• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معزز مفتیان کے تفصیلی فتاویٰ جات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چنانچہ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ’’المصفی شرح المؤطا‘‘میں لکھا ہے کہ:
’’ودلیل برآنکہ ذکر سبعہ بجہت تکثیر است نہ برائے تحدید اتفاق ائمہ است برقرأت عشر و برقرأت را ازیں عشرہ دور اوی است و ہریکے بادیگرے مختلف است پس مرتقی شد عدد قرأۃ تابیست‘‘ (المصفی ، ص۱۸۷)
اور مشہور محدث اور فقیہ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے مرقات شرح مشکوٰۃ میں لکھا ہے کہ:
والأظھر أن المراد بالسبعۃ التکثیر لا التحدید (مرقاۃ :۴؍۷۱۱)
علامہ بدرالدین عینی رحمہ اللہ نے عمدۃ القاری کے اندر لکھا ہے کہ :
ولفظ السبعۃ یطلق علی إرادۃ الکثیرۃ في الآحاد کما یطلق السبعون فی العشرات والسبع مائۃ فی المئات ولا المراد العدد المعین وإلی ھذا مال عیاض و من تبعہ(عمدۃ القاری:۲۰؍۲۸)
اسی طرح علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری (۹؍۱۹) ’’باب أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘‘ کے تحت، اور شیخ الحدیث مولانا زکریارحمہ اللہ نے ’’أوجز المسالک شرح الموطأ لإمام مالک‘‘ کے ذیل میں بھی اسی طرح کی تحریرات نوشتہ فرمائیں ہیں اور یہی قول راجح ہے۔ اس لیے کہ کثرت فی الآحاد کے لیے ’سبعہ‘ کثرت فی العشرات کے لیے ’سبعین‘ جبکہ کثرت المأت کے لیے ’سبعہ مائۃ‘ کا استعمال بھی ہوتاہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ : ’’إِنْ تَسْتَغْفِرْلَھُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اﷲُ لَھُمْ‘‘(التوبۃ پارہ :۱۰) ’’ثُمَّ فِیْ سِلْسِلَۃٍ ذَرْعُھَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعاً فَاسْلُکُوْہُ‘‘ (پارہ نمبر ۲۹)
اسی طرح حدیث شریف میں ہے کہ : ’’عن أبی سعید الخدری قال قال النبی!: من صام یوماً فی سبیل اﷲ باعد اﷲ بذلک الیوم النار عن وجھہ سبعون حریفاً،وفی روایۃ أخریٰ: زحزح اﷲ وجھہ عن النار سبعین حریفاً (سنن ابن ماجہ کتاب الصوم) ’’وأیضاً قال رسول اﷲ! الرّبا سبعون ھوباً وقال الربا ثلاثۃ وسبعون باباً‘‘ (سنن ماجہ:۱۶۴)
لہٰذا اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ قراء ت عشرہ جو مدارسِ اِسلامیہ میں پڑھائی جاتی ہیں، ثابت بالنص ہیں۔ اس لیے اس سے انکار کرنا جائز نہیں اور ان ہی قراء ت میں قرآن پاک کو پڑھنے والے کو خاطی کہنا بھی درست نہیں۔ کما قال العلامہ جلال الدین السیوطی: اعلم أن القاضی جلال الدین البلقینی قال القراء ۃ تنقسم إلی المتواتر وأحاد وشاذ فالمتواتر القراء ت السبعۃ المشہورۃ والآحاد قراء ۃ الثلاثۃ التي ھي تمام العشر ویلحق بھا قرأۃ الصحابۃ‘‘ (الإتقان في علوم القرآن:۱؍۷۵)
اور صاحب مناھل العرفان نے لکھا ہے کہ :
’’الأوّل المتواتر والثاني المشہور… وھذان النوعان ھما اﷲ ان یقرأ بھا مع وجود اعتقادھما ولا یجوز إنکار شیء منھما‘‘ (مناھل العرفان:۱؍۴۲۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢)قرآء تِ سبعہ کے متواتر ہونے پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے جیساکہ شیخ زکریا الانصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والقراء ت السبع المرویۃ عن القراء السبعۃ متواترہ نقلت من النبی! الینا متواترۃ…(غایۃ الوصول شرح لب الأصول شیخ زکریا الانصاری رحمہ اللہ، ۳۴)
’’وقال ابن أبی شریف أن السروجی الحنفی نقل عن أھل السنۃ أن القراء ت السبع متواترۃ… ‘‘ ( ابن أبی شریف:۷۸ بحوالہ جبیرۃ الجراحات فی حجیۃ القراء ت:۶۹)
البتہ قراء تِ عشرہ کے بارے میں تحقیقی رائے یہ ہے کہ یہ بھی تمام کی تمام متواتر ہیں۔ جیسا کہ علامہ محمد عبدالعظیم الزرقانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ : أمّا القرأت الثلاثۃ المکملۃ للعشر فقیل فیھا بالتواتر ویعزی ذلک إلی ابن السبکی وقیل فیھا بالصحۃ فقط ویعزی ذلک إلی الجلال المحلی وقیل فیھا بالشذوذ یعزی ذلک إلی الفقھاء الذین یعتبرون کل ما وراء القرأت السبع شاذاً ۔ والتحقیق الذی یؤیدہ الدلیل ھو أن القراء ات العشر کلھا متواتر وھو رأی المحققین من الأصولیین والقرآء کابن السبکی وابن الجزری والنویری بل ھو رأی أبی شامۃ في نقل أحرم،صححہ الناقلون عنہ ۱ھـ‘‘ (مناہل العرفان:۱؍۴۳۴)
اسی طرح فتاویٰ حقانیہ میں ہے کہ الجواب: قراء تِ عشرہ اگرچہ تواتر سے ثابت نہیں مگر اس کا ثبوت حد شہرت کو پہنچا ہوا ہے اس میں قرآن پڑھنے والے کو خاطی کہنا درست نہیں۔ اس لیے کہ اس انکار کے زد میں کبار تابعین رحمہم اللہ و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آئیں گے۔ (فتاویٰ حقانیہ:۲؍۱۶۰)
اگرچہ دوسرے اہل علم سات قراء ت کے علاوہ تین قراء ات کو مشہور کہتے ہیں، لیکن قراء ت عشر کے علاوہ دوسری قراء ت کے شاذ ہونے پراجماع ہے۔(شرح سبعہ قراء ت، ص۶۹)
گویا خلاصہ یہ ہواکہ قراء ت عشرہ ثابت ہیں۔ ان کے ثبوت پر سب اہل علم کا اتفاق ہے۔ جمہور اہل علم اگرچہ ان جملہ ’’دس‘‘ قراء ت کو متواتر مانتے ہیں، لیکن دیگر علماء قراء ات سبعہ کو متواتر اور ان کے علاوہ تین قراء ت کو آحاد میں سے شمار کرتے ہیں۔
(٣)یہی وجہ ہے کہ قراء ت متواتر کو ماننا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے جبکہ ان سے انکار موجب ضلالت اور گمراہی ہے۔اُمت مسلمہ کو اس قسم کے اعلانیہ فسق و فجور کروانے والے کے ساتھ قطع تعلق کرنا چاہئے۔ لقولہ علیہ السلام من رأی منکم منکراً فلیغیّرہ بیدہ وإن لم یستطع فبلسانہ وإن لم یستطع فبقلبہ وذلک أضعف الایمان (أو کما قال علیہ السلام)
(ھذا ما ظھر لی،واﷲ أعلم بالصواب إلیہ نرجع والیہ مأب)
مولانا مختار اللہ حقانی
(مفتی ومدرس جامعہ دار العلوم حقانیہ ،اکوڑہ خٹک ،نوشہرہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(۱۸)​
الجواب حامد او مصلیا :
مروّجہ قراء اتِ عشرہ صرف ثابت ہی نہیں بلکہ اسلاف ِ امت نے ان کے ثبوت اور متواتر ہونے پر اجماع نقل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو ضروریاتِ دین میں سے شمارکیا ہے۔ لہٰذا جو شخص قراء اتِ متواترہ کا انکار کرے دائرہ اِسلام سے خارج ہے۔
لما في أحکام القرآن (ص۴۶ ج۱) ’’وھذہ القراء ات المشھورۃ ھي اختیارات أولئک الأئمۃ القراء … وکل واحد من ھؤلاء السبعۃ روی عنہ اختیاران أو أکثر وکل صحیح وقد أجمع المسلمون في ھذہ الأعصار علی الاعتماد علی ما صحّ عن ھؤلاء الأئمۃ مما رووہ ورأوہ من القراء ات وکتبوا في ذلک مصنفات فاستمر الإجماع علی الصواب‘‘ (أحکام القرآن للقرطبی: ۱؍۴۶)
’’وفی الإتقان:القراء ات السبع التی اقتصرعلیہا الشاطبي والثلاث التي ھي قرأۃ أبي جعفر ویعقوب وخلف متواترۃ معلومۃ من الدین بالضرورۃ وکل حرف انفرد بہ واحد من العشرۃ معلوم من الدین بالضرورۃ أنہ منزل علی رسول اﷲ لا یکابر في شيء من ذلک إلا جاھل‘‘ (الاتقان للسیوطی:۱؍۸۲)
’’وفي شرح الفقہ الأکبر أو أنکر آیۃ من کتاب اﷲ أو عاب شیئا من القرآن … قلت وکذا کلمۃ أو قراء ۃ متواترۃ أو زعم أنہا لیست من کلام اﷲ تعالیٰ کفر یعنی إذا کان کونہ من القرآن مجمعا علیہ‘‘ (شرح الفقہ الاکبر:ص۲۰۵ج؟)
مولانا مفتی محمد فیاض خان سواتی مولانامفتی واجد حسین
(دار الافتا جامعہ نصرۃ العلوم ،گوجرانوالہ )
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(۱۹)​
مروّجہ قراء ات متواتر ہیں ان کا ثبوت نبی اکرمﷺسے اسناد ِ صحیحہ مشہورہ سے ہے ان کامنکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
مصاحف عثمانیہ ان قراء ات پر مشتمل تھے:
(ا) مصحف عثمانی اور سبعۃ احرف کا منکر کافر و واجب القتل ہے۔
(١) قال أبوعبید والقرآن الذی جمعہ عثمان بموافقۃ الصحابۃ لو أنکر بعضہ منکر کان کافراً حکمہ حکم المرتد یستتاب فإن تاب والا ضرب عنقہ۔ (تفسیر قرطبی:۱؍۶۰،دفاع قراء ات، ص۹۳)
’ابوعبید کا قول ہے کہ وہ قرآن جسے عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے بموافقت ِ صحابہy جمع فرمایا ہے اگر کوئی منکر اس کے صرف بعض حصے کا بھی انکار کردے تو وہ بھی کافر ہوگا۔اس کا حکم مرتد کا سا ہوگاکہ اولاً اس کو توبہ کی دعوت دی جائے گی باز آجائے تو ٹھیک وگرنہ اس کی گردن اُڑا دی جائے۔‘‘
(٢) یحکم علی من أنکر من مصاحف عثمان شیئا مثل ما یحکم علی المرتد من الاستتابۃ فإن أبی فالقتل (فضائل القرآن، ص۱۵۴،دفاع قراء ات ، ص۹۳)
’’عثمانی مصاحف کی کسی ایک چیز کے انکار کرنے والے پر بھی مرتد کا سا حکم لگایا جائے گا کہ اس کو توبہ کی دعوت دی جائے گی اگر انکارکرے تو قتل کردیا جائے۔‘‘
(٣) لما کانت أحادیث إنزال القرآن علی سبعۃ أحرف متواترۃ فإن منکر الأحرف السبعۃ أصلا مع عنہ بتواتر أحادیثھا کافر لا شک ولاریب (الأحرف السبعۃ ومنزلۃ القراء ات منہا، ص۱۰۱،دفاع قراء ات، ص۹۴)
’’چونکہ سبعہ احرف پر انزال قرآن کی احادیث متواترہ ہیں اس بناء پرتواتر کے علم کے باوجود سرے سے سبعہ احرف ہی کا منکر بلاشبہ کافر ہے۔‘‘
(٤) ما اجتمع فیہ ثلاث خلال من صحۃ السند وموافقۃ العربیۃ والرسم۔ قطع علی مغیبہ وکفر من جحدہ (النشر الکبیر:۱؍ ۱۴، دفاع قراء ات، ص۹۴)
’’جس قراء ت میں صحۃ سند، موافقت ِ عربیت، موافقت ِ رسم یہ تینوں چیزیں جمع ہوں اس کے نزول من الغیب کی قطعی تصدیق کی جائے گی اور اس کے منکر کو کافر قرار دیا جائے گا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(ب) حدیث (أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف) متواتر ہے جیساکہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے ظاہر ہے لیکن اس حدیث پاک سے قراء ات کے تواتر پراستدلال محل نظر ہے جس کی متعدد وجوہ ہیں۔
(١) ’’سبعۃ أحرف‘‘ کا مصداق کیا ہے اس کے بارے میں آراء مختلف ہیں اس کی راجح تفسیر’سبع لغات‘ ہے، جمہور علماء کا موقف بھی یہی ہے۔ چنانچہ شاطبیہ کے شارح زینت القراء فخر القراء حضرت اقدس مولاناقاری فتح محمدرحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’علامہ دانی رحمہ اللہ اور اکثر محققین اورجمہور اہل اَدا کی رائے پر سات حروف سے سات لغا ت مراد ہے… قراء سبعہ قراء تیں بھی ان سات حروف میں شامل ہیں۔( شرح شاطبی،ص۲۹)
(٢) ایسے ہی محقق زمان حضرت مولاناقاری محمدطاہر رحیمی مہاجرمدنی رحمہ اللہ اپنی کتاب کشف النظر شرح کتاب النشرمیں ارشاد فرماتے ہیں:’’اکثر علماء محققین اور جمہور اہل اداء کی رائے پر سات حروف سے سات لغات مراد ہیں۔‘‘(ج۱،۲؍ص۴۳)
(٣) عرب کی لغات جداجدا اور زبانیں متفرق تھیں اورایک لغت والے کو دوسرے کی لغت میں پڑھنا دشوار تھابلکہ بعض بالکل پڑھ ہی نہیں سکتے تھے پس اگر اس حالت میں ایک ہی حرف پر پڑھنے کاحکم ہوتا تو یہ تکلیف تحمل سے باہر ہوتی یا سخت مشقت پیش آتی۔(مقدمہ کشف النظر، ص۲۵۸)
(٤) ابن قتیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’اگر ان حضرات میں سے کوئی فریق یہ چاہتا کہ وہ اپنی لغت کوچھوڑ دے تو اس میں اس کو بڑی دشواری پیش آتی پس حق تعالیٰ نے اس اُمت کو جس طرح احکام میں آسانی دی تھی اسی طرح قرآن کریم کے لغات اور حرکات و سکنات میں بھی وسعت دی‘‘ الخ۔ (مقدمہ کشف النظر، ص۲۵۹)
(٥) حضرت محقق امام جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’حدیث میں دونوں معنی مراد ہوسکتے ہیں، لیکن قوی یہ ہے کہ ’’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘‘ میں تو سات وجوہ مراد لی جائیں اور حضرت عمرؓ کے قول’’ سمعت ھشاما یقرأ سورۃ الفرقان علی حروف کثیرۃ‘‘ (الحدیث) میں حروف سے مراد قراء ات لی جائیں۔‘‘ (مقدمہ کشف النظر، ص۲۵۹)
(٦) (ا) امام سیوطی رحمہ اللہ نے ان نسخوں کی تعداد جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تیار کروائے تھے سات تک نقل کی ہے۔ جو مدینہ منورہ، مکہ مکرمہ، شام،یمن، بحرین، بصرہ اور کوفہ کی طرف بھیجے گئے پھر ان نسخوں سے بے شمار نسخے تیار کئے گئے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ دیگر تمام نسخوں کو جن میں قراء ات کااختلاف موجود ہو تلف کیا جائے۔(مقدمہ کشف النظر: ۲ ؍۷۸)
(ب)… حارف محاسبی سے اتقان میں منقول ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو صر ف ایک قسم کے طرز تلفظ یعنی لغت قریش پر جمع کیااس کے قبل کے نسخوں میں متعدد لغات موجود تھیں۔ (اتقان:۱؍۶۰)
(٧)… حضرات محققین نے سات حروف پر نازل ہونے کی جو حکمتیں بیان کی ہیں ان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ سبعۃ اَحرف سے مراد سات لغات ہوں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سات اَحرف پر نازل ہونے کی حکمت
مقدمہ کشف النظر میں ہے:ابتداء میں سات لغات میں پڑھنے کاجواز اور بعد میں صرف ایک لغت پر اکتفاء میں راز اور حکمت (واللہ اعلم) یہ ہے کہ :قرآن کریم میں تصریح ہے:’’بِلِسَانٍ عَرَبٍیٍّ مُّبِیْنٍ‘‘ یعنی قرآن عربی زبان میں اترا ہے۔ بعض مخصوص الفاظ میں قبائل عرب میں اختلاف تھا جیسا کہ دہلی اور لکھنؤ کی زبان اُردو میں، یاپشاور اور قندھار کی پشتو میں۔’’وَمَا أرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ‘‘ظاہر ہے کہ حضور علیہ السلام کی قوم خاص قریش تھی اورقوم عام عرب تھی۔ دوسرے طرف عرب کا مزاج قبائلی خصوصیات کا تحفظ تھا اور ان خصوصیات میں وہ درجۂ تعصب کو پہنچے ہوئے تھے۔ آج بھی اقوام میں لسانی تعصّب کاجذبہ موجود ہے، لہٰذا حکمت ِ الٰہی کا تقاضا یہ ہوا کہ قرآن کے محدود الفاظ میں جہاں عرب قبائل کی لغات میںفرق ہے ہر قبیلہ کو اپنی اپنی لغت کے مطابق تلفظ کی اجازت دی جائے تاکہ ایک طرف عربی زبان کی تمام شاخیں کلام الٰہی کی برکت سے بہرہ یاب ہوں اور عرب قبائل کی زبانیں عمومی شکل میں ’’بلسان عربی مبین‘‘ کے تحت نزول کلام الٰہی کی برکت سے فیض یاب ہوسکیں اور دوسری طرف عرب قبائل کو اپنی لغت خاصہ کی محرومی کا افسوس بھی نہ ہو اور لسانی تعصّب کا اندیشہ بھی نہ رہے۔
جمع عثمانی کے وقت جب دائرہ اسلام وسیع ہوگیا اور قبائلی خصوصیات ختم ہوکر وحدت عرب بلکہ وحدت اسلامی کے رنگ میں تمام قبائل پوری طرح رنگے گئے تو سبعہ لغات یاقبائل خصوصیات کی ضرورت باقی نہ رہی لہٰذا صرف لغت ِ قریش پر مصحف ِ عثمانی میں اکتفاء کیاگیا۔ یہ اجماع لغت قریش پر امرنبوی سے تھا یا انتہائے حکم بانتہائے علت کی شکل تھی۔(ص۸۸)
(٨)… شرح شاطبی کے مقدمہ میں ’سبعہ احرف‘ پر نازل کرنے کی ایک حکمت یہ بیان کی ہے کہ : ’’اگر قرآن کریم ایک ہی لغت (قریش) پر نازل ہوتا تو دوسری لغت والوں کو یہ کہنے کی گنجائش رہتی کہ اگر ہمارے لغت میں ہوتا تو ہم اس کامثل بنا لاتے اور حق تعالیٰ کے ارشاد:’’قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَت‘‘ میں کذب کاوہم ہوتا حالانکہ وہ اس سے پاک اور بری ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال: جب سات حروف سے مرادسات لغات ہیں جن میں ایک لغت قریش بھی ہے تو پھر سورۂ فرقان میں حضرت عمررضی اللہ عنہ اور حضرت ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کی قراء تیں جدا جدا کیوں تھیں کیا وہ دونوں قریشی نہیں تھے؟
جواب: دونوں قریشی تو تھے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ دونوں کی لغت بھی ایک ہی ہو کیونکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص قریشی ہو اور اس کی پرورش کسی دوسری قوم میں ہوئی ہو اور عربوں میں یہ بات کثرت سے پائی جاتی ہے چنانچہ حدیث پاک میں ہے کہ :’’میں تم سب سے زیادہ فصیح ہوں اورمیری زبان سعد بن ابی بکر کی زبان ہے۔‘‘ اورایک اور حدیث میں آیا ہے کہ: ’’میں خالص عرب ہوں اور قریش میں پیداہوا ہوں اور بنی سعد میں پرورش پائی ہے میرے پاس لحن (غلطی)کہاں آسکتی ہے‘‘ اور قرآن میں ہے : ’’وَھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ‘‘ پس عرب کو عام رکھا ہے اور کسی قبیلہ کو خاص نہیں کیااور ان سات حروف میں وہ دس قراء تیں بھی داخل ہیں جو ہمیں تواتر کے ساتھ پہنچی ہیں اور وہ قراء تیں بھی جو پہلے انہیں کی طرح متواتر تھیں لیکن اب باقی نہیں رہیں۔کیونکہ قرآن مجید ہمیشہ غلطی سے محفوظ رہا ہے اور ائندہ بھی رہے گا۔چنانچہ ارشاد ہے: ’’إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ‘‘ (غیث النفع)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تواتر قراء ات
(١) امام ابوعبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ نے کتاب القراء ات کے شروع میں صحابہ اور غیر صحابہ میں سے ان حضرات کے نام لکھے ہیں جن سے سبعہ عشرہ قراء ات منقول ہیں اور وہ ستائیس(۲۷) ہیں:
(١تا٤) حضرات خلفائے راشدین اربعہ (٥) طلحہ (٦) سعد (٧) ابن مسعود(٨)حذیفہ(٩) سالم (١٠)ابوہریرہ (١١) ابن عمر(١٢) ابن عباس (١٣)عمرو بن العاص (١٤)عبداللہ بن عمرو(١٥) معاویہ ابن زبیر(١٦)عبداللہ بن سائب (١٧) عائشہ (١٨) حفصہ(١٩) اُم سلمہ (٢٠) ابی بن کعب (٢١)معاذ بن جبل (٢٢)ابوالدرداء(٢٣)زید بن ثابت (٢٤) ابوزید (٢٥) مجمع بن جاریہم انس بن مالک رضی اللہ عنہم (کشف النظر، ص۱۱)
جن قراء ات کے ناقل حضرات صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی اتنی بڑی جماعت ہو وہ یقیناً متواتر شمارہوں گی۔
(٢) مصاحف ِ عثمانیہ پر حضرات صحابہ کااجماع ہے اور یہ مصاحف قراء ات عشرہ پر مشتمل تھے اسی وجہ سے ان کو حروف اور نقاط سے مجرودرکھا گیاتھا۔
(٣) امام زرکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وقد انعقد الاجماع علی حجیۃ القراء ات القراء العشرۃ الخ (البرھان فی علوم القرآن:۱؍۳۲۲،۳۲۱)
(٤) نیز قراء اتِ متواترہ معتبرہ کے لیے حضرات محققین نے جو ضابطہ مقرر کیا ہے وہ ضابطہ بھی مروّجہ تمام قراء ات پر صادق ہے۔
ضابطہ : ’’(١)…جو قراء ت نحوی وجوہ میں سے کسی ایک وجہ کے موافق ہو۔
(٢)… مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک کی رسم کے مطابق ہو۔
(٣) … صحیح اور متصل سند سے ثابت ہو جس میں یہ تینوں وجوہ پائی جائیں وہ قراء ت صحیح ہے۔ (مقدمہ کشف النظر ، حصہ دوم)
مناہل الفرقان میں ہے: جمع عثمانی میں مندرجہ ذیل امور کا لحاظ رکھاگیا ہے:
(١)… مصحف میں وہ چیز درج ہو جس کے قرآن ہونے کا قطعی یقین ہو۔
(٢) … یہ معلوم ہو کہ حضورﷺکے آخری دور ِ تلاوت میں وہ باقی تھا۔
(٣) … جس کی صحت حضور ﷺسے ثابت ہو اور منسوخ التلاوت نہ ہو۔‘‘ (جلد۱، ص ۱۵۰)
امام کبیر ابوشامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : بعض متاخرین نے قراء ت کے مقبول ہونے میں تواتر کی شرط لگائی ہے اور سند کی صحت کوکافی نہیں سمجھا ہے، لیکن چونکہ انہی کی بعض وجوہ ایسی بھی ہیں جن میں تواتر نہیں پایاجاتا اس لیے ان میں شہرت اور استفاضہ کی شرط لگانی پڑے گی۔ (مقدمہ کشف النظر:۲؍۷۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’سبعۃ احرف‘ کی دوسری تفسیر
معروف محقق ماہرفن علامہ ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’مجھے اس حدیث (سبعہ احرف) کے بارہ میں بہت عرصہ تردد، شبہ اور اشکال رہا ہے اور میں اس میں تیس سال سے زیادہ عرصہ تک سوچ بچار اور غورفکر کرتا رہا یہاں تک کہ حق تعالیٰ نے مجھ پر اس کاایک مطلب منکشف فرما دیا ممکن ہے کہ وہ درست ہو (اِن شاء اللہ) اور وہ یہ ہے کہ میں نے صحیح، شاذ، ضعیف، منکر اور تمام قراء توں کی جستجو اورچھان بین کی تو ان کے اختلاف کی نوعیت کو ذیل کی سات قسموں سے باہر نہیں پایا انہی سات قسموں میں سے کسی نہ کسی طرح تغیر ہوتاہے۔
(١)… حرکات میں تغیر ہوجائے لیکن لفظ کے معنی اور صورت میں نہ ہو۔ جیسے ’’بالبخل، بالبخل‘‘ (اس میں چار وجوہ ہیں جن میں سے باقی دو ’’بالبخل، بالبخل‘‘ شاذ ہیں اور جیسے : ’’یحسب، یحسب‘‘ (اسی طرح قرح، قرح)
(٢)… حرکات اور معنی میں تغیر ہوجائے صورت میں نہ ہو جیسے : ’’فتلقی آدم من ربہٖ کلمٰت‘‘ اور ’’فتلقی آدم من ربہٖ کلمت‘‘ اور ’’وادکر بعد امۃ‘‘ اور ’’امۃ‘‘ (ابن عباس، زیدبن علی، ضحاک، قتادہ، ابورجاء، شبیل بن عزوہ ضبعی، ربیعہ بن عمررضی اللہ عنہم اور ’’امۃ‘‘ طویل مدت کے اور ’’امہ‘‘ نسیان کے معنی میں ہے۔ (ہکذا فی لسان العرب)
(٣)… حروف اور معنی میں تغیر ہوجائے۔جیسے: ’’تبلوا، تتلوا‘‘ اور ’’ننجیک ببدنک لتکون لمن خلفک‘‘ اور ’’ننحیک ببدنک‘‘
(٤)… اس کے برعکس اور صورت میں تغیر ہوجائے لیکن معنی میں نہ ہو۔ جیسے کہ: ’’بصطۃ، بسطۃ‘‘ اور ’’الصراط، السراط‘‘
(٥)… حروف، معنی، صورت، تینوں میں تغیر ہوجائے۔ جیسے ’’أشد منکم، اشد منھم‘‘اور’’یاتل، یتال‘‘ اور ’’فاسعوا إلی ذکر اﷲ‘‘ اور ’’فامضوا الی ذکر اﷲ‘‘ (عمرو ابن عباسؓ، ابن مسعودؓ)اسی طرح ’’کالعھن، کالصوف‘‘ اور ’’فوکذہ، فلکزہ‘‘۔
(٦)… تقدیم و تاخیر کا تغیر ہو۔ جیسے: ’’فیقتلون ویقتلون‘‘ اور ’’فیقتلون و یقتلون‘‘ اور شاذ قراء ت پر ’’وجاء ت سکرۃ الحق بالموت‘‘ (ابوبکررضی اللہ عنہ اور ابن مسعودرضی اللہ عنہ) اسی طرح ’’فاذا قھا اﷲ لباس الخوف والجوع‘‘
(٧)… حروف کی زیادتی اور کمی کا تغیر ہو۔جیسے: ’’واوصیٰ، ووصٰی‘‘اور شاذ قراء ات پر’’والذکر والانثٖی‘‘ اسی طرح ’’فإن اﷲ الغنی‘‘ اور ’’وما عملت أیدیھم‘‘ (الخ) (مقدمہ کشف:۲؍ ص۴۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ تفسیر چند وجوہ سے مرجوح معلوم ہوتی ہے:
(١)… قراء اتِ متواترہ میں مذکورہ اختلافات کے علاوہ بھی اختلافات موجود ہیں، مثلاً :اظھار، ادغام، روم، اتمام، تفخیم، ترقیق، حد، قصر، امالہ، تسھیل، ابدال وغیرہ۔ گو ان کو داخل کرنے کے لیے بعض علماء نے کچھ توجیہات بھی کی ہیں تاہم بظاہر یہ اختلافات مذکورہ بالا وجوہ سے خارج ہیں۔
(٢)… حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے سات مصاحف تیارکروانے کے بعد باقی تمام مصاحف کو جلانے کا حکم دیا، وہ دیگر لغات پر مشتمل قرآن پاک تھے۔یہ تب ہوسکتا ہے جب کہ ’سبعۃ احرف‘ سے سبعہ لغات مراد لیے جائیں۔ مذکورہ بالا تفسیر کے مطابق اس کو صحیح کرنے کے لیے کافی کھینچا تانی کرنی پڑے گی۔
حضورﷺکی خدمت میں نزاع کرنے والے جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنا معاملہ لے کر پیش ہوتے اور ان کے جواب میں حضورﷺسبعہ اَحرف والی حدیث ارشاد فرما دیتے تو فوراً ان کی تشفی ہوجاتی تھی ممکن ہے جب کہ احرف کی تفسیر، عام فہم معنی یعنی لغات ہی سے کی جائے ورنہ اگر احرف کو ’’أوجہ سبعۃ لاختلاف اللفظ‘‘ کے معنی میں قرار دیا جائے تو ایسے غامض و دفیق معنی سے صحابہ کرام ؓ کی تشفی نہ ہوتی اور وہ حضرات فوراً بول اٹھتے کہ یا حضرت وہ اوجہ سبعہ کون کون سے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہوا معلوم ہوا کہ احرف بمعنی اوجہ نہیں بلکہ بمعنی لغات ہے۔ (دفاع قراء ات، ص۲۶۴)
الحاصل:’سبعہ احرف‘ کا مصداق سبعہ لغات ہیں اُمت کے لیے سہولت پیدا کرتے ہوئے ہر قبیلہ کو اپنی لغت میں پڑھنے کی اللہ جل جلالہ نے اجازت مرحمت فرمائی جب اسلام عجم میں پھیلا تو یہی اِجازت فساد کا موجب بننے لگی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے مشورہ سے باقی لغات کوختم کرکے صرف لغت قریش پرقرآن کو جمع کرنے کا حکم دیا اور مروّجہ قراء ت متواترہ سب لغت قریش کے مطابق ہیں مصاحف عثمانیہ میں ان تمام قراء ات کی گنجائش موجود تھی۔ مروّجہ قراء ات کے تواتر پر اجماع اُمت ہے، ان کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ فقط واللہ اعلم
(ر ئیس) مولانامفتی محمدعبداللہ مولانا مفتی محمد اسحاق
(دار الافتا جامعہ خیر المدارس، ملتان)
 
Top