• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مقاصد شریعت یا تخریب شریعت : شیخ عبدالمعید مدنی حفظہ اللہ (علی گڑھ)

شمولیت
ستمبر 11، 2013
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
مقاصد شریعت یا تخریب شریعت
فضیلۃ الشیخ عبدالمعید مدنی (علی گڑھ)​
حالات کے تغیر وتبدل اوروقت کے الٹ پھیر میں نوع بہ نوع حادثات مشکلات فتنے اورواقعات رونما ہوتے ہیں۔ بسااوقات حالات کی تبدیلی سے ایسے فتنے جنم لیتے ہیں کہ ان کا شرہرطرف پھیل جاتا ہے اوردل ودماغ میں ان کے زہریلے اثرات ٹک جاتے ہیں۔
آج فہم دین کے متعلق اتنا انتشار بپاہے کہ ایسا لگتا ہے مسلم آبادی اس انتشار کے نتیجے میں کہنوتیت اوررہبانیت کا شکاربن گئی ہے یا ضلالت اورمغضوبیت کی لائن پر آکھڑی ہوتی ہے۔
فہم دین کا پیچیدہ قضیہ اپنی جگہ سب سے بڑا مشکل توہے ہی۔ اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نوع بہ نوع کی تعبیرات وتشریحات نے دین پسندوں کو ارتیاب وشک میں مبتلا کررکھا ہے ۔ اورتعبیرات کی اس کثرت نے سرپھرے پن کو اس کثرت سے بڑھاوا دیا ہے کہ ایک ابتشی یعنی ابجدتک کی صلاحیت رکھنے والا خود کو دانشور، داعی ،مفکر، ماہر تعلیم، امت کا نجات دھندہ، غریبوں کا مسیحا سمجھ بیٹھا ہے اوراس سے ایسی مذلوجی حرکتیں سرزدہوتی ہیں کہ ان سے ایک باوقار سنجیدہ انسان کو بھی ہنسی چھوٹ جائے۔
اس پر پیچ قضےئے کے ساتھ مال کا فتنہ بھی اژدہے کی طرح منہ کھولے کھڑا ہے اورکوئی لمحہ ایسا نہیں بیتتا کہ اخلاق ایمان مروت شرافت اورانسانیت سبھی اس کے شکار نہ ہوتے ہوں۔ امت محمدیہ کی اسلامی پوزیشن یہ ہے کہ اس کا ایمان ضمیر پاک ہو، اس کی شخصیت بے داغ اور مضبوط ہو، اس کا ہر ہر نفس اصولوں اورضابطوں کے دائرے میں گذرے۔ وہ انسانوں کے لئے شمع ہدایت بن کررہے، ان کے درد کا مسیحا بن کر ان کی مسیحائی کرے۔ ان کی رہنمائی کرے اورہلاکت کے گڈھے میں گرنے سے انھیں بچائے۔ لیکن اس کی اصلی پوزیشن بگڑگئی ہے گوامت کا ایک گروہ قیامت تک اپنی اصلی پوزیشن پرقائم رہے گا۔ خیرامت کی اصلی پوزیشن کو بگاڑنے میں بہت سے اسباب کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن اگر ان کی فہرست مختصر کی جائے توانھیں دواشیاء کے اندر سمیٹا جاسکتا ہے ۔ جب مال اور حب جاہ۔ رسول کائنات امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما ذئدان جائعان أرسلا فی غنم بأفسدلہا من حرص المرء علی المال والشرف لدینہ. (کعب بن مالک/حدیث ۱۹۳۵ صحیح سنن الترمذی)
مال وجاہ کا ایک حریص انسان جتنا اپنے دین کے لئے تباہ کن ہے اتنا تباہ کن وہ دوبھوکے بھیڑےئے بھی نہیں ہوسکتے ہیں جنھیں بکریوں کے ریوڑپرچھوڑدیا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لکل أمۃ فتنۃ، وفتنۃ أمتی المال (صحیح جامع بیان العلم وفضلہ ۲۷۲، حدیث نمبر ۸۶۸)
ہرامت کے لئے ایک فتنہ ہے اورمیری امت کا فتنہ مال ہے۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایاما: فتح اللہ عزوجل الدینار والدرہم أو الذہب والفضۃ علی قوم الا سفکوا دماء ہم وقطعوا أرحامہم (صحیح جامع بیان العلم وفضلہ ۲۷۲)
جب بھی کسی قوم کو اللہ نے دینار درہم، چاندی سونا عطا کیا اس نے اپنا خون بہایا اوراپنے رشتوں کو قطع کیا۔
ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے فرمایا: اہل علم وفہم نے مال کی مذمت کی ہے۔ اس کی توجیہ یہ ہے کہ جو مال حرام ذرائع سے حاصل کیا گیا ہو،اکتساب مال کے جائز راستے چھوڑکرنظر انداز کردےئے گئے ہوں وہ قابل مذمت ہے۔ اورہروہ مال جس کو جمع کیا گیا اوراس کے حصول میں اطاعت الہی پیش نظرنہیں رہی، مال کی خاطر رب کریم کی نافرمانی ہوئی، غضب الہی اورمعصیت رب کا ارتکاب ہوا، اکتساب اورصرف میں فرائض رب اور حقوق الہی کی ادائیگی نہیں ہوئی وہ مذموم مال ہے، اور بے برکت کمائی ہے۔
اور اگرمال کا حصول جائز ذرائع سے ہوا ہے اوراس سے حقوق اللہ کی ادائیگی بھی ہوگئی ہے رضائے الہی کے حصول کے لئے اسے مختلف مصارف میں خرچ بھی کیا گیا ہو تویہ مال محمود ہے اوراس کا کمانے والا قابل تعریف ہے اوراس کا صرف بھی لائق تعریف ہے۔ اس کی مخالفت جاہل ہی کرسکتا ہے۔ (صحیح جامع بیان العلم وفضلہ: ۲۷۲)
اکتساب زر، اگردینی تعلیمات کے مطابق ہو توقابل تعریف عمل ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے لیکن اگر حب مال اورحب جاہ کی طغیانی بڑھ جائے تووہ دین کے لئے تباہ کن ہے۔
مال وزر اورمنصب کی ہوس کی سب سے مہلک صورت یہ ہے کہ علم اوردین کو بیچ کھایا جائے، یا اس کی تجارت ہونے لگے۔ اورجب علماء علم دین کی تجارت کرنے لگیں وہ بکنے لگیں، یا وہ خود علم ودین کی خریدوفروخت کرنے لگیں توفتنہ بن جاتے ہیں اورمال ان کے لئے بڑا فتنہ بن جاتا ہے۔ اورپھر عالم عالم نہیں رہ جاتاروگ اور مرض بن جاتاہے۔
حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والعلم طبیب ہذہ الأمۃ، والمال داء ہا، فاذا کان یجرالداء الی نفسہ، فکیف یعالج غیرہ (صحیح جامع بیان العلم وفضلہ ۲۷۱)
علم اس امت کا طبیب ہے۔ اورمال اس کی بیماری ہے۔ اگر طبیب اپنے پاس بیماری بٹورنے لگے تودوسروں کا علاج کیسے کرے گا۔
حب جاہ اورحب مال کا اس وقت ایسا خرخشہ پڑگیا ہے کہ فکر ونظر کا چراغ بجھا جارہا ہے۔ تقوی اور دینداری عنقا ہوتی جارہی ہے۔ انسانیت اورمروت کا جنازہ نکلا جارہا ہے۔ دل ویران ، دماغ آماجگاہ شروفساد ، سماج فتنوں کے گھیرے میں ، دانشگاہیں بکاؤمال کی منڈیاں اورعلم وہنر کی نیلام گاہ، علم ودین تجارت کا سامان اورملت اسلامیہ کی لاش پر قائدین کرام تصویر کھنچوانے کے شوقین اوراسے ہردم نیلام کرنے کے لئے تیار۔ جدھردیکھو سرپھروں کی کھیپ کی کھیپ اورعلماء وقائدین کرام اپنی ذات ومفاد کا اشتہاردیتے ہوئے۔ اورذاتی مصالح ومفادات کی دکان لگائے ہوئے ۔ حقائق اور سچائیوں سے منہ موڑے ہوئے۔اکاذیب واراجیف کے سہارے ٹکے ہوئے اوران کمزورسہاروں کی ناپائیداری سے لرزاں پھر بھی کاغذی شیر بنے ہوئے۔ حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کی پرحکمت عبارت کی روشنی میں اگر آج دیکھاجائے تونتیجہ یہی نہ نکلے گا کہ جوامت کے طبیب تھے وہ خود مریض بن چکے ہیں انھیں حب جاہ وحب مال کا روگ لگ گیا ہے اورجس دوا سے وہ لوگوں کا علاج کیا کرتے تھے اسے انہوں نے بیماری کے بدلے بیچ دیا ہے۔ اب ان کے پاس رہا کیا کہ امت اسلامیہ کے عام لوگوں کا علاج کریں۔ وہ خود مریض بنے ہوئے ہیں اورمرض بھی ایسا مزمن ہے کہ بستر مرگ پر ایڑیاں رگڑرہے ہیں۔
حب جاہ اورحب مال کا روگ ایسا پنپ رہا ہے کہ امانت خیانت میں بدل گئی ہے اخلاص کی جگہ ریا کاری نے لے لی ہے مروت کی جگہ ڈھٹائی آگئی ہے۔ رذالت اور سطحیت نے شرافت اورانسانیت کا چولہ پہن لیا ہے ۔ تواضع تکبرسے بدل چکا ہے اورسچائی کے بجائے جھوٹ پروان چڑھ رہی ہے۔ اعتراف گناہ کے بجائے اصرار علی الباطل کا زور ہے۔ توبہ کی توفیق نہیں ملتی تاویل کے بحر ناپیداکنار میں غوطہ زنی کا شوق فراواں ہے۔
مادیت کی طغیانی نے ایمان اقدار دین اور اقدار حیات پرایسا زورباندھاہے کہ لوگ غثاء کغثاء السیل بن گئے ہیں۔ اوررویبضہ قسم کے لوگوں کی فصلیں تیارہورہی ہیں ۔ ہرطرف ادعا جھوٹ تعنت اورمکر کا کاروبار جاری ہے۔
دین وملت کی تجارت زوروں پر ہے۔ جن یہود کی دنیاداری کی قرآن کریم میں مذمت ہوئی ہے۔ شاید امت محمدیہ میں آج کے تجار دین وملت ان سے آگے جاچکے ہیں لتتعبن سنن من کان قبلکم کی ترجمانی کررہے ہیں اورحذوالنعل بالنعل کامنظر پیش کررہے ہیں۔
اس دنیا داری کی ایک شکل اس وقت یہ بھی ہے کہ دنیاداروں ملحدوں اوراعداء اسلام کے افکار ونظریات سے متاثر چھوٹے دل ودماغ کے لوگ اسلام کی نئی تعبیر وتشریح پیش کررہے ہیں۔ اورایسی تعبیرات پیش کرتے ہیں کہ ان سے دین کی نفی ہوجائے ۔ اورملت اسلامیہ کا نام نشان مٹ جائے۔
ان تعبیرات وتشریحات کی ایک خطرناک شکل جو ہمارے سامنے آرہی ہے۔ وہ ’’مقاصد شریعت‘‘ کے عنوان سے آرہی ہے۔ اس عنوان کے تحت شریعت کے ساتھ کھلواڑ کی کوشش ’’المعہد العالی للفکر الاسلامی‘‘ امریکہ کے مسلم دانشوروں نے کی ہے۔ ان دانشوروں کا دائرہ فکر مصر شام اردن ملیشیا وغیرہ تک پھیلا ہوا ہے اورجن لوگوں نے بھی اورجہاں کے لوگوں نے بھی دین وشریعت کوعصرانیت کے سانچے میں ڈھالنے کی دعوت دی ہے وہ سب اس امریکی فکری انجمن سے جڑگئے ہیں۔ ہندوستان کی فقہ اکیڈمی والے جو باہر کے فقہی مجہودات پرجیتے ہیں اورباہر کے اشاروں پر ہیں انہوں نے بھی اس امریکی نژاد مصلحت کواور مقاصد شریعت کی طرف للچائی نظروں سے دیکھنا شروع کردیا ہے اورہندوستان کے موجودہ ماحول میں فقیہان ملت کا کیا ہے انھیں کوئی ذرا بھی کوئی چمتکار دکھلادے اس کے عاشق زار بن کردین وایمان اس کے حوالے کردیتے ہیں۔ ہندی فقہ اکیڈمی والوں نے امریکی نژاد مقاصد شریعت پر شائع پانچ سات کتابوں کا ہندوستانی ایڈیشن چھاپ دیا ہے ہند کے یہ فقیہان حرم ہیں چند لوگوں کا ایک گروہ عقل ونقل دونوں مستور۔
یہ امریکی نژاد مقاصدشریعت کیا بلا ہے ۔ ہندوستان کے دانشور جناب ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی بھی اس بلا میں گرفتار ہیں ان کی بھی ایک کتاب آئی ہے مقاصدشریعت۔ خیر سے یہ امریکی بن گئے ہیں اوراتفاق سے دانشوربھی ہیں اس لئے ان پروجوب عین تھا کہ امریکی نژاد مصالح شریعت کو گلے لگا لیں۔ اورہندوستان میں ایسے تحریکی دانشوروں کی کمی نہیں ہے جو ایسی طاغوتی اورشاذدعوت اورتعبیر کو شاہکار عظیم سمجھیں بلکہ سمجھتے ہیں۔ ایسے بھی بے خبرہیں جویہ کہتے ہیں کہ’’مقاصد شریعت‘‘ جیسی کتاب پوری تاریخ امت میں لکھی ہی نہیں گئی ہے جبکہ کتاب کم علمی خلط مبحث ، شریعت کو کھلواڑ بنانے کی ایک ناروا کوشش ہے۔
مقاصد شریعت کی دہائی اوردین کی مادی تعبیر کی ضرورت کیوں پڑی ۔ اور اس وقت اس پر زورکیوں دیا جاتاہے ۔ دراصل مقاصد شریعت کے نام پر دین کی مادی تعبیر پر زور دینا شتر گربگی کا نتیجہ ہے جو مغربی الحادی افکاراورمادی طرز زندگی سے شدیدتاثر کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ دین پر ان کا یقین متزلزل ہوگیا ہے اور مادی زندگی کی طغیانی انھیں اپنے ساتھ بہالے گئی ہے ۔ ان کا ذہنی شاکلہ بدل چکا ہے یہ ثوابت کو بھی متغیرات میں شمار کرنے کے شائق بن گئے ہیں۔
اگر اس امریکی نژاد مصالح شریعت کو تسلیم کرلیا جائے توپھراسلام میں دنیا کی ہرشے جائز ہوجائے گی اورمصالح کے عنوان کے تحت سارے فیصلے ہونے لگیں گے نصوص دین یعنی کتا ب وسنت کے دلائل کو طاق نسیاں پررکھ دیا جائے گا۔
مصالح شریعت کے تحت تیسیر، رفع حرج، حلب منفعت اور دفع مضرت کے ساتھ، اضطرار حاجت اورمصلحت کے خود ساختہ ہتھیاروں کے ساتھ شریعت پر دھاوا بول دیا گیا ہے۔ اوروہ لوگ جودین کو تحریکیت اورعصرانیت کے رنگ میں دیکھ کر سیاسی بازی کرتے پھرتے تھے۔ آئے دن انقلاب کی دبائی دیتے تھے۔ حکومت الہیہ کے قیام کے لئے طبل حرب بجائے رہتے تھے۔ اب انہوں نے تغیراورانقلاب کا نیا موڑلیا ہے اوربہ زبان حال شورمچانے لگے ہیں کہ چلو لوگ نہیں بدلنا چاہتے ہیں اب ہم ہی بدل جاتے ہیں، اس ترقی معکوس کے مظاہر میں سے ایک اہم مظہر مقاصد شریعت ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ شریعت کی شدھی کرن کرلیا جائے تاکہ مغربی آقاؤں کاتقرب حاصل ہوجائے اوردین ان کی خواہش کے مطابق تبدیلی قبول کرلے۔
تحریکی اتجاہ کے اخوانی اورجماعت اسلامی قائدین دین وملت کی کیا کیا گت بنائیں گے بس دیکھتے رہیے ۔ اب تک انہوں نے قرآن فہمی کے نام پر عوام کے جتھے کو لگارکھاہے کہ اللہ کے کلام کو مشق ستم بنائیں۔ تفسیر بالرائے کی بات توتھی ہی۔ عمود کی تلاش بھی عوام کرتے ہیں اورایسی ناروا کوشش کرتے ہیں جیسے ماء عاکریں کوئی مچھلی کا شکار کرے۔ انہوں نے حدیث کو مسترد کیا، صحابہ کو مسترد کیا۔ دعوت کو سیاست اورتزکیہ کو انقلاب بنادیا الوہیت الہ کو حاکمیت میں بدل دیا۔ پوری اسلامی تاریخ کو مرفوض قرار دیا۔ تشیع، اعتزال، خارجیت، تصوف تقلید، فسادنفاق ہرشے کو قبول کرلیاعلوم اسلامیہ کو مستند ٹھہرالیا۔ اوراب مصلحت شریعت کے نام پر کل فقہی سرمایے کو اپنی بے اصولی اورتشکیک کے نشانے پر رکھ چھوڑاہے۔
دین کی مادی تعبیر کا انجام یہی ہوتاہے۔ انسان جب اسلام کی مادی تعبیر وتشریح کاڈول ڈالتا ہے توپھر کسی حدپر رکتا نہیں ہے۔ پھر وہ اصول اورقانون کے تمام حدود کو پارکرجاتاہے۔ مصالح شریعت کی راگ الاپنے والے۔ اس عنوان کے تحت کیا کارنامے انجام دیتے ہیں۔ وہ غور کرنے کے لائق ہے۔
۔ مصالح شریعت اپنی جگہ مسلم ہیں۔ شریعت کی اخروی مصلحتیں ہیں۔ فطرت سے ہم آہنگ اس کے امتیازات ہیں، کائنات میں تدبر اورتذکرکی مصلحت ہے سنن الہیہ کی مصلحت اورامتیاز ہے، اس کی فردی واجتماعی مصلحت ہے، نظام عمل نظام اسباب اور نظام مکافات کی مصلحتیں ہیں۔ نصوص کی اہمیت ، توقیفیت اورحجیت کی بڑی مصلحت ہے ۔ ہدایت واضلال کی مشیت کوئی مصلحت ہے۔ طاعت واتباع کی اپنی مصلحتیں ہیں۔ تعمیرفرد وسماج کی مصلحتیں ہیں۔
ان تمام مصالح کو نظر انداز کرکے مادی مصلحتوں پرزور دینا، یا نوازل اورنئے پیش آمدہ مسائل کو دینی بنانے یا دین کوان کے مطابق ڈھالنے کی مصلحت طے کرنا اوراجتہادی اصولوں کو نظر اندازکرکے ذہنی کھجلی کومصلحت کانام دینا یا ہواء نفس کو اصول بنانا یہ کہاں کی دینی خدمت ہے؟۔
مصالح شریعت کے نام پر یہ خلط مبحث کرتے ہیں۔ اجتہادی اصولوں اورقاعدوں کو شریعت کے مذکورہ مصالح کے ساتھ گڈمڈ کرکے اصول وفرع آخرت اوردنیا عقائد ونوازل کو ایک سطح پر لانے کی جسارت کرتے ہیں۔ مصالح پرستوں کے سامنے نوازل ہوتے ہیں۔ جن کا حل اجتہادی ضابطوں کے ذریعہ نکالا جانا چاہیے۔ لیکن یہ نہ کرکے مصالح کی دہائی لگاتے ہیں اورتطبیق وتوافق عصرکے نعرے کے تحت پوری شریعت بدل دینا چاہتے ہیں۔
مصالح کی توضیح علامہ عزبن عبدالسلام اورشاطبی وغیرہ نے جس طرح کی ہے اس کی حیثیت اصولی وبنیادی ہے اوراس سے پوری شریعت کا امتیاز نمایاں ہوتاہے لیکن دنیا پرستوں نے ان اصولی تشریحات کو توڑموڑکراپنی مقصد برآری کے لئے استعمال کیاہے۔
اس طرح انہوں نے علل واسباب، مصالح مرسلہ ،ذرائع ، اضطرار حاجت، رفع مشقت اورجلب منفعت کے اصول فقہ کے اصولوں کو کھینچ کھانچ کر اپنے مصالح مادیہ کی بزم میں رونق بڑھانے کے لئے لا بٹھایا۔ نجات اللہ صدیقی نے خاص کریہ کام کیا ہے۔
۔مصالح کی نئی توضیح وتشریح کے ساتھ عصر حاضرمیں ان ’’علاماؤں‘‘ نے اپنی ترجیحات کے مسائل بھی چن لئے ہیں اوردین کی کل تعلیمات اوران کے مطابق فرد وسماج کو ڈھالنے کے بجائے اپنے پسندیدہ مسائل پرعلماء ودانشورحضرات کو اپنی ذہنی توانائی صرف کرنے پرزوردیاہے۔(۱) انسانی عزوشرف (۲) بنیادی آزادیاں(۳) عدل وانصاف (۴) ازالہ غربت وکفالت عامہ (۵) سماجی مساوات اورتقسیم دولت میں ناہمواری کا ازالہ (۶) امن وامان اورنظم ونسق (۷) بین الاقوامی سطح پر باہمی تعامل وتعاون یہ نجات اللہ صدیقی صاحب کے ترجیحی مسائل ہیں۔
انھیں دیکھیں اورفیصلہ فرمائیں کیا نبوت ورسالت کی تعلیمات سے یہ ترجیحی مسائل ہم آہنگ ہیں۔ اورکیا انھیں ترجیحی حیثیت حاصل ہوسکتی ہے۔ کیا یہ نری مادیت نہیں ہے۔ اگردین کی اساس قائم نہ ہوتوکیا یہ مسائل کبھی ذہنی زرخیزی کے دائرے کے باہر نکل سکتے ہیں۔
ان تمام مسائل کو کتاب وسنت نے بوضاحت تفصیل سے بیان کردیا ہے اور اپنی سماجی تعلیمات میں انھیں واضح کردیا ہے ۔ یہ نوازل توہیں نہیں کہ انھیں بحث ونظر کا عنوان بنایا جائے۔ نہ خودساختہ مصالح کے ذریعہ انھیں حل کرنے کی ضرورت ہے اصل میں انھیں عملا سماج میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ حاصل شے کو حاصل کرنے کی بات کی جائے اورصحیح پیمانے کو توڑکر انھیں مادی پیمانے سے ناپنے کی بات کی جائے۔ یہ نادانی ہے یا شریعت کے ساتھ کھلواڑ یا ذہنی خارش اورہواء نفس۔
۔مادی مصالح کا یہ امریکی طائفہ اپنی مقصد برآری کے لئے ایک ناروا کوشش یہ کرتا ہے کہ اقوال مرجوحہ اورآثار مرفوضہ کا سہارا لیتا ہے اوراپنا مدعا ثابت کرتاہے۔ اوریوں فقہ کے ساتھ کھیل کرتا ہے۔
۔نصوص دین کی دلیل اورحجیت کو مشتبہ بنانے کی کوشش کرتا ہے اورتوجیہ ، تاویل ، تشریح، نسخ کے ذریعے ان کے اندرا رتیاب اورشک پیدا کرتاہے۔
۔اضطرار، مصلحت، دفع ضرر، جلب منفعت کی تعمیم ہوتی ہے اورانھیں مطلق قاعدہ کلیہ بناتاجاتاہے اورپھران کے ذریعہ نصوص شریعت میں توڑپھوڑ مچایا جاتاہے ۔ اس طرح اباحیت کا دروازہ کھلتا ہے اس کے نتیجے میں سارے محفوظ دروازے کھل جاتے ہیں۔ سودقمارزنا شراب سب جائز قرار پاتے ہیں۔ پناہ اللہ کی ۔
۔اصل شریعت کی اتباع ہے، شریعت کی تعمیل کے نتیجے میں سارے فردی سماجی عالمی ملکی دنیوی واخروی مصالح حاصل ہونے کے امکانات موجودہوتے ہیں۔اس کی طرف دھیان نہیں ہے بس چندوقتی مسائل ہیں جن کا دباؤ مغربی الحاد سے تاثر کے نتیجے میں بڑھ گیا ہے۔
اتباع شریعت پہلے ہے اورمصالح کا تحقق بعدمیں ہے اوربے حد وحساب ہے لیکن امریکی نژاد مصالح شریعت کی گنگا الٹی بہہ رہی ہے پہلے دین سے مصالح کشیدکیا جاتاہے پھران پر شریعت کوچلانے کی ناروا کوشش ہوتی ہے۔ یا رالٹا ، بات الٹی، کام الٹا۔
۔اللہ کے احکام اوررسول کی تعلیمات وحی الہی کا اعلی درجہ رکھتی ہیں۔ اورمصالح ۲۱صدی کے مادہ پرست لوگوں کی دہائی ہے جن کے پیچھے دلیل کم وہم زیادہ ہے کیا اوہام کی بنیاد پر دین کے اورملت کے مسائل حل کئے جائیں گے۔ کیا ایسا ممکن ہے کیا یہ ایک گھناؤنا جرم نہیں ہے۔
۔مصالح کے نام پر فقہ واصول کے سارے ذخیرے بے وقعت ہوجائیں اورانھیں ذاتی خواہشات کے حصول کے لئے استعمال کیا جائے کیا یہ ایک جرم نہیں ہے۔ اس سنگین جرم کا ارتکاب اس وقت یہ امریکی نژاد طائفہ مصالح کررہا ہے۔
۔سنت کی اہمیت گھٹانے اور پورے سلسلہ علوم حدیث کو مسترد کرنے کی اورمنہج محدثین اوراس کے فوائد اثرات ،نتائج کو صفر بنانے کی بھی اس گروہ نے ناکام کوشش کررکھی ہے۔ اوران کی خطرناک کتابیں اس موضوع پر شائع ہوتی رہتی ہیں۔ غزالی کی فساد انگیز، حدیث اورمحدثین کی حیثیت کو گرانے والی تحریراسی امریکی ادارے سے ہی شائع ہوئی تھی۔
۔قرآن کریم کے مدلولات کو من مانی طے کرنے اوراس سے مادی مصلحت کشیدکرنے کی بھی اس گروہ کی ناروا کوشش اورجسارت ہوتی رہتی ہے۔
اس وقت فتنوں کی بہتات ہے اور ایک سے ایک نت نئے فتنے جاگتے رہتے ہیں ۔ ان فتنوں سے نمٹنے کے لئے بصیرت ہمت اورچوکسی کی ضرورت ہے مگر دکھ اس کا ہے کہ اس وقت ہرطرف ہر فتنہ کو لوگ آغاخوش آمدید کہنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔ ذاتی مصالح نے امت کے علماء وقائدین کو اس طرح پست کردیا ہے کہ شرق وغرب کے سارے مادی مصالح بھی سب کے لئے جلد قابل قبول ہوجاتے ہیں۔
امریکی نژاد مقاصد شریعت کی دہائی دینے والوں کوپہچاننا اوران کے مکروہ عزائم کوناکام بنانا ہماری ذمہ داری ہے۔ علماء وفقہاء کو شدت سے اسے محسوس کرنا چاہیے اوران کی علمی وفقہی تخریب کاریوں کو روکنا ان کے اوپر واجب ہے۔ اگراس کا دفعیہ نہ کیا گیا توایک روگ ملت کو اورلگ جائے گا۔ اورنصوص شریعت کھیل بن جائیں گے۔
ہندوستان میں یہ فتنہ ابھی نہیں پہنچا تھا لیکن نجات اللہ صدیقی کی کتاب مقاصد شریعت نے یہاں بھی اس فتنے کو جگادیا ہے اورفقہ اکیڈمی نے ان امریکی نژاد کرم فرماؤں کی مصلحتی کتابوں کو شائع کردیاہے۔ طبعۃ خاصۃ للہند مبہم پتہ سے درج ذیل کتابیں چھپ اوربٹ رہی ہیں۔
۱۔فقہ المقاصد د۔جاسرعودۃ
۲۔نحو تفعیل مقاصد الشریعۃ د۔ جمال الدین عطیہ
۳۔القواعد الاصولےۃ والفقہیۃ وعلاقتہا بمقاصدا لشریعۃ عبدالرحمن الکیلانی
۴۔ مقاصد الشریعۃ الاسلامےۃ دراسات فی قضایا المنہج ومجالات التطبیق محمد العوا
۵۔ مقاصد الشریعۃ طہ جابر العلوانی
۶۔ المقاصد العامۃ للشریعۃ الاسلامیۃ یوسف العالم
۷۔ مقاصد الشریعۃ الاسلامیۃ ابن عاشور
کیافقہ اکیڈمی والے ان کتابوں کے مشمولات سے اتفاق کریں گے۔ کیا انھیں المعہد العالی للفکر الاسلامی امریکہ اوراس کی سرگرمیوں کی خبرہے اورکیااس سے وابستہ دانشوروں کے نظریات وافکار کی انھیں جانکاری ہے۔کیاانھیں اس ادارے سے وابستہ دانشوروں اور اردن شام قاہرہ ، ملیشیامیں پھیلے اس کے فروع کے متعلق انھیں آگاہی ہے۔
ایک طرف ان کتابوں پر پتہ امریکہ اور اس کے ادارے کے بعض فروع کا ہے اورہندوستان میں بلاپتہ ان کا ہندوستانی ایڈیشن چھپتاہے۔ یہ کیا تماشاہے ۔ خوف اورلالچ ایک ساتھ کیایہی دین کی خدمت ہے۔ اگریہ کتابیں واقعی اہل سنت کے اصولوں کے مطابق ہیں اورمفیدہیں توانھیں چھاپنے میں حجاب کیوں؟ اوراگریہ کتابیں اہل سنت کے اصولوں کے برخلاف ہیں توپھرانھیں چھاپنے کے لئے طمع کیوں؟ کیا ایسی ذہنیت کے حامل ملت کی خدمت کرسکتے ہیں؟یا اس کے مسائل حل کرسکتے ہیں ۔بتلایاجائے کیا یہ نری دکانداری نہیں ہے؟ کیا یہ ملت کے ساتھ وشواس گھات نہیں ہے؟
 
Last edited by a moderator:
Top