• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مقلدوں سے چند سوالات کے جوابات درکار ہیں ؟؟-

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
جاوید بھائی محترم ابن داود بھائی کا جواب پڑھ لیں
آپ دونوں میں سے کس کی بات صحیح ہے؟
آپ نے بلا دلیل و حوالہ لکھا جو کہ آپ کے منہج کے خلاف ہے۔ ابوداود نے احناف کے اقوال لکھے اور یہ بھی اس کے منہج کے خلاف ہے کہ یہ اقوال قرآن و حدیث نہیں۔ کیا احناف یا دیگر امتیوں کے اقوال کو بلا دلیل تسلیم کرنا تقلید کے ضمن میں آئے گا؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
پیارے بھائی تقلید کی مثال جسم کے لئے غذا کی سی ہے۔ جسم کی نشو و نما کے لئے غذا ضروری ہے۔
جی ! شیطانی مذہب میں! اور شیطان کا چیلہ بننے کے لئے اس غذا کی ضرورت ہوگی!
اگر غذا استعمال نہیں کرے گا تو ضعف آئے گا اور موت کا بھی خظرہ ہے۔
شیطان کے مذہب کے مطابق!
اس لئے غذا پر حالات کے مطابق مستحب واجب یا فرض کا اطلاق ہوگا۔
جو جتنا بڑا شیطان کا چیلہ اس کے لئے ایسا ہی حکم!
بعین اسی طرح طاعات کے لئے سنت طریقہ ظروری ہے۔ اس کے بغیر چارۂ کار نہیں کہ ہر آنسان اس کا مکلف ہے۔
مگر فقہ حنفی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو رد کر کرے اپنے اٹکل پچو کی مکلف بناتی ہے!
تقلید ایک ضرورت ہے اور اس ضرورت کی نشاندہی اللہ تعالیٰ قرآن میں عمومی طور پر اور سورت فاتحہ میں خصوی طور پر ذکر فرما دی۔
یہ قرآن پر جھوٹ ہے!
تقلید صحابہ کے دور سے ہی مشروع رہی ہے۔
یہ بھی صحابہ اور تابعین پر جھوٹ ہے!
تمام صحابہ خلیفہ وقت یا گورنر یا قاضی سے ہی استفادہ فرماتے تھے اور ان سے جھگڑتے نہ تھے اور نہ ہی ان سے دلائل طلب کرتے تھے۔
اس کا تقلید سے کوئی تعلق نہیں!
صحابہ کرام کے زمانہ میں کسی صحابی نے فقہ مدون نہ کی تھی کہ جس سے دوسرے استفادہ کرتے۔ اس لئے وہ ان صحابہ کرام کی طرف رجوع کرتے جو اس علاقہ میں تعلیم و تربیت کا کام سرانجاجام دیتے یا اس کام پر مأمور تھے۔
اقوال صحابہ آج بھی موجود ہیں! جس طرح اقوال ابوحنیفہ!
صحابہ کے فتاوی پر عمل بھی تقلید کی تعریف میں شامل نہیں!
سب سے پہلے ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے زمانہ میں فقہ مدون ہوئی۔ ان سے پہلے کسی نے فقہی مسائل کو یکجا مدون نہیں کیا تھا۔
یہ بھی جھوٹ ہے کہ سب سے پہلے ابو حنیفہ نے فقہ مدون کی، موطا مالک فقہ تدوین کا شاہکار اس سے قبل موجود ہے!
ابو حنیفہ رحمۃ اللہ نے انفرادی طور پر فقہ مدون نہیں کی بلکہ فقہ مدون کرتے وقت ہر فن کے ماہرین سے استفادہ کیا۔ پوری فقہ عمومی طور پر اتفاق رائے سے لکھی گئی اور جہاں اتفاق رائے نہ ہو سکا تو اختلاف بھی لکھا گیا۔
یہ پورا اہل الرائے کا ٹولہ تھا، اور ان میں سے اکثر ضعیف و کذاب، مرجئی و جہمی افراد تھے!
ابو حنفہ رحمۃ اللہ کے بعد کچھ دوسرے حضرات نے بھی فقہیں مدون کیں مگر یہ تمام انفرادی کوششیں تھیں جن میں غلطی امکانات زیادہ تھے اور غلطیان ہوئیں جو بعد میں واضح ہوگئیں۔
جی مگر ان کی فقہ کی بنیاد رائے کے اٹکل پچو نہیں، بلکہ قرآن وحدیث تھی۔ اور ان کی فقہ قرآن و حدیث کی قرآن و حدیث سے اکثر مطابقت ہے! باقی غلطی سے پاک کسی کی فقہ و فتاوی نہیں ہو سکتے!
حنفی مسلک کے کچھ مسائل پر اعتراضات کئے جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق لوگوں کا نصوص سے مکمل واقف نہ ہونا ہے یا کچھ لوگ دھوکہ دہی سے کام چلاتے ہین۔
امام ابو حنیفہ خود یتیم فی الحدیث، انہیں نصوص کا علم کم رہا، امام ابو حنیفہ کے گلے کی گھنٹی دوسرے کے گلے ڈالنے کی کوشش ہے!
آپ نماز ہی کے مسائل کو لے لیں۔ نماز سے متعلق حنفی مسلک کے تمام مسائل پورے ذخیرہ احادیث پر حاوی ہوتے ہیں
فقہ حنفی نماز ثابت شدہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے! ہاں یوں کہوں کہ ضعیف و موضوع احادیث کے ذخیرہ سے اخذ کر گئی ہے تو درست ہوگا!
جبکہ مخالفین کسی نہ کسی حدیث پر معترض نظر آئیں گے کبھی سند پر اور کبھی تفہیم پر۔
جب حنفی مقلدین ضعیف و موضوع روایات پیش کریں گے تو سند پر اعتراض تو آئے گا!
اور جب اہل الرائے کی کج فہمی پر مبنی استدلال کیا جائے گا تو ان اہل الرائے کے اٹکل پچو کا بطلان بھی بتایا جائے گا!
تقلید شخصی آج کے زمانہ میں خصوصاً اور ہر دور میں عموماً واجب ہے کہ دین پر سنت کے مطابق عمل کرنا ہر ایک پر واجب ہے۔
یہ دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں مقلدین کی جانب سے شریعت سازی ہے!
شرع میں کوئی بھی عمل اپنی مرضی کے مطابق کیا ہؤا قابل قبول نہیں جب تک کہ اس عمل پر مہرِ نبوت موجود نہ ہو۔
جی! بالکل! اور تقلید کے وجوب تو کیا جواز پر بھی مہر نبوت نہیں!
تقلید شخصی کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ ایک علاقہ میں یکرنگی ہو۔ اگر یک رنگی ہوگی تو یہ کفار کو متأثر کرے گی۔
قرآن و حدیث کو چھوڑ کر یک رنگی کی کوشش کرنا، دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں حرام ہے!
اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ آمین
دین کی صحیح فہم کے لئے تقلید کا طوق اتارنا لازم ہے!
اللہ توفیق دے، آمین!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ابوداود نے احناف کے اقوال لکھے اور یہ بھی اس کے منہج کے خلاف ہے کہ یہ اقوال قرآن و حدیث نہیں۔ کیا احناف یا دیگر امتیوں کے اقوال کو بلا دلیل تسلیم کرنا تقلید کے ضمن میں آئے گا؟
ابن داود نے شرعی مسئلہ اخذ نہیں کیا، فقہ حنفیہ سے تقلید کی تعریف نقل کی ہے، ابن داودکے اسے قبول کرنے نہ کرنے کا مسئلہ نہیں، بات ہے فقہ حنفیہ اسے قبول کرتی ہے!
دوم کہ یہ شرعی مسئلہ نہیں ایک اصطلاح ہے!
کسی فعل کو اصطلاحی نام دیا جاتا ہے، اگر وہ فعل کے حلال و حرام و جائز ہونا کا حکم قرآن و حدیث سےاخذ کیا جاتا ہے!
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190
تقلید کی لغوی تعریف:
دیوبندیوں کی لغت کی مستند کتاب ”القاموس الوحید“ میں لکھا ہے:
1:- قلّد۔۔فلاناً: تقلید کرنا،بنادلیل پیروی کرنا،آنکھ بن کر کے کسی کے پیچھے چلنا (القاموس الوحید:1346)
2:-التقلید:بے سوچے سمجھے یا بنادلیل پیروی،نقل،سپردگی (القاموس الوحید:1346)
3:-امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اما التقلید فاصلہ فی الغة ماخوزمن القلادہ التی یقلد غیربہاومنہ تقلیدالہدی فکان المقلد جعل زلک الحکم الذی قلد فیہ المجتھد کالقلادة فی عنق من قلدہ۔ "یعنی تقلیدلغت میں گلے میں ڈالے جانے والے پٹے سے ماخوز ہے اور وقف شدہ حیوانات کے گلے میں طوق ڈالنا بھی اسی میں سے ہے، تقلید کو تقلید اس لئے کہتے ہیں کہ اسمیں مقلد جس حکم میں مجتہد کی تقلید کرتا ہے، وہ حکم اپنے گلے میں طوق کی طرح ڈالتا ہے۔"(ارشاد الفحول ص:۱۴۴)
4:- اسی طرح غیاث الغات میں تقلید کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے: ”گردن بنددرگردن انداختن وکار بعھد کسی ساختن وبر گردن خود کار بگرفتن و مجاز بمعنی پیروی کسی بے در یافت حقیقت آن“ یعنی تقلید گلے میں رسی ڈالنے یا کسی کے زمےکوئی کام لگانے کا نام ہے۔اسی طرح اپنے زمہ کوئی کام لینابھی تقلید کہلاتا ہے ، اس کے مجازی معنیٰ یہ ہیں کی حقیقت معلوم کیے بغیرکسی کی تا بعداری کی جائے۔ (غیاث الغات ص:۳۰۱)
تقلید کی اصطلاحی تعریف 1:-حنفیوں کی معتبر کتاب ”مسلم الثبوت“میں لکھا ہے: ”التقلید: العمل بقول الغیرمن غیر حجةکا خذ العامی والمجتھد من مثلہ، فا لرجوع الی النبی علیہ الصلاٰة والسلام او الی ا الجماع لیس منہ و کذا العامی الی المفتی والقاضی الی العدول لا یجاب النص ذلک علیھما لکن العرف علی ان العامی مقلد للمجتھد، قال الامام: وعلیہ معضم الاصولین“ الخ تقلید کسی دوسرے کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتھدکسی دوسرے مجتھد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة اولسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا(تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق) ہیں“۔ الخ (مسلم الثبوت ص:289طبع 1316ھ وفواتح الر حموت ج۲ ص400)
2:-امام ابن ہمام حنفی (متوفی۱۶۸ھ) نے لکھا ہے: ”مسالة:التقلید العمل بقول من لیس قولہ احدی الحجج بلا حجة منھا فلیس الرجوع النبی علیہ الصلاة والسلام واالاجماع منہ“ مسئلہ:تقلید اس شخص کے قول پر بغیر دلیل عمل کو کہتے ہیں جس کا قول (چار) دلائل میں سے نہیں ہے۔پس نبی علیہ الصلاةوالسلام اوراجماع کی طرف رجوع تقلید میں سے نہیں ہے۔ (تحریر ابنِ ہمام فی علم الاصول جلد 3 ص453) نوٹ : بلکل یہی تعریف ابنِ امیر الحجاج الحنفی نے کتاب التقریروالتحبیرفی علم الاصول ج۳ص ۳۵۴،۴۵۴ اور قاضی محمد اعلیٰ تھانوی حنفی نے کشاف الاصطلاحات الفنون ج ۲ص۸۷۱۱ میں بیان کی ہے کہ نبی علیہ الصلاةوالسلام اور اجما ع کی طرف رجو ع کرنا تقلید نہیں (کیونکہ اسے دلیل نے واجب کیا ہے) 3:-تقلید کی ایک اور مشہور اصطلاحی تعریف یہ کی گئی ہے: ”ھو عمل بقول الغیر من غیر حجة“ کسی دوسرے کی بات پر بغیر (قرآن وحدیث کی) دلیل کے عمل
4:-قاری چن محمد دیوبندی نے لکھا ہے: ”اور تسلیم القول بلا دلیل یہی تقلید ہے یعنی کسی قول کو بنا دلیل تسلیم کرنا، مان لینا یہی تقلید ہے“ (غیر مقلدین سے چند معروضات ص۱ عرض نمبر ۱)
5:-مفتی سعید احمد پالن پوری دیوبندی نے لکھا ہے: کیونکہ تقلید کسی کا قول اس کی دلیل جانے بغیر لینے کا نام ہے۔ (آپ فتویٰ کیسے دیں گے؟ ص۶۷)
6:-اشرف علی تھانوی کے ملفوضات میں لکھا ہے: ایک صاحب نے عرض کیا تقلید کی حقیقت کیا ہے؟ اور تقلید کسے کہتے ہیں؟ فرمایا : تقلید کہتے ہیں: ”اُمتی کا قول بنا دلیل ماننا“ عرض کیا کہ کیا اللہ اور رسول علیہ الصلاةوالسلام کی بات ماننا بھی تقلید ہے؟ فرمایا اللہ اور رسول علیہ الصلاةوالسلام کی بات ماننا تقلید نہیں بلکہ اتباع ہے۔ (الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ ملفوضات حکیم الامت ج۳ص۹۵۱ ملفوض:۸۲۲)
7:-مفتی احمد یار نعیمی حنفی بریلوی لکھتے ہیں: ”مسلم الثبوت میں ہے ، ”التقلید العمل بقول الغیر من غیر حجة“ اس تعریف سے معلوم ہوا کہ حضورعلیہ الصلاةوالسلام کی اطاعت کو تقلید نہیں کہہ سکتے کیونکہ انکا ہر قول دلیل ِ شرعی ہے (جبکہ) تقلید میں ہوتا ہے دلیل ِ شرعی کو نہ دیکھنا لہذا ہم نبی علیہ الصلاةوالسلام کے اُمتی کہلائیں گے نہ کے مقلد۔اسی طرح صحابہ کرام اور ائمہ دین حضورعلیہ الصلاةوالسلام کے اُمتی ہیں نہ کہ مقلداسی طرح عالم کی اطاعت جو عام مسلمان کرتے ہیں اس کو بھی تقلید نہ کہا جائے گاکیونکہ کوئی بھی ان علماءکی بات یا ان کے کام کواپنے لئے حجت نہیں بناتا، بلکہ یہ سمجھ کر ان کی بات مانتا ہے کہ مولوی آدمی ہیں کتاب سے دیکھ کر کہہ رہے ہوں گے۔۔۔( جاءالحق ج۱ ص۶۱ طبع قدیم)
8:-غلام رسول سعیدی نے لکھا ہے: تقلید کے معنی ہیں(قرآن و حدیث کے) دلائل سے قطع نظر کر کے کسی امام کے قول پر عمل کرنا اور اتباع سے مراد یہ ہے کہ کسی امام کہ قول کوکتاب و سنت کہ موافق پا کراور دلائل ِ شرعیہ سے ثابت جان کراس قول کو اختیار کر لینا(شرح صحیح مسلم ج۵ص۳۶)
9:-سرفرازخان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں: اور یہ طے شدہ بات ہے کہا کہ اقتداءو اتباع اور چیز ہے اور تقلید اور چیز ہے (المنہاج الواضح یعنی راہ سنت ص۵۳)
10:-مام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قبول قول لا یدری ما قال من این قال و زلک لا یکون علماً دلیلہ قولہ تعالیٰ: فا علم انہ لا الہ الا اللہ، فامر با لمعرفة لا بظن والتقلید۔ تقلید ایسی بات کے ماننے کو کہتے ہیں جس کی حیثیت اور ماخذ معلوم نہ ہو۔ ایسی بات کے ماننے کو علم نہیں کہتے کیونکہ اللہ کا فرمان ہے ”جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں“ اس (آیت) میں اللہ نے جاننے کا حکم دیا ہے نہ کہ گمان اور تقلید کا ۔ (فقہ اکبر للشافعی رحمہ اللہ ص۰۱)
کرنا تقلید ہے۔ (ارشاد الفحول ص441، شرح القصیدة الامالیة لملا علی القاری حنفی و تفسیر القرطبی 2112)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190
نوٹ: بریلویوں،دیوبندیوں اور علمِ اصول کے علماءکی ان تعریفوں سے درج باتیں ثابت ہوتی ہیں:

1:-کسی دوسرے شخص کی بات پر ( قرآن و حدیث کی) دلیل کے بغیر عمل کرنا ”تقلید “ ہے۔

2:-احادیث پر عمل کرنا تقلید نہیں۔

3:-اجما ع پر عمل کرنا تقلید نہیں۔

4:-علماءکی بات پر ( دلیل جان کر) عمل کرنا تقلید نہیں بلکہ یہ اتباع کہلاتا ہے۔

5:-اسی طرح قاضی کا گواہوں کی طرف اور عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں۔

6:-صرف اس گمان اور قیاس پر امام کی اندھا دھند تقلید کرنا کہ اُس کی بات کتاب و سنت کے مطابق ہو گی باطل ہے کیونکہ اللہ نے جاننے کا حکم دیا ہے نہ کے گمانوں اور قیاس آرائیوں کا ( دیکھئے امام شافعی کی آخری تعریف) ۔ مقلدین ہر جگہ یہ شورمچاتے نظر آتے ہیں کہ فلاں غیر مقلد نے اپنے فلاں عالم کی کتاب سے استفادہ کر لیا یا فلاں عالم سے مسئلہ پوچھ لیا اس لئیے وہ اُس عالم کا مقلد بن گیا ہے۔۔۔۔۔ جبکہ آلِ تقلید کے اپنے اکابرین نے تقلید کی جو تعریف کی ہے اُس کے مطابق دلیل کے ساتھ کسی عالم کی بات بیان کرنے یا اس پر عمل کرنے کو تقلید کہتے ہی نہیں۔ ہم مقلدین سے پوچھتے ہیں کہ اگر ایک حنفی شخص تقی عثمانی سے کوئی مسئلہ پوچھتا ہے اور مولانا کے بتا ئے ہوئے مسئلے پر عمل بھی کرتا ہے تو وہ کس کا مقلد کہلائے گا، تقی عثمانی کا یا امام ابو حنیفہ کا؟؟؟ ظاہری بات ہے کہ وہ امام ابوحنیفہ کا ہی مقلد کہلائے گا یعنی کسی عالم سے مسئلہ پوچھنا تقلید نہیں، اگر یہ تقلید ہے تو پھر اسوقت دنیا میں کوئی ایک بھی حنفی موجود نہیں بلکہ سب اپنے اپنے علماء کے مقلد ہیں۔۔۔۔فما کان جوابکم فھوجوابنا

تقلید اور مقلدین کی تاریخ پر ایک نظر:

شاہ ولی اللہ حنفی لکھتے ہیں:

اعلم ان الناس کا نو قبل الما ئة الرابعة غیر مجمعین علی التقلید الخالص لمذھب واحد

یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ چوتھی صدی سے پہلے لوگ کسی ایک مخصوص مذہب کی تقلید پر متفق نہیں تھے ( حجة اللہ البالغہ ص ۴۵۱)

قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی لکھتے ہیں:

فان اہل السنة والجمة قد افترق بعد القرون الثلاثة او الاربعة علی اربعة مذاہب

اہل سنت والجماعت چوتھی یا پانچویں صدی میں چار مذاہب میں متفرق ہوئے۔ ( تفسیر مظہری)

امام ابنِ قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

انما حد ثت ھذہ البدعة فی القرن الرابع المذمومة علیٰ لسانہ علیہ الصلاة والسلام۔

تقلید کی بدعت چوتھی صدی ہجری میں پیدا ہوئی جسے نبی علیہ الصلاة والسلام نے مذموم قرار دیا تھا۔ ( اعلام المو قعین ۲۸۹۱)

نوٹ:

نبی علیہ الصلاة والسلام نے فرمایا :

خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم

سب سے بہتر ین زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر اُس کے بعد والوں کا پھر اُس کے بعد والوں کا ( صحیح بخاری حدیث نمبر:۲۵۶۲)

جبکہ اوپر پیش کردہ حوالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جن تین زمانوں کو نبی علیہ الصلاة والسلام نے بہترین زمانے کہا تھا اُن تینزمانوں میں تقلید کا نام و نشان بھی نہیں تھا، نہ کوئی حنفی تھا اور نہ کوئی شافعی بلکہ سب لوگ کتاب و سنت پر ہی عمل کرتے تھے ،پھر جب نبی علیہ الصلاة والسلام کے بتائے ہوئے یہ تین بہترین زمانے گزر گئے تو چوتھی صدی میں تقلید کے فتنے نے جنم لیا جس کی وجہ سے اُمت تفرقے کا شکار ہو گئی اور چار مذاہب وجود میں آ گئے جو آج بھی حنفیہ، شوافع، مالکیہ اور حنابلہ کی شکل میں موجود ہیں جبکہ ان باطل مذاہب کے مقابلے میں ہر دور میں علماء حق کی ایک جماعت موجود رہی ہے جس نے تقلید کے فتنے کا علی اعلان رد کیا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں حق پر ثابت قدم رکھے ( امین) ۔
 
شمولیت
جنوری 02، 2017
پیغامات
175
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
بھائی میں تقلید کے تعلق سے صرف ایک یہ بات معلوم کرنا چاہتاہوں، اگر تعبیر میں کچھ نامناسب لفظ آجائے تو خدارا معاف کرنا

سوال یہ ھے کہ تقلید کی یہ تعریف جو محترم ابن داود نے حوالہ جات کے ساتھ پیش کی ھے کیا یہ تعریف علمائے متقدمین سے ثابت ھے

اگر ثابت ھے تو حوالہ درکار ھے

اور اگر ثابت نھیں ھے حنفیوں کی تعریف پر اعتماد کیوں کیا جاتا ھے
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190
تقلید کا رد قرآن سے:
پہلی آیت:- پیچھے مت پڑو اس چیز کے جس کا تمہیں کوئی علم نہیں ہے۔ (سورة الاسرائیل36)
مقلد جو کام بھی کرتا ہے وہ اس گمان اور قیاس پر کرتا ہے کہ میرے امام نے ایسا کیا ہے ضرور ان کے پاس کوئی دلیل ہو گی۔۔۔۔۔اس بات پرعلماءکا اتفاق ہے کہ تقلیدعلم نہیں اور نہ مقلد عالم گردانا جاتا ہے تو بطور تقلید (دلیل جانےبغیر) کسی کی بات ماننا اس آیت کی رو سے ممنوع ٹھہرا۔ آیئے اب ہم اُن آئمہ سلف کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے سینکڑوں سال پہلے اس آیت سے تقلید کے رد پر استدلال کیا ہے:
1:- امام قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
«التقلید لیس طریقاً ولا موصلاً لہ فی الاصول ولا فی الفروع وہو قول جمھود العقلائِ و العلماءخلافا لما یحکی عن الجھا الحشویہ والثعلبیة من انہ طریق الی معرفة الحق»(تفسیر القرطبی :۲۲۱۲)
تقلید نہ علم کا راستہ ہے اور نہ ہی اصول و فروع میں علم تک رسائی حاصل کرنے کا ذریعہ ہو سکتا ہے، یہ قول تمام علماء اورعقلاء کا ہے جبکہ اسکے برعکس حشویہ اور ثعلبیہ تقلید کو حصولِ حق کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
2:- امام ابنِ قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«اجمع الناس ان المقلد لیس معدوداً من اھل العلم وان العلم معرفة الحق بدلیلہ“ (اعلام الموقعین:۲۶۰۲) »
علماءکا اس بات پر اجماع ہے کہ مقلد کا شمار علماءمیں نہیں ہوتاکیونکہ علم دلیل کے ساتھ معرفت حق کا نام ہے (جبکہ تقلید بغیر دلیل اقوال و آراءکو مان لینے کا نام ہے) ۔
مزید لکھتے ہیں:”وقد اجمع العلماءعلی ان مالم یتبین فلیس بعلم وانماہوظن لا یغنی من الحق شئاً“ (اعلام المو قعین:۲۹۹۱)
علماءکا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو بات یقینی طور پر دلائل سے ثابت نہ ہووہ علم نہیں ہے بلکہ گمان ہے اور گمان کے ذریعے حق کا حصول نا ممکن ہے۔
3:- امام شوکانی رحمہ اللہ اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں:
«ومعنی الایة النھی عن ان یقول الانسان ما لا یعلم او یعمل بما لا علم لہ بہ و یدخل فیہ الآ راءالمدونة فی الکتب الفروعیة مع انھا لیست من الشرع فی شی ئٍ وتدخل تحت ھذہ الآیة»(ملحضاً فتح القدیر:۳۷۲۲)
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان وہ بات نہ کرے جس کے بارے میں اس کو علم نہ ہو اور نہ اس بات پر عمل کرے جس کے بارے میں وہ کچھ نہ جانتا ہو اور مسائل میں جو کتابیں مقلدین نے لکھی ہیں وہ اسی زمرے میں آتی ہیں یعنی وہ دین کا حصہ نہیں ہیں
اس کے علاوہ درج ذیل علماءنے اس آیت سے تقلید کے باطل ہونے پر استدلال کیا ہے:
4:- امام غزالی (المستصفٰی من علم الاصول:۲۹۸۳)
5:- امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ (الرد علی من اخلدالی الارض ص:۵۲۱تا۰۳۱)
یہی وجہ ہے کہ علامہ زمحشری نے اپنی کتاب ”اطواق الذھب“ میں مقلدین کی جہالت پر کچھ یوں تبصرہ کیا ہے: ” «ان کان للضلال اُم فالتقلید امہ فلا جرم ان الجاھل یومہ» “ یعنی اگرگمراہی کی کوئی ماں ہوتی تو تقلید اُس کی بھی ماں کہلاتی یہی وجہ ہے کہ جاہل ہی تقلید کا قصد کرتا ہے۔ (العیازباللہ)
دوسری آیت:- « اتخذواحبارہم ورہبانہم ارباباًمن دون اللّہِ» ﴿ (سورہ التوبہ ایت31)
ترجمہ:- انھوں نے اپنے احبار ( مولویوں) اور رحبار ( پیروں) کواللہ کے سوا رب بنا لیا
اس آیت کی تفسیر نبی علیہ الصلاة والسلام نے خود فرمائی ہے،
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ ( جو اسلام قبول کرنے سے قبل عیسائی تھے) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی علیہ الصلاة والسلام کو یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا تو عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول علیہ الصلاة والسلام ہم نے ان کی کبھی بھی عبادت نہیں کی اور نہ ہم مولویوں اور درویشوں کو رب مانتے تھے تو نبی علیہ الصلاة والسلام نے فرمایا:
ا «ما انھم لم یکونوایعبدونھم ولکن ھم اذا احلو الھم شیئا استحلو واذاحرمواعلیھم شیئا حرموھ»
وہ اپنے علماءکی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن جب ان کے علماءکسی چیز کو حلال کہہ دیتے تو وہ اسے حلال کر لیتے اور جب وہ کسی چیز کو حرام قرار دیتے تو وہ بھی اسے حرام تسلیم کر لیتے (سنن ترمذی مع تحفة الاحوزی ص:۷۱۱ج۴)
اس آیت سے درج ذیل علماءنے تقلید کے رد پر استدلال کیا ہے:
1:- امام ابن عبد البررحمہ اللہ (جامع بیان العلم وفضلہ جلد :۲صفحہ :۹۰۱)
2:- امام ابن حزم رحمہ اللہ (الاحکام فی الاصول الاحکام جلد:۶صفحہ:۳۸۲)
3:- امام ابنِ القیم رحمہ اللہ (اعلام الموقعین جلد:۲ صفحہ ۰۹۱)
4:- امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ (باقرارہ، الردعلیٰ من اخلدالی الارض صفحہ ۰۲۱)
۵) امام الخطیب البغدادی رحمہ اللہ (الفقیہ المنفقہ جلد :۲صفحہ:۲۲)
نوٹ: مقلدین اس آیت پر یہ اعتراض اٹھا سکتے ہیں کہ یہ آیت تو یہود و نصاریٰ کے بارے میں ہے۔۔۔۔تو اس کا جواب حاضرِ خدمت ہے:
پہلا جواب: ” العبرة لعموم اللفظ لا لخصوص السبب“ یعنی لفظ کے عموم کا اعتبار ہوتا ہے نہ کے سبب کے خصوص ( شانِ نزول) کا۔ اگر ایسا نہ ہو یعنی اگر لفظ کے عموم کا اعتبار نہ کیا جائے تو پھر قرآن مجید کی کوئی آیت ہم پر صادق نہیں آئے گی۔
دوسرا جواب: نبی علیہ الصلاة والسلام نے ارشاد فرمایا: لتتبعن سنن من کان قبلکم ( بخاری،مشکوة ۸۵۴) کہ تم ضرور میرے بعد یہود و نصاریٰ کے طریقہ کار کو اختیار کرو گے اور حقیقت یہی ہے کہ جس طرح انہوں نے اپنے علماءاور پیروں کو شارع کی حیثیت دی اسی طرح اس امت کے مقلدین نے بھی اپنے اماموں کو وہی حیثیت دے دی۔
تیسرا جواب: اس آیت سے ہر دور میں علماءنے تقلید کے رد پر استدلال کیا ہے چنانچہ امام ابنِ قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقداحتج العلماءبہذھ الایات فی ابطال التقلید ولم یمنعھم کفر اولئک من الاحتجاج بھا، لا التشبیہ لم یقع من جھة کفر احدھماوایمان الاخر، وانماوقع التشبیہ بین المقلدین بغیر الحجة للمقلد ۔۔۔۔“ (اعلام الموقعین ج:۲ص۱۹۱)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190
علماءنے ان آیات کے ساتھ ابطال ِ تقلید ( تقلید کے باطل ہونے) پراستدلال کیا ہے، انہیں ( ان آیات میں مذکورین کے) کفر نے استدلال کرنے سے نہیں روکا، کیونکہ تشبیہ کسی کے کفر یا ایمان کی وجہ سے نہیں ہے، تشبیہ تو مقلدین میں بغیر دلیل کے ( اپنے) مقلد ( امام،راہنما) کی بات ماننے میں ہے۔
تیسری آیت:- آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم
( اپنے عمل و اعتقاد میں ) سچے ہو تو دلیل لاﺅ۔ ( البقرة۔۱۱۱)
لیکن ہر زمانے میں یہی دستور رہا کہ جب بھی مقلد سے اس کے عمل پر دلیل طلب کی جاتی ہے تو وہ بجائے دلیل لانے کے اپنے آباءو اجداد اور بڑوں کا عمل دکھاتا کہ یہ کام کرنے والے جتنے بزرگ ہیں کیا وہ سب گمراہ تھے؟ ہم تو انہی کی پیروی کریں گے۔ بالکل یہی بات قرآن کریم سے سنئیے
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا۔
( سورةلقمان۔21)
بالکل اسی طرح آج بھی کسی مقلدسے جب کہا جاتا ہے کہ بھائی اللہ تعالیٰ کا قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ ولیہ وسلم کی حدیث تو یوں کہتی ہے تو وہ جواب میں یہ کہتا ہے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ھدایہ پر عمل کرتے ہوئے پایا ہے اور ہمارے لئے یہی کافی ہے۔ یہی حال قرآن کریم کی زبان سے سنیئے۔
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکام نازل فرمائے ہیں ان کی طرف اور رسول کی طرف رجوع کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم کو وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے﴿
( سورة المائدة 104 )
اب مقلدین کچھ بھی کہہ لیں لیکن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہی ہے:
قسم ہے تیرے پروردگار کی یہ ایماندار نہیں ہو سکتے جب تک تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں ۔ النساء65
یہ آیت بتا رہی ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ سے راضی نہیں ہیں وہ لوگ کبھی مومن نہیں بن سکتے۔غرض یہ آیت تقلید کے باطل ہونے کی ایک زبردست دلیل ہے۔ اس آیت سے درج ذیل علماءنے تقلید کے ابطال پر استدلال کیا ہے۔
1:- امام ابنِ حزم رحمہ اللہ
( الاحکام۶۵۷۲)
2:- امام غزالی ( المستصفیٰ۲۹۸۳)
3:- امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ ( الرد علی من اخلدالی الارض ص۰۳۱)
دیگر دلائل کے لئے محولہ کتب کا مطالعہ کیجیے۔
تقلید کا رد احادیث سے:
پہلی حدیث:- "
«و کل بدعة ضلالة» " اور ہر بدعت گمراہی ہے ( صحیح مسلم،کتاب الجمعة باب تخفیف الصلاة والخطبة ح۸۶۸ وترقیم دارالسلام 2005)
اس سے پہلے بیان کیا جا چکا کہ تقلید چوتھی صدی ہجری میں پیدا ہونے والی ایک بدعت ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مطابق ہر بدعت گمراہی ہے۔
دوسری حدیث:- "
«فیبقی ناس جھال یستفتون فیفتون برایھم فیضلون ویضلون» "
( نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی ایک نشانی یہ بیان کی کہ) پس جاہل لوگ رہ جائیں گے، ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ اپنی رائے سے فتوی دیں گے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے ( صحیح بخاری: کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة باب من زم الراي ح ۷۰۳۷)
اس سے پہلے بیان کیا جا چکا کہ تقلید ( قرآن و حدیث کے) دلائل کے بغیر مجتھد کے اقوال کی اندھا دھند پیروی کا نام ہے یہی وجہ ہے کہ اس بارے میں تمام علماء کا اتفاق ہے کے تقلید علم نہیں بلکہ جہالت ہے۔
1:- امام ابن قیم رحمھ اللہ"القصیدةالنونية" میں فرماتے ہیں:
إذ أجمع العلماء أن مقلدا
للناس والأعمى هما أخوان
والعلم معرفة الهدى بدليله
ما ذاك والتقليد مستويان
"علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ مقلد اور اندھا دونوں برابر ہیں اور علم دلیل کی بنیاد پرمسئلہ سمجھنے کو کہتے ہیں جبکہ کسی کی رائے پر چلنے کا نام تقلید ہے اور اس رائے پر چلنے والے کو یہ معلوم بھی نہ ہو کہ یہ رائے حق پر مبنی ہے یا خطا پر"
2:- امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ا
لتقلید لیس طریقا للعلم ولا موصولا لھ فی الاصول ولا فی الفروع وھو قول جمھود العقلاء والعلماء خلافا لما یحکی من جھال الحشویة والثعلبیة من انھ طریق الی معرفة الحق
"یعنی تقلید نہ تو علم کا راستہ ہےاور نہ ہی اصول و فروع میں علم کی طرف رہنمائی کرتی ہے یہ جمھود عقلاء کی بہترین بات ہے جس کی مخالفت صرف ثعلبیہ اور حشویہ جیسے جہال نے کی ہے اور جو علماء تقلید کو واجب سمجھتے ہیں ہمارے خیال میں وہ قطعی طور پرعقل سے عاری ہیں" ( تفسیر القرطبی ۲/۲۱۲)
3:- امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا یقلد الا غبی او عصبی
تقلید صرف وہی کرتا ہے جو غبی
( جاہل) ہو یا جس کے اعصاب خراب ہوں ( لسان المیزان ۱/۲۸۰)
4:- زمحشری فرماتے ہیں:
ا
ن کان للضلال ام فالتقلید امھ
اگر گمراہی کی کوئی ماں ہوتی تو تقلید اس کی بھی ماں ہوتی ( اطواق الذہب۷۴)
غرض یہ کہ اس طرح کے ان گنت حوالے پیش کیئے جا سکتے ہیں جن میں معتبر عند الفریقین علماء نے تصریح کی ہے کہ مقلد جاہل ہوتا ہے۔ انشاء اللہ مقلدین کی جہالت کی ایک جھلک "تقلید کے نقصانات" میں پیش کی جائے گی۔
تیسری حدیث:- رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین چیزوں سے بچو، عالم کی غلطی ، منافق کا
”قرآن لے کر“ مجادلہ کرنا اور دنیا جو تمھاری گردنوں کو کاٹے گی۔ رہی عالم کی غلطی تو اگر وہ ہدایت پر بھی ہو "فلا تقلدوہ" تب بھی اس کی تقلید نہ کرنا اور اگر وہ پھسل جائے تو اس سے نا امید نہ ہو جاؤ۔۔۔الخ ( المعجم الاوسط جلد ۹ص۶۲۳، روایت مرسل ہے)
تنبیہ: مقلدین کے نزدیک مرسل روایت بھی حجت ہوتی ہے
چوتھی حدیث:- جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عمر رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور فرمانے لگے کہ ہم یہودیوں سے ایسی دلچسپ باتیں سنتے ہیں جو ہمیں حیرت میں ڈال دیتی ہیں کیا ہم ان میں سے کچھ تحریری شکل میں لا سکتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "کیا تم بھی یہود ونصاری کی طرح دین میں حیران ہونے لگے ہو۔ جبکہ میں تمہارے پاس واضح، بے غبار اور صاف شفاف دین لے کر آیا ہوں۔ اگر بالفرض موسی علیہ السلام بھی زندہ ہو کر دنیا میں تشریف لے آئیں تو ان کے پاس بھی میری تابعداری کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا"۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ "اس زات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر موسی علیہ السلام بھی زندہ ہو کر تمہارے درمیان تشریف لے آئیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی تابعداری کرو تو صراط مستقیم سے بھٹک جاؤ گے، اگر وہ زندہ ہوتے تو میری تابعداری کے سوا ان کے پاس بھی کوئی چارہ نہ ہوتا
( رواہ امام احمد ۳/۳۸۷ \و امام بہیقی فی شعب الایمان کما فی المشکوة ۱/۳۰ \و فی الدارمی۱/۱۱۶)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر موسی علیہ السلام جیسے معصوم عن الخطاء نبی کی تابعداری بھی جائز نہیں تو 800 ہجری میں پیدا ہونے والے ایک امتی کی تابعداری کیسے جائز ہو سکتی ہے؟
تقلید کا رد اجماع امت سے:
امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں
"
وقد صح اجماع جمیع الصحابة رضی اللہ عنھم، اولھم عن آخرھم و اجماع جمیع التابعین اولھم عن آخرھم علی الامتناع والمنع من ان یقصد منھم احد الی قول انسان منھم او ممن قبلھم فیاخذہ کلھ فلیعلم من اخذ بجمیع قول ابی حنیفة او جمیع قول مالک او جمیع قول الشافعی او جمیع قول احمد بن حنبل رضي اللہ عنھم ممن یتمکن من النظر، ولم یترک من اتبعھ منھم الی غیرہ قد خالف اجماع الامة کلھا عن آخرھاواتبع غیر سبیل المومنین، نعوزباللہ من ھذہ المنزلة وایضا فان ھولاء الافاضل قد منعو عن تقلید ھم و تقلید غیرھم فقد خالفھم من قلدھم" ( النبذة الکافیة فی احکام اصول الدین ص ۱۷ والردعلی من اخلد الی الارض للسیوطی ص۱۳۱،۲۳۱)
اول سے آخر تک تمام صحابہ رضی اللہ عنھم اور اول سے آخر تک تمام تابعین کا اجماع ثابت ہےکہ ان میں سے یا ان سے پہلے ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ) کسی انسان کے تمام اقوال قبول کرنا منع اور ناجائز ہے۔ جو لوگ ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور احمد رضی اللہ عنھم میں سے کسی ایک کے اگر سارے اقوال لے لیتے ہیں ( یعنی تقلید کرتے ہیں) ، باوجود اسکے کہ وہ علم بھی رکھتے ہیں اور ان میں سے جس کو اختیار کرتے ہیں اس کے کسی قول کو ترک نہیں کرتے، وہ جان لیں کہ وہ پوری امت کے اجماع کے خلاف ہیں۔ انہوں نے مومنین کا راستہ چھوڑ دیا ہے۔ ہم اس مقام سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان تمام فضیلت والے علماء نے اپنی اور دوسروں کی تقلید سے منع کیا ہے پس جو شخص ان کی تقلید کرتا ہے وہ ان کا بھی مخالف ہے.
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"وقد صح اجماع الصاحبة کلھم اولھم عن آخرھم و اجماع التابعین اولھم عن آخرھم و اجماع تبع التابعین اولھم عن آخرھم علی الامتناع والمنع من ان یقصد احد الی قول انسان منھم او ممن قبلھم فیاخذہ کلھ" ( عقدالجید لشاہ ولی اللہ محدث دھلوی رح ص:۴۱)
تمام صحابہ کرام، تمام تابعین اور تبع تابعین کا اس بات پر اجماع ثابت ہو چکا ہے کہ انہوں نےنہ صرف اپنے آپ کو تقلید سے محفوظ رکھا بلکہ اس کو شجر ممنوعہ قرآر دیا ہے کوئی ایسا شخص جس کا تعلق قرون ثلاثہ سے ہو صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین میں سے کسی نے بھی اس کی ہر بات کو تسلیم نہیں کیا ہے اور جن باتوں کو قبول کیا ہے وہ صرف اور صرف دلیل کی بنیاد پر یہ ان کے صریح اجماع کی دلیل ہے
تقلید کا رد: آثارصحابہ سے، رضی اللہ عنہم اجمعین:
1:- امام بہیقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دین میں لوگوں کی تقلید نہ کرو، پس اگرتم
( میری بات کا) انکار کرتے ہو تو مردوں کی ( اقتداء)کر لو، زندوں کی نہ کرو۔ ( السنن الکبری ج۲ص۱۰ و سند حسن، المعجم الکبیر ج۹ص۶۶۱ح۴۶۷۸)
2:- امام وکیع بن الجراح ( متوفی197ھ) فرماتے ہیں:
سیدنا معاز رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب تین باتیں
( رونما) ہوں گی تو تمہارا کیا حال ہو گا؟ دنیا جب تمہاری گردنیں توڑ رہی ہو گی، اور عالم کی غلطی اور منافق کا قرآن لے کر جھگڑا ( اور مناظرہ) کرنا؟ لوگ خاموش رہے تو معاز رضی اللہ عنہ نے فرمایا: گردن توڑنے والی دنیا ( یعنی کثرت مال و دولت) کے بارے ميں سنو، اللہ نے جس کے دل کو بے نیاز کر دیا وہ ہدایت پا گیا اور جو بے نیاز نہ ہوا تو اسے دنیا فائدہ نہیں دے گی، رہا عالم کی غلطی کا مسئلہ تو ( سنو) اگر وہ سیدھے راستے پر بھی ( جا رہا ) ہوتو اپنے دین میں اس کی تقلید نہ کرو اور اگر وہ فتنے میں مبتلا ہو جائے تو اس سے نا امید نہ ہو جاؤ، کیونکہ مومن بار بار فتنے میں مبتلا ہو جاتا ہے پھر توبہ کر لیتا ہے۔۔۔الخ ( کتاب الزہد ج ۱ ص 299،300ح۱۷ وسند حسن)
33:- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ آپ حج تمتع کو جائز سمجھتے ہیں حالانکہ آپ کے والد عمر رضی اللہ عنہ اس سے روکا کرتے تھے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ بتاؤ کہ میرے والد ایک کام سے منع کريں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حکم دیں تو میرے والد کی بات مانی جائےگی یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانا جائے گا؟ کہنے والے نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم و عمل کو قبول کیا جائے گا۔ تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو لیا جائے گا تو پھر میرے والد کے قول کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مقابلے میں کیوں پیش کرتے ہو۔ ( ترمذی۱\۱۶۹،طحاوی۱\۳۹۹)
تنبیہ بلیغ: صحابہ میں سے کوئی تقلید کے معاملے میں مذکورہ بالا صحابہ کا مخالف نہیں تھا لہذا اس پر صحابہ کا اجماع ہے کہ تقلید نہیں کرنی چاہئے والحمدللہ
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بھائی میں تقلید کے تعلق سے صرف ایک یہ بات معلوم کرنا چاہتاہوں، اگر تعبیر میں کچھ نامناسب لفظ آجائے تو خدارا معاف کرنا

سوال یہ ھے کہ تقلید کی یہ تعریف جو محترم ابن داود نے حوالہ جات کے ساتھ پیش کی ھے کیا یہ تعریف علمائے متقدمین سے ثابت ھے

اگر ثابت ھے تو حوالہ درکار ھے

اور اگر ثابت نھیں ھے حنفیوں کی تعریف پر اعتماد کیوں کیا جاتا ھے
اول کہ تقلید کا رواج متقدمین کے زمانہ میں رائج نہ تھا!
وہ کسی عالم سےمسئلہ دریافت کرتے، اس پر عمل کرتے، اور اس کے خلاف کسی دوسرے عالم سے بادلیل مخالف ثابت ہو جاتا تو رجوع کرلیتے!
دوم کہ تقلید شخصی کا آگاز چوتھی صدی میں ہوا! جیسا کہ @مظاہر امیر بھائی نے شاہ ولی اللہ کے حوالہ سے ذکر کیا ہے!
سوم کہ ہم تو تقلید کرتے ہی نہیں، لیکن جو تقلید کرتے ہیں، وہ خود کسے تقلید کہتے ہیں یہ بتلانے کے لئے فقہ حنفی سے تعریف نقل کی ہے!
چہارم کہ تقلید کا لفظ اس فقہی معنی میں نہ قرآن میں وارد میں ہوا ہے نہ حدیث میں، بلکہ یہ عمل ہی بعد کی بدعت ہے جسے تقلید کا نام دیا گیا!
اب جیسے صلاة غوثیہ، اب اس نماز کا ذکر نہ قرآن میں ہے، نہ حدیث میں ہے، اور نہ متقدمین کے اقوال میں!
بلکہ یہ بدعت بعد کی ایجاد ہے۔
صلاة غوثیہ ہے کیا چیز، یہ کون سا فعل ہے؟
یہ جاننے کے لئے، جو صلاۃ غوثیہ کے قائل و فاعل ہیں، ان کے اقوال و افعال سے ہی معلوم ہوگا کہ وہ جو صلاة غوثیہ ادا کرتے ہیں، وہ کس بلا کا نام ہے!
ایک مثال اور عرض کرتا ہوں!
عقیدہ وحدت الوجوت، اب یہ نام نہ قرآن میں ہے، نہ حدیث میں؟
اب یہ عقیدہ درست ہے یا صحیح، یہ جاننے کے لئے پہلے معلوم کیا جائے گا کہ اس کا قائل کیا عقیدہ رکھتا ہے!
پھر اس عقیدہ پر قرآن و حدیث کے موافق کفر یا ایمان ہونے کا حکم لگے گا!
کیونکہ ان الفاظ کے ساتھ کوئی عقیدہ نہ قرآن میں وارد ہوا ہے اور نہ حدیث میں!
لہٰذا تقلید بھی اسی طرح ہے، کہ تقلید کیا بلا ہے، یہ کون سا عمل ونظریہ ہے، یہ اس کے قائل وفاعل سے معلوم ہوگا!
اور اس عمل کا حکم قرآن و حدیث سے اخذ کیا جائے گا، کہ آیا یہ فعل حلال ہے حرام!

بہر حال @محمد علی جواد بھائی کے سوالات منتظر جواب ہیں!
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
دوسری حدیث:- " «فیبقی ناس جھال یستفتون فیفتون برایھم فیضلون ویضلون» "
( نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی ایک نشانی یہ بیان کی کہ) پس جاہل لوگ رہ جائیں گے، ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ اپنی رائے سے فتوی دیں گے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے ( صحیح بخاری: کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة باب من زم الراي ح ۷۰۳۷)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سچ ثابت ہو رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ فرمان خیر القرون کے علماء و فقہا کے بارے نہیں ہوسکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خیر القروں خود کہا۔ لہٰذا یہ آج کل کے نوجوان علماء ہی ہو سکتے ہیں جس کی نشان دہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی اور وہ آج سو فی صد سچ ثابت ہو رہی ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top