• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مقتدیوں کا بعض قرآنی آیات کا جواب دینا

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
بعض جگہوں پہ مقتدی قرآن کی بعض آیات کا جواب دیتے ہیں ، اور بعض جگہ یہ عمل نہیں پایا جاتا ہے ۔ اس وجہ سے لوگوں میں یہ بات جاننے کی فکر ہے کہ صحیح کیا ہے ؟ قرآنی آیات کا جواب دیا جائے گا یا نہیں دیا جائے گا؟

آئیے ان آیات کی طرف چلتے ہیں جن کا نماز میں بعض جگہوں پہ جواب دیا جاتا ہے ۔

(1) اس مسئلہ میں کسی کا اختلاف نہیں کہ جب امام "غیرالمغضوب علیہم ولاالضالین" کہے تو مقتدی آمین کہے ۔ اختلاف آہستہ اور زور سے کہنے میں ہے ۔ دلائل سے زور سے آمین کہنا ثابت ہے ۔ دلیل :
عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ أن رسول اللہ ﷺ قال إذا أمن الإمام فأمنوا، فانہ من وافق تأمینہ تأمین الملائکۃ غفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔ (صحیح بخاری مع الفتح 2 / 262)
ترجمہ : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، اس لئے کہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں، اور جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے، تو اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔

وضاحت : اس حدیث پہ امام بخاری نے باب قائم کیا ہے" باب جھر الإمام بالتأمین "یعنی یہ باب ہے امام کے آمین بالجہر کہنے کا ۔اس حدیث سے پتہ چلا کہ جب امام زور سے آمین کہے گا تو مقتدی اسے سن کے وہ بھی زور سے آمین کہے گا۔

(2) رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنتَ مَوْلاَنَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ۔[البقرة:286]
جب امام قرآن کی اس آیت کی تلاوت کرتے ہیں تو بعض لوگ آمین کہتے ہیں ۔ مگر کسی حدیث سے یہاں مقتدی کا آمین کہنا ثابت نہیں ہے ، اس لئے یہاں آمین نہیں کہا جائے گا۔

(3) فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُون (مرسلات :50) سورہ مرسلات کی آخری آیت پہ "آمنا باللہ" کہنے سے متعلق حدیث وارد ہے مگر وہ ضعیف ہے۔ روایت اس طرح ہے ۔
مَن قَرأَ منكُم ( وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ ) فانتَهَى إلى آخرِها ( أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ ) فليقل بلى وأَنا على ذلِكَ منَ الشَّاهدينَ ومن قرأَ ( لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ ) فانتَهَى إلى ( أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى ) فليقُلْ بلَى ومَن قرأَ ( والْمُرْسَلاتِ ) فبلغَ ( فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ ) فليقُل آمنَّا باللَّهِ۔
ترجمہ: تم میں سے جو "وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ" پڑھے اور اس آیت پہ پہنچے "أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ" تو وہ کہے"بلى وأَنا على ذلِكَ منَ الشَّاهدينَ" ۔ اور جو"لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ" کی تلاوت کرے اور اس آیت "أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى" پہ پہنچے تو وہ کہے "بلَى"۔ اور جو مرسلات کی تلاوت کرے اور یہاں پہنچے"فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ" تو کہے "آمنَّا باللَّهِ"۔

٭اسے شیخ البانی نے ضعیف الجامع اور ضعیف ابوداؤد میں ذکر کیا ہے ۔

(4) أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى۔(سورة القيامة:40)
اس آیت کے جواب میں" سبحانک فبلی کہنے" کا ثبوت ملتا ہے ۔ روایت یہ ہے ۔
كانَ رجلٌ يصلِّي فوقَ بيتِهِ وَكانَ إذا قرأَ أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى قالَ سبحانَكَ فبلى فسألوهُ عن ذلِكَ فقالَ سمعتُهُ من رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ۔
ترجمہ: ایک آدمی اپنے گھر کی چھت پہ نماز پڑھ رہا تھا ، جب اس نے "أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى" کی تلاوت کی تو کہا"سبحانَكَ فبلى'۔ پس لوگوں نے اس سے اس کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا کہ یہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ۔
اس حدیث کو البانی ؒ نے صحیح قرار دیا ہے ۔ (صحیح ابوداؤد: 884)
اس حدیث سے مقتدی کا جواب دینا ثابت نہیں ہوتا۔ یہ امام یامنفردکے متعلق ہے ۔

(5) سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى(سورہ الاعلی:1)
اس کے جواب میں "سبحان ربی الاعلی "کہنے کی دلیل ملتی ہے،روایت دیکھیں :
أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ كانَ إذا قرأَ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى قالَ سبحانَ ربِّيَ الأعلى
ترجمہ: نبی ﷺ جب "سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى" کی تلاوت کرتے تو آپ کہتے "سبحانَ ربِّيَ الأعلى"۔
اس کو شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے ۔ (صحٰح ابوداؤد: 883)
اس حدیث سے بھی امام / منفرد کا جواب دینا ثابت ہوتا ہے ۔

(6) سورہ غاشیہ کے آخر میں" اللهم حاسبني حساباً يسيراً "پڑھنے سےمتعلق کوئی روایت نبی ﷺ سےمجھے نہیں ملی ۔
ایک روایت اس طرح آتی ہے :
سیدہ عائشہ رضى الله عنها فرماتی ہیں :كان النبي، صلى الله عليه وسلم ، يقول في بعض صلاته: "اللهم حاسبني حساباً يسيراً".فقالت عائشة رضي الله عنها:ما الحساب اليسير؟قال:أن ينظر في كتابه فيتجاوز عنه (رواه أحمد وقال الألباني : إسناده جيد)
ترجمہ : نبی کریمﷺ اپنی بعض نمازوں میں"اللهم حاسبني حساباً يسيرا" پڑھا کرتے تھے۔سیدہ عائشہ نے دریافت کیا کہ آسان حساب سے کیا مراد ہے ؟ تو آپ نے فرمایا:اللہ اعمال نامہ کو دیکھے اور بندے سے درگزر کردے۔
اس حدیث سے بس یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک دعا ہے جسے نبی ﷺ اپنی بعض نمازوں میں پڑھا کرتےتھے، اسے سورہ غاشیہ یا اس کی آخری آیت" إن إلينا إيابهم، ثم إن علينا حسابهم"سے خاص کرنا صحیح نہیں ہے ۔

(7) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ(سورہ رحمن)
اس آیت کے جواب سے متعلق حسن درجے کی ایک روایت ہے جس میں " لا بشَيءٍمن نِعَمِكَ ربَّنا نُكَذِّبُ فلَكَ الحمدُ" کہنا مذکور ہے ۔ روایت دیکھیں :
خرجَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ على أَصحابِهِ، فقرأَ عليهم سورةَ الرَّحمنِ من أوَّلِها إلى آخرِها فسَكَتوا فقالَ: لقد قرأتُها على الجنِّ ليلةَ الجنِّ فَكانوا أحسَنَ مردودًا منكم، كنتُ كلَّما أتيتُ على قولِهِ فَبِأيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ قالوا: لا بشَيءٍمن نِعَمِكَ ربَّنا نُكَذِّبُ فلَكَ الحمدُ
ترجمہ: سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم پر سورہ رحمن شروع سے آخر تک پڑھی اور صحابہ خاموش رہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ سورہ میں نے جنوں والی رات جنوں پر پڑھی،وہ تم سے اچھا جواب دیتے تھے۔جب ہر بار میں اس آیت پر پہنچتا تھا "فبای الا ء ربکما تکذبن "تو وہ جواب میں کہتے"لا بشیء من نعمک ربنا تکذب فلک الحمد"(اے ہمارے رب تیری نعمتوں میں سے ہم کسی چیز کو نہیں چھٹلاتے ۔ پس تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں)۔
یہ روایت شیخ البانی ؒ کے نزدیک حسن ہے ۔ (صحیح الترمذی : 3291)
اس روایت میں نماز کا ذکر نہیں ہے ، لہذا اسے نماز سے خاص نہیں کیا جائے گا بلکہ عام حالات پہ محمول کیا جائے گا۔

(8) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ۔(سورہ التین: 8)
اس کے جواب میں "بلى.وأنا على ذلك من الشاهدين" کہنے کی روایت آئی ہے مگر وہ قابل استدلال نہیں ہے جیساکہ تین نمبر میں بتلایا گیا ہے ۔

خلاصہ کلام:

٭مذکورہ بالا کلام کی روشنی میں سورہ فاتحہ کے آخر میں آمین کہنے کے سوا مقتدی کے لئے قرآن کی کسی آیت کا جواب دینا ثابت نہیں ہے۔
٭ مقتدی کو نماز میں سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ پڑھنے سے منع کیا گیا ہے ۔
٭جن بعض صحیح روایات سے قرآن کی بعض آیات کا جواب دینا ثابت ہے وہ سب امام کے لئے ہے ۔
٭مسلم شریف میں ہے کہ نبی ﷺتسبیح والی آیت پڑھتے توتسبیح فرماتے،دعا والی آیت پڑھتے تو دعا فرماتے اورجب تعوذ والی آیت پڑھتے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے تھے۔
عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَافْتَتَحَ الْبَقَرَةَ فَقُلْتُ يَرْكَعُ عِنْدَ الْمِائَةِ ثُمَّ مَضَى فَقُلْتُ يُصَلِّي بِهَا فِي رَكْعَةٍ فَمَضَى فَقُلْتُ يَرْكَعُ بِهَا ثُمَّ افْتَتَحَ النِّسَاءَ فَقَرَأَهَا ثُمَّ افْتَتَحَ آلَ عِمْرَانَ فَقَرَأَهَا يَقْرَأُ مُتَرَسِّلًا إِذَا مَرَّ بِآيَةٍ فِيهَا تَسْبِيحٌ سَبَّحَ وَإِذَا مَرَّ بِسُؤَالٍ سَأَلَ وَإِذَا مَرَّ بِتَعَوُّذٍ تَعَوَّذَ۔(مسلم:772)
ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں ایک رات میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے سورہ بقرہ شروع فرمائی، میں نے دل میں کہا: سو آیات پر ایک رکعت فرمائیں گے، لیکن آپ نے جاری رکھا، پھر میں نے خیال کیا کہ آپ ایک رکعت میں پوری سورت پڑھیں گے لیکن آپ نے جاری رکھا، پھر میں نے خیال کیا کہ آپ سورہ مکمل کرکے رکوع فرمائیں گے لیکن آپ نے اس کے بعد سورہ نساء شروع کی، اورپھر سورہ آل عمران شروع کردی اور اسے بھی مکمل کیا، آپ ٹھہر ٹھہر کر پڑھ رہے تھے، آپ جب کسی ایسی آیت سے گذرتے جس میں تسبیح ہوتو اللہ کی پاکی بیان فرماتے، اور جب کسی سوال والی آیت سے گذرتے تو اللہ سے سوال کرتے اور جب پناہ والی آیت سے گذرتے تو اللہ کی پناہ طلب کرتے۔
یہ حدیث بتلارہی ہے کہ آپ کی نماز فرضی نہیں تھی بلکہ نفلی تھی۔
٭نفل نماز میں امام یا مقتدی بھی قرآنی آیات کا جواب دے سکتا ہے جيساکہ نبی ﷺ سے ثابت ہے لیکن فرض نماز میں ایسا کرنا صحیح نہیں کیونکہ فرض نماز میں اگر آپ ﷺ قرآنی آیات کا جواب دیتے تو صحابہ کرام سے حرف حرف وہ باتیں منقول ہوتیں مگر ایسا نہیں ہے ۔

واللہ اعلم
 

Abu Awwab

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 23، 2016
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
4
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته شيخ مقبول احمد سلفي .

امید کرتا ہوں آپ خیریت سے ہونگے .

قرآنی آیات کے جواب کے تعلق سے مینے اوپر پڑھا ہے . میرا ایک سوال ھے آپسے ، جیسا کہ آپ نے آخر میں کھا ہے...
(٭نفل نماز میں امام یا مقتدی بھی قرآنی آیات کا جواب دے سکتا ہے جيساکہ نبی ﷺ سے ثابت ہے لیکن فرض نماز میں ایسا کرنا صحیح نہیں کیونکہ فرض نماز میں اگر آپ ﷺ قرآنی آیات کا جواب دیتے تو صحابہکرام سے حرف حرف وہ باتیں منقولہوتیں مگر ایسا نہیں ہے ۔)

1. نفل نماز مے مقتدی جواب دے سکتے ہیں اسکی دلیل کیا ہے ؟

2. فرض اور نفل نماز کی تخصیص کی دلیل کیا ہے ؟

شیخ ان اشکالات کی وضاحت کرکے مجھے اپکا مشکور بناے . جزاک اللہ خیرا .
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته شيخ مقبول احمد سلفي .

امید کرتا ہوں آپ خیریت سے ہونگے .

قرآنی آیات کے جواب کے تعلق سے مینے اوپر پڑھا ہے . میرا ایک سوال ھے آپسے ، جیسا کہ آپ نے آخر میں کھا ہے...
(٭نفل نماز میں امام یا مقتدی بھی قرآنی آیات کا جواب دے سکتا ہے جيساکہ نبی ﷺ سے ثابت ہے لیکن فرض نماز میں ایسا کرنا صحیح نہیں کیونکہ فرض نماز میں اگر آپ ﷺ قرآنی آیات کا جواب دیتے تو صحابہکرام سے حرف حرف وہ باتیں منقولہوتیں مگر ایسا نہیں ہے ۔)

1. نفل نماز مے مقتدی جواب دے سکتے ہیں اسکی دلیل کیا ہے ؟

2. فرض اور نفل نماز کی تخصیص کی دلیل کیا ہے ؟

شیخ ان اشکالات کی وضاحت کرکے مجھے اپکا مشکور بناے . جزاک اللہ خیرا .
مسلم شریف میں ہے کہ نبی ﷺتسبیح والی آیت پڑھتے توتسبیح فرماتے،دعا والی آیت پڑھتے تو دعا فرماتے اورجب تعوذ والی آیت پڑھتے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے تھے۔
عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَافْتَتَحَ الْبَقَرَةَ فَقُلْتُ يَرْكَعُ عِنْدَ الْمِائَةِ ثُمَّ مَضَى فَقُلْتُ يُصَلِّي بِهَا فِي رَكْعَةٍ فَمَضَى فَقُلْتُ يَرْكَعُ بِهَا ثُمَّ افْتَتَحَ النِّسَاءَ فَقَرَأَهَا ثُمَّ افْتَتَحَ آلَ عِمْرَانَ فَقَرَأَهَا يَقْرَأُ مُتَرَسِّلًا إِذَا مَرَّ بِآيَةٍ فِيهَا تَسْبِيحٌ سَبَّحَ وَإِذَا مَرَّ بِسُؤَالٍ سَأَلَ وَإِذَا مَرَّ بِتَعَوُّذٍ تَعَوَّذَ۔(مسلم:772)
ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں ایک رات میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے سورہ بقرہ شروع فرمائی، میں نے دل میں کہا: سو آیات پر ایک رکعت فرمائیں گے، لیکن آپ نے جاری رکھا، پھر میں نے خیال کیا کہ آپ ایک رکعت میں پوری سورت پڑھیں گے لیکن آپ نے جاری رکھا، پھر میں نے خیال کیا کہ آپ سورہ مکمل کرکے رکوع فرمائیں گے لیکن آپ نے اس کے بعد سورہ نساء شروع کی، اورپھر سورہ آل عمران شروع کردی اور اسے بھی مکمل کیا، آپ ٹھہر ٹھہر کر پڑھ رہے تھے، آپ جب کسی ایسی آیت سے گذرتے جس میں تسبیح ہوتو اللہ کی پاکی بیان فرماتے، اور جب کسی سوال والی آیت سے گذرتے تو اللہ سے سوال کرتے اور جب پناہ والی آیت سے گذرتے تو اللہ کی پناہ طلب کرتے۔
یہ حدیث بتلارہی ہے کہ آپ کی نماز فرضی نہیں تھی بلکہ نفلی تھی۔
 

Abu Awwab

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 23، 2016
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
4
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ شیخ .

بے شک آپ (صلله عليه وسلم) کی نماز فرضی نہیں تھی بلکہ نفلی تھی اور حدیث اپنی جگہ صحیح ہے لیکن اسمے مقتدی جواب دینے کی کیا دلیل ہے ؟

اور میرا دوسرا سوال وہی کے وہی ہے .
فرض اور نفل نماز کی تخصیص کی دلیل کیا ہے ؟

امید کرتا ہوں آپ ان دو سوالوں کا بادلیل وضاحت کے ساتھ جواب دےنگے .

اللہ آپ کو جزائے خیر سے نوازے آمین .
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ شیخ .

بے شک آپ (صلله عليه وسلم) کی نماز فرضی نہیں تھی بلکہ نفلی تھی اور حدیث اپنی جگہ صحیح ہے لیکن اسمے مقتدی جواب دینے کی کیا دلیل ہے ؟

اور میرا دوسرا سوال وہی کے وہی ہے .
فرض اور نفل نماز کی تخصیص کی دلیل کیا ہے ؟

امید کرتا ہوں آپ ان دو سوالوں کا بادلیل وضاحت کے ساتھ جواب دےنگے .

اللہ آپ کو جزائے خیر سے نوازے آمین .
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بے شک آپ (صلله عليه وسلم) کی نماز فرضی نہیں تھی بلکہ نفلی تھی اور حدیث اپنی جگہ صحیح ہے
یہاں تو آپ نے خود ہی اقرار کیا کہ نماز نفل تھی پھر بھی آپ دلیل مانگ رہے ہیں ۔

نماز میں آمین کہنے کی دلیل بصراحت مختلف الفاظ میں موجود ہے بلکہ آمین کی کیفیت کا بھی مختلف انداز میں ذکر ہے ۔کہیں پر مد بھا صوتہ،کہیں پر فجھر بآمین،کہیں پر رفع بھا صوتہ یہاں تک کہ ابوداؤد، ابن ماجہ وغیرہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں "فیرتج بھا المسجد" یعنی آمین کی آواز سے مسجد گونچ اٹھتی ۔
اگر آمین کے علاوہ کسی اور قرآنی آیت کا جواب فرض نماز میں امام یا مقتدی کے لئے حکم ہوتا تو ضرور آمین کی طرح اس کی کیفیت ان آیات کا ذکر اور خصوصا جوابی الفاظ کیا تھے بطور خاص ان کا صحیح احادیث سے ثبوت ملتاجبکہ ایسا نہیں ہے ۔

اسمے مقتدی جواب دینے کی کیا دلیل ہے ؟
نفل نماز میں امام کے ساتھ مقتدی کا جواب دینا مانع نہیں ہے ۔دلیل مسلم شریف کی روایت کے علاوہ آمین والی روایت بھی بن سکتی ہے ۔
واللہ اعلم

 
شمولیت
اکتوبر 16، 2016
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
46
السلام عليكم و رحمت الله و بركاته
اميد كرتا ھو شيخ ء محترم خيريت سے ہوگے
اللہ ہم سب پر اسکی رحمتے برکتے نازل کرے آمین!

مے اجازت چاہوگا کے کچھ کہو۔

==================
آپکا کہنا ہے
یہاں تو آپ نے خود ہی اقرار کیا کہ نماز نفل تھی پھر بھی آپ دلیل مانگ رہے ہیں ۔
===================

شیخ ء محترم اس بات کا انکار ہی نہی کیا گیا۔ بس سوال یہ ھے کے آپ محترم نے اسے نفل کے لیے خاس کیو کر لیا؟
اگر آپکا کہنا ہے کے یہ حدیث نفل نماز کی ہے اور فرض مے ایسا مذکور نہی۔
تو شیخ اور بہی ایسے اعمال ہے جو نفل کے مسائل ھے اور فرض مے مذکور نہی تو کیا ان مسائل کو بھی چھوڈ دیا جائے ؟
اصل بات یے ہے شیخ کے جب تک تخصیص کی دلیل نہ آئے تب تک وہ حکم عام ہی ھوتا ہے-
فرض اور نفل کے ایسے ہی ایک مسالہ پر گفتگو کرتے ہوے شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہے:
"اصول یہ ہے کہ فرض اور نفل ادا کرنے والو کے احکام ایک جیسے ہے الا یہ کہ دلیل سے کسی بات کی تخصیص ہو گئی ھو"
فتاوی اسلامیہ ج1 ص363

آپ یہ نہی پائےگے شیخ کہ کسی محدث یا مصنف نے اس ترح باب باندہے ہو تکبیر تحریمہ فرض مے/ تکبیر تحریمہ نفل مے یا رفع الیدین فرض مے/ رفع الیدین نفل مے۔ بلکہ ایک مسالہ ثابت ہو جائے تو اسے عام ھی شمار کیا جاتا ہے جب تک تخصیص نہ ہو۔ بھرحال کھنے کا مقصد یہ ہے کے دلیل سے جب تخصیص ثابت ہو تب اسے خاص کیا جائے ورنہ یہ بھی دیگر مسائل کی ترح ایک جیسے ہے۔

===============
آپکا کہنا ہے:
نماز میں آمین کہنے کی دلیل بصراحت مختلف الفاظ میں موجود ہے بلکہ آمین کی کیفیت کا بھی مختلف انداز میں ذکر ہے ۔کہیں پر مد بھا صوتہ،کہیں پر فجھر بآمین،کہیں پر رفع بھا صوتہ یہاں تک کہ ابوداؤد، ابن ماجہ وغیرہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں "فیرتج بھا المسجد" یعنی آمین کی آواز سے مسجد گونچ اٹھتی ۔
اگر آمین کے علاوہ کسی اور قرآنی آیت کا جواب فرض نماز میں امام یا مقتدی کے لئے حکم ہوتا تو ضرور آمین کی طرح اس کی کیفیت ان آیات کا ذکر اور خصوصا جوابی الفاظ کیا تھے بطور خاص ان کا صحیح احادیث سے ثبوت ملتاجبکہ ایسا نہیں ہے ۔
==============

جی معذرت شیخ بلکہ ایسا ہے۔ قرآنی آیات کا جواب دینا بہمد اللہ فرض نماز مے بھی ثابت ہے۔ جیسا کہ آپنے کہد سبح اسم ربک الآعلی کی حدیث ذکر کی ہے اور بہی بحمد اللہ دلائل ہے۔

پر ایک بات درست نہی لگی شیخ معذرت کے ساتھ ۔

آپکا کہنا ہے۔
==================
نفل نماز میں امام کے ساتھ مقتدی کا جواب دینا مانع نہیں ہے ۔دلیل مسلم شریف کی روایت کے علاوہ آمین والی روایت بھی بن سکتی ہے
===================

مسلم شریف والی روایات مے بہی مقتدی کا ذکر نہی ہے بس امام کی دلیل ہے پر آپ اس سے مقتدی پر استدلال کر رہے ہے کہ مقتدی کو نفل مے مانع نہی۔
پر یہی بات جب فرض نماز مے آتی ہے تو آپ کہتے ہے:

==============
"اس حدیث سے بھی امام / منفرد کا جواب دینا ثابت ہوتا ہے"
==============

ایسی تفریق کیو شیخ؟ نفل مے امام کی دلیل مقتدی کو مانع نہی تو فرض مے مانع کیو؟

اور رہی بات آمین سے استدلال کرنے کی تو آمین مقتدی کے لیے فرض نماز مے ہوتی ہے تو ایسا کیوکر کے آمین دلیل بنے نفل کے لیے پر فرض مے نہی؟؟؟

براہے مہربانی۔ ھماری اصلاح فرمائے
 
شمولیت
اکتوبر 16، 2016
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
46
===============
آپکا کہنا ہے:
نماز میں آمین کہنے کی دلیل بصراحت مختلف الفاظ میں موجود ہے بلکہ آمین کی کیفیت کا بھی مختلف انداز میں ذکر ہے ۔کہیں پر مد بھا صوتہ،کہیں پر فجھر بآمین،کہیں پر رفع بھا صوتہ یہاں تک کہ ابوداؤد، ابن ماجہ وغیرہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں "فیرتج بھا المسجد" یعنی آمین کی آواز سے مسجد گونچ اٹھتی ۔
اگر آمین کے علاوہ کسی اور قرآنی آیت کا جواب فرض نماز میں امام یا مقتدی کے لئے حکم ہوتا تو ضرور آمین کی طرح اس کی کیفیت ان آیات کا ذکر اور خصوصا جوابی الفاظ کیا تھے بطور خاص ان کا صحیح احادیث سے ثبوت ملتاجبکہ ایسا نہیں ہے ۔
==============



شیخ ء محترم اگر آپ اس مسالہ مے آمین کے کیفیت والی شرط لگاتے ہے تو ایسی شرط نفل نماز کے لیے بھی نہی پائی جاتی۔ پر پہر بہی آپ نفل نماز مے امام اور مقتدی دونوی کے لیے جواز کے قائل ہے۔ اپ ہی کا کہنا ہے:

================
٭نفل نماز میں امام یا مقتدی بھی قرآنی آیات کا جواب دے سکتا ہے جيساکہ نبی ﷺ سے ثابت ہے
================

وضاحت فرمائے
جزاک اللہ جیرا
 

Abu Awwab

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 23، 2016
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
4
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ .

جزاکم اللہ خیر تبریز بھائی ، میرا بھی یہی سوال تھا شیخ سے جسے آپنے بڈی تفصیل کے ساتھ پوچھا ہے .
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
یہاں باربار اعادہ کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ یہ میسج اپنی جگہ باقی ہی رہتا ہے فیس بوک وغیرہ کی طرح نیچے نہیں چلا جاتا۔
 
Top