• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معزز مفتیان کے تفصیلی فتاویٰ جات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آپﷺنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جو سات قراء تیں سکھائی تھیں وہ نہ صرف یہ کہ سہولت کی ایک صورت تھی بلکہ وہ القرآن یفسر بعضہ بعضا (قرآن بھی خود اپنی تفسیر بیان کرتا ہے) کہ بہترین کیفیت اور حکم قرآنی’’فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ‘‘(سورۃ المزمل) کی تعمیل بھی ہے۔
مسئلہ ’سبعہ احرف‘ بھی دراصل اعجازالقرآن کا ایک پہلو ہے، جس میں عقل سے زیادہ ’توقیف‘ معتبر ہے۔
مشہور زمانہ قراء ات ’سبعہ عشرہ‘بھی دراصل ان’سبعہ احرف‘ کا حصہ ہیں اور آپﷺکے سکھائے ہوئے سات احرف میں سے وہ بعض قراء تیں ہیں جن پر سات یا دس ائمہ قراء ات نے مہارت اور شہرت حاصل کی۔
اس بات کو اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ جس طرح مختلف ادوارمیں مختلف ائمہ کرام گزرے ہیں، لیکن فقہ میں جو شہرت اَئمہ اربعہ کو حاصل ہوئی (حدیث میں صحاح ستہ کے مؤلفین کو حاصل ہوئی) وہ کسی دوسرے کونہ ہوسکی۔ بعینہٖ ’قراء ات‘ میں ماہر ان ’ائمہ‘ سبعہ عشرہ کو جو مقام و مقبولیت حاصل ہوئی کسی اور کو نہ ہوئی ، لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ علوم فقہ ’ائمہ اربعہ‘ پرمحصور ہیں یاصحیح و معتبر احادیث صرف ’صحاح ستہ‘میں ہیں یا قراء ت سبعہ و عشرہ کے علاوہ ’سبعہ اَحرف‘ نہیں ہیں۔
ان سب کے لیے اصل، تواتر اور معتبر حوالہ ہے، بغیر سند کے کوئی بھی حجت نہیں ہے۔ ان علوم کا سلسلۂ سند رسول اللہﷺسے جاملتا ہو تو وہ ’فقہ‘ بھی معتبر ہے، ’حدیث‘ بھی قابل قبول ہے اور ’قراء ت‘ بھی مسنون و مشروع ہے۔
(٢)اِسلاف امت، جن میں سرفہرست صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جن کے ایمان کو ہمارے لیے ہدایت کا معیار قرار دیاگیاہے ۔قولہ تعالیٰ: ’’ فَاِن آمَنُوا بِمِثْلِ مَا أٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا‘‘ (سورۃ البقرۃ:۱۳۷)
ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مرویات سے (جو کہ مقبولیت کے اعلیٰ معیار پرپوری اترتی ہیں اور ’تواتر‘کی حد کو پہنچتی ہیں) ان کی رائے و مؤقف کا ثبوت ملتا ہے جس میں انہوں نے قرآن کریم کے سات احرف پر نزول کا مؤقف اختیار کیا ہے۔ ان کی کثیر تعداد میں سیدنا عمرو فاروق، عثمان غنی، ابی بن کعب، زید بن ثابت، ابن مسعود و ابن عباس رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ رضی للہ عنہم بھی شامل ہیں۔
اس کے بعد ماہرین قراء ات، مفسرین قرآن اورعلوم قرآن کے متخصّصین سے اس بات پر ’اجماع‘ اور کلّی اتفاق چلا آرہا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣)جیسا کہ شروع میں واضح کیا گیا ہے کہ قرآن کے سلسلے میں خود نبی کریمﷺ کو بھی ’تبدیلی‘ کا اختیارنہیں تھا۔ قرآن کے کسی حصے کو تبدیل شدہ ماننا یا’سبعہ احرف‘ میں سے کسی نازل و ثابت شدہ مقام کا انکار کرنامنافقین و کفار کی علامتوں میں سے ہے۔
’’أَفَتُؤمِنُونَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُونَ بِبَعْض فَمَاجَزَآئُ مَنْ یَفْعَلُ ذٰلِکَ …الایۃ‘‘(البقرۃ:۸۵) دوسرے مقام پر فرمایا: ’’إِنَّ الَّذِینَ یَکْفُرُونَ بِاﷲِ وَرُسُلِہٖ وَیُرِیدُونَ أنْ یُفَرِّقُوا بَیْنَ اﷲِ وَرُسُلِہٖ وَیَقُولُونَ نُؤمِنُ بِبَعْضٍ وَ نَکْفُرْ … ‘‘ (النساء:۱۵۰)
کچھ احادیث میں بھی صراحت کے ساتھ ’سبعہ احرف‘ کے انکار کو ’کفر‘ سے تعبیر کیاگیا ہے۔ (فتح الباري وابن کثیر وغیرہما) لہٰذا ’کفر‘کے اس کام سے بچتے ہوئے صحابہ کرام کی طرح قرآن اور اس کے ’سبعہ احرف‘ پر ایمان لانا چاہئے۔
(مفتی)مولانا محمد ادریس سلفی (نائب مفتی)مولاناحافظ جاسم ادریس سلفی
(جماعت غرباء اہل حدیث،کراچی__ پاکستان)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(۱۳)​
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم أما بعد:
قراء اتِ متواترہ تواتر طبقہ سے ثابت ہیں لہٰذا ان کی قرآنیت قطعی ہے اور ان کاانکار کفر ہے۔جیسا کہ فرض نمازوں کی تعداد رکعات تواتر طبقہ سے ثابت ہے واضح رہے کہ تواتر طبقہ تواتر اسناد سے اقوی ہے۔
مفتی حمید اللہ جان
(رئیس دار الافتاء، جامعہ اشرفیہ، لاہور)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(۱۴)​
قراء اتِ متواترہ سے متعلق آنجناب کی تحریر ملی۔ آپ کے سوالوں کے جوابات تحقیق و تفصیل طلب ہیں، جس کے لیے طویل دورانیہ چاہئے، جب کہ آں جناب کا تقاضا فوری جواب کا ہے اس لیے ان تین سوالوں کے بارے میں مختصراً تحریر کیا جاتا ہے۔
قراء ات عشرہ ساری کی ساری متواتر ہیں، (اگرچہ قراء ات سبعہ کے تواتر پر تو اجماع واتفاق ہے اور قراء ات ثلاثہ کے تواتر میں کسی قدر اختلاف ہے، ’’کما صرح بہ حکیم الأمۃ العلامۃ أشرف علی تھانوی رحمہ اللہ في تنشیط الطبع‘‘(ص:۷،۱۵) قرآن مجید کی قراء توں کاتواتر سے مروی ہونا ہی کافی ہے، الگ سے دلیل کی ضرورت نہیں، کیونکہ فرمان ایزدی ہے: ’’ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّالَہٗ لَحٰفِظُونَ ‘‘
نیز اثبات قراء ات، حدیثِ ’سبعہ احرف‘ پر موقوف نہیں (بلکہ تواتر ہی کافی ہے) ’’وفي شرح الطیبۃ لأبی قاسم النویری رحمہ اللہ: ضابط کل قراء ۃ تواتر نقلھا، وواقفت العربیۃ مطلقاً ورسم المصحف ولو تقدیراً فھی من الأحرف السبعۃ، وما لا تجتمع فیہ فشاذ‘‘(ج۱ ص۱۲۳) اور اَقوال شاذہ اور فاذہ سے قراء اتِ متواترہ کی نفی عقل اور نقل کے خلاف ہے۔
جہاں تک منکر قراء ات کے حکم کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب لکھتے ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’انکارقراء ات کا حکم‘
(١) قرآن یااس کے کسی جزو کاانکار کفر ہے۔
(٢) کوئی اگر بعض قراء توں کو تسلیم کرتا ہو مثلاً روایت حفص کو مانتا ہو اور دیگر کاانکارکرتا ہوتو اس میں مندرجہ ذیل شقیں ہیں:
(ا) کسی محقق کے نزدیک دیگر قراء توں کاتواتر ثابت نہ ہو، اس وجہ سے انکار کرتا ہو اس پر تکفیر نہ ہوگی۔
(ب) اس کو دیگر قراء توں کاتواتر سے ثابت ہونامعلوم نہ ہو، جیسا کہ عام طور پر عوام کو دیگر قراء توں کاعلم نہیں ہوتا اور صرف ان ہی لوگوں کو ان کا علم ہوتاہے جو ان کو پڑھنے پڑھانے میں لگے ہوں، ایسی لاعلمی کی وجہ سے انکار پر بھی تکفیر نہ کی جائے گی، البتہ ایسے شخص کو حقیقت حال سے باخبر کیاجائے گا۔
(ج) تواتر تسلیم ہونے کے بعد بھی انکار کرے تب بھی تکفیرنہیں کی جائے گی، کیونکہ حقیقتاً یہ تواتر ضروری و بدیہی نہیں بلکہ نظری و حکمی ہے جس کے انکار پرتکفیر نہیں کی جاتی، البتہ یہ سخت گمراہی کی بات ہے۔(فقہی مضامین: ص۱۱۸)
وللتفصیل فلیراجع إلیٰ :
(١) شرح الطیبۃ لأبی قاسم النویری رحمہ اللہ
(٢) دفاع قراء ات از حضرت مولاناقاری طاہررحیمی
(٣) مقدمہ شرح سبعۃ قراء ات از امام القراء محی الاسلام پانی پتی
مولانامفتی خلیل الرحمن
دارالافتا دارالعلوم کورنگی ،کراچی
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(۱۵)​
الجواب باسم ملہم الصّواب
زیرنظر فتویٰ متعلقہ ’قراء اتِ قرآنیہ‘، مجریہ 01-06-09ازجامعہ لاہور الاسلامیہ، شرعی اُصولوں کے مطابق درست ہے۔ البتہ دو باتیں مکرر تاکید ووضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔
(١) قراء ات قرآنیہ کا اختلاف فقہاء کرام کے اجتہادی اختلاف سے مختلف ہے کیونکہ فقہاء کرام کا اختلاف ان کے فہم و دقیقہ سنجی کے اعتبار سے ہوتاہے، جب کہ قراء ات کا اختلاف اجتہادی نہیں بلکہ توقیفی ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء کرام اپنی آراء کے متعلق تو یوں فرماتے ہیں:
’’مذھبنا صواب یحتمل الخطائ، ومذھب مخالفنا خطاء یحتمل الصواب‘‘ (مقدمہ رد المختار: ۱؍۴۸)
لیکن قراء ات کے متعلق یہ نہیں کہا جاتا، بلکہ وہاں کہا جاتاہے۔
’’والقراء ات السبع المرویۃ عن القراء السبعۃ المتواترۃ نقلت من النبی ﷺ‘‘ (غایۃ الوصول شرح لب الأصول، ص۳۴)
(٢) لہجات و قراء ات قرآنیہ سے متعلق احادیث،محدثین، و قراء کی تصریحات کے مطابق تواتر لفظی سے ثابت ہیں، اور تواتر معنوی میں تو کسی کا اختلاف ہی نہیں نیز امت کااجماع بھی ان کی قطعیت کی ایک اوردلیل ہے۔لہٰذا جو شخص قراء اتِ قرآنیہ میں سے کسی ایک کا بھی بلا تاویل علی الاطلاق انکار کرے تو وہ متواتر کا منکر ہونے کے ساتھ ساتھ اجماع کا بھی منکر ٹھہرے گا، اور ایسے شخص کے ایمان جانے کا خطرہ ہے جب کہ تاویل کے ساتھ انکار کرنے والا گمراہ اور سبیل المؤمنین سے ہٹا ہوا ہے۔
چنانچہ تصریحات ملاحظہ ہوں:
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
’’وحدیث نزل القرآن علی سبعۃ أحرف،ادّعی أبوعبید تواترہ،لأنہ ورد من روایۃ أحد وعشرین صحابیاً،مرادہ،التواتر اللفظيّ،أمّا تواترہ المعنويّ فلا خلاف فیہ‘‘(مرقاۃ المفاتیح: ۴؍۷۱۲)
علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’إن مخالف الإجماع یکفر،الحق أنَّ المسائل الإجماعیۃ تارۃ یصحبھا التواتر عن صاحب الشرع کوجوب الخمس،وقد لا یصحبھا، فالأوّل یکفر جاحدہ لمخالفۃ التواتر لامخالفۃ الإجماع‘‘ (شامی:۴؍۲۲۳)
ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ومن جحد القرآن أی کلّہ أوسورۃ منہ أو آیۃ،قلت:وکذا کلمۃ أو قراء ۃ متواترۃ… کفر‘‘ (شرح الفقہ الاکبر، ص۱۶۷)
’تفسیر طبری‘ میں ہے: ’’إن من کفر بحرف منہ فقد کفر بہ کلہ‘‘ (۱؍۵۴)
مولانا مفتی محمد عبد المجید دین پوری مولانا مفتی شعیب عالم
(دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ ، علامہ محمد یوسف بنوری ٹا ؤن،کراچی)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(۱۶)​
الجواب حامداً ومصلیاً
۱،۲… جمہور علماء کے نزدیک مروّجہ قراء ات عشرہ متواتر ہیں،اگرچہ ان میں سے قراء اتِ سبعہ کامتواتر ہونا باجماع اُمت منقول ہے اور بقیہ قراء اتِ ثلاثہ کے متواتر ہونے میں قدرے اختلاف ہے۔ (ملاحظہ ہو، تنشیط الطبع فی إجراء السبع، مؤلفہ حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویa، ص۷،۱۵، قراء ات اکیڈمی)
اس اجمال کی قدرے تفصیل یہ ہے کہ احادیث مبارکہ میں جو ’سبعہ احرف‘ کا ذکر ہے اس سے مراد قراء ات کی اَنواع سبعہ، صیغ اسماء، صیغ افعال، اختلاف اعراب، کمی بیشی، تقدیم و تاخیر، الفاظ مترادفہ اور صفات حروف ہیں، مصحف عثمانی میں ایسا رسم الخط استعمال کیا گیا جس میں(حضرت جبریل علیہ السلام کے حضور اکرمﷺکے ساتھ آخری مرتبہ دور قرآن کے وقت کی) قراء ات کو جمع کیا گیا، پھر اس جیسے سات مصاحف لکھوا کر قراء سمیت اطراف عالم میں بھیجے گئے۔ ان مصاحف میں قراء ات کی بہت بڑی تعداد تھی جن میں سے دس ائمہ کی قراء ات مشہور ہوئیں اور پھر ان میں سے بھی سات ائمہ کی قراء ات کو اور زیادہ شہرت ملی۔ حتیٰ کہ انہی کو سیکھا اور سکھلایا جانے لگا اور یہ قراء ات انہی ائمہ کی طرف ہی منسوب ہوگئی جبکہ درحقیقت یہ منقول قراء تیں، سبعہ و ثلاثہ، ان سبعہ انواع میں سے ہی ہیں جو سبعہ احرف کی مراد ہیں۔راجح قول کے مطابق اور ’سبعۃ احرف‘ کا ثبوت درجہ تواتر تک پہنچا ہوا ہے۔ لہٰذا ان مروّجہ قراء توں کے لیے الگ سے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں ہے، ان قراء اتِ عشرۃ کامتواتر ہوناہی کافی ہے۔
وأخرج ابن أشتۃ فی المصاحف وابن أبی شیبۃ فی فضائلہ من طریق ابن سیرین عن عبیدۃ السلیمانی قال: القراء ۃ التی عرضت علی النبی! فی العام الذي قبض فیہ، ھي القراء ۃ التي یقرؤھا الناس الیوم… و أخرج ابن أشتۃ عن ابن سیرین رحمہ اللہ قال: کان جبریل یعارض النبي ! کل سنۃ فی شھر رمضان مرۃ فلما کان العام الذی قبض فیہ عارضہ مرتیں،فیرون أن تکون قراء تنا ھذہ علی العرضۃ الأخیرۃ (الإتقان في علوم القرآن،النوع السادس عشر: في کیفیۃ إنزالہ، ۱/۷۱ دارالفکر)
قال الزرکشی فی البرھان: فالقرآن ھو الوحي المنزل علی محمد! للبیان وللإعجاز، والقراء ات اختلاف الفاظ الوحي المذکور في الحروف وکیفیتہا من تخفیف وتشدید وغیرھما والقراء ات السبع متواترۃ عند الجمہور وقیل بل ھي مشہورۃ، قال الزرکشی: والتحقیق أنھا متواترۃ عن الأئمۃ السبعۃ (الإتقان،النوع الثالث والرابع فی معرفۃ التواتر:۱/۱۱۴، دار الفکر)
إن الأحرف التي نزل بھا القرآن، أعم من تلک القراء ات المنسوبۃ إلی الأئمۃ السبعۃ القراء عموما مطلقا،وأن ھذہ القراء ات أخص من تلک الأحرف السبعۃ النازلۃ خصوصا مطلقا ذلک لأن الوجوہ التي أنزل اﷲ علیھا کتابہ، تنتظم کل وجہ قرأ بہ النبي! وأقرأہ أصحابہ، وذلک ینتظم القراء ات السبع المنسوبۃ إلیٰ ھٰؤلاء الائمۃ السبعۃ القراء کما ینتظم ما فوقھا إلی العشرۃ،وما بعد العشرۃ، (مناھل العرفان،المبحث السادس فی نزول علی سبعۃ أحرف… ۱؍۱۳۹،۱۴۰ دارالاحیاء التراث)
ضابط کل قراء ۃ تواتر نقلھا،ووافقت العربیۃ مطلقاً ورسم المصحف ولو تقدیراً فھي من الأحرف السبعۃ وما لا تجتمع فیہ شاذ (شرح الطیبۃ لابي قاسم النویري: ۱؍۱۲۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قال (القاضي جلال الدین البلقیني) القراء ۃ تنقسم إلی متواتر وآحاد وشاذ،والمتواتر القـراء ات السبعۃ المشہورۃ والأحاد القراء ات الثلاثۃ التي ھي تمام العشر … وأحسن من تکلم في ھذا النوع إمام القراء في زمانہ شیخ شیوخنا أبوالخیر ابن الجزري قال فی أوّل کتابہ النشر: کل قراء ۃ وافقت العربیۃ ولو بوجہ وافقت أحد المصاحف العثمانیۃ ولو احتمالا وصح سندھا فھي القراء ۃ الصحیحۃ التي لا یجوز ردّھا ولا یحلذ إنکارھا بل ہی من الأحرف السبعۃ التي نزل القرآن ووجب علی الناس قبولھا سواء کانت عن الأئمۃ السبعۃ أم عن العشرۃ أم عن غیرھم من الأئمۃ المقبولین(الإتقان،النوع الثانی وعشرون،:معرفۃ المتواتر المشہور: ۱؍۱۰۷، دارالفکر)
وجاء اقتصارہ علی ھؤلاء السبعۃ وصادفۃ واتفاقا من غیر قصد ولا عمد (مناھل العرفان:۱؍۲۹۲، دار الاحیاء التراث)
الشاھد الرابع أن القراء ات کلھا علی اختلافھا کلام اﷲ،لا مدخل بشر فیھا بل کلھا نازلۃ من عندہ تعالیٰ،یدل علی ذلک أن الأحادیث الماضیۃ تفید أن الصحابۃ رضی اﷲ عنہم کانوا یرجعون فیما یقرء ون إلی رسول اﷲ! یأخذون عنہ،ویتلقون منہ کل حرف یقرء ون علیہ۔(مناھل العرفان المبحث السادس: ۱؍۱۱۲،دار إحیاء التراث)
القرآن الذي تجوز بہ الصلوٰۃ بالاتفاق ھو المضبوط في المصاحف الأئمۃ التي بعث بھا عثمان إلی الأمصار وھو الذي أجمع علیہ الأئمۃ العشرۃ،وھذا ھو المتواتر جملۃ وتفصیلا،فما فوق السبعۃ إلی العشرۃ غیر شاذ،وإنما الشاذ ما وراء العشرۃ وھو الصحیح،وتمام تحقیق ذلک في فتاویٰ العلامۃ القاسم۔
(حاشیۃ ابن عابدین،کتاب الصلوٰۃ،باب فی بیان المتواتر بالشاذ،۲؍۲۲۷، دارالمعرفۃ)
(٣) واضح رہے! ایک ہے قرآن مجید اور ایک ہے قرآن مجید کی قراء ت۔ قرآن مجید کے کل یااس کے کسی جز کا انکار کرنا کفر ہے اور قرآن مجید کی قراء ات میں اگر کوئی بعض کو مانتا ہو اور بعض کو نہ مانتا ہو، مثلاً روایت حفص کومانتا ہو اور بقیہ کا انکار کرتا ہو تو اس میں تفصیل ہے:
(١) جس روایت کو مانتا ہے اس کے علاوہ قراء توں کامتواتر ہونا کسی اور محقق کے نزدیک ثابت نہ ہو اور یہ شخص اس وجہ سے اس قراء ت کاانکار کرتا ہو تو اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔
(٢) اس شخص کو دیگر قراء توں کا تواتر سے ثابت ہونا معلوم نہ ہو، جیساکہ عام طور پر لوگوں کو ہوتاہے کہ جس قراء ت کو پڑھ رہے ہوتے ہیں اس کے علاوہ اور قراء ات کا علم نہیں ہوتا۔ ان کاعلم صرف ان لوگوں کو ہی ہوتا ہے جو اس کے پڑھنے اور پڑھانے میں لگے ہوتے ہیں، تو ایسی لاعلمی کی وجہ سے انکارپر بھی تکفیر نہ کی جائے گی البتہ اس شخص کو باخبر کیا جائے گا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) تواتر تسلیم ہونے کے بعد انکار کرنے والے کی تکفیر کی جائے گی ،کیونکہ یہ تواتر ضروری اور بدیہی ہے، جس کے انکار پر کفر لازم آتا ہے اور یہ انکار سخت گمراہی کی بات ہے۔
والقراء ات الواردۃ في العرضۃ الأخیرۃ ھي أبعاض القرآن المتواترۃ في کل الطبقات، فیکفر جاحد حرف منھا إلا أن من القراء ات المتواترۃ ما ھو معلوم تواترہ بالضرورۃ عند الجماھیر،ومنھا ما یعلم تواترہ حذاق القراء المتفرغون لعلوم القراء ۃ دون عامتہم فإنکار شیء من القسم الأول کفر بإتفاق،وأما الثاني فإنما یعد کفرا بعد إقامۃ الحجۃ علی المنکر وتعنتہٖ بعد ذلک فتہوین أمر القراء ات السبع أو العشر المتواترۃ خطر جدا۔ اھـ
وإن اجترا علی ذلک الشوکاني وصدیق خان القنوجي مع أن شیخ الضاعۃ الشمس الجزري لیرد أسماء رواۃ العشر طبقۃ بعد طبقۃ فی کتابہ ’’منجد المقرئین‘‘ بحیث یجلو لکل ناظر أمر تواتر القراء ات العشر في کل الطبقات جلاء لا مزید علیہ فضلا من السبع وھذا مع عدم استقصائہ رواۃ العشر في کل طبقۃ (مقالات الکوثري: المقالۃ الأولیٰ،مصاحف الأمصار، ص۲۱، وفي مقالۃ الثانیۃ، ما ھي الأحرف السبعۃ
ص۳۰،۳۱، دارالسّلام)
من أنکر الأخبار المتواترۃ في الشریعۃ کفر…ثم إعلم أنہ أراد بالتواتر ھھنا التواتر المعنوي لا اللفظي اھـ … ومن جحد القرآن: أي کلہ أو سورۃ منہ أو آیۃ، قلت وکذا کلمۃ أو قراء ۃ متواترۃ أو زعم أنھا لیست من کلام اﷲ تعالیٰ کفر،یعني إذا کان کونہ من القرآن مجمعا علیہ۔ ( شرح ملا علی القاري علی الفقہ الأکبر، ص۱۶۵،۱۶۶)
ثم إن التواتر قد یکون من حیث الإسناد : کحدیث … وقد یکون من حیث الطبقۃ، کتواتر القرآن،تواتر علی البسیطۃ شرقا وغربا درسا وتلاوۃ حفظا وقراء ۃ وتلقاہ الکافۃ عن الکافۃ طبقۃ عن طبقۃ،اقرأ وارق إلی حضرۃ الرسالۃ ولا تحتاج إلی إسناد یکون عن فلان عن فلان … ثم أثبتناہ فی الفصول الأتیۃ إجماع أھل الحل والعقد علی أن تاویل الضروریات وإخراجہا عن صورۃ ما تواتر علیہ وکما جاء وکما فہمہ وجری علیہ أھل التواتر،أنہ کفر،ذھبت الحنفیۃ بعد ھذا إلی أنہ إنکار الأمر القطعي وإن لم یبلغ إلی حد الضرورۃ کفر صرح بہ الشیخ ابن الھمام في المسایرۃ۔(إکفار الملحدین في ضروریات الدین بیان أقسام التواتر الأربعۃ،ص۵،۶، إدارۃ القرآن)
وفي العقائد العضدیۃ:لا نکفر أحدا من أھل القبلۃ إلابما فیہ نفی الصانع المختار… وإنکار ما علم من الدین بالضرورۃ أو انکار مجمع علیہ قطعا۔(إکفار الملحدین:إنکار الإجماع وانکار الأخبار المتواتر کفر، ص۶۵، ادارۃ القرآن)
(وأما ما ثبت قطعا ولم یبلغ حد الضرورۃ) أي: لم یصل إلی أن یعلم من الدین ضرورۃ (کاستحقاق بنت الابن السدس مع البنت) الصلبیۃ (بإجماع المسلمین فظاھر کلام الحنفیۃ الإکفار بجحدہ لأنہم لم یشترطوا) فی الإکفار سوی القطع في (ثبوت)أي ثبوت ذلک الأمر الذي تعلق بہ الإنکار لا بلوغ العلم بہ حد الضرورۃ (ویجب حملہ) أي:حمل الإکفار الذي ھو ظاھر کلامھم (علی ما إذا المفکر ثبوتہ قطعا) لا علی ما یعلم علم المنکر ثبوتہ قطعا وجھلہ ذلک (لأن مناط التکفیر وھو التکذیب أو الاستخفاف بالدین عند ذلک یکون) أي، إنما یکون عند العلم بثبوت ذلک الأمر قطعا (أما إذا لم یعلم) ثبوت ذلک الأمر الذي أنکرہ قطعا (فلا (یکفر إذ لم یتحقق منہ تکذیب ولا إنکار أہلہم (إلا أن یذکر لہ أھل العلم ذلک) أي أن ذلک الأمر من الدین قطعا (فیلج) أي یتمادی فیما ھو فیہ عنادا فیحکم في ھذہ الحالۃ بکفرہ لظہور التکذیب۔(المسایرۃ في العقائد:في متعلق الإیمان، ص۳۰۰، دارالکتب العلمیۃ،وکذ في روح المعاني:مبحث في الکفر:۱؍۱۲۷، دار إحیاء التراث العربی)واﷲ تعالیٰ أعلم بالصواب۔
مولانا مفتی محمد یوسف افشانی مولانامفتی عبد الباری
(دار الافتا، جامعہ فاروقیہ،شاہ فیصل کالونی، کراچی)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(۱۷)​
الجواب وباﷲ التوفیق:حامداً و مصلیاً
(١)قرآن پاک کی قراء ت باعتبار نقل تین طرح کی ہیں:
(١) قراء تِ متواترہ:یہ سات قراء ت ہیں جو قراء تِ سبعہ کے نام سے مشہور ہیں۔ ان قراء ت کی نسبت سات قرائے کرام کی طرف کی جاتی ہے۔ (۱)امام نافع (۲) امام عاصم (۳) امام عبداللہ بن عامر (۴) امام عبداللہ بن کثیر(۵) امام ابوعمر بن العلاء (۶) امام حمزہ (۷) امام علی الکسائی رحمہم اللہ
(٢) قراء ت آحاد: یہ تین قراء ات ہیں جو قراء ت ثلاثہ کے نام سے مشہور ہیں۔ ان دونوں انواع کے مجموعے کو قراء ت عشرہ کہا جاتا ہے۔ مذکورہ بالا سات کے علاوہ ان تین قراء ت کی نسبت(۱)امام ابوجعفر (۲) امام یعقوب اور (۳)امام خلف رحمہم اللہ کی طرف کی جاتی ہے۔
(٣) قراء ت شاذہ: یہ چار قراء ت ہیں اور ان تینوں انواع کے مجموعے کو قراء ات الأربع العشر کہا جاتاہے۔ مذکورہ چار کی نسبت (۱) امام حسن بصری (۲) امام بن محیصن (۳) امام یحییٰ یزیدیاور (۴) امام شنبوذی رحمہم اللہ کی طرف کی جاتی ہے۔ چنانچہ ان قراء ات کے بارے میں علامہ جلال الدین البلقینی کا قول ملاحظہ ہو:
اعلم أن القاضي جلال الدین البلقینی قال: ’’القرأۃ تنقسم إلی متواتر وآحاد وشاذ فالمتواتر القراء ات السبعۃ المشہورۃ والآحاد القراء ت الثلاثۃ التي ھي تمام العشر ویلحق بھا قراء ۃ الصحابۃ والشاذۃ قراء ت التابعین کالأعمش ویحییٰ بن وثاب وابن جبیر ونحوھم(الإتقان في علوم القرآن:۱؍۲۵۸)
ان مختلف قراء ت میں قرآن کریم کانزول رسول اللہﷺکی احادیث مبارکہ سے ثابت ہے، مثلاً صحیح بخاری میں آنحضرتﷺکا ارشاد ہے کہ ’’عن ابن عباس أن رسول اﷲ! قال: أقرأنی جبریل علی حرف فراجعتہ فلم أزل أستزیدہ و یزیدني حتی انتھی إلی سبعۃ أحرف‘‘ (صحیح البخاري:۲؍۷۴۷۷)
اسی طرح صحیح بخاری شریف میں دوسری حدیث ہے:’’عن عمر بن خطاب قال سمعت ہشام بن حکیم یقرأ سورۃ الفرقان فی حیاۃ رسول اﷲ! فاستمعت لقرأتہ فإذا ھو یقرأ علی حروف کثیرہ لم یقرأنیھا رسول اﷲ! فکدت أساورہ فی الصلوٰۃ فتصبرت حتی سلم فلببتہ بردائہ فقلت من أقرأک ھذہ السورۃ التی سمعتک تقرأ قال أقرأنیھا رسول اﷲ! فقلت لہ کذبت فإن رسول اﷲ! قد أقرأنیھا علی غیر ما قرأت فانطلقت بہ أقودہ إلی رسول اﷲ! فقلت إنی سمعت ھذا یقرأ سورۃ الفرقان علی حروف کثیرۃ لم تقرأ نیھا فقال أرسلہ اقرأ یا ہشام فقرأ القرأت التی سمعتہ فقال رسول اﷲ! کذلک أنزلت ثم قال إقرأ یا عمر فقرأ القرأۃ التی أقرأنی فقال کذلک أنزلت إنَّ ھذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فاقرأوا ما تیسر منہ‘‘ (صحیح البخاري :۲؍۷۴۷)
ان روایات کے اندر لفظ سبع کی اگرچہ مختلف توجیہات اور تشریحات کی گئی ہیں مگر ان میں راجح تشریح و توجیہہ یہ ہے کہ حروف کے اختلاف سے مراد قراء توں کااختلاف ہے اور سات حروف سے مراد اختلاف قراء ت کی سات نوعیتیں ہیں اور سات کا یہ عدد صرف سات میں انحصار کے لیے مستعمل نہیں ہوا ہے بلکہ اس استعمال یہاں کثرت کے لیے ہے۔
 
Top