• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معرکۂ عظیم از رضی الدین سیّد

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
معرکۂ عظیم
از
رضی الدین سیّد​
نیشنل اکیڈمی آف اسلامک ریسرچ کراچی
فون: 0300-2397571​
نام کتاب ........................ معرکہء عظیم
مصنف ........................ رضی الدین سیّد
اشاعت اوّل 1000
اشاعت دوم 1000
اشاعت سوم 1000
اشاعت چہارم جنوری 2005ء 1000
اشاعت پنجم جنوری 2006ء 1000
اشاعت ششم فروری 2007ء 1000
تعداد صفحات ........................ 142
تعداد ........................ 1000
قیمت ........................ روپے​
فہرست مضامین
نمبر مضامین صفحہ نمبر
۱۔ قرآن پاک میں بیان کردہ یہودیوں کے جرائم ۶
۲۔ یہودیوں کے نزدیک دجال کا مقام ۱۳
۳۔ کیا دجال کی آمد کے لئے اسٹیج تیار ہو رہا ہے؟ ۱۷
۴۔ مسلمانوں کی انفرادی عبادات بھی خطرے کی زد میں ۲۴
۵۔ اسرائیلی معیشت۔ زوال کا شکار ۳۱
۶۔ امریکی یہودی تنظیمیں اور ان کا کردار ۳۵
۷۔ ایک امریکی صدر جس نے اسرائیل کو اس کی اوقات یاد دلائی ۴۱
۸۔ ہولوکاسٹ اور اس وقت کی دنیا کا ردّ عمل ۴۶
۹۔ بنی اسرائیل پر ان کی مقدس کتابوں میں بھی پھٹکار کی گئی ہے ۵۱
۱۰۔ حضرت امام مہدی ؑ۔ احادیث کی روشنی میں ۵۶
۱۱۔ الملحمۃ الکبریٰ ۶۱
۱۲۔ ''آرمیگاڈون ''کی تیاریاں عروج پر ۶۸
۱۳۔ یہودیو! ہمارا فلسطین چھوڑ دو ۷۳
۱۴۔ اسرائیل اپنے محسنوں کو بھی نہیں بخشتا ۷۷
۱۵۔ مسئلہ فلطین اور ہماری ذمہ داریاں ۸۱
۱۶۔ عیسائیت آخرکار یہودیت کے آگے ڈھیر ہو گئی ۸۷
۱۷۔ یہودیوں اور عیسائیوں کا گٹھ جوڑ ۹۶
۱۸۔ دجال کے فتنے ۱۰۱
۱۹۔ نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام : حکمتیں ۱۰۶
۲۰۔ قائد اعظم اسرائیل کو ایک ناجائز وجود سمجھتے تھے ۱۰۹
۲۱۔ بھارت اور اسرائیل ... دو متضاد کیس ۱۱۴
۲۲۔ تحریک ِ پاکستان اور تحریک ِ اسرائیل۔ ایک تقابلی مطالعہ ۱۱۸
۲۳۔ عالمی حکومت ۱۲۳
۲۴۔ مبغوض قوم یہودی۔ مگر اس کی خوبیاں۔ آہ! ۱۲۸​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
گزارشاتِ مصنف
یہودی سازشیں اتنی گہری ہیں کہ ان کا مکمل احاطہ کرنا شاید کسی کے بس کی بات نہیں۔ انہوں نے اپنی عیاری و ہوشیاری سے عیسائیوں تک کو اپنا ہمنوا بنا لیا ہے یہاں تک کہ وہ مسلمانوں کے قتل عام کے پُرزور وکیل بن گئے ہیں۔ جب کہ حیرت انگیز طور پر مدینے کے بعد ہماری ان سے کبھی لڑائی نہیں رہی ہے۔ بلکہ مسلمانوں نے تو انہیں ہمیشہ عزت و تحفظ ہی دیا ہے۔حضرت عیسیٰ ؑکو نام نہاد طور پر مصلوب کرنے میں انہی یہودیوں کا ہاتھ ہے۔ دوسری طرف ہم مسلمان حضرت عیسیٰ ؑکو عیسائیوں سے بھی بڑھ کر اللہ کے نبی مانتے ہیں۔ لہٰذا ہونا یہ چاہئے تھا کہ عیسائی قوم مسلمانوں کی ہمنوا ہوتی اورمل کر یہودیوں سے دشمنی کا اظہار کرتی لیکن اس وقت تمام عیسائی دنیا یہودیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے نیست و نابود کردینے کے درپے ہے۔ ان دونوں اقوام نے مسلمانوں کا ساری دنیا میں گھیراؤ کرلیا ہے اور ہر ملک کے باہر اور اندر اپنی افواج بٹھا دی ہیں تاکہ کہیں سے مزاحمت ہو تو انہیں فوری طور پر دبوچ لیا جائے۔ ان کا ارادہ تو بلکہ مکے اور مدینے پر قبضے کا بھی ہے۔
عیسائی، یہودی اور مسلمان تینوں اقوام چونکہ صاحب کتاب ہیں اس لئے دجال، یاجوج ماجوج، ملحمۃ الکبریٰ اور حضرت مسیح علیہ السلام کی دوبارہ واپسی پر سب کے سب متفق ہیں۔ لیکن عجیب بات بلکہ تشویشناک امر یہ ہے کہ یہودی اور عیسائی تو ان آخری نشانیوں کے لئے دیوانہ وار بے تاب ہیں اور ماحول کو دنیا کی آخری ساعت کے مطابق تبدیل کرنے کے لئے بے چین ہیں لیکن مسلمان اس قسم کسی بھی سرگرمی سے بالکل غافل ہیں۔ حالانکہ ان پر مذکورہ دونوں اقوام سے کہیں زیادہ دجال کا خوف طاری ہونا چاہئے اور حضرت عیسیٰ ؑ کی دوبارہ آمد کا شدید انتظار کرنا چاہئے۔
راقم کی اس مختصر سی کتاب میں یہودی سازشوں اور علامات قیامت کے موجودہ دور پر انطباق کو سہل انداز میں سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ وہ مضامین ہیں جو عام افراد کی آگاہی کے لئے وقتاً فوقتاً قومی اخبارات مثلاً نوائے وقت، ایکسپریس، کائنات اسلام، صحیفۂ اہلِ حدیث اور خواتین میگزین وغیرہ میں شائع ہوتے رہے ہیں۔
راقم کو یقین ہے کہ محض انہی سادہ مضامین کو پڑھ کر مسلمانوں کو دجال کی سازشوں اور عالم اسلام کو درپیش خوفناک حالات کا بڑی حد تک اندازہ ہوجائے گا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ راقم کی اس کوشش کو قبول کرے اور مسلمانوں میں قوتِ عمل بیدار کرے۔
رضی الدین سید
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
قرآن میں بیان کردہ یہود کے جرائم
روس، برطانیہ اور امریکہ کی مشترکہ سازش کے تحت وجود میںلائی جانے والی ناجائز یہودی ریاست ''اسرائیل'' اس وقت عالم اسلام اور عرب دنیا کے لئے ایک مسلسل عذاب بنی ہوئی ہے۔ وہ مہذب قومیں جنہوں نے دنیا میں امن کی خاطر اقوام متحدہ کو جنم دیا اور جنہوں نے احترام انسانیت کے عالمی منشور پر دستخط کئے، آج انہوں نے خود ''اسرائیل'' کو وحشیانہ بربریت کے فروغ کے لئے مادر پدر آزاد چھوڑا ہوا ہے۔ خود ہی یہ عظیم طاقتیں بقائے باہمی کی قراردادیں منظور کرواتی ہیں اور خود ہی نسلی تعصب میں ان قرار دادوں کی ایک ایک شق کی دھجیاں اڑاتی ہیں۔
تم ہی تجویز صلح لاتے ہو، تم ہی سامان جنگ بانٹتے ہو
تم ہی کرتے ہو قتل کا ماتم، تم ہی تیر و تفنگ بانٹتے ہو
دنیا بھر میں پھیلے ہوئے یہودیوں کی تعداد فی زمانہ ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہے جن میں سے باسٹھ لاکھ خود اسرائیل میں بستے ہیں۔ ظاہر ہے کہ نہ تو یہ زمین ان کی تھی اور نہ یہ مکانات ان کے تھے۔ دنیا بھر میں راندۂ درگاہ بنے ہوئے ان یہودیوں کو عرب دنیا کے عین قلب میں آباد کرنے کی سازش جنگ عظیم اول کے اختتام پر شروع ہوئی جسے اعلان بالفور کا نام دیا گیا۔ یہ ٹھیک وہی زمانہ تھا جب عیسائی اقوام نے دنیا بھر میں مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی پر کاری ضرب لگائی تھی۔ انہوں نے وسیع و عریض خلافت عثمانیہ کو توڑ کر پاش پاش کیا اور دسیوں چھوٹی بڑی عرب ریاستیں وجود میں لے کر آئے۔ اس دن سے آج تک مسلمانوں کو نہ تو پھر ویسی اتحاد و یکجہتی میسر آئی اور نہ ''اسرائیلی'' ریاست سمٹ کر مختصر ہوسکی۔ حال یہ ہے کہ مسلم ریاستیں سکڑ کر چھوٹی ہو رہی ہیں جبکہ یہودی ریاست پھیل کر بڑی ہو رہی ہے۔ عالم یہ ہے کہ یہ یہودی ریاست 1948ء کے بعد سے مسلسل توسیع پذیر ہے اور اس کی سرحدیں آئے دن پھیلتی چلی جا رہی ہیں۔
بدقسمتی سے یہودی ایک ایسی قوم رہے ہیں جنہوں نے اپنی ہزاروں سالہ زندگی اللہ تعالیٰ کی مسلسل نافرمانیوں میں گزاری ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے دور سے بنی اسرائیل نام کی قوم کا آغاز ہوا اور دم تحریر تک یہ قوم مسلسل بغاوت، سازش اور فساد کی علمبردار رہی ہے۔ اس قوم پر رب کائنات نے متعدد بار لعنت کی ہے۔ اسرائیلیوں کی مکر و فریب کی پوری تفصیل قرآن پاک میں محفوظ کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک طویل چارج شیٹ ان کے نام سے مرتب کی ہے جس کے بعد اس نے اس قوم کو قیادت کے منصب سے معزول کر کے مسلمانوں کو اس مقام پر فائز کیا۔ دنیا بھر کی اقوام میں یہ وہ واحد قوم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ غضب و غصے اور پھٹکار و ملامت کا سزاوار ٹھہرایا ہے۔قرآن پاک کے تفصیلی مطالعے سے یہودیوں کے جو طویل جرائم ہمارے سامنے آتے ہیں، انہیں پڑھ کر اس قوم کی نفسیاتی کیفیت ہمارے سامنے آتی ہے۔ ذیل کی سطور میں ایک تفصیل ان جرائم کی پیش کی جا رہی ہے جس سے بنی اسرائیل کے لوگوں کی تاریخ اور ان کا ذہن سمجھنے میں بہت مدد ملے گی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۱) یہ قوم عہد و پیمان کی مسلسل نافرمانی کرتی تھی جس کے بعد کوہ طور کو ان کے سروں پر اٹھا کر لٹکایا گیا۔ تاہم اس کے باوجود عہد شکینوں کا ان کا یہ سلسلہ جاری رہا ۔
(۲) یہ لوگ اللہ کی آیات کو فروخت کرتے تھے اور ان سے اپنے ڈھب کے مطلب برآمد کرتے تھے۔
(۳) دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے تھے اور خود کو بھول جاتے تھے۔
(۴) آل فرعون کے ظلم و ستم سے نجات پانے اور سمندر میں سے راستہ مہیا کئے جانے کے باوجود اپنے پروردگار کے مستقل ناشکر گزار بنے رہے۔
(۵) حضرت موسیٰ علیہ السلام کے طُور پر جانے اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے دوران وہ بچھڑے کی پرستش میں لگ گئے۔
(۶) کھلے عام کہتے تھے کہ وہ آنکھوں سے دیکھے بغیر اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیںلائیں گے۔
(۷) اللہ نے جب انہیں آسمان سے بلا محنت و مشقت رزق (من و سلویٰ) فراہم کیا تو ضد کر کے اسے بند کروایا اور مطالبہ کیا کہ ان کے لئے زمین سے اناج اور سبزیاں اگانے کا بندوبست کیا جائے۔
(۸) اللہ کی جانب سے صحرا کی چلچلاتی ہوئی دھوپ سے بچاؤ کے لئے ان پر بادلوں کا سایہ مہیا کیا گیا مگر کبھی اللہ کے آگے عاجزی اختیار نہیںکی۔
(۹) اللہ نے انہیں ایک بستی میں داخل ہوتے وقت ''حِطّہ'' (معافی) کا لفظ ادا کرنے کے لئے کہا مگر انہوں نے ضد میں اسے بدل کر کسی اور لفظ میں تبدیل کردیا۔
(۱۰) اس نے اپنی رحمت کی وجہ سے اس بستی میں بارہ قبیلوں کیلئے بارہ چشمے ایک چٹان سے برآمد کئے۔ مگر اسکے باوجود وہ اللہ کے نبیوں کی نافرمانی کرتے رہے۔
(۱۱) آسمان سے بھیجے گئے اپنے پیغمبروں کو قتل کرنے اور انہیں پھانسی پر چڑھانے سے بھی انہیں کوئی عار نہ تھا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کا سر قلم کروایا۔ ایک نبی کو کنوئیں میں الٹا لٹکا کر چھوڑ دیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تختہ دار تک پہنچانے کی سازش میں پیش پیش رہے۔
(۱۲) اللہ نے انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو بہت سٹپٹائے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پانچ دفعہ مطالبہ کیا کہ وہ اپنے رب سے اس کے بارے میں ٹھیک ٹھیک حکم لے کر آئیں تاکہ کسی طرح گائے کے ذبح سے بچ جائیں۔
(۱۳) کہتے تھے کہ پیغمبری صرف بنی اسرائیل کی نسل کے لئے وقف ہے اس لئے وہ بنی اسماعیل کے پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے۔
(۱۴) ان سے کہا گیا تھا کہ وہ ہفتے میں ایک دن (یوم سبت) کوئی کاروبار کریں نہ کوئی شکار۔ مگر انہوں نے اس فرمان میں طرح طرح کے حیلے بہانے کر کے یوم سبت کے احترام کو پامال کیا۔
(۱۵) آسمانی کتابوں میں لفظی و معنوی تحریف کرتے تھے۔
(۱۶) نبی اکرم e کی مجلس میں اگر ان کے کسی فرد کے منہ سے کوئی سچی بات نکل جاتی تھی تو واپسی میں وہ اسے بے حد مطعون کرتے تھے۔
(۱۷) بڑے دعوے سے کہتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے چہیتے ہیں اور یہ کہ دوزخ کی آگ انہیں کبھی نہ چھوئے گی۔
(۱۸) ان کے آپس میں بھی شدید اختلافات تھے چنانچہ وہ آپس میں قتل و غارت گری کرتے تھے اور قبیلوں کو ان کی بستیوں سے نکال دیتے تھے (جیسا کہ اب انہوں نے مسلم فلسطینیوں کے ساتھ کیا ہوا ہے)۔
(۱۹) اکثر و بیشتر کہا کرتے تھے کہ ان کے دلوں پر غلاف پڑا ہوا ہے۔ اس لئے اسلام کی کوئی بات ان کے دلوں میں نہیں اتر سکتی۔
(۲۰) حضور ﷺ کی بعثت سے پہلے ایک نبی کے آنے کی پیش گوئیاں کرتے تھے اور اہل مدینہ کو کہا کرتے تھے کہ اس نبی ﷺ کو آنے دو پھر ہم تم سے نمٹ لیں گے لیکن نبی کریم ﷺ کی بعثت کے بعدیہ یہودی ہی نبی ﷺ کے بدترین دشمن ثابت ہوئے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۲۱) حضرت جبریل u کو اپنا دشمن نمبر ایک قرار دیتے تھے کیونکہ وہ وحی کے ذریعے انکی سازشیں تمام عالم پر آشکار کرتے تھے اور کیونکہ ان کے بقول حضرت جبریل ؑنے نبوت کے لئے کسی غلط ہستی ﷺ کا انتخاب کیا تھا۔ (نعوذباللہ)
(۲۲) جادو سیکھتے اور سکھاتے تھے اور اس کے ذریعے سے میاں بیوی میں تفرقے ڈالتے تھے۔ جادو کو جناب سلیمان علیہ السلام سے منسوب کرتے تھے حالانکہ قرآن کہتا ہے کہ ان کا جادو سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔
(۲۳) حضور e کو مخاطب کرنے کے لئے ''راعنا'' کا لفظ استعمال کرتے تھے (یعنی ذرا ہماری بات سنئے) لیکن عادت کے مطابق آواز دبا کر ''راعنا'' کو ''راعینا'' کردیتے تھے جس کا مطلب ہے نعوذباللہ (اے ہمارے چرواہے)۔ تنبیہ کے باوجود وہ اس سے باز نہ آئے۔
(۲۴) قرآن پاک میں جب کسی سابقہ حکم کو منسوخ کیا جاتا تھا تو اس منسوخی پر اعتراض کرتے تھے۔
(۲۵) اپنے پیغمبروں اور خود حضور اقدس ﷺ سے کرید کرید کر سوالات کرتے تھے۔ نہ صرف وہ بلکہ خود مسلمانوں کو بھی اس کام پر اکساتے تھے۔
(۲۶) امان دیئے جانے کے باوجود خیبر میں بیٹھ کر مدینے کو تباہ کرنے کے منصوبے بناتے تھے۔
(۲۷) جھوٹ کے لئے کان لگاتے تھے اور دوسرے لوگوں کی خاطر سُن گن لیتے پھرتے تھے۔
(۲۸) کتاب اللہ کے الفاظ کو ان کا صحیح محل متعین ہونے کے باوجود اصل معنی سے پھیر دیتے تھے۔
(۲۹) لوگوں سے کہتے پھرتے تھے کہ اگر تمہیں فلاںحکم دیا جائے تو مانو نہیں تو نہ مانو۔
(۳۰) وہ لوگوں کو ہمیشہ اللہ کے راستے سے روکتے تھے۔
(۳۱) سود لینے دینے پر مرتے مٹتے تھے۔
(۳۲) لوگوں کے مال ناجائز طریقوں سے کھاتے تھے۔
(۳۳) انہوں نے دو مرتبہ زمین میں فساد عظیم برپا کیا۔
(۳۴) دشمن پر غلبے کے لئے نبی سیموئیل ؑ سے ایک بادشاہ مقرر کرنے کی درخواست کی لیکن جب انہوں نے حضرت طالوت کو بادشاہ مقرر کردیا تو اس پر سخت اعتراض کیا ۔
(۳۵) اپنے نبیوں پر دوسروں کی بیویوں کو تانک جھانک کرنے 'ان سے اور اپنی بہن سے نعوذ بااللہ بدکاری کرنے کے الزامات بھی بلا جھجک لگاتے تھے ۔
(۳۶) نبی اکرم e پر جادو کیا اور ایک بھاری چٹان کے ذریعے آپ e کو ہلاک کرنے کی کوشش کی۔
(۳۷) جب سیدنا موسیٰ u نے یہودیوں کو فلسطین کے حکمران کے خلاف جنگ کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ''موسیٰ ہم وہاں ہرگز داخل نہیں ہوں گے جب تک وہ لوگ وہاں ہیں۔ آپ جائیں اور آپ کا رَبّ جائے ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے (المائدہ:۲۴)۔
یہودیوں کے جرائم کی یہ ایک مختصر جھلک ہے جو ہم نے قرآن پاک کی سورئہ بقرہ (پارہ اول) کی آیات ۴۹ تا ۱۲۳ ، سورۂ مائدہ آیت ۴۱، سورئہ نساء آیات ۱۶۱ تا ۱۵۹ اور سورئہ بنی اسرائیل آیت ۵ سے اخذ کی ہیں۔ سورئہ بقرہ گویا بنی اسرائیل کی فرد جرم کا ایک دوسرا نام ہے۔ بنی اسرائیل کی عمر کم و بیش ۴ ہزار سال ہے۔ لیکن مندرجہ بالا جرائم پڑھ کر نظر آتا ہے کہ سچائی، فرمانبرداری اور شکر گزاری اس قوم کے قریب سے بھی نہیں گزری۔ ظاہر ہے کہ جب کسی قوم کی نفسیات میں اجتماعی طور پر ظلم و فساد بھرا ہوا ہو تو وہ آج بھی اپنی پست کرداری سے کیسے باز رہ سکتی ہے؟ خواہ اس کے ہاں کتنے ہی علماء موجود ہوں یا علم و فضل کے افراد کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہوں۔ یہ ان کی اسی ٹیڑھ کا نتیجہ تھا کہ انہیں بار بار تباہ و برباد کیا گیا۔ یہودی قوم کی تباہی و بربادی کی تاریخ کا ایک سرسری جائزہ سورئہ بنی اسرائیل (پارہ نمبر ۱۵ آیات ۵ تا ۸) میں کیا گیا ہے جس کی تفسیر کے ذریعے اس کی تاریخ بہت واضح ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے۔
کسی زمانے میں وہ اللہ تعالیٰ کی بہت پسندیدہ قوم تھی لیکن اُن کے گھناؤنے جرائم کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے اِسے امامت کے منصب سے ہمیشہ کے لئے معزول کر دیا۔ تاہم چونکہ وہ قرآن پاک کو نہیں مانتے اس لئے اپنی معزولی کو بھی وہ تسلیم نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم آج بھی اللہ تعالیٰ کی سب سے چہیتی (Chosen) قوم ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
یہودیوں کے نزدیک دجال کا مقام
فتنہ مسیح الدجال دنیا کا ایک ہولناک فتنہ ہے۔ اس فتنے سے آگاہی کے لئے نبی کریم ﷺ نے بے شمار ارشادات فرمائے ہیں۔ جن میں سے چند یہ ہیں۔
(۱) کوئی نبی ایسا نہیں ہے جس نے اپنی امت کو کانے کذاب (دجال) سے نہ ڈرایا ہو۔ (متفق علیہ )
(۲) جناب آدم u کی پیدائش سے قیامت کے وجود تک دجال سے بڑا کوئی واقعہ نہیں ہو سکتا۔ (مسلم)۔
(۳) ام المومنین حضرت زینب ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ ایک دن میرے ہاں گھبرائے ہوئے تشریف لائے اور فرمایا ''لا الہ الا اللہ ، خرابی ہے عرب کے لئے اس آفت سے جو قریب آگئی ہے۔ آج یاجوج ماجوج کے بند میں اتنا شگاف پڑ گیا ہے'' یہ فرماتے ہوئے آپ نے اپنے انگوٹھے اور ساتھ والی انگلی کو ملا کر حلقہ بنایا۔ حضرت زینب ؓ نے سوال کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا ہم اس کے باوجود ہلاک ہوجائیں گے کہ نیک لوگ موجود ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ''ہاں (کیونکہ) اس وقت خباثت بڑھ جائے گی۔'' (بخاری)۔
اس کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ دجال کو مسیح کیوں کہا جاتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہودی اسے اپنے دین کا زندہ کرنے والا سمجھتے ہیں۔ یہودیوں کے نزدیک دجال ان کا مسیحا اور نجات دہندہ ہے۔ اس کی ایک اور وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی طرح دجال بھی مردہ انسانوں کو زندہ کر سکے گا۔ چنانچہ اس مضمون میں ہم یہودیوں کا تعلق دجال کے حوالے سے دیکھنے کی کوشش کریں گے۔ (واضح رہے کہ احادیث کے مطابق دجال بذات خود یہودی فرد ہو گا)۔
جب یہودیت نے توحید، رسالت اور آخرت ہر ایک حقیقت سے اپنا رشتہ توڑ لیا حتیٰ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جو انہی کو راہ ہدایت دکھانے کے لئے بھیجے گئے تھے۔ اپنی دانست میں صلیب پر چڑھا دیا تو ان کا رشتہ اپنے انبیاء سے ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا۔ چنانچہ وہ خوب جانتے ہیں کہ اللہ کے ہاں، فرشتوں کے ہاں، آسمانوں اور زمین میں ان کے لئے اب کوئی گنجائش نہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اب ان کے لئے کوئی مسیح نہیں آئے گا اور جو آئے گا وہ ان کے لئے قہر بن کر آئے گا۔
چنانچہ انہوں نے اپنے دفاع کی خاطر 68 عیسوی میں دجال کو اپنا مسیحا تصور کرلیا اور اسی تصور کو وہ آج تک پروان چڑھا رہے ہیں۔ ان کے اس تصور میں اللہ اور اللہ کے فرشتوں سے مایوسی، ساری دنیا سے غصہ، اپنی طاقت اور ابلیس اور اس کے دجالوں کی مدد سے کھوئی ہوئی چیزوں (بشمول ہیکل سلیمانی) اور آئندہ کی بشارتوں کو حاصل کرنے کی کوشش شامل ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
یہودیوں کے تصور مسیحا کی بنیادیں یہ ہیں :
(۱) اللہ تعالیٰ یہودیوں کی مصیبتوں کے خاتمے اور ان کی سربلندی کے لئے مسیح بھیجے گا۔
(۲) یہ مسیح ان کے موجودہ دین کی تصدیق کرے گا۔
(۳) جو اس موجودہ دین کی توثیق نہیں کرے گاوہ جھوٹا مسیح اور قابل گردن زدنیہوگا۔
(۴) وہ عیسیٰ ابن مریم ؑجو مسیح بن کر آئے تھے اور جسے انہوں نے (یہودیوں نے) ان کے بقول صلیب دے دیا تھا اور اب جن کے آنے کی عیسائی اور مسلمان خبر دیتے ہیں وہ ان کا دشمن ہو گا لہٰذا وہ مسیح نہیں (نعوذباللہ) دجال Anti-Christہے۔
(۵) اب چونکہ عرش سے زمین تک یہودیوں کے لئے کوئی مددگار نہیں ہے۔ اس لئے اب تمام بشارتوں کے حصول کے لئے واحد امید وہ دجال ہے جو مسیح بن کر آئے گا لہٰذا وہ دجال ہی ان کا مسیح ہے۔ (حضرت عیسیٰ ؑکو نعوذباللہ وہ دجال (Anti Christ) اور دجال کو وہ مسیح کہتے ہیں۔
(۶) ان کے قدیم صحیفوں کے مطابق دجال کی حکومت مسیح کی حکومت ہے۔ اس کی حکومت کا دن خدا کا دن ہے۔ وہی اسرائیل کی نجات کا دن ہے۔ اسی روز ہیکل مکمل تعمیر ہو گا اور اسی دن صیہون آباد ہو گا۔
اس تصور مسیح کی بنیاد پر یہودی تین راستوں سے پیش قدمی کر رہے ہیں۔
(i) روحانی، ذہنی اور نفسیاتی طور پر ویسی دنیا بنانا جیسی مسیح ان کے لئے بناتا (چنانچہ ذہنی طور پر وہ دنیا پر پہلے ہی غلبہ پاچکے ہیں)
(ii) مادی طور پر ویسی دنیا بنانا جیسی مسیح ان کے لئے بناتا۔ (خلافت کا خاتمہ، اقوام متحدہ کا قیام، اسرائیل کا قیام اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر وغیرہ اسی ضمن کے اقدام ہیں)۔
(iii) معاشی طور پر ساری دنیا کو اپنے شکنجے میں کس لینا اور انہیں اپنا محتاج بنا دینا۔
وہ چاہتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ توڑ کر وہاں ہیکل سلیمانی تعمیر کریں تاکہ ان کا آنے والا مسیحا وہاں بیٹھ کر حکمرانی کر سکے۔
دجال کی اس تفصیل کے بعد اب ہم کچھ چشم کشا حقائق پیش کرتے ہیں جو ممکن ہے قارئین کو جھنجوڑ دیں اور حساس دلوں کو آمادہ عمل کردیں۔
٭ امریکہ وہ دوسری یہودی ریاست ہے جو یہودیوں کی دربدری کے 1700 سال بعد زمین پر قائم ہوئی۔ امریکہ کے قیام کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ کرۂ ارض سے خلافت اسلامیہ کا خاتمہ کردیا جائے، فلسطین پر قبضہ کیا جائے، عظیم اسرائیلی سلطنت قائم کی جائے اور مسجد اقصیٰ کو ڈھا کر ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی جائے۔
٭ امریکہ کی معروف سرکاری مہر اور نشان دراصل مشہور یہودی تنظیم فری میسن کی مہر اور نشان کی نقل ہے۔
٭ پینٹاگون جو امریکی افواج کا سپریم ہیڈ کوارٹر ہے۔ فری میسنوں کے مطابق یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی مُہر یا ڈھال کا نام ہے۔
٭ صدر امریکہ کی رہائش گاہ ''وہائٹ ہاؤس'' بھی یہودیوں کی ایک تصوراتی مقدس آبادی کا دوسرا نام ہے۔ یہودی اس مقدس آبادی کو CASABLANKA بھی کہتے ہیں یعنی ''قصر ابیض'' ۔ اور وہائٹ ہاؤس کے معنی بھی قصر ابیض ہی ہیں۔
٭ برطانیہ بھی یہودیوں کی ریاست کا دوسرا نام ہے۔ یہ یہودیوں کی پہلی غیر اعلانیہ مملکت ہے۔
٭ لارڈ بالفور جس نے فلسطین پر قبضے کا معاہدہ ''بالفور ڈکلیئریشن'' پیش کیا جس کی بنیاد پر آج اسرائیلی ریاست قائم ہے۔ وہ برطانوی حکومت ہی کا وزیرخارجہ تھا۔
یہ وہ چند حقائق ہیں جو صیہونیت کی درپردہ تصویر پیش کرتے ہیں صیہونیت کی تحریک دنیا میں کسی اسلامی ملک اور کسی اسلامی تحریک کو زندہ نہیں رہنے دینا چاہتی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کیا دجال کی آمدکے لئے اسٹیج تیار ہو رہا ہے؟


چونکہ دجال کی آمد ایک اہم موضوع ہے اس لئے ہمیں اس کا بہت باریک بینی سے جائزہ لینا ہو گا۔ اس سلسلے میں ہم پہلے یہودیوں کے تصور دجال پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
(۱) یہودی دجال کو اپنا مسیح مانتے ہیں جو آ کر دنیا میں ان کی عالمی حکومت قائم کرے گا اور انہیں دنیا میں سرفرازی و سربلندی عطا کرے گا۔
(۲) یہ دجال ان کے موجودہ دین کی توثیق کرے گا۔
(۳) اسکے ذریعے سے ان کی موجودہ مصیبتوں کے دور ختم ہوجائیں گے۔
چنانچہ وہ بڑی شدت و بے چینی سے دجال مسیح کی آمد کے منتظر ہیں اور اس کی آمد کے لئے بے تابانہ دعائیں مانگتے ہیں۔ کتاب دانیال باب ۲ آیت ۴۰ میں لکھا ہوا ہے کہ ''اور چوتھی مملکت لوہے کی طرح مضبوط ہوگی لوہے سے تو ساری چیزیں چور چور ہوجاتی اور پس جاتی ہیں لہٰذا جس طرح لوہے سے وہ سب کچلی جاتی ہیں اسی طرح اس چوتھی مملکت سے سب کچھ چور چور ہو کر پس جائے گا۔''لہٰذا وہ اسی چوتھی حکومت کے انتظار میں ہیں۔
دوسری طرف حضور eنے بھی دجال کی آمد کی پیشین گوئی متعدد ارشادات میں بہت واضح طور پر فرمائی ہے۔ مثلاً آپ e نے فرمایا :
(۱) لوگ دجال سے خوف کھا کر بھاگیں گے اور پہاڑوں میں پناہ لیں گے۔ اس دن دجال کے ساتھی کروڑوں میں ہوں گے۔ (مسلم)
(۲) میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے اور یہ کہ وہ اترنے
والے ہیں۔ پس جب تم ان کو دیکھو تو پہچان لینا۔ وہ ایک درمیانے قد کے آدمی ہیں۔ رنگ سرخی و سفیدی مائل ہے۔ وہ زرد رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہوں گے ان کے سر کے بال ایسے ہوں گے گویا ابھی ان سے پانی ٹپکنے والا ہے۔ حالانکہ وہ بھیگے ہوئے نہ ہوں گے۔ وہ اسلام کے لئے لوگوں سے جنگ کریں گے۔ صلیب کو پاش پاش کردیں گے۔ سور کو قتل کردیں گے اور جزیہ ختم کردیں گے، اللہ اس زمانہ میں اسلام کے سوا تمام ملتوں کو مٹا دے گا۔ وہ مسیح دجال کو ہلاک کردیں گے اور زمین میں چالیس سال تک زندہ رہیں گے۔ پھر ان کا انتقال ہوجائے گا اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔ (ابو داؤد)
(۳) اسی دوران کہ دجال یہ کچھ کررہا ہو گا اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم ؑ کو بھیج دے گا اوروہ دمشق کے مشرقی حصے میں سفید مینار کے پاس دو فرشتوں کے بازوؤں پر اپنے ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے۔ ان کے سانس کی ہوا جس کافر تک جائے گا (اور وہ ان کی حد نگاہ تک جائے گی) تو وہ زندہ نہ بچے گا پھر ابن مریم ؑ دجال کا پیچھا کریں گے اور لُد کے دروازے پر اس کو جا پکڑیں گے اور پھر اس کو قتل کردیں گے۔ (مسلم و ترمذی)
واضح رہے کہ لُداس وقت تل ابیب سے چند میل کے فاصلے پر اسرائیل کا ایک بڑا فوجی ایئرپورٹ ہے۔ نبی مکرم e نے ڈیڑھ ہزار سال پہلے اس وقت لُد کا ذکر فرمایا تھا جب اسرائیل کا کوئی وجود بھی نہ تھا۔ لُد کا شہر آج کل شام اور موجودہ اسرائیل کی سرحد پر آخری شہر ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کیا دجال کی آمد
کے لئے اسٹیج تیار ہو رہا ہے؟
چونکہ دجال کی آمد ایک اہم موضوع ہے اس لئے ہمیں اس کا بہت باریک بینی سے جائزہ لینا ہو گا۔ اس سلسلے میں ہم پہلے یہودیوں کے تصور دجال پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
(۱) یہودی دجال کو اپنا مسیح مانتے ہیں جو آ کر دنیا میں ان کی عالمی حکومت قائم کرے گا اور انہیں دنیا میں سرفرازی و سربلندی عطا کرے گا۔
(۲) یہ دجال ان کے موجودہ دین کی توثیق کرے گا۔
(۳) اسکے ذریعے سے ان کی موجودہ مصیبتوں کے دور ختم ہوجائیں گے۔
چنانچہ وہ بڑی شدت و بے چینی سے دجال مسیح کی آمد کے منتظر ہیں اور اس کی آمد کے لئے بے تابانہ دعائیں مانگتے ہیں۔ کتاب دانیال باب ۲ آیت ۴۰ میں لکھا ہوا ہے کہ ''اور چوتھی مملکت لوہے کی طرح مضبوط ہوگی لوہے سے تو ساری چیزیں چور چور ہوجاتی اور پس جاتی ہیں لہٰذا جس طرح لوہے سے وہ سب کچلی جاتی ہیں اسی طرح اس چوتھی مملکت سے سب کچھ چور چور ہو کر پس جائے گا۔''لہٰذا وہ اسی چوتھی حکومت کے انتظار میں ہیں۔
دوسری طرف حضور eنے بھی دجال کی آمد کی پیشین گوئی متعدد ارشادات میں بہت واضح طور پر فرمائی ہے۔ مثلاً آپ e نے فرمایا :
(۱) لوگ دجال سے خوف کھا کر بھاگیں گے اور پہاڑوں میں پناہ لیں گے۔ اس دن دجال کے ساتھی کروڑوں میں ہوں گے۔ (مسلم)
(۲) میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے اور یہ کہ وہ اترنے
والے ہیں۔ پس جب تم ان کو دیکھو تو پہچان لینا۔ وہ ایک درمیانے قد کے آدمی ہیں۔ رنگ سرخی و سفیدی مائل ہے۔ وہ زرد رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہوں گے ان کے سر کے بال ایسے ہوں گے گویا ابھی ان سے پانی ٹپکنے والا ہے۔ حالانکہ وہ بھیگے ہوئے نہ ہوں گے۔ وہ اسلام کے لئے لوگوں سے جنگ کریں گے۔ صلیب کو پاش پاش کردیں گے۔ سور کو قتل کردیں گے اور جزیہ ختم کردیں گے، اللہ اس زمانہ میں اسلام کے سوا تمام ملتوں کو مٹا دے گا۔ وہ مسیح دجال کو ہلاک کردیں گے اور زمین میں چالیس سال تک زندہ رہیں گے۔ پھر ان کا انتقال ہوجائے گا اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔ (ابو داؤد)
(۳) اسی دوران کہ دجال یہ کچھ کررہا ہو گا اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم ؑ کو بھیج دے گا اوروہ دمشق کے مشرقی حصے میں سفید مینار کے پاس دو فرشتوں کے بازوؤں پر اپنے ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے۔ ان کے سانس کی ہوا جس کافر تک جائے گا (اور وہ ان کی حد نگاہ تک جائے گی) تو وہ زندہ نہ بچے گا پھر ابن مریم ؑ دجال کا پیچھا کریں گے اور لُد کے دروازے پر اس کو جا پکڑیں گے اور پھر اس کو قتل کردیں گے۔ (مسلم و ترمذی)
واضح رہے کہ لُداس وقت تل ابیب سے چند میل کے فاصلے پر اسرائیل کا ایک بڑا فوجی ایئرپورٹ ہے۔ نبی مکرم e نے ڈیڑھ ہزار سال پہلے اس وقت لُد کا ذکر فرمایا تھا جب اسرائیل کا کوئی وجود بھی نہ تھا۔ لُد کا شہر آج کل شام اور موجودہ اسرائیل کی سرحد پر آخری شہر ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(7) یہودی چاہتے ہیں کہ دجال کی آمد سے پہلے یروشلم میں اپنی عبادت گاہ ہیکل سلیمانی تعمیر کردی جائے۔ ان کے مطابق حضرت سلیمان ؑ نے یروشلم میں مسجد اقصیٰ نہیں بلکہ ہیکل سلیمانی تعمیر کی تھی پھر بعد کے مسلم حکمرانوں نے اسے توڑ کر مسجد اقصیٰ تعمیر کر لی ہے۔ 1985ء کے بعد سے تو ہر مہینے ایسی کارروائی پکڑی جاتی ہے جس کا مقصد مسجد اقصیٰ کو ڈھا دینا ہے۔ 1999ء تک یہ کوششیں کم از کم 100 مرتبہ ہوچکی ہیں۔ رابرٹ آئی ویڈمین نے THE VILLAGE VOICE کے 1985ء کے ایک شمارے میں لکھا تھا کہ (مسجد اقصیٰ کا ایک ماڈل تیار کیا گیا اسے تباہ کرنے کے طریقوں کو جانچا گیا اور صحرا میں دھماکہ کا تجربہ کیا گیا تاکہ یہ دیکھا جائے کہ جب مسجد اقصیٰ ڈائنامائٹ سے اڑائی جائے گی تو وہ کس جانب گرے گی اور اس کے ٹکڑے کس طرح گریں گے؟) یہ تجربہ اس لئے بھی کیا گیا تاکہ دیکھا جا سکے کہ اس دھماکے سے قریب ہی موجود ان کی متبرک دیوار (دیوار گریہ) تو کہیں متاثر نہیں ہوتی ہے۔
(8) اس ضمن میں یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ یہودی اسرائیل میں ایسے ہزاروں درخت پیشگی طور پر لگا رہے ہیں جو جناب عیسیٰ u کی آمد کے بعد بقول نبی مکرم e، ان کیلئے عارضی پناہ گاہ کا کام دیں گے۔ اس درخت کے بارے میںآپ e نے فرمایا تھا کہ وہ بیت المقدس میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس درخت کا نام آپ e نے ''الغرقد '' فرمایا تھا۔ (متفق علیہ کتاب الفتن)
(9) 1948ء تا 1967ء جب تک یروشلم (ایلیاہ) ان کے قبضے میں نہیں آیا تھا یہودی ہر روز یہی دعا کرتے تھے کہ (خدایا اگلا سال یروشلم میں!) پھر جب یروشلم ان کے قبضہ میں آگیا تو اب وہ ہر روز یہ دعا کرتے ہیں کہ خدایا ہمارا مسیح جلد آئے۔
 
Top