• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"مغوی بچے اور انسانی اعضاء کا کاروبار"

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
"مغوی بچے اور انسانی اعضاء کا کاروبار"

عمر رسیدہ شخص اور اس کی بیوی ایک خوبصورت پہاڑی علاقے میں رہتے ہیں۔ ہندوستان کے سرسبز علاقے میں رہنے والے یہ میاں بیوی آنے والے سیاحوں کو اپنا گھر کرائے پر دے کر کمائی کرتے ہیں۔ دو لڑکیاں اور ایک لڑکا ان سے گھر کے دو کمرے کرائے پر لیتے ہیں۔ دو تین دن گزرنے کے بعد ایک لڑکا اور لڑکی غائب ہیں ان کی ساتھی لڑکی ان دو دوستوں کے بارے میں گھر کے مالک سے پوچھتی ہے لیکن وہ کئی کہانیاں گھڑتا ہے۔ اکیلی رہ جانے والی لڑکی ہراساں اور پریشان ہے۔ وہ ان دونوں کے نمبر ملانے کی کوشش کرتی ہے لیکن ان کے فون نمبر بند ہیں وہ بہت پریشان ہوتی ہے۔ وہ اس بات کا تذکرہ مالک مکان سے کرتی ہے اور اس کی بیوی کو بھی کہتی ہے کہ ان کا پتہ چلاؤ وہ تو ایک منٹ بھی فون بند نہیں کرتے، کیا معاملہ ہے وہ کسی مصیبت میں تو گرفتار نہیں؟ پولیس کو فون کرتے ہیں۔ تھانے میں رپورٹ درج کرواتے ہیں۔ وہ بے چینی اور پریشانی کے عالم میں ان سے التجائیں کر رہی تھی۔ پر وہ اسے کہہ رہے تھے نہیں نہیں پولیس کو اطلاع نہیں کرنی تمہارے دونوں ساتھی کہیں موج مستیاں کرنے نکل گئے ہیں۔ خود ہی آ جائیں گے لیکن وہ لڑکی مسلسل کہہ رہی تھی کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے ہم اکٹھے آئے ہیں۔ وہ مجھے اس طرح چھوڑ کر نہیں جا سکتے ان کے فون بھی بند ہیں اس لئے وہ کسی مصیبت میں ہیں۔ میں ضرور کال کر کے پولیس کو بلواتی ہوں تاکہ وہ انہیں تلاش کرے۔

اب مالک مکان اور بڈھا اور بڑھیا کے تو طوطے اڑ گئے انہوں نے بہانے سے اس لڑکی کا موبائل لے کر اسے گرا دیا وہ ٹوٹ گیا۔ اس بیچاری کا آخری سہارا بھی ختم ہو گیا۔ اس نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی تو بڈھے نے اسے دیکھ لیا۔ اسے پکڑ کر کہنے لگا تم نے میرے بارے میں تو پوچھا نہیں کہ میں کون ہوں؟ پھر اس نے بتایا کہ میں جسمانی اعضاء کی منتقلی کا ایک ماہر اسپیشلسٹ ہوں میں نے تیرے دونوں ساتھیوں کے جسمانی اعضاء آنکھیں، دل، گردے نکال کر انہیں مار دیا ہے۔ اب تیری باری ہے۔ میں ان اعضاء کو بیچ کر اعلیٰ درجے کا کاروبار کرتا ہوں۔ بیچاری لڑکی کا تو خون ہی خشک ہو گیا۔ وہ کانپنے لگی۔ اس کے ترلے منتیں واسطے کرنے لگی۔ اس بڈھے نے اسے چھوڑ دیا اور کہا گھر کے اندر اپنے کمرے میں چلی جا، بھاگنے کی کوشش نہ کرنا۔ وہ اپنے کمرے کے بجائے فرار ہونے کی کوشش میں ایک کمرے میں چلی گئی جس میں اس نے اپنے دونوں ساتھیوں کو دو بیڈز پر لیٹے دیکھ لیا ان کی آنکھوں پر روئی رکھی ہوئی تھی وہ کمرا انتہائی ٹھنڈا تھا۔ اس کمرے میں سرجری کے تمام اوزار رکھے ہوئے تھے پھر وہ لڑکی بھاگ کر ان دونوں کے کمرے میں گئی جہاں وہ ٹھہرے تھے وہاں ان کے بیگ سے ان کے فون مل گئے اس نے ان سے پولیس کو فون کر دیا۔ پولیس فوراً اس لڑکی کی بتائی جگہ پر پہنچ گئی۔ اس لڑکی کی قسمت اچھی تھی۔ وہ بچ گئی۔ اب پولیس والے اس بڈھے اور بڑھیا کو پکڑ کر لے گئے۔

اس سرجن ڈاکٹر اور اس کی بیوی کو سینکڑوں جسمانی اعضاء نکالنے اور بیچنے پر سزائے موت سنا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کر دیا گیا۔ ہندوستان میں پیش آنے والے اس واقعے نے دل دہلا کر رکھ دیا کہ ایک ڈاکٹر جسے لوگ عرف عام میں مسیحا کہتے ہیں، جو لوگوں کو شفا بخش زندگیاں لوٹاتا ہے ایسے گھناؤنے کاروبار میں ملوث ہو سکتا ہے۔ درندہ بن جاتا ہے۔ انسانی جسم کا مثلہ کر دیتا ہے۔ پیسے کے حصول کے لئے اس قدر پستیوں کی گہرائیوں میں گر جاتا ہے؟

جسمانی اعضاء کے بیچنے کا کاروبار وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے اس گھناؤنے فعل میں یا تو براہ راست ڈاکٹر ملوث ہیں جیسے کہ مذکورہ واقعے سے معلوم ہوتا ہے یا پھر یہ گھناؤنا کاروبار کرنے والے زبردستی ڈاکٹروں سے یہ کام کرواتے ہیں، جیسا کہ اقوام متحدہ کے سفیر نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں تفصیلات بتائی ہیں۔ عراقی سفیر الحکیم نے کہا ہے کہ ’’داعش‘‘ کے انتہا پسند مالی وسائل حاصل کرنے کے لئے انسانی اعضاء کا غیرقانونی کاروبار کرتے ہیں۔ اس میں ڈاکٹروں کی ضرورت ہوتی ہے اور جو ڈاکٹر ان کے ساتھ تعاون نہیں کرتے انہیں وہ ہلاک کر دیتے ہیں اب تک کئی ڈاکٹر ہلاک کر چکے ہیں۔ عراقی حکومت کو اجتماعی قبروں میں بہت سی ایسی لاشیں ملی ہیں جن کی پشت پر شگاف تھے اور ان کے گردے یا دیگر اعضاء غائب تھے۔

یہ جسمانی اعضاء مردوں اور زندہ لوگوں کے نکال کر بیچنے والے وہ لوگ ہیں جن کا تعلق داعش سے ہے، جو سفاکیت کی چوٹیوں پر ہیں۔ کہیں اردنی پائلٹ کو جلا دیتے ہیں، کہیں عورت کو سر کے بالوں سے پکڑ کر گردن پر چھری چلاتے ہوئے دیکھا گیا اور کہیں ان کی سفاکیت یہ ہے کہ انسان کو پنجروں میں بند کر کے پانی میں ڈبوتے ہیں اور پھر اس کی بے بسی کی موت پر ویڈیو بناتے ہیں۔ انسان اور انسانیت کے ساتھ یہ ظلم آئے دن دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ دل خون کے آنسو بہا رہا ہوتا ہے۔

اب یہ سفاکانہ وارداتیں ہمارے اردگرد بھی تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ پاکستان کے جس علاقے پنجاب سے ہم تعلق رکھتے ہیں، روزانہ چوریاں ، ڈاکے، قتل اور اس جیسی وارداتوں کے علاوہ لوگوں کو ہراساں کرنا ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکا ہے۔ ابھی تھوڑے دن پہلے میرے شہر لاہور کے سینئر صحافی منیر احمد بلوچ کے بیٹے کی گاڑی پر کسی نے پتھر مارا جس سے اس کے بیٹے کی آنکھ ضائع ہو گئی۔ اللہ قادر مطلق اس کے بیٹے کی آنکھ کی بینائی واپس لوٹائے اور جس نے ان کی دنیا اندھیر کی، اسے کیفر کردار تک پہنچائے اور بیٹے کی آنکھ کو شفا عطا فرمائے۔ (آمین)

اب پنجاب بھر میں اغوا کی وارداتوں نے شہریوں میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔ 400 کے قریب بچے اغوا ہو چکے ہیں۔ لاہور کے مصروف ترین علاقوں میں یہ دلیرانہ واقعات پولیس، ایجنسیز اسپیشل برانچ وغیرہ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان معصوموں کو اغوا کرنا اور پھر انہیں مار دینا، والدین سخت ذہنی اذیت کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو سکول اور باہر بھیجتے ہوئے ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ میں رات صدر میں عزیزوں کے گھر گئی تو ان کے بچے خوفزدہ ہو کر بتا رہے تھے کہ ہمارے محلے سے دو بچے غائب ہو گئے ہیں۔ گلیوں میں اکٹھے ہو کر کھیلنے والے بچے دبک کر گھروں میں بیٹھ گئے ہیں۔ ابھی باتیں ہو رہی تھیں کہ بیٹے نے بتایا کہ ہم ہربنس پورہ میں گئے تو وہاں لوگ بتا رہے تھے کہ وہاں سے ایک بچے کو اغوا کر کے لے گئے۔ کچھ دنوں بعد اس کی لاش ان کے گھر کے ساتھ پھینک گئے۔ اس بچے کے جسم کے اعضاء نکال لئے گئے تھے۔ اب اس مثلہ کیے بچے کی لاش دیکھ کر اس کے گھر والوں پر کیا بیتی ہو گی۔ اس کی ماں کے دل کے درد کا اندازہ لگایئے جب اس نے اپنے بچے کی مثلہ کی ہوئی لاش دیکھی ہو گی کہ اس کے پیارے معصوم کی آنکھیں کس نے لے لیں۔ اس کے ننھے کے دل، گردے، جگر کس نے نکال لئے۔ کس نے اس کے بچے کے ساتھ ایسا ظلم کیا۔ کس نے دو پیسوں کی خاطر ایک ماں کی ممتا کو تڑپایا، ایک باپ کو اذیت سے دوچار کیا۔ کس ظالم نے ان سب گھر والوں کی دنیا اندھیر کر دی۔ پولیس کو اطلاع دی تو کچھ تعین نہ ہو سکا کہ کس نے مارا اور کیوں مارا، لیکن پیسے کی خاطر اور جسمانی اعضاء کو کاروبار بنانے کے لئے معصوموں کا قتل، اور پھر جسمانی اعضاء کا نکالنا کسی عام بندے کا کام نہیں اس کے لئے کسی ڈاکٹر کو اس واردات میں شامل کرناعام آدمی کی بھی سمجھ میں آتا ہے۔

ان اغوا کی بڑھتی ہوئی وارداتوں پر قابو پانے کے لئے ضروری ہے کہ جہاں جسمانی اعضاء بیچے جاتے ہیں وہاں سے ان کا پتہ چلایا جائے اور ایسے گھناؤنے اور سفاک کاروبار میں ملوث لوگوں کو پکڑ کر ان کی سب کے سامنے آنکھیں اور باقی سب اعضاء نکالے جائیں تاکہ لوگوں کی زندگیاں چھیننے والے، لوگوں کی دنیا اندھیر کرنے والے سفاک عبرت کا سامان بنیں۔
اللہ کے لئے پولیس کے تمام ادارے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ملک کو اس اغوا جیسی وارداتوں اور انسانی اعضاء نکالنے جیسے قبیح فعل کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔ لوگوں کو ذہنی کرب اور اذیت سے نکالیں۔ اگر پولیس یہ کام کر دکھائے گی تو ہر ذہنی کرب میں مبتلا والدین ہر شخص ہر ماں ہر بچہ اور تمام لوگ پولیس کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ CCTV کیمرے ناکام ہو چکے اب آنکھوں کے کیمروں سے مجرموں کو تلاش کیجئے اور ان کو سرعام سزا دے کر مظلوم لوگوں کی دعائیں لیجئے۔ اللہ میرے معاشرے کو امن کا گہوارہ بنا دے۔

اے اللہ کریم! ہندو سرجن کی سفاک سوچ اور داعش کے گھناؤنے فعل کی پیروی کرنے والوں سے میرے پیارے رسولؐ کی امت کو محفوظ فرما لے۔

طالب دعاء

ابو ياسر فريد كشميري من مکہ المكرمه
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
پاکستان سے معصوم بچوں کو ڈبوں میں ڈال کر اغوا کر کر کے کہاں لے جایا جا تا ہے؟ تہلکہ خیز انکشافات،حساس ادارے کے سربراہ نے ایکشن لے لیا

بده‬‮ 10 اگست‬‮ 2016 | PM 1:21:28

اسلام آباد (آئی این پی) پاکستان سے مبینہ طور پر بچوں کو اغوا کرکے اعضاء کی فروخت کے لئے انہیں تھائی لینڈ سمگل کرنے کا انکشاف ہوا ہے‘ پولیس نے لاہور سے سمگلنگ کے لئے اغواء کی گئی ایک بچی سمیت چھ بچوں کو بازیاب کرالیا ہے‘ جسمانی اعضاء کی فروخت کیلئے بچوں کے اغواء کے سکینڈل کی تحقیقات ڈائریکٹر ایف آئی اے مظہر کاکا خیل کے سپرد کردی گئی ‘ بچوں کو گتے کے ڈبوں میں بند کرکے کارگو کے ذریعے بیرون ملک سمگل کیا جاتا تھا۔ایف آئی اے کے ڈائریکٹر مظہر الحق کاکا خیل نے تحقیقات کیلئے ٹیم تشکیل دیدی ۔ بدھ کو ایف آئی اے کے ترجمان کے مطابق لاہور میں بچوں کو اغوا کے بعد قتل کرکے اعضا فروخت کرنے کے معاملے پر ایف آئی اے اسلام آباد نے تحقیقات کا آغاز کردیا ۔ بچوں کے اغوا کے تحقیقات کی ذمہ داری ڈائریکٹر مظہر الحق کاکا خیل کو سونپی گئی ۔ مظہر الحق کاکا خیل نے کہا کہ بچوں کے قتل اور اعضا بیچنے سے متعلق معلومات ایف آئی اے کو فراہم کریں۔ اغواء ‘ اعضاء بیچنے سے متعلق معلومات شہری ان نمبرز پر 03445511457, 051-2612281 پر دیں۔ ذرائع کے مطابق بچوں کو اغواء کرکے اعضاء کی فروخت کے لئے انہیں تھائی لینڈ سمگل کرنے کا انکشاف ہوا اور پولیس نے لاہور سے سمگلنگ کے لئے اغواء کی گئی بچی سمیت چھ بچوں کو بازیاب کرالیا ہ ۔ذرائع کے مطابق بچوں کو بے ہوش کرکے ان کے منہ پر پٹیاں باندھی گئی تھیں جبکہ ان کے ٹانگیں اور ہاتھ بھی بندھے ہوئے تھے ۔ سوشل میڈیا پر بچوں کے اغواء کی تصاویر سامنے آنے پر ایف آئی اے نے معاملے کی تحقیقات کا فیصلہ کیا ۔ ایف آئی اے کی ٹیم لاہور پولیس کے ان اہلکاروں کے بیانات قلمبند کرے گی جنہوں نے بچوں کو بازیاب کرایا جبکہ بچوں اور ان کے والدین سے بھی ایف آئی اے اہلکار ملاقاتیں کریں گے تاکہ اغواء کاروں کا سراغ لگایا جاسکے۔

6بچوں کی اغواء کے بعد جسمانی اعضاء فروخت کرنے کیلئے تھائی لینڈ سمگلنگ،حقیقت یا فسانہ؟ تہلکہ خیز انکشافات

لاہور ( این این آئی) ایف آئی اے نے اغوا ء کئے گئے بچوں کی تھائی لینڈ اسمگلنگ کے معاملے کی تحقیقات شروع کر دیں ،پولیس نے ایک بچی سمیت چھ بچوں کو بیرون ملک اسمگل کر نے کی کوشش ناکام بنائی تھی۔نجی ٹی وی کے مطابق اغوا ء کئے گئے چھ بچوں کو جسمانی اعضا کی فروخت کیلئے تھائی لینڈ اسمگلنگ کی کوشش کی گئی تھی جسے ناکام بنادیا گیا تھا ۔ان بچوں کے منہ پر ٹیپ اور ہاتھ پاؤں باندھے گئے تھے ۔وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے سوشل میڈیا پر بچوں کی تصاویرجاری ہونے کے بعد آیف آئی اے کو تحقیقات کی ہدایت کی تھی جس پر تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں ۔ا یف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ بچوں کی اسمگلنگ سے متعلق کوئی بھی شخص معلومات فراہم کر سکتا ہے۔تاہم ایف آئی اے نے بچوں کی تحویل یا شناخت کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے پر ہی مزید تفصیل فراہم کی جائے گی۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
جیسا کہ آپ جانتے ہیں پنجاب بھر میں بچوں کی اغوا کاری کا سلسلہ جاری ہے تو معزز والدین سے گزارش ہے کہ بچوں کو باہر بھیجتے وقت یہ دعا پڑھ کے اللہ کی پناہ میں ضرور دے دیں


13879306_1242280829139811_8678061708294519221_n.jpg

*أعوذُ بكلماتِ اللهِ التامةِ ، من كلِّ شيطانٍ وهامَّةٍ ، ومن كلِّ عينٍ لامَّةٍ*

-------

الراوي: عبدالله بن عباس
المحدث: البخاري
المصدر: صحيح البخاري
الصفحة أو الرقم: 3371
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
Top