• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مفصل طریقہ نماز

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
آخری تشہد میں ہاتھوں کی حالت

دوسری رکعت میں دوسرے سجدے کے بعد (تشہد کے لئے) بیٹھ جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دایاں ہاتھ دائیں گھٹنے پر اور بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھتے تھے۔
دلیل:
إذا قعد فی الصلاۃ …وضع یدہ الیسریٰ علی رکبتہ الیسریٰ ووضع یدہ الیمنی علی فخذہ الیمنی (صحیح مسلم:۵۷۹)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے ترپن کا عدد (یعنی حلقہ) بناتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔ (یعنی اشارہ کرتے ہوئے دعا کرتے)
دلیل:
وعقد ثلاثۃ وخمسین وأشار بالسبابۃ (صحیح مسلم:۵۸۰)

یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ اپنی دونوں رانوں پر رکھتے اور انگوٹھے کو درمیانی انگلی سے ملاتے (یعنی حلقہ بناتے) اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔
دلیل:
وأشار بإصبعہ السبابۃ ووضع إبھامہ علی أصبعہ الوسطی (صحیح مسلم:۵۷۹) لہٰذا دونوں طرح عمل جائز ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دائیں کہنی کو دائیں ران پر رکھتے تھے۔
دلیل:
وحد مرفقہ الأیمن علی فخذہ الیمنی(ابوداود:۷۲۶)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دونوں ذراعیں اپنی رانوں پر رکھتے تھے۔
دلیل:
وضع ذراعیہ علی فخذیہ(نسائی :۱۲۶۵)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد کے لئے بیٹھتے تو شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔
دلیل:
کان إذا قعد فی التشہد … وأشار بالسبابۃ (صحیح مسلم:۵۸۰)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم انگلی اٹھا دیتے اس کے ساتھ تشہد میں دعا کرتے تھے۔
دلیل:
قد حلق الابھام والوسطی،ورفع التي تلیھما یدعو بھا في التشھد(ابن ماجہ:۹۱۲)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت والی انگلی کو تھوڑا ساجھکا دیتے۔
دلیل:
عن نمیر الخزاعي قال:رأیت النبی واضعاً ذراعہ الیمنی علی فخذہ الیمنی رافعا اصبعہ السبابۃ قد حناھا شیئا(ابوداود:۹۹۱)
’’ نمیز خزاعی کہتے ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تشہد میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دائیں بازو کو دائیں ران پر رکھا ہوا تھا او راس ہاتھ کی شہادت والی انگلی کو تھوڑا سا خمیدہ کر کے اٹھایا ہوا تھا۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شہادت والی انگلی کو حرکت(دیتے) رہتے تھے۔
دلیل:
ثم رفعہ اصبعہ فرأیتہ یحرکھا یدعوبھا‘(نسائی:۱۲۶۹)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شہادت کی انگلی کو قبلہ رخ کرتے اور اسی کی طرف دیکھتے رہتے تھے۔
دلیل:
وأشار بأصبعہ التي تلي الإبھام فی القبلۃ ورمی ببصرہ إلیھا أونحوھا ثم قال:ہکذا رأیت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! ’ (نسائی:۱۱۶۱)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں کے بعد والے (یعنی پہلے) تشہد اور چار رکعتوں کے بعد والے (یعنی آخری) تشہد دونوں تشہدوں میں یہ اشارہ کرتے تھے۔
دلیل:
کان رسول اﷲ إذا جلس فی الثنتین أو في الأربع یضع یدیہ علی رکبتیہ ثم أشار بأصبعہ“ (نسائی:۱۱۶۲)
لا الہ پر انگلی اٹھانا اور الاﷲ پررکھ دینا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، بلکہ احادیث کے عموم سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ شروع سے آخر تک حلقہ بنا کر شہادت والی انگلی اٹھائی جائے۔ جیسا کہ ترمذی” اور نسائی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو (تشہد میں) دو انگلیوں سے اشارہ کررہا تھا تو آپ نے فرمایا: ’’أحّد أحّد‘‘ یعنی صرف ایک انگلی سے اشارہ کرو اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ شروع تشہد سے لے کر آخر تک شہادت والی انگلی اٹھائی رکھنی چاہئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں درج ذیل دعا (التحیات) سکھاتے تھے۔
اَلتَّحِیَّاتُ ﷲِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ،اَلسَّلَا مُ عَلَیْکَ–اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اﷲِ وَبَرَکَاتُہُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اﷲِ الصَّالِحِیْنَ، أشْھَدُ أنْ لَّا إلٰہَ إلاَّ اﷲُ وَأَشْھَدُ أنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ(صحیح بخاری:۱۲۰۲)
’’قولی، بدنی اور مالی عبادات صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہیں۔ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر اللہ تعالیٰ کی سلامتی، اس کی رحمت اور برکتیں نازل ہوں اور ہم پر بھی اور اللہ کے دوسرے نیک بندوں پر بھی سلامتی نازل ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم درود پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحمد وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ إبْرَاھِیْمَ إنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ، اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ إبْرَاھِیْمَ إنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ (صحیح بخاری:۳۳۷۰)
’’یااللہ! رحمت نازل فرما محمد پر اور اُن کی آل پر جس طرح تو نے رحمت فرمائی ابراہیم ؑ اور اُن کی آل پر۔ بے شک تو تعریف والا اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! برکت فرما محمد اور ان کی آل پر جس طرح تو نے برکت نازل فرمائی ابراہیم ؑ اور ان کی آل پر۔ بلا شبہ تو تعریف والا اور بزرگی والا ہے۔‘‘
دو رکعتیں مکمل ہوگئیں، اب اگر دو رکعتوں والی نماز (مثلاً صلوٰۃ الفجر) ہے تو دعا پڑھ کر دونوں طرف سلام پھیر دیں اگر تین یا چار رکعتوں والی نماز ہے تو تکبیر کہہ کر کھڑے ہوجائیں۔
پہلے تشہد میں درود پڑھنا انتہائی بہتر اور موجب ثواب ہے، عام دلائل میں قولوا کے ساتھ اس کا حکم آیا ہے کہ ’درود پڑھو‘ اس حکم میں آخری تشہد کی کوئی تخصیص نہیں ہے، تاہم اگر کوئی شخص پہلے تشہد میں درود نہ پڑھے اور صرف التحیات پڑھ کر ہی کھڑا ہوجائے تو یہ بھی جائز ہے جیسا کہ مسند احمد—کی روایت میں ہے کہ عبداللہ بن مسعود نے التحیات (عبدہ ورسولہ تک) سکھا کر فرمایا:’’پھر اگر نماز کے درمیان (یعنی اول تشہد) میں ہو تو (اٹھ) کھڑا ہوجائے۔‘‘ اگر دوسری رکعت پر سلام پھیرا جا رہا ہے تو تورک کرنا بہتر ہے اور نہ کرنا بھی جائز ہے۔

پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتیں پڑھ کر اٹھتے تو (اٹھتے وقت) تکبیر(اللہ اکبر) کہتے۔
دلیل:
ویکبر حین یقوم من الثنتین بعد الجلوس (صحیح بخاری:۷۸۹، ۸۰۳، صحیح مسلم:۸۶۸)

اور رفع یدین کرتے۔
دلیل:
وإذا قام من الرکعتین رفع یدیہ ورفع ذلک ابن عمر إلی النبی(صحیح بخاری:۷۳۹)
’’ ابن عمر جب دو رکعتوں سے اٹھتے تو اپنے دو نوں ہاتھ اٹھاتے آپ نے اس طریقہ کو مرفوعا بیان کیا ہے۔‘‘
تیسری رکعت بھی دوسری رکعت کی طرح پڑھنی چاہئے سوائے یہ کہ تیسری اور چوتھی (آخری دونوں) رکعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہئے اس کے ساتھ کوئی سورت وغیرہ نہیں ملانی چاہئے جیسا کہ ابوقتادہ کی بیان کردہ حدیث سے ثابت ہے۔ (صحیح بخاری:۷۷۶)
اگر تین رکعتوں والی نماز (مثلاً صلوٰۃ المغرب) ہے تو تیسری رکعت مکمل کرنے کے بعد دوسری رکعت کی طرح تشہد اور درود پڑھ لیا جائے اور دعا (جس کا ذکر آگے آرہا ہے) پڑھ کر دونوں طرف سلام پھیر دیا جائے۔ (صحیح بخاری :۱۰۹۲)
اگر چار رکعتوں والی نماز ہے تو پھر دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ کر چوتھی رکعت کے لئے کھڑا ہوجائے۔ ( صحیح بخاری:۸۲۳)

چوتھی رکعت بھی تیسری رکعت کی طرح پڑھے یعنی صرف سورۃ فاتحہ ہی پڑھے تاہم تیسری اور چوتھی رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے علاوہ سورت وغیرہ پڑھنا جائز ہے۔
دلیل:
صحیح مسلم میں سعید خدری سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ
’’کنا نحزر قیام رسول اﷲ فی الظھر والعصر، فحزرنا قیامہ فی الرکعتین الأولیین من الظھر قدر قراء ۃ {الٓمّ تَنْزِیْل} السجدۃ وحزرنا قیامہ فی الاخریین قدر النصف من ذلک وحزرنا قیامہ فی الرکعتین الأولیین من العصر علی قدر قیامہ من الأخریین من الظھر، وفي الأخریین من العصر علی النصف من ذلک‘‘(صحیح مسلم:۴۵۲)
’’ہم ظہر اور عصر کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کا اندازہ لگاتے، ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کااندازہ الم تنزیل السجدہ (تین آیات) جتنا ہوتا اور آخری دو رکعتوں میں آپ کے قیام کے متعلق ہمارا اندازہ اس سورہ سے نصف پر، اسی طرح عصر کی پہلی دو رکعتوں میں ظہر کی آخری دو رکعتوں کے قیام کانصف اور آخری دو رکعتوں میں عصر کی پہلی دو کا نصف۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم چوتھی رکعت میں ’تورک‘ کرتے تھے۔
دلیل:
وإذا جلس فيٍ الرکعۃ الآخرۃ قدم رجلہ الیسری ونصب الأخری وقعد علی مقعدتہ (صحیح بخاری:۸۲۸)
’’ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری رکعت میں بیٹھتے تو بائیں پاؤں کو (دائیں پنڈلی کے نیچے سے) نکال لیتے اور دائیں پاؤں کو کھڑا کر لیتے اور اپنی مقعد پر بیٹھ جاتے۔‘‘
چوتھی رکعت مکمل کرنے کے بعد التحیات اور درود پڑھے جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔
پھر اس کے بعد جو دعا پسند ہو (عربی زبان میں) پڑھ لے۔
دلیل:
آپﷺ نے فرمایا:
ثم لیتخیر من الدعاء أعجبہ إلیہ فیدعو (صحیح بخاری:۸۳۵)

چند دعائیں درج ذیل ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے یا حکم دیتے تھے۔
اَللّٰھُمَّ إنِّیْ أعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ،وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ،وَمِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ،وَمِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ (صحیح بخاری:۱۳۷۷، صحیح مسلم:۵۸۸)
’’یا اللہ! میں تجھ سے قبر کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں اور آگ کے عذاب سے اور موت و حیات کے فتنہ سے اور مسیح دجال کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا کا حکم دیتے تھے۔ (دیکھئے: صحیح مسلم ۵۹۰) لہٰذا یہ دعا تشہد میں ساری دعاؤں سے بہتر ہے طاؤس (تابعی) سے مروی ہے کہ وہ اس دعا کے بغیر نماز کے اعادے کا حکم دیتے تھے۔ (دیکھئے: مسلم: ۵۹۰)
اَللّٰھُمَّ إنِّیْ أعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ وَأعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَفِتْنَۃِ الْمَمَاتِ، اَللّٰھُمَّ إنِّی أعُوْذُبِکَ مِنَ الْمَأثَمِ وَالْمَغْرَمِ (صحیح بخاری: ۸۳۲)
’’یا اللہ! میں تجھ سے قبر کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں۔الٰہی! میں تجھ سے مسیح دجال کے فتنے سے پناہ مانگتا ہوں اور میں تجھ سے موت و حیات کے فتنے سے پناہ مانگتا ہوں اے اللہ! میں تجھ سے گناہوں اور قرض (کے بوجھ) سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘

اَللّٰھُمَّ إنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیْرًا وَلَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إلَّا أنْتَ، فَاغْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ، وَارْحَمْنِیْ إنَّکَ أنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
’’یا اللہ! میں نے اپنی جان پر بہت زیادہ ظلم کیا ہے اور تیرے سوا گناہوں کو بخشنے والا کوئی نہیں لہٰذا تو اپنی جناب سے مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما کیونکہ تو ہی بخشنے والا اور نہایت مہربان ہے۔‘‘(صحیح بخاری:۸۳۴)

اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ مَا قَدَّمْتُ وَمَا أخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ ،وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِہٖ مِنِّیْ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُوَخِّرُ لَا اِلٰہَ إلاَّ أَنْتَ (صحیح مسلم:۷۷۱)
’’ الٰہی میرے اگلے پچھلے،خفیہ اور ظاہر گناہ معاف فرما دے اور جو میں زیادتی کر بیٹھا اور وہ گناہ جن کو تو جانتا ہے معاف فرما دے تو ہی(عزت میں) آگے کرنے والا اور پیچھے ہٹانے والا ہے تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔‘‘

ان کے علاوہ جو دعائیں ثابت ہیں ان کا پڑھنا جائز اور موجب ثواب ہے مثلاً آپﷺ یہ دعا بکثرت پڑھتے تھے۔
اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (صحیح بخاری:۴۵۲۲)
’’اے اللہ! اے ہمارے رب ہماری دنیا وآخرت اچھی بنا دے اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچالے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سلام

دعا کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں اور بائیں سلام پھیر دیتے تھے۔(صحیح مسلم:۵۸۲)

سلام پھیرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گالوں کی سفیدی دائیں بائیں کے مقتدیوں کو نظر آتی اور سلام کے یہ الفاظ ہوتے۔
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ،السلام علیکم ورحمۃ اﷲ
دلیل :
روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:
عن عبداﷲ (قال) أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یسلم عن یمینہ وعن شمالہ حتی یری بیاض خدہ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ،السلام علیکم ورحمۃ اﷲ(ابوداود:۹۹۶)

سلام کے یہ الفاظ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔
دائیں طرف السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ اور بائیں طرف السلام علیکم ورحمۃ اﷲ(ابوداود:۹۹۷)

اگر امام نماز پڑھا رہا ہوتو جب وہ سلام پھیر دے تو سلام پھیرنا چاہئے۔
عتبان بن مالک فرماتے ہیں کہ’’صیلنا مع النبيٍﷺ فسلمنا حین سلم‘‘
’’ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو ہم نے بھی سلام پھیرا۔‘‘ (صحیح بخاری:۸۳۸)

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما پسند کرتے تھے کہ جب امام سلام پھیرلے تو (پھر) مقتدی سلام پھیریں لہٰذا بہتر یہی ہے کہ امام کے دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد ہی مقتدی سلام پھیرے، اگر امام کے ساتھ ساتھ، پیچھے پیچھے بھی سلام پھیر لیا جائے تو جائز ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
رکوع کے بعد قیام میں ہاتھ باندھنا

رکوع کے بعد قیام میں ہاتھ باندھنے چاہئیں یا نہیں اس مسئلے میں صراحت سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے لہٰذا دونوں طرح عمل جائز ہے مگر بہتر یہی ہے کہ قیام میں ہاتھ نہ باندھے جائیں۔امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا گیا کہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے چاہئیں یا چھوڑ دینے چاہئیں تو انہوں نے فرمایا: أرجو أن لا یضیق ذلک إن شاء اﷲ (مسائل احمد روایۃ صالح بن احمد بن حنبل:۶۱۵)
’’مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ اس میں کوئی تنگی نہیں ہے۔‘‘
نوٹ
رکوع کے بعد ہاتھ باندھے جائیں یا کھلے رکھے جائیں اس پر ایک مفصل مضمون عنقریب پوسٹ کیا جائے گا۔ان شاءاللہ (کلیم حیدر)
نوٹ
یہ مضمون ’’ ارسال الیدین بعد الرکوع ‘‘ کے نام سے یہاں پوسٹ کیا گیا ہے
 
Top