین آپ کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور آپ کے اہل خانہ اور سنٹر کے ذمہ داران و منسوبین کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔
مولانا عبدالحمید رحمانی کافی عرصہ سے علیل تھے اور سنٹر کے خدیجہ نیشنل ہاسپٹل دریا گنج نئی دہلی میں زیر علاج تھے۔ مولانا رحمانی کا انتقال قوم و ملت کیلئے ایک دل دوز سانحہ ہے۔ اس عہد ساز شخصیت کے جانے کی وجہ سے ملت اسلامیہ میں جو خلا پیدا ہوگیا ہے اس کو پر کرنے کیلئے صدیوں میں ہی کوئی جنم لیتا ہے۔ آپ عزم و ہمت کے پیکر، ارادے کے دھنی اور بلند حوصلہ والے تھے۔ قوم و ملت کی خدمت میں آپ نے نہ کبھی آرام کی فکر کی اور نہ تکان، نہ دن دیکھا نہ رات، نہ صحت نہ بیماری ہمیشہ مصروف کار نظر آئے۔
آپ کا پورا نام عبدالحمید بن عبدالجبار رحمانی ہے۔ آپ کی پیدائش مشرقی اترپردیش کے ضلع سدھارتھ نگر کے ایک گاؤں تندوا میں 1940ء میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم ضلع بستی کے مختلف مدارس (جامعہ شمس العلوم سمرا اور بحرالعلوم انتری بازار) اور گونڈا (جامعہ سراج العلوم بونڈ بہار) میں حاصل کی اور 1962ء میں جامعہ رحمانیہ بنارس سے فضیلت اور 1970ء میں جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ سے "کلیہ اصول الدعوۃ والدین" سے بی اے کیا۔
تعلیم کی تکمیل کے بعد آپ نے جامعہ رحمانیہ بنارس میں 4 سال اور جامعہ سلفیہ بنارس میں 2 سال مختلف علوم و فنون کی تدریس کے فرائض انجام دیے۔ تدریسی ذمہ دارایوں کے علاوہ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی نظامت اور جمعیت کے آرگن "ترجمان" کی ادارت بھی سنبھالتے رہے۔ 1971ء سے 1974 تک آپ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے ناظم اعلیٰ رہے۔
ترجمان کی ادارت کے دوران آپ نے حج و عیدالاضحی اور مسلم پرسنل لاء بورڈ پر ترجمان کے خصوصی شمارے شائع کئے۔ آپ نہ صرف اردو بلکہ عربی زبان کے ایک عظیم خطیب تھے اور بلامبالغہ اپنے دور میں تاریخ اہل حدیث کے عظیم جانکار تھے۔ خطابت کے ساتھ قلم سے بھی آپ کا گہرا رشتہ تھا۔ مختلف موضوعات پر آپ نے ترجمان، التوعیۃ اور التبیان کو اپنے رشحات قلم سے نوازا۔ نیز "زوابع فی وجہ السنۃ قدیما وحدیثا" پر عربی میں اور زادالمعاد( اردو ترجمہ) پر اردو میں آپ نے جو مقدمات لکھے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔
مولانا عبدالحمید رحمانی متعدد اداروں اور تنظیموں سے وابستہ رہے۔ وہ جنرل سکریٹری، مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند، بانی و صدر جمعیۃ الشبان المسلمین بنارس، معاون سکریٹری مسلم مجلس مشاورت ہند، رکن کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ، رکن کل ہند علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایکشن کمیٹی، رکن دینی تعلیم کونسل اترپردیش، رکن مجلس الثقافہ و التربیہ الاسلامیہ جامعہ نگر نئی دہلی، رکن مجلس عاملہ ایجوکیشنل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن نئی دہلی، جنرل ایڈوائزر جامعہ دارالسلام عمرآباد تامل ناڈو، رکن مرکزی ایڈوائزری حج کمیٹی حکومت ہند، رکن مائناریٹی کمیٹی حکومت ہند۔
آپ نے سعودی عرب، مصر، ملیشیا، امریکہ، انگلینڈ، سنگاپور، سری لنکا اور بنگلہ دیش وغیرہ کی مختلف کانفرنسوں میں شرکت کی۔ جولائی 1980ء میں آپ نے نئی دہلی مشہور علاقہ جوگا بائی، جامعہ نگر (اوکھلا) میں "ابوالکلام آزاد اسلامک اوکیننگ سنٹر نئی دہلی" کی بنیاد ڈالی، جو ایک علمی دعوتی، تصنیفی، تحقیقی اور رفاہی ادارہ ہے۔ جس کے تحت دہلی اور بیرون دہلی ملک کے مختلف علاقوں میں تقریباً دو درجن سے زائد اداروں کی آپ سربراہی فرما رہے تھے۔ جن میں جامعہ اسلامیہ سنابل، معہد عثمان بن عفان لتحفیظ القرآن الکریم جوگابائی، عائشہ صدیقہ شریعت کالج جوگابائی، خدیجۃ الکبری گرلز پبلک اسکول جوگابائی، معہد عمر بن الخطاب علی گڑھ اور معہد علی بن ابی طالب لکھنو سرفہرست ہیں۔
آپ کے تعلیمی میدان میں زندہ جاوید کارناموں کو برسوں یاد رکھا جائے گا۔
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
اللہ تعالیٰ مولاناکے اہل و عیال کو صبر جمیل اور ان کی مرقد مبارک کو جنت الفردوس کاباغیچہ بنائے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
انا للہ وانا الیہ راجعون
 
شمولیت
دسمبر 10، 2011
پیغامات
12
ری ایکشن اسکور
52
پوائنٹ
23
ایک شخص ایک تحریک
تحریر : عطاء اللہ عبدالحکیم سنابلی
-----------------------
فرد تنہاہوتا ہے اور تنظیم کئی افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔ انسانی تاریخ میں عموماً تحریکیں تنظیم کی بدولت اٹھتی اور اپنا دیرپا کردار ادا کرتی ہیں ، عموماً فرد ِواحد سے کوئی تحریک نہیں اٹھتی، یہ عام مشاہدہ ہے ...لیکن آج سے کچھ سالوں پیشتر زمانۂ طالب علمی میں جامعہ اسلامیہ سنابل، نئی دہلی کی مسجد میں ایک شخص کو دیکھا جو سیکڑوں کی تعداد میں موجود طلبا کو اس عام مشاہدہ کے خلاف ہر طالب علم کو اپنے آپ میں ایک تحریک بننے کی نصیحت کررہا تھا،اس وقت گرد وپیش کی جمعیتوں کو دیکھ کر مجھے محسوس ہواکہ واقعی ایسا ہوسکتا ہے کہ فردِ واحد اپنے آپ میں تحریک بن جائے اور ایسے کارنامے انجام دے جس پر جمعیتیں بھی رشک کرنے لگیں ، کیوں کہ وہ شخص خود اس کا عملی نمونہ پیش کررہا تھا۔ اس شخص کو ہم عبقریٔ زماںمولانا عبدالحمید رحمانی کے نام سے جانتے ہیں، جو آج ہم میں موجود نہیں۔19اگست کی صبح بذریعہ SMS آپ کی وفات کی خبر ملی، پھر کئی احباب نے فون کرکے بتایا خاص طورسے جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں زیر تعلیم اخوانِ سنابل سے کئی بار بات ہوئی۔ ہر کوئی اس مرگِ جانکاہ پر افسوس کررہا تھا اور آپ کی مغفرت کے لیے دعائیں کررہا تھا، ہم بھی کبیدہ خاطر تھے ، ہمیں جو پڑھا یا گیا تھا ہم نے وہی کہا، آنکھیں اشکبار ہیں، دل رنجیدہ ہے پر ہم وہی کہتے ہیں جس سے مولا راضی ہوکہ ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کے پا س لوٹ کر جانے والے ہیں، اے اللہ ! تو ہمارے اس مربی کو کروٹ کروٹ جنت دے ، ان کی حسنات کو قبول فرما اور سیئات سے درگزر فرما۔
1997سے 2004کے طویل عرصہ میں معہدالتعلیم الاسلامی اور جامعہ اسلامیہ سنابل ، نئی دہلی میں دورانِ تعلیم شیخ( رحمہ اللہ) کو کافی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، میں نے ہمیشہ ان کو پڑھنے کی کوشش کی، عام علما ء کرام سے ان کو مختلف پایا، پہلی مرتبہ 1998میں مسجد ابوبکر صدیق ذاکر نگر معروف بہ رحمانی مسجد میں فجر کی نماز کے بعد ان سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ فجر کی نماز کے بعد مسجد ہی میں پڑھنے کے لیے بیٹھ گیا ، آپ ممبر کے پیچھے غالباً تیسری صف میں بیٹھے ذکر میں مشغول تھے ، کافی دیر تک بیٹھے رہے، میں لکھنے میں مصروف تھا، آپ نے آواز دے کرمجھے بلا یا میں ممبر کے پاس تھا، کہا بیٹے وہاں ممبر کے پاس اوقاتِ صلاۃ کا چارٹ ہے ، اس میں دیکھ کر بتانا کہ کل فجر کا وقت کب سے شروع ہورہا ہے؟ میں نے چارٹ دیکھ کر وقت بتادیا۔
ہم طلبا آپ کو رحمانی صاحب کے نام سے یاد کرتے تھے ۔ جمعہ کے خطبہ کے علاوہ گاہے بگاہے آپ ہم لوگوں کو جو پند ونصائح کرتے ، خاص طورسے نادی الطلبہ کی طرف سے جمعرات کی شب ثقافتی پروگرام میں آپ کو کبھی کبھی کسی خاص موضوع پر گفتگو کرنے کے لیے جب بلایا جاتا تو اس لیکچر سے ہم سب سے زیادہ استفادہ کرتے۔ جب آپ بولتے تھے تو ایسا محسوس ہوتا جیسے تجربات کی بھٹی میں تپی کوئی شخصیت بات کررہی ہو، آپ کی باتوں میں علم ویقین اور اعتماد کا مظاہرہ ہوتا،جس نے ہماری شخصیت سازی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ہم نے اپنی آج تک کی زندگی میں اس جیسا بے باک اور جری عالم دین نہیں دیکھا۔ علامہ عبدالرؤف رحمانی رحمہ اللہ کی تدفین کے موقع پر امام کی اقتدا میں دعا کی بدعت پر ہزاروں کی موجودگی میں تنقید کرنا، اہلحدیث مکتب فکر پر ڈاکٹر ذاکر نائک حفظہ اللہ کی غلط رائے زنی پر بروقت ان کی غلط فہمی کا ازالہ کرنا ان کی جرأتِ علمی کی جاگتی مثالیں ہیں۔
دورانِ خطبہ ''مجھے یاد ہے'' ، ''اماں عائشہ رضی اللہ عنہا '' ، ''اماں خد یجہ رضی اللہ عنہا ' '،روزہ نماز کی جگہ ''صوم وصلاۃ''، ''خدا '' کی جگہ ''اللہ اور دیگر اسماء حسنی'' کا استعمال خوب کرتے۔ کوئی بھی خلافِ سنت کام معاشرہ میں دیکھتے اس کی طرف ضرور اشارہ کرتے۔ باوجودیکہ مرکزابوالکلام آزاد للتوعیۃ الاسلامیہ کی انتظامی سرگرمیوں میں بے انتہا مشغول تھے، علاوہ ازیں کافی پرانے خریجین میں سے تھے، نئی تحقیق اور نئے ریسرچ سے آگاہ تھے۔ علامہ البانی، علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن قیم الجوزیہ کی تحقیقات کا خوب حوالہ دیتے ۔
آپ معاصر تبدیلیوں سے پوری طرح آگاہ تھے، نہایت مدبر اوردوراندیش شخصیت کے مالک ہونے کی وجہ سے اپنے ماتحت چلنے والے اداروں میں آپ نے عصری تقاضوں کے مطابق مناسب تبدیلیاں کیں، معہد ، سنابل اور مرکز کی دیگر تعلیمی شاخوں میں جس طرح کے نصابِ تعلیم کو جگہ دی گئی وہ آپ کی اعلی فہم وفراست کی دلیل ہے۔ مدارس میں نصابِ تعلیم کو لے کر ماہرین تعلیم کے یہاں جو بے چینی پائی جاتی ہے اس سے نہ صرف آپ باخبر تھے بلکہ خود بھی بے چین تھے اور اصلاحِ نصاب کے لیے عملی طورپر کوشاں بھی تھے۔ بہت سے اربابِ مدارس ایسے ہیں جو نصاب میں تبدیلی کا نام سنتے ہی چراغ پا ہوجاتے ہیں گرچہ اسلامیات ہی میں اصلاح کی بات کی جائے، طریقہ تدریس میں نئے تدریسی ریسرچ سے استفادے کی بات کہی جائے، اس سے بھی اتفاق نہیں کرتے۔ رحمانی صاحب ان لوگوں کی طرح نہیں تھے۔ مجھے یادہے ایک مرتبہ نادی الطلبہ نے ثقافتی پروگرام میں جمعرات کی شب ان کو جامعہ اسلامیہ سنابل کی مسجد(جس کو رحمانی صاحب مسجد کے بجائے مصلی یعنی صلاۃ ادا کرنے کی جگہ کہتے تھے، کیوں کہ اس وقت تک باقاعدہ مسجد نہیں بنی تھی، عارضی طورپر اس جگہ کو صلاۃ کی ادائیگی کے لیے بنایا گیا تھا)میں مدعو کیا گیا ، آپ نے لیکچر دینے کے بعد سوال وجواب کے سیشن میں سوالات طلب کیے ، سوال تحریری شکل میں کرنا تھا، اس وقت میں ثانویہ ثالثہ (چھٹی جماعت) کا طالب علم تھا، میں نے مدارس کے نصابِ تعلیم میں مثبت تبدیلی کے حوالے سے تین سوالات کیے، سوال کی زبان ستھری ، سلیس اور فکرسے بھر پور تھی، رحمانی صاحب کو اسلوب اور سوال کی علمیت ومنطقیت اچھی لگی، شاید ان کو کسی طالب علم سے اس قسم کے سوال کی توقع نہیں تھی، فوراً پوچھا ، یہ سوال کس نے کیا ہے؟ کنوینر نے نام بتایا، کچھ پرچیوں کے بعد پھر میری دوسری پرچی دی گئی،جو نصابِ تعلیم میںمثبت تبدیلی سے متعلق سوال پر مبنی تھی، پھر پوچھا یہ سوال کس نے کیا ہے؟ لوگوں نے میرا نام لیا۔ آپ نے کہا یہ طالب علم کون ہے ؟ میں کھڑا ہوگیا ۔ پوچھا بیٹا نام کیا ہے ، میں بتایا ، پھر پوچھا کس اسٹیٹ سے ہیں ؟ میں نے کہا ''اترپردیش'' ۔ آپ نے کہا بیٹے محنت کرو کامیاب ہوجاؤ گے۔ آپ نے یہ جملہ تین بار دہرا یا اور کہا سیاست میں مت پڑنا ، پھر میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے نصاب میں مثبت تبدیلی کی بھرپور تائید کی۔
آپ کی عقابی نگاہیں مستقبل کو پڑھنے میں بڑی تیز تھیں۔ مسلک سلف صالح پر خود کاربند تھے دوسروں کو بھی اس کی طرف بلاتے،جماعت اہلحدیث کے وہ رنگروٹ تھے کہ کسی قیمت پر جماعت اہلحدیث کے طرۂ امتیاز کو مٹنے نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ عرب دنیا کے سلفی اسکالرز آپ کو ''رمز من رموز السلفیۃ فی الہند''ہندوستان میں سلفیت کی ایک اہم علامت کہتے تھے۔آپ کی زندگی پر علامہ نذیر احمد رحمانی رحمہ اللہ کے بڑے اثرات تھے، جن کا باربار حوالہ بھی دیتے ، ان کا نام بھی لیتے۔
مضمون کی سرخی کی طرف ایک بار ہم پھر پلٹتے ہیں۔ فردِ واحد اگر اپنے آپ میں کارواں بن سکتا ہے تو بلاشبہ آپ نے اپنی خدمات اور کارنامے کے ذریعہ اس مفروضہ کو عملی طورپر ثابت کیا۔ دہلی کسی زمانے میں ولی اللہ محدث دہلوی او رآپ کے فرزندوں کی مسند تدریس، علامہ نذیرحسین محدث دہلوی کے حلقہ تدریس اور دارالحدیث رحمانیہ کی وجہ سے دینی علوم کا گہوارہ تھی۔ لیکن تقسیم ملک کے سانحہ کے بعد دارالحدیث رحمانیہ ٹوٹ گیااور دہلی کی علمی شان جاتی رہی ، اگر کسی فردِ واحد نے اس کو سنبھالا دیا تو رحمانی صاحب کی شخصیت تھی، جس نے علم کی وہ شمع فروزاں کی جس نے ہندوستان ونیپال کے مختلف گوشوں میں روشنی جلائی اور دہلی کی علمیت کی لاج رکھی، ان کے قائم کردہ مدارس کی علمیت کا لوہا دہلی سے کیرلاتک، مساجد کے ممبر ومحرا ب سے لے کرعصری تعلیم کی درسگاہوں تک تسلیم کرلی گئی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ایسا کام تنظیمی سطح ہی پر ممکن تھا، لیکن آپ نے تن تنہادہلی سے باہر یوپی، بنگال، مہاراشٹر وغیرہ میں بھی اس علمی تحریک کو دراز کرکے فردِواحد کو تحریک کا کردار عطاکیا۔
آپ نے اپنی زندگی میں کئی نمایاں کارنامے انجام دیے ، جن میں تعلیمی اداروں کا ذکر خاص طورسے اہم ہے۔ لیکن تین اہم کام جس کے آپ شدید خواہش مند تھے، انتظامی امور میں مشغولیت کی وجہ سے انجام نہ دے سکے، کاش آنے والی نسل ان خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرسکے، وہ تین کام درج ذیل ہیں:
1۔ بر صغیر بالخصوص ہندوستان کی تاریخ اہلحدیث لکھنا چاہتے تھے، آپ جماعت اہلحدیث کے وقت کے ایک بڑے مؤرخ تھے، لیکن افسوس یہ تاریخ سینے سے سفینے میں نہ آسکی، بے انتہا مشغولیت نے اس کام سے روک دیا، جب کہ آپ نے بارہا اس کی کوشش بھی کی۔
2۔منہج اہلحدیث پر تحقیقی دستاویز تیار کرانا چاہتے تھے۔ کئی ایک اسکالروں کو یہ ذمہ داری بھی سونپی تھی، لیکن یہ کام بھی پورا نہیں ہوپایا۔ ڈاکٹر عبیدالرحمن صاحب مدنی حفظہ اللہ نے اس کا خطہ بھی تیار کرکے آپ کو دیا تھا، لیکن سرمایہ کی عدمِ فراہمی اور بے پناہ مشغولیت اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے سے مانع رہی۔
3۔خلیجی ممالک کے طرز پر اسلامیات کے نصاب کی تیار ی بھی آپ کے منصوبے میں شامل تھی۔ حدیث،تفسیر، عقیدہ، فقہ، اسلامی تاریخ، مصطلح الحدیث، رجال وغیرہ جیسے اسلامی علوم پر پرائمری اور متوسطہ درجات کے لیے مستقل نصاب تیار کرانا چاہتے تھے ۔ لیکن یہ منصوبہ بھی انتظامی امور میں مشغولیت کی نذر ہوگیا۔
ہم احبابِ جماعت اور دوستانِ علم سے ان منصوبوں کو تکمیل تک پہنچانے کی گزارش کرتے ہیں۔ تیسرے منصوبہ کوہماری تنظیم''سائنٹفک ریسرچ اینڈویلفیر فاؤنڈیشن'' کو ان شاء اللہ پایۂ تکمیل تک پہنچائے گی۔
اسی کے ساتھ ہم جامعہ اسلامیہ سنابل کے فارغین سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ آپ کے مشن کو زندہ رکھنے کی ہرممکن کوشش کریں ۔ ان کے فرزند مولانا محمد رحمانی مدنی کے لیے جہاں اس سانحہ ارتحال پر اللہ تعالی سے صبر جمیل کی دعا کرتے ہیں وہیں،علامہ رحمہ اللہ کے مقالات کو کتابی شکل میں شائع کرنے، آپ کی تقریروں کی آڈیو ، ویڈیو سی، ڈیز، ڈی وی ڈیز تیار کرنے نیز عام استفادہ کے لیے انھیں انٹر نٹ پر اَپ لوڈ کرنے کی بھی گزارش کرتے ہیں۔ اللہ تعالی ہم تمام فارغین کو آپ کے مشن کو زندہ رکھنے او ر آپ کے حق میں تاعمر دعائیں کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین!lll

http://thefreelancer.co.in/show_article.php?article=931
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
مولانا عبدالحمید رحمانی رحمہ اللہ



مولانا عبدالحمید رحمانی مشرقی یوپی کے ضلع سدھارتھ نگر کے ایک گاؤں ’’تندوا‘‘ میں 21؍اپریل 1943 کو پیدا ہوئے۔ بحرالعلوم انتری بازار (سدھارتھ نگر)، مدرسہ شمس العلوم سمرا (سدھارتھ نگر) اور جامعہ سراج العلوم بونڈیہار (بلرام پور) میں ابتدائی درجات کی تعلیم حاصل کی۔ اعلی تعلیم کے لیے جامعہ فیض عام (مئو) کا رخ کیا اور پھر جامعہ رحمانیہ (بنارس) سے سند فراغت حاصل کی۔ اسی جامعہ رحمانیہ کی مناسبت سے خود کو ہمیشہ رحمانی لکھتے رہے اور اپنی اسی نسبت سے علمی، دینی، جماعتی، ملی، دعوتی اور ثقافتی حلقوں میں معروف ومشہور ہوئے۔علوم شریعت میں مزید مہارت حاصل کرنے کے لیے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ (سعودی عرب) میں داخلہ لیا اور وہاں کے اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ ان تمام مدارس وجامعات میں جن اساتذہ سے انھوں نے تعلیم پائی ان میں مولانامحمد زماں رحمانی، مولانا عبدالمبین منظر، مولانا محمد اقبال رحمانی، مولانا عزیز احمد ندوی، مولانا محمد احمدسابق ناظم مدرسہ فیض عام مئو، مولانا شمس الحق سلفی والد شیخ عزیر شمس، مولانا عبدالمعید بنارسی، مولانا عبدالرحمن نحوی، مولانا عبدالرحمن رحمانی بن شیخ الحدیث عبیداللہ رحمانی صاحب مرعاۃ، مولانا عظیم اللہ مئوی، مولانا نذیر احمد رحمانی، مولانا محمد بشیر رحمانی، مولانا محمد یوسف بہرائچی، مولانا عبدالوحید رحمانی سابق شیخ الجامعہ جامعہ سلفیہ بنارس، ڈاکٹر تقی الدین ہلالی، شیخ عبدالمحسن العباد، شیخ عبدالغفار حسن رحمانی، شیخ عبدالرؤف اللبدی، شیخ نورالدین عتر شامی، شیخ ممدوح فخری، شیخ حماد الانصاری اور شیخ رمضان مصری وغیرہ نمایاں اور ممتاز ہیں۔
رحمانی صاحب نے بھرپور علمی زندگی گزاری ہے۔ جامعہ رحمانیہ بنارس میں چار سال اور جامعہ سلفیہ بنارس میں دوسال تدریسی خدمات انجام دیں۔ سلفیان ہند کی مرکزی تنظیم ’’مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند‘‘ کے جنرل سکریٹری رہے۔ اس دوران انھوں نے ملی مسائل میں کافی دل چسپی لی اور ملت کے تمام رہنماؤں سے ان کے تعلقات استوار ہوئے۔ ملی ضرورتوں کے پیش نظروہ سیاست میں بھی آئے اور ملک کی سیکولر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے مل کر مسلمانوں کے مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرانے کی راہ میں جدوجہد کی لیکن جلد ہی ان کو اس بات کااحساس ہوگیا کہ اللہ نے مجھے کسی اور خدمت کے لیے بنایا ہے اور پھر وہ ملت کے نونہالوں کی دینی تعلیم وتربیت کاایک عظیم منصوبہ لے کر پورے عزم وحوصلے کے ساتھ میدان میں آئے۔ دہلی جو ملک کی راجدھانی ہے اور مسلمانوں کے سیکڑوں سال کی حکمرانی کی گواہ ہے،جس کے چپے چپے پر مسلم عہد حکومت کی یاد گاریں آج بھی مسلمانوں کے تاب ناک ماضی کی یاد دلاتی ہیں، 1947 میں تقسیم ہند کے بعد ویران ہوگئی تھی، مدارس اجڑ گئے، مسجدیں ویران ہوگئیں، ملت کا پڑھا لکھا اور سرمایہ دار طبقہ ملک چھوڑ گیا، اس دلی کو ماضی کی عظمتوں کی طرف لوٹانے میں جن شخصیات نے عظیم الشان کام کیے، ان میں رحمانی صاحب کا نام سب سے نمایاں ہے۔ نئی دہلی کے ذاکر نگر میں انھوں نے’’ابوالکلام آزاد اسلامک اویکننگ سنٹر‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اور پھر اس کے تحت بیسیوں ادارے دہلی اور ملک کے دوسرے حصوں میں قائم کیے۔ ان میں عصری تعلیمی ادارے بھی ہیں اور علوم شرعیہ کی تدریس کے ادارے بھی، لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ قدیم وجدید ادارے بھی انھوں نے قائم کیے ہیں اور حفظ قرآن مجید کے شعبے بھی ان کے ادارے میں بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں۔
رحمانی صاحب نے اپنے ان تمام اداروں میں عصری تقاضوں کا بھرپور خیال رکھا ہے۔ عمارتوں کی تعمیر، بچوں کے لیے دارالاقامے، کلاس روم، لائبریری، ڈائیننگ ہال وغیرہ میں انھوں نے جس ذوق تعمیر کا ثبوت دیا ہے، وہ ہمارے دینی مدارس میں آج بھی ناپید ہے۔ انھوں نے اپنے ادارے کی نگرانی میں جو مساجد تعمیر کرائی ہیں، وہ بھی اپنی وسعت، کشادگی، صفائی ستھرائی اور تمام ضروری سہولیات میں ممتاز ہیں۔ دہلی اور بیرون دہلی ان کی بنائی ہوئی تعمیرات دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہ صرف ایک شخص کی محنت اور لگن کا نتیجہ ہے۔ تعلیم وتربیت کا جو بلند معیار انھوں نے قائم کیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ انھیں کی جد وجہد، ذہانت، حسن انتظام اور انتظامی امور میں مہارت تامہ کا فیض ہے کہ آج سنابلی علمائے کرام زندگی کے تمام شعبوں میں رواں دواں ہیں۔ ملک اور بیرون ملک کے اعلی تعلیمی اداروں میں جامعہ اسلامیہ سنابل کے فارغین نہ صرف اعلی تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہیں بلکہ اپنی محنت، لیاقت اور صلاحیت کی وجہ سے عزت ووقعت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں اور اپنے ادارے کا نام روشن کررہے ہیں۔
رحمانی صاحب اپنی ذات میں انجمن تھے۔ ذہانت وفطانت کا حصہ وافر انھیں قدرت کی طرف سے عطاہوا تھا۔ طالب علمی کے دور ہی سے وہ تمام علمی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے۔ خطابت خواہ اردو میں ہو یاعربی میں، وہ اس میدان میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ حاضر جوابی اور برجستگی ان کی نمایاں خصوصیت تھی۔ ان کی تحریر بہت رواں اور تمام ادبی خوبیوں سے آراستہ تھی۔ اللہ کی طرٖ ف سے انھیں غضب کا حافظہ ودیعت ہوا تھا۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور یہ مطالعہ بھی مجتہدانہ اور ناقدانہ تھا۔کسی مسئلے میں ان کی رائے دوٹوک ہوتی تھی۔شخصیات اور اسلامی تراث پر ان کی بڑی گہری نظر تھی۔ ملت کی سیاسی، دینی، علمی اور ثقافتی تاریخ سے متعلق ان کی ایک متعین اور جنچی تلی رائے تھی اور اس سلسلے میں ان کے دلائل بہت واضح اور دوٹوک تھے۔
سلف صالحین کا منہج مستقیم انھیں حددرجہ پیارا تھا اور اس تعلق سے انھیں شرح صدر اتنا تھا کہ اس کے خلاف ایک لفظ سننا گوارہ نہیں تھا۔ جس کسی نے اس مسلک کے خلاف لکھا اور بولا، اس کی تردید کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے تھے۔ اس تعلق سے وہ اپنے اور غیر میں کسی طرح کا فرق نہیں کرتے تھے۔عقائد کے باب میں ان کانقطہ نظر بہت صاف اور واضح تھا۔وہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ، ابن قیم، ان کے ارشد تلامذہ، شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب اور ان کی برپا کی ہوئی تحریک کے ترجمان تھے۔اسی کے ساتھ ملت کے ان گروہوں، تحریکوں اور شخصیات پر ان کی بڑی گہری نظر تھی جو منہج سلف کے خلاف بدعت اور اوہام وخرافات کے داعی اور مناد ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا حافظہ اتناقوی تھا کہ ایک ہی سانس میں بیسیوں حضرات کا نام گناجاتے تھے۔
ایک طویل علالت کے بعد (20؍اگست 2013 بروز منگل )دہلی میں انتقال فرماگئے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے، ان کی حسنات کوشرف قبولیت سے نوازے، آخرت میں ان کے درجات بلند کرے اور انھوں نے اپنے پیچھے تعلیم وتربیت، درس وتدریس، دعوت وارشاد اور تصنیف وتالیف کے جو تابندہ نقوش چھوڑے ہیں، ان کو ان کے حق میں صدقہ جاریہ بنائے، ان کے اہل وعیال اور جملہ متعلقین کو صبر جمیل کی توفیق عطافرمائے۔ آمین.

بشکریہ راہ نما
 
Last edited:
Top