• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مفتی اور مستفتی اور اس کے آداب (اصول الفقہ)

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
مفتی اور مستفتی:

مفتی کا لفظ إفتاء کے باب سے اسم فاعل کا صیغہ ہے۔شیخ ابوطاهر مجد الدین محمدبن یعقوب کارزینی معروف بہ فیروزآبادی قاموس میں فرماتے ہیں: اس نے اس مسئلہ میں فتویٰ دیا کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اس مسئلہ کو اس کےلیے واضح کردیا۔ اور فتیا اور فتویٰ (فتحہ کے ساتھ)اس چیز کو کہتے ہیں جس کا مفتی فتوی دیتا ہے۔ صاحب قاموس کی بات ختم ہوئی۔

مفتی کا لفظ اس شخص پر بولا جاتا ہے جو اس طور پرحق کی خبر دینے والا ہو کہ اس پر وہ لازم نہ ہو۔ اہل اصول کے ہاں اس کا اطلاق مجتہد پر کیا جاتا ہے اور مجتہد وہ ہوتا ہے: جو کسی شرعی حکم پر یقینی یا ظنی فیصلہ حاصل کرنے کےلیے دلائل میں اپنی پوری وسعت اور طاقت کو کھپا دے۔

مستفتی کا لفظ استفتاء کے باب سے اسم فاعل کا صیغہ ہے اور لغت میں فتویٰ طلب کرنے والے کو کہتے ہیں اور اصطلاح میں اس شخص کو کہتے ہیں: جو مجتہد سے حکم شرعی طلب کرے ۔تو اس میں عام لوگ اور وہ طالب علم جو ابھی اجتہاد کے درجے تک نہیں پہنچے ، سب آجاتے ہیں۔

مفتی اور مستفتی کے آداب:

مفتی اور مستفتی دونوں کے لیے چند آداب مقرر کیے گئے ہیں۔ پہلے مفتی کے آداب ذکر کیے جاتے ہیں:

یہ کہ اس کی نیت اچھی ہو یا وہ حسن نیت والا ہو کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔ اور جس شخص کی نیت ہی اچھی نہ ہوگی نہ تو خود اس پر علم کا نور ہوگا اور نہ ہی اس کی بات پر۔

یہ کہ وہ بردبار، پروقار اور حوصلے والا ہو کیونکہ یہ خوبیاں علم کا لباس اور اس کی خوبصورتی ہیں۔ جب کسی مفتی کے اندر یہ صفات نہ ہوں تو اس کا علم لباس سے عاری جسم کی طرح ہوتا ہے۔

یہ کہ وہ لوگوں کے پاس موجود چیزوں سے پرہیز کرے کیونکہ اگر یہ ان کے ہاں سے کوئی چیز کھائے گا تو وہ دگنااس کاگوشت کھائیں گے اور خون پئیں گے۔

یہ کہ اس کو لوگوں کی پہچان میں ملکہ حاصل ہو کیونکہ جب اس کے اند ر چہرہ شناسی کا علم نہ ہو گا تو وہ ظالم کو مظلوم تصور کرلے گا یا مظلوم کو ظالم تصور کرے گا، اس طرح اس پر مکروفریب غلبہ پالے گااور اس طرح مفتی صاحب اصلاح سے زیادہ فساد پھیلائیں گے۔

یہ کہ اس کی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف رہے اور وہ اسی کے سامنے عاجزی اختیار کرے اور زیادہ سے زیادہ دعا اور استغفار کرے تاکہ اسے درست بات اس کے دل میں ڈالی جائے اور درستگی کے راستے اس کے لیے کھولے جائیں۔

یہ کہ وہ فیصلہ کی نسبت اللہ اور اس کے رسولﷺکی طرف کرنے سے ممکن حد تک بچے الا یہ کہ اس کے پاس کوئی واضح نص ہو ، جس پر وہ اس معاملے میں اعتمادکرتا ہو۔

یہ کہ وہ علم ودین میں اپنے سے پختہ سے اپنے فتوؤں میں مشورہ کرے ، کیونکہ عمر رضی اللہ عنہ کے وقت میں جب بھی کوئی نیا معاملہ پیش آتا تو وہ اپنے پاس موجود صحابہ سے اس بارے میں مشورہ کرتے تھے اور بسا اوقات تو وہ سب کو جمع کرلیتے اور پھر ان سے مشاورت کرتے۔

یہ کہ وہ اپنے علم پر عمل کرے کیونکہ عمل ہی علم کا پھل ہے اور عمل کے بغیر انسان کا علم اس کے خلاف حجت بن جاتا ہے۔

مستفتی کے آداب:


یہ کہ وہ عام طور پراچھے اخلاق سے آراستہ ہو اور مفتی صاحب کے حضور تو خصوصاً اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرے ۔ اور ایسا نہ کرے جیسا کہ عوام کی عادت ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے مفتی صاحب کے چہرے کی طرف اشارہ کرتے ہیں ، نہ ہی اس سے ایسی بات کہے جو مناسب نہ ہومثال کے طور پر یوں کہے کہ فلاں مفتی صاحب نے تو مجھے اس مسئلہ میں یوں فتوی دیا ہے۔اسی طرح مفتی صاحب سے ایسے وقت سوال نہ کرے جب مفتی صاحب بے چین وبے قرار، غمگین یا غصے وغیرہ کی حالت میں ہوں۔

یہ کہ مفتی صاحب سے فضول قسم کے سوال نہ پوچھے اور نہ ہی بہت زیادہ سوال کرے کہ مفتی صاحب اکتا کر تھک جائیں۔

یہ وہ آخری بات تھی جس کو اس کتابچہ میں پیش کرنا اللہ رب العالمین نے ہمارے لیے آسان کیا تھا۔

اول وآخرتمام تعریفیں اللہ تبارک وتعالیٰ کےلیے ہیں اور درودوسلام ہوں اللہ کے نبی جناب محمد رسول اللہﷺ پر ۔ اے اللہ ! ہمارے پیارے نبی جناب محمد ﷺ ، ان کی آل پر ، ان کے صحابہ پر اور قیامت تک ان کی احسان کے ساتھ پیروی کرنے والوں پر اپنی برکتیں نازل فرما۔آمین۔

ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر
 
Top