• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مغربی فکر آزادی نسواں کیا واقعتاً ہی مغربی عورت کوآزادی دےسکی ہےکہ نہیں ۔؟(ظفر اقبال ظفر)

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
((ظفر اقبال ظفر))
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نسوانیت کے بغیر انسانیت کی تکمیل ممکن ہی نہیں۔انسان ایک عورت کے پیٹ میں ہی اپنے آغازکی ابتدا کرتا ہے اس کی گود میں پرورش پاتاہے اس کے سینے سے سیراب ہوتا ہے اوراسی ماں کی لوریاں اسکی تعلیم کا پہلا سبق ہوتی ہیں وہی اسکی پہلی استاد ہوتی ہے اور نہ جانے قدرت والے نے اور کتنے ہی کردار اس ماں کی ذات میں جمع کر رکھے ہیں۔نسوانیت سے مستعار ماں کا یہ مقام اتنا بڑا منصب ہے کہ جنت جیسی جگہ بھی اسکے قدموں کے تلے آن ٹہرتی ہے۔اللہ تعالی نے اپنے اقتدار کے لیے،اپنے خزانوں کے لیے،اپنی طاقت کے لیے یا اپنے غضب کے لیے کوئی مثال پیش نہیں کی ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالی نے اپنی رحمت کے لیے ماں کی محبت کو مستعار لیا کہ ماں سے ستر گنا زیادہ محبت کرنے والا۔
جنت سے بڑھ کر کوئی خوبصورت اور دلنشین مقام اس کائنات میں نہیں ہے۔اللہ تعالی نے جب حضرت باباآدم علیہ السلام کو اس مقام پر جگہ عطا کی توانہوں نے بارالہ میں تنہائی کی شکایت کی جس کے بعد انہیں ایک خاتون،اماں حوا کی معیت عطا کی گئی،گویا جنت جیسی جگہ پر بھی بغیر عورت کے انسان کا دل نہ لگا۔یہ نظام قدرت ہے کہ مرد عورت کے بغیر اور عورت مرد کے بغیر نامکمل ہے،دونوں کے اختلاط سے ہی جہاں نسل انسانی کی بقا ممکن ہے وہاں تہذیب و تمدن کے ارتقاء کیلئے بھی دونوں کا اشتراک کار بے حد ضروری ہے گویا کہ مرد اور عورت ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں۔
عورت کی محرومیاں ہمیشہ سے سنجیدہ انسانوں کا موضوع رہی ہے اور ہر مفکروفلسفی اور موسس اخلاق نے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔قدیم یونان میں صدیوں یہ بحث چلتی رہی کہ عورت انسان بھی ہے کہ نہیں اور اس دور کی کتنی ہی کتب آج بھی اس بحث کو پیش کرتی ہیں،قدیم عرب معاشرے میں عورت کی حیثیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور ماضی قریب تک میں عورت کے دو ہی روپ سامنے آتے ہیں یا تو وہ ظلم کی چکی میں پستا ہواایک بے حقیقت دانہ ہے یا پھر اس بازار کی زینت ہے جہا ں صبح و شام گاہگ اسکی طلب میں آسودگی حوس نفس کے لیے آتے ہیں اور وہ انہیں ناچ کر دکھاتی ہے اور گا کر سناتی ہے یاپھر راتوں کو روزانہ ایک نئے مرد کا بستر گرم کر کے تو اپنے پیٹ کے لیے دو وقت کے ایندھن کا انتظام کرتی ہے۔لکھنو کے نواب ہوں یا دہلی کا دربارکلیسا و دیر ہوںیااسمبلی و پارلیمنٹ یا دنیا بھر کے مشرق و مغرب کے مہذب و غیرمہذب معاشرے ہوں عورت کی کہانی ہر جگہ یکساں ہی رہی ہے۔
ہمیشہ کی طرح آج کی یورپی تہذیب کے انسانی عالی دماغوں نے بھی عورت کے مسانئل کا حل تلاش کیا اور پیش بھی کیا۔کم و بیش تین سو سالوں سے یورپی تہذیب نے عورت کو حقوق نسواں کے نام سے ایک آزادی دے رکھی ہے تاکہ اسکے مسائل حل ہو جائیں،لیکن یہ آزادی بھی چونکہ ’’مردوں‘‘نے ہی دی ہے اس لیے اسکی حقیقت بھی اس سے زیادہ نہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو ایک بار پھر دہرا رہی ہے۔عورت کو سرمیدان لا کر اسکی ذمہ داریوں میں کمی تو نہیں کی گئی لیکن معاش کا ایک اور بوجھ بھی اسکے کندھوں پر ضرور ڈال دیا گیا ہے۔پہلے وہ صرف شوہر کی دست نگر تھی تو اب اسے شوہر کے ساتھ ساتھ اپنے باس اور اپنے رفقائے کار کا بھی ’’دل لبھانا‘‘پڑتا ہے۔اس نام نہاد جدید لیکن غیرفطری تہذیب نے عورت کی فطری ذمہ داریاں جو اسکی گود ،اسکی اولاد،اسکا خاندان اور اسکے گھر سے عبارت تھیں انکی بجائے عورت کو سیاست،دفاع،معاش اورانتظامی امور کی طرف دھکیلنے کی بھونڈی کوشش کی ہے،جس کے نتیجے میں خاندانی نظام اور اخلاقی معیارات اپنے تنزل کی انتہا کو چھو رہے ہیں۔
اس غیر فطری سلوک کا نتیجہ ہے کہ عورت سے اسکانسوانی حسن چھن گیا ہے، لفظ ’’عورت ‘‘جس کا مطلب ہی چھپی ہوئی چیز ہے اسکو عریاں سے عریاں تر کیا جا رہا ہے۔عورت کی اس غیرفطری آزادی سے نسلیں مشکوک ہوتی چلی جا رہی ہیں اور یورپ کے مفکرین اس بات پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ انکے معاشرے سے آہستہ آہستہ باپ آشنا بچے اور باپ ناآشنا بچوں کا فرق مٹتاچلا رہا ہے۔عورت کی آزادی کا منطقی نتیجہ معاشرے کی وہ آشنائیاں ہیں جو صدیوں کے قائم کیے ہوئے تاریخی انسانی اخلاقی اقدار کو داغدار کرتی چلی جا رہی ہیں اور پھر کیا یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی ہے کہ اس غیرفطری آزادی نے جو یورپ نے عورت کو تھوک کے حساب سے فراہم کر دی ہے تقدیس کا دامن بھی کس کس طرح تار تار کر دیا ہے؟اور مقدس رشتوں کے درمیان بھی حوس نفس کس طرح در آئی ہے۔اور پھر کیا اس طرح اس معاشرے کو آسودگی حاصل ہو گئی ہے؟اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم جنسیت اور جانوروں تک سے تعلقات استوار کرنے والے اب اس دلدل میں اندر سے اندر دھنستے چلے جا رہے ہیں۔
عورت کی اس آزادی کے خلاف اگر چہ ہمیشہ سے ایک دبی دبی آوازاٹھتی رہی ہے لیکن اب تو عورتوں ہی کی کتنی نجی تنظیمیں خود یورپ کے اندر قائم ہو چکیں ہیں جن کے مطالبات میں سے سرفہرست یہی ہے انہیں انکی فطری ذمہ داریاں لوٹا دی جائیں اور دنیا کے کاروبارمعیشت وسیاست وغیرہ سے انہیں سبکدوش کر دیا جائے،حال ہی میں جاپان میں عالمی مقابلہ حسن کے موقع پر جن خواتین نے اپنے فطری حقوق کی بازیابی کے لیے مظاہرہ کیا اسکی قیادت کرنے والی ہالی وڈ جیسے عالمی شہرت یافتہ فلمی ادارے کی سابق ہیروئن تھی۔
اللہ تعالی خالق نسوانیت ہے اور خاتم النبیینؐ محسن نسوانیت ہیں اور اللہ تعالی کے بھیجے ہوے دین سے بڑھ کر کوئی نظام انسانوں کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔اسلام نے فرائض کے مقام پرمعاشرے کے سب طبقوں کو جمع کیا ،یورپی تہذیب نے حقوق کے نام پر سب طبقوں کو باہم لڑا دیا ہے۔ایشیا کے پرامن مشرقی روایات کے حامل معاشرے میں عورتوں کے حقوق کے نام پر جنس متضاد کے درمیان ایک غیراعلانیہ جنگ اس معاشرے کو تباہ کرنے کی ایک دانستہ کوشش ہے۔عورتوں کے مسائل سمیت کل انسانوں کے کل مسائل کاحل صرف دین اخروی کے اندر ہی پنہاں ہے اور خطبہ حج الوداع سے بڑھ کر اور کوئی دستاویزانسانوں کے حقوق کی علمبردار نہیں ہو سکتی۔عالم انسانیت کوآسودگی ،راحت ،امن و آشتی،پیارومحبت اورحقوق وفرائض کے درمیان توازن کے لیے بالآخر اسی چشمہ فیض کی طرف ہی پلٹنا ہوگاجوانبیاء کی دعوت کا خلاصہ اور اللہ تعالی کااس دنیا میں آخری پیغام ہے۔٭٭٭
 
Top