• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معزز مفتیان کے تفصیلی فتاویٰ جات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
معزز مفتیان کے تفصیلی فتاویٰ جات

(۱)
مولانا محمد اَصغر​
الحمد ﷲ رب العالمین والصلاۃ والسَّلام علی سید الأنبیاء والمرسلین وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین أما بعد:
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے اپنے آخری رسول ﷺ پراپنا صحیفہ ہدایت قرآن مجید کی شکل میں اتاراہے اوروہ لفظ ومعنی دونوں اعتبارسے تیسیروسہولت سے مزین وآراستہ ہے اوریہ تیسیر وآسانی قیامت تک کے لوگوں کے لئے ہے اس عملی سہولت وآسانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک طرف فرمایا ’’طٰہٰ مَا أنْزَلْنَا عَلَیکَ القُرْآنَ لِتَشْقٰی إلاَّتَذْکِرَۃً لِمَنْ یَخْشٰی ‘‘
’’ ہم نے آپ پر قرآن اس لیے نہیں اتارا کہ آپ پر بھاری ہوجائے۔ یہ تو ڈرنے والے کے لیے نصیحت ہے۔‘‘
دوسر ی طرف فرمایا:’’وَلَقَدْ یَسَّرْنَاالقُرآنَ لِلْذِّکْرِفَہَلْ مِنْ مُدَّکِر ‘‘ [القمر: ۲۲]
’’ہم نے قرآن مجید (پڑھنا اور سمجھنا)سمجھنے اوریاددہانی کے لئے آسان کردیا ہے کوئی ہے یاددہانی حاصل کرنے والا!۔‘‘
اوراس کے پڑھنے اورسہولت کے ساتھ ساتھ سمجھنے کے لئے فرمایا :
’’فَإِنَّمَا یَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ المُتَّقِینَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَومًا لُدَّا‘‘ (مریم :۹۷)
’’سوہم نے اسے تیری زبان کے ذریعہ آسان کردیاہے تاکہ آپ اس کے ذریعے حدود الٰہی کی پابندی کرنے والوں کوبشارت دیں اورجھگڑالو لوگوں کو آگاہ کردیں۔‘‘
جس طرح عملی تیسیر وآسانی کے لئے آپ نے اپنے قول وفعل سے قرآن کی توضیح وتشریح فرمائی ہے اسی طرح پڑھنے میں سہولت وآسانی کے لئے سبعہ احرف میں پڑھنے کی اجازت فرمائی ہے ۔ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ
’’أتاہ جبرائیل علیہ السلام فقال إن اﷲ یأمرک أن تقریٔ أمتک القرآن علی حرف فقال اسئل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ وإن أمتی لا تطیق ذلک ثم أتاہ الثانیۃ فقال إن اﷲ یأمرک أن تقریٔ أمتک القرآن علی حرفین فقال اسئل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ وإن أمتی لاتطیق ذلک ثم جاء ہ الثالثۃ فقال إن اﷲ یأمرک أن تقریٔ أمتک القرآن علی ثلاثۃ أحرف فقال اسئل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ وإن أمتی لا تطیق ذلک ثم جاء ہ الرابعۃ فقال إن اﷲ یأمرک أن تقریٔ أمتک القرآن علی سبعۃ أحرف فأیما حرف قرء وا علیہ فقد أصابوا‘‘ (صحیح مسلم :۸۲۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:
(إن ہذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فاقرء وا ما تیسر منہ ) (صحیح البخاري:۴۹۹۲) یہ تمام حروف نبی اکرم ﷺنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوسکھلائے اورصحابہ کرام نے ان حروف کی تلاوت کی۔اورآپ کے دورمیں اگر مختلف حروف میں قراء ت کرنے والوں کا اختلاف ہوا توآپ نے دونوں کی قراء ت سن کر فرمایا: ’کلاہما محسن‘دونوں خوب کار ہواور فرمایا ایسے امور میں اختلاف نہ کرو اس قسم کا اختلاف پہلی امتوں کی تباہی کا باعث بنا ہے۔(صحیح البخاري:۲۴۱۰)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی لفظی معنوی حفاظت کاوعدہ فرمایاہے ’’إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَاالذِّکْرَوَإِنَّا لَہُ لَحٰفِظُونَ‘‘ (الحجر:۹)اس لئے قرآن مجید کے الفاظ میں کمی وبیشی کاامکان نہیں ہے فرمایا ’’لَا یَأتِیہِ البَاطِلُ مِنْ بَینِ یَدَیہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیلٌ مِنْ حَکِیمٍ حَمِیدٍ ‘‘ (حم السجدۃ ۴۲) قرآن مجید کاجیسے نزول ہوا اسی طرح محفوظ ہے اوریہ حفاظت سینوں اورسفینوں دونوں میں موجود ہے ۔
مشہورقراء اتیں (سبعہ یاعشرہ وغیرہ )اسی طرح معروف ومشہور قراء کرام کی طرف منسوب ہیں جس طرح اَحادیث شریفہ کے مجموعے ان کے مدوّنین اورمحدثین کی طرف منسوب ہیں۔مثلا بخاری شریف میں مکتوب احادیث کوامام بخاری رحمہ اللہ کی طرف منسوب کردیاجاتاہے اورصحیح مسلم کے مجموعہ کوامام مسلم کی طرف۔یہی صورت حال دوسرے مجموعوں کی ہے حالانکہ یہ تمام احادیث رسول اکرم ﷺ کے فرمودات ہیں،لیکن ان محدثین رحمہم اللہ کے مجموعوں کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں اس لئے ان کی نسبت محدثین رحمہم اللہ کی طرف کردی جاتی ہے اسی طرح یہ قراء ات قراء کرام سے منقول نہیں بلکہ ان قراء کرام کی وساطت سے ہم تک پہنچی ہیں اسلئے ان قاریوں کی طرف منسوب کردی گئی ہیں یہ مقصد نہیں ہے کہ یہ انہوں نے اپنے طورپیداکردی ہیں اورنبی اکرمﷺ سے ان کا کوئی تعلق یاواسطہ نہیں ہے۔
نبی اکرمﷺسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن مجید سیکھااور بلغوا عني ولو آیۃکے پیش نظر اس امانت کوآگے منتقل کیاہے اوریہ امانت امت کے تواترسے بفضل اللہ تعالی محفوظ اورموجود ہے اوراس کی صراحت ائمہ محدثین رحمہم اللہ اور فقہاء نے اپنی تحریرات میںفرمائی ہے ۔ کما ہو البین في موضعہ
قراء ات کا انکار اسلام کے خلاف اٹھنے والی سازشوں کی ایک کڑی ہے جب کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ تمام قراء ات جو اُمت کے عملی اور علمی تواترسے ثابت ہیں سب کی سب صحیح اورقرآن مجید ہیں ان میں کسی متواترقراء ت کاانکاردرحقیقت قرآن مجید کا انکار ہے، مثلا اگربلاد مشرق میں امام حفص رحمہ اللہ کی قراء ۃ پڑھی جاتی ہے توبلادِ مغرب میں روایت ورش یاروایت حمزہ کا رواج ہے ان میں سے کسی ایک کو صحیح اوردوسری کوغلط قراردینے کی صورت میں قرآن مجید کی ایک قراء ت کاانکار لازم آئے گااور اس طرح قراء ات کے انکارسے قرآن مجید میں شکوک وشبہات پید اکرنے کی مستشرقین کی سازش کوپنپنے کا موقع ملے گا۔
خلاصۂ کلام یہ کہ اُمت مسلمہ کے تواترسے ثابت تمام قراء ات اپنے تمام حروف اورشکلوں اور ہیئات کے ساتھ قرآن مجید ہیں ان میں سے کسی ایک کا انکار اُمت مسلمہ کے تواترکا انکار ہے جو اتباع غیر سبیل المؤمنین ہونے کی وجہ سے ضلالت وگمراہی ہے اور ایک اعتبار سے قرآن مجید کے انکار کے مترادف ہے ۔
لہٰذا مسلمان اہل علم کوچاہیے کہ اس سازش کوبے نقاب کرنے کے لئے میدان عمل میں آئیں۔اوراس مکروہ سازش کا سیاہ پردہ چاک کیاجائے۔اسلام تواتناہی ابھرے گا جتناکہ دبانے کی ناروا کوشش کی جائے گی ’’ یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوا نُورَ اﷲِ بِاَفْوَاہِہِم وَاﷲُ مُتِمُّ نُورِہٖ وَلَوکَرِہَ الکٰفِرُونَ‘‘(الصف ۲۸)
(رئیس الافتاء) مولانا عبدالعزیز علوی (رکن) مولانا حافظ مسعود عالم صاحب
(رکن)مولانا محمد یونس صاحب (رکن) مولانا عبدالحنان زاہد صاحب
(دار الافتاء جامعہ سلفیہ، فیصل آباد)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(۲)​
الحمد ﷲ الذی أنزل علی سبعۃ أحرف القرآن لیتمیز بھا أھل الجنان من أھل الخسران وجعلھا حجۃ علی أھل الشک والزیغ والنکران۔ أما بعد:
دین اسلام ایک مکمل اور جامع نظام حیات ہے جس کا منبع و مصدر قرآن و سنت ہے، دین اسلام جہاں اللہ کے ہاں مقبول دین ہے وہاں اپنے خصائص تیسیر و آسانی اور وضاحت و تبیین کی وجہ سے مخلوق کے ہاں بھی مقبول و قابل عمل ہے۔ سرتاج رُسلﷺ نے اس خصوصیت کااظہار یوں فرمایا: (بُعِثْتُ بِالحَنِیفِیَّۃِ السَّمْحَۃِ) ’’میں یک رو (واضح)اور آسان دین کے ساتھ مبعوث کیاگیاہوں۔‘‘ (المسند:۵؍۲۲۳۴۵، و معجم الکبیر:۸؍۷۸۸۳)
چنانچہ آپﷺ نے اُمت کے لیے عملی میدان میں آسانی کے مختلف پہلو پیش کئے جیسا کہ طہارت وپاکیزگی میں آسانی کا رویہ پیش کرتے ہوئے فرمایا: (إن بنی اسرائیل کان إذا أصاب ثوب أحدھم قرضہ)’’بنی اسرائیل کے کپڑوں کو جب نجاست لگتی تو وہ (پاکیزگی کے لیے اتنا)کپڑا کاٹ دیتے‘‘ (صحیح البخاري:۲۲۶) جب کہ اُمت محمدیہ کے لیے پانی کومطہر بنادیا ہے۔ عبادات میں آسانی کو باور کراتے ہوئے فرمایا: (وجعلت لی الأرض مسجدا وطھورا وأیما رجل من أمتی أدرکتہ الصلاۃ فلیصل)’’اور زمین میرے لیے پاک اور مسجد بنا دی گئی ہے اس لیے میری اُمت کے جس فرد کی نماز کا وقت (جہاں بھی) ہوجائے وہ اسے ادا کرلے۔‘‘ (صحیح البخاري: ۴۳۸، صحیح مسلم:۵۲۱) اور بیمار صحابی عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو فرمایا: ( صل قائما فإن لم تستطع فقاعدا فإن لم تستطع فعلی جنب) ’’کھڑے ہوکر نماز پڑھیے، اگر اتنی طاقت نہیں تو بیٹھ کر اور اگر اتنی بھی طاقت نہیں تو پہلو پر لیٹ کر پڑھ لیجئے۔‘‘ (صحیح البخاری:۱۱۱۷ والترمذی:۳۷۲، والارواء:۲۹۹) آسانی کے اس تسلسل کوبڑھاتے ہوئے یوں حکم فرمایا:(إذا اشتد الحرّ فأبردوا بالصلاۃ)’’جب گرمی سخت ہوتو نماز کو ٹھنڈا کرلیاکرو۔‘‘ (صحیح البخاری: ۵۳۶، صحیح مسلم:۶۱۵)
اوراُمت کے لیے نفلی عبادات میں آسانی کاعملی اُسوہ بھی پیش کیا۔ جیساکہ عبداللہ بن عامررضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ:’’رأیت النبی! یصلی علی راحلتہ حیث توجھت بہ‘‘(صحیح البخاري:۱۰۹۳) ’’میں نے رسول اللہﷺکو دیکھاکہ آپ اپنی سواری پرنماز پڑھ رہے تھے، سواری جدھر کابھی رخ کرلیتی۔‘‘بلکہ اُمت کی آسانی اور سہولت کاخیال کرتے ہوئے بارش اورٹھنڈی راتوں میں آپ مؤذن کو حکم فرماتے کہ اذان کے آخر میں کہہ دو ’’ألا صلوا في الرحال‘‘ ’’اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو۔‘‘(صحیح البخاري:۶۶۶) اور معاشرتی زندگی میں سہولت کو فروغ دینے کے لیے عورت کے مخصوص ایام میں اُمت کو یہودیوں کی شدت سے بچاتے ہوئے یوں رہنمائی فرمائی: ( اصنعوا کل شيء إلا النکاح) ’’سوائے مجامعت کے تم قربت کرسکتے ہو۔‘‘ (صحیح مسلم :۳۰۲، ابن ماجہ:۶۴۴)حتیٰ کہ آسانی اور سہولت کی انتہا اس فرمان سے کردی۔ (إن اﷲ عز وجل تجاوز لأمتی عما حدثت بہ أنفسھا ما لم تعمل أو تکلم بہ) ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے میری اُمت کے دل میں پیداہونے والے خیالات سے اس وقت تک تجاوز کیاہے جب تک کہ وہ زبان پر نہ آئیں یااس کے مطابق عمل نہ کرلیاجائے۔‘‘(صحیح البخاري:۲۳۹۱، ۴۹۶۸، ۶۲۸۷، صحیح مسلم:۳۲۷، ۳۲۸، سنن أبوداؤد:۲۲۰۹،سنن الترمذی:۱۱۸۳،سنن النسائی:۳۴۳۴، ۳۴۳۵، سنن ابن ماجہ:۲۰۴۰، ۲۰۴۴) اسی طرح استعاذہ کے مختلف الفاظ، نماز میں رفع الیدین کرنے کی کیفیات،سینے پر ہاتھ باندھنے کے مختلف طریقے، تشہد میں بیٹھنے کی کیفیات اور درود پڑھنے کے متنوع صیغے دین اسلام کی آسانی کا بین ثبوت ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
الغرض جہاں آسانی کے متنوع پہلوؤں کو پیش کیاوہاں ان کے منبع و مصدر قرآن مجید کو آسانی کامظہر بنایااور فرمایا: ’’وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ‘‘ ’’اور البتہ تحقیق ہم نے قرآن کو آسان کردیاہے ۔‘‘اور لسانی ادائیگیوں کی کلفتوں کو امت کے لیے تسہیلات میں بدلنے کے لیے ’’فَاِنَّمَا یَسَّرْنَاہُ بِلِسَانِکَ‘‘ ’’پس بے شک اس قرآن کو ہم نے آپ کی زبان کے ساتھ آسان کردیاہے،‘‘ کہہ کر پوری انسانیت کی آسانی کے لیے جبریلu کو اس وقت بھیجا جبکہ قرآن مجیدابتدائی تنزلات کی وادیوں کو طے کررہاتھا جس نے آکر کہا:
(إن اﷲ یأمرک أن تقریٔ أمتک القرآن علی حرف۔ فقال أسأل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ وإن أمتی لا تطیق ذلک ثم أتاہ الثانیۃ فقال إن اﷲ یأمرک أن تقریٔ أمتک القرآن علی حرفین فقال أسأل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ وإن أمتی لا تطیق ذلک ثم جاء ہ الثالثۃ فقال إن اﷲ یأمرک أن تقریٔ أمتک القرآن علی ثلاثۃ أحرف فقال أسأل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ وإن أمتی لا تطیق ذلک ثم جاء ہ الرابعۃ فقال إن اﷲ یأمرک أن تقریٔ أمتک القرآن علی سبعۃ أحرف فأیما حرف قروُا علیہ فقد أصابوا)(صحیح مسلم:۱۹۰۳،۱۹۰۴ سنن أبوداؤد: ۱۴۷۸، سنن الترمذي:۲۹۴۳، سنن النسائی: ۹۳۹، تحفۃ الأشراف:۱۰۵۹۱، ۱۰۶۴۲)
’’اللہ آپ کو حکم دیتے ہیں کہ آپ اپنی اُمت کو ایک حرف پر قرآن پڑھائیں۔آپﷺنے فرمایا: میں اللہ سے معافی اور بخشش کا طلب گار ہوں کیوں کہ میری اُمت ایک حرف پر پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ پھر جبریل علیہ السلام دوسری مرتبہ تشریف لائے اور فرمایا کہ اللہ آپ کوحکم دیتے ہیں کہ اپنی اُمت کودو حروف پر پڑھائیے۔ آپﷺنے پھر وہی جواب دیا کہ میں اللہ سے معافی اوربخشش کاطلب گار ہوں، کیونکہ میری اُمت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔جبریل علیہ السلام تیسری مرتبہ تشریف لائے اورفرمایا کہ آپ کے لیے اللہ کاحکم ہے کہ آپﷺاپنی اُمت کو تین حروف پر قرآن کریم پڑھایے۔ آپﷺنے پھر وہی جواب دیا۔ پھر چوتھی مرتبہ جبریل علیہ السلام نے آکر کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتے ہیں کہ آپ اپنی اُمت کو سات حروف پر پڑھائیں اور جس حرف پر وہ پڑھیں گے، درستگی کو پالیں گے۔‘‘
چنانچہ حکم ربانی کے تحت آپﷺنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ حروف سکھلائے جنہوں نے نماز اور خارج نماز میں اس کو معمول بنایاجیساکہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
(سمعت ہشام بن حکیم یقرأ سورۃ الفرقان فی حیاۃ رسول اﷲ! فاستمعت لقراتہ فإذا ھو یقرأ علی حروف کثیرۃ لم یقرئنیھا رسول اﷲ! فکدت أساورہ فی الصلوٰۃ فتصبرت حتی سلم…)
’’میں نے آپﷺکی زندگی میں ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کو سورۃ الفرقان کی تلاوت ایسے حروف پر کرتے سنا، جو آپﷺنے مجھے نہیں پڑھائے تھے، قریب تھا کہ میں انہیں نماز میں ہی کھینچ لیتا۔ پھر میں نے صبر کیا ، حتیٰ کہ انہوں نے سلام پھیرا۔‘‘
میں نے ان سے اس بارے میں تکرار کی۔پھر جب ہم یہ مسئلہ لے کر رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺنے ہمارا مؤقف سننے کے بعد فرمایا: (إن ھذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فاقرؤا ما تیسرمنہ)’’قرآن کریم سات حروف پر نازل کیاگیاہے، ان میں سے جو میسر ہو اس کے مطابق پڑھ لو۔‘‘ (صحیح البخاري:۴۹۹۲، ۵۰۴۱، ۲۴۱۹، ۳۹۳۶، ۷۵۵۰،صحیح مسلم:۱۸۹۶، ۱۸۹۷،سنن أبوداؤد:۱۴۷۵،سنن الترمذی: ۲۹۴۳،سنن النسائی:۹۳۵، ۹۳۶، ۹۳۷، تحفۃ الاشراف:۱۰۵۹۱، ۱۰۶۴۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
( کنت فی المسجد فدخل رجل یصلی فقرأ قراء ۃ أنکرتھا علیہ ثم دخل آخر فقرأ قراء ۃ سوَی قراء ۃ صاحبہٖ فلما قضینا الصلوٰۃ دخلنا علی رسول اﷲ! فقلت إن ھذا قرأ قراء ۃ أنکرتھا علیہ ودخل آخر فقرأ سوٰی قراء ۃ صاحبہٖ فأمرھما رسول اﷲ! فقرأ فحسن النبی! شأنھما…) (صحیح مسلم:۱۹۰۱، ۱۹۰۲، مسند أحمد:۵؍۱۲۷)
’’!’’میں مسجدمیں تھا کہ ایک آدمی آیا اور نماز پڑھنے لگ گیا۔ اس نے ایسی قراء ت کی جس کا مجھے علم نہیں تھا۔پھر ایک دوسرا شخص آیا اور اس نے اس سے بھی مختلف طریقے سے پڑھا۔جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو آپﷺکی خدمت اَقدس میں حاضر ہوئے۔ میں نے کہا یارسول اللہﷺان دونوں نے ایسی مختلف قراء ات کی ہیں جن کامجھے علم نہیں۔ آپﷺنے دونوں کو پڑھنے کاحکم دیا۔جب دونوں نے پڑھا تو آپﷺنے ہر ایک کی قراء ت کو سراہا۔‘‘
اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں منبر پر کھڑے ہوکر اللہ کا واسطہ دے کر فرمایا:کون ہے جس نے آپﷺسے (أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف کلھا شاف کاف) ’’قرآن سات حروف پرنازل ہوا ہے اور اس کاہرہر حرف شافی و کافی ہے۔‘‘کے الفاظ سنے ہیں:( فقاموا حتی لم یحصوا فشھدوا أن رسول اﷲ! قال أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف کلھا شاف کاف فقال عثمان:وأنا أشھد)
’’تو اتنا بڑا مجمع کھڑا ہوگیا کہ اس کاشمار ناممکن تھا۔ سب نے اس بات کی گواہی دی کہ واقعی آپﷺنے فرمایا تھاکہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے اور اس کاہر ہر حرف شافی وکافی ہے۔ پھر سیدناعثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں بھی تمہارے ساتھ اس بات پرگواہ ہوں۔‘‘ (مجمع الزوائد:۵؍۱۵۳)
حتی کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:
(أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف المراء في القرآن کفر ثلاث مرات فما عرفتم منہ فاعملوا وما جھلتم منہ فردوہ إلی عالمہ) (مسند أحمد:۳۰۰، صحیح ابن حبان:۷۳، فضائل القرآن:۶۳)
’’ قرآن سات حروف پرنازل ہوا ہے قرآن کے بارے میں جھگڑا کرنا کفر ہے، یہ تین مرتبہ فرمایا،پس جوتم جان لو اس پرعمل کرو اور جس چیز کاتمہیں علم نہ ہو اس کو اس کے علم رکھنے والے کی طرف لوٹا دو۔‘‘
اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: القراء ۃ سنۃ متبعۃ یأخذھا الآخر عن الأول’’قراء ت سنت متواترہ ہے جس کو خلف سلف سے اخذ کرتے ہیں۔‘‘ (کتاب السبعۃ: ص۵۰، ۵۱) اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: إن من کفر بحرف منہ فقد کفربہٖ کلہٖ ’’ جس نے ایک حرف کاانکار کیااس نے پورے قرآن کاانکار کیا۔‘‘ (تفسیرطبری:۱؍۵۴، الابحاث:۱۸، نکت الانتصار از باقلانی:۳۶۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چنانچہ مذکورہ بالا دلائل کے تناظر میں قراء ات توقیفی اور متواتر ہیں اور ان کاانکار قرآن کاانکار ہے اورقرآن کاانکار کرنے والا کفر کا ارتکاب کرنے والا ہے۔اس لیے اس میں جھگڑنا بھی جائزنہیں۔بلکہ ان کو تسلیم کرنااور ان کی فہم وبصیرت کے لیے قرآنی علماء و ماہرین کی طرف لوٹانا ہی قرین قیاس اور صراط مستقیم ہے۔ اسی صراط مستقیم کی نشاندہی کرتے ہوئے امام زرکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: إن القراء ات توقیفیۃ ولیست اختیاریۃ ’’قراء ات توقیفی ہیں نہ کہ کسی کی اپنی اختیار کردہ ہیں۔‘‘ بلکہ فرماتے ہیں کہ: وقد انعقد الإجماع علی صحۃ قراء ۃ ھؤلاء الأئمۃ وإنھا سنۃ متبعۃ ولامجال للاجتہاد فیھا’’قراء عشرہ کی قراء ات کی صحت پر اجماع ہوچکا ہے اور قراء ات توقیفی اور متواتر ہیں ان میں اجتہاد کی گنجائش نہیں ہے۔‘‘ (البرھان فی علوم القرآن:۱؍۲۲۔۳۲۱) اورامام ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کل ماصحّ عن النبی ! من ذلک فقد وجب قبولہ ولم یسع أحد من الأئمۃ ردّہ ولزم الإیمان بہ وإن کلہ منزل من عند اﷲ إذا کل قراء ۃ منھا مع الأخری بمنزلۃ الآیۃ مع الآیۃ یجب الإیمان بھا کلھا واتباع ما تضمنتہ من المعنی علما و عملا۔’’ان قراء ات میں سے جو بھی نبیﷺسے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہیں، ان کو قبول کرنا واجب ہے۔ کسی بھی امام نے ان کو ردّ کرنے کی جرأت نہیں کی ہے اور ان پر ایمان لانا لازم ہے کہ وہ تمام کی تمام منزل من اللہ ہیں۔
اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے (یوں کہا جائے گا کہ) ہر قراء ت دوسری قراء ت کے لیے ایسے ہی ہے جیسے ایک آیت دوسری آیت کے ساتھ، ان تمام پر ایمان لانا لازم ہے۔ یہ قراء ات جن معانی کااحاطہ کئے ہوئے ہیں علمی اور عملی طور پر ان کی اتباع کرنا ضروری ہے۔‘‘ (النشر:۱؍۵۱، مجموع الفتاویٰ:۱۳؍۳۹۱)اورامام ابن عطیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ومضت الأعصار والأمصار علی قراء ۃ السبعۃ بل العشرۃ وبھا یصلی لأنھا تثبت بالإجماع ’’قراء ات عشر کے ثبوت پر زمانوں کے زمانے اور شہروں کے شہر گزر چکے ہیں اور ان قراء ات کی نماز میں تلاوت کی جاتی تھی، کیونکہ ان کے ثبوت پر اجماع ہے۔‘‘ (أبحاث فی القراء ات: ص۲۵) اورامام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’لم ینکر أحد من العلماء قراء ۃ العشرۃ‘‘ ’’علماء میں سے کسی نے بھی قراء ات عشر کا انکار نہیں کیا۔‘‘ (منجدالمقرئین:ص۱۲۹) اور ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
من أنکر آیۃ من کتاب اﷲ وعاب شیئا من القرآن أو أنکر کلمۃ أو قراء ۃ متواترۃ أو زعم أنھا لیست من القرآن کفر إذا کان کونہ من القرآن مجمعا علیہ ’’جس نے کتاب اللہ کی کسی آیت کا انکار کیا، اس میں عیب نکالا یاکسی کلمہ یا قراء ت متواترہ کاانکار کیا یااس نے گمان کیا کہ وہ قرآن نہیں تو وہ کافر ہے، کیونکہ اس نے ایسی چیز کاانکار کیاہے جس پراجماع ہوچکا ہے۔‘‘(الفقہ الأکبر:۱۶۷)
اور قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’أجمع المسلمون علی أن من نقص حرفا قاصدا بذاک أو بدل بحرف مکانہ أو زاد فیہ حرفا مما لم یشتمل علیہ المصحف الذی وقع علیہ الإجماع أنہ کافر ‘‘(الشفاء فی التعریف بحقوق المصطفیٰ :۲؍۶۴۷)
’’مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جس شخص نے قرآن مجید سے قصداً ایک حرف ناقص کیا یا ایک حرف دوسرے حرف سے بدلا یا اجماع امت سے ثابت ہونے والے مصحف پرایک حرف کی زیادتی کی تو وہ کافر ہے۔‘‘
علماء کے فتاویٰ کی روشنی میں ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ زبان سے اقرار کرے اوردل سے تصدیق کرے کہ قراء ات اپنی تمام کیفیات کے ساتھ اُمت اسلامیہ کے استنادی اور عملی تواتر سے ثابت ہیں۔ مستشرقین اور ان سے متاثر فکری کج روی کا شکار ہونے والے افراد گمراہی و ضلالت کی راہ پر ہیں اور قراء ات کاانکار کرکے خطرناک جرم کے مرتکب ہونے والے ہیں۔ ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کرنا اور ان کے فکر کو بے نقاب کرکے درست راہ کی راہنمائی کرنا جہاں دین اسلام کی عملی حمایت ہے وہاں ’’إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُونَ‘‘ کی تعبیر بھی ہے۔ اللہ ہم سب کو صراط مستقیم پر قائم رکھے اور قیامت کے دن صاحب قرآن کی رفاقت نصیب فرمائے۔ آمین
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
لجنۃ الإفتاء
قاری محمد ابراہیم میر محمدی ( رئیس کلیۃ القرآن والتربیۃ الإسلامیۃ،پہول نگر،قصور)
قاری صھیب احمد میر محمدی ( مدیر کلیۃ القرآن والتربیۃ الإسلامیۃ،پہول نگر،قصور)
الشیخ محمد اجمل بھٹی ( شیخ الحدیث کلیۃ القرآن والتربیۃ الإسلامیۃ،پہول نگر،قصور)
الشیخ محمد اکرم بھٹی ( شیخ التفسیرکلیۃ القرآن والتربیۃ الإسلامیۃ،پہول نگر،قصور)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(۳)​
نحمدہ ونصلي علی رسولہ الکریم أما بعد فأقول وباﷲ التوفیق
صورت مسؤولہ میں قراء ات قرآن سبعہ و عشرہ کا وجود قراء علماء اور اَئمہ قراء کی آراء پر موقوف نہیں ہے بلکہ اَحادیث صحیحہ سے یقینی اور قطعی طور پر بلاشبہ ثابت ہے۔ محدثین رحمہم اللہ نے اس پر باقاعدہ اَبواب قائم کئے ہیں اور اَسانید صحیحہ متصلہ سے ان موجودہ متعددہ قراء ت کومدلل اور مبرہن کیاہے۔چنانچہ کتب صحاح میں سے جامع صحیح بخاری، صحیح مسلم، ابوداؤد،سنن نسائی اور مسنداحمدجیسی اہم کتب حدیث میں متعدد قراء ات اَسانید صحیحہ سے ثابت ہیں اور ائمہ سے مروی قراء ات سبعہ وعشرہ نصوص قطعیہ سے ثابت ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جم غفیر یعنی تقریباً۲۴ صحابہ ان کے رواۃ میں سے ہیں۔جامع صحیح بخاری اور دوسری کتب اَحادیث میں سورۃ الفرقان کی قراء ت کے بارے میں حضرت عمررضی اللہ عنہ اور ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کا اختلاف ہوا۔ قراء ت کا علم نہ ہونے کی وجہ سے حضرت عمررضی اللہ عنہ غصہ میں آگئے، اور ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کو پکڑ کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں لے گئے اور دعویٰ دائر کیاکہ اس کی قراء ت قراء ت ِ نبویؐ نہیں ہے۔ تب رسول اللہﷺنے حضرت عمررضی اللہ عنہ کو حکم دیاکہ ہشام کو چھوڑو اور ہشام رضی اللہ عنہ کو حکم دیاکہ تم وہ قراء ت پڑھو، تو حضرت عمررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہشام رضی اللہ عنہ نے جب وہ قراء ت رسول اللہﷺکے سامنے پڑھی جس کو سن کر میں سمجھا تھا کہ یہ قراء ت نبویؐ نہیں ہے۔ تو رسول اللہﷺنے فرمایا کذلک أنزلت پھر حضرت عمررضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ إقراء یا عمر پھر حضرت عمررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: فقرأت القراء ۃ التی أقرأني فقال کذلک أنزلت إن ھذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فاقرء وا ماتیسر منہ (جامع صحیح البخاری، باب أنزل القرآن علیٰ سبعۃ أحرف میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی روایت فتح الباري :۹؍۲۳)
نیز صحیح مسلم رقم الحدیث ۱۸۹۴،۱۸۹۷ اور سنن ابی داؤد میں امام صاحب نے باب أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف کا باقاعدہ باب باندھا ہے اور اس میں متعدد اَحادیث سے قراء ت متعددہ ثابت کی ہیں۔ ملاحظہ ہو ابوداؤد مع عون المعبود:۱؍۵۴۹ اور اسی طرح صحاح میں سے سنن نسائی :۱؍۱۱۵۔اسی طرح امام ترمذی رحمہ اللہ نے کتاب القراء ۃ میں نیزامام ابوداؤدرحمہ اللہ نے کتاب الحروف والقراء ت کے نام سے باب قائم کیا ہے جس میں سبعہ اَحرف سے متعلقہ اَحادیث کا اندراج کیاہے۔ بہرحال موجودہ قراء ا ت اَئمہ قراء کے قیاس، ان کے اجتہادات اور آراء کی مرہونِ منت نہیں ہیں بلکہ اَحادیث صحیحہ متواترہ سے ثابت ہیں۔ اَجلہ صحابہ اس کے رواۃ ہیں،چنانچہ قرآن کے بہت بڑے قاری اُبی بن کعب، ابن عباس، عبدالرحمن بن عوف ، عثمان بن عفان، عمر بن خطاب ، معاذ بن جبل ،ابوہریرہ اور ام ایوب انصاریہ رضی اللہ عنہم جیسی عظیم شخصیات سے ثابت ہیں۔ قراء ات متعددہ والی اَحادیث تواتر لفظی کے ساتھ ثابت ہیں۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے بڑی محنت کرکے ان سب کو جمع کیا ہے اور نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ نے حصول المأمول کے ص۳۵میں بیان کیا ہے کہ قد ادعی أھل الأصول تواتر کل واحد من السّبع والعشر۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طرح امام زرکشی رحمہ اللہ البرھان في علوم القرآن:۱؍۲۲، ۳۲۱ میں بیان کرتے ہیں :
وقد انعقد الإجماع علی حجیّۃ قراء ۃ القراء العشرۃ وإن ھذہ القراء ات،سنۃ متبعۃ لا مجال للاجتہاد فیھا، وقال: القراء ات توقیفیۃ ولیست اختیاریۃ خلافاً للجماعۃ
علامہ غزالی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے: حد الکتاب ما نقل إلینا بین دفتي المصحف علی الأحرف السبعۃ المشھورۃ نقلاً متواتراً (المستصفی:۱؍ ۱۵۱)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے: لم ینکر أحد من العلماء القراء ات العشر (ملاحظہ ہو مجموع الفتاویٰ:۳ ؍۳۹۳)
نیز ملا علی قاری رحمہ اللہ شرح فقہ الأکبرمیں لکھتے ہیں:
فالمتواتر لا یجوز إنکارہ لأن الأمۃ الإسلامیۃ قد أجمعت علیہ وتواتر القراء ات من الأمور الضروریۃ التي یجب العلم بھا (شرح فقہ الأکبر،ص۱۶۷)
علامہ خطابی رحمہ اللہ اس مسئلہ میں فرماتے ہیں:
إن أصحاب القراء ات من أھل الحجاز والشام والعراق کل منھم عزا قراء تہ التي اختارھا إلیٰ رجل من الصحابۃ قرأھا علی رسول اﷲ! لم یستثن من جملۃ القرآن شیئاً (الاعلام:۲؍ ۳۷۳ )
نیز عظیم مفسر قرآن امام قرطبی رحمہ اللہ نے قراء ت کے بارے میں لکھا ہے:
وقد أجمع المسلمون في ھذہ الأعصار علی الاعتماد علی ما صحّ عن ھؤلاء الأئمۃ مما رووہ من القراء ات وکتبوا فی ذلک مصنفات فاستمر الاجماع علی الصواب وحصل ما وعد اﷲ بہ من حفظ الکتاب وعلی ھذا الأئمۃ المتقدمون والفضلاء المحققون۔( ملاحظہ ہو تفسیرقرطبی:۱؍ ۴۶ )
نیز حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مجموعہ فتاویٰ جلد ۱۳ صفحہ ۴۰۲ میں لکھاہے:
سبب تنوع القراء ات فیما احتملہ خط المصحف ھو تجویز الشارع وتسویغہ في ذلک لھم إذ مرجع ذلک إلی السنۃ والإجماع لا إلی الرأی والابتداع
اور حافظ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: واتفقوا أن کل ما فی القرآن حق وأن من زاد فیہ حرفا ما أو غیر قراء ات المرویۃ المحفوظۃ المنقولۃ نقل الکافۃ أو نقص منہ حرفأ أو غیر فیہ حرفا مکان حرف وقد قامت علیہ الحجۃ أنہ من القرآن فتمادی متعمداً لکل ذلک عالما بأنہ بخلاف ما فعل فإنہ کافر۔(ملاحظہ مراتب الإجماع: ص ۱۷۴)
کہ کوئی شخص بھی قرآن میں کسی ایک حرف کا اِضافہ کرے یا ان قراء ت کو جو تواتر کے ساتھ رسول اللہﷺسے نقل ہوچکی ہیں تبدیل کرے یا کوئی حرف کم کرے یا کسی حرف کی تبدیلی کرے جس حرف کے قرآن ہونے کی دلیل قائم ہوچکی ہو اور عمداً ایساکرے تو وہ کافر ہے، اسی طرح علامہ ابن جزری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ أن الإجماع منعقد علی من زاد حرفاً وحرکۃ في القرآن أو نقص من تلقاء نفسہٖ مصرّا علی ذلک یکفّریعنی اس بات پر اُمت کا اجماع ہے کہ جو شخص قرآن ایک حرف کا، حرکت کا اضافہ یا کمی کرے اور اس پر مصر ہو تو وہ کافر ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بہرحال جو لوگ سبعہ و عشرہ قراء ات جو کہ حدیث متواترہ کے ساتھ ثابت ہوچکی ہیں اورنمازوں میں پڑھی جاتی رہیں اور اس پر زمانے بیت گئے جانتے ہوئے ان کا علم رکھتے ہوئے ان میں سے کسی ایک قراء ت کاانکار کرے تو یہ پورے قرآن کے انکار کرنے کے مترادف ہے جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کسی ایک پیغمبر کی تکذیب تمام انبیاء کی تکذیب کے مترادف ہے۔ جیساکہ قرآن میں ہے کہ ’’کَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ الْمُرْسَلِیْنَ‘‘(سورہ شعراء)
’’کہ اللہ کے سچے نبی نوح علیہ السلام کی تکذیب کو تمام نبیوں کی تکذیب کہا گیا۔‘‘
اسی طرح جو اللہ تعالیٰ کے کسی ایک نبی کی بھی تکذیب کرے گویا کہ وہ تمام انبیاء علیہم السلام کا مکذب ہے اسی طرح تواتر کے ساتھ نصوص قطعیہ سے ثابت شدہ قراء ات ہیں کہ بعض قراء ات کو مانتا اور بعض کا انکار کرتا ہے تو وہ اَلَّذِیْنَ جَعَلُوْا الْقُرْآنَ عِضِیْنَ کا مصداق ہے۔ أعاذنا منہ یعنی جیسا کہ یہود و نصاریٰ اور خواہش پرست گروہوں نے قرآن کے بعض حصوں کومانا اور بعض کاانکار کیا یہ لوگ اسی کے مصداق ہیں کہ ان لوگوں نے ان قراء ت کے ساتھ اتفاق کیاجو ان کی آراء کے مطابق تھیں اور ان کا انکار کیا جو ان کی آراء کے مخالف تھیں۔
بہرحال سبعہ قراء ا ت منزل من اللہ ہیں جواختلاف لغات اورلہجات پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ علامہ سبکی رحمہ اللہ نے إتحاف فضلاء للدمیاتی:۱؍۹ میں تفصیل سے لکھا ہے اور وہ سات قراء تیں جوکہ علامہ شاطبی رحمہ اللہ نے لکھی ہیں اور وہ تین جوکہ ابوجعفر خلف اور یعقوب رحمہم اللہ سے منسوب ہیں یہ سب قراء ات متواترہ ہیں ان میں سے کسی سے انحراف کی شرعاً کوئی گنجائش نہیں ہے ،کیونکہ یہ تمام رسول اللہﷺپرمنزل من اللہ ہیں ان میں کسی قسم کے شکوک و شبہات پیدا کرنا تواللہ تعالیٰ کی اس محقق مؤکد خبر ’’إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ‘‘کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ جب کہ تمام مسلمان اہل سنت کے نزدیک اللہ کی خبر میں کبھی بھی اختلاف نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا ان قراء ات میں سے بعض کاانکار کرنا یہ اہل اسلام خواص و عوام کسی مسلمان کے لیے بھی جائز نہیں ہے اور یہ اہل ایمان کے راستے کے خلاف ہے۔ لہٰذا قراء تِ قرآنیہ اور قرآن مجید کو پڑھنے کے مختلف لہجات جو قرآن و حدیث سے ثابت ہیں اور ان پر اُمت کااجماع ہوچکا ہے اب کوئی شخص ان تمام یا کسی ایک کاانکار کرتا ہے تو وہ بالاجماع ضال اور سبیل المؤمنین کا تارک ہے۔ ھذا ما عندی واﷲ أعلم بالصّواب۔
مولانا عبد اللہ امجد چھتوی
( شیخ الحدیث مرکز الدعوۃ السلفیۃ ستیانہ بنگلہ ،فیصل آباد)
 
Top