• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مفصل طریقہ نماز

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سکتہ

آپﷺ سورہ فاتحہ سے پہلے اور قرأت کے بعد رکوع سے پہلے سکتہ کرتے تھے۔
دلیل:
قال سمرۃ:حفظت سکتتین فی الصلاۃ سکتہ إذا کبر الامام حتی یقرأ،وسکتۃ إذا فرغ من فاتحۃ الکتاب وسورۃ عند الرکوع(ابوداود:۷۷۷، ۷۷۸)
’’سمرہ بن جندب کہتے ہیں مجھے نماز میں دو سکتے یاد ہیں ایک سکتہ وہ جب امام اللہ اکبر کہتا ہے اور قراء ت سے پہلے اور دوسرا سکتہ وہ کہ جب امام سورہ فاتحہ اور سورۃ سے فارغ ہوتا ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
رکوع

آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع جاتے ہوئے اللہ اکبر کہتے۔
دلیل:
عن أبی ہریرۃ یقول کان رسول اﷲ… ثم یکبر حین یرکع (صحیح بخاری:۷۸۹،صحیح مسلم:۳۹۲)
اور اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے تھے۔
دلیل:
أن عبد اﷲ بن عمر قال: رأیت النبی افتتح التکبیر فی الصلوۃ فرفع یدیہ حین یکبر حتی یجعلھا حذو منکبیہ وإذا کبر للرکوع فعل مثلہ (صحیح بخاری:۷۳۸)
’’عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ انہوں نے نماز کے شروع میں تکبیر کہی اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں مونڈھوں کے برابر اٹھائے اور جب رکوع کیا تو اس طرح کیا۔‘‘
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم (عند الرکوع وبعدہ) رفع یدین کرتے پھر (اس کے بعد) تکبیر کہتے۔
دلیل:
أن ابن عمر قال: کان رسول اﷲ إذا قام للصلوٰۃ رفع یدیہ حتی تکونا بحذو منکبیہ ثم کبر،فإذا أراد أن یرکع فعل مثل ذلک
’’ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ دونوں کندھوں تک اٹھاتے پھر تکبیر کہتے اور جب رکوع کا ارادہ کرتے تو اسی طرح کرتے تھے۔‘‘ (صحیح مسلم:۳۹۰)
ملحوظہ:
اگر پہلے تکبیر اور بعد میں رفع یدین کرلیا جائے تو یہ بھی جائز ہے۔
ابوحمیدالساعدی کہتے ہیں کہ
’’ثم یکبر فیرفع یدیہ‘‘ (ابوداود:۷۳۰) ’’پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کہتے اور پھر رفع یدین کرتے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
رکوع کی کیفیت

آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع کرتے تو اپنے ہاتھوں سے اپنے گھٹنے مضبوطی سے پکڑتے پھر اپنی کمر جھکاتے (اور برابر کرتے)
دلیل:
وإذا رکع أمکن یدیہ من رکبتیہ ثم ہصر ظھرہ(صحیح بخاری:۸۲۸)
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سرنہ تو (پیٹھ سے) اونچا ہوتا اور نہ نیچا (بلکہ برابر ہوتا تھا)
دلیل:
وکان إذا رکع لم یشخص رأسہ ولم یصوبہ (صحیح مسلم:۴۹۸)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے گھٹنوںپر رکھتے تھے پھراعتدال (سے رکوع) کرتے نہ تو سر (بہت) جھکاتے اور نہ اسے (بہت) بلند کرتے یعنی آپ کا سر مبارک آپ کی پیٹھ کی سیدھ میں بالکل برابر ہوتا تھا۔
دلیل:
ثم یرکع ویضع راحتیہ علی رکبتیہ ثم یعتدل فلا یصب رأسہ ولا یقنع(ابوداود:۷۳۰)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھے گویا کہ آپﷺ نے انہیں پکڑ رکھا ہو اور دونوں ہاتھ کمان کی ڈوری کی طرح تان کر اپنے پہلوؤں سے دور رکھے۔
دلیل:
ثم رکع فوضع یدیہ علی رکبتیہ کأنہ قابض علیھما،ووتر یدیہ فتجافی عن جنبیہ(ابوداود:۷۳۴)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
رکوع کی دعا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں سبحان ربي العظیم کہتے (رہتے ) تھے۔
دلیل:
اس روایت کے الفاظ یہ ہیں:
ثم رکع فجعل یقول سبحان ربي العظیم (صحیح مسلم:۷۷۲)
آپ مذکورہ بالا دعا کا نماز میں پڑھنے کاحکم بھی کرتے۔
دلیل:
عن عقبۃ بن عامر قال:لما نزلت{فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْم} قال رسول اﷲ إجعلوھا فی رکوعکم (ابوداود:۸۶۹)
اس کی تسبیح کی تعداد میں امام ذہبی نے اختلاف کیا ہے۔ میمون بن مہران (تابعی) اور زہری (تابعی) فرماتے ہیں کہ رکوع وسجود میں تین تسبیحات سے کم نہیں پڑھنا چاہئے (مصنف ابن ابی شیبہ ۱؍۲۵۰، رقم ۲۵۷۱)
اس کے علاوہ آپﷺ سے درج ذیل دعائیں بھی ثابت ہیں۔
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ، اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيْ
’’اے اللہ! جو ہمارا رب ہے، تو پاک ہے، ہم تیری تعریف کرتے ہیں الٰہی مجھے بخش دے۔‘‘ (صحیح بخاری:۷۹۴، ۸۱۷، صحیح مسلم: ۴ ۸ ۴ )
یہ دعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے پڑھتے تھے۔
سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ،رَبُّ الْمَلَائِکَۃِ وَالرُّوْحِ (صحیح مسلم:۴۸۷)
’’وہ ہر عیب سے پاک ہے وہ فرشتوں اور جبریل کا رب ہے۔‘‘
سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ،لَا إلـٰہَ إلَّا أَنْتَ (صحیح مسلم:۴۸۵)
’’اے اللہ تو پاک ہے اور تیری ہی تعریف ہے۔ نہیں ہے کوئی معبود(برحق) مگر تو ہی۔‘‘
اَللّٰھُمَّ لَکَ رَکَعْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَلَکَ أَسْلَمْتُ،خَشَعَ لَکَ سَمْعِيْ وَبَصَرِيْ وَمُخِّيْ وَعَظْمِيْ وَعَصَبِيْ (صحیح مسلم:۷۷۱)
’’اے اللہ! میں نے تیرے لئے رکوع کیا تیرے لئے ہی ایمان لایا اور تیرے لئے ہی فرمانبردار ہوا میری سماعت،بصارت، ہڈی اور اس کی مخ اور پٹھے (سب کے سب) تجھ سے ڈر گئے۔‘‘
ان دعاؤں میں سے کوئی دعا بھی پڑھی جاسکتی ہے، ان دعاؤں کا ایک ہی رکوع یا سجدے میں جمع کرنا اور اکٹھا پڑھنا کسی صریح دلیل سے ثابت نہیں تاہم حالت تشہد میں ثم لیتخیر من الدعاء أعجبہ إلیہ فیدعو(صحیح بخاری:۸۳۵)
کی عام دلیل سے ان دعاؤں کا جمع کرنا بھی جائز ہے۔ واﷲ أعلم
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
رفع الیدین بعد الرکوع

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے سراٹھاتے تو رفع الیدین کرتے اورسمع اﷲ لمن حمدہ،ربنا ولک الحمدکہتے تھے۔
دلیل:
وإذا کبر للرکوع،وإذا رفع رأسہ من الرکوع رفعھما کذلک أیضا،وقال:سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہٗ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ (صحیح بخاری:۷۳۵، ۷۳۶)

امام،مقتدی اور منفرد سب کو سمع اﷲ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد کہنا چاہئے۔ربنا لک الحمد کہنا بھی صحیح اور ثابت ہے۔
جیسا کہ دوسری روایت میں وارد ہے:
’’ثم یکبر حین یرکع،ثم یقول سمع اﷲ لمن حمدہحین یرفع صلبہ من الرکوع،ثم یقول وھو قائم:ربنا لک الحمد (صحیح بخاری:۷۸۹)

بعض اوقات ربنا ولک الحمد جہراً کہنا بھی جائز ہے۔
دلیل:
عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج سے روایت ہے کہ سمعت أبا ھریرۃ یرفع صوتہ باللھم ربنا ولک الحمد(مصنف ابن ابی شیبہ:۱۲۴۸، رقم:۲۵۵۶)
’’میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اونچی آواز کے ساتھ اللھم ربنا ولک الحمد پڑھتے سنا۔‘‘

اس کے علاوہ رکوع کے بعد درج ذیل دعائیں بھی ثابت ہیں۔
رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْئَ السَّمٰوَاتِ وَمِلْئَ الاَرْضِ وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَیْئٍ بَعْدُ أَھْلَ الثَّنَائِ وَالْمَجْدِ،أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ وَکُلُّنَا لَکَ عَبْدٌ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ،وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ (صحیح مسلم:۴۷۷)
’’اے ہمارے پروردگار! تیرے ہی لئے ہر طرح کی تعریف ہے۔آسمانوں اور زمین اور ہر اس چیز کے بھراؤ برابر (تیری تعریف ہے) جو تو چاہے بندے نے تیری حمد و ثنا بیان کی تو انہی کا حقدار ہے اور ہم سب تیرے بندے ہیں تو جو عطا کرے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے تو روک دے اسے کوئی عطا کرنے والا نہیں اور سعادت مند کو اس کی سعادت مندی تیرے عذاب سے بچا نہیں سکی۔‘‘
رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ حَمْدًا کَثِیْرًَا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیْہِ (صحیح بخاری:۷۹۹)
’’اے ہمارے پروردگار!آپ کے لئے ہی ساری تعریف ہے، بہت زیادہ، پاکیزہ اور بابرکت تعریف۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
رکوع کے بعد قیام میں ہاتھ باندھنا

رکوع کے بعد قیام میں ہاتھ باندھنے چاہئیں یا نہیں اس مسئلے میں صراحت سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے لہٰذا دونوں طرح عمل جائز ہے مگر بہتر یہی ہے کہ قیام میں ہاتھ نہ باندھے جائیں۔امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا گیا کہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے چاہئیں یا چھوڑ دینے چاہئیں تو انہوں نے فرمایا: أرجو أن لا یضیق ذلک إن شاء اﷲ (مسائل احمد روایۃ صالح بن احمد بن حنبل:۶۱۵)
’’مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ اس میں کوئی تنگی نہیں ہے۔‘‘
نوٹ
رکوع کے بعد ہاتھ باندھے جائیں یا کھلے رکھے جائیں اس پر ایک مفصل مضمون عنقریب پوسٹ کیا جائے گا۔ان شاءاللہ (کلیم حیدر)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سجدہ

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر (اللہ اکبر) کہہ کر (یا کہتے ہوئے) سجدے کے لئے جھکتے۔
دلیل:
ثم یقول اﷲ أکبر حین یہوی ساجدًا( بخاری:۸۰۳،مسلم:۳۲۹)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا سجد أحدکم فلا یبرک کما یبرک البعیر ولیضع یدیہ قبل رکبتیہ (ابوداود:۸۴۰)
’’جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے (بلکہ) اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں سے پہلے (زمین پر) رکھے‘‘ اور آپﷺ کا عمل بھی اسی کے مطابق تھا۔‘‘

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے گھٹنوں سے پہلے اپنے دونوں ہاتھ(زمین پر)رکھتے تھے اور فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے۔
جس روایت میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جاتے وقت پہلے گھٹنے اور پھر ہاتھ رکھتے تھے۔ (ابوداود:۸۳۸)
شریک بن عبداللہ القاضی کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے اس کے تمام شواہد بھی ضعیف ہیں۔
سجدہ سات اعضاء یعنی دونوں گھٹنوں دونوں ہاتھوں اور چہرے کے اعتماد سے کرنا چاہئے۔
دلیل:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أمرت أن أسجد علی سبعۃ أعظم علی الجبھۃ وأشار بیدہ علی أنفہ،والیدین والرکبتین وأطراف القدمین (صحیح بخاری:۸۱۲،صحیح مسلم:۴۹۰)
’’مجھے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے (ان سب کی طرف) اشارہ کیا کہ پیشانی،ناک، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں قدموں کے پنجے۔‘‘
آپﷺ فرماتے تھے:
إذا سجد العبد سجد معہ سبعۃ أطراف: وجھہ وکفاہ ورکبتاہ وقدماہ (صحیح مسلم:۴۹۱)
’’جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو سات اطراف (اعضائ) اس کے ساتھ سجدہ کرتے ہیں چہرہ ، ہتھیلیاں، دو گھٹنے اور دو پاؤں۔‘‘
معلوم ہوا کہ سجدہ میں ناک پیشانی، دونوں ہتھیلیوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں کا زمین پر لگانا ضروری (فرض ) ہے۔
ایک روایت میں آپ کے الفاظ یہ ہیں:
لا صلوۃ لمن لم یضع أنفہ علی الأرض(دارقطنی) ’’جو شخص (نماز میں) اپنی ناک، زمین پر نہ رکھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں ناک اور پیشانی زمین پر (خوب) جما کر رکھتے، اپنے بازؤں کو اپنے پہلوؤں (بغلوں سے دور کرتے اور دونوں ہتھیلیاں کندھوں کے برابر زمین) پر رکھتے تھے۔
‚ثم سجد فأمکن أنفہ وجبہتہ ونحی یدیہ عن جنبیہ (ابوداود:۷۳۴)
وائل بن حجر فرماتے ہیں کہ :
فلما سجد وضع رأسہ بذلک المنزل من بین یدیہ (ابو داود:۷۲۶)
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سجدہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان اپنے سر کو رکھا۔‘‘

سجدے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں بازؤں کو اپنی بغلوں سے ہٹا کر رکھتے تھے۔
دلیل:
’’ثم یھوی إلی الارض فیجافی یدیہ عن جنبیہ‘‘„ (ابوداود:۷۳۰)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں اپنے ہاتھ (زمین پر) رکھتے نہ تو انہیں بچھا دیتے اور نہ (بہت) سمیٹ لیتے اپنے پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ رخ رکھتے۔
دلیل:
’’فإذا سجد وضع یدیہ غیر مفترش ولا قابضھما واستقبل باطراف أصابع رجلیہ القبلۃ‘‘ (صحیح بخاری:۸۲۸)

سجدہ میں آپ کے بغلوں کی سفیدی نظر آجاتی تھی۔
دلیل:
’’عن عبد اﷲ بن مالک أن النبی کان إذا صلی فرج بین یدیہ حتی یبدو بیاض إبطیہ‘‘ (صحیح بخاری:۳۹۰،صحیح مسلم۴۹۵)

سجدہ کرتے ہوئے بازؤں کو زمین پربچھانا نہیں چاہئے۔
دلیل:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے۔:
اعتدلوا فی السجود،ولا ینبسط أحدکم ذراعیہ انبساط الکلب (صحیح بخاری:۸۲۲، صحیح مسلم:۴۹۳)
’’سجدے میں اعتدال کرو، کتے کی طرح بازو نہ بچھا دو۔‘‘
اس حکم میں مرد اور عورتیں سب شامل ہیں۔ لہٰذا عورتوں کوبھی چاہئے کہ سجدے میں اپنے بازو نہ پھیلائیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اگر بکری کابچہ آپ کے بازؤں کے درمیان سے گزرنا چاہتا تو گزر سکتا تھا۔
دلیل:
’’عن میمونہ قالت: کان النبی إذا سجد لو شاء ت بھمۃ أن تمر بین یدیہ لمرت‘‘ (صحیح مسلم:۴۹۶)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے سینے اور پیٹ کو زمین سے بلند رکھتے تھے صلوا کما رأیتمونی أصلی کے عام حکم کے تحت عورتوں کیلئے بھی یہی حکم ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سجدے کی دعائیں اور سجدہ کے دیگر مسائل

سجدے میں بندہ اپنے رب کے انتہائی قریب ہوتا ہے لہٰذا سجدے میں خوب دعا کرنی چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أقرب ما یکون العبد من ربہ وھو ساجد فأکثروا الدعائ (صحیح مسلم:۴۸۲)
’’بندہ اپنے رب کے قریب ترین ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہو پس دعا زیادہ سے زیادہ کیا کرو۔‘‘

سجدے میں درج ذیل دعائیں پڑھنا ثابت ہے۔
سُبْحَانَ رَبِّیَ الاَعْلیٰ (صحیح مسلم:۷۷۲) ’’میرا بلند پروردگار(ہر عیب سے) پاک ہے۔‘‘

سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ،اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِي (صحیح بخاری:۷۹۴، ۸۱۷، صحیح مسلم: ۴۸۴)
’’اے ہمارے پروردگار! تو (ہرعیب سے) پاک ہے ہم تیری تعریف اور پاکی بیان کرتے ہیں۔ اے اللہ! مجھے بخش دے۔‘‘

سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ،لَا اِلَہَ إلَّا أَنْتَ (صحیح مسلم:۴۸۷)
’’اے اللہ! تو (ہرعیب سے) پاک ہم تیری تعریف اور پاکی بیان کرتے ہیں تیرے سوا کوئی معبودبرحق نہیں ہے۔‘‘

سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَۃِ وَالرُّوْحِ (صحیح مسلم:۴۸۷)
’’(الٰہی تو) نہایت پاک اور قدوس ہے، فرشتوں اور روح الامین (جبریل) کا پروردگار ہے۔‘‘

اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ذَنْبِيْ کُلَّہٗ،دِقَّہٗ وَجِلَّہٗ،وَأَوَّلَہٗ وَآخِرَہٗ،وَعَلَانِیَتَہٗ وَسِرَّہٗ (صحیح مسلم:۴۸۳)
’’اے اللہ میرے تمام گناہوں کو بخش دے خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے ہوں، ماضی کے ہوں اور آئندہ کے ہوں، علانیہ اور خفیہ ہوں۔‘‘

اَللّٰھُمّ لَکَ سَجَدْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ،وَلَکَ أَسْلَمْتُ،سَجَدَ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ خَلَقَہٗ وَصَوَّرَہٗ،وَشَقَّ سَمْعَہٗ وَبَصَرَہٗ،تَبَارَکَ اﷲُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ (صحیح مسلم :۷۷۱)
’’اے اللہ! میں نے تیرے لئے سجدہ کیا میں تجھ پر ایمان لایا،تیرا فرمانبردار ہوا، میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اسے تخلیق کیا، اسے اچھی صورت دی، اس کے کان اور آنکھ کو کھولا بہترین تخلیق کرنے والا اللہ، بڑا ہی بابرکت ہے۔‘‘

یہ دعا بھی نبیﷺ سے ثابت ہے:
’’ اَللّٰھُمّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وِبِ مُعَافَاتِکَ مِنْ عَقُوْبَتِکَ وَأَعُوْذُبِکَ مِنْکَ لاَ أُحْصِیْ ثَنَائً عَلَیْکَ،أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلـٰی نَفْسِکَ (صحیح مسلم:۴۸۶)
’’ الٰہی میں غصے سے تیری رضا کی پناہ مانگتا ہوں اور تیری بخشش کی تیرے عذاب سے اور تجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔مجھ میں طاقت نہیں کہ تعریف کر سکوں تو ایسا ہی ہے جیسی تو نے اپنی تعریف خود کی ہے۔‘‘
جو دعا باسند صحیح ثابت ہوجائے سجدے میں اس کا پڑھنا افضل ہے، رکوع اور سجدے میں قرآن پڑھنا منع ہے۔
آپﷺ سجدے کی حالت میں اپنے دونوں پاؤں کی ایڑھیاں ملادیتے تھے اور ان کی انگلیوں کا رخ قبلے کی طرف ہوتا تھا۔
دلیل:
’’قالت عائشۃ زوج النبی فقدت رسول اﷲ وکان معی علی فراش فوجدتہ ساجداً راصا عقبیہ مستقبلا باطراف أصابعہ القبلۃ‘‘… (معانی الآثار: بیہقی )
’’ آپ کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گم پایا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے بستر پر تھے ،پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں پایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں دونوں ایڑیوں کو اوپر اٹھائے ہوئے اور انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف کیے ہوئے تھے۔‘‘

سجدے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں قدم کھڑے رکھتے تھے۔
دلیل:
عن عائشۃ قالت فقدت رسول اﷲ ﷺ لیلۃ من الفراش فالتمستہ فوقعت یدی علی بطن قدمہ،وہو فی المسجد وہما منصوبتان (صحیح مسلم:۴۸۶)
’’ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہتی ہیں میں نے ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستے سے غائب پایا تو ٹٹولنے پر میرا ہاتھ آپ کے دونوں قدموں کے تلووں کو لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سجدہ میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں پاؤں گڑے ہوئے تھے۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر (اللہ اکبر) کہہ کر سجدے سے اٹھتے۔
دلیل:
’’ ثم یکبر حین یرفع رأسہ‘‘ (صحیح بخاری:۷۸۹، صحیح مسلم :۳۹۲)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ اکبر کہہ کر سجدے سے سر اٹھاتے اور اپنا بایاں پاؤں بچھا کر اس پربیٹھ جاتے۔
دلیل:
’’ثم یسجد ثم یقولاﷲ أکبر ویرفع رأسہ ویثنی رجلہ الیسری فیقعد علیھا‘‘ (ابوداود:۷۳۰)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ
’’إنما سنۃ الصلاۃ أن تنصب رجلک الیمنی وتثنی الیسری‘‘ (صحیح بخاری:۸۲۷)
’’نماز میں (نبی) کی سنت یہ ہے کہ دایاں پاؤں کھڑا کرکے بایاں پاؤں بچھا دے۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
دلیل:
افتتح التکبیر فی الصلاۃ فرفع یدیہ… وإذا کبر للرکو ع فعل مثلہ وإذا قال سمع اللہ لمن حمدہ ولا یفعل ذلک حین یسجد ولا حین یرفع رأسہ من السجود (صحیح بخاری:۷۳۸)
’’ نماز کے شروع میں تکبیر کہتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے… اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے تو ایسا ہی کرتے اور جب سمع اﷲ لمن حمدہ کہتے تو اسی طرح کرتے اور سجدے اور سجدے سے سر اٹھاتے ہوئے ایسا نہ کرتے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جلسہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے سے اٹھ کر (جلسے میں) تھوڑی دیر بیٹھتے۔
دلیل:
’’ثم رفع راسہ ھنیۃ‘‘ (صحیح بخاری:۸۱۸)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیر تک بیٹھتے کہ کوئی سمجھتا کہ آپ بھول گئے ہیں۔
دلیل:
إذا رفع رأسہ من الرکوع قام حتی یقول القائل: قد نسي وبین السجدتین حتی یقول القائل قد نسي (صحیح بخاری:۸۲۱، صحیح مسلم:۴۷۲)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلسہ میں یہ دعا پڑھتے تھے:
رَبِّ اغْفِرْلِيْ،رَبِّ اغْفِرْلِي(ابوداود:۸۷۴)
جلسہ میں تشہد کی طرح اشارہ کرنا ثابت نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر (اللہ اکبر) کہہ کر (دوسرا) سجدہ کرتے ۔
دلیل:
ثم یکبر حین یسجد (صحیح بخاری:۷۸۹، صحیح مسلم:۳۹۲)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب طاق (پہلی یا تیسری) رکعت میں دوسرے سجدے سے سر اٹھاتے تو بیٹھ جاتے تھے۔
دلیل:
فإذا کان فی وتر من صلاتہ لم ینھض حتی یستوي قاعدًا‘‘(صحیح بخاری:۸۲۳)
’’پس جب آپ نماز کی طاق رکعت میں ہوتے تواچھی طرح بیٹھے بغیر نہ اٹھتے تھے۔‘‘

دوسرے سجدے سے آپ جب اٹھتے تو بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھ جاتے حتی کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر آجاتی۔
دلیل:
ثم یسجد ثم یقول: اﷲ أکبر ویرفع رأسہ ویثنی رجلہ الیسری فیقعد علیھا حتی یرجع کل عظم إلی موضعہ (ابوداود:۷۳۰)

اور اس کے علاوہ نبیﷺ کا حکم بھی اسی عمل ہی کا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کو نماز سکھاتے ہوئے فرماتے ہیں:
ثم اسجد حتی تطمئن ساجدا ثم ارفع حتی تطمئن جالسا (صحیح بخاری:۶۲۵۳)
’’ پھر تو سجدہ کر حتی کہ اچھی طرح سجدہ کر لے پھر سر اٹھا حتی کہ اطمینان سے بیٹھ جائے۔‘‘
ملحوظہ:
سجدہ کرتے وقت، سجدے سے سراٹھاتے وقت اور سجدوں کے درمیان رفع یدین کرنا ثابت نہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دوسری رکعت

آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر (دونوں ہاتھ رکھ کر) اعتماد کرتے ہوئے (دوسری رکعت کے لئے) اٹھ کھڑے ہوتے۔
دلیل:
عن أیوب عن أبی قلابۃ قال: جاء نا مالک بن الحویرث فصلی بنا فی مسجدنا ہذا فقال:إنی لأصلی بکم وما أرید الصلاۃ التی أرید أن أریکم کیف رأیت رسول اﷲ یصلی قال أیوب فقلت لأبی قلابۃ:وکیف کانت صلاتہ؟ قال:مثل صلاۃ شیخنا ھذا یعنی: عمرو بن سلمۃ قال أیوب: وکان ذلک الشیخ یتم التکبیر وإذا رفع رأسہ عن السجدۃ الثانیۃ جلس واعتمد علی الارض ثم قام(صحیح بخاری:۸۲۴)
’’ ایوب سے روایت ہے کہ ابی قلابہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس مالک بن حویرث تشریف لائے۔انہوں نے اس مسجد میں ہمیں نماز پڑھائی اور فرمانے لگے کہ میرا ارادہ نماز پڑھنے کا نہیں تھا،لیکن صرف اس خاطر کہ تمہیں دکھاؤں کہ میں نے کس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ایوب کہتے ہیں میں نے ابوقلابہ سے کہا ان(مالک بن حویرث)کی نماز کی کیا حالت تھی۔ ابوقلابہ کہنے لگے ہمارے شیخ عمرو بن سلمہ کی نماز کی طرح ایوب سنتے ہیں وہ شیخ تکبیر مکمل کرتے اور جب دوسرے سجدہ سے سر اٹھاتے تو بیٹھتے اور زمین پر(ہاتھوں کی) ٹیک لگاتے پھر کھڑے ہوتے۔‘‘
ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کا عمل بھی اسی پر تھا۔
ازرق بن قیس سے روایت ہے کہ میں نے (عبداللہ) بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ آپ نماز میں اپنے دونوں ہاتھوں پراعتماد کرکے کھڑے ہوئے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوتے تو الحمدللہ رب العالمین سے قرأت شروع کرتے اور سکتہ نہ کرتے تھے۔
دلیل:
إذا نھض من الرکعۃ الثانیۃ استفتح القراء ۃ بـ {الحمد ﷲ رب العالمین}ولم یسکت(صحیح مسلم:۵۹۹)
سورہ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم کا ذکر گزر چکا۔
’’ فَإذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاْسَتِعْذْ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ ‘‘ (النحل:۹۸) کی رو سے بسم اللہ سے پہلے أعوذ باﷲ من الشیطن الرجیم پڑھنا بھی جائز ہے بلکہ بہتر ہے۔ باقی تفصیل پہلی رکعت کے بیان میں گزر چکی ہے۔
 
Top