غور وفکر اور تدبر:
قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے ۔ اس کلام کی جامعیت کی وجہ سے اس میں بہت ہی گہرے معانی پوشیدہ ہیں۔ اس میں تاریخ ہے، نظام ہائے جاہلیہ ہیں۔ عقائدواحکام ہیں۔خرافی اور ملحد ومشرک کی سوچ، عمل اور ذہنیت کا تذکرہ بھی ہے۔عباد الرحمن جو اولیاء اللہ ہیں ان کی صفات بھی ہیں۔انبیاء وصدیقین اور شہداء وصالحین کی منقبت اورواقعات بھی ہیں۔ ان سب میں اسباق ہیں، عبرتیں ہیں اور تاریخ ہے۔جنہیں پڑھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ تدبر وغورچند امور میں کرنا ہے:
۱۔ اپنی فکری وعملی اصلاح:
ماضی وحال کے افکار وعمل کے مقابلے میں اپنی فکر وعمل کو آباء واجداداور اکابرین کی عقیدت سے ہٹ کر صرف قرآنی تعلیم کی روشنی میں کرنا۔جس کا بہترین نمونہ سنت نبوی نے پیش کردیا ہے۔ اور وقتی مسائل کے حل کے لئے دینی حل پر اپنے تدبر کو مزید پختہ بنانا۔منہج قرآن سے ہٹا ہوا الحادی وغیر دینی تدبر بجائے خود باعث تدبر ہوتا ہے۔
۲۔ تابناک وروشن مستقبل کے لئے تگ ودو :
خرافات جس میں الحاد وشرک بھی شامل ہیں یہی معاشرتی زندگی کے لئے مہلک ثابت ہوئے ہیں۔عقل سلیم ان کا اباء کرتی ہے۔اور الٰہی پیغام کے آگے سرنگوں بھی ہوتی ہے۔روشن وپر امن مستقبل کی قرآن پاک ضمانت دیتا ہے۔پاکیزگی ذہن اور پاکیزگی عمل ہی معاشرے کو پاکیزہ ومنصفانہ بناتے ہیں ۔جس سے مستقبل بھی تابناک ہوتا ہے۔شر کی قوتوں میں یہ خیر وپاکیزگی کہاں؟ کفر، شرک، بے حیائی اور اباحت پسندی کو تو پسند کرتی ہے مگر الہ واحد کی مطلق العنانی کو تسلیم کرنے پر تو بہت سے عباپوش بھی فرعونیت کا روپ دھار لیتے ہیں جو ظلم وجبر کی علامت ہے۔قرآن کریم اس تاریکی میں روشنی کا دیا ضرور جلاتا ہے۔جس سے تاریکی چھٹنے کی امید بر آتی ہے۔
۳۔ عمل اور دعوت:
غور وفکر اور تدبر کودرست راہ پرلانے اور قرآنی اسباق یاد رکھنے کے لئے عمل بھی ضروری ہوگا۔قرآن پاک کی صحیح تلاوت قلوب کفار پر اپنا اثر چھوڑتی ہے اور مومن کو تو اندر سے توڑ پھوڑ کر رب ذوالجلال کے آگے جھکا دیتی ہے۔تعلیم قرآن کے بعدعملی تبدیلی کا مطلب واضح ہوجاتا ہے کہ فکر وعمل کی اٹھان اب دین کی تعلیمات کے مطابق ہونی چاہئے نہ کہ خاندانی، آبائی، عرفی یا معاشرتی اقدار پر۔ یہ بغاوت کی دعوت نہیں بلکہ دین سے بچھرے ہوؤں کو راہ راست پر لانے کی دعوت ہے۔ خود بدلئے! ماحول بدل جائے گا۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم اپنا گھرانہ بچا رہے گا جس کا جواب دہ ہر مسلمان ہے۔دعوت کے لئے انتہائی مناسب طریقے گھر گھر اور مسجد مسجد یا ہر مدرسہ وسکول میں حلقات کا انعقاد، تحفیظ قرآن کے مراکز نیز دین کے بنیادی عقائد ومسائل سے آگاہی پر مشتمل اہل علم کے لیکچرز اور اس میں بیوی بچوں سمیت شرکت کرنا ودل چسپی لینا ہے۔
٭٭٭٭٭
سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کا فرمانا ہے
إِنَّکَ لاَ تَفْقَہُ کُلَّ الْفِقْہِ حَتّٰی تَرَی لِلْقُرآنِ وُجُوہًا۔
تم قرآن کریم کو سمجھ ہی نہیں سکتے جب تک کہ اس کی تمام وجوہ کو نہ دیکھ لو۔
اس لئے علماء نے اس موضوع
الوُجُوہُ وَالنَّظَائِرُ پر کتب لکھی ہیں۔
وجوہ:
جس لفظ کے مختلف معنی ہوں
نظائر:
وہ لفظ جس کے معنی دو جگہوں پرایک جیسے ہوں۔