محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُوْنَ بِمَا وَرَاۗءَہٗ۰ۤ وَھُوَالْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَھُمْ۰ۭ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْۢبِيَاۗءَ اللہِ مِنْ قَبْلُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۹۱
بات اصل میں یہ ہے کہ تم نے نہ کبھی توراۃ کو مانا ہے اور نہ اب قرآن کو ماننے کے لیے تیار ہو ورنہ ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ پیغام ایک ہے ۔ مقصد ایک ہے ۔ تعلیم ایک ہے۔ فرق صرف اجمال وتفصیل کا ہے یا نقص وکمال کا۔قرآن حکیم مصدق ہے، مہیمن ہے اور ساری کائنات کے لیے اتحاد عمل ہے ۔ اس میں کوئی تعصب نہیں۔ کوئی جانب داری نہیں۔
{اَلْحَقُّ}سچا۔معقول اورمفیدمصلحت۔
۱؎ جب یہودیوں کو قرآن حکیم کی دعوت دی گئی تو انھوں نے توریت کے سوا اور سب چیزوں کے ماننے سے انکار کردیا۔ انھوں نے کہا۔ ہم تو وہی ماننے کے مکلف ہیں جو ہمارے نبی علیہ السلام پر نازل ہوا ہے ۔ اس پر قرآن حکیم نے دواعتراض کیے ہیں۔ ایک یہ کہ اگر یہ واقعہ ہے تو تمہاری پہلے انبیاء سے کیوں جنگ رہی؟ گزشتہ انبیاء کیوں تمہارے ظلم وستم کا نشانہ بنے رہے ؟ وہ تو سب اسرائیلی تھے۔ دوسرا یہ کہ توریت وقرآن کے پیغام میں کیا اختلاف ہے۔ قرآن حکیم تو وہی پیغام پیش کرتا ہے جو توراۃ کا موضوع اشاعت تھا۔ پھر انکار کیوں؟اور جب انھیں کہا جائے کہ جو اللہ نے اتارا ہے تم اسے مانو تو کہتے ہیں ہم اسی کو مانتے ہیں جو ہم پر اترا ہے اور جو اس کے سوا ہے ، اسے نہیں مانتے۔ حالانکہ وہ اصل تحقیق ہے اور جو ان کے پاس ہے اس کو سچا بتاتا ہے ۔ توکہہ اگر تم ایمان دار تھے تو خدا کے پہلے نبیوں کو کیوں قتل کرتے رہے ہو؟ ۱؎ (۹۱)
بات اصل میں یہ ہے کہ تم نے نہ کبھی توراۃ کو مانا ہے اور نہ اب قرآن کو ماننے کے لیے تیار ہو ورنہ ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ پیغام ایک ہے ۔ مقصد ایک ہے ۔ تعلیم ایک ہے۔ فرق صرف اجمال وتفصیل کا ہے یا نقص وکمال کا۔قرآن حکیم مصدق ہے، مہیمن ہے اور ساری کائنات کے لیے اتحاد عمل ہے ۔ اس میں کوئی تعصب نہیں۔ کوئی جانب داری نہیں۔
حل لغات