• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مقامات حضرت امام حسنؓ

ظہیر احمد

مبتدی
شمولیت
دسمبر 29، 2014
پیغامات
16
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
6
مقامات حضرت امام حسنؓ
نہایت محترم بزرگو اور دوستو ،ماہ محرم پاک جن ہستیوں سے منسوب ہےوہ ہستیاں درحقیقت روحانیت کو تقسیم کرنے والی ہیں ۔جس گھرانےسے روحانیت کا فیض تقسیم ہوا آج اسی گھرانےکی قربانیوں کا ذکر منایا جارہا ہےمعلوم یہ ہوا کہ ذکروفقر جس گھرانے سے چلا وہ صرف اللہ ،اللہ نہیں کرتے رہے بلکہ جب بھی دین پر مشکل وقت آیا ان ہستیوں نے اپنی گردنیں،اپنے سر دین اسلام کی سربلندی کے لیے قربان کر دی۔روحانیت کا فروغ دراصل قربانیوں کے جذبے بیدار کرنے کا نا م ہے۔روحانیت انسان کے اندر وہ جذبہ بیدار کر نے کا نا م ہے جو انسان کی ہستی کو مٹا کر رب العزت کی بارگا ہ میں پیش کردے۔
میں آپ کے سامنےبڑے نواسہ رسولﷺحضرت امام حسن ؓ کی سیرت طیبہ اور شان کے حوالہ سے پانچ نکات پر بات کروں گا۔حضرت امام حسن ؓ اور حضرت امام حسینؓ بدل ہیں حضرت ابراھیم بن محمدﷺ کے۔جب حضرت ابراھیم ؑ،حضورﷺ کی اولاد پاک اس دنیا سے وصال کر گئے تو دکھ سے حضورﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔حضرت عائشہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺاللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا فرئیں تو اللہ تعالیٰ حضرت ابراھیم کو زندگی عطا فرما دیں گے۔تاریخ اس کی گواہ ہے اور قرآن اس کا شاھد ہے کہ ہر نبی کی ایک دعا ضرور قبول ہو تی ہے۔حضورﷺ نے جوارشادفرمایا وہ میرے جیسے گناگار اورآپ جیسے اچھے انسانوں کے لیے رحمتوں،بخششوں اور خوشیوں کا پیغام ہےآپﷺ نے اراشاد فرمایا۔اے عائشہؓ وہ دعا جو قبولیت والی دعا ہے وہ میں نے اپنی امت کے لئے آخرت میں بخشش لے لئے رکھی ہے۔میں اگر آج اپنے بیٹے کی حیات کے لیے دعا ما نگ لوں تو اللہ تعالیٰ حیات فرما دیں گے لیکن میری وہ دعا اس دنیا میں ختم ہو جائے گی۔بالآخر حضرت ابراھیم ؑ نے اس دنیا سے رخصت ہو ناہےلیکن میں اپنی دعا کو اپنی امت کے لیے آخرت تک بچا کر رکھنا چاہتا ہوں جب میری امت مصیبتوں میں گھرِی ہو گی اس وقت میں دعا کر کے اپنی امت کو بخشوا لوں گا۔دوستوجب سے میں نے یہ حدیث مبارکہ پڑھی ہےتو بخشش پر میرا یقین اتنا بڑھ گیا ہے جس طرح دن اور رات کے ہونے پر ہے۔مجھے اپنے اور آپ کی بخشش کا اتنا یقین ہے کہ گناہوں سے توبہ کرتے رہو اللہ تعالیٰ حضورﷺ کے نعلین مقدسہ کے صدقہ میں ہمیں معاف فرما دیں گے۔معافی اس کی ہوگی جو اس کا امیدوار اور خواستگار ہے جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ مجھے معافی ہو جائے گی۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا(حدیث مبارکہ ہے)کہ بندہ سے اسکے ظن اور گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں۔میرا بندہ مجھ سے جس طرح کا گمان رکھتا ہے میں اس گمان کے مطابق معاملہ کر تا ہوںتو ہمارا گمان اپنے رب کے بارے میں بہت خوبصورت ہے کہ ہمارا رب ہمار ے حضور ﷺکی کوئی دُعا رد نہیں کرے گااور ہم سب جنت میں چلے جائیں گے۔
حضورﷺ نے حضرت امام حسن ؓکے بارے میں ارشاد فرمایا :
اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ وَأَحْبِبْ مَنْ يُحِبُّهُ.(مسلم شریف حدیث نمبر؟؟ تحریر کریں)
حدیث مبارک کے دوجزو ہوتے ہیں پہلا جزو سند کہلاتا ہےاور دوسرا جزو یہاں سے قال رسول اللہ ﷺ شروع ہوتا ہے وہ متن کہلاتا ہے۔آپ حدیث کی کسی بھی کتاب کا مطالعہ کریں توآپ دیکھیں گے کہ محدث پہلے سند بیان کرتا ہےاور اس کے بعد متن بیان کرتا ہے۔سند سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کے متن کو اِن اِن لوگوں نے اپنے سینوں میں سجایا ہے۔ان سینوں کی کیا شان اور رتبہ ہےجن سے حضورﷺکے ارشادات گزر کر ہم تک پہنچے ہیں۔
حضرت امام مسلمؓ نے یہ حدیث امام احمد بن حنبلؓ سے روایت کی ہے۔امام حسنؓ اس وقت بچے تھے آپؓ پر ابھی نماز،روزہ ،زکوۃ،حج فرض نہیں ہوئے تھے۔یاد رکھیے کسب کا مرتبہ ریاضت،محنت ،عبادت سے،مجاہدہ سے مرتبہ ملتا ہےوہ اور بات ہےلیکن جو نسب سے مرتبہ ملتا ہےوہ اور بات ہے۔نسب کا مرتبہ کسب،ریاضت،محنت،عبادت،زکوۃ،حج کا مرہون منت نہیں ہوتا۔کیونکہ اس وقت مراقبہ میں سجود،نہ قیام،نہ قیود اور نہ کوئی اور بات حضرت اامام حسنؓ کے پاس تھی اگر اس وقت حضرت امام حسن کے پاس تھا تو وہ ان کا نسب تھا
حضورﷺ ارشاد فرماتے ہیں: (اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ)اے میرے رب میں اپنے نواسے سے محبت کرتا ہوںمیر رب تو بھی اس سے محبت کر۔
اصول تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ امام حسنؓ سے محبت کرتے تو اللہ تعالیٰ فرماتے کہ اے میرے محبوبﷺ میں اس سے محبت کرتا ہوں توبھی اس سے محبت کر۔لیکن یہاں محبت کا چینل بدل گیا اب رسولﷺ حسن سے محبت کر رہے ہے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کررہے ہیںکہ اے میرے رب تو بھی اس سے محبت کر۔اس کا مطلب ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا بندہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت کرتا ہے۔
دوستو یا تو اللہ تعالیٰ کے محبوب بن جاو یا محب بن جاو،کامیابی دونوں صورتوں میں ملے گی۔لیکن محبوب بننا بھی آسان نہیں اور محب بنا بھی آسان نہیں یہ کسی کی نگاہ کرم کے طفیل ہوتا ہے۔
حضورﷺ آگے ارشاد فرمارہے ہیں (وَأَحْبِبْ مَنْ يُحِبُّهُ) یا اللہ تعالیٰ تو اس سے بھی محبت کر جو حضرت حسنؓ سے محبت کرتا ہے۔یعنی محبت کا یہ معاملہ اللہ اور اس کے رسولﷺ تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ حضورﷺ کے امتیوں کی محبت کا مرکز نگاہ بننا چاہیے۔
اللہ کی محبت کو پانے کا کتنا آسان نسخہ ہے۔نہ راتوں کو جاگنا پڑتا ہےبس حسنؓسے محبت اپنے دل میں بسا لو اور اللہ کے محبوب بن جاو۔
اس بات کا انکار کرنے والا یا تو حدیث کا انکار کرے یا پھر متن حدیث کو تسلیم کر لے۔جب حدیث کو پڑھے گا تو ماننا پڑھے گا کہ اللہ کے بندوںسے محبت ،اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کا ذریعہ ہے۔
ہمارے آقا حضورﷺ کی اپنے نواسے سے محبت کا ایک اور منظر ملاحظہ فرمائیں تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ حضورﷺ نےکسی اندرونی طبعی جذبہ کے تحت یہ بات نہیں فرمائی اور نہ ایک مرتبہ بیان فرمائی ہے بلکہ مختلف موقع پر محبت حسنؓکو بیان فرمایا ہے ۔یہ ترمذی شریف کی حدیث ہے پہلی بیان کردہ حدیث سماعت کی حدیث تھی اور یہ مشاہدہ کی حدیث ہے۔
حدثنا محمد بن بشار حدثن محمد بن جعفر حدثنا شعبة عن عدي بن ثابت قال سمعت البراء بن عازب يقول : رأيت النبي صلى الله عليه و سلم واضعا الحسن بن علي على عاتقه وهو يقول اللهم إني أحبه فأحبه (ترمذی شریف 3783)
میں نے دیکھا کہ حضورﷺ کے کندھامبارک پر امام حسنؓ بیٹھے ہوئےہیں۔ذراچشم نظر سے غور فرمائیںتو انسان پر ایک عجیب سی کفیت طاری ہو جاتی ہے کہ حضورﷺ تشریف لارہے ہوںگے اور دوسری طرف حضرت بر ا ابن عازب آرہے ہوں گےاور حضرت اما م حسن خوش خرامیاں کررہے ہوں حضورﷺکے کندھامبارک پر بیٹھے ہوئے جو تمام نسل انسانیت کاسہارا ہے ،تمام مومنوں کا سہارا ہے اس پر حضرت حسنؓ بیٹھے ہوئے ہیں۔
حضرت برا ابن عازب فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضورﷺ کے کندھا مبارک پر حضرت امام حسنؓ ہیں اور حضورﷺ ارشاد فرمارہے ہیں۔یا اللہ میں حسن سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔
حضرت امام حسنؓ میں حضورﷺ کا رنگ نمایاں تھا،فیضان نبوت نمایاں تھا۔نبوت کا فیضان یہ ہےکہ اپنا سب کچھ لٹا دے اور دین مصطفےﷺکو بچا لے۔
بخاری شریف کی حدیث میں حضرت انس ؓ روایت کر تے ہیں۔
حدثني إبراهيم بن موسى أخبرنا هشام بن يوسف عن معمر عن الزهري عن أنس . وقال عبد الرزاق أخبرنا معمر عن الزهري أخبرني أنس قال : لم يكن أحد أشبه بالنبي صلى الله عليه و سلم من الحسن بن علي (بخاری شریف 42)
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ دنیا میںحضرت امام حسنؓ سے زیادہ کوئی بھی حضورؑ سے مشاہبت نہیں رکھتا تھا۔سوائےحضرت امام حسنؓکے،حضورﷺکا ظاہری حسن حضرت امام حسنؓ میںمنتقل ہو گیا تھا اورحضرت امام حسن ؓکا ظاہری حسن ان کی اولاد میں منتقل ہوا اور پھر یہ حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کی صورت میں ظاہر ہوا تویہ سارے کے سارےشبیہ مصطفےٰﷺ تھے ۔
ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں بخاری شریف
- حدثنا عبدان أخبرنا عبد الله قال أخبرني عمر بن سعيد بن أبي حسين عن ابن أبي مليكة عن عقبة بن الحارث قال : رأيت أبا بكر رضي الله عنه وحمل الحسن وهو يقول بأبي شبيه بالنبي ليس شبيه بعلي . وعلي يضحك
ترجمہ عقبہ بن الحارث روایت کرتےہیںکہ میں نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو دیکھا ہ انہوں نے حضرت امام حسن ؓکو اٹھایا ہوا تھا۔حضورﷺ ایک عمل کریں اور حضرت ابوبکرصدیق نہ کریں تویہ محبت تو نہ ہوئی،محبت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ حضورﷺ جیسا عمل اختیار کریں حضرت ابو بکرؓ بھی ویسا ہی طرز عمل اختیار کریں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حضورﷺ تو حضرت امام حسن ؓ کو اپنے کندھوں پر اٹھائیں اورحضرت ابو بکر نہ اٹھائیں ۔حضرت ابن حارث فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو بکرؓکو دیکھا کہ امام کو اٹھائے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے کہ میرے ماں باپ حضرت حسن ؓپر قربان ہو جائیںحضرت امام حسن تو حضورﷺ سے مشاہبت رکھتے ہیں یہ حضرت علیؓ سے مشاہبت نہیں رکھتےاور حضرت علیؓ ساتھ کھڑے ہیں یہ سن ک رمسکرانے لگے۔
ذرا غور فرمائیںکہ کیسے تعلقات ہیں حضرت ابوبکرصدیقؓ کے اہل بیت سے کتنی محبت ہےاب اگر کو ئی یہ کہے کہ حضرت ابوبکرؓکو حسنؓ سے محبت نہیں تھی تو وہ کتنا بڑا جھوٹا ہے۔
جب حضرت امیر معاویہؓ اور حضرت اما م حسنؓ کے درمیان سخت کشیدگی پیدا ہو گئی ،یہ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک بہت حساس اور مشکل باب ہےہم کچھ کہہ بھی نہیں سکتے اور خاموش بھی نہیں رہ سکتے صحابہ رسولﷺ ہونےکی وجہ سےہماری زبانیں بند ہیںلیکن در حقیقت بات یہ کہ جب حضرت امام حسنؓ کی خلافت قائم ہو گئی اور تمام مسلمانوں نے اس کو تسلیم کر لیا اور حضرت امیر معاویہ ؓ نے ان کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا۔حجاز اور سارا عرب حضرت امام حسنؓ کے ساتھ تھا اور شام کوفہ حضرت امیر معاویہؓ کے ساتھ تھاکشید گی کی وجہ سے عین ممکن تھا کہ مسلمانوں کی تلواریں آپس میں ٹکرا جاتیںاور خون کی ندیاں بہہ جاتی اس وقت حالات اس قسم کے تھے کہ ابھی شریعت اسلامیان کی بنیادیں نہیں ہلیں تھی اور اس طرح کا موقع نہیں آیا تھا کہ خروج کیا جائےتو اس وقت حضرت امام حسنؓ نے وسعت قلبی اور فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت امیر معاویہ ؓ کی خلافت کو تسلیم کرلیااور مسلمانوں کے دو گرہوں کو آپس میں ٹکرانے سے بچا لیا۔ہمارے آقاﷺ نے پہلے ہی پیشن گوئی فرما دی تھی
حدیث مبارک نمبر2704کتاب صلح بخاری شریف(ایک حصہ )
وَلَقَدْ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرَةَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ،‏‏‏‏ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ إِلَى جَنْبِهِ،‏‏‏‏ وَهُوَ يُقْبِلُ عَلَى النَّاسِ مَرَّةً وَعَلَيْهِ أُخْرَى،‏‏‏‏ وَيَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ،‏‏‏‏ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ".
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے سنا ہے اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرماتے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا۔
معلوم یہ ہوا کہ دو گرہوں،دو بھائیوں کے درمیان صلح کروانا سنت امام حسنؓ ہے۔امام حسنؓ سے محبت کرنے والو:انہوں نے ساری طاقت مسلمانوں کے درمیان صلح کے لیے صرف کر دی تھی تو اے مسلمانوں تم بھی مسلمانوں کی فلاح کے لیے اپنی تمام قوتیں صرف کر دو۔
جو معاہدہ حضرت امیر معاویہ اور حضر ت امام حسنؓ کے درمیان ہوا وہ چند ایک آپ کے سامنے بیان کر تا ہوں یہ حضرت امام حسنؓ کی عظمت اور شان کا بہت بڑا ثبوت ہےیہ دستاویزی ثبوت ہے کہ آپ نے کتنی وسعت کا ثبوت دیااس معاہدہ کی جب خلاف ورزی ہوئی تو بھی امامؓ نے کوئی بات نہیں کی کہ اس سے پھر مسلمانوں کا خون بہےگا جن کے لیے یہ معاہدہ کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں ان کا نا دنیا میں کوئی نہیں ہو گا لیکن حسن ؓ کا نام ہمیشہ زند ہ ہے گایہ ساری کوشش درحقیقت حضرت امیر معاویہ کی یزیدکی خلافت اور حکومت کو قائم کرنے،مضبوط اور مستحکم کرنےکے لیے تھیں۔معاہدہ کا ایک ایک لفظ امام حسنؓ کی شان اور فراست کو بیان کر رہا ہے۔
معاہدہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ و حضرت معاویہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
یہ وہ تحریر ہے جس کے مطابق حسن بن علی اور معاویہ بن ابی سفیان نے مصالحت کی ہے۔ یہ مصالحت اس بات پر ہوئی ہے کہ حسن بن علی (رضی اللہ عنہ) معاویہ ( رضی اللہ عنہ ) کو مسلمانوں کی ولایت اس شرط پر دیں گے کہ وہ
۱۔کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ ،سیرت خلفائے راشدین مہدیین کے مطابق عمل پیرا ہوں گے۔
۲۔معاویہ کو اس بات کی اجازت نہ ہوگی کہ وہ اپنے بعد کسی کو خلافت دے جائیںبلکہ ان کے بعد یہ معاملہ مسلمانوں کے مشورے سے طے ہوگا۔
۳۔جو لوگ شام، عراق،حجاز ، یمن اور خدا کی زمین میں جہاں بھی ہوں گے امن میں ہوں گے۔
۴۔اصحاب علی جہاں بھی ہوں گے اپنی جانوں ،مالوں ،عورتوں اور اولادوں کے بارے میں محفوظ ہوں گے۔
۵۔معاویہ بن ابی سفیان کو یہ عہد و پیمان بھی کرنا ہوگا کہ وہ حسن بن علی اور ان ے بھائی حسین اور اہل بیت رسول ﷺ میں سے کسی کی بھی خفیہ اور اعلانیہ طور پر تباہی نہیں چاہیں گے اور نہ ہی ان میں سے کسی کو کسی جگہ خوف زدہ کریں گے۔
جب یہ معاہدہ ہو گیا تو حضرت امیر معاویہؓ نے امامؓ سے گزارش کی کہ آپ ؓ باہر لوگوں کے درمیان اس کا اعلان فرمادیںکہ آپ نے امیر معاویہ کی خلافت کو تسلیم کر لیا ہے۔
امام حسن ؓ نے لوگوں کو خطبہ ارشاد کیا فرمایا لوگو سب سے بڑی دانائی تقویٰ اور سب سے بڑی حماقت فسق وفجورہے۔دانائی تقویٰ کے اندر اور حماقت فسق وفجور کے اندر چھپی ہے لوگو دیکھ لو تقویٰ والے کون ہیں اور حماقت والے کون ہیںپھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے میر ےنانا (رسول اللہﷺ) کے ذریعے سے ہدایت د،گمراہی سے بچایا،جہالت سے نجات دی ذلت کے بعد عزت دی،قلت کے بعد کثرت دی۔معاویہ نے مجھے سے حق کے متعلق جھگڑا کیا تھا اور وہ میرا حق ہےیعنی خلافت میرا حق ہےلوگو تم گواہ رہنا لیکن میں معاویہ کو دے رہا ہوںیہ اس کا حق نہیں ہے اور تم لوگوں نے مجھے سے اس شرط پر بیت کی کہ جو مجھ سے صلح کرے گا تم اس سے صلح کرو گے جو مجھ سے جنگ کرے گا تم اس سے جنگ کرو گےلیکن میں نے امت کی بہتری اور فتنہ کوفرو کرنے کی خاطر معاویہ سے مصالحت کو پسند کیااس لیے معاویہ سے مصالحت کرو،فرماتے ہیں کہ اس جنگ کو بھی ختم کرنے کا اعلان کررہاہوں جومیرے اور ان کے درمیان میں ہیں۔اور میں نے ان کی بعیت بھی کر لی اور میں خونریزی کی نسبت خون کی حفاظت کو بہتر خیال کر تا ہوںمیں نے صرف آپ کی فلاح اور بقا چاہی ہےمیں دیکھ رہا ہوں کہ یزید طاقت ور ہو گا اور سارے معاہدے کی خلاف ورزیاں کرے گااور اہل بیت کو تکلیفوں اور مصیبتوں میں مبتلا کرے گامیں دیکھ رہا ہوں کہ اس نے(حضرت امیر معاویہؓ) صلح تو کر لی ہے لیکن یہ عارضی ہوگی۔
حضرت امام حسنؓ وہ پھول اور خوشبو ہیں جسکی خوشبو اس وقت سے چلی آرہی ہے اور پھیلتی ہی چلی جا رہی ہے اور قیامت تک پھیلتی ہی جائے گی یہ وہ خوشبو ہے جس سے عظیم ہستیاں اس نسل سے پیدا ہونگی یعنی وہ عظیم ہستیاں امام حسنؓکی نسل سے پیدا ہونگی میں آپ کو ایک ایسی بات بتاتا ہوں جو ہمارے ایمان کو اور طاقت ور بنا دے گی۔حضرت امام حسنؓجو شبہیہ مصطفیٰﷺہیں جو سیرت مصطفیٰ ﷺ اور صورت مصطفیٰﷺ کا مجموعہ ہیں ان کی نسل بھی انہی صورتوںاور سیرتوں کا حامل رہی ہے حضرت غوث اعظمؓ حضرت امام حسنؓ کی دسویں یا گیارہوں پشت میں سے ہیں(درست پشت تحریر کریں) حضرت غوث اعظمؓ کو حضورﷺ کی نبوت کا شفاعت کا ،حضورﷺ کی ولائت کا فیضان ملا تھا ،حضرت غوث اعظمؓ نے ولائت کے دریا بہا دیے تھےاور یہ سلسلہ چلتے چلتے ہر طرف پھیلتا جا رہا ہے اور قیامت تک پھیلتا چلا جائے گا۔
حضورﷺ کی خوشبو حضورﷺکے نواسےؓکی نسل میں سے ہر ایک پھول سے آتی ہے۔با لآخر ایک ایسا وقت آئے گاجب امت مسلمہ تکلیفوں اور مصیبتوں کی انتہا ہوں میں چلی جائے گی اسلام ایک مرتبہ پھر مشکل صورت حال سے دوچار ہوگاتو حضورﷺ کا یہ قول سنیں
قَالَ أَبُو دَاوُدَ حُدِّثْتُ عَنْ هَارُونَ بْنِ الْمُغِيرَةِ قَالَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِى قَيْسٍ عَنْ شُعَيْبِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِى إِسْحَاقَ قَالَ قَالَ عَلِىٌّ - رضى الله عنه - وَنَظَرَ إِلَى ابْنِهِ الْحَسَنِ فَقَالَ إِنَّ ابْنِى هَذَا سَيِّدٌ كَمَا سَمَّاهُ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- وَسَيَخْرُجُ مِنْ صُلْبِهِ رَجُلٌ يُسَمَّى بِاسْمِ نَبِيِّكُمْ يُشْبِهُهُ فِى الْخُلُقِ وَلاَ يُشْبِهُهُ فِى الْخَلْقِ 4292 -
(مکمل ترجمہ تحریر کریں) حضرت علیؓ نے اپنے بیٹے حضرت امام حسنؓکے چہرے کی طرف نگا فرمائی اور اپنے بیٹے سے فرمانے لگے کہ میرا بیٹا سید ہے جس طرح حضورﷺ نے اس کا نا سید رکھا عنقریب ایسا زمانی آنے والا ہے کہ اس کی صلب میں سے ایک ایسا شخص پیدا ہو گاجس کا نام تمہارے نبیﷺ کے نام پر ہو گاجو حضورﷺ کی خلف سے مشاہبت رکھتا ہو گا اور وہ کون ہو گا وہ امام مہدی ؓہوں گے امام مہدی ؓ امام حسنؓکی اولاد میں سے ہوں گے جو اسلام کو تمام دنیا پر پھیلا دیں گے۔امام مہدی کعبہ کا طواف کر رہے ہوں گےتو لوگ ان کو پہچان لیں گے کہ یہ امام مہدیؓ ہیںکیونکہ لوگوں کو حضورﷺ کی خوشبو محسوس ہو گی ان کی حسنؓکی خوشبو محسوس ہوگی مشاہبت حضورﷺ نظر آئے گی لوگ امام مہدیؓ کے قدموں میں پڑجائیں گے اور امام بنا لیں گیں امام مہدی مسلمانوں کی قیادت کر تے ہوئے تمام دنیاپر چھا جائیں گے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمارا اسلام ان ہستوں تک پہنچائے جو امام مہدیؓ کی فوج میں شامل ہوں ہمارس سلام ان لوگوں تک پہنچے جو امام مہدیؓ کے ساتھ ہوںاور ہمارا سلام امام مہدیؓ تک پہنچے کیونکہ وہ امام حسنؓ کی سیرت کو زندہ کریں گےامام مہدیؓ اپنے جد اعلیٰ حضورﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اسلام کو سربلند کریں گے۔
جماعت خدام اہل سنت چوراشریف بھی امام حسن ؓوحسینؓکی سنت پر عمل کرتے ہوئے اسلام کی سربلند کے لئے کام کر رہی ہے اگرچہ یہ کوششیں بہت ناقص ہیں ناقابل ہیں لیکن اس کے باوجود ہماری یہ کوشش ہے کہ اپنے کام میں لگے رہیں ہو سکتا ہے کہ ہمارا یہ کام قبول ہوجائے ان ہستیوں کی نقل اتارتے ہوئےیہ عمل قبول ہو جائے۔والسلام
 

ظہیر احمد

مبتدی
شمولیت
دسمبر 29، 2014
پیغامات
16
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
6
یٰاَیَّھاَالنَّاسُ قََدْ جَائَ کُمْ بُرْ ھَا نُ مِّنْ رَّ بِِّکُمْ وَ اَ نْزَ لْنَا اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا
النساء (174)
اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے قوی دلیل آگئی اور ہم نے تمہاری طرف ہدایت دینے والا نور نازل کیا ہے۔
آیت میں فرمایا گیا ہے کہ تمہارے پاس بر ہان یعنی قوی دلیل آگئی ہے۔ اِس سے مراد سیدنا حضرت محمدﷺ کی ذات گرامی ہے اور یہ فرمایا ہے کہ تمہاری طرف نور مبین نازل کیاگیا ہے۔اِس سے مراد قرآن کریم ہے ۔
سیدنا حضرت محمدﷺ کو بر ہان فرمانے ہیں یہ اشارہ ہے کہ آپﷺ کو اپنی نبوت اور رسالت کو منوانے کیلئے کسی الگ اور خارجی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ آپ کا وجود ِمسعوداور ذات گرامی بجائے خود آپﷺ کی نبوت اور رسالت پر دلیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے نبیوں اور رسولوں نے اپنی نبوت اور رسالت پر خارجی معجزات پیش کئے اور آپﷺ نے اپنی نبوت اور رسالت پر اپنی زندگی پیش کی۔
قرآن مجید میں ہے۔
فَََقَدْ لَبِِثْتُ فِیْکُمْ عُمْرًامِنْ قَبْلِہٖ اَ فََلَا تَعْقِلُوْنَ (یونس:16)
میں تم میں اس(نزول قرآن) سے پہلے اپنی عمر کا ایک حصہ گزار چکا ہوں کیا تم نہیں سمجھتے۔
حضرت خدیجہ الکبٰری ؓ،حضرت ابوبکر صدیقؓ،حضرت علی ؓاور حضرت زید بن حارث ؓیہ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ہیں۔اوریہ سب بغیر کسی معجزہ کے ایمان لائے تھے ۔ ان کیلئے یہی دلیل کافی تھی کہ انہوں نے آپﷺ کی زندگی کو دیکھا تھا۔اور حضور ﷺ کی زندگی ہی آپﷺ کے دعویٰ نبوت پر بہت قوی دلیل تھی۔
نبی کریم ﷺکا نام مبارک’’ محمد اور احمد ؐ‘‘ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں سے نازل فرمایا ھے۔ آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ ؓ فرماتی ہیں
جب چھ ماہ گزر گئے تو خواب میں کوئی آنے والا آیا اور اُس نے کہا
اِ نَّکَ حملت بخیر العالمیین فاذا ولدۃ فسمیہ محمد
(مواہب لدنیہ جلد: 1صفحہ 124)
یعنی اے آمنہ ؓ ! تیرے شکم پاک میں وہ ہے کہ سارے جہانوں سے افضل وا علیٰ ہے ۔ جب اس کی ولادت ہو تو اسکا نام محمد ﷺ رکھیں۔
نیز شفاء قاضی عیاض میںہے کہ رسول کریم ؐ فرماتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں میرا نام محمد اور احمدﷺ رکھا ہے۔
قرآن مجید میں سورۃ الصف آیت نمبر06میں آپ ﷺکے بارے میں حضرت عیسیٰؑ کی پیش گوئی اور اسم احمد کا ذکر ہے۔جبکہ سورۃ الفتح آیت نمبر29،سورۃ الاحزاب آیت نمبر40،سورۃمحمد آیت نمبر02، اور سورۃ آل عمران آیت نمبر 144میںآپ ﷺ کے اسم مبارک ’’محمدﷺ‘‘ کا ذکر ہے۔
آئیے اب آپ ﷺکے اسم گرامی کے معنی جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
لفظ محمد، حمد سے مشق ہے اور حمد کا معنی ہے مدح ،تعریف،سراہنا۔ لہذامحمد کے معنی ہوئے وہ ذات جس کی مدح و تعریف کی جائے۔ جبکہ محمد مبالغہ کا صیغہ ہے۔(مبالغہ یعنی ایسا کام جو بڑھا چڑھا کر ضرورت سے زیاد ہ کیا جائے)اور مبالغہ مطلق اس بات کا متقاضی ہے کہ اِس (محمدﷺ)کی بار بار اور بہت زیادہ تعریف کی جائے ۔ اور تعریف کے لائق وہ ہوتا ہے جس میں کوئی عیب یا کوئی نقص نہ ہو۔
مثال کے طور پر ایک موبائل فون ہے ۔کوئی شخص کہے یہ نہایت خوبصورت ہے، پائیدار اور مضبوط ہے اور بنانے والی کمپنی بھی مشہور و معروف اور ذمہ دار ہے۔نیز یہ موبائل فون ہر حیثیت سے بے مثال اور لاجواب ہے۔ سننے والے کو فوراً اعتبار آجائے گا ۔کہ واقعی یہ موبائل فون تعریف کے لائق ہے ۔لیکن کہنے والا اگر اِسکی تعریف کرتے کرتے یوںکہہ دے کہ یہ موبائل ہے تو ہر حیثیت سے لاجواب مگر اُسکی آواز صاف نہیں ہے ،آواز میں خلل آجاتا ہے تو صرف اس ایک عیب کی وجہ سے وہ موبائل فون تعریف کے قابل نہیں رہے گا ۔ پس جس ذات والا صفات کا نام مبارک اللہ تعالیٰ محمد ﷺ (تعریف کیا گیا)نازل کرے وہ ذات یقیناً ایسی ہو گی جس میں کوئی عیب ،کوئی نقص نہ ہو۔کیونکہ وہ محمد ہیں صلی اللہ علیہ وسلم۔ اور جس میں معمولی سا بھی عیب ہو وہ محمد نہیں ہو سکتا ۔
اب آگے چلیے کہ کسی چیز کا علم نہ ہوناجہالت کہلاتا ہے۔اور جہالت عیب ہے۔ اور جس کو کسی چیز کا اختیار نہ ہو یہ مجبوری ہے اورمجبوری عیب ہے۔ اور جس میں عیب ہو وہ محمد (تعریف کیا گیا )نہیں ہو سکتا ۔اللہ تعا لیٰ جو بالذات ہر عیب و نقص سے پاک ہے اُس نے اپنے حبیب حضور نبی کریم ﷺ کو محمد بنا کر بھیجا ہے تو اُن میں عیب و نقص کیو نکر ہو سکتا ہے۔ اور آپ ﷺ کا کلمہ پڑھنے والے اگر یوں کہیں کہ رسول ﷺ کو فلاں چیز کا علم نہیں تھا ۔ وہ کسی چیز کے مختارنہیں اور رسول ﷺ کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا تو گویا ایسا کہنے والے آپ ﷺ کو محمد نہیں مان رہے ۔اور اُن کا ایمان کیسے مکمل ہوسکتا ہے۔
ہاں ہاں بشر میں عیب ہو سکتے ہیں۔ محمد ﷺ میں نہیں ہوسکتے لیکن رحمت عالم نبی کریم ﷺ بشر بعد میں بنے۔ محمدﷺ پہلے تھے۔ بشریت کا سلسہ تو اُس وقت سے چلا جب اِس دنیا ء آب وگل میںآپ ﷺکا ظہورفرمایا۔
اور اللہ تعالیٰ نے نور مصطفیٰ ﷺ کو نام محمد پہلے ہی عطا فرمادیا تھا۔
صحابہ کرام ؓ بھی نبی کریم روف الرحیم ﷺ کو بے عیب مانتے تھے چنانچہ سید نا حضرت حسان بن ثابت ؓ عرض کرتے ہیں ۔
خَلَقْتَ مبراً مِنْ کُلِّ عیب
کانک قد خلقت کما تشاء
یعنی یا رسول اللہ ﷺ آپ ہر عیب سے پاک پیدا کیے گئے ہیں ۔ گویا جیسے کہ آپ چاہتے تھے خالق کائنات نے آپ کو ویسا ہی پیدا کیا ہے۔
یہاں ایک مثال سے سمجھنے کی کو شش کریں۔ ایک کاریگر نے بہت سی اچھی اچھی چیزیں بنائیں بعد میں اُس نے اپنے فن کے اظہار کیلئے اپنی کاریگری کا ایک شاہکار نمونہ بنا کر چوراہے پر رکھ دیا تاکہ لوگ آئیں اور اِس شاہکار کو دیکھیں۔ چنانچہ اِس کاریگری کے مداح(Fans) یعنی اُسکی اپنی پارٹی کے لوگ آتے گئے اور دیکھ دیکھ حیران و قربان ہوتے گئے واہ واہ کیا عجیب چیز بنائی ہے اِس میں یہ بھی خوبی ہے یہ بھی کمال ہے الغرض کمال ہی کمال ہے ،حسن ہی حسن ہے کسی طرف سے کوئی نقص نہیں اور کاریگر کو مبارک بادیاں دیتے رہے ۔ پھر کچھ وہ لوگ بھی آئے جو مخالف پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے دیکھا تو بولے بھئی!چیز تو اچھی بنائی ہے مگر یہاں سے ٹھیک نہیں بنی دیکھو ،یہاں یوں نہیں ،یہاں یوں نہیں وغیرہ۔ حقیقت میں وہ اُس چیز میں عیب نہیں لگارہے بلکہ کاریگرکی کاریگری میں عیب لگارہے ہیں ۔اور جو کاریگر کی پارٹی والے ہیں ۔وہ دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں۔ اُس چیز کی تعریف کر رہے ہیں ۔ تو حقیقت میں اُس چیز کی تعریف نہیں کر رہے بلکہ وہ کاریگر کی تعر یفیں کر رہے ہیں کیونکہ اس چیز میں اسکا اپنا تو کوئی کمال نہیں تھابلکہ اس میں کمال آیا تو کاریگر کی کاریگری کی وجہ سے آیا ۔ بلکہ وہ کمال سارے کا سارا ہے ہی اس کاریگر کا۔
یوں ہی اللہ تعالیٰ نے رنگا رنگ کی مخلوق بنائی ،ولی بنائے،ابدال بنائے،اوتاد بنائے، قطب بنائے،امام بنائے ، غوث بنائے،صحابی بنائے، نبی بنائے ،رسول بنائے ،الوالعزم پیغبر بنائے (جن سے نادانستہ خطائیں بھی ہوئیں) اوربعد میں ایک شا ہکارِ قدرت بناکر بھیجا جس میں ہر حیثیت سے خو بیاں ہی خوبیاں ہیں ۔ اُس میں کسی قسم کا کوئی سقم یا عیب نہیں رہنے دیا ۔ کیونکہ یہ شاہکارِ قدرت ہے۔ قدرت کا نمونہ ہے اب اِس بنانے والے کی پارٹی کے لوگ ’’اولئک حزب‘‘ اللہ آئے۔ صدیق اکبر ؓ آئے ،فاروق اعظم ؓ آ ئے، ذوالنوینِؓ آئے، حیدر کرارؓ آئے ۔انہوںنے دیکھا تو سبحان اللہ سبحان اللہ انکی زبانوں پر جاری ہو گیا۔ واہ و اہ اس شاہکارِ قدرت میں کیسے کیسے کمالات اور کیسی کیسی خو بیاں ہیں ۔ یونہی غوث اعظم آئے،امام اعظم آئے، داتا گنج بخش علی ہجوری آئے،خواجہ غر یب نواز آ ئے،خواجہ فرید الد ین گنج شکر آ ئے ، بہائو الحق ملتانی آ ئے ، سیدی شاہ نقشبند آ ئے،امام مجددالف ثانی آ ئے،خواجہ نور محمد باواجی سرکارآئے،شیر ربانی آئے،سرکار گولڑوی آئے، سعید بادشاہ آئے، صوفی مسعود الحسن شاہ آ ئے اور اِس شاہکارِ قدرت کو دیکھ دیکھ کر قربان ہی ہوئے چلے گئے انہیں کوئی عیب و نقص نظر نہیں آیا۔یقینایہی لوگ تاقیامت امت مسلمہ کے آسمان پر درخشاں ستاروں کی طرح دمکتے رہیں گے۔پھر اُن لوگوں نے بھی دیکھا جو کسی دوسری پارٹی کے تھے دیکھ کر بولے۔ہیں تو اللہ کے نبی مگر ان کو دیوار کے پیچھے کا بھی علم نہیں ۔ ہیں تو اللہ کے رسول مگر یہ کسی چیز کے مختار نہیں۔ان کے چاہنے سے کچھ نہیں ہو سکتا ۔یہ تو آخر ہم جیسے بشر ہی تو ہیں ۔دیکھو یہ کھاتے پیتے بھی ہیں بلکہ ان میں تو سارے عوارضات بشر یہ بھی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ تو دراصل یہ لوگ اِس شاہکار ِقدرت میں عیب نہیں لگارہے بلکہ یہ بنانے والے کی قدرت کے ہی منکر ہیں۔
فانھم لا یکذ بو نک و لکنِ الظلمین بایات اﷲیجحدون
(قرآن مجید)
مجبوب یہ تجھے نہیں جھٹلا رہے بلکہ یہ ظالم لوگ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے ہی منکرہیں۔
ذرا سوچئے تو سہی جس کو اللہ رب العزت ہر نقص اور ہر عیب سے ،ہر خامی سے پا ک بنائے ،جس کے سر پر اللہ تعالیٰ شفاعت کا تاج سجائے ،جس کو رحمتہ للعا لمین کی خلعت سے نوازے، جس کو مقام محمود کی نوید سنائے، جس کو نبیوں ،رسولوں سے اور ملائکہ کرام سے اونچے سے اونچا کرکے سب کا سردار بنائے۔ جن کی شفا عت سے روز ِ قیامت ہزاروں نہیں لاکھوں ،لاکھوں نہیں کروڑوں ،اربوں،کھربوں کو مصیبتوں سے چھٹکار املے ۔ ایسے شاہکارِ قدرت میں عیب جوئی کر نا کہاں کی عقل مندی ہے۔یہ تو سراسر حماقت اوربے و قوفی ہے۔
اب آئیے عوارضات بشریہ کی طرف ! ہم عام انسان کھانے پینے کے محتاج ہیں ۔ اور یہ واقعی محتاجی ہے۔ مگر حبیب خدا ﷺ کھا نے پینے کے محتاج نہیں تھے احادیث مبارکہ میں آتا ہے کہ سرکار دوعالم ﷺ نے کئی دن تک نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ بلکہ وصال کے روز ے رکھتے تھے ۔(روزہ رکھا مگر افطاری کے وقت روزہ افطار نہ کیا۔رات بھر نہ کچھ کھایا نہ پیا۔دوسرے دن پھر روزہ ۔یوں ہی کئی دن تک روزہ رکھا۔)اور آپ ﷺ کو کچھ بھی نہ ہوا ۔ نہ کمزوری نہ نقاہت وغیرہ۔ کیونکہ وہ کھانے پینے کے محتاج نہیں تھے۔ اور جب صحابہ کرام ؓ نے دیکھا تو انہوں نے وصال کے روزے رکھنا شروع کر دئیے ۔ چند دنوں کے بعد صحابہ کرام ؓ کمزور ہوگئے۔ سرکار مدینہ ﷺ نے پوچھا اے میرے صحابہ تم کیوں کمزور ہوگئے۔ یہ سن کر عرض کی حضور ﷺ چونکہ آپ نے وصال کے روزے رکھے ہیں ۔ہم نے بھی وصال کے روزے رکھنے شروع کر دئیے ہیں یہ سن کر رحمت للعالمین ﷺ نے فرمایا ایکم مثلی یعنی تم میں سے میری مثل کون ہو سکتا ہے؟
ایک روایت میں فرمایا ــ ــــــــــــــلست کاحد کم میں تم میں سے کسی جیسا نہیں ہوں۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ کے نبی ﷺ کھانے پینے کے محتاج نہیں تھے تو کھا یا پیا کیوں؟ ہاں امت کے والی ﷺ نے کھایا پیا ۔ مگر محتاجی کی وجہ سے نہیں بلکہ امت کو کھانے پینے کا طریقہ بتانے کیلئے۔اگر نہ کھاتے پیتے تو ہمیں کیسے پتہ چلتا کہ کھانے پینے میں یہ باتیں سنت ہیں۔ یہ واجب ہیں۔ یہ مکروہ ہیں اور یہ حرام ہیں۔کھانے پینے کے ان آداب اور اصول و ضوابط سے یہ امت محروم رہ جاتی جن کی بدولت مدینے میں آکر بسنے والا حکیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگیا کہ اِس شہر میں کوئی بیمار ہی نہیں ہوتا۔ وہی لا زوال اصول و ضوابط جو آج کی میڈیکل سائنس کی بنیاد ہیں۔اور اسلام جو انسان کی ہر پہلو سے راہنمائی کادعوایدار ہے۔انسانی زندگی کایہ پہلو بالکل تشنہ اور نامکمل رہ جاتا
وماینطق عن الھٰو ی ان ھو الاّ وحیّ یوحیٰ
میرے عزیز غور کریں بس یا ریل گاڑی پر یا جہاز پر سواریاں سوار ہوتی ہیں اور ڈرائیور پا ئلٹ وغیرہ بھی سوار ہوتے ہیں ۔ لیکن دونوں کے سوار ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سواریاں منزلِ مقصود تک پہنچنے کیلئے سوار ہوتی ہیں ۔لیکن ڈرائیو یا پائلٹ مقامِ مقصود پر پہنچانے کیلئے سوار ہیں ۔ اگر پہنچانے والے میں عیب یا نقص ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کامیابی کی کون ضحانت دے سکتا ہے۔
سیرت النبی ﷺ کا مطالعہ کریں جب آپ ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی تو سرکار دو عالم ﷺ ناف بریدہ پیدا ہوئے تھے اور جب ولادت کے بعد عورتوں نے سرکار دوعالم ﷺ کو غسل دینے کاارادہ کیا تو آواز آئی غسل دینے کی ضرورت نہیں اِسکی وجہ بھی یہی تھی آپ ﷺ اپنی ماں کے شکم پاک میں بھی کھانے پینے کے محتاج نہیں تھے لہذٰا اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو ناف بریدہ پیدا فرماکر ثابت کر دیا کہ یہ واقعیٰ محمد ﷺ ہیں ۔اور غسل دینے سے اِس لیے منع کیا گیا کہ غسل اس بچے کو دیا جاتا ہے جس کے گسم پر غلاظت ہو ۔اور غلاظت عیب ہے۔سرکار دو عالم کا خون مبارک ،آپ ﷺ کے فضلات مبارکہ پاک ہیں۔اور ہمہ وقت آپ ﷺ کے جسم اطہرے خوشبو مہکتی رہتی تھی۔نیز سرکار مدینہ حبیب خداﷺ کے جسم انور پر نجس مکھی نہیں بیٹھتی تھی ۔اور جوئیں نہیں پڑتی تھیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اَس مبارک نام اور اَس نام والے نبیوں کے نبی، رسولوں کے امام ﷺ کا ادب واحترام اور تعظیم کرنے کی تو فیق عطا کرے اور اگر مگر کے چکرسے بچائے آ مین
مندرجہ ذیل احادیث سے اندازہ کریں کہ یہ نام نامی اسم گرامی محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے دربار میں کتنا معزز،کتنا محترم،کتنا معظم اور کتنا مکرم ہے۔
سیدنا ابو امامہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے
’’ جس کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور اس نے میری محبت کی وجہ سے اور میرے نام کی برکت حاصل کرنے کے لئے بچے کا نام محمد رکھا تو وہ دونوں باپ اور بیٹا جنت میں جائیں گے‘‘
مولیٰ علی شیر خدا ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔
’’جب تم بچے کانام محمد رکھو توپھر اس کی عزت کرو اور اس کیلئے جگہ فراخ کردو۔ اسکی قباحت و برائی مت کرو‘‘
علامہ حلبی فر ماتے ہیں ۔
’’کچھ فرشتے اللہ تعالیٰ کے ایسے ہیں۔جو زمین پر چکر لگاتے رہتے ہیں۔ان کی ڈیوٹی یہ ہے کہ جس گھر میں کوئی محمد نام والا ہواُ سکا پہرہ دیں۔‘‘
حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں ۔اگر عمل میں کمی رہ جائے تو بخشش کی امید ہے مگر عقیدے میں نقص واقع ہو جائے تو بخشش کی امید نہیں ہو سکتی۔ (مکتوب نمبر 17 سوم دفتر)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
@خضر حیات بھائی! ظہیر صاحب نے غیر متعلقہ تحریریں پوسٹ کی ہیں، لہذا یہاں سے کسی اور سیکشن میں منتقل کی جائیں اور چیک کی جائیں کہ منہج سلف کے مطابق ہیں یا نہیں؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
مقامات حضرت امام حسنؓ
نہایت محترم بزرگو اور دوستو ،ماہ محرم پاک جن ہستیوں سے منسوب ہےوہ ہستیاں درحقیقت روحانیت کو تقسیم کرنے والی ہیں ۔جس گھرانےسے روحانیت کا فیض تقسیم ہوا آج اسی گھرانےکی قربانیوں کا ذکر منایا جارہا ہےمعلوم یہ ہوا کہ ذکروفقر جس گھرانے سے چلا وہ صرف اللہ ،اللہ نہیں کرتے رہے بلکہ جب بھی دین پر مشکل وقت آیا ان ہستیوں نے اپنی گردنیں،اپنے سر دین اسلام کی سربلندی کے لیے قربان کر دی۔روحانیت کا فروغ دراصل قربانیوں کے جذبے بیدار کرنے کا نا م ہے۔روحانیت انسان کے اندر وہ جذبہ بیدار کر نے کا نا م ہے جو انسان کی ہستی کو مٹا کر رب العزت کی بارگا ہ میں پیش کردے۔
میں آپ کے سامنےبڑے نواسہ رسولﷺحضرت امام حسن ؓ کی سیرت طیبہ اور شان کے حوالہ سے پانچ نکات پر بات کروں گا۔حضرت امام حسن ؓ اور حضرت امام حسینؓ بدل ہیں حضرت ابراھیم بن محمدﷺ کے۔جب حضرت ابراھیم ؑ،حضورﷺ کی اولاد پاک اس دنیا سے وصال کر گئے تو دکھ سے حضورﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔حضرت عائشہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺاللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا فرئیں تو اللہ تعالیٰ حضرت ابراھیم کو زندگی عطا فرما دیں گے۔تاریخ اس کی گواہ ہے اور قرآن اس کا شاھد ہے کہ ہر نبی کی ایک دعا ضرور قبول ہو تی ہے۔حضورﷺ نے جوارشادفرمایا وہ میرے جیسے گناگار اورآپ جیسے اچھے انسانوں کے لیے رحمتوں،بخششوں اور خوشیوں کا پیغام ہےآپﷺ نے اراشاد فرمایا۔اے عائشہؓ وہ دعا جو قبولیت والی دعا ہے وہ میں نے اپنی امت کے لئے آخرت میں بخشش لے لئے رکھی ہے۔میں اگر آج اپنے بیٹے کی حیات کے لیے دعا ما نگ لوں تو اللہ تعالیٰ حیات فرما دیں گے لیکن میری وہ دعا اس دنیا میں ختم ہو جائے گی۔بالآخر حضرت ابراھیم ؑ نے اس دنیا سے رخصت ہو ناہےلیکن میں اپنی دعا کو اپنی امت کے لیے آخرت تک بچا کر رکھنا چاہتا ہوں جب میری امت مصیبتوں میں گھرِی ہو گی اس وقت میں دعا کر کے اپنی امت کو بخشوا لوں گا۔دوستوجب سے میں نے یہ حدیث مبارکہ پڑھی ہےتو بخشش پر میرا یقین اتنا بڑھ گیا ہے جس طرح دن اور رات کے ہونے پر ہے۔مجھے اپنے اور آپ کی بخشش کا اتنا یقین ہے کہ گناہوں سے توبہ کرتے رہو اللہ تعالیٰ حضورﷺ کے نعلین مقدسہ کے صدقہ میں ہمیں معاف فرما دیں گے۔معافی اس کی ہوگی جو اس کا امیدوار اور خواستگار ہے جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ مجھے معافی ہو جائے گی۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا(حدیث مبارکہ ہے)کہ بندہ سے اسکے ظن اور گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں۔میرا بندہ مجھ سے جس طرح کا گمان رکھتا ہے میں اس گمان کے مطابق معاملہ کر تا ہوںتو ہمارا گمان اپنے رب کے بارے میں بہت خوبصورت ہے کہ ہمارا رب ہمار ے حضور ﷺکی کوئی دُعا رد نہیں کرے گااور ہم سب جنت میں چلے جائیں گے۔
حضورﷺ نے حضرت امام حسن ؓکے بارے میں ارشاد فرمایا :
اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ وَأَحْبِبْ مَنْ يُحِبُّهُ.(مسلم شریف حدیث نمبر؟؟ تحریر کریں)
حدیث مبارک کے دوجزو ہوتے ہیں پہلا جزو سند کہلاتا ہےاور دوسرا جزو یہاں سے قال رسول اللہ ﷺ شروع ہوتا ہے وہ متن کہلاتا ہے۔آپ حدیث کی کسی بھی کتاب کا مطالعہ کریں توآپ دیکھیں گے کہ محدث پہلے سند بیان کرتا ہےاور اس کے بعد متن بیان کرتا ہے۔سند سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کے متن کو اِن اِن لوگوں نے اپنے سینوں میں سجایا ہے۔ان سینوں کی کیا شان اور رتبہ ہےجن سے حضورﷺکے ارشادات گزر کر ہم تک پہنچے ہیں۔
حضرت امام مسلمؓ نے یہ حدیث امام احمد بن حنبلؓ سے روایت کی ہے۔امام حسنؓ اس وقت بچے تھے آپؓ پر ابھی نماز،روزہ ،زکوۃ،حج فرض نہیں ہوئے تھے۔یاد رکھیے کسب کا مرتبہ ریاضت،محنت ،عبادت سے،مجاہدہ سے مرتبہ ملتا ہےوہ اور بات ہےلیکن جو نسب سے مرتبہ ملتا ہےوہ اور بات ہے۔نسب کا مرتبہ کسب،ریاضت،محنت،عبادت،زکوۃ،حج کا مرہون منت نہیں ہوتا۔کیونکہ اس وقت مراقبہ میں سجود،نہ قیام،نہ قیود اور نہ کوئی اور بات حضرت اامام حسنؓ کے پاس تھی اگر اس وقت حضرت امام حسن کے پاس تھا تو وہ ان کا نسب تھا
حضورﷺ ارشاد فرماتے ہیں: (اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ)اے میرے رب میں اپنے نواسے سے محبت کرتا ہوںمیر رب تو بھی اس سے محبت کر۔
اصول تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ امام حسنؓ سے محبت کرتے تو اللہ تعالیٰ فرماتے کہ اے میرے محبوبﷺ میں اس سے محبت کرتا ہوں توبھی اس سے محبت کر۔لیکن یہاں محبت کا چینل بدل گیا اب رسولﷺ حسن سے محبت کر رہے ہے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کررہے ہیںکہ اے میرے رب تو بھی اس سے محبت کر۔اس کا مطلب ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا بندہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت کرتا ہے۔
دوستو یا تو اللہ تعالیٰ کے محبوب بن جاو یا محب بن جاو،کامیابی دونوں صورتوں میں ملے گی۔لیکن محبوب بننا بھی آسان نہیں اور محب بنا بھی آسان نہیں یہ کسی کی نگاہ کرم کے طفیل ہوتا ہے۔
حضورﷺ آگے ارشاد فرمارہے ہیں (وَأَحْبِبْ مَنْ يُحِبُّهُ) یا اللہ تعالیٰ تو اس سے بھی محبت کر جو حضرت حسنؓ سے محبت کرتا ہے۔یعنی محبت کا یہ معاملہ اللہ اور اس کے رسولﷺ تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ حضورﷺ کے امتیوں کی محبت کا مرکز نگاہ بننا چاہیے۔
اللہ کی محبت کو پانے کا کتنا آسان نسخہ ہے۔نہ راتوں کو جاگنا پڑتا ہےبس حسنؓسے محبت اپنے دل میں بسا لو اور اللہ کے محبوب بن جاو۔
اس بات کا انکار کرنے والا یا تو حدیث کا انکار کرے یا پھر متن حدیث کو تسلیم کر لے۔جب حدیث کو پڑھے گا تو ماننا پڑھے گا کہ اللہ کے بندوںسے محبت ،اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کا ذریعہ ہے۔
ہمارے آقا حضورﷺ کی اپنے نواسے سے محبت کا ایک اور منظر ملاحظہ فرمائیں تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ حضورﷺ نےکسی اندرونی طبعی جذبہ کے تحت یہ بات نہیں فرمائی اور نہ ایک مرتبہ بیان فرمائی ہے بلکہ مختلف موقع پر محبت حسنؓکو بیان فرمایا ہے ۔یہ ترمذی شریف کی حدیث ہے پہلی بیان کردہ حدیث سماعت کی حدیث تھی اور یہ مشاہدہ کی حدیث ہے۔
حدثنا محمد بن بشار حدثن محمد بن جعفر حدثنا شعبة عن عدي بن ثابت قال سمعت البراء بن عازب يقول : رأيت النبي صلى الله عليه و سلم واضعا الحسن بن علي على عاتقه وهو يقول اللهم إني أحبه فأحبه (ترمذی شریف 3783)
میں نے دیکھا کہ حضورﷺ کے کندھامبارک پر امام حسنؓ بیٹھے ہوئےہیں۔ذراچشم نظر سے غور فرمائیںتو انسان پر ایک عجیب سی کفیت طاری ہو جاتی ہے کہ حضورﷺ تشریف لارہے ہوںگے اور دوسری طرف حضرت بر ا ابن عازب آرہے ہوں گےاور حضرت اما م حسن خوش خرامیاں کررہے ہوں حضورﷺکے کندھامبارک پر بیٹھے ہوئے جو تمام نسل انسانیت کاسہارا ہے ،تمام مومنوں کا سہارا ہے اس پر حضرت حسنؓ بیٹھے ہوئے ہیں۔
حضرت برا ابن عازب فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضورﷺ کے کندھا مبارک پر حضرت امام حسنؓ ہیں اور حضورﷺ ارشاد فرمارہے ہیں۔یا اللہ میں حسن سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔
حضرت امام حسنؓ میں حضورﷺ کا رنگ نمایاں تھا،فیضان نبوت نمایاں تھا۔نبوت کا فیضان یہ ہےکہ اپنا سب کچھ لٹا دے اور دین مصطفےﷺکو بچا لے۔
بخاری شریف کی حدیث میں حضرت انس ؓ روایت کر تے ہیں۔
حدثني إبراهيم بن موسى أخبرنا هشام بن يوسف عن معمر عن الزهري عن أنس . وقال عبد الرزاق أخبرنا معمر عن الزهري أخبرني أنس قال : لم يكن أحد أشبه بالنبي صلى الله عليه و سلم من الحسن بن علي (بخاری شریف 42)
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ دنیا میںحضرت امام حسنؓ سے زیادہ کوئی بھی حضورؑ سے مشاہبت نہیں رکھتا تھا۔سوائےحضرت امام حسنؓکے،حضورﷺکا ظاہری حسن حضرت امام حسنؓ میںمنتقل ہو گیا تھا اورحضرت امام حسن ؓکا ظاہری حسن ان کی اولاد میں منتقل ہوا اور پھر یہ حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کی صورت میں ظاہر ہوا تویہ سارے کے سارےشبیہ مصطفےٰﷺ تھے ۔
ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں بخاری شریف
- حدثنا عبدان أخبرنا عبد الله قال أخبرني عمر بن سعيد بن أبي حسين عن ابن أبي مليكة عن عقبة بن الحارث قال : رأيت أبا بكر رضي الله عنه وحمل الحسن وهو يقول بأبي شبيه بالنبي ليس شبيه بعلي . وعلي يضحك
ترجمہ عقبہ بن الحارث روایت کرتےہیںکہ میں نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو دیکھا ہ انہوں نے حضرت امام حسن ؓکو اٹھایا ہوا تھا۔حضورﷺ ایک عمل کریں اور حضرت ابوبکرصدیق نہ کریں تویہ محبت تو نہ ہوئی،محبت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ حضورﷺ جیسا عمل اختیار کریں حضرت ابو بکرؓ بھی ویسا ہی طرز عمل اختیار کریں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حضورﷺ تو حضرت امام حسن ؓ کو اپنے کندھوں پر اٹھائیں اورحضرت ابو بکر نہ اٹھائیں ۔حضرت ابن حارث فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو بکرؓکو دیکھا کہ امام کو اٹھائے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے کہ میرے ماں باپ حضرت حسن ؓپر قربان ہو جائیںحضرت امام حسن تو حضورﷺ سے مشاہبت رکھتے ہیں یہ حضرت علیؓ سے مشاہبت نہیں رکھتےاور حضرت علیؓ ساتھ کھڑے ہیں یہ سن ک رمسکرانے لگے۔
ذرا غور فرمائیںکہ کیسے تعلقات ہیں حضرت ابوبکرصدیقؓ کے اہل بیت سے کتنی محبت ہےاب اگر کو ئی یہ کہے کہ حضرت ابوبکرؓکو حسنؓ سے محبت نہیں تھی تو وہ کتنا بڑا جھوٹا ہے۔
جب حضرت امیر معاویہؓ اور حضرت اما م حسنؓ کے درمیان سخت کشیدگی پیدا ہو گئی ،یہ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک بہت حساس اور مشکل باب ہےہم کچھ کہہ بھی نہیں سکتے اور خاموش بھی نہیں رہ سکتے صحابہ رسولﷺ ہونےکی وجہ سےہماری زبانیں بند ہیںلیکن در حقیقت بات یہ کہ جب حضرت امام حسنؓ کی خلافت قائم ہو گئی اور تمام مسلمانوں نے اس کو تسلیم کر لیا اور حضرت امیر معاویہ ؓ نے ان کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا۔حجاز اور سارا عرب حضرت امام حسنؓ کے ساتھ تھا اور شام کوفہ حضرت امیر معاویہؓ کے ساتھ تھاکشید گی کی وجہ سے عین ممکن تھا کہ مسلمانوں کی تلواریں آپس میں ٹکرا جاتیںاور خون کی ندیاں بہہ جاتی اس وقت حالات اس قسم کے تھے کہ ابھی شریعت اسلامیان کی بنیادیں نہیں ہلیں تھی اور اس طرح کا موقع نہیں آیا تھا کہ خروج کیا جائےتو اس وقت حضرت امام حسنؓ نے وسعت قلبی اور فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت امیر معاویہ ؓ کی خلافت کو تسلیم کرلیااور مسلمانوں کے دو گرہوں کو آپس میں ٹکرانے سے بچا لیا۔ہمارے آقاﷺ نے پہلے ہی پیشن گوئی فرما دی تھی
حدیث مبارک نمبر2704کتاب صلح بخاری شریف(ایک حصہ )
وَلَقَدْ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرَةَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ،‏‏‏‏ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ إِلَى جَنْبِهِ،‏‏‏‏ وَهُوَ يُقْبِلُ عَلَى النَّاسِ مَرَّةً وَعَلَيْهِ أُخْرَى،‏‏‏‏ وَيَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ،‏‏‏‏ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ".
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے سنا ہے اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرماتے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا۔
معلوم یہ ہوا کہ دو گرہوں،دو بھائیوں کے درمیان صلح کروانا سنت امام حسنؓ ہے۔امام حسنؓ سے محبت کرنے والو:انہوں نے ساری طاقت مسلمانوں کے درمیان صلح کے لیے صرف کر دی تھی تو اے مسلمانوں تم بھی مسلمانوں کی فلاح کے لیے اپنی تمام قوتیں صرف کر دو۔
جو معاہدہ حضرت امیر معاویہ اور حضر ت امام حسنؓ کے درمیان ہوا وہ چند ایک آپ کے سامنے بیان کر تا ہوں یہ حضرت امام حسنؓ کی عظمت اور شان کا بہت بڑا ثبوت ہےیہ دستاویزی ثبوت ہے کہ آپ نے کتنی وسعت کا ثبوت دیااس معاہدہ کی جب خلاف ورزی ہوئی تو بھی امامؓ نے کوئی بات نہیں کی کہ اس سے پھر مسلمانوں کا خون بہےگا جن کے لیے یہ معاہدہ کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں ان کا نا دنیا میں کوئی نہیں ہو گا لیکن حسن ؓ کا نام ہمیشہ زند ہ ہے گایہ ساری کوشش درحقیقت حضرت امیر معاویہ کی یزیدکی خلافت اور حکومت کو قائم کرنے،مضبوط اور مستحکم کرنےکے لیے تھیں۔معاہدہ کا ایک ایک لفظ امام حسنؓ کی شان اور فراست کو بیان کر رہا ہے۔
معاہدہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ و حضرت معاویہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
یہ وہ تحریر ہے جس کے مطابق حسن بن علی اور معاویہ بن ابی سفیان نے مصالحت کی ہے۔ یہ مصالحت اس بات پر ہوئی ہے کہ حسن بن علی (رضی اللہ عنہ) معاویہ ( رضی اللہ عنہ ) کو مسلمانوں کی ولایت اس شرط پر دیں گے کہ وہ
۱۔کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ ،سیرت خلفائے راشدین مہدیین کے مطابق عمل پیرا ہوں گے۔
۲۔معاویہ کو اس بات کی اجازت نہ ہوگی کہ وہ اپنے بعد کسی کو خلافت دے جائیںبلکہ ان کے بعد یہ معاملہ مسلمانوں کے مشورے سے طے ہوگا۔
۳۔جو لوگ شام، عراق،حجاز ، یمن اور خدا کی زمین میں جہاں بھی ہوں گے امن میں ہوں گے۔
۴۔اصحاب علی جہاں بھی ہوں گے اپنی جانوں ،مالوں ،عورتوں اور اولادوں کے بارے میں محفوظ ہوں گے۔
۵۔معاویہ بن ابی سفیان کو یہ عہد و پیمان بھی کرنا ہوگا کہ وہ حسن بن علی اور ان ے بھائی حسین اور اہل بیت رسول ﷺ میں سے کسی کی بھی خفیہ اور اعلانیہ طور پر تباہی نہیں چاہیں گے اور نہ ہی ان میں سے کسی کو کسی جگہ خوف زدہ کریں گے۔
جب یہ معاہدہ ہو گیا تو حضرت امیر معاویہؓ نے امامؓ سے گزارش کی کہ آپ ؓ باہر لوگوں کے درمیان اس کا اعلان فرمادیںکہ آپ نے امیر معاویہ کی خلافت کو تسلیم کر لیا ہے۔
امام حسن ؓ نے لوگوں کو خطبہ ارشاد کیا فرمایا لوگو سب سے بڑی دانائی تقویٰ اور سب سے بڑی حماقت فسق وفجورہے۔دانائی تقویٰ کے اندر اور حماقت فسق وفجور کے اندر چھپی ہے لوگو دیکھ لو تقویٰ والے کون ہیں اور حماقت والے کون ہیںپھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے میر ےنانا (رسول اللہﷺ) کے ذریعے سے ہدایت د،گمراہی سے بچایا،جہالت سے نجات دی ذلت کے بعد عزت دی،قلت کے بعد کثرت دی۔معاویہ نے مجھے سے حق کے متعلق جھگڑا کیا تھا اور وہ میرا حق ہےیعنی خلافت میرا حق ہےلوگو تم گواہ رہنا لیکن میں معاویہ کو دے رہا ہوںیہ اس کا حق نہیں ہے اور تم لوگوں نے مجھے سے اس شرط پر بیت کی کہ جو مجھ سے صلح کرے گا تم اس سے صلح کرو گے جو مجھ سے جنگ کرے گا تم اس سے جنگ کرو گےلیکن میں نے امت کی بہتری اور فتنہ کوفرو کرنے کی خاطر معاویہ سے مصالحت کو پسند کیااس لیے معاویہ سے مصالحت کرو،فرماتے ہیں کہ اس جنگ کو بھی ختم کرنے کا اعلان کررہاہوں جومیرے اور ان کے درمیان میں ہیں۔اور میں نے ان کی بعیت بھی کر لی اور میں خونریزی کی نسبت خون کی حفاظت کو بہتر خیال کر تا ہوںمیں نے صرف آپ کی فلاح اور بقا چاہی ہےمیں دیکھ رہا ہوں کہ یزید طاقت ور ہو گا اور سارے معاہدے کی خلاف ورزیاں کرے گااور اہل بیت کو تکلیفوں اور مصیبتوں میں مبتلا کرے گامیں دیکھ رہا ہوں کہ اس نے(حضرت امیر معاویہؓ) صلح تو کر لی ہے لیکن یہ عارضی ہوگی۔
حضرت امام حسنؓ وہ پھول اور خوشبو ہیں جسکی خوشبو اس وقت سے چلی آرہی ہے اور پھیلتی ہی چلی جا رہی ہے اور قیامت تک پھیلتی ہی جائے گی یہ وہ خوشبو ہے جس سے عظیم ہستیاں اس نسل سے پیدا ہونگی یعنی وہ عظیم ہستیاں امام حسنؓکی نسل سے پیدا ہونگی میں آپ کو ایک ایسی بات بتاتا ہوں جو ہمارے ایمان کو اور طاقت ور بنا دے گی۔حضرت امام حسنؓجو شبہیہ مصطفیٰﷺہیں جو سیرت مصطفیٰ ﷺ اور صورت مصطفیٰﷺ کا مجموعہ ہیں ان کی نسل بھی انہی صورتوںاور سیرتوں کا حامل رہی ہے حضرت غوث اعظمؓ حضرت امام حسنؓ کی دسویں یا گیارہوں پشت میں سے ہیں(درست پشت تحریر کریں) حضرت غوث اعظمؓ کو حضورﷺ کی نبوت کا شفاعت کا ،حضورﷺ کی ولائت کا فیضان ملا تھا ،حضرت غوث اعظمؓ نے ولائت کے دریا بہا دیے تھےاور یہ سلسلہ چلتے چلتے ہر طرف پھیلتا جا رہا ہے اور قیامت تک پھیلتا چلا جائے گا۔
حضورﷺ کی خوشبو حضورﷺکے نواسےؓکی نسل میں سے ہر ایک پھول سے آتی ہے۔با لآخر ایک ایسا وقت آئے گاجب امت مسلمہ تکلیفوں اور مصیبتوں کی انتہا ہوں میں چلی جائے گی اسلام ایک مرتبہ پھر مشکل صورت حال سے دوچار ہوگاتو حضورﷺ کا یہ قول سنیں
قَالَ أَبُو دَاوُدَ حُدِّثْتُ عَنْ هَارُونَ بْنِ الْمُغِيرَةِ قَالَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِى قَيْسٍ عَنْ شُعَيْبِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِى إِسْحَاقَ قَالَ قَالَ عَلِىٌّ - رضى الله عنه - وَنَظَرَ إِلَى ابْنِهِ الْحَسَنِ فَقَالَ إِنَّ ابْنِى هَذَا سَيِّدٌ كَمَا سَمَّاهُ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- وَسَيَخْرُجُ مِنْ صُلْبِهِ رَجُلٌ يُسَمَّى بِاسْمِ نَبِيِّكُمْ يُشْبِهُهُ فِى الْخُلُقِ وَلاَ يُشْبِهُهُ فِى الْخَلْقِ 4292 -
(مکمل ترجمہ تحریر کریں) حضرت علیؓ نے اپنے بیٹے حضرت امام حسنؓکے چہرے کی طرف نگا فرمائی اور اپنے بیٹے سے فرمانے لگے کہ میرا بیٹا سید ہے جس طرح حضورﷺ نے اس کا نا سید رکھا عنقریب ایسا زمانی آنے والا ہے کہ اس کی صلب میں سے ایک ایسا شخص پیدا ہو گاجس کا نام تمہارے نبیﷺ کے نام پر ہو گاجو حضورﷺ کی خلف سے مشاہبت رکھتا ہو گا اور وہ کون ہو گا وہ امام مہدی ؓہوں گے امام مہدی ؓ امام حسنؓکی اولاد میں سے ہوں گے جو اسلام کو تمام دنیا پر پھیلا دیں گے۔امام مہدی کعبہ کا طواف کر رہے ہوں گےتو لوگ ان کو پہچان لیں گے کہ یہ امام مہدیؓ ہیںکیونکہ لوگوں کو حضورﷺ کی خوشبو محسوس ہو گی ان کی حسنؓکی خوشبو محسوس ہوگی مشاہبت حضورﷺ نظر آئے گی لوگ امام مہدیؓ کے قدموں میں پڑجائیں گے اور امام بنا لیں گیں امام مہدی مسلمانوں کی قیادت کر تے ہوئے تمام دنیاپر چھا جائیں گے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمارا اسلام ان ہستوں تک پہنچائے جو امام مہدیؓ کی فوج میں شامل ہوں ہمارس سلام ان لوگوں تک پہنچے جو امام مہدیؓ کے ساتھ ہوںاور ہمارا سلام امام مہدیؓ تک پہنچے کیونکہ وہ امام حسنؓ کی سیرت کو زندہ کریں گےامام مہدیؓ اپنے جد اعلیٰ حضورﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اسلام کو سربلند کریں گے۔
جماعت خدام اہل سنت چوراشریف بھی امام حسن ؓوحسینؓکی سنت پر عمل کرتے ہوئے اسلام کی سربلند کے لئے کام کر رہی ہے اگرچہ یہ کوششیں بہت ناقص ہیں ناقابل ہیں لیکن اس کے باوجود ہماری یہ کوشش ہے کہ اپنے کام میں لگے رہیں ہو سکتا ہے کہ ہمارا یہ کام قبول ہوجائے ان ہستیوں کی نقل اتارتے ہوئےیہ عمل قبول ہو جائے۔والسلام
برادر ! پہلی بات تو یہ کہ آپ نے اپنی درج بالا پوسٹس غلط زمرہ میں لگادیں ۔
اور دوسری بات یہ کہ اس آخری پوسٹ میں بغیر دلیل و حوالہ کئی باتیں درج کردیں ۔
معاہدہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ و حضرت معاویہ
میں آپ نے سیدنا حسن کے الفاظ یوں نقل کئے :
جن کے لیے یہ معاہدہ کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں ان کا نا دنیا میں کوئی نہیں ہو گا لیکن حسن ؓ کا نام ہمیشہ زند ہ ہے گایہ ساری کوشش درحقیقت حضرت امیر معاویہ کی یزیدکی خلافت اور حکومت کو قائم کرنے،مضبوط اور مستحکم کرنےکے لیے تھیں۔
پہلی بات تو یہ کہ معاہدہ کے یہ الفاظ کس مصدر و ماخذسے لئے گئے ،آپ نے بتایا نہیں ۔
دوسری بات یہ کہ آپ نے سید نا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ذمہ معاہدے کی خلاف ورزی اور یزید کےلئے سازشیں کرنے کا الزام لگادیا ۔
حالانکہ یہ بے بنیاد و من گھڑت الزام محض رفض کی حاشیہ نشینی ہے۔
اس کے بعد آپ نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے خطبے کے یہ الفاظ لکھے ،کہ انہوں نے فرمایا :
معاویہ نے مجھے سے حق کے متعلق جھگڑا کیا تھا اور وہ میرا حق ہےیعنی خلافت میرا حق ہےلوگو تم گواہ رہنا لیکن میں معاویہ کو دے رہا
ایک تو اس کا مصدر بتائیں ۔۔ثانیاً ، آپ کی تحریر میں یہ تیسرا مقام ہے ، جہاں صرف ۔معاویہ ۔ کو’‘ الترضی ’‘ کے بغیر ذکر کیا گیا ہے ،
اس کی وجہ ؟

پھر آپ لکھتے ہیں :
حضرت غوث اعظمؓ کو حضورﷺ کی نبوت کا شفاعت کا ،حضورﷺ کی ولائت کا فیضان ملا تھا ،حضرت غوث اعظمؓ نے ولائت کے دریا بہا دیے تھے
جناب شیخ عبد القادر ؒ کو آپ نے ’‘ غوث اعظمؓ ’‘ بنادیا ۔۔لیکن ’‘منصب غوث ’‘ پر متمکن ہونے کی دلیل نہیں بتائی ؟
اور غور نہیں فرمایا کہ ،،اگر چھٹی صدی کا بزرگ ’‘حضورﷺ کی ولائت کا فیضان ’‘ سے عظیم مشکل کشا ہوسکتا ہے ۔
تو خود سید المرسلین ﷺ کا جگر گوشہ ’‘ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ ’‘مشکل کشا ئی کے منصب کا اہل کیوں نہیں ؟
اور اپنی قائم شدہ خلافت کو بھی مجبور ہو کر بقول آپ کے ’‘ جو حکومت کے مستحق ہی نہیں ’‘ ان کے سپرد کرنے مجبور ہے ؟
کیا سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو ’‘حضورﷺ کی ولائت کا فیضان ’‘ایک حنبلی عالم ؒ جتنا بھی نہ مل سکا ؟

جوابی پوسٹ میں ان سب باتوں کے مستند حوالے ضرور بتائیں ۔شکریہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
@خضر حیات بھائی! ظہیر صاحب نے غیر متعلقہ تحریریں پوسٹ کی ہیں، لہذا یہاں سے کسی اور سیکشن میں منتقل کی جائیں اور چیک کی جائیں کہ منہج سلف کے مطابق ہیں یا نہیں؟
جی ’’ معلومات محدث فورم ‘‘ سے یہ مراسلے یہاں منتقل کیے جاچکے ہیں ۔
 
Top