• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معزز مفتیان کے تفصیلی فتاویٰ جات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(۸)
قرآن مجید کی سات قراء اتیں اور قراء اتِ عشرہ
متواترحدیث سے ثابت ہے کہ قرآن مجید سات قراء توں پر نازل ہوا ہے۔ تفصیل کے لیے مطولات (بڑی کتابوں)کی طرف رجوع فرمائیں مثلاً دیکھئے بدر الدین الزرکشی رحمہ اللہ (متوفی ۷۹۴ھ)کی البرھان في علوم القرآن وغیرہ۔
سیدنا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک آدمی کو ایک آیت پڑھتے ہوئے سنا جسے میں نے نبیﷺسے دوسرے طریقے سے سنا تھا تو میں اسے پکڑے ہوئے رسول اللہﷺکے پاس لے گیا۔ آپﷺنے فرمایا: (کِلَاکُمَا مُحْسِنٌ)’’تم دونوں نے اچھا کیاہے یعنی تم دونوں صحیح ہو۔‘‘ (صحیح البخاری:۲۴۱۰، ۳۴۷۶،۵۰۶۲)
یہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
مسند أحمد (۱؍۴۵۶ ح۴۳۶۴، ۱؍۳۹۳ ح۳۷۲۴، مسند الشاشي (۷۷۰،۷۷۱)
السنن الکبریٰ للنسائی(۵؍۳۳ح۸۰۹۵) مسند الطیالسی (۳۸۷) مصنف ابن أبی شیبۃ (۱۰؍۵۲۹) مسند أبی یعلی(۵۲۶۲،۵۳۴۱) شرح السنۃ للبغوي(۱۲۲۹،وقال: ھٰذا حدیث صحیح)
اس حدیث کے بہت سے شواہد اور مؤید روایات بھی ہیں مثلاً :
(١) حدیث عمررضی اللہ عنہ:(المؤطا للإمام مالک:۱؍۲۰۱ ح۴۷۴، صحیح بخاری:۲۴۱۹، صحیح مسلم:۱۸۱۸)
(٢) حدیث اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ: (صحیح مسلم:۸۲۰، مسند أحمد:۵؍۱۲۷)
(٣) حدیث ابی جہیم الانصاری رضی اللہ عنہ: (مسند أحمد:۴؍۱۶۹،۱۷۰ ح۱۷۵۴۲ وسندہ صحیح)
(٤) حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ: (صحیح بخاری:۳۲۱۹،۴۹۹۱، صحیح مسلم:۸۱۹) وغیرہ
ہمارے پاس قالون رحمہ اللہ اور ورش رحمہ اللہ کی روایت والے قرآن مجید موجود ہیں جن میں مالک یوم الدین کے بجائے ملک یوم الدین لکھا ہوا ہے۔یہی اختلاف قراء ت ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس صحیح و متواتر روایت کو قرآن مجید کے خلاف پیش کرنا انہی لوگوں کا کام ہے جوفتنۂ انکار حدیث اور الحاد و بے دینی میں سرگرم ہیں۔
قرآن مجید سات قراء توں پر نازل ہوا ہے اوریہ قراء تیں متواتر ہیں۔ تواتر کے لیے دیکھئے: نظم المتناثرمن الحدیث المتواتر(ص:۱۸۶ ح۱۹۷) قطف الأزہار المتناثرۃ في الأخبار المتواترۃ(ح۶۰) اور فضائل القرآن للامام أبی عبید (ص۲۰۳ ح۱۱۔۵۲ باب لغات القرآن) اس حدیث کو درج ذیل صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بیان کیا ہے:
(١) سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما :(صحیح البخاري:۳۲۱۹،۴۹۹۱،صحیح مسلم:۸۱۹، مسند أحمد:۱؍۲۶۳ ح۲۳۷۵، ۱؍۲۹۹ ح ۲۷۱۷، شرح مشکل الآثار للطحاوی نسخہ قدیمہ ۴؍۱۹۰، نسخہ جدید محققہ ۸؍۱۲۴ ح۳۱۱۶، شرح السنۃ للبغوی :۴؍۵۰۱ ح۲۲۵، وقال:ھذا حدیث متفق علی صحتہ)
(٢) سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ : (مسند أحمد:۵؍۳۹۱ ح۲۳۳۲۶ وسندہ حسن)
(٣) سیدنا اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ:(صحیح مسلم:۸۲۰، مسند أحمد بسند آخر ۵/۱۳۲ ح۲۱۲۰۴ و سندہ حسن)
(٤) سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ: (المؤطا للإمام مالک مع التمہید ۸؍۲۷۲، صحیح البخاري:۲۴۱۹،صحیح مسلم:۸۱۸، مسندالشافعی ،ص۲۳۷، الرسالۃ :۷۵۲، مسند الإمام أحمد:۱؍۴۰ ح۲۷۷)
(٥) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ:(مسند أحمد:۲؍۳۳۲ ح ۸۳۹۰ وسندہ حسن وللحدیث شواہد وھو بھا صحیح)
(٦) سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ: (فضائل القرآن للامام أبی عبید القاسم بن سلام ص ۲۰۲ ح۹۔۵۲ وسندہ حسن، مسند الإمام أحمد۴؍۲۰۴ ح۱۷۸۱۹)
(٧) سیدہ اُم ایوب رضی اللہ عنہا:(مسندالحمیدی بتحقیقی:۳۴۱ وسندہ حسن، مسند أحمد :۶؍۴۳۳،۴۶۳، مصنف ابن أبی شیبۃ:۱۰؍ ۵۱۵،۵۱۶، مشکل الآثار للطحاوی نسخہ قدیمہ :۴؍۱۸۳، نسخہ جدیدہ :۸؍۱۱۲ ح۳۱۰۰)
(٨) سیدناابوجہیم رضی اللہ عنہ: (مسند أحمد:۴؍۱۶۹،۱۷۰ وسندہ صحیح)
(٩) سیدنا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ:(مسند أحمد:۱؍۴۴۵ح۴۲۵۲ و سندہ صحیح ،عثمان بن حسان ھو القاسم بن حسان وفلفلۃ الجعفی وثقھا ابن حبان والعجلی وغیرہما ثقتان والحمد ﷲ، مشکل الآثار للطحاوی، نسخہ جدیدہ :۸؍۱۰۸ ح۳۰۹۴)
(١٠) سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ:(مسند أحمد:۵؍۲۹۱، مشکل الآثار للطحاوی نسخہ جدیدہ :۸؍۱۱۰ح ۳۰۹۷ من حدیث حمید الطویل عن أنس عن عبادہ بہ)
اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ قرآن مجید کی سات قراء تیں متواتر اور قطعی ہیں، جن کا انکار کسی کے لیے جائز نہیں ہے بلکہ صحیح اَسانید سے ثابت شدہ قراء ات عشرہ کاانکار بھی حرام ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فن قراء ات کے ایک عظیم امام ابوالخیر محمد بن محمد المعروف بابن الجزری رحمہ اللہ (متوفی۸۳۳ھ) نے فرمایا:
کل قراء ۃ وافقت العربیۃ ولو بوجہ ووافقت أحد المصاحف العثمانیۃ ولو احتمالا وصح سندھا فھی القراء ۃ الصحیحۃ التي لا یجوز ردّھا ولا یحلّ إنکارھا بل ھی من الأحرف السبعۃ التی نزل بھا القرآن ووجب علی الناس قبولھا،سواء کانت عن الأئمۃ السبعۃ أم عن العشرۃ أم عن غیرہم من الأئمۃ المقبولین… (النشر فی القراء ات العشر:۱؍۹)
’’ہر قراء ت جو عربی زبان کے موافق ہو اگرچہ کسی ایک لحاظ سے اورمصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک کے اگرچہ بطور ِاحتمال موافق ہو تو یہ صحیح قراء ت ہے جس کا ردّ جائز نہیں اور نہ انکار حلال ہے بلکہ یہ ان حروف سبعہ میں سے ہے جن کے ساتھ قرآن نازل ہوا اور تمام لوگوں پرانہیں قبول کرنا واجب (فرض) ہے، چاہے قراء سبعہ سے ثابت ہو یا قراء ات عشرہ سے یا دوسرے قابل اعتماد اماموں سے …‘‘
اس مختصر تمہید کے بعد تینوں سوالوں کے جوابات درج ذیل ہیں:
(١) قراء ات عشرہ کا ثبوت صحیح اور متواتر روایات سے ہے بلکہ قراء ت حفص کے علاوہ دوسری قراء توں والے مصاحف بھی دنیا میں شائع شدہ حالت میں تواتر سے موجود ہیں۔ سات حرفوں (قراء توں) سے مراد بعض الفاظ کی قراء ت کااختلاف ہے جس کی وضاحت کے لیے تین مثالیں درج ذیل ہیں:
مثال اوّل: قاری عاصم بن ابی النجود الکوفی رحمہ اللہ وغیرہ نے’’مٰلِکِ یَوْمِ الدِّینِ ‘‘ پڑھا ، جب کہ قاری نافع بن عبدالرحمن بن ابی نعیم الدین رحمہ اللہ’’ مَلِکِ یَوْمِ الدِّینِ ‘‘ پڑھا۔ پہلی قراء ت برصغیروغیرہ میں متواتر ہے اور دوسری قراء ت افریقہ وغیرہ میں متواتر ہے۔ دیکھئے قرآن مجید (روایت ورش ص۲، روایت قالون ص۲، سورۃ الفاتحہ:۴)
مثال دوم: قاری حفص بن سلیمان الاسدی رحمہ اللہ نے (عن عاصم بن أبي النّجود) ’’فَمَا تَسْتَطِیعُونَ صَرْفًا‘‘ پڑھا۔ (دیکھئے سورۃ الفرقان:۱۹)
جبکہ قاری نافع المدنی رحمہ اللہ نے’’فَمَا یَسْتَطِیْعُوْنَ صَرْفًا‘‘ قرآن مجید (روایت قالون ص۳۰۹، روایت ورش ص۲۹)
مثال سوم: قاری عاصم رحمہ اللہ، قاری قالون رحمہ اللہ اور دیگر قاریوں نے ’’ قُلْ أعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ‘‘ پڑھا جب کہ قاری ورش رحمہ اللہ کی قراء ت میں’’ قُلَ اعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ‘‘ (نقل ِحرکت) کے ساتھ ہے۔
دیکھئے قرآن مجید(قراء ت ورش ص ۷۱۲ مطبوعۃ الجزائر، دوسرا نسخہ، مطبوعہ مصر)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فائدہ: (١)قراء ات اصل میں روایات ہیں جو قاریوں نے اپنے اَساتذہ سے سنی تھیں، انہیں سنت متّبعہ بھی کہا جاتا ہے۔ قراء اتِ سبعہ اور قراء اتِ عشرہ کا تعلق رائے اور ابتداع سے نہیں بلکہ سنت و اتباع یعنی روایات سے ہے۔
دیکھئے: مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ(۳؍۴۰۲)
(٢) تمام اسلافِ اُمت انہیں قبول کرنے اور انکار نہ کرنے پر متفق ہیں۔
(٣) جو لوگ قرآن مجید کی قراء ات متواترہ کا انکار کرتے ہیں، اگر جہالت کی وجہ سے کرتے ہیں تو انہیں سمجھانا چاہئے اور اگر وہ سمجھانے کے باوجود بھی اپنی ضد پر ڈٹے رہیں تو قرآن کا انکار کرنے والے، سخت گمراہ اور منکر حدیث ہیں جن کے شر سے عام مسلمانوں کو حسب اِستطاعت متنبہ کرنا ضروری ہے۔ وما علینا إلا البلاغ
حافظ زبیر علی زئی
(مدیر ماہنامہ ’الحدیث‘)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(۹)​
لجواب بعون الوھاب
بعثتِ نبوی ﷺکے ساتھ ہی اللہ نے آپﷺ کو ایک مژدہ سناتے ہوئے فرمایا:
’’إِنَّاسَنُلْقِی عَلَیکَ قَولاً ثَقِیْلًا‘‘ (المزمل:۴) ’’یقیناً ہم آپ پر قول ِثقیل نازل فرمائیں گے۔‘‘
اس آیت میں قول ثقیل سے مراد قرآن مجید ہے۔آپ ﷺنے اپنی اُمت کی آسانی کے لیے اللہ تعالیٰ سے قراء ات قرآن کے بارہ میں آسانی کی دعا کی۔ جوقبول کی گئی۔جیساکہ حدیث ابی رضی اللہ عنہ میں ہے:
’’إن اﷲ یأمرک أن تقرء أمتک القرآن علی سبعۃ أحرف فأي حرف قرؤا علیہ فقد أصابوا‘‘ (صحیح مسلم،سنن أبوداؤد)
’’اللہ کا حکم ہے کہ آپؐ اپنی امت کو سات حروف پرقرآن پڑھائیے۔ (وہ ان حروف منزلہ میں سے ) جس کے مطابق پڑھیں گے درستگی کو پالیں گے۔‘‘
اسی طرح حدیث عمررضی اللہ عنہ میں ہے کہ میں نے ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کو نماز میں سورۃ الفرقان کی تلاوت کئی حروف پر کرتے ہوئے سنا تو میرا جی چاہا کہ میں نماز میں ہی انہیں کھینچ لوں،لیکن میں نے ان کی نماز ختم ہونے تک صبر کیا۔ وہ فارغ ہوئے تو میں نے ان کی گردن میں انہی کی چادر ڈالتے ہوئے کھینچا اور پوچھا۔ تو نے ایسا کس سے پڑھا ہے؟ تو فرمایا کہ مجھے تو اللہ کے رسولﷺنے اسی طرح پڑھایا ہے۔ میں نے کہا تم غلطی پر ہو مجھے تو اللہ کے رسولﷺنے ایسانہیں پڑھایا۔ بالآخر میں انہیں آپﷺکے پاس لایا تو آپﷺنے فرمایا: اے عمررضی اللہ عنہ حضرت ہشام رضی اللہ عنہ کو چھوڑئیے اور پھر ان سے کہا۔ کہ حضرت ہشام رضی اللہ عنہ پڑھیے۔ انہوں نے وہی قراء ت پڑھی جو میں نے سنی تھی۔ آپﷺنے فرمایا: کذلک أنزلت اسی طرح نازل ہوا ہے۔ پھر مجھے پڑھنے کا حکم دیا،میں نے پڑھا تو آپﷺ نے فرمایا: کذلک أنزلت (متفق علیہ )
ان روایات سے ثابت ہوا کہ قراء ات آسانی امت کے لیے نازل کی گئی نیز قراء ت صرف ایک معنی میں مستعمل ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا کہ قراء ات منزل من اللہ نہیں ہیں صحیح نہیں کیونکہ آپ ﷺنے فرمایا کہ نازل کی گئیں ہیں اگر نازل شدہ نہ تھیں تو آپؐ نے یہ کیوں اِرشاد فرمایا۔ نیز یہ بھی یاد رہے کہ قرآن مجید میں اضافہ، یا کوئی تبدیلی یا زیادتی آپ کے بس کی بات نہ تھی۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وَقَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا…… الخ‘‘
’’جو لوگ ہماری ملاقات کی اُمید نہیں رکھتے تھے انہوں نے کہا(اے محمدﷺ) تو اس قرآن کی جگہ کوئی اور قرآن لے آ یا اس میں کوئی تبدیلی کردے۔ (ہم تیری مان لیں گے) اے نبیؐ آپ کہہ دیجئے کہ یہ میرے بس میں نہیں کہ اپنی مرضی سے قرآن میں تبدیلی کروں۔ میں تو صرف وحی کاتابع ہوں… الخ‘‘
اسی طرح فرمان باری تعالیٰ ہے:
’’وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الَاقَاوِیْلِ٭ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ٭ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ‘‘ (الحاقۃ:۴۴۔۴۶)
’’اگر نبیؐ ہماری طرف کوئی بات گھڑ کرمنسوب کرتا تو ہم اس کودائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے اور اس کی شاہ رگ کاٹ دیتے۔‘‘
قراء ات کے منزل ہونے کی زبردست دلیل ہے:
مذکورہ بالا اَحادیث اور قرآنی آیات:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال: قراء ات کے بارہ میں اسلاف امت کی رائے:
جواب : اسلاف کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قراء ات منزل من اللہ ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہﷺسے اَخذ کیں ہیں اور بعد والوں تک پہنچائیں۔ ذیل میں ہم اسلاف کے چند اَقوال حجیت قراء ات اور آراء نقل کرتے ہیں:
(١) امام ابن جریرطبری رحمہ اللہ (متوفی ۳۱۰ھ) کا موقف:
آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس جوبھی صحیح سند کے ساتھ قراء ات آئی ہیں وہ انہی حروف سبعہ میں سے ہیں۔ جن کی اللہ نے اپنے رسول مکرم کو پڑھنے پڑھانے کی اجازت دی تھی۔
ہمارے لیے جائز نہیں ہے کہ مصاحف عثمانیہ کے رسم کے مطابق قراء ات پڑھنے والے کو غلط کہیں۔ (الإبانۃ،ص ۵۳)
(٢) امام ابن مجاہدرحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو قراء ات مدینہ، مکہ، بصرہ، شام، کوفہ میں پڑھی جارہی ہیں۔انہوں نے اپنے اسلاف سے ان کو حاصل کیا ہے۔ان شہروں میں ہرایک آدمی ایسا تھا جس نے تابعین سے قراء ات نقل کی تھیں۔ عام اور خاص نے انہی کی قراء ت کو اپنایا۔ (کتاب السبعۃ ، ص ۴۹)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ولم ینکر أحد من العلماء قراء ات العشرہ ولکن من لم یکن عالماً بھا أو لم تثبت عندہ‘‘ (دقائق التفسیر،ص۷۰) ’’قراء ات عشرہ کاانکار کسی عالم سے ثابت نہیں ۔ ہاں جو (قراء ات) کے عالم نہ تھے، یا ان کے ہاں وہ قراء ت (بطریق صحت)ثابت شدہ نہ تھی۔ انہوں نے انکار کیا۔‘‘
امام جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’کل قراء ۃ وافقت العربیۃ ولو بوجہ ووافقت أحد المصاحف العثمانیہ ولو احتمالا وصح سند ھا فھی القراء ۃ الصحیحۃ لا یجوز ردّھا ولا یصح إنکارھا‘‘ (النشر: ۱؍۹)
’’ہر وہ قراء ت جو کسی نحوی وجہ کے موافق ہو اور مصاحف عثمانیہ کا رسم اس کا ظاہری یا تقدیری طور پر متحمل ہو اور اس کی سند صحیح ہو تو وہ قراء ۃ صحیحہ ہے۔ جس کا ردّ یا انکار ناجائز اور غلط ہے۔‘‘
مذکورہ بالا اَقوال سلف حجیت قراء ات پر دلالت کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
منکرِ قراء ت کا حکم
قرآن مجید اپنے تنوع و تغیر کے سمیت منزل من اللہ ہے۔ ہر قراء ت دوسرے قراء ت کے لیے آیت کی جگہ پرہے اور وہ شخص جوقرآن مجید کی کسی ایک کا انکار کرتاہے وہ باجماع المسلمین کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ قراء ات قرآنیہ کا انکار کرنے والا اگر قراء ات صحیحہ متواترہ، غیر منسوخہ کاانکارکرتا ہے۔پھر دلائل سے اس پر بات واضح کردی جائے، لیکن وہ پھر بھی اپنی بات پر مصر رہے تو وہ کافر ہے،کیونکہ قرآن مجید کے کسی ایک حصہ کے انکار سے پورے قرآن کا انکار لازم آتا ہے۔
جیسے کہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے نقل کیا گیا ہے:
’’إن من کفر بحرف منہ فقد کفر بہ کلّہ‘‘ (طبری: ۱؍۵۴)
امام جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس بات پراُمت اسلامیہ کا اجماع ہوچکا ہے کہ جو شخص اپنی مرضی کے ساتھ قرآن مجید میں کوئی حرف یا حرکت زیادہ کرتا ہے اور پھر اس عمل پر مصر رہتا ہے، اسے کافر قرار دیا جائے گا۔‘‘ (منجدالمقرئین، ص ۹۷)
قاضی عیاض اندلسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’مصاحف کے دفتین میں جوکچھ ہے وہ منزل من اللہ ہے۔ اگر کوئی شخص مصاحف عثمانیہ کی مخالفت کرتے ہوئے کوئی مترادف لفظ استعمال کرتا ہے یا کوئی کمی اور زیادتی کرتا ہے تو وہ کافر ہے۔ (الشفآء،ص ۲۶۴)
مذکورہ بالا دلائل سے یہ بات واضح ہوئی کہ منکر قراء ت کافر ہے۔
اگر صرف روایت حفص کو قرآن مانا جائے اور دیگر کا انکار کیا جائے تو دنیا میں ایسے ممالک ہیں جہاں روایت حفص کونہیں پڑھا پڑھایا جاتا۔بلکہ دیگر روایات مثلاً افریقی ممالک میں ورش، تیونس میں قالون، سوڈان میں دوری ابی عمرو کی روایات پڑھی جاتی ہیں۔(بلکہ اب تو پوری دنیا میں قراء ات عشرہ پڑھی پڑھائی جاتی ہیں) کیامنکر قراء ت مذکورہ ممالک کے لوگوں پر کفر کا فتویٰ لگائیں گے کہ انہوں نے غیرقرآن کوقبول کررکھا ہے۔اگر ان ممالک پر کفر کا فتویٰ یاطعن و تشنیع نہیں تو پھر یہاں پر ہی قراء ات کا انکار اور ان کی حجیت سے کیوں انکار کیا جاتا ہے۔ ان کی عبادات میں تلاوت قرآن کا کیا حکم ہے (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپؐ کے عہد مبارک میں قراء اتِ مختلفہ کی قراء ت نماز میں کیاکرتے تھے، آپ ﷺنے ان کے نہ صرف منزل ہونے کی تصدیق فرمائی بلکہ تحسین بھی فرمایا) لہٰذا ایسی بات کرنے والا شخص یا عقیدہ رکھنے والا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ واللہ اعلم
قاری محمد ادریس العاصم
(مدیر المدرسۃ العالیۃ،جامع مسجد لسوڑیوالی،لاہور)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(۱۰)​
الحمد ﷲ الذی أنزل علی عبدہ الکتاب ولم یجعل لہ عوجا
خالق کائنات اعلم اُمورکائنات ہیں۔ان کاکلام افضل کلام کائنات ہے۔اور رسول اللہﷺافضل اور اخیار کائنات ہیں جیسے اللہ کے کلام میں شک کرنا کفر ہے اسی طرح رسول اللہﷺکے کلام میں شک و انکار بھی کفرہے۔ ’’وَمَا یَنطِقُ عَنِ الْھَویٰ إِنْ ھُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُوحٰی‘‘ اسی طرح اگر غیر کلام نبی کی نسبت نبی ﷺ کی طرف کی جائے تو یہ بھی کفر اور دخولِ جہنم کا سبب ہے۔ضروریات دین میں سے کسی ایک کا انکارپورے دین کاانکارہے۔قراء اتِ سبعہ جو تواتر سے ثابت ہیں سب کی قرآنیت پر یقین و ایمان ضروری ہے۔ کیونکہ وہ تمام قراء ات منزل من اللہ ہیں: ’’فَإِذَا قَرَأنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہٗ‘‘ اس کی دلیل ہے۔ قراء ات کی صحت کے لیے مندرجہ ذیل شرائط ضروری ہیں:
(١)روایتی لحاظ سے وہ متواتر ہو۔
(٢)عثمانی رسم الخط کے خلاف نہ ہو۔
(٣) عربیت میں صرفی و نحوی قواعد کے مطابق ہو اور ان قواعد پر اس کاانطباق ہو۔ صحیح بخاری ، صحیح مسلم، سنن ابوداؤد، ترمذی اور نسائی میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ والی حدیث جو حد تواتر تک پہنچتی ہے، اس کی مثال ہے۔ (صحیح البخاري حدیث ۴۹۹۲، ۲۴۱۹، ۵۰۴۱، ۶۹۳۶، ۷۵۵۰)
قال رسول اﷲﷺ إن ھذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فاقرأو ما تیسرمنہ(صحیح البخاری:۴۹۹۱) احرف سے مراد قراء ات ہیں جن کا حدیث ِمذکور کے سیاق و سباق سے پتہ چل رہاہے۔ اس طرح حدیث ابن عباسؓ میں ہے کہ جبریل امین سے اصرار کے بعد رسول اللہﷺنے سات قراء توں کی اجازت لی۔ یہ حدیث اس موضوع پر واضح دلیل ہے کہ سات قراء تیںمنزل من اللہ اور حجت ہیں۔ ھذا ما عندی واﷲ تعالیٰ أعلم و علمہ أتم
قاری محمد عزیر
(مدیر الجامعۃ العلوم الإسلامیۃ،گلشن راوی ،لاہور)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(۱۱)​
الحمدﷲ وحدہ والصلوٰۃ والسّلام علی من لانبی بعدہ
(١) جواب : مروّجہ قراء ت سبعہ یا عشرہ جوکہ مدارس اور جامعات میں رائج اور پڑھی جاتی ہے اس کاثبوت قرآن وسنت میں مختلف مواقع میں مذکور وموجود ہے۔اس کے متعلق ابن الجزری رحمہ اللہ نے کتاب النشر:۱؍۳۱، میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ
أما کون المصاحف العثمانیۃ مشتمل علی جمیع الأحرف السبعۃ فإن ھذہ مسئلۃ کبیرۃ اختلف العلماء فیھا فذھب جماعات من الفقھاء والقراء والمتکلمین إلی أن المصاحف العثمانیۃ مشتملۃ علی جمیع الأحرف السبعۃ وبنوا ذلک علی أنہ لا یجوز علی الأمّۃ أن تھمل نقل شيء من الحروف السبعۃ التی نزل القرآن بھا وقد أجمع الصحابۃ علی نقل المصاحف العثمانیۃ من المصحف التی کتبھا أبوبکر وعمر وإرسال کل مصحف منھا إلی مصر من أمصار المسلمین وأجمعوا علی ترک ما سوی ذلک قال ھؤلاء ولایجوز أن ینھی عن القراء ۃ ببعض الأحرف السبعۃ ولا أن یجمعوا علی ترک شیء من القرآن، وذھب جماھیر العلماء من السلف والخلف وأئمۃ المسلمین إلی ھذہ المصاحف العثمانیۃ مشتملۃ علی ما یحتملہ رسمھا من الأحرف السبعۃ فقط جامعۃ للعرضۃ الأخیرۃ التی عرضھا النبي! علی جبریل علیہ السلام متضمنۃ لھا لم تترک حرفا منھا
’’آپ نے صفحہ :۳۸ پر مسئلہ کی وضاحت کے لیے ابن صلاح رحمہ اللہ کافتویٰ ان الفاظ سے نقل کیا ہے:
وقال شیخ الإسلام ومفتی الأنام العلامۃ أبوعمرو عثمان بن الصلاح رحمہ اللہ من جملۃ جواب فتویٰ وردت علیہ من بلاد العجم ذکرھا العلامۃ أبوشامۃ فی کتابہ المرشد الوجیز أشرنا إلیھا فی کتابنا المنجد، شرط أن یکون المقروء بہ قد تواتر نقلہ عن رسول اﷲ! قرأنا واستفاض نقلہ کذلک وتلقتہ الأمۃ بالقبول کھذہ القراء ات السبع لأن المعتبر فی ذلک الیقین والقطع علی ما تقرر وتمھد في الأصول فما لم یوجد فیہ ذلک کما عدا السبع أو کما عند العشر فممنوع من القراء ۃ بہ منع تحریم لا منع کراھۃ‘‘
ایک اور فتویٰ عبدالوھاب السبکی رحمہ اللہ سے صفحہ ۴۵ پرنقل کرتے ہیں کہ :
ما تقول السادۃ العلماء أئمۃ الدین في القراء ات العشر التی یقرأ بھا الیوم ھل ہي متواترۃ أو غیر متواترۃ،وھل کلما انفرد بہ واحد من العشرۃ بحرف من الحروف متواتر أم لا وإذا کانت متواترۃ فما یجب علی من جحدھا أو حرفا منھا؟
فأجابنی ومن خطہ نقلت: الحمدﷲ! القراء ات السبع التي اقتصر علیھا الشّاطبي والثلاث التي ھي قراء ۃ أبي جعفر وقراء ۃ یعقوب و قراء ۃ خلف متواترۃ معلومۃ من الدین بالضرورۃ أنہ منزل علی رسول اﷲ! لایکابر في شيء من ذلک إلا جاھل ولیس تواتر شيء منھا مقصورا علی من قرأ بالرّوایات بل ھي متواترۃ عند کل مسلم یقول أشھد أن لا إلہ إلا اﷲ وأشھد أن محمداً رسول اﷲﷺ ولو کان مع ذلک عامیا جلفا لا یحفظ من القرآن حرفا ولھذا تقریر طویل وبرھان عریض لا یسع ھذہ الورقۃ شرحہ، وحظ کل مسلم وحقہ أن یدین اﷲ تعالیٰ ویجزم نفسہ بأن ما ذکرناہ متواتر معلوم بالیقین لا ینطرق الظنون ولا الارتباب إلی شيء منہ ۔واﷲ أعلم
(٢)جواب:سلف صالحین رحمہ اللہ کی رائے اس کے متعلق غایۃ الوصول زکریا الانصاری رحمہ اللہ نے صفحہ ۳۴میں نقل کیا ہے کہ ’’والقراء ات السبع المروي عن القراء السبع متواترۃ نقلت من النبی ! إلینا متواترۃ‘‘ اور عبدالجبار قاضی رحمہ اللہ نے کتاب المغنی صفحہ ۱۵۹ میں لکھا ہے کہ’’إن الصحابۃ جمعوا الناس علی المصحف ولم یمنعونا مما ثبت بالتواتر أنہ منزل وأن القراء ات المختلفۃ معلومۃ عندنا بثوبتھا عن طریق التواتر… الخ‘‘
اور نشریشی کتاب المعیار المعرب میں لکھتا ہے کہ : وعلینا جمیعا أن نؤمن بأن کل ما في القراء ۃ المتواترۃ مروی … الخ‘‘ اس کے علاوہ قراء ت میں جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں اس میں سلف صالحین رحمہ اللہ کی عبارات کافی ساری نقل کی گئی ہیں۔ صرف مذکورہ پر اکتفا کرتا ہوں۔
(٣) جواب: اور جب یہ معلوم ہو کہ یہ قراء ات متواترہ ہیں تو یہ مسئلہ جمہور کے نزدیک اتفاقی ہے کہ جو ثبت بالتواتر سے منکر ہو تو کافر ہے جیسا کہ امام سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب قطف الأزھار المتناثرۃ في الأخبارالمتواترۃ میں صفحہ ۱۳ پر لکھا ہے کہ ’’وحکم الثلاثۃ الأوّل تکفیر جاھدھا و منکرھا‘‘ اور جیساکہ یہ مسئلہ ابن الجزری رحمہ اللہ نے النشر ج۱ ص۱۴ میں لکھا ہے کہ فإذا اجتمعت فیہ ھذہ الخلال الثلاث قریٔ بہ وقطع علی معیبہ وصحتہ وصدقہ لأنہ أخذ عن إجماع من جھۃ موافقۃ خط المصحف و کفرمن جحدہ۔
ابوزکریا عبدالسلام الرستمی
(الجامعۃ العربیۃبڈھ بیر، پشاور)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(۱۲)​
الجواب بعون اللہ الوھاب
والصلاۃ والسلام علی من أرسلہٗ شاھداً ومبشراً ونذیراً وداعیاً إلی اﷲ بإذنہ وسراجاً منیراً
وبعد:
(١) صورتِ مسئولہ میں معلوم ہوکہ قرآن مجید ’سبعہ احرف‘ یعنی سات لہجوں اور قراء توں میں نازل ہوا ہے۔جیساکہ محمد رسول اللہﷺ کا ارشاد و فرمان ہے: (إِنَّ ھٰذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَیٰ سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ فَاقْرَئُ وا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ ) (الحدیث) کہ یہ قرآن سات طریقوں پر نازل ہوا ہے، پس ان میں سے جو میسر وآسان ہو اسے پڑھو۔(صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب ’’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘‘حدیث:۴۹۹۲و مع الفتح: ۹؍۲۳)
یہ حدیث شریف، صحیح البخاری میں متعدد مقامات پر مذکور ہے۔ اس کے علاوہ صحیح مسلم، سنن ابوداؤد، نسائی، ترمذی وغیرہ میں بھی صحیح سندوں کے ساتھ ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
نبی کریمﷺکی سکھائی ہوئی یہ قراء تیں اور ان میں حروف و لہجوں کی تبدیلی اور فرق وغیرہ ایسی چیز ہے جو آپﷺ،اپنی جانب سے یااپنی صوابدید اور رائے کی بنیاد پروقوع پذیر نہیں فرماتے تھے بلکہ اس کا براہ راست تعلق تنزیل اور وحی سے ہوتا تھا۔چنانچہ قرآنِ کریم فرقانِ حمید نے اس بات کوبہت وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا ہے: ’’وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ آیٰتُنَا … قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْ اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَائِ نَفْسِیْ… ‘‘(سورۃ یونس:۱۵) ’’کہہ دیجئے! یہ میرا اختیار نہیں کہ میں اس (قرآن) میں اپنی طرف سے کوئی تبدیلی کردوں میں تو اپنے اوپر کی گئی وحی کاپابند ہوں، اگر میں نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو ایک بڑے دن کے عذاب کا مجھے اندیشہ ہے۔‘‘
اُمت کی سہولت و آسانی کے لیے نبیﷺکی جدوجہد اور بے قراری کو قرآن مجید و احادیث مبارکہ میں بہت سے مقامات پرواضح کیا گیاہے۔ یہ ’’تسہیلی‘‘ و تخفیف کبھی کمی کی صورت میں ہوتی تھی اور کبھی اضافے کی صورت میں۔ چنانچہ پچاس نمازوں کے معاملے میں تخفیف کے مطالبے پر یہ نمازیں صرف پانچ باقی رکھی گئیں۔ اسی طرح قراء ت ولہجات کے سلسلے میں یہ سہولت دی گئی۔ جیساکہ آپﷺخود فرماتے ہیں: (أَقْرَأَنِي جِبْرِیلُ عَلَی حَرْفٍ فَرَاجَعْتُہٗ فَلَمْ أَزَلْ أَسْتَزِیدُہٗ وَیَزِیدُنِي حَتَّی انْتَہَیٰ إِلَیٰ سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ)’’کہ جبریل امین علیہ السلام نے مجھے ایک قراء ت و لہجے پر قرآن پڑھایا تو میں نے ان اضافے کے لیے رابطہ رکھا یہاںتک کہ یہ سات طریقوں پرمکمل ہوا۔‘‘(صحیح البخاری: ۴۹۹۱ وغیرہ)
 
Top