• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مقتدیوں کا بعض قرآنی آیات کا جواب دینا

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
السلام عليكم و رحمت الله و بركاته
اميد كرتا ھو شيخ ء محترم خيريت سے ہوگے
اللہ ہم سب پر اسکی رحمتے برکتے نازل کرے آمین!

مے اجازت چاہوگا کے کچھ کہو۔

==================
آپکا کہنا ہے
یہاں تو آپ نے خود ہی اقرار کیا کہ نماز نفل تھی پھر بھی آپ دلیل مانگ رہے ہیں ۔
===================

شیخ ء محترم اس بات کا انکار ہی نہی کیا گیا۔ بس سوال یہ ھے کے آپ محترم نے اسے نفل کے لیے خاس کیو کر لیا؟
اگر آپکا کہنا ہے کے یہ حدیث نفل نماز کی ہے اور فرض مے ایسا مذکور نہی۔
تو شیخ اور بہی ایسے اعمال ہے جو نفل کے مسائل ھے اور فرض مے مذکور نہی تو کیا ان مسائل کو بھی چھوڈ دیا جائے ؟
اصل بات یے ہے شیخ کے جب تک تخصیص کی دلیل نہ آئے تب تک وہ حکم عام ہی ھوتا ہے-
فرض اور نفل کے ایسے ہی ایک مسالہ پر گفتگو کرتے ہوے شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہے:
"اصول یہ ہے کہ فرض اور نفل ادا کرنے والو کے احکام ایک جیسے ہے الا یہ کہ دلیل سے کسی بات کی تخصیص ہو گئی ھو"
فتاوی اسلامیہ ج1 ص363

آپ یہ نہی پائےگے شیخ کہ کسی محدث یا مصنف نے اس ترح باب باندہے ہو تکبیر تحریمہ فرض مے/ تکبیر تحریمہ نفل مے یا رفع الیدین فرض مے/ رفع الیدین نفل مے۔ بلکہ ایک مسالہ ثابت ہو جائے تو اسے عام ھی شمار کیا جاتا ہے جب تک تخصیص نہ ہو۔ بھرحال کھنے کا مقصد یہ ہے کے دلیل سے جب تخصیص ثابت ہو تب اسے خاص کیا جائے ورنہ یہ بھی دیگر مسائل کی ترح ایک جیسے ہے۔

===============
آپکا کہنا ہے:
نماز میں آمین کہنے کی دلیل بصراحت مختلف الفاظ میں موجود ہے بلکہ آمین کی کیفیت کا بھی مختلف انداز میں ذکر ہے ۔کہیں پر مد بھا صوتہ،کہیں پر فجھر بآمین،کہیں پر رفع بھا صوتہ یہاں تک کہ ابوداؤد، ابن ماجہ وغیرہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں "فیرتج بھا المسجد" یعنی آمین کی آواز سے مسجد گونچ اٹھتی ۔
اگر آمین کے علاوہ کسی اور قرآنی آیت کا جواب فرض نماز میں امام یا مقتدی کے لئے حکم ہوتا تو ضرور آمین کی طرح اس کی کیفیت ان آیات کا ذکر اور خصوصا جوابی الفاظ کیا تھے بطور خاص ان کا صحیح احادیث سے ثبوت ملتاجبکہ ایسا نہیں ہے ۔
==============

جی معذرت شیخ بلکہ ایسا ہے۔ قرآنی آیات کا جواب دینا بہمد اللہ فرض نماز مے بھی ثابت ہے۔ جیسا کہ آپنے کہد سبح اسم ربک الآعلی کی حدیث ذکر کی ہے اور بہی بحمد اللہ دلائل ہے۔

پر ایک بات درست نہی لگی شیخ معذرت کے ساتھ ۔

آپکا کہنا ہے۔
==================
نفل نماز میں امام کے ساتھ مقتدی کا جواب دینا مانع نہیں ہے ۔دلیل مسلم شریف کی روایت کے علاوہ آمین والی روایت بھی بن سکتی ہے
===================

مسلم شریف والی روایات مے بہی مقتدی کا ذکر نہی ہے بس امام کی دلیل ہے پر آپ اس سے مقتدی پر استدلال کر رہے ہے کہ مقتدی کو نفل مے مانع نہی۔
پر یہی بات جب فرض نماز مے آتی ہے تو آپ کہتے ہے:

==============
"اس حدیث سے بھی امام / منفرد کا جواب دینا ثابت ہوتا ہے"
==============

ایسی تفریق کیو شیخ؟ نفل مے امام کی دلیل مقتدی کو مانع نہی تو فرض مے مانع کیو؟

اور رہی بات آمین سے استدلال کرنے کی تو آمین مقتدی کے لیے فرض نماز مے ہوتی ہے تو ایسا کیوکر کے آمین دلیل بنے نفل کے لیے پر فرض مے نہی؟؟؟

براہے مہربانی۔ ھماری اصلاح فرمائے
آپ کی بات اور جو تھریڈ کا عنوان ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے مختصرا جواب دیتا ہوں ۔
اوپر جو مسلم شریف کی حدیث ہے اس حدیث میں ایک نماز کا ذکر ہے اس نماز کی ایک رکعت میں قرآن کی بڑی بڑی تین سورتیں سورہ بقرہ، سورہ نساء اور سورہ آل عمران پڑھنے کا ذکر ہے ۔ ان تینوں سورتوں کی کل آیات 662 ہوتی ہیں۔ یہاں ہمیں یہ معلوم کرنا ہے کہ یہ کون سی نماز ہے کیایہ رات کی فرض نماز یعنی عشاء ہے یا نفل نماز ہے ۔ لازما ان دونوں نمازوں میں سے کوئی ایک نماز ہوگی کیونکہ حدیث میں رات کا لفظ آیا ہے ۔ دوسری احادیث کو سامنے رکھنے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ عشاء کی نماز نہیں ہوگی کیونکہ عشاء کی نماز میں نبی ﷺ کی قرات متوسط ہوا کرتی تھی ۔اس کی دلیل نسائی میں موجود ہے جسے البانی صاحب نے صحیح قرار دیا ہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
ما صلَّيتُ وراءَ أحدٍ أشبَهَ صلاةً برسولِ اللَّهِ من فلانٍ ، فصلَّينا وراءَ ذلِكَ الإنسانِ وَكانَ يطيلُ الأوليينِ منَ الظُّهرِ ، ويخفِّفُ في الأخريينِ ، ويخفِّفُ في العصرِ ، ويقرأُ في المغربِ بقصارِ المفصَّلِ ، ويقرأُ في العشاءِ ب الشَّمسِ وضحاها وأشباهِها . ويقرأُ في الصُّبحِ ، بسورتينِ طويلتين(صحيح النسائي:982)
ترجمہ: میں نے کسی ایسے شخص کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جو فلاں شخص (عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ) سے بڑھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نماز پڑھاتا ہو۔ ہم نے اس شخص کے پیچھے نماز پڑھی۔ وہ ظہر کی پہلی دو رکعتیں لمبی کرتا تھا اور آخری وہ ہلکی پڑھاتا تھا۔ وہ عصر کی نماز بھی ہلکی پڑھاتا تھا۔ وہ مغرب کی نماز میں چھوٹی مفصل سورتیں پڑھتا تھا اورعشاء کی نماز میں (والشمس وضحھا) اور اس جیسی سورتیں پڑھتا تھا۔ اور بح کی نماز میں لمبی سورتیں پڑھتا تھا۔

ابن بطال رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نبی ﷺ کی نماز کی سب سے لمبی قرات فجر کی نماز میں ہواکرتی تھی اور فجر کی نماز میں حدیث سے سوآیات کی قرات کا ذکر ہے جبکہ یہاں مسلم شریف والی حدیث میں 662 آیات بنتی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ یقینا نفلی نماز(قیام اللیل) ہے ۔
اس سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ قرآنی آیت کے جواب میں یہ حدیث فرض نماز پر نہیں نفل نماز پر محمول ہوگی ۔
اب رہا معاملہ کے مقتدی بھی امام کی طرح نفل نماز میں تعوذ اور تسبیح پڑھ سکتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نفل نماز میں ایسا کرنا ثابت ہےفرض نماز میں یہ ثابت نہیں۔
 
Last edited:
شمولیت
اکتوبر 16، 2016
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
46
آپ کی بات اور جو تھریڈ کا عنوان ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے مختصرا جواب دیتا ہوں ۔
اوپر جو مسلم شریف کی حدیث ہے اس حدیث میں ایک نماز کا ذکر ہے اس نماز کی ایک رکعت میں قرآن کی بڑی بڑی تین سورتیں سورہ بقرہ، سورہ نساء اور سورہ آل عمران پڑھنے کا ذکر ہے ۔ ان تینوں سورتوں کی کل آیات 662 ہوتی ہیں۔ یہاں ہمیں یہ معلوم کرنا ہے کہ یہ کون سی نماز ہے کیایہ رات کی فرض نماز یعنی عشاء ہے یا نفل نماز ہے ۔ لازما ان دونوں نمازوں میں سے کوئی ایک نماز ہوگی کیونکہ حدیث میں رات کا لفظ آیا ہے ۔ دوسری احادیث کو سامنے رکھنے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ عشاء کی نماز نہیں ہوگی کیونکہ عشاء کی نماز میں نبی ﷺ کی قرات متوسط ہوا کرتی تھی ۔اس کی دلیل نسائی میں موجود ہے جسے البانی صاحب نے صحیح قرار دیا ہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
ما صلَّيتُ وراءَ أحدٍ أشبَهَ صلاةً برسولِ اللَّهِ من فلانٍ ، فصلَّينا وراءَ ذلِكَ الإنسانِ وَكانَ يطيلُ الأوليينِ منَ الظُّهرِ ، ويخفِّفُ في الأخريينِ ، ويخفِّفُ في العصرِ ، ويقرأُ في المغربِ بقصارِ المفصَّلِ ، ويقرأُ في العشاءِ ب الشَّمسِ وضحاها وأشباهِها . ويقرأُ في الصُّبحِ ، بسورتينِ طويلتين(صحيح النسائي:982)
ترجمہ: میں نے کسی ایسے شخص کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جو فلاں شخص (عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ) سے بڑھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نماز پڑھاتا ہو۔ ہم نے اس شخص کے پیچھے نماز پڑھی۔ وہ ظہر کی پہلی دو رکعتیں لمبی کرتا تھا اور آخری وہ ہلکی پڑھاتا تھا۔ وہ عصر کی نماز بھی ہلکی پڑھاتا تھا۔ وہ مغرب کی نماز میں چھوٹی مفصل سورتیں پڑھتا تھا اورعشاء کی نماز میں (والشمس وضحھا) اور اس جیسی سورتیں پڑھتا تھا۔ اور بح کی نماز میں لمبی سورتیں پڑھتا تھا۔

ابن بطال رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نبی ﷺ کی نماز کی سب سے لمبی قرات فجر کی نماز میں ہواکرتی تھی اور فجر کی نماز میں حدیث سے سوآیات کی قرات کا ذکر ہے جبکہ یہاں مسلم شریف والی حدیث میں 662 آیات بنتی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ یقینا نفلی نماز(قیام اللیل) ہے ۔
اس سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ قرآنی آیت کے جواب میں یہ حدیث فرض نماز پر نہیں نفل نماز پر محمول ہوگی ۔
اب رہا معاملہ کے مقتدی بھی امام کی طرح نفل نماز میں تعوذ اور تسبیح پڑھ سکتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نفل نماز میں ایسا کرنا ثابت ہےفرض نماز میں یہ ثابت نہیں۔




السلام عليكم و رحمت الله وبركاته

جزاك الله خيرا شيخ آپکے جواب کے لیے۔

شیخ شاید آپنے مےرا پوسط پورا نہی پڈہا کیوکہ آپنے نصف سے زائد پوسط اسی بات کے بتانے مے صرف کی ہے کے وہ نماز نفل تہی جب کے مینے کہی بہی اس بات پر اعتراز نہی کیا اور یہ بات پہلے ہی کہی ہے کے ہمے اس سے بلکل انکار نہی ھم آپکی اس بات سے متفق ہے۔
مے اپنا وہ پوسط کا حصہ پہر یہا لگاتا ہو۔

==========================
شیخ ء محترم اس بات کا انکار ہی نہی کیا گیا۔ بس سوال یہ ھے کے آپ محترم نے اسے نفل کے لیے خاص کیو کر لیا؟
اگر آپکا کہنا ہے کے یہ حدیث نفل نماز کی ہے اور فرض مے ایسا مذکور نہی۔
تو شیخ اور بہی ایسے اعمال ہے جو نفل کے مسائل ھے اور فرض مے مذکور نہی تو کیا ان مسائل کو بھی چھوڈ دیا جائ
ے ؟
اصل بات یے ہے شیخ کے جب تک تخصیص کی دلیل نہ آئے تب تک وہ حکم عام ہی ھوتا ہے-
فرض اور نفل کے ایسے ہی ایک مسالہ پر گفتگو کرتے ہوے شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہے:
"اصول یہ ہے کہ فرض اور نفل ادا کرنے والو کے احکام ایک جیسے ہے الا یہ کہ دلیل سے کسی بات کی تخصیص ہو گئی ھو"
فتاوی اسلامیہ ج1 ص363

آپ یہ نہی پائےگے شیخ کہ کسی محدث یا مصنف نے اس ترح باب باندہے ہو تکبیر تحریمہ فرض مے/ تکبیر تحریمہ نفل مے یا رفع الیدین فرض مے/ رفع الیدین نفل مے۔ بلکہ ایک مسالہ ثابت ہو جائے تو اسے عام ھی شمار کیا جاتا ہے جب تک تخصیص نہ ہو۔ بھرحال کھنے کا مقصد یہ ہے کے دلیل سے جب تخصیص ثابت ہو تب اسے خاص کیا جائے ورنہ یہ بھی دیگر مسائل کی ترح ایک جیسے ہے۔
==========================

پہر آپنے یہ بات کہی ہے کے فرض نماز مے قرآنی آیات کا جواب ثابت نہی ہے۔
پر مے کہتا ہو کے آپ ہی نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کے فرض نماز مے بہی یے ثابت ہے۔ آپکا کہنا ہے

==========================
(5) سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى(سورہ الاعلی:1)
اس کے جواب میں "سبحان ربی الاعلی "کہنے کی دلیل ملتی ہے،روایت دیکھیں :
أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ كانَ إذا قرأَ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى قالَ سبحانَ ربِّيَ الأعلى
ترجمہ: نبی ﷺ جب "سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى" کی تلاوت کرتے تو آپ کہتے "سبحانَ ربِّيَ الأعلى"۔
اس کو شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے ۔ (صحٰح ابوداؤد: 883)
اس حدیث سے بھی امام / منفرد کا جواب دینا ثابت ہوتا ہے ۔
============

اس حدیث پر امام البانی رحمہ اللہ کی تصحیح اور اپکے تبصرہ کے ساتھ آپنے یے اعتراف کر لیا ہے کے یہ حدیث فرض نماز کی ہے۔ اگر آپ کہےگے کہ آپنے یہ اعتراف نہی کیا اور اس حدیث کو نفل نماز ہی مے شمار کیا ہے تو آپ ہی کے بات مے اضتراب ثابت ہوتا ہے۔ کہ آپ محترم ایک ہی مضمون مے نفل نماز مے ایاتو کا جواب کبہی سرف امام اور منفرد کے لیے مخصوص قرار دیتے ہے اور اسی مضمون مے کبہی نفل نماز مے مقتدی کے لیے بھی جائز کہتے ہی۔

تو بات یہی ہے شیخ کے قرآنی آیاتو کا جواب دینا فرض مے بھی ثابت ہے پر آپ فرض نماز مے امام کی دلیل سرف امام اور منفرد تک محدود کر دیتے ہے اور نفل مے امام ہی کی دلیل، مقتدی کے لیے بھی جائز قرار دیتے ہے۔
جب نفل نماز مے امام کا ایاتو کا جواب دینا مقتدی کی دلیل بنے تو پہر فرض نماز مے امام کا جواب، مقتدی کی دلیل کیو نہ بنے؟

وضاحت کی درخواست۔
جزاک اللہ خیرا
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
اصل بات یے ہے شیخ کے جب تک تخصیص کی دلیل نہ آئے تب تک وہ حکم عام ہی ھوتا ہے-
فرض اور نفل کے ایسے ہی ایک مسالہ پر گفتگو کرتے ہوے شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہے:
"اصول یہ ہے کہ فرض اور نفل ادا کرنے والو کے احکام ایک جیسے ہے الا یہ کہ دلیل سے کسی بات کی تخصیص ہو گئی ھو"
فتاوی اسلامیہ ج1 ص363
اوپر جو میں نے ثابت کیا ہے کہ وہ نماز نفل تھی یہ تخصیص کی دلیل ہے ، اس وجہ سے دلائل سے ثابت کیا کہ جواب دینے والی مسلم کی حدیث نفل نماز کے لئے ہے اس لئے یہ نفل کے لئے خاص ہوگی ۔
ع
پہر آپنے یہ بات کہی ہے کے فرض نماز مے قرآنی آیات کا جواب ثابت نہی ہے۔
پر مے کہتا ہو کے آپ ہی نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کے فرض نماز مے بہی یے ثابت ہے۔ آپکا کہنا ہے

==========================
(5) سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى(سورہ الاعلی:1)
اس کے جواب میں "سبحان ربی الاعلی "کہنے کی دلیل ملتی ہے،روایت دیکھیں :
أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ كانَ إذا قرأَ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى قالَ سبحانَ ربِّيَ الأعلى
ترجمہ: نبی ﷺ جب "سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى" کی تلاوت کرتے تو آپ کہتے "سبحانَ ربِّيَ الأعلى"۔
اس کو شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے ۔ (صحٰح ابوداؤد: 883)
اس حدیث سے بھی امام / منفرد کا جواب دینا ثابت ہوتا ہے ۔
============

اس حدیث پر امام البانی رحمہ اللہ کی تصحیح اور اپکے تبصرہ کے ساتھ آپنے یے اعتراف کر لیا ہے کے یہ حدیث فرض نماز کی ہے۔ اگر آپ کہےگے کہ آپنے یہ اعتراف نہی کیا اور اس حدیث کو نفل نماز ہی مے شمار کیا ہے تو آپ ہی کے بات مے اضتراب ثابت ہوتا ہے۔ کہ آپ محترم ایک ہی مضمون مے نفل نماز مے ایاتو کا جواب کبہی سرف امام اور منفرد کے لیے مخصوص قرار دیتے ہے اور اسی مضمون مے کبہی نفل نماز مے مقتدی کے لیے بھی جائز کہتے ہی۔

تو بات یہی ہے شیخ کے قرآنی آیاتو کا جواب دینا فرض مے بھی ثابت ہے پر آپ فرض نماز مے امام کی دلیل سرف امام اور منفرد تک محدود کر دیتے ہے اور نفل مے امام ہی کی دلیل، مقتدی کے لیے بھی جائز قرار دیتے ہے۔
جب نفل نماز مے امام کا ایاتو کا جواب دینا مقتدی کی دلیل بنے تو پہر فرض نماز مے امام کا جواب، مقتدی کی دلیل کیو نہ بنے؟
عبادت توفیقی ہے اس میں اتنا ہی تسلیم کیا جائے گا جتنے کا ذکر ملتا ہے ۔ ابوداؤد والی حدیث سے بس امام یا منفرد کا ثبوت ملتا ہے جس کا میں نے ذکر کردیا ہے ، آپ یونہی لمبی لمبی بات ذکر رہے ہیں ۔ نفل نماز کے کیفیت کا ذکر نماز نماز کے ساتھ خاص ہوگی جیسا بیٹھ کر نفل نماز پڑھ سکتے ہیں ، اسے فرض پر محمول نہیں کریں گے ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا اس سلسلہ میں بیان دیکھیں ؛
وأما في صلاة الفرض ، فليس بسنة ، وإن كان جائزا .
فإن قال قائل : ما دليلك على هذا التفريق ، وأنت تقول : إن ما ثبت في النفل ثبت في الفرض..؟
فالجواب : الدليل على هذا أن الرسول صلى الله عليه وسلم ، يصلي في كل يوم وليلة ثلاث صلوات ، كلها فيها جهر بالقراءة ، ويقرأ آيات فيها وعيد ، وآيات فيها رحمة ، ولم ينقل الصحابة الذين نقلوا صفة صلاة الرسول صلى الله عليه وسلم ، أنه كان يفعل ذلك في الفرض ، ولو كان سنة لفعله ، ولو فعله لنقل ؛ فلما لم ينقل علمنا أنه لم يفعله ، ولما يفعله علمنا أنه ليس بسنة ، والصحابة رضي الله عنهم حريصون على تتبع حركات النبي صلى الله عليه وسلم ، وسكناته ، حتى إنهم يستدلون على قراءته في السرية باضطراب لحيته ، ولما سكت بين التكبير والقراءة سأله أبو هريرة ماذا يقول ، ولو سكت عند آية الوعيد من أجل أن يتعوذ ، أو آية الرحمة من أجل أن يسأل لنقلوا ذلك بلا شك .
 
شمولیت
اکتوبر 16، 2016
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
46
اوپر جو میں نے ثابت کیا ہے کہ وہ نماز نفل تھی یہ تخصیص کی دلیل ہے ، اس وجہ سے دلائل سے ثابت کیا کہ جواب دینے والی مسلم کی حدیث نفل نماز کے لئے ہے اس لئے یہ نفل کے لئے خاص ہوگی ۔
السلام عليكم و رحمت الله و بركاته
اميد کرتا جو شیخ ء محترم خیریت سے ہوگے۔
شیخ اگر اپ کے متابک نفل مے ذکر ہونے سے نفل کے لیے خاص ہو جاتی ہے؟ تو پہر فرض مے کوئی مسالہ ذکر ہو تو اسے فرض کے لیے خاص ہو جانا چاہیے۔
تو آپکے اس اصول کے متابک نماز کا ہر مسالہ فرض مے الگ ثابت ہونا چاہیے اور نفل مے الگ ثابت ہونا چاہیے ۔ اپکے اس اصول کا یہی نتیجہ نکلتا ہے شیخ۔ پر اسکے آپ بہی قائل نہی۔

جبکہ یہ مسلم اصول ہے کے جب تک دلیل سے تخصیص نہ ہو اسے عام ہی شمار کیا جاتا ہے اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا قول ایک بار پہر ملاحظہ فرما لیجیے۔
اصول یہ ہے کہ فرض اور نفل ادا کرنے والو کے احکام ایک جیسے ہے الا یہ کہ دلیل سے کسی بات کی تخصیص ہو گئی ھو"
فتاوی اسلامیہ ج1 ص363

اپکے اصول کے متابک جو مسائل سرف فرض مے ثابت ہو انہے نفل مے ترک کر دینا چاہیے اور جو مسائل سرف نفل مے ثابت ہو انہے فرض مے ترک کر دینا چاہیے کیوکہ اپکے متابک اسکی تخصیص ہو گئی ہے۔ پر اپ بھی اس کے لیے تیار نہ ہوگے شیخ۔
یہ مسلم اصول ہے شیخ کے تخصیص کی دلیل ہو تو تخصیص کی جاتی ہے ورنہ حکم عام ہی ہوتا ہے۔

اور اگر اپکا یہ اصول مان بھی لیا جائے تو بھی اس مسالہ مے تخصیص کی دلیل نہی بنتی کیوکہ اپ ہی نے اس عمل کو ابو داود کی حدیث پیش کرکے فرض مے بہی ثابت کر دیا ہے پہر اس بات کا سوال ہی نہی ہوتا کے فرض مے ثابت نہی۔
اپنے ہی اسے اپنے مضمون مے درج کیا ہے پہر یہ بات کا کیا متلب کہ فرض مے پابت نہی؟؟
 
شمولیت
اکتوبر 16، 2016
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
46
عبادت توفیقی ہے اس میں اتنا ہی تسلیم کیا جائے گا جتنے کا ذکر ملتا ہے
تو پہر نفل نماز مے بھی بس امام کا جواب دےنا ثابت ہوتا ہے لیکن اپ اسمے مقتدی کو بہی شامل کرتے ہے، کیا یے اصول سرف فرض نماز کے لیے ہی ہے؟؟

ابوداؤد والی حدیث سے بس امام یا منفرد کا ثبوت ملتا ہے جس کا میں نے ذکر کردیا ہے ، آپ یونہی لمبی لمبی بات ذکر رہے ہیں ۔
تو صحیح مسلم کی حدیث سے بھی بس امام منفرد کا ثبوت ملتا ہے مےرے عزیز شیخ ء محترم اسمے غسہ کی کیا بات ہے۔ لیکن اپ نفل مے تو امام کی دلیل سے مقتدی پر بہی استدلال کر لیتے ہے فر کیا بات ہے کے فرض نماز مے مقتدی کو شامل نہی کرتے اور نفل مے کر لیتے۔

نفل نماز کے کیفیت کا ذکر نماز نماز کے ساتھ خاص ہوگی جیسا بیٹھ کر نفل نماز پڑھ سکتے ہیں ، اسے فرض پر محمول نہیں کریں گے ۔
مثال اپ نے بہت خوب دی ہے پر یے مثال اپکی نہی ہماری ہے، گور کیجیے شیخ۔
اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم کی حدیث ہے:
"صل قائما، فان لم تستطع قائدا فان لم تستطع فعلی جنب" بجاری
یے حکم عام ہے اب نماز فرض ھو یا نفل ہر نماز قائما پڈہی جائگی اس کی تخصیص تب ہی کی جا سکتی ہے جب خاص دلیل موجود ہو اور اپ بھی جانتے ہے کے نفل مے نبی صل اللہ علیہ و سلم کا قائدا نماز پڈہنا ثابت ہے تو اسی سے اس عام حکم کی تخصیص ہو جاتی ہے۔ یے دیخیے شیخ اس سے بہی یہی ثابت ہوتا ہے کے تخصیص دلیل سے کی جاتی ہے ایسے ہی نہی۔
 
شمولیت
اکتوبر 16، 2016
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
46
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا اس سلسلہ میں بیان دیکھیں ؛
وأما في صلاة الفرض ، فليس بسنة ، وإن كان جائزا .
فإن قال قائل : ما دليلك على هذا التفريق ، وأنت تقول : إن ما ثبت في النفل ثبت في الفرض..؟
فالجواب : الدليل على هذا أن الرسول صلى الله عليه وسلم ، يصلي في كل يوم وليلة ثلاث صلوات ، كلها فيها جهر بالقراءة ، ويقرأ آيات فيها وعيد ، وآيات فيها رحمة ، ولم ينقل الصحابة الذين نقلوا صفة صلاة الرسول صلى الله عليه وسلم ، أنه كان يفعل ذلك في الفرض ، ولو كان سنة لفعله ، ولو فعله لنقل ؛ فلما لم ينقل علمنا أنه لم يفعله ، ولما يفعله علمنا أنه ليس بسنة ، والصحابة رضي الله عنهم حريصون على تتبع حركات النبي صلى الله عليه وسلم ، وسكناته ، حتى إنهم يستدلون على قراءته في السرية باضطراب لحيته ، ولما سكت بين التكبير والقراءة سأله أبو هريرة ماذا يقول ، ولو سكت عند آية الوعيد من أجل أن يتعوذ ، أو آية الرحمة من أجل أن يسأل لنقلوا ذلك بلا شك .
شیخ عثیمین رحمہ اللہ کا یے قول اپ کے موقف کی تائید نہی کرتا۔ وہ اس لیے کیوکہ اپ ہی نے فرض نماز مے ابو داود کی حدیث پیش کی ہے کہ اپ صل اللہ علیہ و سلم نے فرض مے قرآنی ایات کا جواب دیا ہے پر شیخ عثیمین کہتے ہے کے فرض مے ثابت نہی تو یے قول اپکے بہی خلاف ہے۔ شیخ عثیمین رحمہ اللہ نے اسے فرض مے جائز قرار دیا ہے "ان کان جاءزا"
اور ایک بات کہو شیخ کے شیخ عثیمین رحمہ اللہ بھی مقتدی کو جواب دینے کے لیے فرض یا نفل کی تخصیص نہی کرتے ایک سوال کرنے والے کا جواب دیتے ہوے فرماتے ہے-
"ہا یے جائز ہے اور اس مسالہ مے امام منفرد اور مقتدی مے کوئ فرق نہی، البتہ مقتدی کے لیے یے شرط ہے کے اس قدر مشگول نہ ہو کے وہ اس خاموشی کو اختیار نہ کر سکے جس کے اختیار کرنے کا قراءت کے موقع پر حکم دیا گیا ہے" فتاوی ارکان اسلام ص292-293
دیخیے شیخ فرض اور نفل مے کوئ تخصیص نہی کی گئی بلکہ عام حکم دیا گیا ہے۔ تو پتا چلا کے شیخ عثیمین کا موقف اپ کے قول کے بر عکس ہے کیوکہ اپ نفل مے تو مقتدی کے لیے جائز کہتے ہے پر فرض مے انکار کرتے ہے۔
پر ایسی تفریق کی بھلا کیا دلیل شیخ؟
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
اب آپ پہلے بتادیں کہ کون سی کون سی آیت رحمت ہیں؟ کون ہی آیات عذاب ہیں اور کون سی آیات دعا ہیں ؟ اس کے بعد ان آیات کا امام کیا جواب دے ، مقتدی کیا جواب دے ؟ دلیل سے واضح کریں پھر بات ہوگی۔ پرانی بات مت دہرائیں بہت دہراچکے ۔
 
شمولیت
اکتوبر 16، 2016
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
46
اب آپ پہلے بتادیں کہ کون سی کون سی آیت رحمت ہیں؟ کون ہی آیات عذاب ہیں اور کون سی آیات دعا ہیں ؟ اس کے بعد ان آیات کا امام کیا جواب دے ، مقتدی کیا جواب دے ؟ دلیل سے واضح کریں پھر بات ہوگی۔ پرانی بات مت دہرائیں بہت دہراچکے ۔
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
امید کرتا ہو ہمارے شیخ بخیر ہوگے۔

شیخ ء محترم اپ نے مجہے پہلے ہی بتا دیا ہوتا کے مےرا سوال پوچھنا اپکو پسند نہ ایا ہے تو مے وہی پر رک جاتا۔

ما شا اللہ بڈا ہی خوب سوال کیا ہے۔

اپکے پوسٹ پر اعتراز کرنے کا ہمارا کوئ ارادہ نہ تھا۔ مینے اس تعلک سے بحمد اللہ اہل علم کے اقوال ملاحظہ کیے ہے۔ جن علماء نے فرض اور نفل مے اسے جائز قرار دیا ہے انمے بعض ایسے ہے جو امام اور منفرد کے لیے ہی جائز کہتے ہے اور اکثر ایسے ہے جو مقتدی کے لیے بہی جائز قرار دیتے ہے خواہ فرض ہو یا نفل۔
پر اپ محترم کا مینے مضمون پڈھا تو اپ کا کہنا ہے کے مقتدی نفل مے دے پر فرض مے نہ دے۔ اسی متعلق وضاحت کے لیے مینے اور ہمارے عزیز نے اپسے اس مے فرق کرنے کی دلیل مانگی تو ما شا اللہ اپ کا کہنا اب یے ہے کے قرآن کی کونسی ایت رحمت ہے کونسی عذاب اور کونسی دعا ہے اور انکا کیا جواب دیا جائے بتاو؟ اور پہر یہ بھی کہتے ہے کے جب تک یہ جواب نہ دوگے بات نہ ہوگی؟؟

اپکے اس ترظ ء عمل سے اپنے یہ اعتراف کرلیا ہے کے اس فرق کی اپکے پاس کوئ دلیل اور جواب نہی بلکہ مھظ ظن پر یہ تفریق مبنی ہے۔
اور راح ء اعتدال یہ یے کہ مقتدی کے جواب کے لیے فرض نفل دونوی مے انکار کرے یا اثبات کرے تو فرض نفل دونوی مے کرے۔

بہر حال جواب نہ دیکر گفتگو سے گریز کرنے کے لیے بڈا اچھا انداز ہے۔

اور رہی بات اپکے اس سوال کے جواب تو شیخ نہ ہی یہ مضمون میرا ہے اور نہ ہی صحیح مسلم کی یہ حدیث مینے پیش کی ہے بلکہ اپ محترم کا ہی یے مضمون ہے اور یہ حدیث بھی اپ ہی نے پیش کی ہے تو پہر اپ ہی کی پیش کردہ حدیث کی اپ بنفس ہی شرح کرکے ان سوالات کا جواب بھی پیش کر دیجیئے جو اپنے پوچھا ہے۔ یہ کیا بات ھے کے مسالہ اپ پیش کرتے ہے اور اسکے بارے مے سوال ہم سے پوچھتے ہے؟

باقی اپکے جواب، جو در اصل سوال ہے، ارسال کرکے اپنے یہ اظھار کیا ہے کے اپسے اس کے تعلق سوال نہ کیا جائے۔

اللہ ہم سب پر رحم کرے۔ آمین
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
امید کرتا ہو ہمارے شیخ بخیر ہوگے۔

شیخ ء محترم اپ نے مجہے پہلے ہی بتا دیا ہوتا کے مےرا سوال پوچھنا اپکو پسند نہ ایا ہے تو مے وہی پر رک جاتا۔

ما شا اللہ بڈا ہی خوب سوال کیا ہے۔

اپکے پوسٹ پر اعتراز کرنے کا ہمارا کوئ ارادہ نہ تھا۔ مینے اس تعلک سے بحمد اللہ اہل علم کے اقوال ملاحظہ کیے ہے۔ جن علماء نے فرض اور نفل مے اسے جائز قرار دیا ہے انمے بعض ایسے ہے جو امام اور منفرد کے لیے ہی جائز کہتے ہے اور اکثر ایسے ہے جو مقتدی کے لیے بہی جائز قرار دیتے ہے خواہ فرض ہو یا نفل۔
پر اپ محترم کا مینے مضمون پڈھا تو اپ کا کہنا ہے کے مقتدی نفل مے دے پر فرض مے نہ دے۔ اسی متعلق وضاحت کے لیے مینے اور ہمارے عزیز نے اپسے اس مے فرق کرنے کی دلیل مانگی تو ما شا اللہ اپ کا کہنا اب یے ہے کے قرآن کی کونسی ایت رحمت ہے کونسی عذاب اور کونسی دعا ہے اور انکا کیا جواب دیا جائے بتاو؟ اور پہر یہ بھی کہتے ہے کے جب تک یہ جواب نہ دوگے بات نہ ہوگی؟؟

اپکے اس ترظ ء عمل سے اپنے یہ اعتراف کرلیا ہے کے اس فرق کی اپکے پاس کوئ دلیل اور جواب نہی بلکہ مھظ ظن پر یہ تفریق مبنی ہے۔
اور راح ء اعتدال یہ یے کہ مقتدی کے جواب کے لیے فرض نفل دونوی مے انکار کرے یا اثبات کرے تو فرض نفل دونوی مے کرے۔

بہر حال جواب نہ دیکر گفتگو سے گریز کرنے کے لیے بڈا اچھا انداز ہے۔

اور رہی بات اپکے اس سوال کے جواب تو شیخ نہ ہی یہ مضمون میرا ہے اور نہ ہی صحیح مسلم کی یہ حدیث مینے پیش کی ہے بلکہ اپ محترم کا ہی یے مضمون ہے اور یہ حدیث بھی اپ ہی نے پیش کی ہے تو پہر اپ ہی کی پیش کردہ حدیث کی اپ بنفس ہی شرح کرکے ان سوالات کا جواب بھی پیش کر دیجیئے جو اپنے پوچھا ہے۔ یہ کیا بات ھے کے مسالہ اپ پیش کرتے ہے اور اسکے بارے مے سوال ہم سے پوچھتے ہے؟

باقی اپکے جواب، جو در اصل سوال ہے، ارسال کرکے اپنے یہ اظھار کیا ہے کے اپسے اس کے تعلق سوال نہ کیا جائے۔

اللہ ہم سب پر رحم کرے۔ آمین
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.
حسن ظن نہ کیا تو کیا کیا؟
اگر آپ کو گفتگو کرنے کا اسلوب نہیں معلوم تو سیکھ لیں. لیکن ازراہ کرم بات بولنے سے پہلے ایک بار سوچ لیا کریں.
محترم شیخ مقبول احمد سلفی صاحب حفظہ اللہ بڑی مشکل سے وقت نکال پاتے ہیں. انکی مشغولیت بہت زیادہ رہتی ہیں. اسکا آپ کو شاید علم نہیں.

دوسری بات یہ کہ کبھی کبھار سوال کے جواب میں بھی سوال کیا جاتا ہے. اور یہ سمجھانے کا ایک انداز ہوتا ہے. اور یہ انداز پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود بھی اختیار کیا ہے.

اسلۓ صبر وتحمل سے بات کریں.
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اپکے اس ترظ ء عمل سے اپنے یہ اعتراف کرلیا ہے کے اس فرق کی اپکے پاس کوئ دلیل اور جواب نہی بلکہ مھظ ظن پر یہ تفریق مبنی ہے۔
آپ کے اس اسلوب سے دکھ ہوا، یہ اسلوب مقلدوں کا ہے اہل حدیث کا نہیں ۔

میں نے فرض نماز میں مقتدی کے کسی آیت کا جواب دینے کا انکار کیاسوائے آمین کے کیونکہ کسی حدیث سے اس کی صراحت نہیں ملتی ہے ۔ آپ میرے اس موقف کو تسلیم نہیں کرتے گویا آپ اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ مقتدی فرض نماز میں قرآنی آیات کا جواب دے سکتا ہے ۔ اصول سمجھ لیں پھر سوال کریں ۔
اصول یہ ہے کہ دعوی کرنے والے پر دلیل ہوتی ہے انکار کرنے والے پر نہیں ۔
البيِّنةُ على المدَّعي واليَمينُ علَى مَن أنكرَ(إرواء الغليل:2685)
ترجمہ:دلیل دینا اس کے اوپرہے جو دعوی کرے اور قسم کھانا اس کے اوپر ہے جو انکار کرے ۔
اس کی مکمل وضاحت میرے بلاگ پر جاکرکریں ۔ لنک یہ ہے ۔
اس لئے اصولا جو بات کا ذکر آپ کررہے ہیں اس کی دلیل آپ کے ذمہ ہے اور ان مندرجہ ذیل باتوں کی ۔
اب آپ پہلے بتادیں کہ کون سی کون سی آیت رحمت ہیں؟ کون ہی آیات عذاب ہیں اور کون سی آیات دعا ہیں ؟ اس کے بعد ان آیات کا امام کیا جواب دے ، مقتدی کیا جواب دے ؟ دلیل سے واضح کریں پھر بات ہوگی۔ پرانی بات مت دہرائیں بہت دہراچکے ۔
یہ رہے سوالات ۔


 
Top