• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مفسرِقرآن حافظ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ تاتاریوں کی تکفیر اور ان کے خلاف قتال کی وجہ بیان کرتے ہیں

شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
مفسرِقرآن حافظ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ تاتاریوں کی تکفیر اور ان کے خلاف قتال کی وجہ بیان کرتے ہیں
حافظ بن کثیر رحمہ اللہ نے آیت ﴿أَفَحُکْمَ الْجَاھِلِیَّةِ یَبْغُونَ﴾کی تفسیر کے تحت فرماتے ہیں:​
یہاں اللہ تعالیٰ اس شخص پر نکیر فرما رہا ہے جو اللہ کے محکم فیصلے کو چھوڑ کر کہیں جاتا ہے جبکہ اللہ کا وہ فیصلہ ہرہرخیر پرمشتمل ہے اور ہر ہر شر سے مانع ہے،مگر یہ شخص اسے چھوڑ کر اور چیزوں کی طرف جاتا ہے ، خواہ وہ آراء ہوں ، یا وہ وضع کر لی گئی چیزیں ہوں جنھیں انسانوں ہی نے مقرر ٹھہرا لیا ہے بغیر اس کے کہ ان پر شریعت سے کوئی سند ہو، جیسا کہ اہل جاہلیت اپنے حکم و قانون کیلئے اپنی ان ضلالتوں اور جہالتوں کو مقرر ٹھہرا لیتے تھے جنھیں وہ اپنی آراء اور اہواء سے اختیار کر لیتے ۔ جس طرح یہ تاتاری ان شاہی فرامین کی بنیاد پر اپنا حکم و قانون چلاتے ہیں جن کا ماخذان کے بادشاہ چنگیز خان کا وضع کیا ہوا یاسق(تزک چنگیزی، تاتاری قوانین کی کتاب)ہے اور جو ایک مجموعہ قوانین سے عبارت ہے جو اس نے مختلف شریعتوں سے نکال کر اکھٹے کیے تھے، یہودیت سے بھی،نصرانیت سے بھی اور شریعت اسلامی سے بھی،جبکہ اس میں بہت سے قوانین ایسے ہیں جو اس نے خود اپنے ہی فکر اور ہوائے نفس سے ماخوذ کر رکھے تھے،اور یوں یہ یاسق(تزکِ چنگیزی)ہی آگے اس کی اولاد میں ایک دستور بن چکا ہے۔اس کی باقاعدہ پیروی ہوتی اور اسے وہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہﷺکو لاگو کرنے پر مقدم رکھتے ہیں۔ پس جو شخص ایسا کرتا ہے ، وہ کافر ہے۔اس سے قتال واجب ہے تاآنکہ وہ اللہ اور رسول ﷺ کے قانون کی جانب لوٹ آئے ، یہاں تک کہ ہرہرمعاملے میں ،خواہ کوئی معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا ،وہ اللہ اور رسولﷺہی کو فیصل اورحَکَم ماننے لگے۔(تفسیر ابن کثیر، المائدة 5:50.)
امام صاحب فرماتے ہیں کہ ''وہ، یعنی تاتاری اپنے یاسق قانون کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺپر مقدم رکھتے تھے''۔وہ اسی پر ان کی اوران جیسے دوسروں کی تکفیر کر رہے ہیں۔ یعنی ''مناطِ تکفیر''(کافر قرار دینے کی علت)ان کا وضعی قانون یاسق کو کتاب و سنت پر مقدم کرنا ہے۔

محدث حامد الفقی حافظ ابن کثیر﷫کے اس فتوے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''ان تاتاریوں کی طرح بلکہ ان سے بھی بدتر وہ لوگ ہیں جو انگریزوں کے قوانین اپناتے ہیں اوراپنے مالی،فوجداری اور عائلی معاملات کے فیصلے ان کے مطابق کرتے ہیں اور انگریزی قوانین کو اللہ اور اس کے رسول ﷺکے احکام پر مقدم رکھتے ہیں۔ایسے لوگ بغیر کسی شک وشبہ کے مرتد اور کافر ہیں۔یہ اس وقت تک ہے جب تک وہ اس روش پر برقرار ہیں اور اللہ کے حکم کی طرف رجوع نہیں کرتے۔وہ اپنا نام کچھ بھی کیوں نہ رکھ لیں، انھیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور وہ اسلام کے ظاہری اعمال میں جتنے چاہیں عمل کر لیں، وہ سب کے سب بے کار ہیں۔ جیسے نماز ، روزہ اور اس کے علاوہ دیگر اعمال۔''(تعلیق کتاب فتح المجید، ص:415.)
اسی طرح محدث دیارِ مصر احمد شاکر﷫نے بھی حافظ ابن کثیر﷫کے اس فتوے پر تبصرہ کرتے ہوئے مسلم ممالک میں نافذ وضعی قوانین کو تاتاری قانون''یاسق''کے سب سے بڑھ کر مشابہ اور اسے ''یاسقِ عصری ''اور ''کفر بواح''قرار دیا ہے۔(دیکھیے عمدة التفسیر:697/1 ، طبع دارابن حزم.)

حافظ ابن کثیر﷫کا وضعی قوانین فافذ کرنے والوں کے بارے میں ایک اور انتہائی اہم فتوی ملاحظہ فرمائیں:
(وَفِي ذٰلِکَ کُلِّہِ مُخَالَفَةٌ لِّشَرَائِعِ اللّٰہِ الْمُنَزَّلَةِ عَلٰی عِبَادِہِ اَلأَنبِیَاءِ عَلَیْھِمُ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ، فَمَنْ تَرَکَ الشَّرْعَ الْمُحْکَمَ الْمُنَزَّلَ عَلٰی مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ خَاتَمِ اَلأَنبِیَاءِ وَتَحَاکَمَ اِلٰی غَیْرِہٖ مِنَ الشَّرَائِعِ الْمَنْسُوخَةِ کَفَرَ،فَکَیْفَ بِمَنْ تَحَاکَمَ اِلَی الْیَاسَا(الْیَاسِقِ) وَقَدَّمَھَا عَلَیْہِ؟ مَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ کَفَرَ بِاجْمَاعِ الْمُسْلِمِینَ)
''یہ تمام قوانین اللہ کی ان شریعتوں کی مخالفت سے پُر ہیں جواس نے اپنے انبیاء﷩پرنازل فرمائیں۔ پس جوشخص بھی خاتم الانبیاء محمد بن عبداللہﷺپر نازل کردہ محکم شریعت کوچھوڑ دے اور اپنے فیصلوں کے لیے کسی منسوخ شدہ شریعت کی طرف جائے تووہ شخص کافر ہوجائے گا ۔ (پس جب رب ہی کی نازل کردہ کسی سابقہ شریعت کو فیصل ماننابھی کفر ہے) توپھر اس شخص کی کیا حالت ہوگی جو''یاسق''جیسی(خودساختہ)کتاب کی طرف فیصلے لے کرجائے اوراسے شریعت ِمحمدی پر مقدم جانے؟بلاشبہ جوشخص بھی ایساکرتاہے ،اس کے کافر ہونے پرامت کااجماع ہے۔''[البدایة والنھایة:119/13. ترجمة جنکز خان.]
تو یہ ہے تاتاریوں کی تکفیر اور ان کے خلاف قتال کی اصل وجہ جس پر شیخین رحمہمااللہ اور تمام اہل حق متفق ہیں۔ خوامخواہ میں لمبی بحث کی گئی ہے اس مسئلے میں تاکہ لوگوں کی نظروں سے اصل حقائق کو اوجھل کرکے ان کو تلبیس وتدلیس کرتے ہوئے اپنے باطل افکار اور نظریات کو پیش کیا جاسکے ۔ جب تاتاریوں کی جو تکفیر کی اصل وجہ شیخین امام ابن تیمیہ اور امام ابن کثیر اور ان کے بعد آنے والے اہل علم نے بیان کی ہے وہ ٍیہ ہے کہ تاتاریوں نے اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر یاسق کو مقدم رکھا۔جب ہی تو ان اہل علم نے تاتاریوں کی کھلی تکفیر کی اور ان کے خلاف قتال کیا اور ان شہادتین کے اقرار کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔
اور جن صاحب نے اس فورم پر یہ دعویٰ کیا کہ امام صاحب نے تاتاریوں کی تکفیر اس لئے کی کہ ان کے عقیدے میں خرابی تھی ۔ تو ہمارا ان صاحب سے یہ سوال ہے کہ تو پھر تو شیعوں اور بریلویوں اور صوفیوں کے عقیدے میں بھی اسی طرح کی بلکہ اس سے بھی بدترین خرابیاں موجود ہیں ۔ تو کیا ان صاحب نے عقائد کی خرابی کی بنیاد کبھی ان فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد جو کہ اس عقیدے کے حامل ہیں ان کی تکفیر کی ہے؟ یا ان کی تکفیر کریں گے؟
لہٰذا یہ کہنا کہ صرف عقائد کی بنیاد پر تاتاریوں کی تکفیر کی گئی تھی محض دھوکہ ہے۔ہم نے درج بالا عبارات سے ثابت کردیا ہے کہ تاتاریوں کی تکفیر اور ان کے خلاف قتال کی بنیادی وجہ کتاب وسنت کے محکم قوانین کو چھوڑ کر چنگیزخان کے بنائے قوانین یاسق کو لوگوں کے اوپر نافذ کرنا تھا۔
ہم کہتے ہیں کہ اس طرح کی تدلیس اور تلبیس کی ضرورت کیوں پیش آئی تو ا سکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلم ممالک میں حکمرانی کرنے والے ان حکمرانوں کو تکفیر سے بچانا ہے جو کہ قرآن وسنت کے علاوہ برطانوی اور فرانسیسی قوانین اور پارلیمنٹ میں بنائے ہوئے قوانین کے ذریعے حکومت کررہے ہیں ۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جماعۃ الدعوۃ سے تعلق رکھنے والے مفتی مبشر احمد ربانی صاحب نے اسی قسم کی تدلیس وتلبیس سے کام لیتے ہوئے ان حکمرانوں کو تکفیر سے بچانے کی کوشش کی ہے جو کہ اللہ کے نازل کردہ قوانین کی بجائے برطانوی اور فرانسیسی اور پارلیمنٹ میں بنائے ہوئے قوانین کے ذریعے سے حکومت کررہے ہیں اور انہوں نے کتاب وسنت کے قوانین کو جو کہ محکم اور ٹھوس قوانین ہیں جنہیں اللہ رب العالمین نے نازل کیا ہے ان قوانین کو پیٹھ کے پیچھے پھینک رکھا ہے۔اور چنگیزخان کی طرح دین اسلام سے کچھ باتیں لے کر اپنے بنائے ہوئے یاسق کو لوگوں پر مسلط کیا ہوا ہے ذیل میں ہم اس تدلیس کا نمونہ آپ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں تاکہ حق کے متلاشی اس حقیقت کو اچھی طرح جان لیں کے اصل حقیقت کیا ہے:
کلمہ گوتاتاریوں کے خلاف ابن تیمیہ﷫ کے جہاد کے سوال پر جماعۃ الدعوۃ کے مفتی جناب مبشر احمد ربانی صاحب نے جواب دیاکہ:
جہاں تک میں نے فتاویٰ ابن تیمیہ کو دیکھا ہے تو ان میں واضح کفر موجود تھے ۔ انھوں نے اپنی الگ شریعت بنائی ہوئی تھی جس کا ذکر امام ابن کثیر﷫ نے بھی اپنی تفسیر میں کیا ہے جس میں یہودی ، عیسائی اور کچھ اسلام سب کو گڈمڈ کر کے اپنے لئے نئی شریعت (قانون)تیار کی تھی۔ تو نئی شریعت بنانے کی وجہ سے وہ لوگ مسلمان نہیں رہے تھے۔اس لیے ان کے ساتھ لڑے۔اگر کوئی شخص آج بھی اسلامی شریعت کا انکار کر دے ، نئی شریعت وضع کرے تو ہم اس کو بھی کافر قرار دیں گے۔ جب اسلامی شریعت کا اقرار کر کے عملاً اس کے خلاف ہو ، اس کو کافر نہیں کہتے ۔ عبداللہ بن عباس ﷠ نے﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ﴾کی جو تفسیر کی ہے کہ جو اللہ کے نازل کردہ قانون کا انکار کرے گا، وہ کافر ہے۔ جس نے اللہ کے قانون کااقرار تو کیا لیکن اس کے مطابق فیصلہ نہیں کیا تو وہ ظالم اور فاسق ہے، کافر نہیں۔ اس لیے وہ (تاتاری)چونکہ نئی شریعت وضع کر چکے تھے،باقاعدہ یاسق نام کا قانون بنا کر، شریعت بنا کر جاری کر چکے تھے جس وجہ سے یہ مسئلہ ہوا(یعنی کافر ہوئے)۔''
مفتی صاحب نے تو اس سوال کے جواب میں تلبیس،تدلیس اور تخلیط کا ''لک''توڑ کر رکھ دیا ہے اورپہلے سوال کی طرح بات گول مول کر کے نکلنے کی کوشش کی ہے ، حالانکہ اوپر لکھی گئی بات اگر کسی بھی انصاف پسند آدمی کے سامنے پیش کی جائے اور پوچھا جائے کہ تاتاریوں کے کافر ہونے کی جو علت مبشر ربانی صاحب نے بتائی ہے ، کیا بالکل وہی علت موجودہ حکمرانوں میں نہیں ہے جو انگریزی اور خود ساختہ قوانین نافذ کر چکے ہیں ۔ تو یقینا ہر آدمی یہی کہے گا کہ کیوں نہیں۔
محترم مفتی صاحب!آپ اوپر والی اپنی عبارت 100دفعہ پڑھ لیں اور تقریر کی ریکارڈنگ 200دفعہ سن لیں ، پھر اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر بتائیں کہ آپ کے الفاظ میں تاتاریوں کے کافر ہونے کی کیاعلت ہے۔ ہمیں تو جوالفاظ ملتے ہیں، وہ تین طرح کے ہیں :
۱۔ انھوں نے اپنی الگ شریعت بنائی ہوئی تھی۔
۲۔ تو نئی شریعت بنانے کی وجہ سے وہ مسلمان نہیں رہے تھے۔
۳۔ اس لیے وہ (تاتاری)چونکہ نئی شریعت وضع کر چکے تھے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ ہوا۔
مفتی صاحب!آپ نے ان تینوں جملوں میں ان کے کفر کی علت شریعت وضع کر کے نافذ کر دینا بتائی ہے، خواہ اسلامی شریعت کا اقرار کریں یا نہ کریں۔ مگر نیچے جب اپنے حکمرانوں کو بچانا تھا تو ادھر آپ نے کیا الفاظ کہے......... یہ خود ہی پڑھ لیں:
''آج بھی کوئی شخص اسلامی شریعت کا انکار کر دے اور نئی شریعت وضع کر ے تو کافر ہوگا۔''
ہمیں شدید حیرت اس بات پر ہے کہ جناب مفتی مبشراحمد ربانی صاحب نے تاتاریوں کے بارے میں اسلامی شریعت کے انکار کی شرط نہیں لگائی کیوں کہ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ اس کا ثبوت مفتی صاحب کے پاس بالکل نہ تھا۔کیونکہ تاتاریوں نے اسلام کا انکار کرتے ہوئے یاسق کو نافذ نہیں کیا تھا بلکہ اپنی خواہش کے مطابق اسلام یہودیت ،نصرانیت اور چنگیزیت کا ملغوبہ یاسق نافذ کیا ہوا تھا۔ بعینہ اسی طرح آج کے حکمرانوں نے بھی کیا ہوا ہے انہوں نے کچھ چیزیں برطانوی قوانین، فرانسیسی قوانین اور پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین کو نافذ کررکھا ہے۔
اب کوئی بھی منصف مزاج شخص یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگائے گا کہ قوانین کو نافذ کرنے بارے میں ان دونوں کا حکم ایک ہی ہے۔یعنی جو بھی اللہ کے قوانین کی جگہ غیر الٰہی قوانین کو نافذ کرے اس سے قتال کیا جائے اور اس کی تکفیر کی جائے جس طرح کہ تاتاریوں کی تکفیر کی گئی ۔ علماء امت نے ان کے کلمہ کے اقرار پر توجہ ہی نہیں کی اور انہیں یاسق کو نافذ کرنے پر کافر قرار دیا۔
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ محدث حامد الفقی﷫نے تو انگریزی قوانین کو شرعی قوانین پر مقدم کرنے والوں کو بلا تردد کافر ومرتد اور تاتاریوں سے بھی بدتر قرار دیا ہے۔یاد رہے مذکورہ کتاب کی مراجعت و نظرِ ثانی شیخ عبدالعزیز بن باز﷫نے کی ہے لیکن انہوں نے حامد الفقی﷫کی مذکورہ تعلیق پر کوئی نقد و تبصرہ نہیں کیا بلکہ اسے برقرار رکھا ہے ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے حامد الفقی ﷫کے اس فتوے کو صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح محدث دیارِ مصر احمد شاکر﷫نے بھی حافظ ابن کثیر﷫کے اس فتوے پر تبصرہ کرتے ہوئے مسلم ممالک میں نافذ وضعی قوانین کو تاتاری قانون''یاسق''کے سب سے بڑھ کر مشابہ اور اسے ''یاسقِ عصری ''اور ''کفر بواح''قرار دیا ہے۔
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
(وَفِي ذٰلِکَ کُلِّہِ مُخَالَفَةٌ لِّشَرَائِعِ اللّٰہِ الْمُنَزَّلَةِ عَلٰی عِبَادِہِ اَلأَنبِیَاءِ عَلَیْھِمُ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ، فَمَنْ تَرَکَ الشَّرْعَ الْمُحْکَمَ الْمُنَزَّلَ عَلٰی مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ خَاتَمِ اَلأَنبِیَاءِ وَتَحَاکَمَ اِلٰی غَیْرِہٖ مِنَ الشَّرَائِعِ الْمَنْسُوخَةِ کَفَرَ،فَکَیْفَ بِمَنْ تَحَاکَمَ اِلَی الْیَاسَا(الْیَاسِقِ) وَقَدَّمَھَا عَلَیْہِ؟ مَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ کَفَرَ بِاجْمَاعِ الْمُسْلِمِینَ)
''یہ تمام قوانین اللہ کی ان شریعتوں کی مخالفت سے پُر ہیں جواس نے اپنے انبیاء﷩پرنازل فرمائیں۔ پس جوشخص بھی خاتم الانبیاء محمد بن عبداللہﷺپر نازل کردہ محکم شریعت کوچھوڑ دے اور اپنے فیصلوں کے لیے کسی منسوخ شدہ شریعت کی طرف جائے تووہ شخص کافر ہوجائے گا ۔ (پس جب رب ہی کی نازل کردہ کسی سابقہ شریعت کو فیصل ماننابھی کفر ہے) توپھر اس شخص کی کیا حالت ہوگی جو''یاسق''جیسی(خودساختہ)کتاب کی طرف فیصلے لے کرجائے اوراسے شریعت ِمحمدی پر مقدم جانے؟بلاشبہ جوشخص بھی ایساکرتاہے ،اس کے کافر ہونے پرامت کااجماع ہے۔''
تو یہ ہے سیدھی سادھی صورت حال جو کہ حقائق پر مبنی ہے۔اتنی دور کی بحث میں جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے خوامخواہ لوگوں کو دور پرے کی باتوں میں الجھا کر حق سے دور کیا جارہا ہے۔لہٰذا تکفیری تکفیری کی رٹ لگانے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنی لسٹ میں مزید توسیع کرتے ہوئے ۔ امام ابن کثیر ، علامہ احمد محمد شاکر، محدث حامد الفقی ، عبدالعزیز بن باز وغیرہم کو بھی تکفیریوں کی لسٹ میں شامل کرلیں!!!
 

علی ولی

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
81
پوائنٹ
21
مقام حیرت ہے ، اکثر لوگ یہی نہیں جانتے کہ مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ کا یہ موقف کوئی انکا ذاتی نہیں، بلکہ قرآن و سنت، فہم سلف صالحین اور کبار سلفی آئمہ کے موقف کے عین مطابق ہے

مجرد وضعی قانون کے مطابق فیصلہ یا اس کا نفاذ اور سلفی علماء کی رائے


شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے فتوی کے بارے ان مذکورہ بالا پانچ آراء میں سے دوسری رائے راجح ہے۔ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کا رسالہ تحکیم ١٣٨٠ھ میں پہلی دفعہ شائع ہوا جبکہ شیخ کا دوسرا فتوی محرم ١٣٨٥ھ کا ہے پس ثابت ہوا کہ یہی شیخ کاآخری قو ل ہے اور یہی جمیع اہل سنت کا بھی موقف ہے کہ مجرد وضعی قانون کے مطابق فیصلہ یا اس کا نفاذ خارج عن الملة نہیں ہے ا لا یہ کہ اس کے ساتھ استحلال قلبی یا انکار بھی ہو۔

؎علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''وخلاصة الکلام : لا بد من معرفة أن الکفر کالفسق والظلم ینقسم الی قسمین : کفر وفسق وظلم یخرج من الملة وکل ذلک یعود الی الاستحلال القلبی وآخر لا یخرج من الملة یعود الی الاستحلال العملی.'' (التحذیر من فتنة التکفیر : ص ٩' ١٠)
''ہماری اس طویل بحث کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ جان لینا چاہیے کہ کفر بھی ظلم اور فسق کی مانند دو طرح کا ہے ۔ ایک کفر' ظلم اور فسق و فجور تو وہ ہے جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث بنتا ہے اور یہ وہ کفر ' ظلم یا فسق ہے جس میں کوئی کفر' ظلم یا فسق کا ارتکاب اسے دل سے حلال سمجھتے ہوئے کرے اور دوسرا کفر' ظلم یا فسق وہ ہے جو ملتاسلامیہ سے خارج نہیں کرتا اور یہ وہ ہے جس کا مرتکب عملاً اس کفر' ظلم یا فسق کو حلال سمجھ رہا ہو نہ کہ قلبی طور پر۔ ''
سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''فقد اطلعت علی الجواب المفید الذی تفضل بہ صاحب الفضیلة الشیخ محمد ناصر الدین الألبانی وفقہ اللہ المنشور فی صحیفة المسلمون الذی أجاب بہ فضیلتہ من سألہ عن '' تکفیر من حکم بغیر ما أنزل اللہ من غیر تفصیل'' ... وقد أوضح أن الکفر کفران : أکبر وأصغر کما أن الظلم ظلمان وھکذا الفسق فسقان : أکبر وأصغر. فمن استحل الحکم بغیر ما أنزل اللہ أو الزنی أو الربا أو غیرھما من المحرمات المجمع علی تحریمھا فقد کفر کفرا أکبر وظلم ظلما أکبر وفسق فسقا أکبر : ومن فعلھا بدون استحلال کان کفرہ کفرا أصغر وظلمہ ظلما أصغر.''(التحذیر من فتنة التکفیر : ص ١٣ ' ١٤)
''میں تکفیر کے مسئلے میں اس جواب سے مطلع ہوا جسے فضیلة الشیخ جناب علامہ البانی نے نقل کیا ہے اور وہ 'المسلمون' نامی اخبار میں نشر ہوا ہے ۔ اپنے اس فتوی میں آنجناب نے' بغیر کسی تفصیل کے اس شخص کی تکفیر کہ جس نے اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کیا ہو' کے بارے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے ... شیخ ألبانی نے یہ واضح کیا ہے کہ کفر دو قسم کا ہے : ایک کفر اکبر اور دوسرا کفر اصغر جیسا کہ ظلم اور فسق و فجور بھی دو قسم کا ہے۔ ایک ظلم اکبر اور دوسرا ظلم اصغر ' اسی طرح ایک فسق اکبر اوردوسرا فسق اصغر۔ جس نے اللہ کی نازل کردہ شریعت کے بغیر فیصلہ کرنے کو جائز اور حلال سمجھا یا زنا یا سود یاان کے علاوہ مجمع علیہ حرام شدہ امور میں سے کسی امر کو حلال سمجھا تو اس کا کفر تو کفر اکبر ہے یا اس کا ظلم تو ظلم اکبر اور اس کا فسق تو فسق اکبر ہے۔ اور جس نے اللہ کی نازل کردہ شریعت کو حلال جانے بغیر اس کے خلاف فیصلہ دیا تو اس کا کفر تو کفر اصغر ہے اور اس کا ظلم بھی ظلم اصغر ہے۔''

بعض لوگوں کو شیخ بن باز رحمہ اللہ کے ایک فتوی سے یہ غلط فہمی لاحق ہوئی کہ وہ وضعی قوانین کے مطابق فیصلوں کو مطلق طور پر کفر سمجھتے تھے حالانکہ شیخ کا یہ فتوی ان کے مذکورہ بالا فتاوی ہی کا ایک بیان ہے۔

شیخ بن باز رحمہ اللہ نے ایک جگہ فرمایا ہے:
'' وکل دولة لا تحکم بشرع اللہ ولا تنصاع لحکم اللہ ولا ترضاہ فھی دولة جاھلیة کافرة ظالمة فاسقة بنص ھذة الآیات المحکمات.''(المفصل فی شرح آیت الولاء والبراء : ص ٢٨٨)
'' ہر ریاست جو اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرتی ہو اور اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرتی ہو اور اللہ کے حکم پرراضی نہ ہو تو وہ مذکورہ بالا محکم آیات کی روشنی میں جاہلی ' کافر ' ظالم اور فاسق ریاست ہے ۔''

اس فتوی میں 'ترضاہ' کے الفاظ اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ شیخ بن باز رحمہ اللہ اس مسلمان ریاست کی تکفیر کرتے ہیں جو غیر اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے کرنے کو جائز اور حلال سمجھتی ہو اور یہی بات جمہور سلفی علماء بھی کہتے ہیں۔

شیخ بن باز رحمہ اللہ کے جلیل القدر تلامذہ نے بھی ان کی طرف اسی موقف کی نسبت کی ہے جسے ہم ان کے حوالے سے بیان کر رہے ہیں ۔
شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز جبرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''فقد ذھب بعض أھل العلم الی أن مجرد تحکیم قانون أو نظام عام مخالف لشرع اللہ تعالی کفر مخرج من الملة ولو لم یصحبہ اعتقاد أن ھذا القانون أفضل من شرع اللہ أو مثلہ أویجوز الحکم بہ ...وقد رجح شیخای الشیخ عبد العزیز بن باز والشیخ ابن عثیمین رحمھما اللہ القول الأول وھو أن الحکم بغیر ما أنزل اللہ لا یکون کفرا مخرجا من الملة مطلقا حتی یصحبہ اعتقاد جواز الحکم بہ أو أنہ أفضل من حکم اللہ أو مثلہ أو أی مکفر آخر.'' (تسھیل العقیدة السلامیة : ص ٢٤٢۔٢٤٣)
'' بعض اہل علم کا دوسراقول یہ ہے کہ مجرد کسی خلاف شرع وضعی قانون یا نظام عام سے فیصلہ کرنا ایسا کفر ہے جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث ہے اگرچہ اس شخص کا یہ اعتقاد نہ بھی ہو کہ وضعی قانون اللہ کی شریعت سے افضل یا اس کے برابر ہے یا اس سے فیصلہ کرنا جائز ہے ... ہمارے شیخین ' شیخ بن باز اور شیخ بن عثیمین رحمہما اللہ نے اس مسئلے میں پہلے قول کو ترجیح دی ہے اور وہ یہ ہے کہ مطلق طور پر اللہ کی نازل کردہشریعت کے علاوہ سے فیصلہ کرنا ایسا کفر نہیں ہے جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث ہو یہاں تک کہ وہ فیصلہ کرنے والا اس کے مطابق فیصلے کو جائز سمجھتا ہو یا شریعت سے افضل یا اسے بہتر سمجھتا ہو یا اس قسم کا کوئی کفریہ سبب پایا جاتا ہو۔''
شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''والذی فھم من کلام الشیخین : أن الکفر لمن استحل ذلک وأما من حکم بہ علی أنہ معصیة مخالفة : فھذا لیس بکافر لأنہ لم یستحلہ لکن قد یکون خوفا أو عجزا أو ما أشبہ ذلک.''(التحذیر من فتنة التکفیر : ص ١٦)
''شیخین یعنی شیخ بن باز اور علامہ ألبانی کے کلام سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے نہ کرنے والے حاکم کا کفر،حقیقی اس صورت میں ہو گا جبکہ وہ اپنے اس فعل کو جائز سمجھتا ہو اور جو حاکم غیر اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے کرے اور اس کو معصیت یا دین کی مخالفت سمجھے تو وہ حقیقی کافر نہیں ہے کیونکہ اس نے اپنے اس فعل کو حلال نہیں سمجھا۔ بعض اوقات کوئی حاکم خوف یا عجز یا اس قسم کی وجوہات کی وجہ سے بھی شریعت کے خلاف فیصلہ کر دیتا ہے،(لہذا اس صورت میں بھی اس پر کفر کا فتوی نہیں لگا یا جائے گا)۔''
ایک اور مقام پر ایک سوال کے جواب میں شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' سؤال : اذا ألزم الحاکم الناس بشریعة مخالفة للکتاب والسنة مع اعترافہ بأن الحق ما فی الکتاب و السنة لکنہ یری ا لزام الناس بھذا الشریعة شھوة أو لاعتبارات أخری ' ھل یکون بفعلہ ھذا کافر أم لا بد أن ینظر فی اعتقادہ فی ھذہ المسألة ؟ فأجاب: أما فی ما یتعلق بالحکم بغیر ما أنزل اللہ فھو کما فی کتابہ العزیز ینقسم الی ثلاثہ أقسام : کفر وظلم وفسق علی حسب الأسباب التی بنی علیھا ھذا الحکم' فھذا الرجل یحکم بغیر ما أنزل اللہ تبعا لھواہ مع علمہ بأن الحق فیما قضی اللہ بہ' فھذا لا یکفر لکنہ بین فاسق وظالم.وأما ذا کان یشرع حکما عاما تمشی علیہ الأمة یری أن ذلک من المصلحة وقد لبس علیہ فیہ فلا یکفر أیضا' لأن کثیر من الحکام عندھم جھل بعلم الشریعة ویتصل بمن لا یعرف الحکم الشرعی وھم یرونہ عالما کبیرا فیحصل بذلک مخالفة واذا کان یعلم الشرع ولکنہ حکم بھذا أو شرع ھذا وجعلہ دستورا یمشی الناس علیہ نعتقد أنہ ظالم فی ذلک وللحق الذی جاء فی الکتاب والسنة أننا لا نستطیع أن نکفر ھذا وانما نکفر من یری أن الحکم بغیر ما أنزل اللہ أولی أن یکون الناس علیہ أو مثل حکم اللہ عزوجل فان ھذا کافر لأنہ یکذب بقولہ تعالی ألیس اللہ بأحکم الحاکمین وقولہ تعالی أفحکم الجاھلیة یبغون ومن أحسن من اللہ حکما لقوم یوقنون.''(تحکیم قوانین کے متعلق اقوال سلف: ص ٣١۔٣٢)
'' سوال: اگر کوئی حاکم کتاب و سنت کے مخالف کسی قانون کو نافذ کر دیتا ہے لیکن ساتھ ہی اس بات کا بھی اعتراف کرتا ہے کہ حق وہی ہے جو کتاب وسنت میں ہے اور اس مخالف ِ کتاب و سنت قانون کو اپنی خواہش نفس یا کئی اور وجوہات کی بنا پر نافذ کرتا ہے تو کیا اپنے اس فعل سے وہ کافر ہو جائے گا یا یہ لازم ہے کہ اس مسئلے میں اس پر کفر کا فتوی لگانے کے لیے اس کا عقیدہ دیکھا جائے ؟

جواب: ما أنزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کرنے کی تین قسمیں یعنی کفر' ظلم اور فسق و فجور قرآن میں بیان کی گئی ہیں اور ان قسموں کا اطلاق اس حکم کے اسباب کے اعتبار سے بدلتا رہے گا۔ پس اگر کسی شخص نے اپنی خواہش نفس کے تحت ما أنزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کیا جبکہ اس کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ کا فیصلہ حق ہے تو ایسے شخص کی تکفیر نہ ہو گی اور یہ ظالم اور فاسق کے مابین کسی رتبے پر ہو گا۔ اور اگر کوئی حکمران ما أنزل اللہ کے غیر کو تشریع عام یعنی عمومی قانون کے طور پر نافذ کرتا ہے تا کہ امت مسلمہ اس پر عمل کرے اور ایسا وہ اس لیے کرتا ہے کہ اسے اس میں کوئی مصلحت دکھائی دیتی ہیحالانکہ اصل حقیقت اس سے پوشیدہ ہوتی ہے تو ایسے حکمران کی بھی تکفیر نہ ہو گی کیونکہ اکثر حکمرانوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ شرعی احکام سے ناواقف ہوتے ہیںاور انہیں ایسے جہلاء کا قرب حاصل ہوتا ہے جنہیں وہ بہت بڑا عالم سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔ پس اس طرح وہ شریعت کی مخالفت کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی حکمران شریعت کو جانتا ہو لیکن اس نے کسی وضعیقانون کے مطابق فیصلہ کر دیا یا اسے بطور قانون اور دستور نافذ کر دیا تاکہ لوگ اس پر عمل کریں تو ایسے حکمران کے بارے بھی ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ وہ اس مسئلے میں ظالم ہے اور حق بات کہ جس کے ساتھ کتاب و سنت وارد ہوئے ہیں' یہ ہے کہ اس حکمران کی بھی ہم تکفیر نہیں کر سکتے ہیں ۔ ہم تو صرف اسی حکمران کی تکفیر کریں گے جو ما أنزل اللہ کے غیر کے مطابق اس عقیدے کے ساتھ فیصلہ کرے کہ لوگوں کاما أنزل اللہ کے غیر پر چلنا اللہ کے حکم پر چلنے سے بہتر ہے یا وہ اللہ کے حکم کے برابر ہے ۔ ایسا حکمران بلاشبہ کافر ہے کیونکہ وہ اللہ تعالی کے قول' کیا اللہ تعالی سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم نہیں ہے ' اور ' کیا وہ جاہلیت کے فیصلہ سے فیصلہ چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا فیصلہ ہوسکتا ہے ' ایسی قوم کے لیے جو کہ یقین رکھتے ہیں' کا انکار کر تا ہے۔''
شیخ محمد بن عبد الوہاب کے پڑپوتے شیخ عبد اللطیف بن عبد الرحمن آل الشیخ رحمہما اللہ فرماتے ہیں:
'' وانما یحرم اذا کان المستند الی الشریعة باطلة تخالف الکتاب والسنة کأحکام الیونان والفرنج والتتر وقوانینھم التی مصدرھا آراؤھم وأھواؤھم وکذلک البادیة وعاداتھم الجاریة. فمن استحل الحکم بھذا فی الدماء أو غیرھا فھو کافر قال تعالی : ومن لم یحکم بما أنزل اللہ فأولئک ھم الکفرون. وھذہ الآیة ذکر فیھا بعض المفسرین : أن الکفر المراد ھنا: کفر دون الکفر الأکبر لأنھم فھموا أنھا تتناول من حکم بغیر ما أنزل اللہ وھو غیر مستحل لذک لکنھم لا ینازعون فی عمومھا للمستحل وأن کفرہ مخرج عن الملة.''(منھاج التأسیس والتقدیس فی کشف شبھات داؤد بن جرجیس: ص٧٠' دار الھدایة)
'' اگر کتاب و سنت کے مخالف باطل احکامات مثلا ً یونانی' انگریزی اور تاتاری قوانین کہ جن کا منبع و سر چشمہ اہل باطل کی خواہشات اور آراء ہوتی ہیں' کو شرعی مرجع بنا لیا جائے تو یہ صرف ایک حرام کام ہے۔ اسی طرح کا معاملہ قبائلی جرگوںاور ان کے رسوم و رواج کے مطابق فیصلوںکا بھی ہےیعنی وہ بھی ایک حرام فعل ہے۔ پس جس نے ان باطل قوانین کے مطابق قتل و غارت اور دیگر مسائل میں فیصلہ کرنے کو حلال سمجھا تو ایسا شخص کافر ہے جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے: جو شخص اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا تو وہ کافر ہے ۔ بعض مفسرین نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اس آیت میں کفر سے مراد کفر اکبر سے چھوٹا کفر یعنی کفر اصغر ہے کیونکہ ان مفسرین کے فہم کے مطابق اس آیت میں ما أنزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کرنے سے مراد اس فیصلہ کو حلال نہ سمجھتے ہوئے کرنا ہے لیکن اہل علم کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ جو حکمران اس فیصلہ کو حلال سمجھتا ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔''
شیخ عبد الرحمن بن ناصر سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' فالحکم بغیر ما أنزل اللہ من أعمال أھل الکفر وقد یکون کفر ینقل عن الملة وذلک ا ذا اعتقد حلہ وجوازہ وقد یکون کبیرة من کبائر الذنوب ومن أعمال الکفر قد استحق من فعلہ العذاب الشدید...فھو ظلم أکبر عند استحلالہ وعظیمة کبیرة عند فعلہ غیر مستحل لہ.''(تفسیر سعدی : المائدة : ٤٥)
''ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرناکفریہ فعل ہے اور بعض صورتوں میں یہ دائرہ اسلام سے اخراج کا باعث بھی بنتا ہے اور یہ اس صورت میں ہے جب کوئی شخص اپنے اس فعل کو حلال اور جائز سمجھتا ہو۔ اور بعض اوقات یہ فعل ایک کبیرہ گناہ اور کفریہ فعل ہوتا ہے جس کا فاعل شدید عذاب کا مستحق ہے...پس اگر اس شخص نے اپنے اس فعل کو حلال سمجھا تو یہ کفر اکبر ہے اور اگر اس فعل کو حلال نہ سمجھا تو اس وقت یہ ایک کبیرہ گناہ ہے۔''
شیخ عبد المحسن العباد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' ھل استبدال الشریعة الاسلامیة بالقوانین الوضعیة کفر فی ذاتہ؟ أم یحتاج الی الاستحلال القلبی والاعتقاد بجواز ذلک؟ وھل ھناک فرق فی الحکم مرة بغیرما أنزل اللہ وجعل القوانین تشریعا عاما مع اعتقاد عدم جواز ذلک؟ الجواب : یبدو أنہ لا فرق بین الحکم فی مسألة أو عشرة أو مئة أو أقل أو أکثر فما دام الانسان یعتبر نفسہ أنہ مخطیء وأنہ فعل أمرا منکرا وأنہ فعل معصیة وأنہ خائف من الذنب فھذا کفر دونکفر وأما مع الاستحلال ولو کان فی مسألة واحدة وھو یستحل فیھا الحکم بغیر ما أنزل اللہ ویعتبرذلک حلالا فنہ یکون کفرا أکبر.'' (شرح سنن أبی داؤد للشیخ عبد المحسن العباد :جلد10،ص 332' المکتبة الشاملة' الاصدار الثالث)
'' سوال: کیا شریعت اسلامیہ کی جگہ وضعی قوانین کا نفاذ بنفسہ کفر ہے؟ یا اس کے کفر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان دلی طور پر اس فعل کو حلال سمجھتا اور اس کے جواز کا عقیدہ رکھتا ہو؟ کیا ایک مرتبہ ما أنزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کرنے اور وضعی قوانین کو مستقل و عمومی قانون بنا لینے میں کوئی فرق ہے جبکہ قانون ساز اس قانون سازی کے جائز نہ ہونے کا بھی عقیدہ رکھتا ہو؟

جواب : یہ بات ظاہر ہے کہ کسی ایک مقدمہ یا دس یا سو یا اس سے زائد یا کم میں فیصلہ کرنے سےشرعی حکم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب تک انسان یہ سمجھتا ہو کہ وہ خطار کار ہے اور اس نے ایک برا اور نافرمانی کا کام کیا ہے اور اسے اپنے گناہ کا خوف بھی لاحق ہوتو یہ کفر اصغر ہے اور اگر وہ اپنے اس فعل کو حلال سمجھتا ہو' چاہے ایک مقدمہ میں ہی کیوں نہ ہو اور وہ اس مقدمہ میں ماأنزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کو حلال سمجھتا ہو تو یہ کفر اکبر ہو گا۔''
شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز جبرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''أن یضع تشریعا أو قانونا مخالفا لما جاء فی کتاب اللہ و سنة رسولہ و یحکم بہ معتقدا جواز الحکم بھذا القانون أو معتقدا أن ھذا القانون خیر من حکم اللہ أومثلہ فھذا شرک مخرج من الملة.''(تسھیل العقیدة الاسلامیة: ص ٢٤٢)
'' یہ کہ حکمران کوئی ایسی قانون سازی کرے جو کتاب اللہ اور سنت رسول کے مخالف ہو اور وہ اس قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کو عقیدے کے اعتبار سے جائز سمجھتا ہو یا اس قانون کو اپنے عقیدے میں اللہ کے حکم سے بہتر خیال کرتا ہو یا اس کے برابر سمجھتا ہو تو یہ ایسا شرک ہے جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث ہے۔''
پس معاصر سلفی علماء کے نزدیک غیر اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے کرنے والے حکمرانوں کا کفر دو قسم کا ہے:

کفر حقیقی اور کفر عملی'

اگر تو حکمران غیر اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے اس کو حلال' شریعت اسلامیہ سے بہتر' اس کے برابر اور جائز سمجھتے ہوئے کر رہے ہیں تو یہ کفر اعتقادی ہے ورنہ کفر عملی۔


اب اگر اس موقف کے قائل محترم مبشر احمد ربانی صاحب گمراہی پر ہیں یا مرجئہ ہیں تو ان کے ہم فہم و ہم مسلک سلف صالحین جو کہ مندرجہ ذیل ہیں ، وہ بھی گمراہ و مرجئہ ہیں؟
اس تقسیم کے قائلین:
عبد اللہ بن عباس'
امام احمد بن حنبل'
امام محمد بن نصر مروزی'
امام ابن جریر طبری'
امام ابن بطہ'
امام ابن عبد البر'
امام سمعانی'
امام ابن جوزی'
امام ابن العربی'
امام قرطبی'
امام ابن تیمیہ'
امام ابن قیم'
امام ابن کثیر'
امام شاطبی'
امام ابن أبی العز الحنفی'
امام ابن حجر عسقلانی'
شیخ عبد للطیف بن عبد الرحمن آل الشیخ'
شیخ عبد الرحمن بن ناصر السعدی'
علامہ صدیق حسن خان'
علامہ محمد أمین شنقیطی رحمہم اللہ أجمعین اور شیخ عبد المحسن العباد بھی ہیں

یا پھر ، اہل السنۃ والجماعۃ پھر تحکیم بغیر ما انزل اللہ کے مسئلے میں گمراہی اور ارجاء کا الزام لگانے والے خود سے خارجیت کے دھبے کو چھپانے کی معصومانہ کوشش میں ہیں؟؟؟
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
جناب علی ولی کی بحث بے فائدہ ہے موصوف نے جو بحث درج کی ہے وہ ایسے حکمرانوں کے بارے میں ہے جن کی حکومت میں اسلامی قوانین نافذ ہوں ۔اور ان کی مملکت میں کچھ ایسے فیصلے صادر ہوگئے ہوں جو کہ ظلم اور فسق کے زمرے میں آتے ہوں۔ تو اس بارے میں کہا جائے گا کہ یہ ان کا ظلم اور فسق ہے ۔ اور ایسا حکمران ظالم اور فاسق تو ہوسکتا ہے ۔ لیکن اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی ۔ اس کی بہترین مثال بنوامیہ کے بعض عمال کا کچھ مسائل کے بارے میں ظلم اور فسق کے ساتھ فیصلہ کرنا ہے۔جیسا کہ اس فورم پر محدث دیار مصر علامہ محمد شاکر اور ان کے بھائی محمود شاکر اور دیگر علماء کے بیانات میں بیان کیا گیا ہے۔اس بحث کو پڑھنے کے لیے مندرجہ بالا لنک پر کلک کریں اور دیکھیں کہ کس طرح جن علماء کا حوالہ علی ولی نے اپنے پوسٹ میں میں بیان کیا وہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں:
اب کیا کوئی شخص یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ جن حکمرانوں نے اللہ کی کتاب میں نازل کردہ احکامات کو نافذ ہی نہیں کیا ہوا ہے اور اس کی جگہ برطانوی اور فرانسیسی اور پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے خود ساختہ قوانین نافذ کئے ہوئے ہوں کیا وہ حکمران مسلم حکمرانوں کی صف میں داخل ہوسکتا ہے۔کیا ایسا حکمران بنو امیہ کے جیسے حکمرانوں کی صف میں داخل ہوسکتاہے۔جو حکمران اپنی مملکت میں لوگوں کی جان و مال اور عزتوں کے فیصلے غیر الٰہی قوانین سے کرتا ہو ۔وہ کیسے مسلم حکمران کی صف میں داخل ہوسکتا ہے؟؟؟​
لہٰذا جو بحث جناب علی ولی صاحب نے یہاں نقل کی ہے وہ ایسے حکمران سے متعلق ہے جو کہ شرعی قوانین کی روشنی میں حکمرانی کررہا ہو۔ لیکن خواہشات کے غلبے کی بناء پر اس سے کچھ فیصلے ایسے صادر ہوگئے ہوں تو ایسے حکمران ظالم اور فاسق کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان کی تکفیر کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔لہٰذا لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش نہ کریں۔​
جس ملک میں علی ولی صاحب رہتے ہیں کیا وہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ اس ملک میں اسلامی شریعت نافذ ہے؟؟؟​
علی ولی صاحب کیا اس ملک میں شراب حلال نہیں ہے؟ شراب خانے پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین کی رو سے کھلے ہوئے ہیں؟؟؟​
علی ولی صاحب کیا اس ملک میں سود حلال نہیں ہے؟؟؟ سود کو بھی پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین کے باعث اس ملک میں جاری کیا گیاہے۔​
علی ولی صاحب کیا اس ملک میں حدود اللہ میں سے کسی ایک حد کو ان حکمرانوں نے نافذ کیا ہوا ہے؟؟؟​
علی ولی صاحب اس ملک میں کس کونے میں اسلامی شریعت نافذ ہے؟؟؟ ۔ ذرا بتلائیے تو سہی!​
علی ولی صاحب کیا اس ملک کے حکمران اللہ کے دین پر راضی ہیں ؟؟؟ یا دینِ جمہوریت پر راضی ہیں؟؟؟​
علی ولی صاحب کیا اس ملک میں قرآن وسنت کا نظام نافذ ہے یا پارلیمنٹ کا بنایا ہوا نظام؟؟؟؟​
اس ملک میں اللہ کے قانون کی حکمرانی ہے؟؟؟ یا طاغوتی برطانوی قوانین کی حکمرانی ہے؟؟؟​
علی ولی صاحب دین اسلام میں یا کسی فقیہ یا کسی عالم یا کسی بھی محدث نے اس بات کی حمایت میں فتویٰ دیا ہے کہ اسلامی ملک کہلانے والے شراب خانے کھول کر شراب بیچیں؟؟؟​
علی ولی صاحب کیا کسی صاحب علم نے یہ فتویٰ دیا ہوا کہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے باجود سرکاری سطح پر سود خانے کھولے جائیں؟؟؟ عوام الناس کی گردنوں پر سود کو مسلط کیا جائے؟؟؟​
علی ولی صاحب آپ ہی جیسے لوگوں نے ان طاغوتی حکمرانوں کو حوصلہ بخشا ہے کہ وہ اس ملک میں اللہ کے نازل کردہ قوانین کی بجائے طاغوتی خودساختہ قوانین کو نافذ کریں۔​
علی ولی صاحب جب کوئی شخص زنا میں ملوث پایا جاتا ہے تو اس ملک میں اور جس شہر مردان میں رہنے کی آپ باتیں کرتے ہیں اس زانی کو کس کے قانون کے مطابق سزا دی جاتی ہے؟؟؟​
علی ولی صاحب پاکستان میں جب کوئی چور پکڑا جاتاہے تو اس کو کون سے قوانین کی رو سے سزا ملتی ہے؟؟؟​
علی ولی صاحب قرآن مرتد کی سزا بیان کرتاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے مرتد کی سزا کو اللہ کے حکم کے مطابق نافذ کیا ہے کیا اس ملک میں جو لوگ مرتد ہورہے ہیں اور جو ہوچکے ہیں ان پر اس سزا کو لاگو کیا جاتا ہے۔ یا سیکولر ازم کے تحت ہر شخص کو اپنے عقیدے میں آزادی ہے وہ جیسا چاہے اپنا عقیدہ رکھے اور بیان کرتا پھرے۔​
علی ولی صاحب ہم آپ کو اللہ کا خوف دلاتے ہیں کہ علماء کے اقوال کو اس کے محل سے ہٹا کر بیان نہیں کرنا چاہیئے ۔ لوگوں کو عقیدہ اہل سنت کی طرف دعوت دین جو کہ سلف کا منہج ہے ۔ لوگوں کو ارجائیت اور جہمیت کی طرف دعوت نہ دیں۔​
ہم نے عصر حاضر کے ایک عالم کا قول ایسی صفات کے لوگوں کے متعلق پڑھا ہے کہ اس صفات کے حامل لوگ :​
مجاہدین کے لئے خوارج اور حکمرانوں کے مرجئہ ہیں۔
 

علی ولی

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
81
پوائنٹ
21
تاتاری قانون 'الیاسق' سے معاصر حکمرانوں کی تکفیر پر استدلال کی حقیقت


یہاں یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بعض سلفی حضرات نے تاتاریوں کے قانون ' الیاسق' کے حوالے سے امام ابن کثیر اور امام ابن تیمیہ رحمہما اللہ کے اقوال نقل کیے ہیں ان دونوں أئمہ نے 'الیاسق' نامی تاتاری قانون کے مطابق فیصلہ کرنے والے اسلام کا دعوی کرنے والے تاتاریوں کو کافر قرار دیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام ابن کثیراورامام ابن تیمیہ رحمہما اللہ نے 'الیاسق' نامی مجموعہ قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے والے تاتاریوں کو کافر قرار دیا ہے لیکن،

ان کی تکفیر کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے مجموعہ قوانین کو شرعی قوانین کے برابر حیثیت دیتے تھے اور بعض اوقات بہتر قرار دیتے تھے اور یہ اعتقادی کفر ہے اور کسی بھی انسانی قانون کو شرعی قانون کے برابر قرار دیناصریح کفر ہے جیسا کہ اوپر سلفی علماء کے حوالے سے یہ بحث پہلے نقل کی جاچکی ہے ہیں ۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اسلام قبول کرنے والے تاتاریوں کے عقائد کا تعارف کرواتے ہوئے فرماتے ہیں:

''قال أکبر مقدمیھم الذین قدموا الی الشام وھو یخاطب رسل المسلمین ویتقرب الیھم بأنامسلمون فقال : ھذان آیتان عظیمتان جاء ا من عند اللہ محمد وجنکیز خان فھذا غایة ما یتقرب بہ أکبر مقدمیھم الی المسلمین أن یسوی بین رسول اللہ أکرم الخلق علیہ وسید ولد آدم وخاتم المرسلین وبین ملک کافر مشرک من أعظم المشرکین کفرا وفسادا وعدوانا من جنس بخت نصر وأمثالہ وذلک أن اعتقاد ھؤلاء التتار کان فی جنکیز خان عظیما فانھم یعتقدون أنہ ابن اللہ من جنس ما یعتقدہ النصاری فی المسیح ویقولون ان الشمس حبلت أمہ وأنھا کانت فی خیمة فنزلت الشمس من کوة الخیمة فدخلت فیھا حتی حبلت ومعلوم عند کل ذی دین أن ھذا کذب ... وھم مع ھذا یجعلونہ أعظم رسول عند اللہ فی تعظیم ما سنہ لھم وشرعہ بظنہ وھو حتی یقولوا لماعندھم من المال ھذا رزق جنکیز خان ویشکرونہ علی أکلھم و شربھم وھم یستحلون قتل من عادی ما سنہ لھم ھذا الکافر الملعون المعادی للہ ولأنبیائہ ورسولہ وعبادہ المؤمنین فھذا وأمثالہ من مقدمیھم کان غایتہ بعد الاسلام أن یجعل محمدا بمنزلة ھذا الملعون.''(مجموع الفتاوی :جلد ٣،ص٥٤٢)
'' ان اسلام کے مدعی تاتاریوں میں سے جو لوگ شام آئے ۔ ان میں سب سے بڑے تارتاری نے مسلمانوں کے پیام بروں سے خطاب کرتے ہوئے اور اپنے آپ کو مسلمان اور ان کے قریب ثابت کرتے ہوئے کہا:

یہ دو عظیم نشانیاں ہیں جو اللہ کی طرف سے آئی ہیں۔ ان میں سے ایک محمد عربی ہیں اور دوسرا چنگیز خان ہے۔ پس یہ ان کا وہ انتہائی عقیدہ ہے جس کے ذریعے وہ مسلمانوں کا قرب تلاش کرتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کے رسول جو مخلوق میں سے سب سے بزرگ ' اولاد آدم کے سردار اور نبیوں کی مہر ہیں' انہیں اور ایک کافر اور مشرکین میں سب سے بڑھ کر مشرک' فسادی' ظالم اور بخت نصر کی نسل کو برابر قرار دیا؟ ۔ ان تاتاریوں کا چنگیز خان کے بارے عقیدہ بہت ہی گمراہ کن تھا۔ ان نام نہاد مسلمان تاتاریوں کا تو یہ عقیدہ تھا کہ چنگیز خان اللہ کا بیٹاہے اور یہ عقیدہ ایسا ہی ہے جیسا کہ عیسائیوں کا حضرت مسیح کے بارے عقیدہ تھا۔ یہ تاتاری کہتے ہیں کہ چنگیز خان کی ماں سورج سے حاملہ ہوئی تھی ۔ وہ ایک خیمہ میں تھی جب سورج خیمہ کے روشندان سے داخل ہوا اور اس کی ماں میں گھس گیا۔ پس اس طرح اس کی ماں حاملہ ہو گئی ۔ ہر صاحب علم یہ بات جانتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے...اس کے ساتھ ان تاتاریوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ وہ چنگیز خان کو اللہ کا عظیم ترین رسول قرار دیتے ہیں کیونکہ چنگیز خان نے اپنے گمان سے ان کے لیے جو قوانین جاری کیے ہیں یا مقرر کیے ہیں یہ ان قوانین کی تعظیم کرتے ہیں اور ان کا معاملہ تو یہ ہے کہ جو ان کے پاس مال ہے ' اس کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ یہ چنگیز خان کا دیا ہوا رزق ہے اور اپنے کھانے اور پینے کے بعد(اللہ کی بجائے) چنگیز خان کا شکر اداکرتے ہیں اور یہ لوگ اس مسلمان کے قتل کو حلال سمجھتے ہیں جو ان کے ان قوانین کی مخالفت کرتا ہے جو اس کافر ملعون' اللہ ' انبیاء و رسل ' محمد عربی اور اللہ کے بندوں کے دشمن نے ان کے لیے مقرر کیے ہیں۔ پس یہ ان تاتاریوں اور ان کے بڑوں کے عقائدہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ اسلام لانے کے بعد محمد عربی کو چنگیز خان ملعون کے برابر قرار دیتے ہیں۔''
اللہ کے رسول کو چنگیز خان کے برابر قرار دینا' چنگیز خان کو اللہ کا بیٹا قرار دینا' چنگیز خان کو اللہ کا رسول قرار دینا اور اس کے دیے گئے قوانین کی تعظیم کرنا' مجموعہ قوانین 'الیاسق' کا انکار کرنے والے مسلمانوں کے خون کو حلال سمجھنا اور کھانے پینے کے بعد چنگیزخان کا شکر ادا کرنا وغیرہ ایسے صریح کفریہ عقائد ہیں کہ جن کے کفر اکبر ہونے میں دو بندوں کا بھی اختلاف ممکن نہیں ہے لہذا 'الیاسق' کے مجموعہ قوانین کے بارے تاتاریوں کا جو رویہ اور عقیدہ تھا وہ اعتقادی کفر کا تھا اور اعتقادی کفر کی بنیاد پر سلفی علماء تکفیر کے قائل ہیں۔ پس آج بھی کوئی حکمران اگر وضعی مجموعہ قوانین کو من جانب اللہ سمجھتے ہیں یا اس قانون کے واضعین کو اللہ کے رسول کے برابر درجہ دیتے ہیں یا اس قانون کے مخالفین کے خون کو شرعا حلال سمجھتے ہیں توان کے کفر میں بھی کوئی شبہ باقی نہیں رہتا لیکن بغیر کسی کفریہ عقیدے کے مطلق ان وضعی قوانین کے مطابق فیصلے کرنے کو کفر اکبر قرار دینے کی کوئی شرعی ' عقلی ' نقلی یا تاریخی دلیل موجود نہیں ہے۔ہاں! ایسا عمل کفر اصغر یا مجازی کفر یا عملی کفر کہلانے کا مستحق ضرور ہے۔
بعض سلفی حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ آج کل کے حکمرانوں اور سلف صالحین کے حکمرانوں میں بہت فرق تھا اسی لیے سلف صالحین نے اپنے دور کے حکمرانوں کی تکفیر نہیں کی لیکن ہمیں کرنی چاہیے۔ ہماری رائے میں یہ تجزیہ بھی تاریخ اور تاریخی حقائق سے چشم پوشی کا نتیجہ ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ابوزینب صاحب اللہ تعالی آپ کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر کے متعلق الشیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کا بھی ایک فتوی ہے (الدین الخالص شاید پانچویں جلد میں) وہ بھی دیکھ لیجیے گا۔

دوسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں راہِ حق کو پا لینے کے بعد اس پر ثابت قدم رہنے والی چند ایک شخصیات ہی گزری ہیں الا ماشاء اللہ۔ مثلاً خلق قرآن کے مسئلے پر صرف ایک ہی شخصیت رہ گئی جس نے پوری زندگی یہی مقدمہ لڑا۔ ان کے جیسی استقامت ہم عصروں میں سے اس مسئلہ پر کسی اور کو نصیب نہ ہوئی۔ حالانکہ امام صاحب کے اساتذہ، اور دیگر بڑے بڑے علماء مثلاً امام شافعی وغیرہ۔
(ضمناً یہ بھی عرض کر دوں کہ اگر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اگر حاکمین وقت کی تکفیر نہیں کی تو کم از کم اس مسئلہ پر ان کے خلاف خروج تو ضرور کیا ہے۔ شاید آج کے جدید فقیہانِ حرم اس بات کو ہضم نہ کر سکیں)۔

اسی طرح امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ساتھ دینے والے بھی ان کے ہم عصر ‘‘علما’’ نہیں تھے بلکہ ان کے شاگرد اور دیگر عوام تھے۔ جب امام صاحب اپنے مشن و مقصد میں کامیاب و کامران زندگی گزارگئے تو سب کی باچھیں کھل گئیں کہ ابن تیمیہ تو ہمارے تھے ہمارے تھے۔

آپ کے جیسا موقف رکھنے والے لوگوں کو ‘‘وقت کے فقیہانِ حرم’’ عام طور پر تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوتے اور جب مہلت دنیا ختم ہو جاتی ہے تو سبھی اپنا اپنا راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں۔

صرف اللہ پر توکل کرتے ہوئے اپنا کام جاری و ساری رکھیں۔ اللہ تعالی آپ کو آپ کی حسنات کا بدلہ فراہم کرے گا اور دیگر لوگوں سے بھی پوچھ لے گا کہ جب دوٹوک الفاظ میں حق واضح ہوتا تھا تو اے‘‘فقیہانِ حرم’’ تم نے اس میں مصلحت پسندی سے کام کیوں لیا۔

حق کی پہچان کرنا ہر انسان کا ذاتی فعل ہے۔ علماء کرام تو صرف حق کی طرف راہنمائی ہی کر سکتے ہیں۔ جہالت کا عذر توحید و شرک کے مسئلہ میں قابل قبول نہیں۔ جو عالم باعمل حق کی طرف رہنمائی کرے گا وہ اپنا بدلہ بھی پائے گا اورجس جس نے اس پر عمل کیا اور آگے پہنچایا اس عمل کا ثواب بھی پائے گا۔ اور جو لوگ دوٹوک حق کے بیان میں کج روی اختیار کرتے رہے وہ اپنے اعمال کا وزن بھی اٹھائیں گے اور دوسرے لوگوں کے اعمال کا بھی جنہیں یہ روک رہے ہوں گے۔ الا من رحم ربی۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اللہ کے رسول کو چنگیز خان کے برابر قرار دینا' چنگیز خان کو اللہ کا بیٹا قرار دینا' چنگیز خان کو اللہ کا رسول قرار دینا اور اس کے دیے گئے قوانین کی تعظیم کرنا' مجموعہ قوانین 'الیاسق' کا انکار کرنے والے مسلمانوں کے خون کو حلال سمجھنا اور کھانے پینے کے بعد چنگیزخان کا شکر ادا کرنا وغیرہ ایسے صریح کفریہ عقائد ہیں کہ جن کے کفر اکبر ہونے میں دو بندوں کا بھی اختلاف ممکن نہیں ہے لہذا 'الیاسق' کے مجموعہ قوانین کے بارے تاتاریوں کا جو رویہ اور عقیدہ تھا وہ اعتقادی کفر کا تھا اور اعتقادی کفر کی بنیاد پر سلفی علماء تکفیر کے قائل ہیں۔ پس آج بھی کوئی حکمران اگر وضعی مجموعہ قوانین کو من جانب اللہ سمجھتے ہیں یا اس قانون کے واضعین کو اللہ کے رسول کے برابر درجہ دیتے ہیں یا اس قانون کے مخالفین کے خون کو شرعا حلال سمجھتے ہیں توان کے کفر میں بھی کوئی شبہ باقی نہیں رہتا لیکن بغیر کسی کفریہ عقیدے کے مطلق ان وضعی قوانین کے مطابق فیصلے کرنے کو کفر اکبر قرار دینے کی کوئی شرعی ' عقلی ' نقلی یا تاریخی دلیل موجود نہیں ہے۔ہاں! ایسا عمل کفر اصغر یا مجازی کفر یا عملی کفر کہلانے کا مستحق ضرور ہے۔
بعض سلفی حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ آج کل کے حکمرانوں اور سلف صالحین کے حکمرانوں میں بہت فرق تھا اسی لیے سلف صالحین نے اپنے دور کے حکمرانوں کی تکفیر نہیں کی لیکن ہمیں کرنی چاہیے۔ ہماری رائے میں یہ تجزیہ بھی تاریخ اور تاریخی حقائق سے چشم پوشی کا نتیجہ ہے۔
علی ولی صاحب مندرجہ ذیل باتوں کو بھی دیکھ لیجیے پہلی بحث میں تو آپ نے ان کا جواب ارشاد نہیں فرمایا۔ ابھی فرما دیجیے۔

تاتاری ''مسلمان'' کہے:
یہ دو عظیم نشانیاں ہیں جو اللہ کی طرف سے آئی ہیں ۔ ان میں ایک محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور دوسرا چنگیز خان ہے ۔
تو کافر؟؟؟؟؟
آج عوام و حکمران کا عقیدہ:
خدا جس کو پکڑے چھڑائے محمد ﷺ : محمد ﷺ جو پکڑیں نہیں چھوٹ سکتا
http://forum.mohaddis.com/threads/خدا-دا-پکڑا-چھڑائے-محمدﷺ.6030/
ہو تو یہ مومن؟؟؟؟؟
تاتاری ''مسلمان'' کہے:
چنگیز خان اللہ کا بیٹا ہے:
تو کافر؟؟؟؟؟
آج عوام و حکمران کا عقیدہ:
نور من نوراللہ
وہی جو مستوئ عرش تھا خدا ہو کر
اتر پڑا ہے مدینہ میں مصطفیٰ ہو کر
ہو تو یہ مومن؟؟؟؟؟
تاتاری ''مسلمان'' کہے:
یہ چنگیز خان کا دیا ہوا رزق ہے
تو کافر؟؟؟؟؟
آج عوام و حکمران کا عقیدہ:
بھر دو جھولی میری یا محمد لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی
کچھ نواسوں کا صدقہ عطاء ہو در پہ آیا ہوں بن کر سوالی
حق سے پائی وہ شانِ کریمی مرحبا دونوں عالم کے والی
اس کی قسمت کا چمکا ستارہ جس پہ نظرِ کرم تم نے ڈالی
ہو تو یہ مومن؟؟؟؟؟
تاتاری ''مسلمان'' کہے:
کھانے اور پینے کے بعد ( اللہ کی بجائے ) چنگیز خان کا شکر ادا کرتے ہیں۔
تو کافر؟؟؟؟؟
آج عوام و حکمران کا عقیدہ:
نہ ہوسکتے ہیں وہ اول نہ ہو سکتے ہیں وہ آخر
تم اول اور آخر ابتدا ء تم انتہا تم ہو
ہو تو یہ مومن؟؟؟؟؟
خدا کہتے نہیں بنتی جدا کہتے نہیں بنتی
اسی پر اس کو چھوڑا ہےوہی جانے کہ کیا تم ہو
ہو تو یہ مومن؟؟؟؟؟
مظہر حق ہو تمہیں ، مظہر حق ہو تمھیں
تم میں ہے ظاہر خدا تم پہ کروڑوں درود
ہو تو یہ مومن؟؟؟؟؟
تجھ سے اور جنت سے کیا مطلب وہابی دور ہو
ہم رسول اللہ کے، جنت رسول اللہ کی!
ہو تو یہ مومن؟؟؟؟؟
وہی نور حق، وہی ظل رب، انہیں سے ہے انہیں کا سب
نہیں ان کی ملک میں آسماں کہ زمیں نہیں کہ زماں نہیں !
ہو تو یہ مومن؟؟؟؟؟
وہی لامکاں کے مکیں ہوئے، سر عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہے جس کے ہیں یہ مکاں ، وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں
ہو تو یہ مومن؟؟؟؟؟
اٹھادو پردہ ، دکھادو چہرہ کہ نو رباری حجاب میں ہے
زمانہ تاریک ہو رہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے
ہو تو یہ مومن؟؟؟؟؟
http://forum.mohaddis.com/threads/امام-ابن-تیمیہؒ-نے-تاتاریوں-کی-تکفیر-اور-ان-کے-خلاف-قتال-کیوں-کیا؟.14636/#post-106259
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
تاتاری قانون 'الیاسق' سے معاصر حکمرانوں کی تکفیر پر استدلال کی حقیقت


یہاں یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بعض سلفی حضرات نے تاتاریوں کے قانون ' الیاسق' کے حوالے سے امام ابن کثیر اور امام ابن تیمیہ رحمہما اللہ کے اقوال نقل کیے ہیں ان دونوں أئمہ نے 'الیاسق' نامی تاتاری قانون کے مطابق فیصلہ کرنے والے اسلام کا دعوی کرنے والے تاتاریوں کو کافر قرار دیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام ابن کثیراورامام ابن تیمیہ رحمہما اللہ نے 'الیاسق' نامی مجموعہ قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے والے تاتاریوں کو کافر قرار دیا ہے لیکن،

ان کی تکفیر کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے مجموعہ قوانین کو شرعی قوانین کے برابر حیثیت دیتے تھے اور بعض اوقات بہتر قرار دیتے تھے اور یہ اعتقادی کفر ہے اور کسی بھی انسانی قانون کو شرعی قانون کے برابر قرار دیناصریح کفر ہے جیسا کہ اوپر سلفی علماء کے حوالے سے یہ بحث پہلے نقل کی جاچکی ہے ہیں ۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اسلام قبول کرنے والے تاتاریوں کے عقائد کا تعارف کرواتے ہوئے فرماتے ہیں:



اللہ کے رسول کو چنگیز خان کے برابر قرار دینا' چنگیز خان کو اللہ کا بیٹا قرار دینا' چنگیز خان کو اللہ کا رسول قرار دینا اور اس کے دیے گئے قوانین کی تعظیم کرنا' مجموعہ قوانین 'الیاسق' کا انکار کرنے والے مسلمانوں کے خون کو حلال سمجھنا اور کھانے پینے کے بعد چنگیزخان کا شکر ادا کرنا وغیرہ ایسے صریح کفریہ عقائد ہیں کہ جن کے کفر اکبر ہونے میں دو بندوں کا بھی اختلاف ممکن نہیں ہے لہذا 'الیاسق' کے مجموعہ قوانین کے بارے تاتاریوں کا جو رویہ اور عقیدہ تھا وہ اعتقادی کفر کا تھا اور اعتقادی کفر کی بنیاد پر سلفی علماء تکفیر کے قائل ہیں۔ پس آج بھی کوئی حکمران اگر وضعی مجموعہ قوانین کو من جانب اللہ سمجھتے ہیں یا اس قانون کے واضعین کو اللہ کے رسول کے برابر درجہ دیتے ہیں یا اس قانون کے مخالفین کے خون کو شرعا حلال سمجھتے ہیں توان کے کفر میں بھی کوئی شبہ باقی نہیں رہتا لیکن بغیر کسی کفریہ عقیدے کے مطلق ان وضعی قوانین کے مطابق فیصلے کرنے کو کفر اکبر قرار دینے کی کوئی شرعی ' عقلی ' نقلی یا تاریخی دلیل موجود نہیں ہے۔ہاں! ایسا عمل کفر اصغر یا مجازی کفر یا عملی کفر کہلانے کا مستحق ضرور ہے۔
بعض سلفی حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ آج کل کے حکمرانوں اور سلف صالحین کے حکمرانوں میں بہت فرق تھا اسی لیے سلف صالحین نے اپنے دور کے حکمرانوں کی تکفیر نہیں کی لیکن ہمیں کرنی چاہیے۔ ہماری رائے میں یہ تجزیہ بھی تاریخ اور تاریخی حقائق سے چشم پوشی کا نتیجہ ہے۔
علمائے نجد میں سے فضیلۃ الشیخ حمد بن عتیق� کا موقف

اب اس پر علمائے نجد میں سے فضیلۃ الشیخ حمد بن عتیق� کا موقف سن لیں:کوئی شخص کافروں سے اگراوپر اوپر ہی موافقت کا اظہار کرتا ہو اور ہاں میں ہاں ملاتا ہو جب کہ اس کا دل ، ضمیر اور اندرون کافروں کی مخالفت میں ہی ہو ،حالانکہ وہ شخص کافروں کے تسلط اور کنٹرول میں بھی نہیں ہے کہ جبرواستبداد کی بناپر اس نے ایسا کیا ہو، بلکہ کسی حکومتی اور ریاستی لالچ یا کسی مالی مفاد یا وطن اور اہل و عیال کی محبت و جذبات سے بے بس ہو کر ، آنے والے حوادثات و خطرات سے خوف کھاتے ہوئے اس نے کافروں سے یکجہتی اور ہم آہنگی کا اظہار کیا ہو، بہر حال و بہر صورت ایسا شخص مرتد ہوگا۔ دل اور ضمیر سے ان کو ناپسند کرنے کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوگا۔ یہ شخص ان لوگوں میں شامل ہو گا جن کے بارے میں اللہ نے سورۃ النحل(16)،آیت 107 میں فرمایا:

'' یہ اس لیے کہ انھوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت سے زیادہ محبوب رکھا ہے ۔یقیناً اللہ کافروں کو راہ راست نہیں دکھاتا۔''
 

علی ولی

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
81
پوائنٹ
21
مقام حیرت ہے ، ایک طرف جمیع سلفی علماء کا موقف اور دوسری جانب ایک نامکمل اور بلا حوالہ ایک عالم کا موقف۔۔۔ عجیب

اور آپ نے لکھا:
علمائے نجد میں سے فضیلۃ الشیخ حمد بن عتیق� کا موقف
اب اس پر علمائے نجد میں سے فضیلۃ الشیخ حمد بن عتیق� کا موقف سن لیں:کوئی شخص کافروں سے اگراوپر اوپر ہی موافقت کا اظہار کرتا ہو اور ہاں میں ہاں ملاتا ہو جب کہ اس کا دل ، ضمیر اور اندرون کافروں کی مخالفت میں ہی ہو ،حالانکہ وہ شخص کافروں کے تسلط اور کنٹرول میں بھی نہیں ہے کہ جبرواستبداد کی بناپر اس نے ایسا کیا ہو، بلکہ کسی حکومتی اور ریاستی لالچ یا کسی مالی مفاد یا وطن اور اہل و عیال کی محبت و جذبات سے بے بس ہو کر ، آنے والے حوادثات و خطرات سے خوف کھاتے ہوئے اس نے کافروں سے یکجہتی اور ہم آہنگی کا اظہار کیا ہو، بہر حال و بہر صورت ایسا شخص مرتد ہوگا۔ دل اور ضمیر سے ان کو ناپسند کرنے کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوگا۔ یہ شخص ان لوگوں میں شامل ہو گا جن کے بارے میں اللہ نے سورۃ النحل(16)،آیت 107 میں فرمایا:
'' یہ اس لیے کہ انھوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت سے زیادہ محبوب رکھا ہے ۔یقیناً اللہ کافروں کو راہ راست نہیں دکھاتا۔''
محترم یہ قول قرآن و سنت اور فہم سلف صالحین کے صریح خلاف ہے۔

معاف کیجئے ، گا اگر آپ کے اس منفرد عالم کے قول کو درست تسلیم کر لیا جائے تو حضرت سہل بن بیضآ رضی اللہ عنہ اور حضرت حاتم بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نعوذ باللہ من ذلک، "مرتد" ہوں گے۔۔۔کیونکہ انہوں نے کفار سے تعاون کیا اور سہل بن بیضآ رضی اللہ تو کفار کی صف میں شامل ہو کر مسلمانوں سے لڑنے آئے تھے۔۔ اور حاطب رضی اللہ عنہ نے ایسا اوپر اوپر اور کفار سے کفار کا ساتھ دیا تھا ، اندرونی طور پر وہ اسلام پر مطمئن تھے اور اسیا انہوں لالچ یا کسی مالی مفاد یا وطن اور اہل و عیال کی محبت و جذبات سے بے بس ہو کر ہی کیا تھا۔۔۔
ان کا ضمیر اس پر مطمئن بھی نہیں تھا ۔۔۔

تو جناب ، حمدبن عتیق کے اس پیسٹ شدہ فتوی کے رو سے انکا حکم واضح ہے۔۔ نعوذ باللہ

یہ فتوی درست نہیں۔

جزاک اللہ خیرا۔
 

علی ولی

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
81
پوائنٹ
21
واہ واہ واہ ، آصف بھیا ، میں نے آپ کے خودساختہ اعتراضات کا جامع اور مدلل جواب اسی پوسٹ پر دے دیا تھا ، مگر شاید آپ نے پڑھنے کی زحمت نہیں ، کیونکہ آپ کو خوف تھا کہ حق بات سمجھ نہ آجائے، لیں میں یہاں ایک موقع اور فراہم کرتا ہو؎ن

آپ نے یہاں کاپی پیسٹ کیا کہ:؟

علی ولی نے کہا ہے: ↑
اللہ کے رسول کو چنگیز خان کے برابر قرار دینا' چنگیز خان کو اللہ کا بیٹا قرار دینا' چنگیز خان کو اللہ کا رسول قرار دینا اور اس کے دیے گئے قوانین کی تعظیم کرنا' مجموعہ قوانین 'الیاسق' کا انکار کرنے والے مسلمانوں کے خون کو حلال سمجھنا اور کھانے پینے کے بعد چنگیزخان کا شکر ادا کرنا وغیرہ ایسے صریح کفریہ عقائد ہیں کہ جن کے کفر اکبر ہونے میں دو بندوں کا بھی اختلاف ممکن نہیں ہے لہذا 'الیاسق' کے مجموعہ قوانین کے بارے تاتاریوں کا جو رویہ اور عقیدہ تھا وہ اعتقادی کفر کا تھا اور اعتقادی کفر کی بنیاد پر سلفی علماء تکفیر کے قائل ہیں۔ پس آج بھی کوئی حکمران اگر وضعی مجموعہ قوانین کو من جانب اللہ سمجھتے ہیں یا اس قانون کے واضعین کو اللہ کے رسول کے برابر درجہ دیتے ہیں یا اس قانون کے مخالفین کے خون کو شرعا حلال سمجھتے ہیں توان کے کفر میں بھی کوئی شبہ باقی نہیں رہتا لیکن بغیر کسی کفریہ عقیدے کے مطلق ان وضعی قوانین کے مطابق فیصلے کرنے کو کفر اکبر قرار دینے کی کوئی شرعی ' عقلی ' نقلی یا تاریخی دلیل موجود نہیں ہے۔ہاں! ایسا عمل کفر اصغر یا مجازی کفر یا عملی کفر کہلانے کا مستحق ضرور ہے۔
بعض سلفی حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ آج کل کے حکمرانوں اور سلف صالحین کے حکمرانوں میں بہت فرق تھا اسی لیے سلف صالحین نے اپنے دور کے حکمرانوں کی تکفیر نہیں کی لیکن ہمیں کرنی چاہیے۔ ہماری رائے میں یہ تجزیہ بھی تاریخ اور تاریخی حقائق سے چشم پوشی کا نتیجہ ہے۔
علی ولی صاحب مندرجہ ذیل باتوں کو بھی دیکھ لیجیے پہلی بحث میں تو آپ نے ان کا جواب ارشاد نہیں فرمایا۔ ابھی فرما دیجیے۔
محمد آصف مغل نے کہا ہے: ↑
تاتاری ''مسلمان'' کہے:
یہ دو عظیم نشانیاں ہیں جو اللہ کی طرف سے آئی ہیں ۔ ان میں ایک محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور دوسرا چنگیز خان ہے ۔
تو کافر؟؟؟؟؟
آج عوام و حکمران کا عقیدہ:
خدا جس کو پکڑے چھڑائے محمد ﷺ : محمد ﷺ جو پکڑیں نہیں چھوٹ سکتا
http://forum.mohaddis.com/threads/خدا-دا-پکڑا-چھڑائے-محمدﷺ.6030/
ہو تو یہ مومن؟؟؟؟؟
تاتاری ''مسلمان'' کہے:
چنگیز خان اللہ کا بیٹا ہے:
تو کافر؟؟؟؟؟
آج عوام و حکمران کا عقیدہ:
نور من نوراللہ
وہی جو مستوئ عرش تھا خدا ہو کر
اتر پڑا ہے مدینہ میں مصطفیٰ ہو کر
ہو تو یہ مومن؟؟؟؟؟
تاتاری ''مسلمان'' کہے:
یہ چنگیز خان کا دیا ہوا رزق ہے
تو کافر؟؟؟؟؟
آج عوام و حکمران کا عقیدہ:
بھر دو جھولی میری یا محمد لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی
کچھ نواسوں کا صدقہ عطاء ہو در پہ آیا ہوں بن کر سوالی
حق سے پائی وہ شانِ کریمی مرحبا دونوں عالم کے والی
اس کی قسمت کا چمکا ستارہ جس پہ نظرِ کرم تم نے ڈالی
ہو تو یہ مومن؟؟؟؟؟
تاتاری ''مسلمان'' کہے:
کھانے اور پینے کے بعد ( اللہ کی بجائے ) چنگیز خان کا شکر ادا کرتے ہیں۔
تو کافر؟؟؟؟؟
آج عوام و حکمران کا عقیدہ:
نہ ہوسکتے ہیں وہ اول نہ ہو سکتے ہیں وہ آخر
تم اول اور آخر ابتدا ء تم انتہا تم ہو
ہو تو یہ مومن؟؟؟؟؟
خدا کہتے نہیں بنتی جدا کہتے نہیں بنتی
اسی پر اس کو چھوڑا ہےوہی جانے کہ کیا تم ہو
ہو تو یہ مومن؟؟؟؟؟
مظہر حق ہو تمہیں ، مظہر حق ہو تمھیں
تم میں ہے ظاہر خدا تم پہ کروڑوں درود
ہو تو یہ مومن؟؟؟؟؟
تجھ سے اور جنت سے کیا مطلب وہابی دور ہو
ہم رسول اللہ کے، جنت رسول اللہ کی!
ہو تو یہ مومن؟؟؟؟؟
وہی نور حق، وہی ظل رب، انہیں سے ہے انہیں کا سب
نہیں ان کی ملک میں آسماں کہ زمیں نہیں کہ زماں نہیں !
ہو تو یہ مومن؟؟؟؟؟
وہی لامکاں کے مکیں ہوئے، سر عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہے جس کے ہیں یہ مکاں ، وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں
ہو تو یہ مومن؟؟؟؟؟
اٹھادو پردہ ، دکھادو چہرہ کہ نو رباری حجاب میں ہے
زمانہ تاریک ہو رہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے
ہو تو یہ مومن؟؟؟؟؟
http://forum.mohaddis.com/threads/ا...-ان-کے-خلاف-قتال-کیوں-کیا؟.14636/#post-106259
علی ولی کا مدلل اور جامع جواب


السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔
میں نے ساری گفتگو پڑھی ، جو حقیقتا ، محمد آصف مغل اور القول السدید کے مابین تھی، درمیان میں ایک دو فضول ٹانگیں اڑانے والے بھی ٹپکے ، مگر بحث چلتی رہی ، اور میں شکرگزار ہوں دونوں اطراف کا جنہوں نے اس سخت بحث میں کچھ نہ کچھ آداب اخلاقیات کا خیال ملحوظ رکھا۔
مجھے اس بحث سے جو بات سمجھ آئی وہ درج ذیل ہیں:
1- الشیخ اسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے جس بنیاد پر تاتاریوں کی تکفیر اور انسے قتال کیا ، ان میں سے آج کوئی بھی ظاہرہ طور پر ان خواص کا حامل نہیں ، اگر کسی کے باطن میں ایسا کچھ ہے تو ہمیں اس پر کلام کا اختیار نہیں۔
2- اگر کسی شخص کا تعلق کسی ایسے گروہ سے کہ ان کے لٹریچر میں کفریہ شرکیہ عقائد موجود ہیں تو اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ وہ شخص بھی اسی کفریہ و شرکیہ عقائد کا حامل ہے۔
مثلا ہم جانتے ہیں دیوبندی اور بریلوی حضرات کی کتابیں اور تحریریں کفریہ و شرکیہ عقائد پر مبنی ہیں مگر ہم ہر ایک دیوبندی اور بریولوی پر خود قضاء کے عہدہ کو ہاتھ میں لیکر دائرہ اسلام سے خارج کرنے کا حق نہیں رکھتے۔
3- اور اگر کسی مسلمان سے کسی کفریہ وشرکیہ عمل کا ارتکاب ہوجائے تو اس پر اس عمل پر حکم لگے نہ کہ اس فاعل شخص پر، کیونکہ کسی خاص فاعل پر حکم لگانا "خالہ جی دا ویڑہ نہیں"۔
4- کچھ لوگ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ انکی زندگی کا مقصد ہی صرف لوگوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنا تھا، اور وہ ہر وقت اس کام کے لئے مظطرب رہتے تھے کہ مجھے موقع ملے اور میں مزید کچھ مسلمانوں کو مخرج عن الملۃ قرار دوں، اور آج کے تکفیری حضرات ہی امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایسے چہرہ کو پیش کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
ورنہ موصوف امام صاحب اس مسئلے پر جتنے محتاط پا گئے ہیں تو اس کو دیکھ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ یاد تازہ ہوجاتی ہے۔۔
کہ ایک ایسا بادشاہ جو سرعام کفر کر رہا تھا، اور پھر اس کفر کو بزور بازو نافذ کر رہا تھا، اور امام احمد بن حنبل جیسا عالم انکو سمجھا رہا تھا ، مگر پھر بھی وہ باز نہیں آرہا تھا ، اس الٹا اسنے امام اہل السنہ رحمہ اللہ اور دوسرے اہل السنہ کو ظلم کی چکی میں پیسا، قتل کیا ، قید کیا ۔۔۔
اس کے باوجود امام اہل السنہ جیسا عالم بھی اس کی تکفیر سے "جہالت" کی وجہ سے توقف کیا ہوا تھا، اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔۔ جب سمجھانے والا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ مگر کفریہ عقیدہ کا مرتکب حکمران سمجھے تو امام اہل السنہ اس پر جہالت کا اندیشہ خیال کر کے کفر و ارتداد کا حکم نہ لگائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو آج کے حکمران کو کس ایسے عالم نے دربار میں جا کر ، ون ٹو ون بیٹھ کر سمجھا لیا ہے کہ وہ یہ سکے کہ حجت تمام ہوگئی ہے اور اب میں اسے کافر کہنے لگا ہوں؟؟؟
کوئی بھی نہیں ، کوئی بھی نہیں ۔۔۔
تو پھر فیس بک اور فورمز پر بیٹھ کر حجتیں تمام کرنے والے اور قضاء کا کام کرنے والوں کو اس خطرناک کام سے باز رہنا چاہیئے۔
آخر میں ایک عرض :
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تکفیر کی ہے لیکن آج کی طرح بے ڈھنگ و بے ھنگم اور انتقامی کاروایئ کے طور پرنہیں بلکہ دلائل،قوائد و ظوابط اور اصولوں میں تفقہ کے التزام کے بعد!
آج کس کے پاس ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسا علم وبصیرت یافہم وفقاہت یا تقوی وتدین یا حکمت وفراست ہے؟
اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تکفیر بھی کوئی عمومی تکفیر نہیں تھی بلکہ انہوں نے بھی اصلاً کفریہ وشرکیہ افکار ونظریات کا کفر وشرک واضح کیا ہے اور اس کی وضاحت میں چند ایک افراد پر فتوی بھی لگا دیا۔
اہل سنت کے اس امام کے بارے ان کے سلفی متبعین میں سے بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ وہ کسی آیت مبارکہ کی تفسیر یا اہم رائے کے اظہار سے پہلے سینکڑوں کتب کا مطالعہ کرتے تھے اور اگرپھر بھی دل مطمئن نہ ہوتا تو صرف اسی پر اکتفا نہیں بلکہ دمشق کی ویران مساجد کی مٹی میں اپنے گالوں کو رلا دیتے تھے۔ فجر کی نماز سے طلوع آفتاب تک سورة فاتحہ کی تکرار کے ذریعے صراط مستقیم کے طلب گار رہتے ۔ یاحی یا قیوم کہنے پر ان کی روح وجد میں آ جاتی اور اپنی جنت اپنے سینے میں لیے پھرتے تھے۔
آج ایسا تفقہ، خوف خدا یا تقوی وتدین کس مفتی کے پاس ہے؟
ان أریدا لا الاصلاح ما استطعت۔
میرا مقصود صرف اور اصلاح ہے جس قدر میں اس کی استطاعت رکھتا ہوں۔
یا اللہ!مجھے اور ہم سب کو صراط مستقیم دکھا اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرما۔آمین !
وما توفیقی الا با للہ
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
علی ولی صاحب آپ نے پھر اپنے پوسٹ علماء اہل السنۃ کے عقیدے سے انحراف کیا ہے۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ یادرہے کچھ اعمال ایسے ہیں جن کے ارتکاب سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتاہے چاہے وہ جہالت کی و جہ کیا ہو،مذاقاًکیاہویا عمداًکیاہو۔جن پر تمام علماء اسلام کا اتفاق ہے۔کفر چاہے عملی ہو یا اعتقادی ہو کفر ہوتا ہے۔
1 اﷲیا اسکے رسول ﷺ کے ساتھ مذاق کرنا۔
2 شعائر اسلام کا مذاق اڑانا۔
3 اﷲتعالیٰ کی شریعت کو تبدیل کرنا۔
4 کافروں کے دین یا رواج کو دین اسلام سے بہترسمجھنا۔
5 مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنا۔
6 مسلمانوں پر انسان کے بنائے ہوئے قانون کو لاگوکرنا۔
7 حلال کو حرام سمجھنااگر چہ اسے کھانابھی ہو یا حرام کو حلال سمجھنااگرچہ نہیں کھاتاہو۔
اب آیئے اس شبہ کو بھی دور کرلیتے ہیں کہ کیا بھلا مسلمان بھی کسی بات کی ارتکاب کی وجہ سے کافر ہوسکتاہے اگرچہ اسکی نیت میں ایسی کوئی بات نہ ہو؟
تو اس کا جواب ہے جی ہاں!بالکل ہوسکتاہے آیئے سورۃ توبہ کی اس آیت کو پڑھیں۔
وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ قُلْ اَبِاﷲِ وَاٰٰیتِہٖ وَ رَسُوْلِہٰ کُنْتُمْ تَسْتَہْزِئُوْْنَo لاَ تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ (التوبہ:65،66)
''اور اگر تم ان سے (اس بارے میں)دریافت کر وتو کہیں گے کہ ہم تو یوں ہی بات چیت اور دل لگی کرتے تھے ۔کہو کیا تم اﷲاوراس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے؟ بہانے مت بناؤتم ایمان لانے کے بعد کافرہوچکے ہو۔''
کوئی بھی انصاف پسند آدمی اس آیت پر غوروفکر کرے گا تو اس کو اس آیت میں یہی نظر آئے گا کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے کافر قرار دیا وہ کفر عملی کے مرتکب تھے۔انہوں نے اپنے کفری عمل کی تردید میں یہ تک کہا کہ ہم تو یونہی بات چیت کررہے تھے دل لگی کررہے تھے ، یعنی مذاق کررہے تھے۔ اس کا کیا مطلب ہوا کہ ان لوگوں کا قول یہ تھا کہ ہم نے دل سے تھوڑی یہ بات کہی تھی کہ اس بات پر ہمارا عقیدہ بھی ہے ۔ ہم تو یونہی مذاق میں ایسا کہہ رہے تھے ۔ لیکن کیا ہوا؟ کیا اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول کو تسلیم کیا؟ ہرگز تسلیم نہیں کیا بلکہ ان کے اس کہنے کی وجہ سے ان کو کافر قرار دیا ۔ اورصاف صاف کہہ دیا کہ معذرتیں پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ بہانے مت تراشو تم نے کفریہ قول اپنے منہ سے نکالا لہٰذا تم کافر ہوچکے ہو۔
قارئین کرام اب ہم اللہ تعالیٰ کی بات مانیں یا علی ولی کی بہتر یہ ہے کہ ہم کوئی بات لکھنے سے قبل علماء اہل السنۃ کی رائے کو قارئین کی خدمت میں پیش کئے دیتے ہیں تاکہ یہ بات اچھی طرح نکھر کر سامنے آجائے کہ اہل السنۃ والجماعۃ کے علماء اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں:
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ بات یاد رکھو کہ اللہ کادین اعتقادی لحاظ سے دل میں ہوتا ہے اور محبت و نفرت بھی دل میں ہوتی ہے زبان سے اقرار اور کفریہ الفاظ زبان سے نہ نکالنا اور اعضاء سے ارکان اسلام پر عمل اور کفریہ افعال کو چھوڑنا یہ سب دین ہے اگر ان تینوں میں سے کسی ایک کی بھی کمی رہی تو یہ کفر وارتداد ہوگا۔ )الدررالسنیۃ کتاب حکم المرتد:8/87(
محمدبن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے اللہ کے عقیدہ اہل السنۃ والجماعۃ کی جو تشریح کی ہے اس کے مطابق اللہ کا دین اعتقادی لحاظ سے دل قولی لحاظ سے زبان اور عملی لحاظ سے اعضاء پر مبنی ہے اگر ان تینوں میں سے کوئی ایک بھی چھوٹ جائے یا چھوڑدیا جائے تو یہ کفر اور ارتداد ہوگا۔اگر انسان اپنے عقیدے کے کفر کو قول کے ذریعے بیان کرے یا عمل کے ذریعے بیان کرے تو کافر اور مرتد شمار ہوگا۔اس رائے کے خلاف جو رائے بھی وہ جہمیت اور ارجاء کے علاوہ کچھ بھی نہیں جیسا کہ ہم اوپر قرآنی آیت سے استدلال کرکے بتلاچکے ہیں۔
شیخ صاحب رحمہ اللہ نے اپنے رسالہ کے آخر میں لکھا ہے جب یہ بات ثابت ہوچکی کہ بعض منافقین جنھوں نے رسول ﷺ کے ساتھ ملکر روم کے خلاف جنگ بھی کی تھی وہ کافر قرار دیئے گئے اس لئے کہ انہوں نے کھیل و مزاح میں کلمہ کفر ادا کیا تھا تو اس سے وضاحت ہوجاتی ہے کہ جو شخص کسی دنیاوی غرض یا نقصان سے بچنے کے لئے کفریہ کلمہ یا عمل کرتا ہے یا کسی کو خوش کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے اس کا کیاحکم ہے ؟
فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے ہم نے جو حق تھا وہ بیان کردیا۔

شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن ابابطین رحمہ اللہ کہتے ہیں
جب مسلمان اس کلمہ توحید کی عظمت جان لیتا ہے اور اس کے قیود و شرائط سے بھی واقف ہوجاتا ہے تو پھر ضروری ہے کہ اس کا اعتقاد دل میں ہو زبان سے اقرار اور اعضاء سے عمل ہو اگر ان تینوں میں سے کوئی بھی کم ہوا تو آدمی مسلمان نہیں کہلائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے اور جب آدمی مسلمان عامل بن جائے اور اس کے بعد اس سے ایسا قول یا عمل یا عقیدہ ظاہر ہو جائے جو اس کے نقیض و متضاد ہوتو یہ اقرار قول و عمل اسے کوئی نفع نہ دے گا اللہ کاارشاد ان لوگوں کے بارے میں جنھوں نے غزوہ تبوک میں بات کی تھی ۔یَحْلِفُوْنَ بِاﷲِ مَا قَالُوْا وَلَقَدْ قَالُوْا کَلِمَةَ الْکُفْرِ وَ کَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلاَمِہِمْیہ قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے کچھ نہیں کہا حالانکہ یہ کلمہ کفر ادا کرچکے ہیں اور اسلام لانے کے بعد کفر کر لیا ہے ۔(التوبۃ:74)(مجموعۃ التوحید۔الرسالۃ الثامنۃ )۔
لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ (توبہ:66)۔
بہانے نہ بناؤ تم ایمان کے بعد کفر کر بیٹھے ہو۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جس نے کوئی عمل یا قول ایسا کیا جو کفر کے زمرے میں آتا ہے تووہ شخص کافر ہوگیا اگرچہ اس نے کافر ہونے کا قصد نہیں کیاتھا اس لئے کہ کافر بننے کا ارادہ کوئی بھی نہیں کرتا۔ (الصارم المسلول:177)۔
علی ولی صاحب کیادیکھیں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کیا کہہ رہے ہیں کہ جس شخص نے کوئی عمل یا قول ایسا کیا جو کفر کے زمرے میں آتا ہے تو وہ شخص کافر ہوگیا اگرچہ اس نے کافر ہونے کا قصد نہیں کیا تھا۔اور کافر بننے کا ارادہ کوئی بھی نہیں کرتا ہے۔جمیع علماء اہل السنۃ والجماعۃ اس بات پر متفق ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو گالی بکتا ہے وہ کافر ہے۔اس سے اس بارے میں اس کا عقیدہ نہیں پوچھا جائے صرف قول کی بنیاد پر کافر قرار دیا جائے گا۔

اس بات کو اس مثال کے ذریعے سے سمجھنے کی کوشش کریں شاید کہ بات آپ کی سمجھ میں آجائے:
ایک بدعتی آدمی بدعت کا کام ایجاد کرے اس پر عمل کرے اور پھر کہے کہ میری نیت ایسی نہیں تھی تو اس نیت کا کیا اعتبار؟عمل تو اس نے کر دیا ہے بدعت کے بارے میں نبی کریمﷺ کافرمان ہے جس نے ہمارے اس دین میں ایسا نیاکام نکالا جو اس میں سے نہیں تھا تووہ مردود ہے ۔)متفق علیہ(یہ تو دین میں کوئی عمل ایجاد کرنے سے متعلق ہے کہ کتاب و سنت کی دلیل کے بغیر کوئی عمل کرے تو اسکا عمل مردود ہے مگر اس لئے کہ اس نے معصیت کا ارتکاب کیاہے اب اس کی نیت نہیں معلوم کی جائے گی کہ اچھی تھی یا بری اسی طرح ایک شخص شرکیہ عمل کرتا ہے خود کو خالق رازق شریعت ساز قانون ساز کے درجے پر فائز کرتا ہے اور پھر کہے کہ میری نیت ایسی نہ تھی تواس کی نیت کا کوئی اعتبار نہیں بلکہ اسکے عمل پر ہی فتوی لگے گا۔
یعنی اس کے عمل کا اعتبار کیا جائے گا نیت کا نہیں جو کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے صریح طور پر ثابت ہے۔لہٰذا علی ولی صاحب جس مسلمان کو یہ معلوم ہوکہ کفر وشرک اعتقادی بھی ہوتا ہے قولی بھی اور فعلی بھی تووہ اس طرح کی باتیں کبھی نہیں کرے گا۔
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ کا دین دلی اعتقاد اور دلی محبت و نفرت اور زبانی اقرار و عمل بالجوارح کانام ہے ان میں سے ایک بھی کم ہوا تو یہ کفر وارتداد ہے(الدرر السنیۃ کتاب حکم المرتد )8/)
عبدالرحمن بن ابابطین رحمہ اللہ کہتے ہیں :
جب مسلمان اس کلمہ کی عظمت قدرو منزلت پہچان لیگا اس کے قیود و شرائط سمجھ جائے گا تو پھر ضروری ہے کہ دل سے اعتقاد زبان سے اقرار اور اعضاء سے عمل کرے اگر ان تینوں میں سے ایک بھی کم ہوا تو انسان مسلمان نہیں بن سکے گا۔(مجموعۃ التوحید الرسالۃ الثالثۃ)
علی ولی صاحب اس بات پر اجماع ہے کہ توحید کے لئے ضروری ہے کہ دل زبان اور عمل سے ثابت ہو۔اور یہ بات صرف توحید الوہیت کے لئے خاص نہیں ہے ہے بلکہ توحید ربوبیت بھی اس میں داخل ہے اس لئے کہ شرک فی الربوبیت شرک فی الالوہیت سے زیادہ سنگین ہے۔قانون سازی اللہ کا حق ہے ۔ جو کہ ربوبیت کی صفات میں سے ہے۔لہٰذا جو شخص قانون سازی کرتا ہے وہ اللہ کے حق تشریعی کو اپنے لئے استعمال کرتا ہے ۔لہٰذا شرک فی الربوبیت تین قسم کا ہوتا ہے:
1۔ اعتقادی لحاظ سے شرک فی الربوبیت جیسا کہ کوئی انسان یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ کے علاوہ بھی کوئی قانون ساز ہے ۔
2۔ قولی شرک کوئی شخص زبان سے کہدے کہ اللہ کے علاوہ کسی او رکو بھی قانون بنانے کا حق حاصل ہے ۔
3۔ شرک فی الربوبیت عملاً جیسا کہ کوئی انسان کسی انسان کو ایسے مقام پر پہنچائے کہ جس کی وجہ سے اس انسان کو قانون بنانے کا حق حاصل ہوجائے جوکہ صرف اللہ کا حق ہے ۔

اب ہم اس بارے میں علماء اہل السنۃ کے اقوال نقل کرتے ہیں جن میں واضح طور پر یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کے مدمقابل قانون سازی کرنا اور اس کو نافذ کرنا کفر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی محکم کتاب قرآن مجید فرقان حمید میں صراحت کے ساتھ فرمادیا ہے کہ شریعت سازی کرنا کفر وشرک ہے :
اَمْ لَہُمْ شُرَکٰؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَالَمْ یَاۡذَنْ بِہِ اﷲُ وَلَوْلاَ کَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِیَ بَیْنَہُمْ وَاِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (الشوری:21)۔
کیاان کے ایسے شریک ہیں جو ان کے لئے دین کی نئی راہ (شریعت)بناتے ہیں جسکی اللہ نے اجازت نہیں دی اگر فیصلہ کی ایک بات مقرر نہ ہوچکی ہوتی تو ان میں فیصلہ ہوجاتا اور جو ظالم ہیں ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔

اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اﷲِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَمَا اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوْا اِلٰہاً وَّاحِدًا لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ (التوبہ:31)
انہوں نے اپنے درویشوں اور علماء اور مسیح ابن مریم کو اللہ کے علاوہ رب بنالیا ہے حالانکہ انہیں حکم دیاگیا تھا کہ صرف ایک الٰہ کی عبادت کریں وہ اللہ پاک ہے ان چیزوں سے جو یہ لوگ اس کے ساتھ شریک کرتے ہیں ۔

چنانچہ یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
جس نے اللہ کی شریعت بدل دی اور نئی شریعت بنالی تو اس کی بنائی ہوئی شریعت باطل ہے اس کی اتباع جائز نہیں ہے جیسا کہ پہلی آیت میں مذکور ہوا۔ (مجموع الفتاوی :365-135)اسی لئے یہود و نصاری کو کافر قرار دیا گیا ہے کہ انہوں نے تبدیل شدہ منسوخ شریعت کی اتباع کی ۔مزید فرماتے ہیں حرام کرنا یا حلال قرار دینا صرف ایک اللہ کا اختیار ہے اگر کسی نے کوئی بھی عمل اختیار کیایا ترک کیا اس کے کرنے یاترک پر اللہ کا حکم نہ ہواور اپنے اس عمل کو دین کے طور پر اپنا لیا تو اس نے اللہ کا شریک اور رسول کا نظیر قرار دے دیا یہ انہی مشرکین کی طرح ہے جنہوں نے اللہ کے شریک ٹھہرائے یا ان مرتدین کی طرح ہیں جنھوں نے مسیلمہ کذاب کی پیروی کی ۔غور فرمائیں کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کس طرح ایسے لوگوں کو مرتد و مشرک قرار دیا ہے جو اس عمل کو جائز سمجھتے ہیں یاناجائز ان میں کوئی فرق نہیں رکھا ۔ )الفتاوی الکبری 6/339(۔
علامہ شیخ حمد بن عتیق رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اس شہر کے لوگوں نے اللہ اور اللہ کے دین کو برا بھلا کہااور ایسے قوانین رعایا میں نافذ کیے ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کے خلاف ہیں حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ صرف یہی کام انکو اسلام سے خارج کرنے کے لئے کافی ہیں۔ (ھدایة الطریق من رسائل و فتاوی الشیخ حمد بن عتیق ص 186)
شیخ عبداللہ بن حمیدرحمہ اللہ فرماتے ہیں:

جس نے لوگوں پر کوئی ایسا قانون بناکر نافذ کیا جو اللہ کے حکم سے متعارض ہوتو ایسا کرنے والا امت سے خارج ہے کافر ہے۔ (نقل عن کتاب الایمان ومبطلاتہ فی العقیدہ الاسلامیة)۔
مزید فرماتے ہیں اللہ کی طرف سے اس بات پر شدید تحذیر اور وعید ہے کہ اللہ اور رسول ﷺ کی شریعت کو چھوڑ کر کسی اور طرف فیصلے لیجائیں ۔اور اللہ کی طرف سے ایسا کرنے والوں کے بارے میں صریح حکم ہے کہ یہ فاسق ظالم کافر ہیں منافقین کے نقش قدم اور طور طریقوں پر چلنے والے ہیں (فتاوی الشیخ محمد بن ابراہیم 12/256)۔
شیخ محمد بن حامد الفقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سلف کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ طاغوت ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس کے لئے اللہ کی عبادات میں سے کوئی عبادت بجالائی جائے اور وہ چیز انسان کو اللہ کی عبادت دین اور اللہ ورسول ﷺکی اطاعت میں اخلاص سے رکاوٹ بنے ۔ چاہے یہ چیز شیطان ہو جن ہو یا انسان ہو درخت ہو پتھر یا اور کوئی چیز ہو اس میں ایسے قوانین بھی شامل ہیں جو کتاب و سنت کے بجائے انسانوں کے وضع کردہ ہوں اور ان کے مطابق مال جان و عزت کے فیصلے ہوتے ہوں ان کی وجہ سے اللہ کی شریعت معطل کر دی گئی ہو۔یہ قوانین بھی درحقیقت طاغوت ہے۔ (فتح المجید ص 269-348)
شیخ عبدالرزاق عفیفی فرماتے ہیں:
جو شخص خود کومسلمان کہتا ہو اسلام کے احکام سے واقف ہو پھر لوگوں کے لئے خود قوانین وضع کرے ان کے لئے کوئی نظام بنائے تاکہ لو گ اس کے مطابق زندگی گزاریں اس کے مطابق فیصلے کریں اور وہ شخص جانتا ہو کہ یہ قوانین اسلامی احکام کے مخالف ہیں تو ایسا شخص کافر ہے ملت اسلامی سے خارج ہے اسی طرح وہ شخص بھی جو اس مقصد کے لئے کمیٹی تشکیل دیتا ہے یا لوگوں کو حکم یا رائے دیتا ہے کہ ان قوانین یا نظام کو اپنائیں حالانکہ اسے معلوم ہے کہ یہ اسلام کے خلاف ہیں (تووہ شخص کافر ملت اسلام سے خارج ہے) (شبہات حول السنة ورسالة الحکم بغیر ماانزل ص 63طبعة دارالفضیلة)
یہ ہے علماء اہل السنۃ کی رائے جو انہوں نے ایسے شخص کے بارے میں دی ہے کہ جو شخص قانون سازی کرتا ہے اور لوگوں کی گردنوں پر اپنے بنائے ہوئے قوانین کو مسلط کرتا ہے۔اس کا یہ عمل کفر کے مترادف ہے اور ایسا کرکے وہ شخص یا حکمران دین اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ہم نے اس بارے میں جید علماء کرام کی رائے کو پیش کیا ہے تاکہ کسی بھی قسم کا کوئی شک وشبہ اس بارے میں باقی نہ رہے۔ اب کوئی شخص اپنے قول یا عمل سے کفر کرتا ہے تو کافر ہے اس سے اس کی نیت نہیں پوچھی جائے گی کیونکہ اہل السنۃ والجماعۃ کا مذہب ہے کہ کفر اعتقاد قول اور عمل سے ہوتا ہے ۔ اگر کسی شخص سے کفریہ عمل ان تینوں میں سے کسی ایک سے بھی صادر ہوگیا تو اس کے کفر میں شک نہیں جس کی مثال ہم اس سے قبل قرآنی آیات اور احادیث سے دے چکے ہیں کہ کوئی شخص اگر اللہ کو گالی دے تو وہ اس گالی دینے کی وجہ سے کافر ہوچکا اب اس سے اس کی نیت نہیں پوچھی جائے گی۔ایسے ہی کوئی شخص کوئی بدعتی عمل کو ایجاد کرے تو وہ مردود ہوگا اس سے اس کی نیت نہیں پوچھی جائے گی ۔ لہٰذا علی ولی صاحب اہل السنۃ والجماعۃ کے عقیدے کو اپنالیں اسی میں بہتری ہے۔
 
Top