محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَھُمْ اَنْ يَّكْفُرُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ بَغْيًا اَنْ يُّنَزِّلَ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ۰ۚ فَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ عَلٰي غَضَبٍ۰ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ مُّہِيْنٌ۹۰
۱؎ بغی الجرح محاورہ ہے جس کے معنی ہیں۔ زخم بگڑگیا۔ بنی اسرائیل کے مرض انکار کو بھی بگڑے ہوئے زخم سے تشبیہ دی ہے یعنی ان کی ذہنیت ناقابل اصلاح ہے اور اچھے سے اچھا مرہم بھی ان کے ناسور کے لیے مفید نہیں۔اعتراض یہ تھا ان کا کہ کیوں نبوت کسی اسرائیلی کو نہیں ملی؟ اور اس کے لیے مکہ کے ایک یتیم ونادار انسان کو کیوں منتخب کیا گیا۔ کیا بنی اسرائیل کے گھرانے سے برکت اٹھ گئی ہے یا پھر کوئی اور سرمایہ دار اس کا مستحق نہ تھا؟ قرآن حکیم نے ان آیات میں اس کا جواب یہ دیا کہ نبوت اللہ کا ایک فضل ہے ۔ یہ موہبت کبریٰ ہے جو خاص حالات میں خاص اشخاص کو دی جاتی ہے ۔اس میں کسب واکتساب کو اور جدوجہد کو کوئی دخل نہیں۔ اسرائیلی جب اس بار امانت کے متحمل نہ رہے تو یہ امانت اسمٰعیل علیہ السلام کے گھرانے کے سپرد کردی گئی۔ ا س میںتم اعتراض کرنے والے کون ہو؟ یہ ضروری نہیں کہ انبیاء کا انتخاب سرمایہ داروں میں سے ہو۔ تمہارے نزدیک تو دنیوی وجاہت قابل اعتنا ہے لیکن خدا کی نگاہ میں اس کی کوئی وقعت نہیں ۔ یہ درست ہے کہ انبیاء قوموں کو دین ودنیا کی نعمتوں سے مالا مال کرنے کے لیے مبعوث ہوتے ہیں لیکن خود دنیا میں ان کا بہت کم حصہ ہوتا ہے ۔ گو وہ روپیہ پیسہ نہیں رکھتے لیکن ایمان وتیقن کی گراں قدر پونجی ان کے پاس سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ وہ حوصلے کے بلند اور دل کے مطمئن ہوتے ہیں۔ سیم وزر ان کے پاؤں چومتا ہے اور وہ کبھی روپے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ اس لیے تمہارا محض اس بناپر انکار کہ رسول بنی اسرائیل کے گھرانے میں پیدا نہیں ہوا اور یہ کہ وہ سرمایہ دار نہیں محض غیر معقول ہے۔
{بَغْیًا} تمرد وسرکشی۔ {مھین} اھانۃ کے معنی ہوتے ہیں کمزور کردینے کے ۔ ہڈی توڑنے {عَذَابٌ مُّھِیْنٌ} سے سخت ضعف وذلت آفرین عذاب مراد ہے۔
وہ بری چیز ہے جس کے عوض انھوں نے اپنی جانیں بیچی ہیں(اس لیے) کہ خدا کی نازل کی ہوئی چیز سے منکر ہوئے اس ضد میں۱؎ کہ خدا اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے فضل سے اتارتا ہے ۔ سوغضب پر غضب کمالائے اور کافروں کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے ۔(۹۰)
۱؎ بغی الجرح محاورہ ہے جس کے معنی ہیں۔ زخم بگڑگیا۔ بنی اسرائیل کے مرض انکار کو بھی بگڑے ہوئے زخم سے تشبیہ دی ہے یعنی ان کی ذہنیت ناقابل اصلاح ہے اور اچھے سے اچھا مرہم بھی ان کے ناسور کے لیے مفید نہیں۔اعتراض یہ تھا ان کا کہ کیوں نبوت کسی اسرائیلی کو نہیں ملی؟ اور اس کے لیے مکہ کے ایک یتیم ونادار انسان کو کیوں منتخب کیا گیا۔ کیا بنی اسرائیل کے گھرانے سے برکت اٹھ گئی ہے یا پھر کوئی اور سرمایہ دار اس کا مستحق نہ تھا؟ قرآن حکیم نے ان آیات میں اس کا جواب یہ دیا کہ نبوت اللہ کا ایک فضل ہے ۔ یہ موہبت کبریٰ ہے جو خاص حالات میں خاص اشخاص کو دی جاتی ہے ۔اس میں کسب واکتساب کو اور جدوجہد کو کوئی دخل نہیں۔ اسرائیلی جب اس بار امانت کے متحمل نہ رہے تو یہ امانت اسمٰعیل علیہ السلام کے گھرانے کے سپرد کردی گئی۔ ا س میںتم اعتراض کرنے والے کون ہو؟ یہ ضروری نہیں کہ انبیاء کا انتخاب سرمایہ داروں میں سے ہو۔ تمہارے نزدیک تو دنیوی وجاہت قابل اعتنا ہے لیکن خدا کی نگاہ میں اس کی کوئی وقعت نہیں ۔ یہ درست ہے کہ انبیاء قوموں کو دین ودنیا کی نعمتوں سے مالا مال کرنے کے لیے مبعوث ہوتے ہیں لیکن خود دنیا میں ان کا بہت کم حصہ ہوتا ہے ۔ گو وہ روپیہ پیسہ نہیں رکھتے لیکن ایمان وتیقن کی گراں قدر پونجی ان کے پاس سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ وہ حوصلے کے بلند اور دل کے مطمئن ہوتے ہیں۔ سیم وزر ان کے پاؤں چومتا ہے اور وہ کبھی روپے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ اس لیے تمہارا محض اس بناپر انکار کہ رسول بنی اسرائیل کے گھرانے میں پیدا نہیں ہوا اور یہ کہ وہ سرمایہ دار نہیں محض غیر معقول ہے۔
حل لغات